All India Ulama & Mashaikh Board Zaroorat Aur Ahmiyat

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ ،ضرورت و اہمیت
اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والا ہر ذی شعور فرد یہ بات جانتا ہے کہ آزادئ ملک و تقسیم وطن کے بعد اہلسنت کی مذہبی و سماجی وسیاسی قیادت ہر میدان میں کمزور ہو گئی اور ہر محاذ پر مخالفین اہلسنت مضبوط قائد کی شکل میں نظر آ ئے۔
جماعت ایک سے بڑھ کر ایک ذی علم و حکمت صاحب بصیرت شخصیات سے ہمیشہ مالا مال رہی ، مومنانہ فہم وفراست ، قائدانہ صلاحیت ولیاقت رکھنے والے افراد ہمیشہ جماعت کو میسر رہے ، باوجود اس کے جماعت کے اکابر اس سمت متوجہ نہیں ہو ئے ، اس پر ہم کو ئی تبصرہ نہیں کر یں گے ۔ البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ اس میں ان کی متقیانہ سوچ ہی سنگ راہ رہی ہوگی ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ مذہبی و سماجی و سیاسی میدان کی قیادت تقویٰ کے ساتھ بھی ممکن ہے ۔ آزادئ ملک سے قبل اکابرین اہلسنت ہی ہر میدان میں قائد رہے ، جبکہ ان کا تقویٰ آج تک ضر ب المثل ہے ۔
ملک کی آزادی و تقسیم کا ری کے بعد قیادت کھو جا نے کی وجہ سے جماعت کو جن نقصانات سے دو چار ہونا پڑا ہے ان کی لسٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بس اس قدر کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ’’جو سب کچھ تھے وہ صرف کچھ ہو کر رہ گئے اور جو صرف کچھ تھے وہ سب کچھ ہو گئے ‘‘ ماضی قریب کے کچھ علماء اہل سنت نے اس جانب پیش قدمی کی ہمت کی بھی تو انہیں یہ کہہ کر دبا دیا گیا کہ میاں ! دینداری سماجی وسیا سی قیادت سے الگ چیز ہے ، یہ دونوں یکجا نہیں ہو سکتے ، اس طور سے وہ بعض حضرات بھی رک گئے اور مخالفین اہلسنت ہر مقام پر ٹانگیں پھیلا ئے بیٹھے رہے اور انہیں بڑھنے ،پنپنے کا مزید موقع فراہم ہو تا رہا ، درون ملک یہی بد مذہب علماء ہی مسلمانان ہند کے رہبر و پیشوا تسلیم کئے جا تے رہے اور بیرون ملک بھی ہندوستانی مسلمانوں کا رہبر و لیڈر انہیں کو تسلیم کر لیا گیا ۔ متذکرہ تمام حالات و معاملات سے واقفیت و آگاہی کے باوجود سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے دینی اداروں کے اساتذہ واراکین اور عظیم و قدیم خانقاہوں کے صاحبان خرقہ و مسند نشین سب کے سب مہر بہ لب رہے ، کسی نے اس عظیم خسارے سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا ، سب اپنے آپ میں مست و مگن نظر آئے ، سال بھر میں اپنے معتقدوں کے جھرمٹ میں دس بیس جلسے جس نے کر لئے وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ ہم نے ہر محاذ و مہم کو سرکر لیا اور پھر خوش فہمیوں کے انہیں بھول بھلیّوں میں زندگی کی صبح و شام گذرتی رہی اوراہل حق یعنی اہل سنت وجماعت نقصانات کے دہانے تک پہونچ گئے ۔ یہی حالات و معاملات تھے کہ2005 ؁ء کی ایک مسعود و مبارک ساعت میں خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے ایک بلند اقبال و بلند خیال ذی شعور و ذی وقار صاحب علم و حلم فہم مسلمانہ و فراست مومنانہ سے مزین قائدانہ صلاحیتوں سے بھر پور اخلاق واخلاص سے معمور ایک شہزادے نے اہلسنت کو مزید نقصانات سے بچانے اور ستر سالہ خسارے کی بھر پائی اور پھر ہر محاذ پر اہلسنت کی سربراہی وقیادت درج کرانے کی عرض سے ایک عظیم ترین انقلابی تحریک بنام ’’آل انڈیا علما ء ومشائخ بورڈ‘‘کی بنیاد رکھدی اور اس عظیم تحریک میں شرکت و شمولیت کا دعوت نامہ ہر سنی خانقاہ و درسگاہ و تنظیم کو بھیج دیا۔
اخلاص کی پاکیزگی ، اخلاق کی طہارت کی برکتوں سے ننانوے فیصد سنی خانقاہوں نے اس تحریک کو قبول کیا اور جو ق در جوق شامل ہو نے لگے اور پھر معاملہ یہ ہوا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا
اس عظیم ترین تحریک کا بانی ہونے کا شرف جسے حاصل ہوا وہ شہزادۂ فخر رسولاں ، لختِ دل مخدوم سمناں ، قائد ہند، اشرف ملت ، حضرت علامہ و مولانا الحاج پیر صوفی سید محمداشرفؔ الاشرفی الجیلانی مدظلہ العالی کی ذات با برکات ہے ۔
حضرت با برکت حضور اشرف ملت نے تحریک کی بنیاد رکھنے کے بعد پورے ملک کی سنی خانقاہوں و دینی درسگاہوں کا دورہ کیا اور ان کے ذمہ دار افراد سے ملاقات کی اور اپنے مقاصد و عزائم سے ان سب کو آگاہ فرمایا جسے سن کر اہل خانقاہ و مدارس کے دل خوشیوں سے جھوم اٹھے اور سب نے اس عظیم تحریک میں شامل ہونے کو اپنے لئے فخر و سعادت محسوس کی ۔ آج بحمدہٖ تعالیٰ تمام مشائخ طریقت و علمائے اہلسنت کے بے لوث تعاون کے سبب یہ تحریک ملک کی پندرہ ریاستوں میں اپنے بنیادی مقاصد کی حصولیابی کے لئے سر گرم عمل ہے ۔ نیز تین بیرون ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہو کر اس کے فلاحی خطوط پر کام کر رہی ہیں ۔
اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی طر ف سے شروع کئے گئے ترقیاتی اور فلاحی پروگراموں ، پالیسیوں ، اور پیکجوں میں صوفی سنی مسلمانوں کو انکا جائز حصہ دلانے کے لئے اور ہندوستانی معاشرے کی سماجی واقتصادی و تعلیمی اور سیاسی زندگی میں ان کو انکا جائز مقام دلانے کے لئے کوششیں کرنا نیز تمام خانقاہوں ،درگاہوں ،مسجدوں ، مدرسوں کو محبت و رواداری ، رحم دلی اور روحانیت کے مراکز کے طور پر فروغ دینا ہے ، اس ضمن میں آ ل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل کے لئے مسلسل سر گرم عمل ہے جن کے تحت یوپی ، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، بہار ،مغربی بنگال ، جھارکھنڈ، چھتیس گڈھ ،جموں و کشمیر اور اسی طرح ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں کئی اہم اجلاس کامیابی کے ساتھ منعقد ہو چکے ہیں ، نمایاں پروگراموں میں :
