Hazrat Shah Aurangzeb Alamgeer Aur Kuchh Baten (Urdu)


حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمۃ
 اور کچھ باتیں
یہ  سبهی جانتے ہیں کہ تاریخ  کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے جس کے پیغام کو بگاڑنا  یا اس کے سیاق و سباق کو مجروع کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ایک عرصہ سے کچھ شر پسند عناصر اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں تاکہ  اس سے من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں  تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ مسلمانوں  کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو اور یوں  انکا  اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جائے اور انہیں  اپنے اسلاف کے تاریخی کارناموں سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو ۔ وہ ان کی طرح پیچیدہ حالات اور بدلتی دنیا کے چیلنجز کا پورے اعتماد سے سامنا  کرنے کے بجائے مایوس ، ناامید اور عزت نفس کے باب میں بالکل کھوکھلے ہوجائیں اس کا سب سے کارگر نسخہ یہ اختیار کیا گیا  ہے کہ مسلم تاریخ کو برا بھلا کہا جائے ، خصوصا ان عظیم لوگوں کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں  کی وجہ سےمسلمانوں کا فخر ہیں ،ایسے لوگ اگر اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کرلیتی ہے' ان کو ڈاکو ، غاصب ، ظالم ، خودغرض ، عیاش ثابت کیا جائے ، انکی ذاتی زندگی کے متعلق کہانیاں گھڑی جائیں ۔  اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی جن  نامور شخصیات کو سب سے ذیادہ نشانہ بنایا گیا ان میں  محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالمگیر نمایاں ہیں، اور اب دہلی حکومت اونگ زیب کے نام سے منسوب روڈ کو ان کا نام ہٹا کر  اے پی جے عبدالکلام کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ نئی نسل اور غیر مسلموں میں اورنگزیب علیہ الرحمۃ کے تعلق سے منفی میسج دیا جائے اور شر پسند عناصر کے جهوٹے دعویٰ کو تقویت ملے......ان کے  تعلق سے چند باتیں ملاحظہ فرمائیں. ...
1- حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ مذہبی آدمی تهے اور امن پسند آدمی تهے اور رزق حلال کهاتے تهے اور حقوق العباد اور حقوق اللہ کا خاص خیال کرتے تھے اور غیر مسلموں کا خصوصی خیال کرتے تھے اور بہت سے گاؤں  کئی ہندوؤں کو جاگیر دیئے تهے اور آپ منشی نند نال تها جو کہ ہندو تها اور فوج میں کچھ بڑے  بڑے منصبوں پر  ہندو بهی تهے اور آپ حکومت کا چراغ حکومت کے کاموں کے لئے استعمال کرتے تھے اور اپنے کاموں کے لئے اپنا چراغ استعمال کرتے تھے وغیرہ وغیرہ
2- آپ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے تھے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سب کی رعایت کرتے تھے اس لیے متشدد تهے اور غیر مسلم مخالف تهے !!!!! یہ کہنا خود ہی تاریخی حقائق سے منہ موڑ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پهیلانا ہے -اپ نے  ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچایا کیونکہ ہندو راجاؤں اور سکهوں نے ملک کو تقسیم کرنے کے لیے ہمیشہ تخریب کاری کرتے رہتے تھے بغاوت کرنے والوں کو سرکشی کرنے والوں پر کارروائی کرنا کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے آپ  ہندو اور سکھ مخالف تهے حالانکہ آپ کی فوج میں ہندو اور سکھ بهی تهے ! !!! مندروں کو توڑنا سبهی کو یاد ہے حالانکہ پنڈتوں کے فیصلے پر یہ مندریں توڑی گئیں تهی لیکن دوسری مندروں کو دیگر جگہوں پر بنوانا اور انکی حفاظت کرنا اور بنارس کے پنڈت کی بیٹی کی حفاظت کرنا اور مسلم کوتوال کو سزا دینا اور انصاف و عدل اور عزت و آبرو جان و مال کی حفاظت کرنے والے  واقعات کسی کو یاد نہیں ہے !!!!!
رہی بات سکهوں کے گرو ارجن سنگھ یا ان  کے دو بچوں کو دیوار میں چنوانے کی تو اس میں ارجن سنگھ کا نوکر گنگو (گنگا رام" جو ہندو تها اور جو  بچوں کو پکڑ کر سرہند کے کوتوال کے پاس لے گیا جہاں وہاں کے حاکم نے دونوں بچوں کو دیوار میں چنوادیا وہ بھی ہندو راجاؤں کے کہنے پر اور حضرت اورنگزیب کا منشی نند لال نے آپ کو اندهیرے میں رکھ کر پنجاب کے ہندوؤں سے خفیہ  طور پر مل کر گرو ارجن سنگھ اور انکے بچوں کے خلاف نفرت پهیلائی .... ایسی بہت سی جهوٹی  باتیں ہیں جو حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے منسوب کی گئی ہیں اس کے لیے مشہور مؤرخ ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب "مغل وراثت"پڑهیں جن کا شمار غیر جانبدارانہ مورخین میں ہوتا ہے جو تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں.
قارئین کرام !اسی ضمن میں حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر سرسری طور پر نظر ڈالتے ہیں :
آپ کا دور ِ حکومت: ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ ، نام :محی الدین ، اورنگزیب لقب، آپ  کے والد شاہجہان نے آپ کو عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے آپ  کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ آپ  کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگا میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیر نےدونوں‌بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔اور آپ  کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں آپ  پہلے وہ بادشاہ ہیں جنہوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی ، اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر کیا گیا۔ اس دوران میں آپ نے  کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھے آپ نے ہندوؤں اورمسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر کروائی گویے  قوال ، نجومی ، پر پابندی عائد کر دی گئی۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کروادی  ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔آپ  احمد نگر میں بیمار ہوئے اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں وفات ہوا ۔ وصیت کے مطابق آپ کو خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں آپ  کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ آپ  بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھے ۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے۔ سلجھا ہوا ادیب تھے۔ آپ  کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ آپ  کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ ...
محمد عباس مصباحی / قاہرہ مصر

