Who has Kiled Innocent Humain Beings ?

In the HISTORY of the world, who has KILLED maximum INNOCENT human beings?
1) "Hitler"
Do you know who he was.
He was a Christian, but media will never call Christians terrorists.
2) "Joseph Stalin called as Uncle Joe".
He has killed 20 million human beings including 14.5 million were starved to death.
Was he a Muslim
3) "Mao Tse Tsung (China)"
He has killed 14 to 20 million human beings.
Was he a Muslim
4) "Benito Mussolini (Italy)"
He has killed 400 thousand human beings.
Was he a Muslim
5) "Ashoka" In Kalinga Battle
He has killed 100 thousand human beings.
Was he a Muslim
6) Embargo put by George Bush in Iraq,
1/2 million children has been killed in Iraq alone!!! Imagine these people are never called terrorists by the media.
Why
Today the majority of the non-Muslims are afraid by hearing the words "JIHAD".
Jihad is an Arabic word which comes from root Arabic word "JAHADA" which means "TO STRIVE" or "TO STRUGGLE" against evil and for justice. It does not
mean killing innocents.
The difference is we stand against evil, not with evil".
You still think that ISLAM is the problem
1. The First World War, 17 million dead
(caused by non-Muslim).
2. The Second World War, 50-55 million dead (caused by non-Muslim).
3. Nagasaki atomic bombs 200000 dead
(caused by non-Muslim).
4. The War in Vietnam, over 5 million dead (caused by non-Muslim).
5. The War in Bosnia/Kosovo, over 5,00,000 dead (caused by non-Muslim).
6. The War in Iraq (so far) 12,000,000 deaths
(caused by non-Muslim).
7. Afghanistan, Iraq, Palestine, Burma etc (caused by non-Muslim).
8. In Cambodia 1975-1979, almost 3 million deaths (caused by non-Muslim).
"MUSLIMS ARE NOT TERRORISTS AND
TERRORISTS ARE NOT MUSLIMS."
Please remove first double standards on Killings.
Please share as much as you can.....
Credit and Copy from Adil Hosam