٭سنی کانفرنس مرادآباد ،۳؍ جنوری ۲۰۱۰ ؁ء ٭سنی کانفرنس بھاگل پور، ۱۶؍مئی ۲۰۱۰ ؁ء  ٭احتجاجی جلوس سنبھل  ، ۲؍جون ۲۰۱۱ ؁ء ٭مسلم مہا پنچایت مرادآباد،۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۱ ؁ء ٭مظاہرہ ،جنتر منتر دہلی ،۱۴؍ جنوری ۲۰۱۲ ؁ء ٭مسلم مہا پنچایت بیکانیرراجستھان، ۱۰؍ فروری ۲۰۱۳ ؁ء ٭سنی کانفرنس جگدیش پور امیٹھی، ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۴ ؁ء خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ نے مذکورہ بالا پروگراموں کے بعد ایک انقلابی قدم اٹھایا اور ملک کی راجدھانی دہلی میں ورلڈ صوفی فورم کے نام سے ایک انتہائی کامیاب پروگرام کیا جو کہ ہندوستان کی تاریخ میں قطعی محتاج مثال ہے ’’ورلڈ صوفی فورم‘‘ یہ نام ہی انٹرنیشنل پیمانے پر اپنی وسیع منصوبہ بندی کو بتانے کے لئے کافی ہے ۔متذکرہ ورلڈ صوفی فورم کے پروگرامات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
افتتاحی تقریب ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۶ ؁ء کو وگیان بھون میں منعقد ہوئی ،پھر ۱۸؍ اور ۱۹؍ مارچ ۲۰۱۶ ؁ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں انٹرنیشل سیمینار منعقد ہوا ۔ جبکہ آخری عوامی اجلاس بعنوان انٹرنیشنل صوفی کانفرنس دہلی کے مشہور رام لیلا میدان میں ہوا جس میں بے شمار افراد و اشخاص نے شرکت کی ۔
دانشوران قوم و ہمدرد ان اہلسنت : آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اہلسنت وجماعت میں تحریکوں اور تنظیموں کی کمی نہیں ہے مگر ساتھ ہی ساتھ آپ تمام تحریکوں اور تنظیموں کی وسعتوں و ایجنڈوں وعزائم ومنصوبوں سے بھی واقف ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم ہیکہ جن عظیم مقاصد کے تحت آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کام کر رہا ہے وہ بالکل محتاج مثال ہے ، اپنے عزائم اور نکاتی منصوبوں کی بنیاد پر یہ تحریک تمام تنظیموں اور تحریکوں سے قطعی جدا گانہ نوعیت کی حامل ہے ۔ اور یہ بھی سچائی ہے کہ کسی بھی تحریک کے بانی و عہدیداران آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کے بانی و عہدیداران جیسی کھلی فکر کے حامل نہیں ہیں ، اس تحریک نے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی بالکل منفرد المثال ہیں اور یہ بھی سچا ئی ہے کہ اس تحریک سے تمام باطل افکار و نظریات کی حامل شخصیات و تحریکات خوفزدہ ہیں ، کیونکہ اس تحریک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فروغ دین اسلام و اشاعت سنیت و تحفظ اقدار انسانیت ،محبت و رواداری ، دعوت امن وامان جیسے بہتر و عمدہ اوصاف کا سب سے زیادہ حصہ اگر صحیح معنوں میں کسی مسلمان کے اندر دیکھنا ہے تو اس سلسلے میں سب پر فوقیت رکھنے والے وہ افراد ہیں جن کا تعلق خانقاہیت و درگا ہیت و صوفی ازم سے ہے اور یہی حضرات صحیح منعوں میں اہلسنت وجماعت ہیں ، وفاداران اہلسنت یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے بعد وہی لوگ بورڈ پر رہے جو فرنگی حکمرانوں کے چاپلوس اور پٹھو تھے ، فرنگیوں کے دور اقتدار میں جن خاندانوں کے افراد اپنی چاپلوسی کی بدولت مسلمانوں کے نام نہاد پیشوا بن گئے تھے ، بد قسمتی سے ان کا تسلسل پیشوائی اب تک باقی ہے اور یہ سارے لوگ ہر آ ئے دن اپنے نفرت کی کلہاڑی سے شجر اہلسنت کی شاخیں کاٹ کاٹ کر اشجار اہلسنت کو بے برگ کر دینے پر آمادہ ہیں ، ایسے تمام عناصر نہ تو اہلسنت کے لئے فائدہ بخش ہیں اور نہ ہی ملک کے لئے وفادار ، اسی لئے حضور اشرف ملت نے یہ انقلابی قدم اٹھا یا ہے تاکہ سوداگران ملت سے عامۃ المسلمین اور وطن عزیز کو نجا ت دلائی جا سکے ، موجودہ مذہبی و ملکی حالات تمام ہمدردان انسانیت واسلام و سنیت سے اس بات کے شدید متقاضی ہیں کہ ہر فرد اہلسنت پورے اخلاص کے ساتھ آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی کامیابیوں کا حصہ بنے اور تحریک کی ہر فلاحی آواز پر لبیک کہے ۔ کیونکہ ۱۲،۱۳؍ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء کو اجمیر معلی کی سر زمین پر دیوبندی جماعت کی جانب سے جو اجلاس عام منعقد ہوا وہ ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ سنی دنیا کی ہر شاہراہ پر ایمان لوٹنے والے ٹھگ انتہائی عیّارانہ شکل و شباہیت میں بیٹھ چکے ہیں اور عوام اہلسنت کی ایمانی پونجی پر مکمل طریقے سے ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں ، اس ضمن میں ایک انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ان ٹھگوں سے دو حاضر کے نام نہاد سنی رہنما بھی مل چکے ہیں جو کہ اتحا د واتفاق کے ذریعے فلاح مسلمین کے نام پر عوام اہلسنت کو وہابیت کے منہ میں جھونکنا چاہتے ہیں ، کیونکہ اجمیر شریف میں اجلاس عام کرنے والے دیوبندی ٹھگوں کے ان دلالوں کو منہ مانگی اجرت ملے گی ۔ اسی لئے اس طرح کے تمام سوداگر اس معاملے میں کامیابی کے لئے حیرت ناک طور پر سر گرم عمل ہیں ۔ راقم السطور بالکل صاف صاف لفظوں میں تمام محبان اہلسنت سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ اب جماعت اہلسنت کے تمام علماء و دانشوران ہوش کے ناخن لیں اور سنیت کے دوستوں و دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کریں ، میری رائے کے مطابق اجمیر شریف میں دیوبندیوں کا اجلاس عام وابستگان اہلسنت کے لئے ایک عظیم حادثہ ہے اور اس حادثے سے آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کے تمام اراکین ہر ممکن ذرائع سے تحفظ سنیت کے لئے کوشاں ہیں ۔ گفتگو کے اس موڑ پر ہمدردان اہلسنت سے یہ گذارش ضرور کروں گا کہ آپ غور سے ان نام نہاد سنی مفتیوں و اداروں کوبھی دیکھیں جن کے طبعی فتاؤں کی مار سے ہر سنی خانقاہ و تنظیم کراہ رہی ہے ۔اجمیر شریف میں ہو نے والے اس عظیم سانحے کے بعد انکا ردّ عمل کیا رہا ؟ فتویٰ باز مفتیوں کے کتنے فتاوے دیوبندیوں اور ان کے دلالوں کے خلاف منظر عام پر آ ئے؟؟
 انہوں نے ان کے خلاف کتنے جلسے اور پروگرامات منعقد کئے؟
لہٰذا اس صورت حال میں اب تمام اہلسنت آگے بڑھیں اور آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کو مضبوط کریں تاکہ بزرگان دین واولیائے کاملین کے ذریعہ پھیلائے ہو ئے مذہب و مسلک اور تمام مذہبی مقامات و آثار کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے ، کیونکہ جب بھی اس قسم کے نا گفتہ بہ حالات پیدا ہو ئے ہیں تو ارباب تصوف نے ہی آگے بڑھ کر انکا مقابلہ کیا ہے اور وہی آج بھی ہو گا۔
ازقلم : مولانا محمد قیصر رضا علوی حنفی مداری
ترجمان خانقاہ مداریہ مکن پورشریف وخادم درس جامعہ عزیزیہ اہلسنت ضیاء الاسلام جھہراؤں،ضلع سدھارتھ نگریوپی







