یہ آرٹیکل341 پر مذہبی پابندی کا کیا معاملہ ہے ؟؟؟

 ملک کے تمام مسلمانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ملک کے مسلمان ایک طویل مدت سے ریزوریشن سے محروم ہیں ۔ کیونکہ کانگریس حکومت نے آرٹیکل  ۳۴۱  پر مذہبی پابندی لگا کرمسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا۔آئیے ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں  اور یہ آرٹیکل 341 پر مذہبی پابندی کا کیا معاملہ ہے ؟؟؟
ملک کی آزادی سے قبل برٹش حکومت نے ملک میں آئینی اصلاح کے نام پر 1927 میں سائمن کمیشن بھارت بھیجا۔لیکن سائمن کمیشن کوسیاہ جھنڈے اور سائمن واپس جاؤ کے نعروں کے ساتھ زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن بعد میں 1930 اور  1932 کی گول میز کانفرنسوں میں انڈین نٰیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت ور احتجاج کے باوجود کمیشن کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔اور ملک کی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نواز اگیا اور جو 1943 میں نافذالعمل ہوا۔ اس میں ہندو درج فہرست ذاتوں کے مساوی پیشہ اختیار کرنے والی مسلما نوں کی تقریبا75 فیصد آبادی تھی۔ آئین ہند کے نفاذ تک ملک کے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کی سہولت ملتی رہی۔ 15 اگست 1947 کو ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد برٹش حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کے آئین سازوں نے بھی ملک کے پسماندہ طبقات ، دلتوں اور اچھوتوں کو درج فہرست ذاتوں میں شامل کرکے انکی آبادی کے تناسب میں سرکاری اداروں ، قانون ساز اداروں ، اور تعلیم گاہوں وغیرہ میں انکی نمائندگی یقینی بنانے کی غرض سے ریزرویشن کو حسب سابق قانون کا درجہ دیا ۔ درج فہرست ذاتوں میں نٹ ، جولاہا ، مداری ، دھوبی ،کھٹِک ،جھوجھا ، بھانٹ ، جوگی منگتا (فقیر)ڈفالی ،گورکن، کُجڑا ، حلال خور ، مہتر ،بھنگی،بیہنا ، گوریا منہار ، وغیرہ شامل تھیں ۔ واضح ہو کہ درج فہرست ذاتوں میں مسلما نوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی ، ان تما م ذات کے لوگ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کو شیڈول کاسٹس کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔اور سبھی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازہ گیا تھا۔لیکن افسوس آئین ہند کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 10 اگست 1950 کو آرٹیکل 341 کی "دفعہ"کا سہارا لیکر ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ حکومتِ ہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی قیادت والی سرکار نے 1956 میں آئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر1950کے پیرا 03 میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا ۔نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے آرٹیکل 14کی بھی خلاف ورزی کی گئی ۔کیونکہ آارٹیکل 14 کی رو سے مذہب و ملت ،ذات پات ،علاقہ ،رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے گئے ہیں ۔اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا ۔اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کی آزادی میں نما یاں رول ادا کرنے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ ا ور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو تسلی نہیں ہو ئی اور نا انصافی کی راہ پر ایک اور قدم بڈھتے ہوئے  
1985میں آئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ340،341،342 میں کہیں بھی مذہب لفظ کا ذکر نہیں ہے۔۱س آرٹیکل314 پر مذہبی پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے 21جنوری 2011 کو مرکزی حکومت سے پوچھاتھا کہ ایک سیکولر ملک میں اس قسم کی پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟
لیکن ابھی تک سپریم کورٹ کو مرکزی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیاہے۔ حلانکہ سچرکمیٹی اور رنگناتھ مشراکمیشن کی کانسٹی ٹیوشن(شیڈول کاسٹس)آرڈر1950۱۹۵۰کے پیرا ۔03میں ضروری ترمیم کر کے مسلم اورعیسائی دلتوں کو بھی شیڈول کاسٹس ریزرویشن کے حق دینے کی اہم سفارش ہے لیکن مرکزی حکومت ان سفارشات کو نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ 1990میں بدھ سماج کے دلتوں کو بھی حکومت ہند کی جانب سے ریزرویشن کی سہولت دی گئی ۔ لیکن اب بھی دلت مسلمان اور عیسائی اپنے آئینی حقوق سے محروم رہے ۔آیئے اب آئین ہند کی ان دفعات پر نظر ثانی کرتے ہیں جو چیخ چیخ کر آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی کو غلط ٹھہراتی ہیں ۔
 آرٹیکل 15ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہوتعلیمی اداروں میں برابری کے حقوق دیتا ہے ۔
آرٹیکل 16 ملک کے سبھی شہریوں کو سرکاری ملا زمتوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے ۔
لیکن افسوس شاید اس غیر آئینی قدم اٹھانے والے نے خود کو دستور ہند سے بالاتر سمجھا۔ اور ملک کی سب سے بڑی اقلیتی فرقے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کر کے پسماند گی کے گہرے دلدل میں دھکیل دیا ۔ آزادی کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک کے دلت مسلمان اورعیسائی یزرویشن کے منتظر ہیں۔حکومتیں بدلیں حکمراں بدلے لیکن کسی نے بھی اس غیر آئینی آرٹیکل 341پر لگی مذہبی پابندی کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ایک طرف تو حکومتیں ملک کے جمہوری نظام اور آئین ہند میں گہرا ایمان اور عقیدت رکھنے کی بات کرتی ہیں ۔ لیکن وقت آنے پر حکومتیں آئین ہند کی خلاف ورزی کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ابھی بھی قوم کے بیشتر افرادکو ملک کے پہلے وزیر اعظم کے اس غیر آئینی حکم نامے کا علم ہی نہیں ہے۔جن کو اس نا انصافی کا علم ہے وہ اس بارے میں کسی کو بتانا ضروری نہیں سمجھتے اورکچھ نے اپنے مفاد کی خاطر اس معاملے سے چشم پوشی کی۔ہم امید کرتے ہیں مسلم اور سیکولر سیاسی جماعتیں اور مسلم تنظیمیں اس معاملے کو لیکر آواز بلند کریں گے اور آرٹیکل 341لگی مذہبی پابندی ہٹوا کر مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت مہیاکروائیں گے ۔
نوٹ : آرٹیکل 341پر لگی مذہبی پابندی ہٹنا بہت ضروری ہے ۔ اس کیلئے ہم سب کو تمام سیاسی جماعتوں اورسیاسی لیڈران پر دباء بنانے کی ضرورت ہے ۔آئیے ہم سب مل کر تمام سیاسی لیڈران اورجماعتوں سے اس معاملے کو لیکرآواز اٹھانے کا مطالبہ کریں

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اکیاون (51) احادیث کریمہ


علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
پر اکیاون (51)  احادیث کریمہ
حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور قیامت تک جو امور پیش ہونے والے تھے آپ نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور وہ سب امور بیان کردیے جس نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا، اور میرے ان اصحاب کو ان کا علم ہے، ان میں سے کئی ایسی چیزیں واقع ہوئیں جن کو میں بھول چکا تھا جب میں نے ان کو دیکھا تو وہ یاد آگئیں، جیسے کوئی شخص غائب ہوجائے تو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کو یاد آجاتا ہے کہ اس نے اس کو دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6604 ۔ صحیح مسلم الجنۃ 23 (2891) 7130 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 4240 ۔ مسند احمد ج 5، ص 385، جامع الاصول، ج 11، رقم الحدیث : 8882)
