Al Ashrafi Jantari 2023/ 1444-45

Bier e Maoona Ka Waqiya


بیرِمَعونہ‘‘ کی ایک مشہور لڑائی ہے جس میں سَتَّر(70) صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک بڑی جماعت پوری کی پوری شہید ہوئی، جن کو ’’قُرَّاء‘‘ کہتے ہیں؛ اِس لیے کہ سب حضرات قرآن مجید کے حافظ تھے، اور سِوائے چند مُہاجِرین کے اکثر انصار تھے، حضورﷺ کواُن کے ساتھ بڑی محبت تھی؛ کیوں کہ یہ حضرات رات کا اکثر حصہ ذکروتلاوت میں گزارتے تھے، اور دن کوحضورﷺ کی بیویوں کے گھروں کی ضروریات: لکڑی،پانی، وغیرہ پہنچایاکرتے تھے، اِس مقبول جماعت کو ’’نَجد‘‘ کا رہنے والا قومِ بنی عامر کا ایک شخص جس کانام عامربن مالک اورکنیت ابوبَراء تھی اپنے ساتھ اپنی پناہ میں تبلیغ اوروعظ کے نام سے لے گیا تھا، حضورِاقدس ﷺنے ارشادبھی فرمایا کہ: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میرے اَصحاب کو مَضَرَّت نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے بہت زیادہ اطمینان دلایا، آپ ﷺ نے اِن ستّرَصحابہ کو ہمراہ کر دیا، اور ایک والانامہ عامربن طُفیل کے نام -جو بنی عامرکارَئیس تھا، تحریر فرمایا، جس میں اسلام کی دعوت تھی، یہ حضرات مدینہ سے رخصت ہوکر ’’بِیرِمَعونہ‘‘ پہنچے تو ٹھہر گئے، اور دو ساتھی: ایک حضرت عمر بن اُمَیہ رضی اللہ عنہ ، دوسرے حضرت مُنذِر بن عَمرو رضی اللہ عنہ سب کے اونٹوں کو لے کر چَرانے کے لیے تشریف لے گئے، اورحضرت حَرام بن ملحان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ دو حضرات کوساتھیوں میں سے لے کرعامر بن طفیل کے پاس حضورﷺ کاوالانامہ دینے کے لیے تشریف لے گئے، قریب پہنچ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ساتھیوں سے فرمایا کہ: تم یہیں ٹھہرجاؤ، مَیں آگے جاتا ہوں، اگر میرے ساتھ کوئی دَغا  نہ کی گئی تو تم بھی چلے آنا؛ ورنہ یہیں سے واپس ہوجانا، کہ تین کے مارے جانے سے ایک کامارا جانا بہتر ہے، عامر بن طفیل اِس عامر بن مالک کابھتیجہ تھا جواِن صحابہ رضی اللہ عنھم کو اپنے ساتھ لایا تھا، اُس کواسلام سے اور مسلمانوں سے خاص عَداوَت تھی، حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے والا نامہ دیا تو اُس نے غصے میں پڑھابھی نہیں؛ بلکہ حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا نیزہ مارا جو پار نکل گیا، حضرت حرام ؓ ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ (ربِّ کعبہ کی قَسم! مَیں توکامیاب ہوگیا)کہہ کر شہید ہوگے، اُس نے نہ اِس کی پرواہ کی کہ قاصِد کومارنا کسی قوم کے نزدیک بھی جائز نہیں، اور نہ اِس کالحاظ کیا کہ میرا چچا اِن حضرات کواپنی پناہ میں لایا ہے۔ اُن کوشہید کرنے کے بعداُس نے اپنی قوم کوجمع کیا، اور اِس پرآمادہ کیا کہ اِن مسلمانوں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو؛ لیکن اُن لوگوں نے ابوبراء کی پناہ کی وجہ سے تردُّد کیا، تو اُس نے آس پاس کے اَور لوگوں کوجمع کیا، اور بہت بڑی جماعت کے ساتھ اِن ستَّرصحابہ کرام علیہم الرضوان کامقابلہ کیا، یہ حضرات آخر کہاں تک مقابلہ کرتے؟

 چاروں طرف سے کُفَّار میں گھِرے ہوئے تھے، بجُز ایک کعب بن زید رضی اللہ عنہ کے، جن میں کچھ زندگی کی رَمَق باقی تھی اور کُفَّار اُن کو مُردہ سمجھ کرچھوڑگئے تھے۔ باقی سب شہید ہوگئے، حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ جو اونٹ چَرانے گئے ہوئے تھے، اُنھوں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مُردار خور جانور اُڑ رہے تھے، دونوں حضرات یہ کہہ کرلوٹے کہ: ضرور کوئی حادِثہ پیش آیا، یہاں آکر دیکھا تو اپنے ساتھیوں کوشہید پایا اور سواروں کو خون کی بھری ہوئی تلواریں لیے ہوئے اُن کے گِرد چَکَّر لگاتے دیکھا، یہ حالت دیکھ کر دونوں حضرات ٹھِٹکے اورباہم مشورہ کیاکہ: کیا کرناچاہیے؟

