امام المحدثین سید دیدار علی مشہدی اشرفی علیہ الرحمہ

 


آپ علیہ الرحمہ 1273ہجری بمطابق 1856ء پیر کے دن ریاست الور کے ایک ممتاز علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب جنید زماں سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے ہوتا ہوا امام علی بن موسی الرضا مشہدی سے جا ملتا ہے۔آ پ کا خاندان ابتداء  ہی سے زہد و تقویٰ اور بزرگی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کے والد مولانا صوفی سید نجف علی رضوی جید عالم اور جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے۔ حضرت محدث الوری علیہ الرحمہ اپنے عم مکرم حضرت مولانا سید نثار علی رضوی مشہدی کی دعا سے پیدا ہوئے جو کہ جید عالم دین اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔

حضرت محدث الوری علیہ الرحمہ کے والد محترم حضرت سید نجف علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ اولاد سے محروم تھے۔ ایک دن آپ کی زوجہ محترمہ نے عرض کی۔ سب کے کام کرتے ہوہماری مراد کب پوری ہو گی۔فرمایا: اب کے جب چلہ سے فارغ ہوں تو بات کرناچنانچہ آپ اکتالیس روز اپنے مخصوص حجرہ میں چلہ کش رہے۔ دن کو روزہ رکھتے، نمک، پانی اور باجرے کی روٹی سے افطار فرماتے۔ نماز پنجگانہ کے لئے مسجد تشریف لاتے،نہ کسی سے ملاقات کرتے اور نہ کلام کرتے۔ یوں اکتالیس روزعبادت و ریاضت میں گزارنے کے بعد فرمایا:" بیٹا پیدا ہو گا دین کا چراغ ہو گا۔ دیدا ر علی نام رکھنا  "۔

مولانا سید دیدار علی شاہ علیہ الرحمہ کا بچپن اپنے عم مکرم قطب وقت سید نثار علی رضوی مشہدی علیہ الرحمہ کی آغوش شفقت میں گزرا۔آپ نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں الور میں مولا قمر الدین سے پڑھیں، مولا نا کرا مت اللہ خاں سے دہلی میں درسی کتابوں اور دورہ حدیث کی تکمیل کی، فقہ و منطق کی تحصیل مولانا ارشاد حسین رامپوری سے کی جو کہ تمام علوم اسلامیہ تفسیر و حدیث اور فقہ کے امام اور تقوی و طہارت میں یکتا تھے۔ ہندوستان کے جید علماء  نے آپ علیہ الرحمہ سے حدیث کا درس لیا۔ اس کے بعد آپ نے مولانا عبد العلی رام پوری (جو امام منطق تھے) سے معقولات کا درس لیا۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ نے شیخ الحدیث مولانا احمد علی محدث سہارنپوری علیہ الرحمہ سے کتب حدیث کی سماعت کی ان دنوں آپ کے ہم سبق پیر جماعت علی شاہ علیہ الرحمہ ، مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ اور پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ تھے۔اس کے علاوہ مولانا سید دیدار علی شاہ علیہ الرحمہ کو حضرت مولانا عبد الغنی مہاجر مدنی(جنہیں چالیس اکابر علماء مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے حدیث و فقہ کی اجازت تھی) سے اور امام فن قرأت عبد الرحمن صاحب پانی پتی علیہ الرحمہ سے بھی قرآن مجید و حدیث و فقہ کی روایت کی اجازت حاصل تھی۔امام المحدثین سید دیدار علی شاہ مشہدی علیہ الرحمہ تکمیل علوم کے بعد سہارنپور سے الور تشریف لائے تو سید شاہ نثار علی رضوی نے آپ کو اپنے صحبت میں رکھ کر منازل سلوک طے کرائے اور علوم روحانیہ سے سرفراز کرتے ہوئے خلعت خلافت عطاء فرمائی    بعد ازاں محدث الوری مزید روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لئے انبالہ میں سائیں توکل شاہ انبالوی کی خدمت میں پہنچے اور کامل دو سال آپ کی زیر تربیت ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے۔ حضرت انبالوی نے آپ کو سلاسل اولیاء کی اجازت و خلعت خلافت عطاء فرماتے ہوئے فرمایا۔ اب گنج مراد آباد جاؤ۔ وہاں تمہارا حصہ تمہارے لئے چشم براہ ہے۔ گنج مراد آبادان دنوں مولانا فضل رحمن صدیقی گنج مرا دآبادی کے وجود مسعود کی وجہ سے انوار ِ روحانی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ بڑے بڑے علماء و مشائخ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر فیض روحانی حاصل کرتے تھے جس کا اندازا اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا محدث بریلوی بھی مرا دآباد مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی سے ملاقات اور فیض و برکت کے لئے حاضر ہوئے۔ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرا دآبادی حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد اور قطب الاقطاب حضرت محمد آفاق دہلوی کے مرید اور خلیفہ تھے۔

