حضرت اقدس محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و
سلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپﷺ کی بعثت کے بعد کے پہلے تین سو سال امت محمدیہ
کے لئے بہترین ہیں۔ اسی زمانہ میں دوسری صدی ہجری میں ایک ایسے عظیم الشان بزرگ
محدث امام امت محمدیہﷺ میں گزرے ہیں جن کے بے شمار پیروکار آج بھی موجود ہیں۔
مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والے اس عظیم عاشقِ رسولﷺ کا نام مالک بن انس تھا۔ آپ رضی
اللہ عنہ کی پیدائش 93 ہجری میں مدینہ کے پاس وادی عقیق میں آپ کے آبائی گھر جس
کا نام قصر مقعد تھا میں ہوئی۔
کنیت و لقب:
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ
تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کا لقب امام دار الہجرت پڑا۔
سلسلہ نسب:
امام مالک کا نسب اس طرح سے ہے کہ مالک
بن انس بن مالک بن ابی عامر الاصبحی۔ آپ کی والدہ کا نام عالیہ بنت شریک تھا۔
امام مالک کا تعلق یمنی قبیلہ ذو اصبح سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پر دادا ابو
عامر کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ غزوہ بدر کے بعد مدینہ آئے اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں داخل ہوئے اور بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضور
اکرمﷺ کے ساتھ شامل ہوئے۔ مگر اکثر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابو عامر حضرت
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں مسلمان تو ہو گئے تھے مگر حضورﷺ کو
کبھی دیکھا نہیں تھا اور مدینہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد آئے اور تابعین میں شمار
ہوئے۔
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کے خاندان
کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نہایت محبت اور عقیدت تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے
دادا، چچا اور والد اور پھر آپ رضی اللہ عنہ خود محدث بنے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے
دادا مالک بن ابی عامر نہایت ہی بلند پایہ ثقہ تابع تھے۔انہوں نے حضرت عمر، حضرت
طلحہ، حضرت عائشہ، حضرت ابو ہریرہ، اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ سے
روایات کی ہیں۔ امام مالک کے دادا مالک بن ابی عامر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے
نہایت عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انتہائی خراب
حالات میں جن چار اشخاص نے حضرت عثمان کو دفنایا تھا ان میں آپ بھی شامل تھے۔(تزیین
الممالک بمناقب الامام مالک صفحہ19، از حضرت علامہ جلال الدین السیوطی)
تاریخ طبری میں خود مالک بن ابی عامر کے
الفاظ نقل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو میں بھی
ان کا جنازہ اٹھانے والوں میں سے تھا۔ ہم ان کے جنازے کو اس قدر جلد جلد لے جا رہے
تھے کہ ایک دروازے سے ان کا سر ٹکرایا۔ اس وقت ہم پر بہت خوف و دہشت طاری تھی۔ تا
آنکہ ہم نے انہیں حش کوکب میں دفن کر دیا۔‘‘ (تاریخ طبری اردو ترجمہ خلافت
عثمانیہ تدفین حضرت عثمان)
امام مالک رضی اللہ عنہ کے
گھرانے کا حال
امام مالک رضی اللہ عنہ کا گھرانہ ایک غریب گھرانہ تھا۔ آپ کے والد تیر بنانے کا کام کرتے
تھے۔ آپ کے بھائی کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے اور امام مالک چھوٹی عمر میں ہی اپنے