Ajmer Ka Ittihad Fasana Ya Haqiqat

اجمیر کا اتحاد: فسانہ یا حقیقت
۱۳؍نومبر۲۰۱۶ ؁ء کو اجمیر میں جمیعۃ علماء ہند کی جانب سے ہونے والے ۳۳ ویں اجلاس میں جمیعہ کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور بریلی سے مولانا توقیر رضا خان کے ہاتھوں بڑے اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے جمیعت اپنے آپ کو وہابیت سے الگ کر کے صوفیت کے رنگ میں رنگنے کی بات کہہ چکی ہے۔ اس اجلاس سے پہلے تیاری نشستوں میں سے ایک میں، جو راجستھان میں منعقد کی گئی تھی اس میں اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ وہ وہابی نہیں بلکہ صوفی ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستانی صوفی بزرگ حضرت سید معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات و خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اسلام کا مرکز سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کا آستانہ بتایا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی عہد کیا گیا کہ اس عظیم بزرگ کی خدمات کو سا ری دنیا میں نشر کرنے کی ضرورت ہے.۔
 یہ بھی اعلان ہوا تھا کہ جمیعۃ کی جانب سے پہلی بار اپنے اجلاس میں خانقاہوں کے سجادگان، درگاہوں کے ذمہ داران اور آستانوں کے متولیان کو دعوت دی جائے گی اور پہلی بار نعتیہ کلام بھی جمیعۃ کے اجلاس میں شریک کیا جائے گا۔ اجلاس سے پہلے کے یہ اعلانات شاید اہل سنّت و جماعت کے قریب آنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کرانا ہے کہ ابھی بھی مسلمانوں میں ہماری مقبولیت ہے اور ہم ہی ان کے سودا گر ہیں۔ کیونکہ جہاں ایک طرف بریلی اور دیوبند کا اتحاد ہوا وہیں دوسری طرف دونوں ہی کے سیاسی و مذہبی آقاؤں کو خوش رکھنے کی بھی سازش کی گئی۔ یعنی دو کشتی میں پیر رکھ کر منزل تک دوگنی رفتار میں پہنچنے کا خواب دیکھا گیا۔ جس کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا فطری ہے۔ بریلی اور دیوبند کے اس اتحاد پر بے تحاشا خوشی کا اظہار کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ اتحاد کتنا دیر پا ہے یا کتنا مقبول ہے۔ خود پوری دنیائے وہابیت کیا اس جعلی اتحاد کو ہضم کر پائے گی؟ وہابی اکابرین کے ان افکار و نظریات کا کیا ہوگا جن کی بنیاد ہی صوفی اور تصوّف مخالف ہے. دنیائے اسلام کا پہلا وہ شخص جس نے اسلامی بنیادوں کو ذاتی مفاد، اقتدار کی ہوس، دولت و شہرت کی بھوک کے بدلے بیچ دیا. اسلام کی اس تعریف کو ہی بدل دیا جس کی بنیاد امن و محبّت، بھائی چارگی اور رواداری پر رکھی گئی۔ بنام مسلم اس پہلے دہشت گرد ابن عبد الوہاب نجدی نے ایک نئے اسلام کو متعارف کرایا جس کی بنیاد نفرت و تشدّد اور دہشت و وحشت پر رکھی گئی. اب ان دو مخالف فکروں کا اتحاد قوم مسلم پر کیا اثر ڈالے گا؟ بہ شمول ہندوستان پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک اس اتحاد کو کس نظریے سے دیکھیں گے یہ ایک قابل غور پہلو ہوگا۔
اس اتحاد کو سیاسی ، سماجی، مذہبی یامعاشی کس اتحاد کا نام دیا جائے، تھوڑا مشکل کام ہے۔جمیعۃ علما ہند میں یقین رکھنے والے افراد و جماعت کیلئے بھی یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس فکر کو موجودہ شکل میں پیدا ہوئے ابھی ۲۰۰ سال ہی ہوئے ہونگے۔ ہندوستان میں اس کی آمد سو سے ڈیڑھ سو سال کی ہی ہے۔ اب ان برسوں میں جن مسلمانوں کو اس فکر کا شکار کیا گیا، اس کی بنیاد صوفی، تصوّف، خانقاہیں، درگاہیں اور امام بارگاہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ان جگہوں سے دور کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ تحریریں اور تقریریں وجود میں آئیں. آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اسلام ہی کے ماننے والوں کے درمیان میں خود مسلمانوں ہی کے خلاف ایک نئی فکر پیدا کردی گئی۔ جس کا نام وہابیت ہے۔ آج جب فکر وہابیت پوری دنیا میں بدنام ہو چکی ہے تو اپنے اپنے دامن کو پاک صاف کرنے کیلئے اس اتحاد کو انجام دیا گیا۔
اب بڑی مشکل ان افراد و جماعت کیلئے ہے جنہوں نے اس نئی فکر کے ہاتھوں اپنی عقیدت کا سودا کر لیا ہے۔ ان کے لئے تو آگے خندق پیچھے کھائی جیسا معاملہ ہے۔ جن عقائد و نظریات سے توبہ و استغفار کرا کر اس نئے فرقہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب پھر سے اسی کی جانب لوٹایا جا رہا ہے۔ یا اس فکر کے حامل اکابرین اور ذمہ دار خود اسی عقیدے میں شمولیت کی بات کر رہے ہیں۔ اگر پھر سے صوفی خانقاہ اور درگاہ ہی پناہ گاہ ہے تو پھر اس کو شرک و بدعت کہہ کر اس کی مذمّت اور برائی کرنے کا عمل کس خانے میں ہوگا؟ اب وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اپنے آپ کو کس سے منسوب کریں گے؟ ہمیں ہمارے ہی بھائیوں سے الگ کر دیا گیا۔ہمیں اپنے ہی آباء و اجداد کو کافر مشرک کہنے پر مجبور کیا گیا۔ وہابی فکر و خیال کو اپنانے سے پہلے کی زندگی کو کفر کی زندگی اور سارے اعمال کو بے کار بلکہ گناہ میں بتایا گیا۔ اب پھر جنہوں نے ہمیں دعوت و ہدایت دینے کا ڈھونگ رچا تھا خود بھی وہی عمل کرتے نظر آ رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟ کیا اسے دینی خدمت کہا جا سکتا ہے؟ کیایہی دعوت و تبلیغ ہے؟ کم سے کم نبوی تبلیغ تو نہیں ہے.۔وہاں کفر و گمرہی کی ظلمت و تاریکی سے نکال کر معرفت و ہدایت کی روشنی عطا کی گئی تھی لیکن یہاں تو ایمان سے کفر کا سفر کرایا گیا ہے. نیکی سے بدی کا راستہ دکھایا گیا۔ ہدایت پر تھے، گمراہ کیا گیا ہے، وہ بھی دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے نام پر ایسا کیا گیا.۔جمیعۃ اور تمام اکابرین دیوبند و جملہ حاملین فکر وہابیت کیا اس بات کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟ اس اتحاد سے سب سے زیادہ ان مسلمانو ں کو خوشی ہوگی جو کم سے کم روزانہ ایک دوسرے کی فکر و نظر کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں کھڑے ہونے سے نجات حاصل کر پائیں گے. تو کیا اب دونوں ہی مکتب فکر کے ذمہ داران اپنی ان تحریروں، تقریروں، عقائد و نظریات سے برأت کا اظہار کریں گے؟؟؟