امام المحدثین سائیں توکل شاہ انبالوی کی ہدایت پر گنج مراد آباد حاضر ہوئے اور قطب الاقطاب مولانا فضل رحمن گنج مرا دآبادی کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ میں آپ سے بیعت ہوئے اور حدیث کی اس منفرد سند کے حصول کا شرف حاصل کیا جو صرف ایک واسطے سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور صرف دو واسطوں سے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک پہنچتی ہے۔ حضرت محدث الوری فرمایا کرتے تھے کہ حضرت قطب الاقطاب گنج مرا دآبادی کی مجھ پر خاص نظر کرم تھی اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ شیخ نے اپنے صاحبزادے حضرت مولانا شمس الدین احمد میاں نقشبندی کے ساتھ مجھے حدیث کا درس دیا اور مجھے تمام اعمال و اذکار سلاسل اولیاء اللہ کی اجازت اور خلافت عطاء فرمائی۔اس کے علاوہ امام المحدثین کو مجددسلسلہ چشتیہ اشرفیہ محبوب ربانی اعلیٰ حضرت  مولانا سید علی حسین اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے سلسلہ اشرفیہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کے پیر خانے سے سید اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ سے سلسلہ قادریہ برکاتیہ سمیت خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی سے سلسلہ قادریہ رضویہ کی  خلافت حاصل تھی۔

آپ علیہ الرحمہ نے 22رجب المرجب 1354ہجری بمطابق 20 اکتوبر 1935 داعی اجل کو اس وقت لبیک کہا جب نماز عصر کے لئے نیت باندھ چکے تھے۔ اندرون دہلی دروازے پرانا حزب الاحناف میں آپ کی آرام گاہ مرجع خاص و عام ہے جہاں پر ہر سال 22 رجب المرجب کوصاحبزادہ پیر سید نثار اشرف رضوی کی زیر صدارت آپ کا عرس عقیدت و احترام کے ساتھ آج بھی منایا جا تا ہے اورآج بھی آپ کا آستانہ علمی و روحانی فیض کا مرکز ہے۔

خطیب اعظم حضرت علامہ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ

 

ولادت باسعادت  

خطیبِ پاکستان، واعظِ شیریں بیان حضرت مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی بن شیخ کرم الٰہی علیہ الرحمہ  کی ولادت 1348ھ/1929ء کو کھیم کرن، مشرقی پنجاب (ہند) میں ہوئی۔آپ علیہ الرحمہ   1947 ء میں قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے۔

بیعت و ارادت: 

آپ نے شیخ المشائخ حضرت پیر میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوئے ۔

تعلیم وتربیت: 

شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ اور غزالیٔ دوراں حضرت علامہ سید احمد سعیدکاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے علوم دینیہ حاصل کئے اور اسناد حاصل کیں ْ

مختلف خدمات دینیہ: 

 برلا ہائی اسکول اوکاڑہ میں دینیات کے ٹیچر رہے۔

1955ء میں کراچی تشریف لائے اور کراچی کی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ) میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دئیے، میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ ان تمام مساجد میں تفسیرِ قراٰن کا درس دیتے رہے اور مجموعی طور پر تقریباً نو پاروں کی تفسیر بیان کی۔ تین ہزار سے زائد افراد نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔

1964ء میں، پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ایک دینی درس گاہ دار العلوم حنفیہ غوثیہ قائم کی۔

خطابت:

 آپ مسلسل 40سال تک تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ آپ کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں آپ کا خطاب امتیازی حیثیت کا حامل ہوتا تھا۔