 حضرت عُمر بن اُمَیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: چلو،واپس چل کر حضورﷺ کو اطلاع دیں؛ مگر حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: خبر تو ہو ہی جائے گی، میراتودل نہیں مانتاکہ شہادت کو چھوڑوں، اور اُس جگہ سے چلاجاؤں جہاں ہمارے دوست پڑے سورہے ہیں، آگے بڑھو اور ساتھیوں سے جاملو، چناں چہ دونوں آگے بڑھے اورمیدان میں کُودگئے، حضرت منذر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور حضرت عمربن اُمیہ رضی اللہ عنہ گرفتار ہوئے؛ مگرچوں کہ عامر کی ماں کے ذِمے کسی مَنت کے سلسلے میں ایک غلام کاآزاد کرنا تھا؛ اِس لیے عامر نے اِن کواُس منت  میں آزادکیا۔ (اَشہرِ مشاہیرِاسلام)

 اِن حضرات میں حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اُن کے قاتل: جَبَّار بن سُلْمیٰ کہتے ہیں کہ: مَیں نے جب اُن کے بَرچھا مارا اور وہ شہید ہوئے، تو اُنھوں نے کہا: ’’فُزْتُ وَاللہِ‘‘: خداکی قَسم! مَیں کامیاب ہوا، اِس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ اُن کی نعش آسمان کو اُڑی چلی گئی، مَیں بہت مُتحیَّرہوا ،اور مَیں نے بعد میں لوگوں سے پوچھا کہ: مَیں نے خود بَرچھا مارا، وہ مَرے؛ لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ: مَیں کامیاب ہوگیا، تووہ کامیابی کیاتھی؟

 لوگوں نے بتایا کہ: وہ کامیابی جنت کی تھی، اِس پرمَیں مسلمان ہوگیا۔

 

 

Huzoor Ghausul Azam RadiAllahu Anhu (Part 03)



     حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  والدفرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت سیدناغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے)ہیں۔میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ''خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اورتیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۶)

 

حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثابت قدمی:

    حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ'' میں نے(راہِ خدا عزوجل میں)بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔'' (قلائدالجواہر،ص۱۰)

 

شیاطین سے مقابلہ:

     شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''میں نے شہنشاہِ بغداد،حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ'' میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھامیرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطاردرقطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا:'' اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو،مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔'' پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ'' یہاں سے چلے جاؤ۔'' تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۵)

 

ظاہری وباطنی اوصاف کے جامع:

    مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ''حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جلد رونے والے، نہایت خوف والے، باہیبت،مستجاب الدعوات، کریم الاخلاق، خوشبودار پسینہ والے، بُری باتوں سے دُوررہنے والے، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے،  نفس پر قابو پانے والے، انتقام نہ لینے والے، سائل کو نہ جھڑکنے والے، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا۔''(بہجۃالاسرار،ذکر شی من شرائف اخلاقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۰۱)

 

سمندرِ طریقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  ہاتھوں میں:

    قطب شہیر ،سیدنا احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ''شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکا کوئی ثانی نہیں۔''  ( بہجۃالاسرار،ذکراحترام المشائخ والعلماء لہ وثنائہم علیہ،ص۴۴۴)

 

چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِفجرادافرمائی:

     شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضوفرماکر دو رکعت نمازِنفل پڑھ لیتے تھے۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۴)

 

پندرہ سال تک ہررات میں ختم قرآن مجید:

    حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے (بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ...الخ،ص۱۱۸)

اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔''(تفریح الخاطر،ص۳۶)

  

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیان مبارک کی برکتیں

    حضرت بزازرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے سنا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے کہ    ''میں نے حضور سیدِعالم،نورِمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:'' بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟''میں نے عرض کیا:'' اے میرے نانا جان(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)!میں ایک عجمی مرد ہوں، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:'' بیٹا !اپنا منہ کھولو۔'' میں نے اپنا منہ کھولا، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ''لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔''

     پھر میں نے نمازِ ظہراداکی اور بیٹھ گیا، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے، اس کے بعدمیں نے حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ''اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟''میں نے عرض کیا:'' اے میرے والد! لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ۔''پھر آپ نے فرمایا:''اے میرے فرزند! اپنا منہ کھولو۔''

    میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا، میں نے عرض کیا کہ'' آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا ؟''تو انہوں نے فرمایا: ''رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے۔''پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور میںنے یہ شعرپڑھا:

ترجمہ:    (۱)فکر کا غوطہ زن دل کے سمندر میں معارف کے موتیوں کے لئے غوطہ لگاتا ہے پھر وہ ان کو سینے کے کنارہ کی طرف نکال لاتا ہے۔