بھائی کے ساتھ کپڑے فروخت کیا کرتے تھے۔ امام مالک علیہ الرحمہ کی بیٹی جب بھوک کی
وجہ سے روتی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ خادمہ کو خالی چکی چلانے کا حکم دےدیتے تھے
تاکہ پڑوسیوں کو آپ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے رونے کی آواز نہ آئے۔ مگر پھر اللہ
تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہوا اور اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو بے شمار نوازا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ کا حصولِ
علمِ حدیث کا شوق اور کمال حافظہ
حضرت امام مالک نے بچپن میں قرآنِ کریم
حفظ کیا تھا۔ حدیثِ نبوی ﷺسیکھنے اور یاد کرنے کا بچپن سے ہی نہایت شوق تھا۔ چھوٹی
عمر سے ہی علمِ حدیثِ نبوی سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ اور حافظہ بھی کمال کا تھا۔ آپ رضی
اللہ عنہ کی والدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت ربیعہ رائی کی مجلس میں حصول علم و
ادب کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ آپ روز جو بھی سبق سیکھتے اسے لکھ لیتے۔ اس کے بعد
درختوں کے سایہ میں بیٹھ کر اسے یاد کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بہن نے آپ کو اس
طرح دیکھا تو والد سے جا کر ذکر کر دیا۔ ان کے والد نے کہا ’’اے بیٹی! وہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث یاد کرتے ہیں۔‘‘ (امام مالک کے سوانح حیات
صفحہ 41، از محمد ابو زہرہ)
حدیث سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ عید کے
دن بھی حدیث سیکھنے چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ عید کے دن عید کی نماز پڑھ کر سیدھا
اپنے استاد ابن شہاب زہری (شاگرد حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ) کے گھر
چلے گئے۔ ابن شہاب نے خادمہ سے کہا جاؤ باہر دیکھو کون ہے تو اس نے کہا کہ مالک
ہے۔ ابن شہاب نے اندر بلانے کو کہا اور پھر امام مالک سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ
تم اپنے مکان جانے کے بجائے باہر ہی باہر میرے یہاں آگئے ہو۔ کھانا کھا لو۔ امام
مالک نے کہا کھانے کی حاجت نہیں حدیث بیان فرما دیں۔ ابن شہاب نے اسی وقت سترہ
احادیث بیان کیں اور پھر کہا کہ اس سے تم کو کیا فائدہ کہ میں حدیثیں بیان کر دوں
اور تم یاد نہ کرو۔ امام مالک نے کہا کہ میں تو ابھی آپ کو ساری حدیثیں سنا دوں
اور پھر ساری حدیثیں زبانی سنا بھی دیں۔(سیرت حضرت امام مالک صفحہ 20، از ڈاکٹر
محمد عاصم اعظمی)
ایک مرتبہ امام مالک نے ابن شہاب زہری کو
اپنی تختیاں دکھائیں تو ابن شہاب نے مزید 40 احادیث لکھا کر کہا کہ اگر تم ان کو
یاد کر لو تو ان کے حافظ ہو جاؤ گے۔ امام مالک نے کہا کہ میں ان کو ابھی زبانی سنا
سکتا ہوں۔ ابن شہاب نے کہا کہ سناؤ تو امام مالک نے ساری احادیث سنا دیں۔ اس پر
امام ابن شہاب زہری نے کہا کہ ’’اٹھو تم علم کا خزانہ ہو‘‘ یا یہ کہ ’’تم علم کے
لئے بہترین خزانہ ہو۔‘‘
امام مالک کا ایسا انہماک علم و حدیث
دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہ نے امام مالک علیہ الرحمہ کے متعلق کہا تھا کہ ’’ما
رأیت اسرع منہ لجواب صادق و نقد تام۔‘‘ (سیرت امام
مالک صفحہ 27) یعنی میں نے امام مالک سے زیادہ جلد صحیح جواب دینے والا اور کامل
