وہابیوں کی نہ امامت قبول ہے نہ قیادت قبول

سب سے پہلے ملک ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے زیر انتظام "انٹر نیشنل صوفی کانفرنس" کا انعقاد ہوا دیکھتے ہی دیکھتے ملک، بیرون ملک میں بھی اہل السنہ کے پروگرام اس موضوع پرکرنے کا عوام و خاص کا ذہن بھی بن گیا اور ہونا بھی یہی چاہیئے تھا کیونکہ ہم اہل السنہ ہیں اور جو نعرہ ہمیں "آل انڈیا و مشائخ بورڈ "نے دی ہے وہ یہی  ہے کہ "وہابیوں کی نہ امامت قبول ہے نہ قیادت قبول "۔
سوال یہ ہوتاہے کہ بورڈ کو انٹر نیشنل صوفی کانفرنس کی ضرورت کیوں  پڑی؟؟؟؟
تو آئیے ہم بتاتے ہیں کہ....
بورڈ کے صدر اشرف ملت حضرت سید محمد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی صاحب قبلہ یورپ و عرب ، ترکی اور خلیج کے ملکوں میں امن عالم، صوفیہ اور مذاہب عالم اور عالمی امن کے موضوع پر ہونے والی کانفرنسوں اورعالمی سیمیناروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے علمائے اہل سنت ومشائخ کرام بھی جاتے ہیں۔وہاں انہوں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ ہندوستان کے دیوبندی ، وہابی یہاں صوفی اور سنی کی حیثیت سے شریک ہورہے ہیں ۔ کوئی چشتی ہے تو کوئی صابری ، کوئی قادری ہے تو کوئی نقشبندی،کوئی سہروردی ہے تو کوئی مجددی اور یہی جب سعودی عرب میں جاتے ہیں تو وہابی ہوجاتے ہیں اور ہندوستان کے سنی مسلمانوں کو بریلوی اور قبرپرست کہتےہیں۔
اس لئےیہ طے کیا گیا کہ ان تمام بڑے عالمی شہرت یافتہ صوفیہ اور مشائخ کو ہندوستان میں ایک جگہ ہندوستان کے صوفیہ مشائخ کے ساتھ جمع کردیا جائے توحقیقت کا چہرہ واضح ہوجائے گا کہ اصلی اور حقیقی صوفی اور سنی کون ہے اور نقلی وجعلی صوفی کون ہیں اور اب تک انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو کس دھوکے میں رکھاہے۔
(بحوالہ:اعلامیہ 2016/1437 صفحہ 18)
الحمد للہ انٹر نیشنل صوفی کانفرنس میں بیرون ملک کے دوسو علماء  کے علاوہ ، سجادہ گان، ادباء، مفتی،اسکالر، شيوخ 'مفكرين اور ہندوستان کے بیشترخانقاہوں ودرگاہوں کے سجادہ گان  شامل تھےا ورساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور قوم کے تمام دانشوران شامل بھی تھے۔ جس کو آپ بورڈ کے ویب سائٹ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
"ماضی قریب میں چیچنیا میں منعقدہ کانفرنس "من هم اهل السنة والجماعة ؟؟؟؟"
(سنی کون)؟؟؟؟؟؟
ميں تقریباً پوری دنیا سے دو سو سے زائد علماء ' ادباء ' شيوخ ' اور مفكرين نے شرکت فرمائی!
سب كا متفق علیہ بيان كہ اہلسنت والجماعت كا إطلاق فقط اشاعرہ ' ماتریدیہ اور فضلائے حنابلہ پہ ہوتاہے اسکے علاوہ سب گمراہ اور خوارج میں سے ہیں !!!
وہابیہ نہ اشاعرہ 'ماتریدیہ ہیں اور نہ ہی فضلائے حنابلہ كے عقائد پہ ہیں بلکہ مجسمہ 'مشبہ' اور حشویہ ہیں !!!!!
نجدی تیرا ٹھکانہ کیا
تو تو کٹی پتنگ ہے !!!
تو آئیے ہم بھی  آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ میں اپنی  رکنیت حاصل کریں اور مظبوط و مستحکم بنائیں۔
الداعی: آل رسول احمد کٹیہاری
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ لکھنؤ





All India Ulama & Mashaikh Board Meeting on 22 August 2016 in Lucknow










All India Ulama & Mashaikh Board Meeting on 2 Sep 2016 in Lucknow























سید محمد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی





مختصر تعارف
اشرف ملت  حضرت مولانا سید محمد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی
نام....... سید محمد اشرف
والد کا نام ..... شیخ اعظم سید محمد اظہار اشرف علیہ الرحمہ
والدہ کا نام .....سیدہ نزہت فاطمہ
دادا کا نام.....حضور سرکارکلاں سید شاہ مختار اشرف  علیہ الرحمہ
لقب.... اشرف ملت
تاریخ پیدائش...... 5/جولائی1966 ء بروز دوشنبہ
پیرکا نام...... غوث الوقت سید شاہ مختار اشرف سرکارکلاں علیہ الرحمہ
مرشد کانام..... شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف سجادہ نشین علیہ الرحمہ
بانئ تحریک: آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ
تعلیم وتربیت:
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی ۔ پھر جامعہ نعیمیہ مرادآباد جاکر چند سالوں تک زیر تعلیم رہے۔ پھر وہاں سے منتقل ہوکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئےاور یہاں باقاعدہ سائنس سے گریجویشن کیا۔پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں گریجویشن کیا ۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے تجارت میں قدم رکھا ، لیکن اس میدان میں آپ کا جی نہ لگا۔ آپ ہمیشہ سے علم دوست رہےاس لئے علمی اور روحانی کاموں سے آپ کو زیادہ دلچسپی رہی۔ علماء کی صحبت میں وقت گزارنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے ۔ آخرکار آپ نے تجارت کو خیرباد کہا اور اس عظیم الشان کا بیڑا اٹھایا جس کے لئے قدرت نے آپ کو پیدا کیا تھا جو اب تک آپ کی زندگی پر چھایا ہوا ہے۔
والدین سے گہری وابستگی:
آپ اپنے والد ماجد حضور شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے منجھلے صاحبزادے ہیں ۔ آپ گھر میں سب کے چہیتے ہیں ۔ شروع ہی سے آپ پر ماں باپ کی شفقت ومحبت کا سایہ رہا ۔
حضورشیخ اعظم علیہ الرحمہ آپ کی خواہش اور ارادوں کا بڑا لحاظ فرماتے تھے ۔ بڑے ہوجانے کے باوجود آپ کی والدہ ماجدہ آپ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت کے لئے ہمیشہ حاضر رہا کرتے یہاں تک کہ جب ایک بار والدہ سخت بیمار پڑیں اور ڈاکٹروں نے انہیں خون چڑھانے کی ضرورت محسوس کی تو آپ نے اپنا خون دے کر اپنی والدہ ماجدہ کی عظیم خدمت انجام دی۔
شیخ اعظم علیہ الرحمہ اپنی مجلسوں میں برابر اشرف ملت کی خوبیوں اورصلاحیتوں کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ باربار دیکھا گیا ہے کہ اشرف ملت کو اپنی غائبانہ دعاؤں سے نوازا کرتے ہیں اور دعاؤں کے وقت ان کی آنکھیں نمناک اور لہجہ افسردہ ہوجایا کرتاہے جواس بات کی کھلی دلیل تھی کہ شیخ اعظم اپنے صاحبزادے کے حق میں دل کی تما م گہرائیوں کے ساتھ دعا کرتے تھے جس کا اثر آج اشرف ملت کی انقلاب آفریں شخصیت میں دیکھا جارہا ہے ۔
اشرف ملت کی والدین کریمین سے گہری وابستگی ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ کو اپنے والدین کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہوااور جب دوسری مرتبہ آپ اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ حج کےلئے گئےتو والد گرامی حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کو بیت اللہ شریف میں امامت کی اجازت دی اور خود شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے اشرف ملت کی اقتدامیں نماز ادا کی جو آپ کی عزت ومنزلت کی روشن گواہی ہے ۔  یہ کوئی 1999 ء کا واقعہ ہے۔
اس کے بعد آپ کی خدمتِ دین کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اورعلمی ، اخلاقی، تبلیغی واشاعتی شعبوں میں سرگرم رہےجس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہیں:۔
مختاراشرف لائبریری میں بحیثیت ڈائکریکٹر:
"مختار اشرف لائبریری" جسے شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے والد گرامی حضور سرکارکلاں کے نام سے منسوب کرکے قائم کیا اور اس کی ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش کرڈالی اور اشرف ملت کو اس لائبریری کا ڈائریکٹر نامزد کرکے اس کی ترقیوں کی راہیں مزید کشادہ اور روشن کردیں۔
اشرف ملت  مختار اشرف لائبریری کی افادیت کے پیش نظر ریسرچ اسکالروں اور قلم کاروں سے رابطہ کرکے تحقیق وریسرچ اور تصنیف وتالیف کے شعبہ کو مستحکم ، پائیدار اور نفع بخش بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے اور آج کی تاریخ میں " مختار اشرف لائبریری" کا نام ہندوستان کے مشہور لائبریریوں میں شامل ہیں۔
ماہنامہ غوث العالم میں بحیثت چیف ایڈیٹر:
ماہنامہ غوث العالم (اردو)  پہلے یہ سہ ماہی تھا کچھ سالوں کے بعد ماہنامہ میں تبدیل کیا گیا ۔
حضور اشرف ملت  دامت برکاتہم العالیہ نے جب ہندوستان  کے دوردراز علاقوں کا دورہ کیا تو انہیں محسوس ہواکہ مجلہ کی اردو زبان کماحقہ تبلیغی مشن کی ترجمانی نہیں کرپارہی ہے کیونکہ ہندوستان میں اردو سے کئی گنا زیادہ ہندی قارئین کی تعداد ہے اور پھر جب ملک کے بہت سارے صوبوں سے ہندی قارئین کی مانگ بڑھنے لگی تو آپ نے ماہنامہ غوث العالم کا اردو کا ساتھ ساتھ ہندی ایڈیشن بھی جاری کئے   اور کئی سالوں تک شائع ہوئی اور قارئین اس سے مستفیض ہوتے رہےمگر فی الوقت کچھ وجوہات کے بنا  پر روک دیا گیا ہے ان شاء اللہ بہت جلد یہ سلسلہ جاری کیا جائے گا۔
غوث العالم میموریل سوسائٹی کا قیام:
اشرف ملت جس وسیع ترین مقصد کو بام عروج تک پہونچانے کی فکر میں تھے وہ صرف مختاراشرف لائبریری کی ڈائریکٹری یا ماہنامہ غوث العالم کی چیف ایڈیٹری سے ممکن نہ تھا اس کے لئے ایک وسیع تحریک اور کھلے میدان کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ آپ نے غوث العالم میموریل سوسائٹی کا بیڑہ اٹھایا  اور ایک ایسی تحریک شروع کی جو اپنے اغراض ومقاصد کے اعتبار سے ایک ملک گیر تحریک ہے جس میں دینی ، روحانی، اورعلمی واخلاقی اصلاح تو مطلوب ہی ہے ساتھ ہی ساتھ معاشی اور سیاسی حالات کا تزکیہ بھی مدنظر ہے ۔ جگہ جگہ اس سوسائٹی کے مختلف شعبوں برانچز بھی قائم ہوئیں اور اسی طرح کم وقتوں میں تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی۔
اس سوسائٹی کی سرپرستی اشرف ملت کے والد بزگوارحضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے قبول فرمائی تھی ۔ اشرف ملت کے اس کام سے وہ اس قدر خوش ہوئے تھے کہ آپ نے فوراً ہی غوث العالم میموریل سوسائٹی کے تعلق سے اپنا ایک حمایت نامہ جاری کردیا تھا جو ماہنامہ غوث العالم کے مارچ 2004 ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ وہ حمایت نامہ  حسب ذیل ہیں :
جامع اشرف کے قیام کے بعد سے ہی میری دیرینہ خواہش تھی کہ اس دینی درسگاہ کے ساتھ ساتھ ایک ایسا دینی ، ملی وفلاحی ادارہ بھی ہو جس کے دائرہ کار اتناوسیع ہوکہ ا س کے تحت دینی ، علمی ملی اور فلاحی کا م ملک گیر پیمانے پر کئے جائیں اور جس کے ذریعے مسلمانوں کی دینی وملی ضرورتوں کو عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پورا کیا جاسکے۔ وہ اپنی جگہ ایک علمی درسگاہ بھی ہو۔ایک اسلامی ریسرچ سنٹر بھی ہو۔ایک اشاعتی مرکز بھی ہو اور ایک اسلامی تنظیم بھی۔
الحمد للہ میرے خواب کو میرنے فرزند ارجمند عزیزم مولانا سید محمد اشرف میاں صاحب بانی و چیئرمین غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی نے غوث العالم میموریل ایجوکیشنل  سوسائٹی کو قائم کرکے پورا کردیا۔
بحمدہ تعالیٰ صرف دوسال کی قلیل مدت میں اس سوسائٹی نے بڑے بڑے دینی ، علمی، تحقیقی اور فلاحی کا م انجام دئیے۔
اس وقت اس کے اہتمام و انتظام میں کئی دینی مدرسے چل رہے ہیں۔
اب تک اس کی جانب سے ایک درجن سے زیادہ دینی کتابیں اور رسالے شائع ہوچکے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔
ماہنامہ غوث العالم اردو( ہندی) سوسائٹی کے زیر اہتمام پابندی  کے ساتھ نکل رہا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کو دینی معلومات حاصل ہورہی ہیں اور سلسلہ اشرفیہ کے مریدین اورعقیدت مندوں کو خانقاہ اشرفیہ کی روحانی ودینی خدمات سے واقفیت حاصل ہورہی ہے اور بزرگان خانوادہ اشرفیہ کے حالات سےبھی آگاہی حاصل ہورہی ہے۔
غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کی شاخیں ملک کےمختلف گوشوں میں قائم ہورہی ہیں ان شاء اللہ اس کا دائرہ بھی مستقبل قریب میں بہت وسیع ہوجائے گا۔
غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اس کے تمام دینی ، علمی اور فلاحی کاموں میں شریک ہوں اور اس کی بھر پور حمایت کرتا ہوں اور اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو خصوصاً اور عوماً تمام مسلمانوں کو اس کے دینی ، علمی اور فلاحی کاموں میں شریک ہونے کی ترغیب دیتاہوں اور اپنے  فرزند ارجمند مولانا سید محمد اشرف میاں صاحب بانی و چیئرمین غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کو حوصلہ دیتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ مولیٰ تعالیٰ عزیزموصوف کی اس دینی تحریک کو کامیاب فرمائے اور سوسا ئٹی کے تمام اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہونچائے اور اس معاونین واراکین وکارکنان کو دنیا وآخرت میں بہتر بدلہ عطافرمائے آمین ۔
میری دعائیں اور نیک تمنا ئیں اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
فقط  ۔ دعاگو
(دستخط حضور شیخ اعظم)
سید محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی  (سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف وسرپرست غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں درگاہ کچھوچھہ شریف)
ملک گیر تبلیغی دورے:
اشرف ملت آرام سے بیٹھنے کا مزاج نہیں رکھتےکچھ نہ کچھ کرتے رہنا ان کی طبیعت ثانیہ ہے ۔ خدمت دین کے جذبوں سے ان کا دل لبریز ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے بڑےبڑے صوبوں میں تبلیغی مہم چھیڑ رکھی ہے مختلف شہروں میں آپ کے تبلیغی دورے ہورہے ہیں آپ گھر گھر جاکر لوگوں کو اسلام و سنیت اور خانقاہی مشن سے قریب تر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اس کے لئے آپ کے تین مخصوص طریق کار ہیں۔
جلسہ خطابت
مجلسی گفتگو
تعویذ نویسی
ان تینوں میں سب سے زیادہ اثر انگیز اور دلچسپ طریق کار آپ کی مجلسی گفتگو ہے یہی وجہ ہے کہ آپ مجلسی گفتگو میں بیٹھنے والا بہت جلد آپ گروید ہ  ہوجاتا ہے اور آپ کے حلقے ارادت میں داخل ہوجاتا ہے آپ کی مجلسی گفتگو محض وقت گزاری یا دل لگی کا سامان نہیں ہوتی جیساکہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ آپ کو ہمیشہ ہی کام کی باتیں وہ بھی اشاعتی اور تبلیغی امور سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔
اشرف ملت کی خطابت بھی اپنا جواب آپ ہے  یقیناً بزرگوں کی دعاؤں کا ثمرہ ہے آپ روایتی خطابت سے گریز کرتے ہیں آپ کی خطابت میں فکر تجربہ سائنسی معلومات اور دعوت  کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
تعویذ نویسی کے بارے میں آپ کا یہ مشغلہ محض للہیت ، خلوص ومحبت اور انسان ہمدردی کا بہترین نمونہ ہے آپ کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ "میں تعویذ کو تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ سمجھتاہوں"۔
یقیناً یہ لوگوں کو اپنے مشن سے جورنے کا ایک بہترین اور نفع بخش ذریعہ ہے ۔ 1999 ء میں عرس سرکارکلاں کے موقع پر جب آپ کو حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ  سے اجازت و خلافت حاصل ہوئی تو اس وقت سے لیکر آج تک آپ علمی وروحانی مشن کو لے کر برابر آگے بڑھ رہے ہیں۔
آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ:
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ اہل سنت والجماعت کی آواز ہے ۔ جس کی وابستگی خانقاہوں ، درگاہوں، اور سجادہ نشینوں سے ہےا ور اس کو چلانے والوں میں علماء، مشائخ، مفتی اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور قوم کے تمام دانشوران شامل ہیں۔
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کا مقصد اہلسنت والجماعت کو اس کا حق دلانا ہے اور اس کی ہر لحاظ سے مدد کرنا ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ یہ تمام امور لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں اور اسلام کی پیغام عام کرتے ہیں لیکن اس تمام کارکردگی ا س وقت تک ناکافی ہے جب تک تمام لوگ اپنے اپنے اعتبار سے ا س کی کارکردگی میں شامل نہ ہوں اور ہم اس وقت تک قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کرسکتے جب تک ہم اجتماعی طور پر اپنا طریقۂ کار نہ بدل لیں یہ ہمارے لئے اور ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اسی نیک مقصد کی غرض سے آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی تشکیل ہوئی ہے ۔
2005 ء میں یہ تحریک شروع ہوتی ہے اور صرف گیارہ سالوں میں بلندی اور مقبولیت کے اس مقام پر پہونچتی ہے کہ سیاسی گلیارے اور حکومتوں اورمیڈیا کی نگاہ میں آج اس کی دھمک محسوس کی جارہی ہے ۔ کچھوچھہ شریف میں 9،10 رجب المرجب کو منعقد ہونے والے سالانہ عرس سرکارکلاں کے موقع پر 2005 میں بورڈ کی پہلی نشست ہوئی جس میں تحریک کا نام "آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ" رکھا گیا  ۔
اس قت اس کی مقبولیت کا کوئی جواب نہیں ہے ملک ہندوستان کے زیادہ تر صوبے میں اس کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔
گزشتہ ایک عشرے سے یہ بورڈ اہل تصوف اور اہل خانقاہ کے حق میں آوازیں بلند کرتا رہا ہے ۔20 مارچ 2016 میں بورڈ نے "ورلڈ صوفی فورم" کا انعقاد کیا ،جس کے پروگرام میں ایک روزہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس اور دو روزہ انٹر نیشنل صوفی سمینار کا انعقاد شامل تھا ۔ یہ بورڈ کا بہت بڑا فیصلہ تھا جس کے لئے مدتوں اس کی تحسین و ستائش کی جاتی رہے گی۔
انٹر نیشنل صوفی کانفرنس کی ضرورت کیوں پڑی؟
بورڈ کے صدر حضرت سید محمد اشرف اشرفی الجیلانی (اشرف ملت) یورپ و عرب ، ترکی اور خلیج کے ملکوں میں امن عالم، صوفیہ اور مذاہب عالم اور عالمی امن کے موضوع پر ہونے والی کانفرنسوں اورعالمی سیمیناروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے علمائے اہل سنت ومشائخ کرام بھی جاتے ہیں۔وہاں انہوں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ ہندوستان کے دیوبندی ، وہابی یہاں صوفی اور سنی کی حیثیت سے شریک ہورہے ہیں ۔ کوئی چشتی ہے تو کوئی صابری ، کوئی قادری ہے تو کوئی نقشبندی،کوئی سہروردی ہے تو کوئی مجددی اور یہی جب سعودی عرب میں جاتے ہیں تو وہابی ہوجاتے ہیں اور ہندوستان کے سنی مسلمانوں کو بریلوی اور قبرپرست کہتےہیں۔
اس لئےیہ طے کیا گیا کہ ان تمام بڑے عالمی شہرت یافتہ صوفیہ اور مشائخ کو ہندوستان میں ایک جگہ ہندوستان کے صوفیہ مشائخ کے ساتھ جمع کردیا جائے توحقیقت کا چہرہ واضح ہوجائے گا کہ اصلی اور حقیقی صوفی اور سنی کون ہے اور نقلی وجعلی صوفی کون ہیں اور اب تک انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو کس دھوکے میں رکھاہے۔