    (۲)اس کی زبان کے ترجمان کا تاجر بولی دیتا ہے پھر وہ ایسے گھروں میں کہ اللہ عزوجل نے ان کی بلندی کا حکم دیا ہے جو طاعت کی عمدہ قیمتوں کے ساتھ خرید لیتا ہے۔(بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ مرصعا بشی من عجائب،ص۵۸)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاپہلابیان مبارک:

     حضورِغوثِ اعظم حضرت سیدناشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا پہلا بیان اجتماعِ برانیہ میں ماہ شوال المکرم۵۲۱ہجری میں عظیم الشان مجلس میں ہوا جس پر ہیبت و رونق چھائی ہوئی تھی اولیاء کرام اور فرشتوں نے اسے ڈھانپا ہوا تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب و سنت کی تصریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف بلایاتو وہ سب اطاعت و فرمانبرداری کے لئے جلدی کرنے لگے۔(بہجۃالاسرار، ذکروعظہ ،ص۱۷۴)

 

چالیس سال تک استقامت سے بیان فرمایا :

     سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' حضورسیدناشیخ عبدالقادرجیلانی غوث اعظم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بہجۃالاسرار،ذکروعظہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۸۴)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  بیان مبارک کی تاثیر:

     حضرت ابراہیم بن سعدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' جب ہمارے شیخ حضورِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عالموں والا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہو کربیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے۔''(المرجع السابق،ص۱۸۹)

Huzoor Ghausul Azam RadiAllahu Anhu (Part 02)

    آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعلم وعمل اورتقویٰ وپرہیزگاری

     حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ''ہم ۵۶۱ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اورجو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرمادیئے تھے۔ ''

(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)

 

تیرہ علوم میں تقریرفرماتے :

    امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اورشیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ '' حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔''

    ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ''حضورِغوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر، حدیث، فقہ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)

 

علم کاسمندر: 

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ'' ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔''(اخبارالاخیار،ص۱۱)

 

ایک آیت کے چالیس معانی بیان فرمائے :

     حافظ ابوا لعباس احمد بن احمد بغداری بندلجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صاحب بہجۃالاسرارسے فرمایا:''میں اورتمہارے والد ایک دن حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والدسے کہا:'' یہ معنی آپ جانتے ہیں؟'' آپ نے فرمایا:''ہاں۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک دوسرا معنی بیان فرمایا تومیں نے دوبارہ تمہارے والد سے پوچھاکہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں؟تو انہوں نے فرمایا'' ہاں۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک اور معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والد سے پھرپوچھا کہ آپ اس کا معنی جانتے ہیں۔اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گیارہ معانی بیان کئے اور میں ہربارتمہارے والد سے پوچھتا تھا'' کیاآپ ان معانی سے واقف ہیں؟''

 تو وہ یہی کہتے کہ ان معنوں سے واقف ہوں۔'' یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پورے چالیس معنی بیان کئے جو نہایت عمدہ اور عزیز تھے ۔ گیارہ کے بعد ہر معنی کے بارے میں تمہارے والد کہتے تھے: ''میں ان معنوں سے واقف نہیں ہوں۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۴)

 

سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااظہارِعقیدت :

    حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' میں نے حضرت سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  روضہ اقدس کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر سے باہرتشریف لائے اورحضورسیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کواپنے سینے سے لگالیااور انہیں خلعت پہناکرارشاد فرمایا: ''اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت ،علم حقیقت، علم حال اور فعل حال میں تمہارا محتاج ہوں۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص،۲۲۶)

 

مشکل مسئلے کاآسان جواب :

    بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ'' ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کریگاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہاہو،اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہے؟'' اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔

      اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیاتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ'' وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔'' اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔''(المرجع السابق)

 

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا:

     حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدفرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت سیدناغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے)ہیں۔میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ''خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اورتیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۶)

حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثابت قدمی:

    حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ'' میں نے(راہِ خدا عزوجل میں)بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔'' (قلائدالجواہر،ص۱۰)

 

شیاطین سے مقابلہ

     شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''میں نے شہنشاہِ بغداد،حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ'' میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھامیرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطاردرقطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا:'' اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو،مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔'' پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ'' یہاں سے چلے جاؤ۔'' تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۵)

 

 

Ummul Momineen Hazrat Syedatuna Sauda Bint ZamaA RadiAllahu Anhu


 

نسب شریف

    ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبدشمس بن عبدود، قرشیہ عامر یہ ہیں، ان کا نسب افضل الانبیاء والمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے لوی میں مل جاتا ہے۔ ان کی کنیت ام الاسود ہے۔  (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)

 

ہجرت حبشہ

      سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابتدا ہی میں مکہ مکرمہ میں ایمان لائیں ان کے شوہر حضرت سکران بن عمروبن عبدالشمس بھی ان کے ساتھ اسلام لائے،جن سے عبدالرحمن نامی لڑکا پیدا ہوا۔ سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی۔ ان کے شوہر مکہ مکرمہ بروایت دیگر حبشہ میں فوت ہوئے۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)