Hazrat Aurangzeb Alamgeer aur Kuch Baten (Hindi)


हजरत औरंगजेब रहमतुल्ला हि अलैह और कुछ बातें
           फूट डालो और राज करो" की नीति के तहत अंग्रेजो ने मुस्लिमों को हिन्दुओं और सिखों से लड़वाने के लिए भारत के मुस्लिम शासकों के विरुद्ध गैर मुस्लिमों पर अत्याचार की बहुत सी भड़काऊ बातें इतिहास मे लिखवाई हैं, प्राय: ये भड़काऊ बातें तथ्यों को गलत ढंग से पेश कर के लिखी गई हैं. अब जैसे औरंगजेब पर गुरु गोबिंद सिंह जी महाराज से युद्ध कर के गुरु महाराज के साहिबजादों की हत्या करने, और गुरू महाराज के दो नन्हे साहिबजादों को दीवार मे चुनवा डालने के आरोप लगाए गए हैं !! कहा गया है कि औरंगज़ेब ने सभी गैर मुस्लिमों को काफिर मानकर उनसे नफरत करना, और उनको जबरन मुस्लिम बनाना अपना परम कर्तव्य समझ रखा था, इसी कारण औरंगज़ेब ने गुरु साहिबों की भी हत्या करवा डाली |

औरंगजेब पर इतने गम्भीर आरोप निश्चय ही इस कारण लगाए गए क्योंकि औरंगजेब को इस्लाम का गहरा ज्ञान रखने और इस्लाम के नियमों पर जीवन बिताने के कारण जाना जाता है | इस कारण औरंगजेब द्वारा किए गए सारे दुष्कृत्योंबहुत आसानी से इस्लाम प्रेरित और इस्लामी शिक्षाओं के अनुकूल सिद्ध किया जा सकता था | इससे हिन्दुओं और सिखों के मन मे किसी व्यक्ति विशेष से नहीं बल्कि पूरे इस्लाम धर्म से ही नफरत पैदा हो जाती