Yazeed Paleed Ke Shaitani Karname


یزید پلید کے شیطانی کارنامے
عظیم مؤرخ حضرت علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ  اپنے مشہور کتاب "التاریخ طبری " میں لکھتے ہیں کہ یزید نے ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ حضرت  مسلم بن عقیل  رضی اللہ عنہ کو جہاں پاؤ قتل کردو یا شہر سے نکال دو۔
(تاریخ طبری ، 4/176)
پھر جب حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی کو شہید کردیا گیا تو ابن زیاد نے ان دونوں کے سرکاٹ کر یزید پلید کے پاس دمشق بھیجے ۔ اس پر یزید خبیث  نے ابن زیاد کو خط لکھ کر اس کا شکریہ اداکیا۔
تاریخ کامل ، 6/36)
یہ بھی لکھا ، جو میں چاہتاتھا تونے وہی کیا تونے عاقلانہ کا م اور دلیر انہ حملہ کیا ۔
(تاریخ کامل4/173)
علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سراقدس آپ کے قاتل یزید کے پاس بھیج دیا ۔اس نے وہ سر اقدس یزید لعین کے سامنے رکھ دیا ۔ اس وقت وہاں صحابی رسول حضرت سیدنا ابوبرزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یزیدمردود نے ایک چھڑی امام حسین رضی اللہ عنہ  کے مبارک لبوں پر مارنے لگے اور اس نے یہ شعر پڑھے:
"انہوں نے ایسے لوگوں کی کھوپڑیوں کو پھار دیا جو ہمیں عزیز تھے لیکن وہ وہ نافرن اور ظالم تھے۔"
حضرت سیدنا ابوبرزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے برداشت نہ ہوسکا اور انہوں نے فرمایا: اے یزید! اپنی چھڑی ہٹالو۔ خداکی قسم ! میں نے بارہا دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اس مبارک منہ کو چومتے تھے۔
( تاریخ طبری ،4/181)
(البدایہ والنہایہ ، 8/197)
مشہورمؤرخین علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اور علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ کامل میں اس  واقعہ کو تحریر فرمایا  ہے۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ  سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر یزید کتنا  خوش ہوا ہوگاارے وہ سنگدل ،ظالم، فاسق، فاجر، بدکار ، شرابی ، مردود ، ملعون، ہے جو نواسہ رسول اعظم کے سراقدس کو اپنے سامنے رکھ کر متکبرانہ شعر پڑھتا تھا اور ان مبارک لبوں پر اپنی چھڑی مارتا ہے جو حبیبِ خداعزوجل سیدنا  محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  اکثر چوما کرتے تھے، کیا وہ لعنت وملامت کا مستحق نہیں ہے؟
جب اہل بیت نبوت کا یہ مصیبت زدہ قافلہ ابن زیاد  نے یزید  لعین کے پاس بھیجاتو اس نے ملک شام کے امراء اور درباریوں کو جمع کیا پھر بھرے دربار میں خانوادۂ نبوت کی خواتین اس کے سامنے پیش کی گئیں اور اس کے سب درباریوں نے یزید کو اس فتح پر مبارکباد دی۔ (طبری،4/181)
(البدایہ والنہایہ ،8/197)
اس عام دربار میں ایک شامی شیطان نما انسان کھڑا ہوا اور اہل بیت میں سے سیدہ  فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرکے یہ کہنے لگے یہ مجھے بخش دو۔معصوم سیّدہ یہ سن کر لزرگئی اور اس نے اپنی بہن سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیا۔
حضرت سیدتنا رینب رضی اللہ عنہا نے گرج کر کہا، تو جھوٹ بکتا ہے یہ نہ تجھے مل سکتی ہے اور نہ اس یزید کو
یزیدلعین یہ سن کر طیش میں آگیا اور بولا، تم جھوٹ بولتی ہو ۔ خداکی قسم! یہ میرے قبضے میں ہے اور اگر میں اسے دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے گرجدار آواز میں کہا ، ہرگز نہیں ۔ خداکی قسم! تمہیں ایساکرنے کا اللہ تعالی نے کوئی حق نہیں دیا  ہے ۔
(طبری ،4/181)
(البدایہ والنہایہ ، 8/197)
بعض لوگ یزید لعین کی حمایت میں افسوس و ندامت کا ذکر کرکے اسے بے قصور ثابت کرنےکی کوشش کرتے ہیں اس کی ندامت کی حقیقت علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے پڑھیئے:
جب امام عالی مقام کا سراقدس یزید کے پاس پہونچا تو یزید کے دل میں ابن زیاد کی قدر و منزلت بڑھ گئی اور جو اس نے کیا تھا اس پر یزید بڑاخوش ہوا  لیکن جب اسے یہ خبر یں ملنے لگیں کہ اس وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرنے لگے ہیں اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور اسے گالیاں دیتےہیں تو پھر وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر نادم ہوا۔ (تاریخ کامل ، 4/87)
یزید کی ندامت و پیشمانی کی وجہ آپ نے پڑھ لی ہے ۔ اس ندامت کا عدل و انصاف سے ذرا بھی تعلق نہیں ہے  ورنہ ایک عام مسلمان بھی قتل کردیا جائے تو قاتل سے قصاص لینا حاکم پر فرض ہوتا ہے ۔ یہاں تو خاندان نبوت کے قتل عام کا معاملہ تھا ۔ ابن زیاد، ابن سعد، شمرمعلون وغیرہ سے قصاص لینا تو درکنار کسی کو اس کے عہدہ سے برطرف تک نہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی تادیبی کاروائی ہوئی بلکہ خوشی کا اظہار کیا بعد میں حالات بے قابو ہونے کے خوف سے وقتیہ طور سے سیاسی انداز میں رنج و ملال کا اظہار کیا ۔
قتل حسین  رضی اللہ عنہ کایزید نے حکم دیا
 ابن زیاد بدنہاد کا اقراری بیان
ابن زیاد بدنہاد نے خود اقرار کیا کہ یزید پلید نے اسے سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دیا ورنہ خود اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔جیساکہ ابن اثیر ،تاریخ کامل میں ابن زیاد کا قول نقل کرتے ہیں : اما قتلی الحسین فانہ اشار علی یزید بقتلہ اوقتلی فاخترت قتلہ۔
اب رہا امام حسین رضی اللہ عنہ کو میرا شہید کرنا تو بات دراصل یہ ہے کہ یزید نے مجھے اس کا حکم دیا تھا بصورت دیگر اس نے مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی تو میں نے انہیں شہید کرنے کو اختیار کیا ۔  (التاریخ الکامل ،4/474)

مدینہ منورہ و مکہ مکرمہ پر حملہ
جب 63 ہجری میں یزید پلید کو یہ خبر ملی کہ اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑدی ہے تو اس نے ایک عظیم لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کے لیے روانہ کیا ۔علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس لشکر کے سالار اور اس کے سیا ہ کارناموں کے متعلق لکھتے ہیں :۔
مسلم بن عقبہ جسے اسلام مسرف بن عقبہ کہتے ہیں ، خدا اس ذلیل و رسوا کرے ، وہ بڑا جاہل اور اجڈ بوڑھا تھا ۔ اس نے  یزید کے حکم مطابق مدینہ طیبہ کو تین دن کے لئے مباح کردیا ۔اللہ تعالیٰ کو جزائے نہ دے ، اس لشکر نے بہت سے بزگوں اور قاریوں کو قتل کیا اموال لوٹ لئے ۔ ( البدایہ ج8/220)
مدینہ طیبہ کو مباح کرنے کا مطلب یہ ہے وہاں جس کو چاہو قتل کرو، جو مال چاہولوٹ ہواور جس کو چاہوآبرویزی کرو ۔ (العیاذباللہ) یزیدی لشکر کے کرتوت پڑھ کر ہر مومن خوف خدا سے کانپ جاتا ہے اور سکتہ میں آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو اس شخص نے حلال کردیا جسے آج لوگ امیر المومین بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ، یزیدی لشکر نے عورتوں کی عصمتیں پامال کیں اور کہتے ہیں کہ ان ایا م میں ایک ہزارکنواری عورتیں حاملہ ہوئیں ۔  (البدایہ ج 8/221)
تاریخ میں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، شک نہیں کہ یزید کہ نے والی ملک ہوکر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں،  مسجد کریم میں گھوڑے  باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبوی بے و نماز رہی ، مکہ ومدینہ و حجاز صحابہ وتابعین بے گناہ شہیدکئے گئے۔
کعبہ معظمہ پر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلایا ، مدینہ طیبہ کی پاک دامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں۔ (عرفان شریعت)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایام حرہ میں مسجد نبوی میں تین تک اذان واقامت نہ ہوئی ۔ جب بھی نماز کا وقت آتا تو میں قبر انور سے اذان اور اقامت آواز سنتا تھا۔ 
(دارمی، مشکوۃ ، وفاالوفاء)
علامہ سیوطی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ جب مدینہ پر لشکر کشائی ہوئی تو وہاں کا کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس لشکر سے پناہ میں رہا ہو۔ یزیدی لشکر کے ہاتھوں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید ہوئے ، مدینہ منورہ کو خوب لوٹا گیا ، ہزاروں کنواری لڑکیوں کی آبروریزی کی گئ۔
مدینہ منورہ تباہ کرنے کے بعد یزیدملعون نے اپنا لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے لیے مکہ معظمہ بھیج دیا  اس  لشکر نے مکہ مکرمہ پہونچ کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان پر منجنیق سے پتھر برسائے ۔
ان پتھر وں کی چنگاریوں سے کعبہ شریف کا پردہ جل گیا ، کعبہ کا چھت اور اس دنبہ کا سینگ جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جنت سے بھیجا گیا تھا اور وہ کعبہ کی چھت میں آویزاں تھا، سب کچھ جل گیا ۔
یہ واقعہ 64 ہجری میں ہوا اور اس کے اگلے ماہ یزید لعین مرگیا۔
جب یہ خبر مکہ مکرمہ پہونچی تو یزیدی لشکر بھاگ کھڑا ہوا اور لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ ( تاریخ الخلفاء ص 307)

Muharram Me Ghair Islami Rasoomat





Amirul Momineen Hazrat Umar Farooq e Azam

خلیفۂ دوم
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
...................
    حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد فضل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتبہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجداد کے اسماء یہ ہیں : عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العُزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قُرْط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لُوءَ ی۔
     آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام فیل کے تیرہ برس بعد پیدا ہوئے ( نووی) آپ اشرافِ قریش میں سے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں منصبِ سِفارَت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مُفَوَّض تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو حَفْص اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قدیم ُالاسلام ہیں۔ 40 مردوں ،11 عورتوں یا39 مردوں، 23عورتوں یا45 مردوں 11عورتوں کے بعد اسلام لائے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے سے اسلام کی قوت و شوکت زیادہ ہوئی۔ مسلمان نہایت مسرور ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سا بقین اولین اور عشرۂ مبشرہ بالجنۃ اور خلفائے راشدین میں سے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کِبار علماءِ زُہاد میں آپ کا ممتاز مرتبہ ہے۔  (تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص۸۶)
    ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا فرماتے تھے کہ یارب عزوجل! عمر بن خطاب اورابو جہل بن ہشام میں سے جو تجھے پیارا ہو اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،الحدیث:۳۷۰۱،ج۵،ص۳۸۳)
حاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : اَللّٰہُمَّ اَعِزِّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً '' یا رب! عزوجل اسلام کو خاص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ غلبہ وقوت عطافرما۔'' (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب النہی عن لبس الدیباج...الخ، الحدیث:۴۵۴۱،ج۴،ص۳۴)
    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف باسلام ہوئے۔
    ابو یعلی وحاکم و بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر نکلے۔ راہ میں آپ کو قبیلۂ بنی زُُہْرہ کا ایک شخص ملا۔کہنے لگا کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے کہا کہ میں(حضرت) محمد ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) کے قتل کا ارادہ رکھتاہوں۔ اس نے کہا کہ انھیں قتل کرکے تم بنی ہاشم اور بنی زہرہ کے ہاتھوں کیسے بچو گے ۔ آپ نے کہا کہ میرے خیال میں تو بھی دین سے پھر گیا۔ اس نے کہا: میں آپ کو اس سے عجیب تر بتاتاہوں آپ کی بہن اور بہنوئی نے آپ کا دین ترک کردیا ۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے پاس پہنچے۔ وہاں حضرت خبّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور وہ لوگ سورۂ طہ پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے حضرت عمر کی آہٹ سنی تو مکان میں چھپ گئے۔ حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکان میں داخل ہوکر کہا:تم کیا کہہ رہے ہو؟ کہا ہم آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے :شاید تم لوگ بے دین ہوگئے ہو۔ آپ کے بہنوئی نے کہا :اے عمر!اگر تمہارے دین کے سوا کسی اور دین میں حق ہو۔ اتنا کلمہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن پر ٹوٹ پڑے اورانھیں بہت مارا۔ انھیںبچانے کیلئے آپ کی بہن آئیں ، انھیں بھی ماراحتیٰ کہ ان کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔ انہوں نے غضب ناک ہوکر کہاکہ تیرے دین میں حق نہیں۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں اور حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ حضرت عمر نے کہا: مجھے وہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے میں اسے پڑھوں ۔ ہمشیرہ صا حبہ نے فرمایا کہ تم ناپاک ہواور اس کو پاکوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔ اٹھو غسل کرو یا وضو کرو۔ آپ نے اٹھ کر وضو کیا اور کتاب پاک لے کر پڑھا:

طٰہٰ ۚ﴿۱﴾   مَاۤ  اَنۡزَلْنَا عَلَیۡکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤ ۙ﴿۲﴾ ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لئے نہ اتاراکہ تم مشقت میں پڑو۔  (پ۱۶،طٰہٰ :۱،۲)  یہاں تک کہ آپ اِنَّنِیۡۤ  اَنَا اللہُ  لَاۤ اِلٰہَ  اِلَّاۤ  اَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ  لِذِكْرِیۡ ﴿۱۴﴾ ترجمہ کنز الایمان: بیشک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوہی معبود نہیں تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لہے نماز قاہم رکھ۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۱۴)  تک پہنچے تو حضرت عمر نے فرمایا مجھے (حضور پرنور)محمد (مصطفی) صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو۔ یہ سن کر حضرت خبّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر نکلے اور انہوں نے کہا: مبارک ہو اے عمر! میں امید کرتاہوں کہ تم ہی دعائے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہو ۔ پنج شنبہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تھی، یارب عزوجل !اسلام کو عمربن خطاب یا ابوجہل بن ہشام سے قوت عطا فرما۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مکان پر آئے جس میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماتھے۔ دروازہ پر حضرت حمزہ وطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دوسرے لوگ تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہ عمر ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو ان کی بھلائی منظور ہوتو ایمان لائیں ورنہ ہمیں ان کا قتل کرنا سہل ہے، حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اس وقت وحی آرہی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور حضرت عمر کے کپڑے اور تلوار کی حمائل پکڑ کر فرمایا: اے عمر !تو باز نہیں آتا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر وہ عذاب و رسوائی نازل فرمائے جو ولید ابن مغیرہ پر نازل فرمائی۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّکَ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُہٗ.
 (تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی الاخبار الواردۃ فی اسلامہ، ص۸۷۔ ۸۸)
    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے قرآن شریف پڑھا اسی وقت اس کی عظمت میرے دل میں اثر کرگئی اور میں نے کہا کہ بد نصیب قریش ایسی پاکیزہ کتاب سے بھاگتے ہیں۔ اسلام لانے کے بعد آپ باجازت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام دو صفیں بناکر نکلے۔ ایک صف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ یہ پہلا دن تھا کہ مسلمان اس اعلان اور شوکت کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے، کفارِ قریش دیکھ دیکھ کر جل رہے تھے اور انھیں نہایت صدمہ تھا۔ آج اس ظہورِ اسلام اور حق و باطل میں فرق و امتیاز ہوجانے پر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔
 (تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی الاخبار الواردۃ...الخ،ص۹۰ ملخصاً)
    ابن ما جہ وحاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اہلِ آ سمان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کی خوشیا ں منار ہے ہیں۔
( سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی فضاہل اصحاب رسول اﷲ،فضل عمر، الحدیث:۱۰۳،ج۱،ص۷۶)

     ابن عساکِرنے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، آپ نے فرمایا کہ میں جہاں تک جانتا ہوں جس کسی نے بھی ہجرت کی چھپ کر ہی کی۔ بجز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت کی یہ شان تھی کہ مسلح ہوکر خانہ کعبہ میں آئے، کفار کے سردار وہاں موجود تھے،آپ نے سات مرتبہ بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور مقام ابراہیم میں دو رکعتیں ادا کیں پھر قریش کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے اور للکار کر فرمایا کہ جو اس کے لئے تیار ہو کہ اس کی ماں اسے روئے اور اس کی اولاد یتیم ہو،بیو ی رانڈ ہو وہ میدان میں میرے مقابل آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کلمات سن کر ایک سناٹا ہوگیا کفار میں سے کوئی جنبش نہ کرسکا۔
(تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب، فصل فی ہجرتہ رضی اﷲ عنہ،ص۹۱)
    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت میں بہت کثرت سے حدیثیں وارد ہوئیں اور ان میں بڑی جلیل فضیلتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ ترمذی و حاکم کی صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد نبی ممکن ہوتا، حضرت عمر بن خطاب ہوتے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اس سے جلالت و منزلت و رفعتِ درجت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ظاہر ہے۔ ابن عسا کر کی حدیث میں وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کا ہر فرشتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توقیر کرتا ہے اور زمین کا ہر شیطان ان کے خوف سے لرزتا ہے۔
 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، الحدیث:۳۷۰۶،ج۵،ص۳۸۵)
    طبرانی نے اوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا۔
 (المعجم الاوسط للطبرانی، الحدیث:۶۷۲۶،ج۵،ص۱۰۲)
     طبرانی و حاکم نے ر وایت کی کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم میزان کے ایک پَلّے میں رکھاجائے اور روئے زمین کے تمام زندہ لوگوں کے علوم ایک پَلّہ میں تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم ان سب کے علوم سے زیادہ وزنی ہوگا۔ ابواسامہ نے کہا جانتے ہو ابوبکر وعمر کون ہیں یہ اسلام کے پدرو مادر ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں اُس سے بری وبیزارہوں جوحضرت ابوبکر و عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہما کا ذکر بدی کے ساتھ کرے۔
( المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث:۸۸۰۹،ج۹،ص۱۶۳ وتاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی اقوال الصحابۃ والسلف فیہ،ص۹۶)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرامات

آپ کے کرامات بہت ہیں ان میں سے چند مشہور کرامتیں ذکر کی جاتی ہیں :
    بیہقی و ابو نعیم وغیرہ محدثین نے بطریقِ معتبر روایت کیا کہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اثناء خطبہ میں تین مرتبہ فرمایا:یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ حاضرین مُتَحَیِّر ومُتَعَجِّب ہوئے کہ اَثناء ِخطبہ میں یہ کیا کلام ہے۔ بعد کو آپ سے دریافت کیا گیا کہ آج آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ فرماتے فرماتے یہ کیا کلمہ فرمایا ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لشکرِ اسلام جو ملکِ عجم میں مقامِ نِہاوَنْد میں کفار کے ساتھ مصروفِ پیکارہے میں نے دیکھا کہ کفار اس کو دونوں طرف سے گھیر کرمارنا چاہتے ہیں۔ ایسی حالت میں مَیں نے پکار کر کہہ دیا کہ اے ساریہ! جبل۔ یعنی پہاڑ کی آڑلو۔ یہ سن کر لوگ منتظر رہے کہ لشکر سے کوئی خبرآئے تو تفصیلی حال دریافت ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد ساریہ کا قاصدخط لے کر آیا اس میں تحریر تھا کہ جمعہ کے روز د شمن سے مقابلہ ہورہا تھا خاص نماز جمعہ کے وقت ہم نے سنا: ''یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ''یہ سن کر ہم پہاڑ سے مل گئے اور ہمیں دشمن پر غلبہ حاصل ہوا یہاں تک کہ دشمن کو ہزیمت ہوئی۔
(تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ، ص۹۹)
    سبحان اللہ! خلیفۂ اسلام کی نظر مدینۂ طیَّبہ سے نِہاوَنْدمیں لشکر کو ملاحظہ فرمائے اور یہاں سے ندا کرے تو لشکر کو اپنی آواز سنائے نہ کوئی دوربین ہے نہ ٹیلیفون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی کا صدقہ ہے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
    ابوا لقاسم نے اپنی ''فوائد'' میں روایت کی کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے اس کانام دریافت فرمایا:کہنے لگا: میرانام جمرہ (اخگر) ہے۔فرمایا :کس کا بیٹا؟ کہا:ابن شہاب(آتش پارہ ) کا، فرمایا :کن لوگوں میں سے ہے؟ کہا :حرقہ (سوزش) میں سے، فرمایا : تیرا وطن کہاں ہے ؟کہا :حرہ ( تپش) ،فرمایا: اس کے کس مقام پر ؟کہا: ذات لظٰی (شعلہ وار) میں ،فرمایا:اپنے گھر والوں کی خبر لے سب جل گئے، لوٹ کر گھر آیا تو سارا کنبہ جلا پایا۔
( تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ، ص۱۰۰)
    ابو الشیخ نے ''کتاب العظمۃ'' میں روایت کی ہے کہ جب مصرفتح ہوا تو ایک روز اہلِ مصر نے حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیر! ہمارے دریائے نیل کی ایک رسم ہے جب تک اس کو ادانہ کیاجائے دریاجاری نہیں رہتا انہوں نے دریافت کیا:کیا؟ کہا: اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو ہم ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین سے لے کر عمدہ لباس اور نفیس زیور سے سجاکردریائے نیل میں ڈالتے ہیں۔ حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اسلام میں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اور اسلام پرانی واہیات رسموں کو مٹاتا ہے۔ پس وہ رسم موقوف رکھی گئی اور دریا کی روانی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ لوگوں نے وہاں سے چلے جانے کا قصد کیا، یہ دیکھ کر حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ بھیجا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔بے شک اسلام ایسی رسموں کو مٹاتا ہے۔ میرے اس خط میں ایک رقعہ ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔ عمرو بن عاص کے پاس جب امیر المومنین کا خط پہنچا اور انہوں نے وہ رقعہ اس خط میں سے نکالا تو اس میں لکھاتھا:''از جانب بندۂ خدا عمر امیرا لمومنین بسوئے نیلِ مصر بعد ازحمدو صلوٰۃ آنکہ اگر تو خود جاری ہے تو نہ جاری ہو اور اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تو میں اللہ واحد قہار سے درخواست کرتاہوں کہ تجھے جاری فرمادے۔''عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا ایک شب میں سولہ گز پانی بڑھ گیااور بھینٹ چڑھانے کی رسم مصر سے بالکل موقوف ہوگئی۔
(تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ،ص۱۰۰)


امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کازہد و ورع، تواضع وحلم

     حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ گیارہ لقمے سےزياده طعام ملاحظہ نہ فرماتے۔
(احیاء العلوم،کتاب کسرالشہوتین،بیان طریق الریاضۃ...الخ،ج۳،ص۱۱۱(وفیہ سبع لقم او تسع لقم۔ واللہ تعالٰی اعلم)