 

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خواب

     سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب مکہ مکرمہ واپس تشریف لائيں توخواب میں دیکھاکہ رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور قدم مبارک ان کی گردن پر رکھا۔ اپنا یہ خواب حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر خواب بعینہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تم بیان کررہی ہو تو میں بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا اور پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تمہیں چاہیں گے۔ پھر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصال فرماگئے۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)

 

نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

     حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے انتقال سے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو نہایت پریشانی ہوئی ،کیونکہ گھر بار ،بال بچوں کا انتظام ان ہی سے متعلق تھا۔ یہ دیکھ کر خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا:یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ نکاح کر لیجئے ،فرمایا: کس سے؟ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضرت عائشہ وسودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا نام لیا ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دونوں سے خواستگاری کی اجازت دیدی۔ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس گئیں اور کہا کہ خدا عزوجل نے تم پر کیسی خیروبرکت نازل فرمائی ہے ۔سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے پوچھاکہ وہ کیا ہے! خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس بغرض خواستگاری بھیجا ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے منظور ہے مگر میرے باپ سے بھی دریافت کرلو۔ چنانچہ وہ ان کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریق پر سلام کیا یعنی انعم صباحاکہا انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا نام بتایا پھر نکاح کا پیغام سنایا انہوں نے کہا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) شریف کفو ہیں مگر سودہ سے بھی دریافت کرلو۔خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ وہ راضی ہيں۔یہ سن کر زمعہ نے کہا کہ نکاح کے ليے آجائیں۔  (شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثالث،سودۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا ،ج۴،ص۳۷۹)

     بعض روایتوں کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور بعض کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا نکاح ثانی ہوا۔  (اسدالغابۃ،کتاب النساء،حرف السین،سودہ بنت زمعہ،ج۷،ص۱۷۳)

     حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے پانچ حدیثیں مروی ہیں ایک بخاری اور باقی چار سنن اربعہ میں مروی ہیں۔  (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۷)

 وصال

     سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ماہ شوال ۵۴ھ؁ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ہوا۔ بمو جب روایت دیگر دور خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہوا۔(المرجع السابق)

 

 


Aalam e Arwaah e Ka Mathaque

ہر روح نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانا اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب، خالق، مالک، معبود صرف وہی ہے۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کردیں۔ قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بجوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں ؟

کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں ؟

فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں۔ اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟

 وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو عہد توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا۔ مسند میں ہے نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کہ میں تم سب کا رب نہیں ہوں ؟

 سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں پھر آپ نے مبطلون تک تلاوت فرمائی۔ یہ روایت موقوف ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے۔ حضرت ضحاک بن مزاحم کے جھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا جابر نے حکم کی بجا آوری کی، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بجے سے کیا سوال ہوگا اور کون سوال کرے گا ؟

 فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے ؟ فرمایا میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  حضر ت سیدناآدم  علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آگئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کجھ فائدہ نہ دے گا۔ بچپن میں ہی جو مرگیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکلایں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں۔ حضرت عمر ؓ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ ﷺ سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں نے انہیں جہنم کیلئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں ؟

 آپ نے فرمایا جو جنتی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہوگا (ابوداؤد) اور حدیث میں ہے کہ اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟

فرمایا یہ تیری اولاد ہے ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک کو حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟

 فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے پوچھا ان کی عمر کیا ہے ؟

 فرمایا ساٹھ سال کہا یا اللہ چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر پس جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کیلئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤد کو ہبہ کردیئے ہیں۔ بات یہ ہے چونکہ آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدم خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم نے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے، یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں اور روایت میں ہے کہ جب آدم  علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟

 فرمایا یہ کہ میرا شکریہ کیا جائے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں ؟ فرمایا یہ انبیاء ہیں۔ کسی شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے ؟

آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو انہوں نے کہا لبیک وسعد یک فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟

سب نے کہا ہاں پھر سب کو ملا دیا کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا ؟

فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے۔ پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا، صورتیں دیں، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم ؑ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت (وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ۙ) 33۔ الأحزاب :7) ، میں ہے۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت (فطرۃ اللہ) میں ہے اسی لئے فرمان ہے آیت (ھذا نذیر من النزر الا ولی) اسی کا بیان اس آیت میں ہے (وما وجدنا لا کثرھم من عھد) (مسند احمد) حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت حسن، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہوجائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کرلیا یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گذرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنے ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت (من بنی آدم) فرمایا اور آیت (من ظھور ھم) کہا ورنہ من آدم اور من ظھرہ ہوتا۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ الانعام :165) اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت (شھدنا علی انفسانا) میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت (مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ  سورہ التوبہ :17) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت (وانہ علی ذالک لشھید) ہے۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے۔ جیسے فرمان ہے (وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ - ابراھیم :34) اس نیت میں تمہارے کا منہ مانگا دیا۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پالینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟

 پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آجانا ممکن ہوجاتا ہے۔

 

 

 

Ziyarat Gaah Kichhauchha Sharif

 

 وہ جگہیں اور وہ مقامات مقدس ومطہر ، شریف و پاکیزہ اور تاریخی و قابل ذکر ہو جایا کرتے ہیں جنہیں رجال اللہ اور مردان خدا سے نسبت وتعلق حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اور لوگوں کی زبان پر بے شمارا ایسے مقامات ہیں جن کے ساتھ مقدس و شریف جیسی نسبت لگی ہوئی ہے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے مکتہ المکرمہ ،مد ینہ طیبہ، بیت المقدس ،  نجف اشرف ، بغدادشریف ،اجمیر شریف ، گلبرگہ شریف ، بہرائچ شریف ، کلیر شریف اور پنڈ وہ شریف وغیرہ۔ قرآن وسنت کے مطالعے ، انبیاء وصالحین کے آثار وقصص اور ان کے نصائح و وصایا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شخصیتوں کے تقدس سے مقامات مقدس ہو جایا کرتے ہیں۔

کچھوچھہ شریف: سرزمین  کچھوچھہ کو مقدس ہونے کا شرف اس لئے حاصل ہے کہ اسے آٹھویں صدی ہجری کے اس مردحق آگاہ سے نسبت وتعلق ہے جو اپنے وقت کا عظیم داعی حق ، بندہ بے نفس، درویش کامل اورغوثیت  و جہانگیری کے بلند مقام پر فائز تھا۔

لحد خانہ: آستانہ عالیہ کے سامنے ایک قدیم عمارت ہے۔ یہ خانقاہ معلیٰ کہلاتی ہے۔ یہاں پر آپ اپنے مریدین و معتقدین کو روحانیت کا درس دیا کرتے تھے۔ بعد وصال وہاں حضرت   مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کوغسل دیا گیا تھا۔ یہ تاریخی اور بہت متبرک ہے۔

روضہ مبارکہ حضرت مخدوم شاہ نظام یمنی قد س سرہ: یہ وہ برگزیدہ صاحب ولایت و علم وعرفان حقیقت اور محبوب مخدوم  اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ ہیں  آپ علیہ الرحمہ نے ۳۰ /سال تک حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی شرف ولایت میں رہ کر ”لطائف اشرفی“ لکھی جو حالات سید اشرف کے علاوہ درس تصوف پر ایک مکمل انسائیکلوپیدیا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ یمن کے رہنے والے تھے ۔حضرت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ساری زندگی ان کے لیے وقف کر دیا۔آپ کا روضہ مبارک مخدومہ سلطانہ  رفیقہ شفیقہ حیات حضرت حاجی الحرمین سیدنا مخدوم شاه عبدالرزاق نورالعین اشرف قدس سرہ کے روضہ اقدس  سے چند قدم آگے لحد خانہ سے متصل داہنی جانب واقع ہے ۔

روضہ مبارک   حضرت بی بی سلطانہ خاتون رحمۃ اللہ علیہا:جب سلطان اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ اپنے فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ظاہری و باطنی تربیت فرما چکے اور انہیں علوم و فنون سے آراستہ فرمادیا تو آپ کو ان کی شادی کی فکرہوئی۔چنانچہ آپ نے ہندوستان کے سادات گھرانوں میں ان کے لئے تلاش شروع کی اور خانوادوں کے نسب کی تحقیق بھی کی آپ کے پاس پہلے سے ہی سادات کے شجرے تھے  کیونکہ آپ نے ایک کتاب" اشرف الانساب " کے نام سے تحریر کی تھی  جس میں ہندوستان میں رہنے والے تمام سادات کے شجروں کی تحقیق کی تھی۔ایک روایت متواترہ یہ بھی ہے کہ بادشاہ ہندوستان  حضرت محی الدین اورنگ زیب  عالمگیر قد س سرہ نے اسی نسب نامہ کے بنیاد پر حضرات سادات کرام کے وظائف مقررکئے اور جاگیریں پیش کیں۔

 حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مخدوم حاجی نورالعین قد س سرہ کا نکاح " سادات ماہرو" میں کرایا ۔ مکتوبات اشرفی میں سادات ماہرو کے بارے میں تذکرہ ہے کہ یہ لوگ نہایت صحیح النسب ہیں جو کشفاق و کشلاق سے ہندوستان آئے ۔آپ کی اہلیہ محترمہ  کانام  بی بی سلطانہ خاتون تھا جن کا مزارشریف آستانہ حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی کے پورب اور دکھن جانب نیر شریف سے کچھ دور پر واقع ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔

خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں: سید اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ  نے درگاہ سے کچھ فاصلےپر اپنی الگ ایک خانقاہ قائم کی اس کا نام"خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں" رکھا آپ نے یہاں رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ذکر و فکر مراقبہ اور دیگر معمولات مشائخ طریقت اس میں جاری کئے۔آج بھی   ہر سال ٢٧،٢٨ ،٢٩ محرم الحرام کو مخدوم پاک علیہ الرحمہ کے عرس کی تمام تقریبات اسی خانقاہ میں ادا  کیے جاتے ہیں ۔

حضرت اشرف حسین میوزیم  : اس میں  خانوادہ اشرفیہ کے تبرکات وملبوسات اور قلمی نوارد موجود ہیں ۔اس کے علاوہ کئی عظیم  شاہکار نوادرات شامل ہیں جن کا  کسی نا کسی شکل میں اسلامی تاریخی، ثقافت اور اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔

جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ:  جامع اشرف آستانہ حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے جواراقدس میں واقع اسلامی وعصری اعلی تعلیم کا عظیم  مرکزی ادارہ ہے۔ اس میں اعداد یہ سے لے کر فاضل تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسالہ تخصص فی الفقہ یعنی مفتی کے کورس کی تعلیم بھی باضابطہ دی جارہی ہے۔اس کے علاوہ حفظ و قرآت کا بھی شعبہ ہے ۔ اس ادارہ سے فارغ ہونے والے علماء اور فضلاء کو " جامعی" کہا جاتاہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ  اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی سند ہمدرد یونیورسیٹی نئی دلی ، مولانا آ زا دارد و یو نیورسیٹی حید رآ با د  اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی  اور بہار مدرسہ بورڈوغیرہ سے منظور شدہ ہے۔ نیز جامعۃ  الازہر مصر سے معادلہ حاصل ہے۔

حضرت مولانا احمد اشرف ہال : شیخ اعظم حضرت  سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ  نے خانقاہ اشرفیہ سرکارکلاں میں  تمام اسلامی تقریبات  کے لئے ایک وسیع وعریض شاندار فلک نما عمارت تعمیرکرادی ہے جس کا نام حضرت سلطان الواعظین علیہ الرحمہ کے نام نامی پرہے۔

حضرت مختار اشرف لائبریری :  یہ لا ئبریری ہندوستان کی عظیم لائبریریوں میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار غالبا نا مناسب نہ ہوگا کہ اس لائبریری میں احادیث و تفاسیر ،فقہ واصول ، تواریخ و سیرت و سوانح، تقابل ادیان ،کلیات و مجلات ، قدیمی مخطوطات ، قلمی نسخے  اورلسانی ادبیات پر عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت ، انگلش میں موجود ہیں  جو عام  لائبریریوں میں دستیاب نہیں ہیں۔

روضۂ اقدس بی بی بلائی: یہ وہ بلی ہیں جو بابا کمال الدین بیانی کی خدمت میں رہتی تھیں جب آپ کو مخدوم باکمال کی صحبت سعید وارادت کا شرف حاصل ہوا تو آپ کے ساتھ بی بی بلائی بھی خدمت مخدوم میں رہنے لگیں۔ اور آپ کی پیاری ہو گئیں ۔  حقیقت ہے کہ "نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں" جوکسی محبوب خدا سے منسوب ہو جائے اور اس کی محبت میں اپنی جان قربان کر دے تو وہ محبوب حق اور صاحب روحانیت ہو جاتا ہے ۔  چنانچہ بی بی بلائی کی روحانیت  بھی لطف و کرم مخدوم کے طفیل محتاج قیل و قال نہیں بلکہ مسلم ہے۔ درگاہ معلی سے جانب مشرق کچھ فاصلے پر دفع آسیب وبلیات کے لیے محتاج تعریف نہیں ۔ آسیب زدگان کی زبان سے نکلنے والی چیخ خود      بی بی بلائی کی روحانیت کا اعلان و اقرار کرتی ہے۔

چہارگز دار الامان:  غوث العالم  محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے آستانہ مقدسہ سے ایک کلومیٹر شمالی گوشے میں موجود ہے۔ یہ جگہ پر سکون ذکر الہی، عبادت وریاضت کے لئے بہت مناسب ہے۔ حضرت مع جملہ مریدین و معتقدین  نماز عصر تا مغرب یہاں اوراد و وظائف میں مشغول رہا کرتے تھے۔  بقول مخدوم پاک علیہ الرحمہ کہ  یہ  وہ جگہ ہے  جہاں تاقیامت  حساب بصیرت و دیدۂ باطن کے غوث، قطب اور ابدال سے ملاقات ہوگی ۔ یہ جگہ ایک لمبے تالاب کے کنارے واقع ہے۔