اہل سنّت و جماعت سے اس وہابی فکر کا اختلاف عقیدہ و ایمان پر مبنی ہے. اہل سنت کی روایتوں سے بھی اختلاف ہے. “خدا جھوٹ بول سکتا ہے”، “پیغمبر اسلام کو پیٹھ پیچھے اور دیوار کے پیچھے کا علم نہیں”. ” دوران نماز نبی کا خیال آنے سے نماز نہیں ہوگی البتہ اگر کسی جانور کا خیال آ جائے تو نماز ہو جائے گی”، “ایک بندہ عبادت میں نبی سے آگے بڑھ سکتا ہے”، “نبی مر کر مٹی میں مل گئے”، “نبی ہم جیسے بشر ہیں” (معاذ اللہ) ان عقیدوں کے حامل وہابی افراد و جماعت و افراد کا اتحاد کسی بھی مسلمان کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ مذہبی اتحاد تو ممکن نہیں البتہ سیاسی و سماجی اتحاد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ موقف طے کرنے ہونگے اور ہر مکتب فکر کو ایک ساتھ بٹھانا ہوگا.۔ہر گروپ اور گروہ کی نمائندگی ہو.۔اس کے بعد کسی بھی موقف کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
اب اس طرح کے عقائد و نظریات کے حاملین اگر اچانک سو سال پرانے افکار و خیالات سے زبانی دست برداری کا اعلان کر دیں تو فوری یقین غیر فطری ہے۔ سب سے پہلے پرانے عقائد سے توبہ لازمی ہے. یوں تو رب کریم سب کچھ جانتا ہے. وہ و دلوں میں چھپے ہوئے راز سے با خبر ہے۔ لیکن وہابی فکر نے ہمیشہ منافقانہ راستہ اختیار کیا ہے. جب بھی گرفت میں آئے ہیں اپنا نام اور اپنی پہچان تبدیل کر لی ہے۔ ایک نئی شناخت کے ساتھ امت مسلمہ کو دھوکہ دینے آ گئے ہیں اسلئے صرف زبانی جمع خرچ سے داغ دھلنے والے نہیں ہیں.۔اگر واقعی گھر واپسی کا ارادہ ہے تو مکمّل طریقے سے گھر واپسی کی جائے۔ اہل سنت اسلام مخالف عقائد سے دلی توبہ کر کے صوفی اور تصوّف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ ان اکا برین کا بھی کلی بائیکاٹ کیا جائے جنہوں نے دین کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ان تحریروں کو آگ لگادی جائے جس میں اسلام مخالف فکر موجود ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے دہشت گردوں کی فکروں کو بھی مل کر رد کیا جائے۔ کھلے دل سے اسلام میں یقین رکھا جائے۔
اجمیر میں ملنے والے ہاتھوں سے اگر واقعی میں اتحاد ہوتا ہے تو مجوزہ بالا تمام مشوروں پر عمل کیا جائے گا۔ تبھی اس اتحاد کا مطلب سمجھ میںآئے گا.۔ورنہ سوائے مذہبی، سیاسی و سماجی سودا گری اور ناٹک نوٹنکی کے اجلاس اور اتحاد کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ازقلم : مولاناسیدعالمگیر اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھہ شریف
سرپرست: آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ مہاراشٹر

Sunni Sufi / Barailvi


 
سنی صوفی /بریلوی
قال رسول اﷲﷺ اتبعوا السواد الاعظم ید اﷲ علی الجماعۃ شذشذ فی النار
سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بڑی جماعت (یعنی اہل سنت و جماعت) کی پیروی کرو‘ اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مدد جماعت کے ساتھ ہے‘ جو بڑی جماعت (اہل سنت و جماعت) سے علیحدہ ہوا وہ جہنم میں علیحدہ ڈالا گیا.  (کنز العمال …۱/ ۲۰۶)
اہل سنت کا  ہے  بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور نائو ہے عترت رسول اﷲ کی
تعارف’’اہل سنت و جماعت حنفی بریلوی مسلک‘‘ دینی مسلک‘ مختصر تعارف‘ مختصر تاریخ‘ مسلک کا آغاز کب ہوامتحدہ پاک و ہند میں ہمیشہ اہل سنت و جماعت حنفی کی غالب اکثریت رہی ہے۔ سرزمین ہند میں بڑے بڑے نامور اور باکمال علماء و مشائخ پیدا ہوئے جنہوں نے دین اسلام کی زریں خدمات انجام دیں اور ان کے دینی اور علمی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں افق ہند پر ایک ایسی شخصیت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے جن کی ہمہ گیر اسلامی خدمات اسے تمام معاصرین میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہیں۔ شخص واحد جو عظمت الوہیت‘ ناموس رسالت‘ مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیتا ہوا نظرآتا ہے۔ عرب و عجم کے ارباب علم جسے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہماری مراد ہے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز جنہوں نے مسلک اہل سنت اور مذہب حنفی کے خلاف اٹھنے والے نت نئے فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر مرحلے پر سرخرو ہوئے۔
 اہل سنت و جماعت کے عقائد ہوں یامعمولات جس موضوع پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا‘ اسے کتاب و سنت ائمہ دین اور فقہاء اسلام کے ارشادات کی روشنی میں پائے ثبوت تک پہنچایا۔ آپ کی سینکڑوں تصانیف میں سے کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر کتاب میں آپ کویہ انداز بیان مل جائے گا۔ یہاں یہ بتادینا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکرمخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو ’’بریلوی‘‘ کا نام دے دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیافرقہ ہے جوسرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے۔ سیدالمحققین مبلغ اسلام حضرت علامہ سیدمحمدمدنی میاں الاشرفی الجیلانی ثم کچھوچھوی فرماتے ہیں:
’’غورفرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا ’’بریلویت‘ و ’’سنیت‘ْ‘ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا (تقدیم‘ دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان‘ ص ۱۱۔۱۰‘ مکتبہ حبیبیہ لاہور)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ’’یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے لیکن افکار و عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے (البریلویہ ص ۷)
اب اس کے سوا اور کیا کہاجائے کہ ’’بریلویت‘‘ کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد و افکار کو نشانہ بنا رہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت کے چلے آرہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اورغیر اسلامی قرار دے سکیں۔ باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو ’’بریلوی عقائد‘‘ کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے وہ قرآن و حدیث اور متقدمین علماء اہلسنت سے ثابت اور منقول ہیں۔ کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو نہیں پیش کیا جاسکا جو ’’بریلویوں‘‘ کی ایجاد ہوا ور متقدمین اہل سنت و جماعت سے ثابت نہ ہو۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی ’’عالم اہل السنتہ‘‘ تھا…
 اہل سنت و جماعت کی نمائندہ جماعت ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کا رکن بننے کے لئے سنی ہونا شرط تھا اس کے فارم پر ’’سنی‘‘ کی یہ تعریف درج تھی۔
’’سنی وہ ہے جو ’’ماانا علیہ و اصحابی‘‘سرکار کریمﷺ نے فرمایا: نجات پانے والا گروہ ان عقائد پر ہوگا جن پر میں اور میرے صحابہ ہیں) کا مصداق ہوسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین ‘ خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی‘ حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی‘ حضرت مولانا فضل حق صاحب خیر آبادی‘ حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی‘ حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری‘ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خان رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو‘‘ (خطبات آل انڈیا کانفرنس ص ۶و۸۵ مکتبہ رضویہ لاہور)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کاربند ہیں۔ مشہور مورخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا‘ لکھتے ہیں۔
’’تیسرا فریق وہ تھا جوشدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل سنت کہتا رہا‘ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے‘‘ (حیات شبلی‘ ص ۴۶‘ بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت ص ۲۲)
شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں ’’انہوں (امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ‘‘ (موج کوثر ص ۷۰)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں۔
’’امرتسر میں مسلم آبادی‘ غیر مسلم آبادی (ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے۔ اسی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے (شمع توحید ص ۲۰)

مسلک کے بنیادی عقائد
ممیزات اہل سنت و جماعت حنفی ’’ سنی صوفی/سنی صوفی ‘‘ حضرات کے عقائد وممیزات
عقیدہ: اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ جس طرح سے اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں۔ ذات و صفات کے علاوہ سب چیزیں حادث ہیں یعنی پہلے نہیں تھیں پھر موجود ہوئیں۔
عقیدہ: اﷲ تعالیٰ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
ومن اصدق من اﷲ قیلا (سورہ النساء ۴/۱۲۲)
’’اور اﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان) نیز ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔
ومن اصدق من اﷲ حدیثا (سورہ النساء ۴/۸۷)
’’اور اﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان)
صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مراد آبادی قدس سرہ (خلیفہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لئے کہ اس کا کذب ناممکن و محال ہے کیونکہ کذب عیب ہے اور ہر عیب اﷲ پر محال ہے‘ وہ جملہ عیوب سے پاک ہے‘‘ (تفسیر خزائن العرفان)
عقیدہ: اﷲ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے… اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
ترجمہ ’’وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ ہر نہاں و عیاں کا جاننے والا وہی ہے‘ بڑا مہربان رحمت والا (سورہ الحشر ۵۹/۲۲)
ترجمہ: ’’ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا سب سے بڑا بلندی والا‘‘ (سورہ الرعد ۱۳/۹)
ترجمہ: ’’بے شک توہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا‘‘ (سورہ المائدہ ۵/۱۰۹‘۱۱۶)
عقیدہ: حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت آپﷺ پر ختم کردیا۔ حضورﷺ کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ حضورﷺکے زمانہ میں یا حضورﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے‘ کافر ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
ترجمہ: ’’محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے‘‘ (سورہ الاحزاب ۳۳/۴۰)
عقیدہ: حضورﷺ نور ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سورہ المائدہ ۵/۱۵)
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہماکی تفسیر یہ ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد حضور پرنورﷺ ہیں۔ جمہور مفسرین کا یہی قول ہے ملاحظہ ہوں (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی و غیرہا) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’سید عالمﷺ کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی‘‘ (خزائن العرفان)
عقیدہ: حضورﷺ بے مثل بشر ہیں۔ حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’میں تمہاری مثل نہیں‘‘ (صحیح بخاری ۲/۲۴۶‘ جامع الترمذی ۱/۹۷)
حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’میں نے رسول اﷲ کی مثل نہ پہلے کسی کو دیکھا نہ بعد میں (ترمذی ۱۲/۸۹ تاریخ کبیر‘ خصائص کبریٰ)
عقیدہ: حضورﷺ شافع محشر ہیں۔ وہ اﷲ تعالیٰ کے اذن سے اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے مگر اس کے حکم سے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے (سورہ البقرہ ۲/۲۵۵) (کنزالایمان)
’’قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں‘‘ (سورہ الاسراء ۱۷/۷۹)
جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مقام محمود سے شفاعت مراد ہے۔
عقیدہ: عبدالمصطفی‘ عبدالنبی‘ غلام رسول اور غلام نبی وغیرہ نام رکھنا جائز ہے اور باعث برکات بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تم فرمائو اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘‘ (سورہ الزمر ۳۹/۵۳) (کنزالایمان)

اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورﷺکو حکم فرمایا کہ یاعبادی (اے میرے بندوں) کہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ لفظ عبد غیر اﷲ کے ساتھ مل کر استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی جس طرح عبداﷲ اور عبدالرحمن نام ہوسکتے ہیں اسی طرح عبدالمصطفی اور عبدالنبی نام میں کچھ حرج نہیں ہے جو لوگ غیر اﷲ کی طرف اضافت کے سبب شرک کی بات کرتے ہیں وہ اس آیت کا کیا جواب دیں گے اس میں بندوں کی اضافت ضمیر واحد متکلمی کی طرف کی گئی ہے جس سے قطعا حضورپرنور سید عالم صاحب لولاک ﷺکی ذات ستودہ صفات مراد ہے۔
عقیدہ: یارسول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ لفظ ندا سے پیارے آقا و مولیٰﷺ کو پکارنایا یاد کرنا جائز ہے۔ امام المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری قدس سرہ روایت فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کا پائوں سن ہوگیا تو ایک شخص نے ان سے کہا کہ اس شخص کو یاد کریں جو آپ کو سب سے محبوب ہے‘ تو انہوں نے کہا ’’یامحمداہ ﷺ‘‘ (الادب المفردلامام بخاری ۱/۳۲۵)
عقیدہ: حضور سرور کون و مکاں دور و نزدیک سے اپنے امتیوں کی آواز و فریاد کو سنتے ہیں۔ شافع محشر‘ ساقی کوثر احمد مجتبیٰﷺ کا فرمان ہے۔ ’’جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے‘‘ (المستدرک علی صحیحین ۲/۵۵۴‘ سنن الترمذی ۴/۵۵۶‘ سنن البیہقی الکبری ۵۲۷‘ مسند البزار ۹/۳۵۸‘ مسند احمد ۵/ ۱۷۳‘ شعب الایمان ۱/۴۸۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ اپنے مشہور و معروف ’’سلام‘‘ میں فرماتے ہیں۔
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام
عقیدہ: حضور سرور کونینﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے نفع و نقصان کا مالک بنایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا
(سورہ التوبہ ۹/۷۴) (کنزالایمان)

’’اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اﷲ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے اﷲ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اﷲ اپنے فضل سے اور اﷲ کا رسول ہمیں اﷲ ہی کی طرف رغبت ہے‘‘
(سورہ التوبہ ۹/۵۹) (کنزالایمان)
’’اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اﷲ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی (سورہ الاحزاب ۳۳/۳۷) (کنزالایمان)
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اﷲ تعالیٰ دیتا ہے‘‘ (صحیح البخاری ۱/۱۲۶ مشکورہ المصابیح)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سرکاردوعالمﷺ من جانب اﷲ پوری کائنات میں تقسیم فرمانے والے ہیں اور جو قاسم ہوتا ہے یقینا وہ نفع رساں ہوتا ہے۔
عقیدہ: انبیاء کرام‘ اولیاء کرام اور نیک ہستیوں کا وسیلہ مانگنا جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پائو‘‘
(سورہ المائدہ ۵/۳۵) (کنزالایمان)
حضور اکرم نور مجسمﷺ نے ایک نابینا صحابی رضی اﷲ عنہ کوایک دعا تعلیم فرمائی جس میں ان صحابی رضی اﷲ عنہ نے حضورﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ وہ دعا یہ ہے
اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یامحمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی‘‘
اے اﷲ بیشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے حضرت محمد مصطفیﷺ نبی رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہے‘ یا محمدﷺ بے شک میں آپﷺ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اپنی اس حاجت کے لئے تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ اے اﷲ حضور اکرمﷺ کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما‘‘ (سنن ابن ماجہ ۴/۲۹۶) علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی فرماتے ہیں۔ ’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک وسیلہ مانگنے کے جائز ہونے پر اجماع ہے‘‘ (الدر السنیۃ ص ۴۰)
عقیدہ: حضور سید عالمﷺ معلم کائنات ہیں اور آپﷺ کی اطاعت سب پر لازم ہے۔
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اﷲ کا حکم مانا‘‘
(سورہ النساء ۴/۸۰) (کنز الایمان)
’’اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو‘‘ (سورہ الحشر ۵۹/۷) (کنزالایمان)
’’اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے‘‘ (سورہ ابراہیم ۱۴/۴) (کنزالایمان)
شیخ سلیمان الجمل قدس سرہ حاشیہ جلالین میں لکھتے ہیں ’’اور رسول اﷲﷺ ہر قوم سے ان کی زبان میں خطاب فرمایا کرتے تھے‘‘ (تفسیر جمل ۲/۵۱۲)
’’اور تمہیں کتاب و حکمت سکھاتے ہیں اور تمہیں خوب ستھرا کرتے ہیں اور تمہیں وہ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۵۱) (کنزالایمان)
ان آیات و تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ تمام لغات کے جاننے والے ہیں اور آپﷺ معلم کائنات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آپﷺ نے کوئی علم یا کوئی زبان کسی مخلوق سے سیکھی ہو۔
عقیدہ: حضورﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اﷲ کا تم پر بڑا فضل ہے‘‘
(سورہ النساء ۴/۱۱۳) (کنزالایمان)
صحابی رسولﷺ حضرت ابو زید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’نبی پاکﷺ نے ہم کو جو کچھ بھی پہلے ہوچکا تھا اور جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا‘ تمام بیان فرمادیا‘‘ (صحیح مسلم ۲/۳۹۰)
نیز سرکار کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’پس جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے‘ میں اس کو جان گیا ہوں‘‘
(جامع ترمذی ۲/۱۵۵)
نیز سرکار کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا حال ہے ان قوموں کا جنہوں نے میرے علم میں طعن کیا ہے۔ قیامت تک کی جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتادوں گا‘‘ (تفسیر خازن ۱/۳۸۲‘ مطبوعہ مصر)
عقیدہ: نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (سورہ غافر ۴۰/۶۰) (کنزالایمان)
اس آیت میں کوئی قید نہیں ہے جب بھی ہم دعا مانگیں اﷲ تعالیٰ قبول فرمانے والا ہے۔ خواہ عام فرض نمازوں کے بعد دعا کی جائے یا نماز جنازہ کے بعد بالکل جائز اور حکم قرآن کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ حضور اقدس سیدعالمﷺارشاد فرماتے ہیں۔ ’’جب تم نماز جنازہ پڑھ لو تو میت کے لئے خالص دعا مانگو‘‘ (ابن ماجہ ۴/۴۴۷‘ سنن ابی دائود ۸/۴۹۱)