راہِ خدا میں سفر:

 آپ نے دینِ متین کی خدمت کے لئے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، ہند، فلسطین، جنوبی افریقہ اور ماریشس سمیت کئی ممالک کے سفر کئے۔

تصنیفی خدمات: 

آپ نے وعظ و بیان کے ساتھ ساتھ تحریروتصنیف کے ذریعے بھی خدمت دین کی، آپ کی تصانیف میں ذکرِ جمیل،ذکرِ حسین، راہِ حق،درسِ توحید،شامِ کربلا، امام پاک اور یزید پلید، برکاتِ میلاد شریف، مسلمان خاتون، انوارِ رسالت سمیت کئی کتب شامل ہیں۔

سیرت و خصائص

اللہ تعالیٰ نے آپکو حسنِ سیرت و صورت کے ساتھ حسنِ گفتار کا بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو خدمتِ اسلام کے لئے بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو نورِ ایمان و ایقان اور سرورِ عالمﷺ اور آپکے صحابہ و اہلِ بیت اور اولیاء اللّٰه (علیہم الرحمۃ والرضوان) کے عشق و محبت سے بھر دیا۔تحریک ختمِ نبوت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اور تحریک نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھر پور کردار ادا کیا۔ مخالفینِ مسلکِ اہلِ سنت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا، لیکن آپ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تادمِ زیست زبان قلم سے لادین، ملحدین ،بدعقیدہ و بدمذاہب کے خلاف بھر پور جہاد کرتے رہے۔ گمراہوں کو راہِ حق دکھائی ،اور ایسے دلوں میں شمع ِ ایمان روشن کی جو ظلمت کی گمراہ وادیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے،جو روشنی کی ایک ایک کرن کو ترس رہے تھے،وہی لوگ جو اسلام کے نام سے کانوں پر ہاتھ دھر لیتے تھے وہی آذان کے لیئے ہاتھ اٹھانے لگے۔ آپ کی آواز صاف فصیح و بلیغ، اورانداز منفر د ہوا کرتا تھا۔ جس موضوع پر بات کرتے عقلی و نقلی دلائل سے عام سامع کو بات سمجھانے کا طریقہ بہت دلپزیر ہوا کرتا تھا ۔آپ نے چالیس سال کے عرصہ میں تقریبا اٹھارہ ہزار سے زائد اجتماعات سے خطاب کیا ،جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطاء فرمائے۔ (آمین)

قاتلانہ حملہ:

 16اکتوبر 1962ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں دَورانِ تقریر مخالفین نے آپ پر چُھریوں اور چاقوؤں سے قاتلانہ حملہ کِیا جس کے سبب آپ شدید زخمی ہوئے اور کئی دن تک کراچی کے سِوِل اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ لیکن آپ نے حملہ آوروں کو معاف کردیا۔

وصال پر ملال :

 20 اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گلزار حبیب میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کراچی میں داخل ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ہجری  مطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

25 اپریل کو نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد کثیر افراد نے آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ آپ کا مزارمبارک گلستانِ اوکاڑوی سولجر بازار کراچی میں واقع مسجد گلزارِ حبیب سے متصل ہے۔ آپ کا عرس ہرسال 21رجب المرجب کو منعقد ہوتاہے۔(ماخوذ از: خطیب پاکستان ، ص 9 تا 15)


حضرت خواجہ علا ؤالدین عطار علیہ الرحمہ


حضرت علاؤالدین علیہ الرحمہ  خواجۂ خواجگان حضرت بہاؤالدین نقشبند بخاری علیہ الرحمہ  کے خلیفہ اول اور نائب مطلق تھے۔ آپ علیہ الرحمہ  کا اسم مبارک محمد بن محمد بخاری علیہ الرحمہ  تھا ۔جب آپ علیہ الرحمہ  کے والد ماجد نے وفات پائی توآپ علیہ الرحمہ  نے ان کے ترکہ سے کوئی چیز قبول نہ کی اور حالت تجرید میں بخارا کے ایک مدرسے میں داخل ہو گئے۔شروع ہی سے آپ علیہ الرحمہ  کی طبیعت فقر کی طرف مائل تھی۔