درگاہ پہلوان شہید  علیہ الرحمہ:  آپ کا مکمل تاریخی ذکر نہیں ملتا۔ آپ کی بیشتر کرامتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ ایک زمانے جب آپ کے مزار کی نشاند ہی نہیں ہو پار ہی تھی۔ ایک ظالم کے ظلم سے قبروں کے نشان مٹ رہے تھے۔ آپ نے خواب میں کئی لوگوں کو اپنے قبر کی نشاندہی کی۔ ساتھ ہی ظالم کے ظلم سے نجات بھی دلانے کا وعدہ کیا۔ بہت پہلے سے ایک بات مشہور تھی کہ آپ نے روح آباد کے متعلق حضرت سید اشرف کا قول سنا کہ ایک زمانے میں حاجت مندوں کی تعداد بڑھے گی۔ جس کی وجہ سے بے ادبی اور گندگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہذاجو بر داشت کر سکے وہ یہاں قیام کرے ورنہ وہ دور کہیں جگہ تلاش کر لے۔ آپ نے اپنا سرخود ہاتھ میں لے کر اپنی قبر تک آئے اور وہیں ہاتھ سے سر چھوڑ کر فرمایا۔ یہی میرے سکون کی جگہ ہے ۔ بہت سے لوگوں نے من گھڑت یہ لکھ دیا ہے کہ پہلوان شہید حضرت مخدوم اشرف کے زمانے سے پہلے کے ہیں ۔ یہ سراسر جھوٹ  اور غلط ہے ۔واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کا عہد حضرت کے بعد کا ہے یا اسی دور کا ہے۔ واللہ اعلم

سادات کچھوچھہ مقد سہ: یہاں کے سادات کا سلسلہ نسب حاجی الحرمین  سید شاہ عبد الرزاق نورالعین رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے جو کہ  غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ  کے چوتھی پشت سے تھے۔ حضرت مخدوم اشرف قدس سرہ  حضرت عبدالرزاق نورالعین رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندوں کو بہت محبوب رکھتے اور فرماتے ’’جو شخص نورالعین کے فرزندوں سے بغض رکھے گا وہ سارے سلسلہ چشت کا دشمن ہے اور سارے مشائخ چشت کا دشمن، میرادشمن ہے۔  خودحضرت نورالعین  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " ایک روز مخدوم پاک قد س سرہ پر عجیب و غریب کیفیت طاری تھی اصحاب کے بارے میں بشارت انگیر اور مسرت آمیز باتیں کررہے تھے ، جب میری باری آئی تو بہت غور کیا آخر میں خوش ہوکر فرمایا ، ہرگز ہرگز میں نے اپنا سب کاسب تم پر نثار کردیا ہے اور کوئی چیز تم سے بچا کرکے نہیں رکھی ہے ۔  اے فرزند نورالعین ! میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہاری اولاد کے لئے دعاکی ہے ہمیشہ مسعود اور مقبول رہیں اور تمہاری اولاد میں دستور کے مطابق ایک فرد رجال الغیب میں سے اور ایک مجذوب ہوگا بلکہ ایک فرد پیدا ہوگا جس میں میرے احوال پیوست ہونگے ( لطائف اشرفی ٥٦/٦٢٤) آستانہ مقدسہ کا سجادہ نشین انہیں سادات میں ہی مقرر ہو تا چلا آیا ہے ۔

نیر شریف: نیر شریف کا پانی بہت متبرک اور بے پناہ اہمیتوں کا حامل ہے۔ اس کی کھدائی حضرت مخدوم اشرف رحمۃ اللہ علیہ کے جلو میں خود قلندروں نے ضرب لا الہ الا اللہ سے کی تھی اور حضرت اپنے اصحاب و مریدین کے ساتھ جب حج کو جاتے سب کے ساتھ ایک مشک ہو تا اور آپ زمزم لاکر نیر شریف میں ملاتے اور فرماتے یہ پانی مریضوں کے شفایاب ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کا پانی بہت سارے امراض میں مفید ثابت ہوئی ہے۔ پاگلوں اور جنونی کیفیت رکھنے والوں کے لیے آب شفاء ہے، اس کے علاوہ آسیب و بلیات سے بھی نجات ملتی ہے کسی طرح کا بھی جسمانی یا روحانی مریض ہو ، اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ تقریباسات سو سال اس تالاب کی کھدائی کو ہوئے، اس مدت میں  لاکھوں کی تعداد میں لوگ شفایاب ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

چراغ شریف: حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ کے نام کا چراغ حضرت سید اشرف جہا نگیر سمنانی کے خلیفہ اکبر اور سجادہ نشین سید عبدالرزاق نور العین رحمۃ اللہ علیہ اوپری حصے میں روشن کیا کرتے تھے جس کی رسم اب تک چلی آئی ہے۔ اس چراغ کی بڑی تاثیر ہے۔  جس گھر میں حضرت کا چراغ روشن ہو تا ہے مؤکلوں کا پہرہ رہتا ہے ۔ دفاع جن  کے لئے بہت ہی کارگر ہے۔