حضرت سیدنا عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما ایک جنازے پر نماز جنازہ کے بعد پہنچے تو انہوں نے نمازیوں سے فرمایا ’’اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں تم مجھ سے آگے نہ بڑھو‘‘
(المبسوط الامام شمس الائمۃ السرخسی ۲/۶۷)
عقیدہ: محفل میلاد شریف کرنا جائز اور باعث برکت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’تم فرمائو کہ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اس پر چاہئے کہ خوشی کریں‘‘ (سورۃ یونس ۱۰/۵۸) کنزالایمان)
’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ (سورۃ الضحی ۹۳/۱۱) (کنزالایمان)
ان آیات سے یہ بات نہایت واضح کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل‘ رحمت اور نعمت پر خوب خوشی کا اظہار کرو اور چرچا بھی کرو۔ اب کون سا مسلمان ہے جو سرور عالم نور مجسم شفیع اعظمﷺ کی ذات بابرکات کو اﷲ تعالیٰ کا فضل اس کی رحمت اور اس کی نعمت نہیںسمجھتا؟ یقینا تمام مسلمانان عالم حضورﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمتہ للعالمین اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ سمجھتے ہیں جن کی بعثت شریفہ کا اﷲ تعالیٰ نے احسان جتایا ہے۔
’’بے شک اﷲ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا‘‘ (سورہ آل عمران ۳/۱۶۴) (کنزالایمان)
لہذا آپﷺ کے میلاد کی خوشی منانا اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچا کرنا ہے۔ اور محفل میلاد منعقد کرنا صرف پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام عالم اسلام اپنے اپنے زمانے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ لکھتے ہیں ’’اور اہل اسلام ہمیشہ سے حضورﷺ کی ولادت شریف والے مہینہ میں محافل میلاد منعقد کرتے رہے ہیں‘‘ (ماثبت من السنۃ ص ۴۰ مطبوعہ لاہور)
عقیدہ: حضور اکرم نور مجسمﷺ اور تمام انبیاء کرام اپنے اپنے مزاروں میں زندہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں‘‘
(سورہ البقرہ ۲/۱۵۴) (کنزالایمان)
علامہ احمد بن حجر عسقلانی رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں:
’’اور جب قرآنی ارشادات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ شہید لوگ زندہ ہیں اور یہی عقل سے بھی بادلیل ثابت ہے تو وہ انبیاء کرام علیہم السلام جن کا درجہ شہداء سے بلند اور بالاتر ہے ان کی حیات بطریق اولیٰ ثابت ہوگئی‘‘ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ۱۰/۲۴۳)
عقیدہ: بزرگان دین کے اعراس میں جو جانور نیاز اور ارواح کے ایصال ثواب کے لئے ذبح کیا جاتا ہے‘ وہ حلال ہے۔ قرآن مجید میں جو آیت ہے (اور وہ جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۷۳) (کنزالایمان) تو اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ جانور مراد ہے جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام لیا جائے۔ مندرجہ ذیل تفاسیر میں یہ بیان موجود ہے (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی وغیرہا)
لہذا حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی گیارہویں شریف ان کے ایصال ثواب کے لئے جو جانور گائے‘ بکرا وغیرہ ذبح کیا جاتا ہے یا کسی ولی اﷲ کے عرس مقدس پر جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس پر بھی ذبح کے وقت (بسم اﷲ اﷲ اکبر) پڑھا جاتا ہے لہذا وہ کھانا بالاتفاق حلال اور جائز ہے۔ کذا فی التفسیرات الاحمدیۃ
عقیدہ: مردے سنتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا اور وہ لوگ مر گئے تو حضرت صالح علیہ السلام نے ان مردہ لوگوں کو فرمایا (پس ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرض ہی نہیں)
(سورہ الاعراف ۷/۷۹) (کنزالایمان)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جب آدمی کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دوست جب اس سے لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے‘‘ (صحیح بخاری ۵/۱۱۳)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب سرکار دوعالمﷺ مدینہ طیبہ کے قبرستان سے گزرتے تو فرماتے:
’’اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو‘ اﷲ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں بخشے اور تم ہم سے پہلے آئے اور ہم تمہارے بعد آئیں گے‘‘ (جامع ترمذی ۴/۲۰۸) ان احادیث سے صاف واضح ہے کہ قبروں والے مردے سنتے ہیں۔
عقیدہ: اولیاء اﷲ کو پکارنا اور ندا کرنا جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’تو بے شک اﷲ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے فرشتہ مدد پر ہیں‘‘ (سورۃ التحریم ۶۶/۴) (کنزالایمان)
امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے طبرانی شریف کے حوالے سے حدیث شریف درج فرمائی ہے کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں لوگوںکی حاجتیں پوری ہونے کے لئے لوگ اپنی حاجتوں میں ان کی طرف فریاد کریں گے‘ وہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہیں‘‘ (جامع صغیر مع فیض القدیر ۲/۴۷۷ مطبوعہ مصر‘ المعجم الکبیر ۱۲/۳۵۸‘ حلیتہ الاولیاء ۳/۲۲۵)
اس کے علاوہ بہت سے ایسے عقائد ہیں جن سے اہل سنت و جماعت حنفی بریلوی حضرات کا دیگر فرقوں سے امتیاز ہوجاتا ہے چنانچہ انہیں عقائد سے یہ ہیں۔

حضورﷺ کو حاضر و ناظر ماننا
حضورﷺ کے لئے عطائی علم غیب ماننا
حضورﷺ کو دنیا وآخرت کے احوال کا جاننے والا ماننا
اذان سے قبل اور بعد میں درود شریف پڑھنا
انگوٹھے چومنا‘ رحمۃ للعالمین صفت کو حضورﷺ کا خاصہ ماننا


ختم شریف‘ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأ اﷲ وغیرہ ان عقائد کے حامل حضرات ہی درحقیقت اہل سنت و جماعت ہیں جنہیں عرف میں ’’سنی صوفی/بریلوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مذکورہ بالا عقائد چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور ان کے دلائل قرآن و سنت سے واضح ہیں۔ ان عقائد کے حامل شخص کو ’’بریلوی فرقہ‘‘ والا کہنا قطعا درست نہیں ہے۔ ورنہ پھر صحابہ کرام‘ تابعین‘مفسرین‘ محدثین‘ ائمہ مجتہدین‘ سب کو ’’بریلوی‘‘ کہنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کے بھی وہی عقائد تھے جو آج اہل سنت حنفی بریلویوں کے ہیں۔ لہذا مذکورہ عقائد کے حامل حضرات کو ’’بریلوی‘‘ مکتبہ فکر والا کہہ کر اہل سنت و جماعت سے علیحدہ کہنا اور جدید فرقہ کے عقائد کا پیروکار کہنا ظلم و زیادتی ہے۔