ایک دن خواجہ نقشبند علیہ الرحمہ  اس مدرسے میں تشریف لائےجہاں آپ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔آپ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی نورانی شکل دیکھی تو اٹھ کر آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمہ  نے آپ میں بزرگی کے آثار دیکھ لیے تھے اسی لیےلڑکپن ہی سے آپ علیہ الرحمہ  پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔

حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمہ  آپ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی صاحب زادی کا نکاح آپ علیہ الرحمہ  سے کر دیا۔حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمہ  کی آپ پر خاص نطر تھی۔ مجالس میں ا علیہ الرحمہ  ٓپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور بار بار آپ علیہ الرحمہ  کی طرف متوجہ ہوتے۔بعض لوگوں نے حضرت خواجہ علیہ الرحمہ  سے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ علیہ الرحمہ  نے ارشاد فرمایا کہ میں اس کو اس لئے اپنے پاس بٹھاتا ہوں تا کہ ان کو بھیڑیا نہ کھا جائے۔ ان کے نفس کا بھیڑیا گھات لگا ئے بیٹھا ہے اس لے ہر لحظہ ان کا حا ل دریافت کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمہ  کی خاص توجہ سے آپ بہت جلد درجہ کمال پر پہنچ گئے۔

آپ حضرت شیخ علیہ الرحمہ  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اور عمل بہ حزیمت کا خصوصی اہتمام رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور علماء کرام نے بھی آپ کی طرف رجوع کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور مختلف علوم و فنون میں مثالی درسی کتب کے مصنف حضرت علامہ شریف جرجانی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں حضرت علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔

بروز بدھ ۲۰ رجب المرجب ۸۰۴ ہجری کو اس فانی جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار مبارک موضع جفانیاں ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔

سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ


اسم گرامی:

جنید۔

کنیت:

ابوالقاسم۔

القاب:

شیخ الاسلام والمسلمین، سلطان الاولیاء والمتقین ۔آپ علیہ الرحمہ  اہل سنت وجماعت کےعلماء و اولیاء کے امام ہیں۔ آپ کو گروہِ صوفیاء میں ’’سید الطائفہ‘‘ اور علماء میں ’’طاؤس العلماء‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

سلسلۂ نسب:

حضرت جنید بغدادی بن شیخ محمد بن جنید علیہم الرحمہ۔ )نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص52(

تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے، اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادی علیہ الرحمہ  کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔

آپ علیہ الرحمہ  کے والد شیشہ اور کپڑےکی تجارت کیا کرتے تھے۔ وطنِ اصلی ’’نہاوند‘‘ ایران تھا۔ پھر بغداد کی طرف ہجرت فرمائی اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔ (شریف التواریخ،ج1،ص522)

تاریخِ ولادت:

 آپ علیہ الرحمہ  کی ولادت باسعادت غالباً 216ھ یا 218ہجری  کو بغداد میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:

 آپ  علیہ الرحمہ ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔ بہت قلیل عرصے میں ہی آپ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔ اکثر اپنے ماموں حضرت شیخ سری سقطی علیہ الرحمہ  کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سے مستفیض ہوا کرتے، اور فقہ مشہور شافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی(تلمیذ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ  )سے حاصل کی جو بغداد کے اجلہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔ اس وقت آپ علیہ الرحمہ  کی عمر بیس سال تھی۔جوانی میں ہی آپ علیہ الرحمہ  کے علم کا چرچا عام ہوگیا تھا۔ حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ  ، شیخ ابو ثور ابراہیم علیہ الرحمہ  ، شیخ حارث محاسبی علیہ الرحمہ  ، محمد بن ابراہیم بغدادی علیہ الرحمہ  ، ابو جعفر محمد بن علی قصاب علیہ الرحمہ  ، بشر بن حارث علیہ الرحمہ  ، کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ  نے ایک سو بیس سے زائد علماء و شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ فرمایا۔ نیز شیخ ابوبکر کسائی علیہ الرحمہ  اور آپ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا آپ علیہ الرحمہ  نے سب کے جواب لکھے، امام کسائی نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔(شریف التواریخ،ج1،ص530)