अंग्रेजो ने केवल औरंगजेब से नफरत न दिलाकर उसके धर्म से सिखों और हिन्दुओं आदि को नफरत दिलाने की युक्ति इसलिए लगाई थी , क्योंकि यदि गुरु साहिबों की हत्या के आरोप केवल व्यक्तिगत रूप से औरंगजेब , और औरंगजेब के निजी राजनीतिक स्वार्थ पर लगाए जाते, तो लोगों को केवल औरंगजेब से दुश्मनी महसूस होती, और वो दुश्मनी औरंगजेब की मृत्यु के साथ ही समाप्त भी हो जाती  लेकिन इन्हीं घटनाओं को औरन्गजेब द्वारा काफिरों के विरुद्ध इस्लामी जिहाद सिद्ध किए जाने के कारण दोनों समुदायों मे ऐसी फूट पड़ी जिसका नतीजा हमने 1947 मे बंटवारे के समय हुए खून खराबे मे देखा  ॥ बहरहाल …..

इतिहासविद् डॉ. बी एन पाण्डेय ने औरंगज़ेब के फरमानो और गुरु गोबिंद सिंह जी द्वारा बादशाह औरंगज़ेब को लिखे गए पत्र ज़फरनामाके आधार पर अपनी पुस्तक मे इस विषय मे जो लिखा उसका सारांश ये है कि औरंगज़ेब के राज्य के अधीन आने वाले हिंदू पहाड़ी राजाओं ने गुरु महाराज के मन्सदको मिलने वाली बहुमूल्य भेंटों के लालच मे मन्सद की हत्या कर दी तब दरबार साहिब की सम्पत्ति वापस लेने के लिए गुरु गोबिंद सिंह जी की फौज ने पहाड़ी राजाओं पर हमला कर दिया, गुरु महाराज की फौज जब पहाड़ी राजाओं पर भारी पड़ी , तो इन राजाओं ने औरंगज़ेब को ये संदेश भिजवाया, कि गोबिन्द सिंह एक बागी है जिसने बादशाह की रियाया पर हमला कर दिया है, अत: बादशाह उन्हें गोबिंद सिंह जी के विरुद्ध सैन्य सहायता भेजे पर मन्त्रियों की सलाह पर बादशाह औरंगज़ेब ने गोबिंद सिंह जी की फौज के विरुद्ध अपनी ओर से फौज नहीं भेजी पहाड़ी राजाओं के गुरु की फौज से युद्ध होते रहे , गोबिंद सिंह जी के आगे कमजोर पड़ रहे पहाड़ी राजाओं ने औरंगजेब को दोबारा लिखा कि यदि जहांपनाह हमें मदद नहीं देंगे तो गोबिंद सिंह सारा राज्य हड़प लेंगे और पंजाब के सबके सब हिंदू आपके हाथ से निकल जायेंगे

इस बार औरंगज़ेब पहाड़ी राजाओं के धोखे मे आ गए और अपनी सत्ता और राज्य पर खतरा समझकर गुरु जी के विरुद्ध फौजी टुकड़ी भेज दी, यहाँ ये ध्यान देने की बात है कि औरंगज़ेब ने अपनी फौज किसी धार्मिक गुट के विरुद्ध किसी धर्म से दुश्मनी मानकर नहीं भेजी थी बल्कि अपने साम्राज्य पर से कब्जे का खतरा हटाने को भेजी थी