حضرت ابو زید عمرو بن اخطب (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے، پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر آگئی، آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ عصر آگئی، پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم کو خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہوگیا، پھر آپ نے ہمیں ماکان ومایکون (جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے) کی خبریں دیں، پس ہم میں سے زیادہ عالم وہ تھا جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔ (صحیح مسلم الجنہ : 26 (2892) 7134 ۔ مسند احمد ج 3، ص 315 ۔ مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : 1029 ۔ البدایہ والنہایہ ج 6، ص 192 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8885 ۔ الاحاد والمثانی ج 4، رقم الحدیث : 2183 ۔ دلائل النبوۃ للبیہقی ج 6، ص 313)
حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور آپ نے ہمیں مخلوق کی ابتداء سے خبریں دینی شروع کیں، حتی کہ اہل جنت اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے اور اہل دوزخ اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے، جس نے اس کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے اس کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3192 ۔ امام احمد نے اس حدیث کو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے، مسند احمد ج 14، رقم الحدیث : 18140، طبع دار الحدیث، قاہرہ)
امام ترمذی نے کہا اس باب میں حضرت حذیفہ، حضرت ابومریم، حضرت زید بن اخطب اور حضرت مغیرہ بن شعبہ سے احادیث مروی ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قیامت تک تمام ہونے والے امور بیان کردیے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2198) ۔ (مسند احمد ج 5، ص 153 ۔ مسند احمد رقم الحدیث : 21258 ۔ مطبوعہ قاہرہ۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : 1647 ۔ مسند البزار رقم الحدیث : 147 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 265 ۔ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد ج 8، ص 264 ۔ مسند ابویعلی، رقم الحدیث : 5109)
ائمہ حدیث نے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو ان کے دشمنوں پر غلبہ کی خبر دی اور مکہ مکرمہ، بیت المقدس، یمن، شام اور عراق کی فتوحات کی خبریں دیں اور امن کی خبر دی اور یہ کل خیبر حضرت علی کے ہاتھوں سے فتح ہوگا، اور آپ کی امت پر دنیا کی جو فتوحات کی جائیں گی اور وہ قیصر و کسری کے خزانے تقسیم کریں گے، اور ان کے درمیان جو فتنے پیدا ہوں گے، اور امت میں جو اختلاف پیدا ہوگا اور وہ پچھلی امتوں کے طریقے پر چلیں گے، اور کسری اور قیصر کی حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور پھر ان کی حکومت قائم نہیں ہوگی اور یہ کہ روئے زمین کو آپ کے لیے لپیٹ دیا گیا ہے اور آپ نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا ہے اور یہ کہ آپ کی امت کا ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا اور آپ نے بنو امیہ اور حضرت معاویہ کی حکومت کی خبر دی اور اہل بیت کی آزمائش اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی شہادت کی خبر دی اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کی شہادت کی خبر دی، حضرت معاویہ اور حضرت علی کی لڑائی کی خبر دی، حضرت عمار کی شہادت کی خبر دی، اپ کے اہل بیت میں سب سے پہلے حضرت سیدنا فاظمہ زہراء (رضی اللہ عنہ)کی وفات کی خبر دی، اور یہ کہ آپ کے بعد صرف تیس سال تک خلافت رہے گی، اور پھر بادشاہت ہوجائے گی۔ تیس دجالوں کے خروج کی خبر دی، قریش کے ہاتھوں امت کی ہلاکت کی خبر دی۔ قدریہ اور رافضیہ کے ظہور کی خبر دی، ابناء فارس کے دین حاصل کرنے کی خبر دی، اپنی گمشدہ اونٹنی کی خبر دی، جنگ بدر میں کافر کس جگہ گر کر مریں گے یہ خبر دی، حضرت حسن کے صلح کرانے کی خبر دی، حضرت سعد کی حیات کے متعلق خبر دی اور یہ خبر دی کہ آپ کی ازواج میں سے جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہوں گے وہ آپ سے سب سے پہلے واصل ہوگی، حضرت زید بن صوحان کے ہاتھ کے متعلق پیش گوئی کی، سراقہ کے لیے سونے کے کنگنوں کی خبر دی اور بہت باتوں کی خبر دی، اب ہم ان تمام امور کے متعلق تفصیلا احادیث بیان کر رہے ہیں۔ -
حضرت ثوبان (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل نے تمام روئے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا ہے، سو میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا، اور میری امت کی حکومت عنقریب وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کی زمین میرے لیے سکیڑ دی گئی تھی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے دیے گئے ہیں۔ (الحدیث دلائل النبوت للبیہقی، ج 6، ص 227، صحیح مسلم الفتن 19 (2889) 7125، 7126سنن ابوداود رقم الحدیث : 4252 ۔ سنن ترمذی رقم الحدیث : 2183 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3952)
سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ)نے دوات پکڑی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے معاویہ ! اگر تم کو کسی علاقہ کا والی بنادیا جائے تو اللہ سے ڈرنا اور عدل کرنا، حضرت معاویہ نے کہا مجھے اس وقت سے یہ یقین تھا کہ مجھے کسی منصب کا والی بنایا جائے گا اور اس کی وجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد تھا۔ (مسند احمد ج 4، ص 101 ۔ دلائل النبوت ج 6 ص 446 ۔ البدایہ والنہایہ ج 8، ص 123)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خلافت مدینہ میں ہوگی اور ملوکیت شام میں۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4888 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 447(-
حضرت حرام (رضی اللہ عنہ)بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر آئے انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کا سر سہلایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر کے راستے جہاد کریں گے۔ حضرت ام حرام نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے آپ نے ان کے لیے دعا کی، پھر سو گئے۔ پھر آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں، فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ (بخاری کی روایت میں ہے : میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر کے شہر میں جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔ رقم الحدیث : 2924) ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا تم پہلے لشکر میں سے ہو۔ حضرت ام حرام بنت ملحان حضرت معاویہ کے زمانے میں سمندر کے راستہ جہاد میں گئیں وہ اپنی سواری سے گرگئیں، ان کو سمندر سے نکالا گیا تو جان بحق ہوچکی تھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2788 ۔ صیح مسلم الجہاد 160 (1912) 4851 ۔ سنن ابوداود، رقم الحدیث : 2491 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1652 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 3171 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 451 ۔ 452)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کی ہلاکت قریش کے لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی، حضرت ابوہریرہ نے کہا اگر تم چاہو تو میں بنو فلاں، اور بنو فلاں کا نام لوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3604 ۔ 3605 ۔ صحیح مسلم الفتن 74 (2917) 7192 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 464 ۔ 465)