(بحوالہ:اعلامیہ 2016/1437 صفحہ 18)
مستقبل کے منصوبے:
ایسے تو آپ کے کئی بڑے بڑے منصوبے ہیں مگر اولین منصوبوں میں ایک مدرستہ البنات کا قیام اور دوسرے طبیہ کالج کا سنگ بنیاد ۔
مدرسۃ البنات خاص طور سے اس نظریے پر قائم ہوگا کہ لڑکیوں کے لئے عالمہ کورس کا انتظام کیا جائے اور یہاں سے لڑکیاں عالمہ بن کر نکلا کریں۔
اشرف ملت کی محبوب و مقبول شخصیت :
جس طرح اپنی تحریک کی وجہ سے عروج واقبال کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اسی طرح آپ اپنی شخصیت اور عادات واطوار کی بنیاد پر بھی ہر دل عزیز نظر آتے ہیں  لوگوں کی مزاج پرسی، تبسم آمیز ملاقاتیں دلجوئی وغمگساری یہ سب آپ کے نمایاں اوصاف ہیں طبیعت میں انکساری پایا جاتا ہے فکر میں گہرائی تجربے میں پختگی اور گفتگو و شنید میں تحمل و تدبر کا عنصر شامل رہتا ہے ۔ آپ سے باتیں کرنےوالا نہ اکتاہت محسوس کرتا ہے اور نہ کبیدگی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے گردوپیش عقیدتمندوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اشرف ملت کا سایہ ہم تادیر قائم رکھے تاکہ انکی چھیڑی ہوئی تحریک ایک وسیع اور ہمہ گیر تحریک کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔
تمام اہلسنت وجماعت کا اخلاقی فریضہ ہے کہ اولین فرصت میں بورڈ کے ممبر بنیں اور اہلسنت و جماعت کو مظبوط سے مظبوط بنائیں۔
آلِ رسول احمد  کٹیہاری
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ لکھنؤ
موبائل نمبر :7317830929
Website: aiumb.com
Email: aiumbdel@gmail.com



آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ



آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ اہل سنت والجماعت کی آواز ہے ۔ جس کی وابستگی خانقاہوں ، درگاہوں، اور سجادہ نشینوں سے ہےا ور اس کو چلانے والوں میں علماء، مشائخ، مفتی اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور قوم کے تمام دانشوران شامل ہیں۔
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کا مقصد اہلسنت والجماعت کو اس کا حق دلانا ہے اور اس کی ہر لحاظ سے مدد کرنا ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ یہ تمام امور لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں اور اسلام کی پیغام عام کرتے ہیں لیکن اس تمام کارکردگی ا س وقت تک ناکافی ہے جب تک تمام لوگ اپنے اپنے اعتبار سے ا س کی کارکردگی میں شامل نہ ہوں اور ہم اس وقت تک قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کرسکتے جب تک ہم اجتماعی طور پر اپنا طریقۂ کار نہ بدل لیں یہ ہمارے لئے اور ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اسی نیک مقصد کی غرض سے آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی تشکیل ہوئی ہے ۔
ہماری تاریخی سچائی اور موجودہ وقت کی ضرورت: ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جس وقت ہندوستان انگریزوں کے تسلط میں تھا اور آزادی کی پہلی جنگ (غدر) جو 1857 ء میں واقع ہوئی  اس میں جس علامہ کے فتوے سے پوری جماعت نے منظم ہوکر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، جس کے نتیجے ہم کو آزادی حاصل ہوئی وہ علامہ اکابر اہل سنت میں سے تھے اور پوری سنی جماعت جو خانقاہوں سے وابستگی رکھتی تھی اس نے اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ میں حصہ لیا  لیکن آزادی کے بعد ہماری جماعت کے مشائخ اوراکابرین نے اپنی روش کو اسی راہ میں گامزن رکھا جس پر ہمارے اسلاف تھے یعنی دین  کی نشر واشاعت اورلوگوں کو روحانی اور جسمانی فیوضات سے مستفیض کرنا یقینا ً یہ انہی کا کام تھا جو انہوں نے بخوبی انجام دیا لیکن جماعت کے دوسرے افراد بتقاضۂ وقت قوم کی سیاسی حالات پر نگاہ نہ رکھ پائے جس کی وجہ سے ہم سیاسی معاملات سے بہت دور ہوگئے ہمارے اکابرین نے ملک کی آزادی میں بڑی عظیم قربانیاں دی تھیں لیکن اس کے بعد حکومتی معاملات میں ہمارا دخل نہ کے برابر ہوگیا ۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ آزادی کے بعد ہمارے سامنے مذہبی اور معاشی اور کئی طرح کے مسائل تھے  جس کی وجہ سے ہم حکومتی معاملات میں اپنی حصہ داری نہ رکھ پائے اور ہم بچھڑتے گئے ۔ آخری پچاس سالوں میں ہماری جماعت کے کچھ ہی لوگ دیوان عام اور دیوان خاص تک پہونچے ہیں جو ہماری جماعت کے لئے ناکافی ہے حقیقت یہ ہے کہ حکومتی معاملات سے آج بھی یہ جماعت نہایت دور ہے اور آج بھی ہم سینٹرل وقف بورڈ، وقف بورڈ، حج کمیٹی، عربی  ، فارسی ، اردو کے بورڈ اقلیت بورڈ سے بہت دور ہیں اور سیاسی اعتبار سے آج بھی جب ہم کسی چھوٹی یا بڑی سیاسی جماعت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہماری جماعت کی حصہ داری اس میں نہ کے برابر ہوتی ہے ۔ حکومتی معاملات یا دیگر تمام معاملات میں ہماری تعداد نہ کے برابر ہے جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ ہندوستان میں اہل سنت والجماعت یعنی درگاہوں سے وابستگی رکھنے والے حضرات کی تعداد 75 فیصد ہے ۔
اب وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ سنی علماء، مشائخ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور قوم کے تمام دانش واران حضرات ایک منظم شکل اختیار کریں اور پوری جماعت میں ایک ہی پیغام نشرکریں اور شہر یا صوبائی سطح پر سنی کانفرنس کی جائیں اور اپنی تعداد اور طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہ کام اتنا آسان تو نہیں ہوگا لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے ۔ اگر ہم نے یہ کام کرلیاتو حکومتی معاملات میں ہماری حصہ داری بڑھ جائے گی اور معاشرتی لحاظ سے ہم مظبوط ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ
لہذا تمام اہلسنت وجماعت کا اخلاقی فریضہ ہے کہ اولین فرصت میں اس کے ممبر بنیں اور اہلسنت و جماعت کو مظبوط سے مظبوط بنائیں۔
شائع کنندہ: آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ لکھنؤ
ٹائپنگ : آلِ رسول احمد الاشرفی القادری

वहाबियों की साजिश


नई दिल्ली,
सूफी मुसलमानों की संगठन ऑल इंडिया उलमा व मशाईख बोर्ड ने जमीअतुल उलेमा की अचानक अजमेर शरीफ की तारीफ करने और वहाबियत से परहेज पर आश्चर्य व्यक्त करते हुए यह सवाल किया है कि तकरीबन 100 साल बाद जमीअतुल उलेमा के विचार में अचानक परिवर्तन का कारण भारतीय मुसलमान को गुमराह करने की कोशिश के सिवा और क्या है सकता है ???
हज़रत मौलाना सैयद मोहम्मद अशरफ अशरफी अल-जिलानी किछौछ्वी ने यहां आज एक बयान में कहा कि राजस्थान के महासचिव का यह बयान सरा सर धोके पर आधारित है कि उनका सिलसिला वहाबियत से नहीं, बल्कि चिश्तिया से है।
मौलाना सैयद मोहम्मद अशरफ अशरफी अल-जिलानी किछौछ्वी ने कहा कि यह पहला मौका नहीं जब वहाबी विचारधारा ने चौला बदल मुसलमानों को धोखा देने की कोशिश की हो। इतिहास गवाह है जब भी उन्हें उलेमाए अहले सुन्नत ने उजागर किया वह अपने चेहरे पर कोई नया चेहरा डाल कर लोगों की हमदर्दी बटोरने का ढोंग किया है।
सैयद मोहम्मद अशरफ अशरफी अल-जिलानी किछौछ्वी ने सवाल किया कि अगर वाकई इन लोगों का संबंध वहाबियत से नहीं है तो जमीअतुल उलेमा के पदाधिकारियों और कार्यकर्ताओं से अपने पूर्वजों के इन लेखों, भाषणों, बयानों और मान्यताओं और सिद्धांतों का खंडन संभव होगा जिनमें खुद को वहाबी कहने के शब्द मौजूद है।
सैयद मोहम्मद अशरफ किछ्वछवी ने कहा कि मौलाना खत्री कासमी ने खुद इस बात को स्वीकार किया है कि पहली बार देश भर के दरगाहों के सजादगान को जमीअतुल उलेमा किसी सम्मेलन में भाग लेने के लिए आमंत्रित किया है। सवाल यह है कि क्यों ???