نقاد حدیث کسی کو نہیں دیکھا۔
امام مالک علیہ الرحمہ کا
احترامِ حدیث نبویﷺ
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کو بچپن ہی
سے احترامِ حدیثِ نبوی ﷺ تھا۔ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ امام مالک علیہ الرحمہ سے
پوچھا گیا کہ آپ نے عمرو بن دینار سے حدیث سنی ہے تو کہا میں نے ان کو حدیث بیان
کرتے ہوئے دیکھا اور طلبہ کھڑے کھڑے لکھ رہے تھے تو میں نے ناپسند کیا کہ کھڑے ہو
کر حدیثِ رسولؐ لکھوں۔ (سیرت امام مالک علیہ الرحمہ صفحہ 23، از محمد عاصم اعظمی)
اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ امام
مالک علیہ الرحمہ ابو الزناد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ مالک
وہاں نہ گئے۔ بعد میں ابو الزناد امام مالک سے ملے تو پوچھا کہ آپ میرے یہاں کیوں
نہ بیٹھے تو جواب دیا کہ جگہ تنگ تھی اور مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کا ارشاد کھڑے ہوئے لکھوں۔
امام مالک علیہ الرحمہ اور
خواب کی تعبیر
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے متعلق
لکھا ہے کہ ایک دفعہ چھوٹی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ کے ایک استاد صفوان بن سلیم نے
آپ رضی اللہ عنہ سے ایک خواب کی تعبیر معلوم کرنی چاہی۔ امام مالک علیہ الرحمہ نے
جواب دیا کہ ’’حضرت! آپ جیسے عظیم بزرگ مجھ سے کسی بات کو معلوم کریں۔ یہ عجیب سی
بات ہے۔‘‘ ان کے استاد نے کہا ’’بھتیجے! کوئی بات نہیں ہے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ میں
نے خواب دیکھا ہے کہ آئینہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس پر امام مالک علیہ الرحمہ نے فوراً
کہا کہ ’’آپ اپنی آخرت سنوار رہے ہیں اور تقرب الی اللہ کا سامان بہم پہنچا رہے
ہیں۔‘‘ ان کے استاد صفوان نے یہ تعبیر سنی تو بہت خوش ہوئے اور کہا ’’أنت
الیوم مویلک و لئن بقیت تکونن مالکا اتق اللّٰہ یا مالک اذ کنت مالکا و الا فأنت
ھالک۔‘‘ یعنی آج تم
مویلک ہو۔ اگر زندہ رہے تو مالک ہو جاؤ گے۔ اے مالک! جب تم واقعی مالک بن جانا تو
اللہ سے ڈرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ امام مالک بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں لوگ
مجھے پیار کی وجہ سے مویلک کہہ کر پکارتے تھے۔(سیرت امام مالک علیہ الرحمہ صفحہ16،
از ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)
اساتذہ کرام :
آپ علیہ الرحمہ کے اساتذہ میں سے چند ایک
دج ذیل ہیں:نافع مولی ابن عمر ، ابن شہاب زہری ،امام جعفر
الصادق ، عبد الرحمٰن اوزاعی ، ایوب سختیانی ، محمد بن یحییٰ بن حبان ، ابراہیم بن ابی عبلہ ، ابن ہرمز ، زید بن اسلم ، عبد اللہ بن ذکوان ، عبد الرحمن بن قاسم ، ثور بن یزید ، حمید طویل ، ربیعہ بن فروخ ، ہشام بن عروہ ، یحییٰ بن سعید ، عائشہ بنت سعد ، عامر بن عبداللہ بن زبیر ، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل ، نافع بن عبدالرحمن
المدنی( رحمہم اللہ اجمعین)
شاگرد:
آپ علیہ الرحمہ کے شاگردوں میں سے چند
ایک دج ذیل ہیں: محمد بن ادریس شافعی ، محمد بن حسن شیبانی، سفیان ثوری ، عبد الرحمٰن اوزاعی ، احمد بن ابی طیبہ دارمی ، حماد بن زید ، اسماعیل ، سفیان بن عیینہ ، عبد اللہ ابن مبارک ، ابن علیہ ، عبد الرحمٰن بن قاسم
عتقی ، عبد الرحمن بن مہدی ، عبد اللہ بن عمرو بن
وہب ، ولید بن مسلم ، يحيىٰ القطان ، ابوداؤد طیالسی ، عبد اللہ بن یوسف تنیسی ، قعنبی ، فضل بن دکین ، ہیثم بن جمیل ، ہشام بن عبید اللہ رازی ، محمد بن عیسی طباع ، یحیی بن یحیی تمیمی ، یحییٰ بن یحییٰ لیثی ، ابو جعفر نفیلی ، مصعب بن عبد اللہ زبیری ، الواقدی ، منصور بن ابی مزاحم ، احمد بن نصر خزاعی۔ ( رحمہم اللہ
اجمعین)
حدیث کی سنہری زنجیر:
امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے راویوں کا
سلسلہ سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا تھا اور اسے سلسلتہ الذہب یا "راویوں کا
سنہری سلسلہ" کہا جاتا تھا جس میں محمد بخاری سمیت مشہور تمام محدثین نے
فرمایا تھا۔ روایت کی سنہری زنجیر (یعنی جسے تمام محدثین سب سے زیادہ مستند سند
سمجھتے ہیں) امام مالک کی سند پر مشتمل ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ ، نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ
سے روایت کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ
عنہ براہ راست محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں۔اس کو روایات کی سنہری سند کہا جاتا ہے۔
امام مالک علیہ الرحمہ بحیثیت
استاد:
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے اپنے
اساتذہ سے حدیث و فقہ سیکھ کر پھر مسجد نبوی ﷺ میں درسِ حدیث دینا شروع کیا۔ خود
امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص مسجد میں درس دینے اور فتوے دینے کے
لئے بیٹھتا ہے اسے اس سے پہلے اہلِ صلاح اور صاحبانِ فضل سے مشورہ کر لینا چاہئے
اور انہیں سے اپنی مجلس کا مقام بھی طے کرنا چاہئے۔ اگر وہ اسے اس مسند کا اہل
سمجھیں تو بیٹھ جائے ورنہ نہیں۔ میں خود نہیں بیٹھا یہاں تک کہ اہلِ علم میں سے 70
علماء نے شہادت دی کہ میں اس منصب کا اہل ہوں۔‘‘(امام مالک کے سوانح حیات
صفحہ 52)
امام مالک علیہ الرحمہ ایک نہایت اعلیٰ
پائے کے استاد تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ ’’امام مالک جب
ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے تو وہ ایسے ہوتے تھے گویا ہم ہی میں سے ایک ہیں۔ ہم سے کھل
کر باتیں کرتے تھے۔ اور ہم سب سے زیادہ متواضع تھے۔ لیکن جب درسِ حدیث دینے بیٹھتے
تو ان کے کلام سے ہم میں ہیبت طاری ہو جاتی گویا وہ ہمیں پہچانتے ہی نہیں نہ ہم
انہیں پہچانتے ہیں۔‘‘(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 67)
امام مالک علیہ الرحمہ کی
درسِ حدیث سے پہلے کی تیاری
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ جیسا کہ ذکر
ہوا ہے حدیثِ نبوی ﷺ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ آتا ہے کہ حدیث کا درس دینے
سے پہلے وضو یا غسل کرکے عمدہ اور قیمتی لباس پہنتے۔ بالوں میں کنگھی کرتے، خوشبو
لگاتے اور پھر درس دیتے۔ امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ مجھے یہ بات بڑی
محبوب ہے کہ حدیث رسول اللہ ﷺکی تعظیم کروں اور بغیر طہارت حدیث نہ بیان کروں۔(تزیین
الممالک صفحہ 37) حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کی درس گاہ میں بیٹھنے کا عمدہ
انتظام ہوتا تھا۔ ہر کوئی با وقار اور با ادب بیٹھتا تھا۔ آپ راستہ میں چلتے ہوئے
یا جلد بازی میں حدیث بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’مجھے یہ بات
پسند ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کروں تو لوگ اسے خوب
اچھی طرح سمجھیں۔‘‘ (سیرت امام مالک صفحہ 41)
جب امام مالک علیہ الرحمہ کی مجلس میں
کوئی آواز اونچی کرتا تو اسے ڈانٹ دیتے اور کہتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے
ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے اونچا مت کرو۔ پھر کہتے کہ جس کسی نے
حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یعنی درسِ حدیث کے دوران اپنی آواز
اونچی کی تو گویا اس نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اونچا
کیا۔
پہلے تو امام مالک علیہ الرحمہ مسجد میں
ہی درس دیا کرتے تھے مگر بعد میں ایک بیماری کی وجہ سے مسجد نہ جاسکتے تھے تو گھر
سے ہی درس دینا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے گھر جب کوئی گروہ آتا تو اپنی خادمہ
سے کہتے کہ ان سے پوچھو حدیث سیکھنے آئے ہیں یا فتویٰ پوچھنے۔ اگر کہا جاتا کہ
فتویٰ پوچھنے آئے ہیں تو باہر جاکر تسلی سے ان کو فتویٰ بتاتے۔ اور اگر کہا جاتا
کہ حدیث سیکھنے آئے ہیں تو کہتے کہ ان کو بٹھاؤ۔ پھر جا کر وضو یا غسل کر کے،
اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر پھر حدیث پڑھانے آتے۔
امام مالک علیہ الرحمہ کی
فتویٰ دینے میں احتیاط
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ سے بے شمار
لوگ اور بڑی دور دور سے آئے ہوئے لوگ فتویٰ پوچھتے تھے۔ مگر امام مالک علیہ
الرحمہ فتویٰ دینے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ آجکل کے علماء کی طرح فوراً ہی
فتویٰ دینا شروع نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوچ سمجھ کر تسلی سے غور کرنے کے بعد دیتے
تھے۔ بلکہ کئی مرتبہ یہانتک کہہ دیتے تھے کہ ’’لا أدری‘‘ یعنی میں نہیں جانتا۔ خواہ فتویٰ مانگنے والا کتنی دور سے ہی آیا
ہو۔ ’’عبد الرحمان بن مہدی نے کہا کہ ایک آدمی نے امام مالک علیہ الرحمہ سے ایک
مسئلہ پوچھا اور ذکر کیا کہ وہ یہ دریافت کرنے کے لئے ملک مغرب سے چھ مہینے کی
مسافت سے بھیجا گیا ہے۔ فرمایا: ’’جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دو کہ مجھے اس
کے متعلق علم نہیں ہے‘‘ اس شخص نے کہا اور کون جانتا ہے؟ فرمایا: ’’جس کو اللہ نے
علم دیا ہو۔‘‘)امام مالک کے سوانح حیات صفحہ71(
اسی طرح ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے آپ
سے مسئلہ پوچھا اور اس کے لئے اسے اہلِ مغرب نے بھیجا تھا۔ آپ نے کہا مجھے معلوم
نہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے شہر میں کبھی پیش نہیں آیا نہ اپنے اساتذہ کو اس سلسلہ میں
کچھ کہتے ہوئے ہم نے سنا۔ اس لئے آپ واپس جائے۔ جب دوسری صبح ہوئی تو وہ شخص آیا
اور اپنا سامان خچر لادے ہوئے کھینچ رہا تھا۔ امام مالک علیہ الرحمہ نے فرمایا تم
نے مجھ سے دریافت کیا اور مجھے وہ مسئلہ معلوم نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا اے ابو عبد
اللہ (امام مالک) مجھے تو آدمیوں نے کہا ہے روئے زمین پر آپ رضی اللہ عنہ سے بڑا
عالم نہیں ہے۔ امام مالک نے بغیر ہچکچاہٹ جواب دیا ’’میں بہت اچھا نہیں ہوں‘‘)امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 71(
رسول اللہ کی حدیث مدینہ کے عالم کے متعلق:
اس ضمن میں یعنی یہ کہ لوگوں میں مشہور
ہو گیا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ سے بڑا کوئی عالم نہیں کے متعلق ایک حدیثِ نبوی ﷺ جو
کہ آپؐ کی ایک پیشگوئی ہے اس کا ذکر کرنا ضروری ہوگا کیونکہ اس کو امت کے بعض بزرگان
نے، جن میں حضرت امام ترمذی، حضرت امام ابن حجر العسقلانی علیہ الرحمہ اور حضرت
امام جلال الدین السیوطی علیہ الرحمہ وغیرہ شامل ہیں، حضرت امام مالک علیہ الرحمہ پر
چسپاں کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت اقدس خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
و سلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ عنقریب لوگ علم کی تلاش میں (زیادہ) سفر کر
کے اونٹوں کے جگر پگھلا دیں گے لیکن وہ کسی کو بھی مدینہ کے عالم سے زیادہ عالم
نہیں پائیں گے۔ )جامع
الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی عالم المدینۃ( امام الترمذی اسی حدیث کے آگے لکھتے ہیں کہ ابن عیینہ اور عبد
الرزاق سے جب پوچھا گیا کہ وہ عالم کون ہے تو انہوں نے کہا کہ مالک بن انس۔
امام مالک علیہ الرحمہ کے
فتاویٰ صرف واقعی اور حقیقی مسائل پر ہوتے تھے:
حضرت امام مالک فتاویٰ صرف حقیقی اور
واقعی باتوں پر دیا کرتے تھے اور فرضی اور بناوٹی مسائل پر فتویٰ دینے سے منع کرتے
تھے۔ اپنی درس گاہ میں بھی طلباء کے انہی سوالات کے جوابات دیتے جو واقعی واقع
ہوں۔ وہ باتیں فرض نہیں کرتے تھے اور اپنے طلباء کو بھی یہی سکھاتے تھے۔ ایک دفعہ
آپ سے کسی نے فرضی مسئلہ پر سوال کیا۔ آپ نے کہا وہی بات پوچھو جو ہوتی ہے اور
جو نہیں ہوتی اسے چھوڑ دو۔ دوسرے شخص نے پھر ایسا ہی سوال کیا۔ آپ نے جواب نہیں
دیا۔ اس نے کہا آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اگر تم ایسی
بات دریافت کرتے جس سے فائدہ ہوتا تو میں جواب دیتا۔‘‘)امام مالک کے سوانح
حیات صفحہ 70(
امام مالک علیہ الرحمہ فتویٰ
دیتے ہوئے کیا کہتے تھے:
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ امام مالک
علیہ الرحمہ فتویٰ دینے میں بڑی احتیاط کرتے تھے۔ حضرت امام ابن حجر العسقلانی
علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں حضرت امام مالک کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔ فرمایا کہ
’’میں تو ایک انسان ہوں جو غلطیاں کرتا ہے۔ پس میری رائے پر غور و فکر کرو۔ اگر وہ
سنت کے موافق ہو تو اسے اپنا لو۔‘‘ (تہذیب
التہذیب زیرِ اسم مالک بن انس) جب بھی آپ
رضی اللہ عنہ فتویٰ دینے لگتے تو اس سے پہلے یہ آیتِ قرآنی پڑھتے ’’اِنۡ
نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحۡنُ
بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ‘‘ (الجاثیہ: 33) یعنی ہم ایک ظن سے بڑھ کر گمان نہیں کرتے اور ہم ہرگز یقین لانے
والے نہیں۔ اس آیت کو پڑھنے کا یہ مقصد ہوتا تھا کہ کہیں لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے
فتاویٰ کو وہ مرتبہ نہ دے دیں جو قرآن و حدیث کا ہے یا کہیں آپ کی بات کو شرعی
فیصلہ نہ مان لیں۔ اسی لئے جب آپ رضی اللہ عنہ سے خلیفہ ہارون رشید نے کہا کہ آپ
رضی اللہ عنہ کی کتاب المؤطا کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جائے اور اس سے استنباط
کرنا لازمی قرار دیا جائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ صحابا
کرام کی بھی مختلف آراء تھیں۔
المؤطا امام مالک
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کی کتاب
المؤطا کے متعلق آتا ہے کہ یہ فنِ حدیث و فقہ میں پہلی کتاب مدون کی گئی تھی۔
حضرت امام الشافعی علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ ’’کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر اس
سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔‘‘ (مقدمہ المؤطا امام مالک علیہ الرحمہ مترجم علامہ
عبد الحکیم)
جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ فتاویٰ دینے میں
بڑی احتیاط کرتے تھے اور بڑے غور و فکر کے بعد فتویٰ دیتے تھے۔ لکھا ہے کہ ابن
قاسم نے اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ میں نے امام مالک علیہ الرحمہ کو سنا فرماتے تھے
کہ ’’میں ایک مسئلہ میں تقریباً دس سال سے سوچ رہا ہوں اور ابھی تک اس میں رائے
قائم نہیں کر سکا ہوں۔‘‘ اور کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے ایسے مسائل پیش آجاتے ہیں
کہ میں ایک سال کی راتیں ان کے سوچ میں گزار دیتا ہوں۔‘‘ (امام مالک کے سوانح حیات
صفحہ105)
ابن حکم کہتے ہیں کہ امام مالک علیہ الرحمہ سے
جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو سائل سے کہتے ’’آپ جائیے میں غور کر لوں۔‘‘ وہ چلا
جاتا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس میں فکرمند رہتے۔ ہم نے اس سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو آپ
رضی اللہ عنہ روئے اور کہا ’’میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن مجھ سے سوال کیا جائے‘‘۔
اور کہتے تھے ’’جو شخص پسند کرتا ہے کہ کسی مسئلہ کا جواب دے تو وہ خود کو جنت یا
دوزخ کے لئے پیش کرتا ہے اور آخرت میں کیسے اس کی گلوخلاصی ہو گی۔‘‘)امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 105(
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کسی بھی مسئلہ کو معمولی اور آسان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ کسی سائل
نے کوئی مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ معمولی مسئلہ ہے۔ اس پر امام مالک
علیہ الرحمہ غصہ ہو گئے اور کہا ’’آسان اور معمولی مسئلہ ہے! علم میں کوئی چیز معمولی
نہیں ہے۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا۔ ’’ہم عنقریب تم پر ثقیل قول
اتاریں گے۔‘‘ تو علم تمام ثقیل ہے۔ اور خاص طور پر وہ جس کی قیامت کے دن باز پرس
ہوگی۔‘‘)امام مالک کے سوانح حیات صفحہ105(
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کو
سزا
جیسا کہ اولیاء کرام اور بزرگانِ دین کے
مخالفین بھی ہوتے ہیں، امام مالک علیہ الرحمہ سے بھی دشمنی کرنے والے موجود تھے۔
امام مالک علیہ الرحمہ نے دو حکومتیں دیکھیں۔ ایک اموی حکومت اور دوسری عباسی
حکومت۔ دور عباسی میں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے دور میں امام مالک علیہ
الرحمہ نے ایک فتویٰ دیا۔ امام مالک علیہ الرحمہ ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ ’’اگر
جبراً طلاق کسی سے دلائی جائے تو واقع نہ ہوگی۔‘‘ فتنہ پرور لوگوں نے اس حدیث کی آڑ
میں یہ پھیلانا شروع کر دیا کہ امام مالک علیہ الرحمہ خلیفہ ابو جعفر منصور کی
بیعت سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ کو منع کیا گیا کہ یہ حدیث مت
سنایا کریں۔ مگر امام مالک علیہ الرحمہ نے پھر بھی یہ حدیث سنائی تو مدینہ کے حاکم
نے امام مالک کو سخت سزا دی۔