حضرت عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا جس نے فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرا شخص آیا جس نے راستہ میں ڈاکوؤں کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا اے عدی ! کیا تم نے الیحیرہ دیکھا ہے، میں نے کہا میں اس کو دیکھا تو نہیں لیکن مجھے اس کی خبر دی گئی ہے، آپ نے فرمایا اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اپنے دل میں کہا پھر اس شہر کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنہوں نے شہروں میں فتنہ اور فساد کی آگ بھڑکا دی ہے۔ (پھر فرمایا) اور اگر تمہاری زدنگی دراز ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا اور اس کو لینے والے کو ڈھونڈے گا اور اسے کوئی شخص نہیں ملے گا جو اس کو قبول کرلے، اور تم میں سے ضرور ایک شخص قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو ترجمہ کرے، اللہ تعالی فرمائے گا کیا میں نے تمہاری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تم کو تبلیغ کی ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالی فرمائے گا کیا میں نے تم کو مال نہیں دیا تھا جو تم سے زائد تھا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو صرف جہنم نظر آئے گا اور بائیں طرف دیکھے گا تو صرف جہنم نظر آئے گا۔ حضرت دی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آگ سے بو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقہ) سے، اور جس کو کھجور کا ٹکڑا نہ ملے تو وہ کوئی نیک بات کہہ دے، حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے ایک مسافرہ کو دیکھا جس نے الیحیرۃ سے سفر کرکے خانہ کعبہ کا فواف کیا اور اسکو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا، اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسری بن ہرمز کے خزانوں کو کھولا اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ضرور وہ نشانی دیکھ لو گے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی تھی کہ ایک آدمی مٹھی بھر (سونا یا چاندی) لے کر نکلے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3595 ۔ دلائل انبوۃ ج 6، ص 323)



حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسری فوت ہوگیا اور اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہے اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کروگے۔ (صحیح مسلم الفتن 75 (2918) 7194 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2223 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 3027 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6689 ۔ مسند احمد ج 3، رقم الحدیث : 7272، طبع جدید۔ مسند الشافعی ج 2، ص 186، مسند الحمیدی رقم الحدیث : 1094 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20814 ۔ السنن الکبری للبیہقی ج 9، ص 177)-
حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)کے پاس کسری کی پوستین لائی گئی اور ان کے سامنے رکھ دی گئی، اور قوم میں حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم بھی تھے، حضرت عمر نے کسری بن ہرمز کے کنگن، حضرت سراقہ بن مالک کو دیے، انہوں نے ان کو اپنے ہاتھوں میں پہن لیا جو ان کے کندھوں تک ہپنچ گئے۔ جب حضرت عمر نے حضرت سراقہ کے ہاتھوں میں کنگن دیکھے تو فرمایا الحمد للہ ! امام شافعی نے کہا حضرت عمر نے حضرت سراقہ کو یہ کنگن اس لیے پہنائے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سراقہ کی کلائیوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا، گویا کہ تمہارے ہاتھ کسری کے کنگن پہنے ہوئے ہیں، امام شافعی نے کہا جب حضرت عمر نے کسری کے کنگن حضرت سراقہ کو پہنائے تو کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے کسری بن ہرمز سے کنگن چھین کر سراقہ بن جعشم کو پہنا دیے جو بنو مدلج کا ایک اعرابی ہے۔ (دلائل النبوۃ ج 6، ص 325 ۔ 326)
حضرت انس اور ابن عمر (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ عزوجل نے دنیا کو میرے یلے اٹھا لیا اور میں دنیا کی طرف اور قیامت تک دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کو اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنے ان ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہا ہوں، جو اللہ عزوجل کے حکم سے روشن ہیں، اس نے اپنے نبی کے لیے ان کو روشن کیا، جس طرح پہلے نبیوں کے لیے روشن کیا تھا۔ (حلیۃ الاولیاء ج 6، ص 101 ۔ الجامع الکبیر رقم الحدیث : 4849 ۔ کنز العمال رقم الھدیث : 31810، 31979، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے، اس میں سعید بن سنان رھاوی ضعیف راوی ہے، مجمع الزوائد ج 8، ص 282)
حضرت عبداللہ بن حوالہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے سامان کی کمی، غربت اور افلاس کی شکایت کی آپ نے فرمایا تمہیں خوش خبری ہو کیونکہ مجھے تم پر اشیاء کی قلت کی بہ نسبت اشیاء کی کثرت کا زیادہ خوف ہے، بہ خدا دین تم میں رہے گا حتی کہ اللہ تعالی تمہارے لیے سرزمین فارس، سرزمین روم اور سرزمین حمیر فتح کردے گا۔ (الحدیث) (دلائل النبوت ج 6، س 327)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے یہ آیت پڑھی : |" واخرین منہم لما یلحقوا بہم : اور وہ نبی ان میں سے دوسروں کو بھی (کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا باطن صاف کرتے ہین) جو ابھی ان سے لاحق نہیں ہوئے |"۔ تو ایک شخص نے پوچھا : یارسول اللہ ! یہ لوگ کون ہیں ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جواب نہیں دیا، حتی کہ اس نے دو یا تین مرتبہ سوال کیا اور ہم میں حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ)بھی تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا (ستارے) کے پاس بھی ہو تو ان کی طرف کے لوگ اس کو حاصل کرلیں گے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4897 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ 230 (2546) 6379 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3317)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنو اسرائیل کا ملکی نظام ان کے نبی چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور عنقریب خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، صحابہ نے پوچھا پھر آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا پہلے کی بیعت سے وفا کرو، پھر پہلے کی، اور ان کے حقوق ادا کرو، کیونکہ اللہ عزوجل ان سے سوال کرے گا کہ انہوں نے عوام کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3455 ۔ صحیح مسلم الامار 44 (1842) 4691 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2871)
حضرت سفینہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ جس کو چاہے گا ملک دے دے گا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4646 ۔ مسند احمد ج 5، ص 44 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 431)