آپ علیہ الرحمہ قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور عربی ادب میں مہارت تامہ رکھتےتھے۔بیس سال کی عمر میں فتویٰ نویسی شروع کردی تھی۔ آپ کا شمار بغداد کےاجلہ علماء میں ہوتا تھا۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔ تیس برس تک آپ کا معمول رہا کہ نماز عشاء پڑھ کر ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے اور صبح تک ذکر اللہ کرتے، اور اسی وضو سے نمازِ فجر ادا فرماتے۔ آپ علیہ الرحمہ ابتدائی حالت سے لے کر دور آخر تک تمام جماعتوں کے محمود و مقبول تھےاور تمام لوگ آپ علیہ الرحمہ کی امامت پر متفق تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کا سخن طریقت میں حجت ہےاور تمام زمانوں نے آپ کی تعریف رہی ہے، اور کوئی شخص بھی آپ کے ظاہر وباطن پر انگشت نمائی نہ کرسکا، سوائے اس شخص کے جو بالکل اندھا تھا۔ خواص نے آپ کو ’’لِسان القوم‘‘ کہا ہے اور آپ علیہ الرحمہ نے خود کو ’’عبدالمشائخ‘‘ لکھا ہے۔ طبقۂ علماء نے’’ طاؤس العلماء اور ’’سلطان المحققین‘‘ جانا ہے۔ اس لیے کہ آپ علیہ الرحمہ شریعت و طریقت میں انتہاء کو پہنچ چکے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ عشق و زہد میں بے مثل اور طریقت میں مجتہد عصر تھے۔ بہت سے مشائخ آپ کے مذہب پر ہوئے۔ سب سے زیادہ معروف طریقہ طریقت میں اور مشہور تر مذہب مذاہب میں آپ ہی کا ہے۔ آب اپنے وقت میں تمام مشائخ کا مرجع تھے، آپ علیہ الرحمہ کی تصانیف بہت ہیں جو تمام ارشادات و معارف میں لکھی ہیں۔ باوجود ان عظیم خوبیوں کے دشمنوں اور آپ کے حاسدوں نے آپ کو زندیق کہا ہے۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ کسی مرید کا پیر سے بلند درجہ ہوا ہے؟

 تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں! ایسا ہوتا ہے اور اس کی دلیل ظاہر ہے کہ جنید بغدادی مجھ سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔

حضرت جنید بغدادی  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "میرے پیر حضرت سری سقطی  علیہ الرحمہ نے مجھے دعا دی کہ ا ﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے‘‘۔ اسی طرح فرماتے ہیں: جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔نیز فرمایا:خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول اﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت) کی پیروی کرے‘‘۔(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)

عادات و صفات:

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سلوک کے اس عظیم منزل پر فائز ہونے کے ساتھ اخلاقِ حسنہ والی صفت سے مزیّن تھے اور اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، مگر جب کبھی آپ علیہ الرحمہ کے برادران طریقت آجاتے تو روزہ افطار کردیتے اور فرماتے کہ اسلامی بھائیوں کی خاطر و مدارات نفل روزوں سے افضل ہے۔غریبوں یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بنتے، امیروں پر فقیروں اور غریبوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کبھی کسی امیر و وزیر کی تعظیم نہیں کی۔آپ عالمانہ لباس زیب تن فرماتے تھے، ایک بار لوگوں نے عرض کیایا شیخ! کیا خوب ہو کہ آپ مُرقع (گدڑی) پہنیں۔  فرمایا اگر میں جانتا ہوتا کہ مرقع پر تصوف و معرفت منحصر ہے تو میں لوہے و آگ سے لباس بناتا اور پہنتا، لیکن ہر گھڑی باطن میں یہ ندا آتی ہے ’’ لیس الاعتبار بالخرقۃ انما الاعتبار بالحرقۃ ‘‘ یعنی معرفت میں خرقہ کا اعتبار نہیں بلکہ (محبتِ الہی میں) جان جلنے کا اعتبار ہے۔ (شریف التواریخ: جلد اول،ص528)

بیعت و خلافت:

 آپ علیہ الرحمہ  اپنے حقیقی ماموں حضرت شیخ سری سقطی  علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے۔

تجارت و عبادت:

آپ علیہ الرحمہ شیشے کی تجارت کرتے تھے اور اس وقت آپ کا معمول تھا کہ بلاناغہ اپنی دوکان پر تشریف لے جاتے اور سامنے پردے کو گرا کر چار سو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یہاں تک کہ ایک مدت تک آپ علیہ الرحمہ نے اس عمل کو جاری رکھا۔ پھر آپ علیہ الرحمہ نے اپنی دوکان کو چھوڑ دیا اور اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکان کی ایک کوٹھری میں خلوت گزیں ہو کر اپنے دل کی پاسبانی شروع کردی اور حالتِ مراقبہ میں آپ علیہ الرحمہ اپنے نیچے سے مُصلیٰ کو بھی نکال ڈالتے تاکہ آپ علیہ الرحمہ کے دل پر سوائے اللہ  اور اس کے رسول ﷺ کے خیال کے کوئی دوسرا خیال نہ آئے اور اس طرح آپ نے چالیس سال کا عرصہ گزارا۔ آپ خود فرماتے ہیں: کہ بیس برس تک تکبیر اولیٰ مجھ سے فوت نہیں ہوئی، اور نماز میں اگر دنیا کا خیال آجاتا تو میں اس نماز کو دوبارہ ادا کرتا اور اگر بہشت اور آخرت کا خیال آتا تو میں سجدہ سہو ادا کرتا۔ (تذکرہ مشائخِ قادریہ، 192)

مسندِ رشد و ہدایت:

 حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب راہ ِسلوک میں کامل و اکمل ہوگئے اور آپ کی مقبولیت ہر چہار جانب پھیلنے لگی تو حضرت شیخ سِرّی سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ کو حکم دیا جنید اب تم وعظ کہا کرو۔ آپ تردّد میں پڑگئے کہ شیخ الوقت کی موجودگی میں کس طرح تقریر کروں؟  کیونکہ یہ خلاف ادب ہے؟ اسی حالت میں رہے کہ ایک رات خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سرکار دوعالمﷺ نے بھی آپ کو وعظ کہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ علیہ الرحمہ جب صبح بیدار ہوئے تو اپنے شیخ طریقت سے خواب کو بیان کرنے کے لیے سوچا یہاں تک کہ آپ سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمہ کے شیخ پہلے ہی آپ کے انتظار میں دروازے پر کھڑے ہیں، جب آپ علیہ الرحمہ قریب ہوئے تو آپ سے ارشاد فرمایا: ’’لم تصدقناحتیٰ جاءک الامر من رسول اللہ‘‘ یعنی تم نے (بپاس ادب) ہماری بات نہ مانی؛ اب تو تمہیں رسول اللہﷺ نے حکم فرما دیا ہے۔(نفحاتِ منبریۃ، 54)

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟

آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتا ہے۔سخاوت، رضا، صبر، خاموشی،  غربت، سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔

وضاحت:

سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام  سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام  کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔

صبر حضرت ایوب علیہ السلام  کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔

خاموشی حضرت زکریا علیہ السلام  سے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔

غربت حضرت یحییٰ علیہ السلام  سے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔

سیاحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔

گدڑی حضرت موسیٰ  علیہ السلام  سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔

اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے، لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقے میں رہوں۔

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔

خلفاء و تلامذہ:

1.   حضرت سیدنا  شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ

2.    حضرت سیدنا  شیخ ابو محمد الجریری علیہ الرحمہ

3.   حضرت سیدنا  شیخ ابن الاعرابی احمد بن محمد علیہ الرحمہ

4.    حضرت سیدنا  شیخ علی بن بندارابوالحسن الصیرفی علیہ الرحمہ

5.   حضرت سیدنا  شیخ عبد اللہ بن محمد الشعرانی علیہ الرحمہ

6.    حضرت سیدنا  شیخ محمد بن اسود دینوری علیہ الرحمہ

وصال پرملال :

 بروز جمعۃ المبارک 27 رجب المرجب 297ہجری  کو واصل بااللہ ہوئے۔ مزار مبارک مقامِ ’’شونیزیہ‘‘ بغدادِ معلیٰ میں مرجعِ خلائق ہے۔ (بشکریہ: کریم پاشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )