Sufi Seminar Lucknow Articles



















خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے : آل رسول احمد


خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے : آل رسول احمد

خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم شہادت کے موقع پر آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے صوبائی دفتر لکھنؤ کے آفس نگراں مولانا آل رسول احمد (AIUMB لکھنؤ) نے نماز جمعہ سے قبل سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد سات برس تک مکہ میں قیام کے دوران اسلام کی ترویج و اشاعت اور مسلمانوں کی مدافعت میں قریش سے نبردآزما رہے،مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی،عزم و ہمت سے برداشت کرتے رہے،رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا اثر تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت کی شدت شریعت اسلام کے تابع ہو چکی تھی،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کے سامنے غضب الہی سے متعلق آیات تلاوت کی جاتیں تو آپ پر گریہ طاری ہو جاتا تھا،آپ کی شخصیت بیک وقت سخت گیری اور رقت و نرمی کا مظہر تھی، آپ قرآنی حکم اشداء علی الکفارورحماء بینھم کی عملی تصویر تھے،آپ رضی اللہ عنہ جب اپنی رائے کو صحیح و درست سمجھ لیتے تو کمال جرات سے اسے پیش کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حدیث رسول کے حوالے سے کہا کہ’’عمر کی زبان پر اللہ نے حق کو جاری کردیا تھا۔یہی وجہ سے کہ شراب کی حرمت،مسلمان عورت کے لیے پردے کا حکم،غزوہ بدر کے اسیروں کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید،رئیس المنافقین عبداللہ ابن سلول کے نماز جنازہ نہ پڑھے کے حوالے سےآپ کی رائے کے موافق وحی الہٰی کانازل ہونا، برات اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور مقام ابراہیم کو مصلٰی بنانے سمیت کئی معاملات میں27 آیات کو اللہ کریم نے آپ کی رائے کے موافق نازل فرمائیں۔
انہوں نے کہاکہ آپ رضی اللہ کے دور میں مفتوحہ علاقے کا رقبہ ۲۲۵۱۰۳۰؍مربع میل تھا،جن میں شام،مصر،جزیرہ، خوزستان،عراق، عجم،آرمینیہ، آذر بائیجان،فارس،کرمان،خراسان، بلوچستان اوربیت القدس (فلسطین) سمیت کئی اہم علاقے شامل تھے۔دور فاروقی میں نظام حکومت کو چلانے اور فیصلہ سازی کے حوالے سے حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنھم اور انصار کے نمائندوں پر مشتمل مجلس شورٰی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا،جب کہ تمام مقبوضہ ممالک کو ۸؍ صوبوں مکہ،مدینہ،شام، جزیرہ،بصرہ،کوفہ،مصر اور فلسطین میں تقسیم کرکے گورنروں کی تقرری کے علاوہ میر منشی،کلکٹر،پولیس افسر،صاحب بیت المال اور منصف (قاضی) کو بھی متعین کیا گیا،اسی طرح عوام کے مسائل کے بروقت حل کے لیے اضلاع اور تحصیلوں میں بھی مزید تقسیم عمل میں لائی گئی تھی،آپ اپنے دور خلافت میں سوائے پہلے سال کے ہر سال امارت حج خود فرمایا کرتے تھے، ان ایام حج میں تمام عمال مکہ میں حاضر ہوتے تھے،اس موقع پر امیرالمومنین کھلی کچہری لگاتے اور عوام کی شکایات کو سن کر اس کے ازالہ کے فرامین جاری فرماتے تھے۔خراج کے نظم و نسق کے حوالے سے صیغہ خراج،محکمہ قضاء،محکمہ افتاء،پولیس،صیغہ فوج،جیل خانہ جات،بیت المال،صیغہ تعلیم،صیغہ امور دینیہ جس کے ذریعے مکاتب کاقیام،علماء و فقہاء کا تقرر اور ان کی تنخواہوں سمیت دیگر ضروریات کا انتظام،ائمہ کاتقرر اور درس و تدریس کا انتظام کیا جاتا تھا، محکمہ برائے مفاد عامہ کے قیام کے ساتھ نئے شہر بصرہ،کوفہ،فسطاط،موصل اور جیزہ کی آباد کاری بھی ہوئی، آپ نے تقویم اسلامی کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی،جب کہ مفتوحہ علاقوں میں۹۰۰؍ جامع مساجد اور ۴۰۰۰؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری،کرنسی سکہ کا اجراء،مہمان خانوں(سرائے) کی تعمیر،لاوارث بچوں کی خوراک،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔اسی طرح عہد فاروقی میں ذمی اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی،مفتوحہ قوموں کو جان،مال،مذہب کی امان دی جاتی تھی،ان کی عزت وآبرو مسلمان کی عزت و آبرو کی طرح محفوظ تھی۔
انہوں نے کہا کہ آج کے عہد کی جمہوری، اشتراکی، شورائی اور سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اصلاحات، قواعد و ضوابط، طرز ہائے زندگی، ہر ہر شعبے اور ہر ہر سوسائٹی کا موازنہ حضرت عمرفاروق اعظم کے دور سے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ محمدی شریعت کو چند ہی سالوں میں انسانوں کی فلاح کا سب سے آسان اور سہل ترین ذریعہ قرار دینے والے اس خلیفہ نے جو کام ۱۴۰۰؍سال قبل کیا تھا، سارے طریقے آزمانے کے بعد بھی رعایا پروری کے ان اصولوں تک جدید حکومتیں نہیں پہنچ سکی ہیں آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کی شہادت ۲۶؍ ذی الحجہ۲۳ہجری کو جب آپ سجدے کی حالت میں تھے کہ حملہ آورنے خنجروں کے وارکرکے آپ کو بری طرح سے زخمی کردیا اوریکم محرم الحرام کوفاروق اعظم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