حضرت ابوبکر کی خلافت دو سال چار ماہ رہی (دس دن کم تھے) حضرت عمر کی خلافت دس سال چھ ماہ چار دن رہی، حضرت عثمان کی خلافت بارہ دن کم بارہ سال رہی اور حضرت علی کی خلافت دو یا تین ماہ کم پانچ سال رہی۔ (دلائل النبوت ج 6، ص 341 ۔ 342، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے اپنے مرض الموت میں فرمایا میرے لیے ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلاؤ کیونکہ مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی (خلافت کی) تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہے گا کہ میں (خلافت کے) زیادہ لائق ہوں اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر انکار کردیں گے۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابہ 11، (2387) 6064 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1465 ۔ مسند احمد ج 6، ص 228 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 343)
حضرت انس (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد پہار پر چڑھے (ایک راوی کا خیال ہے کہ حضرت انس نے حراء پہاڑ کہا تھا) اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)تھے۔ وہ پہاڑ لرزنے لگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اے پہاڑ ! ) ساکن ہوجا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3675، 3686، 3699 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3717 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4651 ۔ مسند احمد ج 5، ص 346، 331 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 350)
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : |" یا ایہا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی : اے ایمان والو ! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آوازوں کو بلند کرو |" (الحجرات :2) ۔ تو حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ)اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہا میں : اہل دوزخ سے ہوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر نہیں ہوئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن معاذ سے ان کے متعلق پوچھا اور فرمایا اے ابو عمرو ! ثابت کا کیا حال ہے ؟ کیا وہ بیمار ہے ؟ حضرت سعد نے کہا وہ میر پڑوسی ہے اور مجھے اس کی بیماری کا کوئی علم نہیں، پھر حضرت سعد نے ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دریافت کرنے کا ذکر کیا، حضرت ثابت نے کہا یہ آیت نازل ہوچکی ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے میری آواز سب سے اونچی ہے، پس میں اہل دوزخ سے ہوں، حضرت سعد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا آپ نے فرمایا بلکہ وہ اہل جنت میں سے ہے، امام مسلم کی ایک روایت میں ہے (رقم الحدیث : 310) کہ جب حضرت ثابت ہمارے درمیان چلتے تھے تو ہم یقین کرتے تھے کہ یہ جنتی ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4846 ۔ صحیح مسلم الایمان، 187 (119) 307)
حضرت ثابت مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ (دلائل النبوۃ ج 6، ص 355، المستدرک ج 3، ص 234، مجمع الزوائد ج 9، ص 322)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے یہ بیان کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک دن میں سویا ہوا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے ہیں، میں ان سے گھبرا گیا اور مجھ کو وہ ناگوار لگے پھر مجھے اجازت دی گئی کہ میں ان کو پھونک سے اڑا دوں، سو میں نے پھونک مار کر ان کو اڑا دیا۔ عبیداللہ نے کہا ان میں سے ایک عنسی تھا جس کو فیروز نے یمن میں قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7034 ۔ صحیح مسلم الرویا 22 (2274) 5826 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2299 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6654 ۔ مسند احمد ج 1، ص 263، طبع قدیم۔ مسند احمد ج 3، رقم الحدیث : 8256، طبع جدید)
حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان اس سے مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں لیکن وہ ان میں اختلاف اور نزاع پیدا کرنے کے لیے مایوس نہیں ہے۔ (صحیح مسلم المنافقین 65 (2812) 6970 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1944 ۔ مسند احمد ج 3، ص 3131)
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صاحبزادی سیدتنا فاطمہ (رضی اللہ عنہا)کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں، حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا سرگوشی کی تھی جس پر آپ روئیں اور پھر سرگوشی کی تو آپ ہنسیں، حضرت فاطمہ نے فرمایا آپ نے مجھ سے سرگوشی کرکے مجھے اپنی وفات کی خبر دی تو میں روئی پھر سرگوشی کرکے یہ خبر دی کہ اپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ کے ساتھ لاحق ہوں گی تو پھر میں ہنسی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3625، صحیح مسلم فضائل صحابہ، 98) 2450٭ 6196 ۔ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 8367 ۔ مسند احمد ج 6، ص 282، الطبقات الکبری ج 2، ص 247 ۔ دلائل النبوت، ج 6، ص 365)
حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جاتے اور آپ نے ان کا نام الشہیدۃ رکھا تھا، وہ قرآن کی حافظہ تھیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا آپ مجھے اجاز دیں تو میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی تیمار داری کروں، شاید اللہ تعالی مجھے شہادت عطا فرمائے، آپ نے فرمایا اللہ تعالی تم کو شہادت عطا فرمائے گا اور آپ ان کو الشہیدہ کہتے تھے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کی امامت کیا کریں، ان کو مال غنیمت میں سے ایک باندی اور ایک غلام ملا تھا، جن کو انہوں نے مدبر کردیا تھا (یعنی ان سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو) حضرت عمر کے دور خلافت میں ان دونوں نے حضرت ام ورقہ کو قتل کردیا اور دونوں بھاگ گئے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کے حکم سے ان کو پکڑ لیا گیا اور ان دونوں کو سولی پر لتکایا، مدینہ میں ان کو سب سے پہلی سولی دی گئی تھی، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے کہا رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے سچ فرمایا تھا، آپ فرماتے تھے چلو الشہیدہ کی زیارت کے لیے چلیں۔ (مسند احمد ج 6، ص 405، طبع قدیم احمد شاکر نے اس کی ایک سند کو ضعیف اور دوسری سند کو صحیح کہا ہے۔ مسند احمد ج 18، رقم الحدیث : 27157، 27158، طبع دار الحدیث قاہرہ، حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی۔ المستدرک ج 1، ص 161، رقم الحدیث : 592 ۔ صحیح ابن خزیمہ، ج 3، ص 89، رقم الحدیث : 1676 ۔ سنن کبری للبیہقی ج 3، ص 130 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 381 ۔ الاصابہ رقم الحدیث : 12298 ۔ الستیعاب رقم الحدیث 3686 ۔ اسد الغابہ رقم، 7226 ۔ کتاب الشقات ج 3، ص 463)
حضرت ابو موسی اشعری (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں وضو کیا اور سوچا آج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہوں گا، آپ مسجد میں نہیں تھے، میں آپ کی تلاش میں نکلا، آپ اریس نامی کنویں کی منڈیر پر کنویں میں ٹانگیں لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے، میں اس کے دروازہ پر چلا گیا اور میں نے سوچا کہ میں آج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دربان بنوں گا، تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا : کون ہے، آنے والے نے کہا ابوبکر ! میں نے کہا ٹھریں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے لیے اجازت طلب کی آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ، اور ان کو جنت کی بشارت دو ، حضرت ابوبکر آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائیں جانب منڈیر پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمر نے دروازے پر دستک دی، میں نے کہا ٹھہریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے لیے اجازت طلب کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ، اور جنت کی بشارت دو ان مصائب اور فتنوں کے ساتھ جو ان کو لاحق ہوں گے۔ (ملخصا ) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3693 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابتہ، 29 (2403) 6097 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3710 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 6912 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20402 ۔ مسند احمد ج 7، رقم الحدیث : 19662)
حضرت مرہ بن کعب (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ عنقریب واقع ہونے والے ہیں، اس وقت ایک شخص کپڑے سے اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے گزرا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شخص اس وقت ہدایت پر ہوگا، میں نے کھڑے ہو کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ)تھے، میں نے پھر آپ کی طرف رخ کرکے پوچھا یہ ؟ آپ نے فرمایا ہاں !۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3724 ۔ صحیح ابن حبان رق الحدیث : 6914 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 12، ص 40 ۔ المعجم الکبیر ج 20، ص 752 ۔ مسند احمد ج 7، رقم الحدیث : 20374)
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر کیا۔ پھر آپ نے حضرت عثمان بن عفان کے متعلق فرمایا کہ یہ شخص فتنوں میں مظلوما قتل کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3728، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1414 ھ)
ابو سہلہ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میں حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)اپنے گھر میں محصور تھے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور میں اس پر صابر ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3731 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 113 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 6918 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 12، ص 44 ۔ مسند احمد ج 1، رقم الحدیث : 407، طبع جدید)
حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر کے متعلق فرمایا جس وقت وہ خندق کھود رہے تھے آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا اے ابن سمیہ افسوس ہے ! تم ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (صحیح مسلم الفتن 170 (2915) 7187 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 8048 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 420)
فضالہ بن ابی فضالہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد حضرت ابوفضالہ (رضی اللہ عنہ)کے ساتھ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی عیادت کے لیے گیا، میرے والد نے کہا کاش آپ کی جگہ مجھے اجل آجاتی ! حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا حتی کہ مجھے امیر بنادیا جائے اور میری یہ داڑھی خون سے رنگین ہوجائے یعنی میں شہید ہوجاؤں، حضرت علی شہید کردیے گئے اور حضرت ابوفضالہ حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ (مسند احمد ج 1، ص 102، طبع قدیم، احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ج 1، رقم الحدیث : 802، بع دار الحدیث قاہرہ، المستدرک، ج 3، ص 113 ۔ الطبقات الکبری ج 3، ص 34 ۔ مجمع الزوائد ج 9، ص 136 ۔ 137 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 438)-
حضرت ابو بکرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھھے ہوئے تھے اور حسن بن علی (رضی اللہ عنہ)آپ کے پہلو میں تھے آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی ان کی طرف متوجہ ہوتے، آپ نے فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرما دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2704، مشکوۃ رقم الحدیث : 6144 ۔ مسند احمد ج 5، ص 49)
عمار بن ابی عار بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ دوپہر کے وقت ایک شیشی اٹھائے ہوئے ہیں جس میں خون بھرا ہوا ہے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں یہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ حسین اور ان کے اصحاب کا خون ہے میں آج دن سے لے کر اب تک یہ خون جمع کرتا رہا ہوں۔ ہم نے وہ دن یاد رکھا پھر معلوم ہوا کہ حضرت حسین (رضی اللہ عنہ)کو اسی دن شہید کیا گیا تھا۔ (مسند احمد ج 1، ص 242، 283 ۔ شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ج 2، رقم الحدیث : 2165، ج 3، رقم الحدیث : 2553، طبع دار الحدیث : قاہرہ، المعجم الکبیر ج 12، رقم الحدیث : 12837، ج 2، رقم الحدیث : 2822) حافظ الہیثمی نے کہا امام احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 9، ص 194 ۔ البدایہ والنہایہ ج 6، ص 231 ۔ المستدرک ج 2، ص 314 ۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)
حضرت عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو کسی کام سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ کے پاس ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ لوٹ آئے۔ حضرت عباس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس کسی کام سے بھیجا تھا وہ آپ کے پاس ایک شخص کو دیکھ کر لوٹ آئے اور بات نہ کرسکے، آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا، وہ شخص جبریل (علیہ السلام) تھے اور (حضرت ابن عباس) اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک کہ نابینا نہ ہوجائیں اور ان کو علم دیا جائے گا۔ (مسند احمد رقم الحدیث : 2679، 2848، طبع جدید۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : 10584، 12836 ۔ حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ مسند احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 6، ص 276)
حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب تم مصر کو فتح کروگے اور یہ وہ زمین ہے جس میں قیراط کا ذکر کیا جاتا ہے تم وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا کیونکہ ان کا ذمہ اور رحم ہے۔ (ذمہ سے مراد حرمت اور حق ہے اور رحم سے مراد یہ ہے کہ حضرت ہاجر، حضرت اسماعیل کی والدہ مصری تھیں) ۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 227 (2543) 6375 ۔ مسند احمد ج 6، ص 173)