۴: عبادات و معاملات میں کون سے فقہی مذہب سے وابستگی ہے‘ اس فقہی مذہب کی کون سی کتاب کو بنیادی ماخذ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے‘ فقہی لحاظ سے ممیزات عبادات و معاملات میں فقہی مذہب ’’حنفی‘‘ ہے جوکہ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس فقہی مذہب کی کئی کتب کو ماخذ کی حیثیت حاصل ہے جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں۔
کتب ظاہر الروایہ میں چھ کتابیں ہیں۔
(۱) جامع کبیر (۲) جامع صغیر (۳) سیر کبیر (۴) سیر صغیر (۵) مبسوط (۶) زیادات
یہ کتابیں فقہ حنفی کا اصل ماخذ اور بنیادی ماخذ ہیں۔پھر مسائل پیدا ہوتے گئے اور کلیات سے جزئیات نکلتے گئے اور کتب فتاویٰ تصنیف ہوتی رہیں۔ ہمارے دور میں جو کتب فتاویٰ مشہور اور زیادہ مروج ہیں وہ یہ ہیں۔
(
۱) فتاویٰ عالمگیری (۲) فتاویٰ شامی (۳) فتاویٰ قاضی خان (۴) فتاویٰ خلاصہ (۵) فتاویٰ بزازیہ (۶) فتاویٰ انقرویہ (۷) فتاویٰ رضویہ (۸) فتاویٰ امجدیہ (۹) بہار شریعت (۱۰) فتاویٰ فیض رسولﷺ وغیرہا

Gurde me Pathri kaisi Paida hoti hai

گردے کیا ہیں؟
 ان میں کیسے پتھری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں حکیم محمد عبداللہ صاحب نے اپنی کتب میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آسان علاج بھی تحریر فرمایا ہے۔ مرحوم کے پاس جو علم تھا وہ کتابوں کی شکل میں عوام الناس تک پہنچا دیا ہے۔ گردہ و مثانہ کا علاج ہم بوجہ مجبوری خود ہی اللہ پر تکیہ رکھ کر کرتے رہتے ہیں مگر ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ پتھری گردہ میں ہے یا مثانہ میں۔ نیم حکیم اور جعلی ڈاکٹر پیٹ کے نچلے حصہ میں چاہے قولنج کا درد ہی کیوں نہ ہو‘ پیسے بٹورنے کی خاطر دردگردہ اور پتھری کی دوا دے دیتے ہیں۔ مرض کچھ دوا کچھ۔۔۔
 ہسپتالوں میں صحیح ڈاکٹر کو دکھانا مشکل ہے۔ سپیشلسٹ کے پاس تو غریب آدمی پہنچ ہی نہیں سکتا کیونکہ مالی استطاعت ہی نہیں۔ دوسرا ڈاکٹر صاحبان کے پاس اتنا رش ہوتا ہے کہ وہ پوری توجہ مریض کو نہیں دے سکتے۔ جو دل میں آیا لکھ دیا۔ ان کا بھی قصور نہیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ روزانہ مریضوں کے ہجوم کو نپٹانا ان ہی کا کام ہے۔ بات کرنے کامقصد یہ ہے کہ ٹھیک دوائی نہ ملنے کی وجہ سے گردے متاثر ہوتے ہیں اور کئی دوسری بیماریاں جنم لینے لگ جاتی ہیں۔ آئیے! ذرا گردوں کے بارے میں جانیں کہ کیا ہوتےہیں اور کہاں ہوتے ہیں؟
گردے نصف دائرہ کی شکل میں دو عضو ہیں جو گیارہویں پسلی کے نیچے پیٹ کی پچھلی طرف کمر میں واقع ہیں۔ گردے جگر سے غذاکے بالکل رقیق حصہ کو جذب کرکے اس میں سے غذا لے کر باقی صاف پانی کو اپنی نالیوں کے ذریعہ مثانہ میں جمع کرتے ہیں۔ جب مثانہ پانی سے بھر جاتا ہے تو نالی کا منہ کھل کر پیشاب بن کر نکلتا ہے جب غلیظ اور مرطوب غذاؤں کا زیادہ استعمال سے لیس دار رطوبتیں جن کے اندر مٹیالے اجزا کا غلبہ ہوتا ہے گردہ یا مثانہ کے اندر اکٹھی ہوکر پڑی رہتی ہیں تو جسم کی حرارت لطیف اجزاء کو ان سے اڑا دیتی ہے اور مٹیالے اجزا باقی رہ جاتے ہیں جو جم کر پتھری کا باعث بنتے ہیں۔
اکثر برف کا پانی یا سردائی یا چاول وغیرہ زیادہ استعمال کرنے سے بوجہ ریح گردہ میں کھچاؤ پیدا ہوکر درد ہونے لگتا ہے۔ پتھری بن جانا نہایت تکلیف دہ ہے جب پتھری مثانہ کے اندر چبھتی ہے تو مریض درد کے مارے لوٹ پوٹ جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پتھری گردہ میں ہے یا مثانہ میں اس کیلئے درج ذیل علامات ملاحظہ فرمائیں۔ 
1۔ اگر ریت یا پتھری گردہ میں ہو تو ایسے مریض کی کمر میں دھیما دھیما درد ہوتا ہے جس کی ٹیسیں خصیتین ران اور بعض اوقات خشفہ تک جاتی ہیں۔ ذرا تیز چلنے‘ دوڑنے‘ سائیکل موٹرسائیکل کی سواری سے درد میں شدت پیدا ہوتی ہے۔
2۔ پیشاب میں بار بار خون ملا آتا ہے کبھی کبھی پیشاب کے بعد خون آتا ہے اگر قبض رہتی ہو تو مریض کو قے بھی ہونے لگتی ہے جب گردوں میں بڑی پتھریاں بن جائیں تو پیشاب میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات پیشاب بند ہوکر زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے۔
اگر مثانہ میں پتھری ہو تو مقام پیڑو اور سیون کے آس پاس سخت درد ہوتا ہے اور خارش بھی ہوتی ہے۔ پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے۔ پیشاب سخت تکلیف سے نکلتا ہے۔ بعض اوقات پیشاب کے ساتھ پاخانہ بھی نکلتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیشاب کرچکنے کے بعد مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ پیشاب کی حاجت باقی ہے۔
پیشاب ان امراض میں گاڑھا ہوتا ہے کام کرتے ہوئے درد محسوس ہوتا ہے۔
تشخیص کی بہترین تدبیر: مریض کو شام کے وقت کسی چینی یا کانچ کے برتن میں پیشاب کرائیں۔ برتن کو ڈھک دیں‘ صبح دیکھیں کہ ریت کس رنگ کی ہے۔ اگر سرخ رنگ کی ہو تو گردہ اور اگر سفید رنگت ہو تو مثانہ کی بیماری ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی قسم کی بوتل سیون اپ یا پیپسی وغیرہ مریض کو پلائیں دو منٹ کے اندر اندر تڑپنا شروع کردے گا۔

اگر مثانہ میں پتھری رک جائے اور تکلیف زیادہ ہورہی ہو تو مریض کو سینے کے بل لیٹا کراسے کہیں کہ وہ اپنے پاؤں اوپرآسمان کی طرف اٹھائے اوراُس کی پیڑو کی ہڈی پر گرم پانی ڈالیں اور نیچے سے اوپر کو ملیں تو اس طرح مریض کو پیشاب کُھل کر آئے گا اور وہ تکلیف میں بالکل آرام محسوس کرے گا۔ گردہ اور مثانہ کے مریض کو آلو‘ اروی‘ ارد کی دال‘ باجرہ کی روٹی‘ بینگن‘ مسور کی دال‘ ٹماٹر‘ انڈا پالک‘ چاول‘ دال ماش‘ گوبھی‘ مٹر‘ ٹھنڈا پانی سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ جو بھی کسی اور بیماری میں مبتلا ہوں انگریزی ادویات کھارہے ہوں وہ لازمی طور پر صاف ستھرا پانی کثرت سے استعمال کریں۔ کیونکہ پانی کی کمی سے گردے متاثر ہوتے ہیں۔
...................
از حکیم محمد عرفان الحق چشتی