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قمیص مبارک میں دوشانوں کے درمیان چار پیوند لگے تھے۔
 (تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی نبذ من سیرتہ، ص۱۰۲)
    یہ بھی روایت ہے کہ شام کے ممالک جب فتح ہوئے اورآپ نے ان ممالک کو اپنے قدومِ مَیْمَنَتْ لُزوم سے سرفراز فرمایا اور وہاں کے امراء وعظما ء آپ کے استقبال کیلئے آئے اس موقع پر آپ اپنے شتر پر سوار تھے، آپ کے خواص و خدام نے عرض کیا: اے امیر المومنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے اکابر واشراف حضور کی ملاقات کیلئے آرہے ہیں مناسب ہوگا کہ حضور گھوڑے پر سوار ہوں تاکہ آپ کی شوکت وہیبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو، فرمایا :اس خیال میں نہ رہیئے کام بنانے والا اور ہی ہے۔سبحان اللہ!
    ایک مرتبہ قیصرِ روم کا قاصد مدینہ طیبہ میں آیا اور امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کرتاتھا تاکہ بادشاہ کا پیام آپ کی خدمت میں عرض کرے، لوگوں نے بتایاکہ امیر المومنین مسجد میں ہیں، مسجد میں آیادیکھا کہ ایک صاحب موٹے پیوند زدہ کپڑے پہنے ایک اینٹ پر سر رکھے لیٹے ہیں، یہ دیکھ کر باہر آیا اور لوگوں سے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاپتہ دریافت کرنے لگا، کہاگیا: مسجد میں تشریف فرماہیں، کہنے لگا:مسجد میں تو سوائے ایک دَلَقْ پوش کے کوئی نہیں۔ صحابہ علیہم الرضوان نے کہا :وہی دلق پوش ہمارا امیر خلیفہ ہے
قیصر کا قاصد پھر مسجد میں آیا اور غور سے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے لگا دل میں محبت و ہیبت پیدا ہوئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حقانیت کا پر تو اس   کے دل میں جلوہ گر ہوا ۔   حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں امیرا مومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں تھا۔ آپ جب بَعَزْمِ حج مدینۂ طیَّبہ سے روانہ ہوئے آمدورفت میں امراء وخلفاء کی طرح آپ کے لئے خیمہ نصب نہ کیا گیا، راہ میں جہاں قیام فرماتے اپنے کپڑے اور بستر کسی درخت پر ڈال کر سایہ کرلیتے۔
( الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، الباب الثانی...الخ، الفصل الثامن فی شہادۃ النبی...الخ،ذکر زہدہ،ج۱،الجزء۲،ص۳۶۸)
    ایک روزبرسرِ منبر مَوْعِظَت فرمارہے تھے۔ مہر کا مسئلہ زیرِبحث آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مہر گراں نہ کیے جائیں اور چالیس اوقیہ سے مہر زیادہ مقرر نہ کیا جائے۔ (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے) کیونکہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنیازواج کا مہر چالیس اوقیہ سے زیادہ نہ فرمایا لہٰذا جو کوئی آج کی تاریخ سے اس سے زیادہ مہر مقرر کریگا وہ زیادتی بیت المال میں داخل کرلی جائے گی۔ ایک ضعیفہ عورتوں کی صف سے اٹھی اور اس نے عرض کیا :اے امیر المومنین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسا کہنا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منصب عالی کے لائق نہیں، مہرا للہ تعالیٰ نے عورت کا حق کیا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے اس کا کوئی جز وا س سے کس طرح لیا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:  وَّاٰتَیۡتُمْ  اِحْدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنْہُ شَیۡئًا ؕ ترجمہء کنز الایمان: اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔ (پ۴،النسآء:۲۰) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً بے دَرِیْغ دادِ ا نصاف دی اور فرمایا:   إمراَۃٌ اَصَابَتْ وَرَجُلٌ  اَخْطَاَ عورت ٹھیک پہنچی اور مرد نے خطا کی۔ پھر منبر پر اعلان فرمایا کہ عورت صحیح کہتی ہے میری غلطی تھی جو چاہو مہر مقرر کر و اور فرمایا : اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ کُلُّ اِنْسَانٍ اَفْقَہُ مِنْ عُمَرَ۔ یارب! عزوجل میری مغفرت فرما، ہر شخص عمر سے زیادہ دانا ہے۔ سبحان اللہ! زہے عدل ودادوخہے عجزو انکسار۔

امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت

    امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہِ جمادی الاخری 13 ھ؁ میں مسند آرائے سریرِ خلافت ہوئے۔دس سال چند ماہ امور خلافت کو انجام دیا۔ اس دہ سالہ خلافت کے ایام نے سلاطینِ عالم کو متحیر کردیا ہے۔ زمین عدل و داد سے بھرگئی، دنیا میں راستی و دیانت داری کا سکہ رائج ہوا، مخلوقِ خدا کے دلوں میں حق پرستی و پاکبازی کا جذبہ پیدا ہوا، اسلام کے برکات سے عالم فیض یاب ہوا، فتوحات اس کثرت سے ہوئیں کہ آج تک ملک و سلطنت کے والی وسپاہ ولشکر کے مالک حیرت میں ہیں۔    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکروں نے جس طرف قدم اٹھایا فتح وظفر قدم چومتیگئی، بڑے بڑے فریدوں فَرْ شہریار وں کےتاج قدموں میں روندے گئے۔ ممالک و بِلاد اس کثرت سے قبضہ میں آئے کہ ان کی فہرست لکھی جائے تو صفحے کے صفحے بھر جائیں، رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ بہادروں کے زَہْر ے نام سن کر پانی ہوتے تھے، جنگ جویاں صاحبِ ہنر کا نپتے اور تھراتے تھے، قاہر سلطنتیں خوف سے لرزتی تھیں۔ بایں ہمہ فرد اقبال ورعب وسَطْوَت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درویشانہ زندگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ رات دن خوفِ خداعزوجل میں روتے روتے رخساروں پرنشان پڑگئے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں سنہ ہجری مقرر ہوا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے دفتر و دیوان کی بنیاد ڈالی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے بیت المال بنایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے تمام بلادواَمْصار میں تراویح کی جماعتیں قائم فرمائیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے شب کے پہرہ دار مقرر کئے جو رات کو پہرہ دیتے تھے۔ یہ سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیتیں ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ان میں سے کوئی بات نہ تھی۔
 (تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،فصل فی خلافتہ،ص۱۰۴و فصل فی اولیات عمر رضی اﷲ عنہ،ص۱۰۸)
    ابن عساکرنے اسماعیل بن زیاد سے روایت کی کہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم مسجدوں پر گزرے جن پر قندیلیں روشن تھیں، انھیں دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبرکو روشن فرمائے جنہوں نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے یہود کو حجاز سے نکالا۔
( تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،فصل فی اولیات عمر رضی اﷲ عنہ، ص۱۰۹)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرامات اور فضائل بہت زیادہ ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بہت اـحادیث وارد ہیں۔ ذی الحجہ 23ھ ؁میں آپ ابو لولومجوسی کے ہاتھ سے مسجد میں شہید ہوئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ زخم کھانے کے بعد آپ نے فرمایا: ''کَانَ اَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَقْدُوْرًا''اور فرمایا: اللہ عزوجل کی تعریف جس نے میری موت کسی مدعیٔ اسلام کے ہاتھ پر نہ رکھی۔ بعد ِوفات شریف باجازت حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب روضۂ قدسیہ کے اندر پہلوئے صدیق میں مدفون ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امر خلافت کو شوریٰ پر چھوڑا، وفات شریف کے وقت اَرْجَح اقوال پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف تریسٹھ سال کی تھی آپ کی مُہر کانقش تھا:کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظًا۔
 (تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ، ص۱۰۶۔ ۱۰۸ملتقطاً)

Huzoor Shaikhul Islam Allama Syed Madani Miyan






Huzoor Muhaddis e Azam Hind Kichhauchhwi





Ay Mere Bhai ! Zara Darhi Mundana Chhood de (Urdu)



My brother, Stop shaving the beard
Have some shame of Allah Almighty, Stop shaving the beard

Its seemingly just hair but its the light of Islam
Enlighten your face, Stop shaving the beard

This appearance displeases Allah Almighty and The most Beloved
Seek their pleasure, Stop shaving the beard

The shaytaan is pleased after seeing this appearance
Enemy of yours is he, Stop shaving the beard

Has any Hindu ever cut off his ponytail, Tell me?
So why have you done this? Stop shaving the beard

Has anyone from the blessed family, The Blessed Companions or The Blessed Prophets done this?
So why are you distinct from them? Stop shaving the beard

Its weird that women are also influenced by this
Also shaving their heads, Stop shaving the beard

You were born a man but now have become emasculate
Oh what a huge error you have made, Stop shaving the beard

The trimming or shaving of the beard is Haraam
Obey the order of The Most Beloved , Stop shaving the beard

Its compulsory for a brother to guide his brother
Therefore I say to you, Stop shaving the beard

May the plea of Jameel Qadiri be accepted O Allah!
May the Ummah of The Most Beloved , stop shaving the beard

Penned by: Sufi Jameel-ur-Rahman Qadiri Ridawi (Alayhir Rahmah)
Translated by: Faqeer Muhammad Shakeel Qadiri Ridawi