حضرت ابو واقد لیثی (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حنین کی طرف گئے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، جس پر وہ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ذات انواط بنا دیجئے جیسا ان کے لیے ذات انواط ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سبحان اللہ ! یہ تو ایسا ہے جیسا موسی (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا ہمارے لیے بھی ایسا خدا بنادیں جیسے ان کے خدا ہیں، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر سوار ہوگے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2187 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6702 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20763 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 15، ص 101 ۔ المعجم الکبیر ج 3، رقم الحدیث : 3291، 3290)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالی ہر سو سال کے سر پر (صدی کی انتہا یا ابتداء پر) اس امت کے لیے اس شخص کو مبعوث کرے گا جو ان کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا۔ (یعنی بدعات کو مٹائے گا اور جن احکام پر مسلمانوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا ان پر عمل کروائے گا) ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4291 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8881)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آخری زندگی میں ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھائی اور جب سلام پھیرلیا تو فرمایا مجھے بتاؤ یہ کون سی رات ہے کیونکہ اس کے ایک سو سال بعد ان لوگوں میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا جو روئے زمین پر اب زندہ ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 601 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ، رقم الحدیث : 217 (2537) 6361 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4348 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2258 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 5871)
حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر میں سے ایک یہودیہ نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری کا ایک دست لیا اور اس میں سے کھایا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے بھی اس میں سے کھایا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے کہا اپنے ہاتھ روک لو، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودیہ کو بلوایا اور فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ کو کس نے خبر دی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دست کی طرف اشارہ کیا مجھے اس نے خبر دی ہے۔ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا تم نے کس لیے ایسا کیا تھا ؟ اس نے کہا میں نے سوچا اگر یہ نبی ہیں تو ان کو اس زہر سے نقصان نہیں ہوگا اور اگر یہ نبی نہیں ہیں تو ہماری خلاصی ہوجائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو معاف کردیا اور اس کو سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض اصحاب جنہوں نے اس بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہوگئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری سے کھائے ہوئے گوشت کی وجہ سے پیٹھ کے اوپر گردن کے نیچے فصد لگوائی۔ بنوبیاضہ کے آزاد شدہ غلام نے یہ فصد لگائی تھی۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : 68 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4510 ۔ الادب المفرد، رقم الحدیث : 243 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8887)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بکری تحفہ میں پیش کی گئی جو زہر آلود تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو جمع کرو، یہودیوں کو جمع کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں ؟ کیا تم مجھ سے سچ بولوگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای تمہارا باپ کون ہے ؟ انہوں نے کہا ! ہمارا باپ فلاں ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔ تب یہودیوں نے کہا آپ نے سچ کہا اور نیک کام کیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ بتا دوگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم، اور اگر ہم نے جھوٹ بھی بولا تو آپ کو ہمارے جھوٹ کا علم ہوجائے گا جیسا کہ آپ کو ہمارے باپ کے متعلق علم ہوگیا۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل دوزخ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اس میں تھوڑی دیر رہیں گے، پھر ہمارے بعد تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ! تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم دوزخ میں دفع ہوجاؤ، بہ خدا ہم تمہارے بعد اس میں کبھی بھی نہیں جائیں گے، پھر آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے پوچھا تم کو اس کام پر کس چیز نے برانگیختہ کیا ؟ انہوں نے کہا ہم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو ضرر نہیں دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5777 ۔ مسند احمد ج 2، ص 451 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 69 ۔ جامع الاصول، ج 11، رقم الحدیث : 8886)
انصار کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے، آپ قبر کھودنے والے کو وصیت فرما رہے تھے کہ پیروں کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، اور سر کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، جب آپ واپس ہوئے تو ایک عورت کی طرف سے دعوت دینے والا آیا،آپ نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، پس کھانا لایا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ رکھا، پھر قوم نے اپنا ہاتھ رکھا، سب نے کھایا، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا آپ اپنے منہ میں ایک لقمہ چبا رہے تھے، آپ نے فرمایا مجھے یہ علم ہوا کہ یہ اس بکری کا گوشت ہے جس کو اس کے مالک کی مرضی کے بغیر لیا گیا ہے، پھر اس عورت کو بلایا گیا اس نے کہا یارسول اللہ ! میں نے کسی کو نقیع (بکریاں فروخت کرنے کی جگہ، منڈی) کی طرف بھیجا تھا، تاکہ میرے لیے بکری خرید لی جائے، تو بکری نہیں ملی، میں اپنے پڑوسی کو پیغام بھیجا جس نے ایک بکری خریدی تھی کہ وہ بکری مجھے قیمت کے عوض بھیج دے تو وہ پڑوسی نہیں ملا، میں نے اس کی بیوی کو پیغام بھیجا تو اس نے وہ بکری مجھے بھیج دی، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو ۔ (سنن ابو داود، رقم الحدیث : 3332 ۔ مسند احمد ج 5، ص 293 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8889 ۔ مشکوۃ رقم الحدیث : 5942)
حضرت انس (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر کے دن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ نے زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا۔ پھر حضرت انس (رضی اللہ عنہ)نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ رکھا تھا کوئی شخص اس سے بالکل متجاوز نہیں ہوا (اسی جگہ گر کر مرا) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان کو گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے کل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کفار بدر کے گرنے کی جگہیں بتا رہے تھے اور فرما رہے تھے، کل فلاں یہاں گرے گا۔ انشاء اللہ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2681 ۔ صحیح مسلم المنافقین : 75 (2872) 7088 ۔ سنن نسائی رقم الحدیث : 2073 ۔ مسند احمد ج 3، ص 219 ۔ 258 ۔ مشکوۃ رقم الحدیث : 5938)
حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے تشریف لائے اس وقت بڑے زور سے آندھی چلی لگتا تھا کہ سوار دفن ہوجائیں گے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک منافق کی موت کی وجہ سے یہ آندھی بھیجی گئی ہے، جب ہم مدینہ پہنچے تو ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا۔ (صحیح مسلم المنافقین : 15 (2782) 6908 ۔ مسند احمد ج 3، ص 315 ۔ مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : 1029 ۔ جامع الاصول ج 11 ۔ رقم الحدیث : 8885)
حضرت ابوموسی (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا، جب بکثرت سوال کیے گئے تو آپ غضب ناک ہوئے پھر آپ نے لوگوں سے کہا تم جو چاہتے ہو مجھ سے سوال کرو، ایک شخص نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ سالم ہے شیبہ کا آزاد کردہ غلام، جب حضرت عمر نے آپ کے چہرے پر غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 92، 7291)
حضرت سہل بن سعد (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کل میں یہ جھنڈا ضرور اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ تمام رات مسلمانوں نے اس بےچینی میں گزاری کہ آپ کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، صبح کو تمام مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کو اس جھنڈے کے عطا کیے جانے کی امید تھی، آپ نے پوچھا علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، پھر حضرت علی کو مسلمانوں نے بلایا، وہ لائے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا، حضرت علی نے کہا یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا حتی کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں، آپ نے فرمایا اطمینان سے جانا، حتی کہ تم ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا، اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے، اللہ کی قسم ! اللہ تمہارے سبب سے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3701، 3009 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 34 (2406) 6160 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 8403 ۔ جامع الاصول ج 8، اللہ کے رسول ہیں، اس بات کا میرے اور ام الفضل کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 49، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ)
امام ابن سعد، عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر کے دن نوفل کو قید کیا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اپنی جان کے فدیہ میں وہ نیزہ دو جو جدہ میں ہے، انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کے بعد میرے علاوہ کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ میرے پاس جدہ میں نیزہ ہے۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 69)
عاصم بن زید السکونی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ)کو جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا، ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی باہر نکلے، آپ ان کو وصیت فرما رہے تھے، حضرت معاذ سوار تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ نصیحت سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے معاذ ! امید ہے کہ اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کروگے اور شاید کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کے خیال سے حضرت معاذ رونے لگے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ مت روؤ کیونکہ (آواز سے) رونا شیطان کا کام ہے۔ (مسند احمد ج 5، ص 235، شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مسند احمد ج 16، رقم الحدیث : 21953 ۔ دلائل النبوت للبیہقی ج 5، ص 404 ۔ 4)

Bachhon Ki Parwarish Aur Murawwijah Rasmain (Urdu)


بچوں کی پرورش اور مروّجہ رسمیں
        عام مسلمانوں میں یہ مشہور ہے کہ'' لڑکے کو دو سال ماں اپنا دودھ پلائے اورلڑکی کو سوا دو سال ''یہ بالکل غلط ہے۔ مسلمانوں میں یہ طریقہ ہے کہ بچپن میں اپنی اولاد کے اخلاق و آداب کا خیال نہیں رکھتے۔ غریب لوگ تو اپنے بچّوں کو آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کی اجازت دیتے ہیں اور ان کی تعلیم کا زمانہ خراب صحبتوں اور کھیل کود میں برباد کردیتے ہیں، وہ بچّے یا تو جوان ہوکر بھیک مانگتے پھرتے ہیں یا ذلّت کی نوکریاں کرتے ہیں یا چور ڈاکواور بدمعاش بن کر اپنی زندگی جیل خانہ میں گزار دیتے ہیں اور مال دار لوگ اپنے بچّوں کو شروع سے شوقین مزاج بناتے ہیں، انگریزی بال رکھانا، فضول خرچ کرنا سکھاتے ہیں۔ہروقت بوٹ وسوٹ وغیرہ پہناتے ہیں، پھر اپنے ساتھ سنیما اور ناچ کی مجلسوں میں انہیں شریک کرتے ہیں، جب یہ نونہال کچھ ہوش سنبھالتا ہے تو اس کو کلمہ تک نہ سکھایا، کالج یا سکول میں ڈال دیا۔زِیادہ خرچ کرنا،فیشن ایبل بننا سکھایا گیا۔ خراب صحبتوں سے صحت اور مذہب دونوں برباد ہوگئے اب جب نونہال کالج سے باہر آئے تو اگر خاطر خواہ نوکری مل گئی تو صاحبِ بہادر بن گئے کہ نہ ماں کا ادب جانیں نہ باپ کو پہچانیں، نہ بیویوں کے حقوق کی خبر، نہ اولاد کی پرورش سے واقف، ان کے ذِہن میں اعلیٰ ترقی یہ آئی کہ ہم کو لوگ انگریز سمجھیں بھلا اپنے کو دوسری قوم میں فنا کردینا بھی کوئی ترقی ہے ! اگر کوئی معقول جگہ نہ ملی تو ان بیچاروں کو بہت مصیبت پڑتی ہے کیوں کہ کالج میں خرچ کرنا سیکھا۔ کمانا نہ سیکھا، کھلانا نہ سیکھا، اپنا کا م نوکروں سے کروانا سیکھا، خود کرنا نہ سیکھا ؎

نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کماکر
وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر

        اب یہ لوگ کالج کی سی زندگی گزارنے کیلئے شریف بدمعاش ہوجاتے ہیں یا جعلی نوٹ بناکر زندگی جیل میں گزارتے ہیں یا ڈاکو بدمعاش بنتے ہیں (اکثر ڈاکو تعلیم یافتہ، گریجویٹ پائے گئے ) یہ وہی لوگ ہیں۔

ان رسموں کی خرابیاں:
    لڑکی کو سو ا دو سال دودھ پلانا جائز نہیں لڑکی ہو یا لڑ کا دونوں کو دو، دوسال دودھ پلایا جائے۔ قراٰنِ کریم فرماتا ہے :

وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھنَّ حَوْلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ ۔

ترجمہ: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دوبرس۔(پ2،البقرہ233)

    مگر دو سال کے بعد دودھ پلانا منع ہے جو بچّے پرورش کے زمانے میں اچھی صحبتیں نہیں پاتے وہ جوان ہوکر ماں باپ کوبہت پریشان کرتے ہیں ہم نے بڑے فیشن ایبل صاحبزادوں کے ماں باپ کو دیکھا ہے کہ وہ روتے پھرتے ہیں، مفتی صاحب تعویذ دو جس سے بچہ کہنا مانے، ہمارے قبضے میں آئے۔ مگر دوستو! فقط تعویذ سے کام نہیں چلتا کچھ ٹھیک عمل بھی کرنا چاہے۔
            ایک بڈھے نے اپنے فر زند کو ولایت پڑھنے کے لئے بھیجا۔ جب بر خوردارفا رغ ہوکر وطن آنے لگا تو بڈھا باپ استقبال کے لئے اسٹیشن پر گیا۔ لڑکے نے گاڑی سے اتر کر باپ سے پوچھا :'' ویل بڈھا تو اچھا ہے ؟'' اس لائق بیٹے کے دوستو ں نے پوچھا کہ صاحب بہادر یہ بڈھا کون ہے؟فرمانے لگا :'' میرا آشناہے۔ '' بڈھے باپ نے کہا کہ'' صاحبو ! میں صاحب بہادر کا آشنا نہیں، بلکہ ان کی والدہ کا آشنا ہوں۔ '' یہ اس نئی تہذیب کے نتیجے ہیں۔
    حضرت مولانا احمد جیون رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جو سلطان غازی محی الدین عا لمگیر اورنگ زیب علیہ الرحمۃ کے استا د او ر شاہجہاں کے یہاں بہت اچھی حیثیت سے ملازم تھے۔ مشہور یہ ہے کہ ایک بار جمعہ کے وقت مولانا کے والد معمولی لباس میں جامع مسجد دہلی میں آئے اس وقت مولانا شاہجہاں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلی صف سے اٹھ کر بھاگے اپنے با پ کی جوتیاں صاف کیں۔ گر د وغبار آپ کے عمامہ سے جھاڑا۔ حوض پر لا کر وضو کرایا۔ اور خاص شاہجہاں کے برابر لاکر بیٹھا دیا اور کہا کہ یہ میرے والد ہیں نماز کے بعد شاہجہاں با دشاہ نے ان سے کہا کہ آپ ٹھہرو، شاہی مہمان بنو انہوں نے جواب دیا کہ میں صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ میرا بچہ آپ کے یہاں رہ کر مسلمان رہا ہے یابے دین بن گیا ہے پہچا نے گا یا نہیں۔ الحمد للہ بچہ مسلمان ہے۔

گند م از گند م بر وو جوز جو!