इसके बाद घमासान युद्ध हुआ जिसमें गुरु महाराज के दो साहिबजादे काम आए, एवं गोबिंद सिंह जी को भूमिगत होना पड़ा माता गूजर कौर और गुरु महाराज के दो मासूम साहिबज़ादे गुरू जी के रसोइये गंगू (गंगा राम) के साथ थे परंतु ईनाम के लालच या जान के डर से गंगू ने माता और साहिबजादों को औरंगज़ेब के एक अधीनस्थ सरहिन्द के नवाब को सौंप दिया जिस मूर्ख नवाब ने औरंगज़ेब की जानकारी के बगैर मासूम बच्चों को दीवार मे ये सोचकर चिनवा दिया कि उसकी इस हरकत से बादशाह खुश होंगे, हालांकि मलेर कोटला के मुस्लिम नवाब ने उसे ऐसा करने से बहुत रोका, क्योंकि इस्लाम मे अवयस्क बच्चों की हत्या को एक जघन्य पाप बताया गया है

लेकिन सरहिन्द का जाहिल नवाब न माना, और अनहोनी कर के रहा, किन्तु इतना तय है कि यदि माता गूजरी और साहिबजादों को औरंगज़ेब के सम्मुख प्रस्तुत किया जाता तो औरंगज़ेब उन मासूम बच्चों की हत्या का आदेश तो बिल्कुल ही न देते ।

सन् 1705 मे किसी जगह से गोबिंद सिंह जी ने औरंगज़ेब को फटकारते हुए एक पत्र लिखा , इसी ऐतिहासिक पत्र को आज ज़फरनामाके नाम से जाना जाता है , इस पत्र में गुरु महाराज ने औरंगज़ेब से कहा कि तुझे शर्म नहीं आती कि तूने उन मूर्तीपूजकों को मुझ मूर्तीभंजक के विरुद्ध मदद दी | पत्र को पढ़कर और गुरु महाराज का सारा पक्ष जानकर बादशाह औरंगज़ेब का मन ग्लानि और पछतावे से भर उठा कि अनजाने मे, पहाड़ी राजाओं के धोखे मे आकर बादशाह ने एक पुण्यात्मा को ऐसे कष्ट दे डाले |
औरंगज़ेब ने तुरंत ये फरमान जारी कराया कि गुरु गोविन्द सिंह जहां चाहे रहकर, जिस तरह चाहे ईश्वर को याद कर सकते हैं, और उनके साथ कहीं कोई दुर्व्यवहार न किया जाए  इसके साथ ही बादशाह औरंगज़ेब ने गुरु गोबिंद सिंह जी से मुलाकात करने की इच्छा व्यक्त की थी, सम्भवत: गुरु जी से अपनी गलतियों की माफी मांगने के लिए  लेकिन ऐसा हो पाता, इससे पहले ही औरंगज़ेब का देहान्त हो गया  और अंग्रेजो को हमारे बीच फूट डालने का सुनहरा मौका मिल गया परंतु जितनी दुश्मनी आज हम उन इतिहास की बातों को लेकर मानते हैं, देखना चाहिए कि गुरु गोबिंद सिंह जी भी औरंगज़ेब या उनके वंशजो से उतनी ही दुश्मनी मानते थे ??
तथ्य बताते हैं, कि गुरु महाराज के मन मे औरंगज़ेब या मुगल वंश से कोई बैर न था, इसीलिए जब औरंगज़ेब के ही पुत्र बहादुर शाह प्रथम ने उत्तराधिकार के युद्ध मे अपने भाईयों के विरुद्ध गुरु गोबिंद सिंह जी से सैन्य सहायता मांगी तो गुरु जी ने खुले ह्रदय से मुगल साम्राज्य के हित के लिए बहादुर शाह प्रथम की सहायता की थी॥

ऐतिहासिक तथ्यों की पुष्टि के लिए हिंदी अकादमी दिल्ली द्वारा प्रकाशित इतिहासकार और शोधकर्ता श्री बी. एन. पाण्डेय की लिखी पुस्तक मुगल विरासत : औरंगजेब के फरमानपढ़िए ॥
आमिर पटेल, लुणावाड़ा

प्रस्तुत :अब्बास मिसबाही अजहरी काहिरा मिस्र--