میلہ ماہ اگہن: یہ میلہ ہندی مہینے کے اعتبار سے ایکاد یشی یعنی دیوالی کے بارہ دن پہلے سے شروع ہو تا ہے اور چالیس روز تک مسلسل رہتا ہے۔ اس میلے میں لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اس میلے میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ دوسرے مذاہب (ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، پنجابی وغیرہ ) کے لوگ اپنی عقیدت و محبت کے اعتبار سے حضرت مخدوم کچھوچھہ قد س سرہ النورانی  کی بارگاہ میں آتے ہیں اور فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔  چونکہ  غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی السامانی  نوربخشی قد س سرہ النورانی  کا فیض بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کے دکھ درد کا مداوا کر کے اپنے حسن و اخلاق سے غیر مسلموں کی راہ حق دکھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کی بے تعصبانہ زندگی کی ایک مثال یہ ہے کہ آستانہ مقدسہ پر ہر دھر م ہر مذہب کے لوگ یکساں فیض حاصل کرتے ہیں۔

غسل شریف:  غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  علیہ الرحمہ کے روضہ مقدسہ وقبر انور کا غسل سال میں ایک بار ہو تا ہے ، اس کی تاریخ معین نہیں ہے بلکہ صاحب سجادہ کے جلو میں خاندان اشر فیہ غسل کی تاریخ طے کر تا ہے اور صاحب سجادہ اس تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔ قبر انور کا غسل خالص کیوڑہ سے دیا جا تا ہے ۔

عدالت:  آپ کی بارگاہ میں تین اوقات کی عدالت معین ہے ۔(ا) بعد نماز فجر سے صبح ساڑھے چھ بجے تک۔( ۲)  دس بجے دن سے زوال کے وقت تک۔( ۳) چار بجے سے مغرب تک۔ان اوقات میں آستانہ  مقدسہ پر حاضری دینے سے آسیب و بلا ہیات اور جن و شیطان کے اثرات دور ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ روحانی، جسمانی یا کیسا بھی مرض ہو ٹھیک ہو جاتا ہے۔

چلہ:  چلہ مقصد بر آوری کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس سے حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کی خاص توجہ ہوتی ہے۔ اس بار گاہ میں بڑے علماء کرام اور صوفیاء عظام اور عوام اہل سنت نے چلہ کیا ہے اور انہیں چلہ کرنے میں بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ چلہ طاق دنوں پرمشتمل ہو تا ہے ۔  ۲۱/۷/۳     دنوں کا ہو تا رہے اور بڑا چلہ چالیس دن کا ہو تا ہے۔

آداب حاضری: غوث العالم تارک السلطنت محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ بزرگان دین کے دربار میں حاضری دیناان سے ملاقات کے برابر ہو تا ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ وہ ہماری مادی آنکھوں سے  اوجھل ہیں لیکن ہم ان کی آنکھوں سے دور نہیں ہیں۔ حاضری دینے کے لیے باوضو ہونا لازمی ہے۔ بڑے احتیاط اور ہو شمندی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہو سکے ادب کا دامن چھوٹنے نہ دے۔ روضہ اقدس میں نہایت ہی مؤدب انداز میں داخل ہو۔ پہلے داہنا قدم رکھے بعدۂ ہدیہ سلام قبل فاتحہ پیش کر دے بعدہ چند وقفہ حضرت کا تصور کرکےدعا مانگے۔  یہ وہ بار گاہ ہے جہاں فرشتےمؤدب ہو کر جاتے ہیں ۔ حضرت وارث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تین روز کا چلہ کیا تو ہر وقت ورود و وظائف میں مشغول رہا کرتے لیکن روضہ اقدس میں جاتے ہوئےڈرتے۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے یہ وہ بار گاہ ہے جہاں بزرگ بھی آپ کے جلال سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے ایک عقیدت مند اور صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ التفات کو متوجہ کرنے کے لیے آداب حاضری جس قدر ممکن ہو خیال رکھے۔

عرس شریف: ۲۵ محرم الحرام تا ۳۰ محرم الحرام عرس شریف کی تقریبات ہوتی ہے۔ چونکہ ۲۸محرم الحرام کو  غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم  سلطان حضرت سید اشرف  جہانگیر سمنانیقد س سرہ النورانی  کا وصال ہوا تھا۔  اس لئے۲۸ محرم الحرام کو  مخدوم زادہ  قائد ملت حضرت علامہ  الشاہ سیدمحمدمحمود اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی بمقام خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکاں کلاں  (گراؤنڈ جامع اشرف )  درگاہ کچھوچھہ شریف میں ادا  فرماتے ہیں اور اس موقع پر دور دراز سے آئے عقیدت مندوں، مریدین و متوسلین اور حاجت مندوں کے لیے دعاء خاص کی جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ پانچ دن حضرت مخدوم پاک  قدس سرہ کی نگاہ التفات کو متوجہ کرنے کے لیے بہت اہم ہے مزید محفل سماع کا پروگرام رہتا ہے۔