از مکافات عمل غافل مشو
 (ترجمہ: گندم سے گندم اور جو سے جو اُگتے ہیں مکافاتِ عمل سے غافل مت ہو )
جیسا بو نا ویسا کاٹنا۔

بچّوں کی پرورش کا اسلامی طریقہ:
        لڑکے اور لڑکی کو دو سال سے زیادہ دودھ نہ پلاؤ۔ جب بچّہ کچھ بولنے کے لائق ہو تو اسے اللہ عزوجل! کا نام سکھاؤ پہلے مائیں اللہ اللہ عزوجل! کہہ کر بچّوں کو سلاتی تھیں اور اب گھر کے ریڈیو اور گراموفون باجے بجاکر بہلاتی ہیں ۔جب بچّہ سمجھ دار ہوجائے تو اس کے سامنے ایسی حرکت نہ کرو جس سے بچے کے اخلاق خراب ہوں۔کیونکہ بچّوں میں نقل کرنے کی زیادہ عادت ہوتی ہے۔جوکچھ ماں باپ کوکرتے دیکھتے ہیں وہی خودبھی کرتے ہیں۔ ان کے سامنے نمازیں پڑھو۔قرآن پاک کی تلاوت کرو۔اپنے ساتھ مسجدوں میں نمازکے لئے لے جاؤ اور ان کو بزرگوں کے قصّے کہانیاں سناؤ۔بچّوں کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ سبق آموزکہانیاں سن کر اچھّی عادتیں پڑيں گی۔
        جب اور زیادہ ہوش سنبھالیں تو سب سے پہلے ان کو پانچوں کلمے ایمانِ مجمل، ایمانِ مفصّل پھر نمازسکھاؤ۔کسی متقی یا حافظ یا مولوی کے پاس کچھ روز بٹھا کر قرآنِ پاک اور اُردو کے دینیات کے رسالے ضرور پڑھاؤ اور جس سے بچّہ معلوم کرے کہ میں کس درخت کی شاخ اور کس شاخ کا پھل ہوں، اور پاکی پلیدی وغیرہ کے احکام یاد کرے۔ اگر حق تعالیٰ نے آپ کو چارپانچ لڑکے دیئے ہیں تو کم ازکم ایک لڑکے کو عالم یا حافظ ِ قرآن بناؤ۔کیونکہ ایک حافظ اپنی تین پشتوں کو اور عالِم سات پشتوں کو بخشوائے گا۔یہ خیال محض غلط ہے کہ عالِمِ دین کو روٹی نہیں ملتی۔ یقین کرلو کہ انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا۔ عربی پڑھنے سے آدمی بدنصیب نہیں ہوجاتا، ملے گا وہ ہی جو رزاق نے قسمت میں لکھا ہے۔ بلکہ تجربہ یہ ہے کہ اگر عالِم پورا عالِم اور صحیح العقیدہ ہو تو بڑے آرام میں رہتا ہے۔اور جو لوگ اُردو کی چند کتابیں دیکھ کر وعظ گوئی کو بھیک کا ذریعہ بنالیتے ہیں کہ وعظ کہہ کر پیسہ پیسہ مانگنا شروع کردیا۔ان کودیکھ کر عالِمِ دین سے نہ ڈر،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا بچپن آوارگی میں خراب کردیا ہے اور اب مہذّب بھکاری ہیں۔ ورنہ علمائے دین کی اب بھی بہت قدرو عزّت ہے۔ جب گریجویٹ مارے مارے پھرتے ہیں تو مدّرسین علما کی تلاش ہوتی ہے اور نہیں ملتے۔ اپنے لڑکو ں کو شوقین مزاج خرچیلہ نہ بناؤبلکہ ان کو سادگی اور اپنا کا م اپنے ہاتھ سے کرنا سکھاؤ، کرکٹ،ہاکی، فٹ بال سے ہرگز نہ کھیلاؤ۔کیونکہ یہ کھیل کچھ فائدہ مند نہیں بلکہ ان کوبنوٹ لکڑی کا ہنر، ڈنڈ،کثرت،کشتی کا فن،اگر ممکن ہو تو تلوار چلانا وغیرہ سکھاؤ جس سے تندرستی بھی اچھی رہے اور کچھ ہنر بھی آجائے اور تاش بازی اور پتنگ بازی،کبوتر بازی،سینمابازی،سے بچوں کو بچاؤ کیونکہ یہ کھیل حرام ہیں بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ بچّوں کو علم کے ساتھ کچھ دوسرے ہنر بھی سکھاؤجس سے بچہ کما کر اپنا پیٹ پال سکے۔ یہ سمجھ لو کہ ہنر مند کبھی خدا کے فضل سے بھوکا نہیں مرتا۔اس مال و دولت کا کوئی اعتبار نہیں ان باتوں کے ساتھ انگریزی سکھاؤ کالج میں پڑھاؤ۔جج بناؤ،کلکٹربناؤ دنیا کی ہرجائز ترقی کراؤ مگر پہلے اس کو ایسا مسلمان کردوکہ کوٹھی میں بھی مسلمان ہی رہے۔ہم نے دیکھا ہے قادیانیوں اور رافضیوں کے بچے گریجویٹ ہوکر کسی عہدے پر پہنچ جائیں مگر اپنے مذہب سے پورے واقف ہوتے ہیں مسلمانوں کے بچے ایسے اُلّو ہوتے ہیں کہ مذہب کی ایک بات بھی نہیں جانتے۔ خراب صحبت پاکر بے دین بن جاتے ہیں۔ جس قدر لوگ قادیانی، نیچری،وغیرہ بن گئے۔یہ سب پہلے مسلمان تھے اور مسلمانوں کے بچّے تھے۔مگر اپنی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بدمذہبوں کا شکار ہوگئے۔ یقین کرو کہ اس کا وبال ان کے ماں باپ پر بھی ضرور پڑے گا۔
    صحابہ کرام علیہم الرضوان کی پرورش بارگاہِ نبوّت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں ایسی کامل ہوئی کہ جب وہ میدان جنگ میں آتے تو اعلیٰ درجہ کے غازی ہوتے تھے اور مسجد میں آکر اعلیٰ درجہ کے نمازی، گھربا ر میں پہنچ کر اعلیٰ درجہ کے کارو باری، کچہری میں اعلیٰ درجہ کے قاضی ہوتے تھے، اپنے بچوں کو اس تعلیم کا نمونہ بناؤ اگر دین و دنیا میں بھلائی چاہتے ہو تو یہ کتابیں خود بھی مطالعہ میں رکھواور اپنی بیوی بچوں کو بھی پڑھاؤ۔ بہارِ شریعت مصنّفہ حضرت مولانا امجد علی صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ، کتاب العقائد مصنّفہ حضرت مرشدی واستادی مولانا مولوی نعیم الدین مرادآبادی صاحب دام ظلہم، شانِ حبیب الرحمن سلطنت مصطفےٰ مصنّفہ احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ۔ لڑکیوں کوکھاناپکانا،سینا،پرونا،اورگھر کے کام کاج، پاکدامنی اور شرم و حیاء سکھاؤ کہ یہ لڑکیوں کاہنر ہے ان کو کالیجیٹ اور گریجویٹ نہ بناؤ کہ لڑکیوں کے لئے اس زمانہ میں کالج اور بازار میں کچھ فرق نہیں بلکہ بازاری عورت کے پاس لوگ جاتے ہیں اور کالج کی لڑکی لوگوں کے پاس جاتی ہے،جس کا دن رات مشاہدہ ہورہا ہے۔