इससे पहले उन्हें आमंत्रित करने की जरूरत क्यों नहीं पड़ी???
 सरकार गरीब नवाज की सेवाओं को स्वीकार आज कर रहे हैं, जबकि 100 सौ साल का समय बीत गया अब तक उन का ख्याल नहीं आया .जमीअतुल उलेमा राजस्थान के महासचिव ने कहा कि पहली बार नातिया मुशायरा भी होगा। उन्होंने इस बात का भी बयान कि भारत में जो वहाबी विरोधी आंदोलन चल रही हैं, जमीअतुल उलेमा भी इस आंदोलन का लक्ष्य है, इसीलिए उन्हें सफाई की जरूरत पड़ गई।
मौलाना सैयद मोहम्मद अशरफ अशरफी अल-जिलानी किछौछ्वी ने सवाल किया कि आज क्यों दरगाह, सज्जादा नशीन, और सूफी से अचानक मुहब्बत पैदा हो गई ???
सैयद मोहम्मद अशरफ अशरफी अल-जिलानी किछौछ्वी ने कहा कि यह चोला बदलने और गुमराह करने की साजिश है जिससे भारतीय मुसलमानों को सावधान रहने की जरूरत है।
ऑल इंडिया उलमा व मशाईख बोर्ड से जुड़ने और जोड़ने के लिए संपर्क करें
All India Ulama & Mashaikh Board
Head office: 20-Johri Farm, 2nd Floor, Lane No. 01, Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-25
Contact No. +91-9212357769,
State office UP. 106/73, Nazar Bagh, Cantt. Road Lucknow-226001
Contact No. +91-7317380929, +91-9936459242
Website: www.aiumb.org





مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے

جواب: مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے۔
جیسا کہ حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا۔ اب زیارت کیا کرو۔ ( مسلم شریف ، کتاب الجنائز، ،حدیث نمبر 2260، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)
سوال: کیا حضورﷺ بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے؟
جواب: جی ہاں! حضور علیہ السلام بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی۔ آپﷺ نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپﷺ کے ساتھ تھے وہ بھی روئے۔ (مسلم شریف ، کتاب الجنائز،حدیث 2258، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)
فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں:
امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔ (رد المحتار ، باب مطلب فی زیارۃ القبور ،مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپﷺ کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے .(تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)
سوال: کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی کسی کے مزار پر جاتے تھے؟
جواب: جی ہاں! صحابہ کرام علیہم الرضوان حضورﷺ کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔ یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)
فائدہ: زیارت مزار کے ساتھ، صاحب مزار سے مدد طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے۔
حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )
سوال: حدیث شریف میں ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف) کے سوا کسی جگہ کا سفر نہ کیا جائے۔ پھر لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کی نیت سے سفر کیوں کرتے ہیں؟
جواب: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مسجدوں میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ چنانچہ مسجد الحرام میں ایک نمازکا ثواب ایک لاکھ کے برابر مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے۔ لہذا ان مساجد میں یہ نیت کرکے دور سے آنا چونکہ فائدہ مند ہے، جائز ہے۔ لیکن کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا ’’یہ سمجھ کر ‘‘کہ وہاں ثواب زیادہ ملتا ہے۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ ہر جگہ کی مسجد میں ثواب یکساں ہے اور حدیث میں اسی نیت سے سفر کو منع فرمایا ہے۔ آج لوگ تجات کے لئے سفر کرتے ہیں۔ علم دین کے لئے سفر کرتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے سفر کرتے ہیں اور بے شمار دنیاوی کاموں کے لئے مختلف قسم کے سفر کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب سفر حرام ہوں گے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سارے سفر جائز ہیں اور ان کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ تو پھر مزارات اولیاء کے لئے سفر کرنا ناجائز کیوں ہوگا بلکہ لاکھوں شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں۔ میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہے اور ان کے مزار پر آتا ہوں۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر اﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)
فائدہ:امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے۔کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا؟
محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں: امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی۔ (تہذیب التہذیب، حروف العین المہملہ، مطبوعہ دارالفکر،بیروت)