’’جعفر نے مدینہ پہنچ
کر نئے سرے سے لوگوں سے بیعت لی۔ امام مالک کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے
عدم اعتبار کا فتویٰ نہ دیں کہ لوگوں کو بیعتِ جبری کی بے اعتباری و عدمِ صحت کے
لئے سند ہاتھ آئے۔ امام سے ترکِ حق کی توقع کس قدر بے جا خواہش تھی۔ امام صاحب
بدستور معاملۂ جبری کے عدمِ صحت کا فتویٰ دیتے رہے۔ سلیمان نے غضبناک ہو کر حکم
دیا کہ اُن کو ستر کوڑے مارے جائیں۔ امام دار الہجرت کو محکمہ امارت میں گناہگاروں
کی طرح لایا گیا۔ کپڑے اتارے گئے اور شاہانہ امامت پر دستِ ظلم نے ستر کوڑے پورے کئے۔ تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی۔ دو ہاتھ مونڈھے سے اتر
گئے۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو حکم دیا کہ اونٹ پر بٹھا کر شہر میں انکی تشہیر کی
جائے۔ امام صاحب بایں حالِ زار بازاروں اور گلیوں سے گزر رہے تھے اور زبانِ صداقت
نشان بآوازِ بلند کہہ رہی تھی ’’جو مجھ کو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ
جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاقِ جبری درست نہیں۔‘‘ اس کے
بعد اسی طرح خون آلود کپڑوں کے ساتھ مسجدِ نبوی ﷺ میں تشریف لائے اور دو رکعت
نماز پڑھی۔‘‘ یہ واقعہ 147 ہجری کا ہے۔(مقربانِ الہی کی سرخروئی صفحہ17۔16)
امام مالک علیہ الرحمہ کے
متعلق خوابیں:
حضرت امام مالک کے متعلق بعض لوگوں نے
خوابیں بھی دیکھیں تھیں۔ اسماعیل بن مزاحم المروزی کہتے ہیں کہ اسماعیل بن مزاحم کہتے
ہیں کہ میں نے خواب میں نبی ﷺکو دیکھا تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ہم آپﷺ
کے بعد کس سے (فتوے) پوچھا کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ مالک بن انس سے۔( تزیین الممالک
صفحہ 26، از امام السیوطی)
مطرف جو امام مالک کے شاگرد تھے کہتے ہیں
کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ
مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگ آپﷺ کے گرد بیٹھے تھے۔ امام مالک آپﷺ کے سامنے کھڑے
تھے اور رسول اللہؐ کے آگے مشک رکھی ہوئی تھے۔ آنحضرتؐ اس میں سے مٹھی بھر مشک
امام مالک کو دیتے جاتے تھے اور امام مالک اسے آگے لوگوں پر چھڑکتے جاتے تھے۔
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے مشک کی تعبیر علم اور اتباعِ سنت کی۔(تزیین الممالک صفحہ
26)
امام سیوطی علیہ الرحمہ امام مالک علیہ
الرحمہ کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں میں نے رسول
اللہ ﷺکو نہ دیکھا ہو۔( تزیین الممالک صفحہ 33)
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کا حلیہ
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے حلیہ کے
متعلق آتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی، قد لمبا، سر بڑا،
آنکھیں روشن اور بڑی بڑی، داڑھی دراز تھی۔ لباس زیادہ تر سفید ہوتا تھا۔ عمدہ
خوشبو اور عطر لگاتے تھے۔ (سیرت امام مالک صفحہ 148)
امام مالک علیہ الرحمہ کی
انگوٹھی
امام مالک علیہ الرحمہ کی ایک انگوٹھی
تھی جس میں سیاہ نگینہ ’’حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل‘‘ کندہ تھا۔
امام مالک علیہ الرحمہ کی
عبادت
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کا یہ طریق
تھا کہ مہینہ کی پہلی رات ساری رات عبادت کرتے تھے۔ امام مالک علیہ الرحمہ کی بیٹی
فاطمہ کہتی ہیں کہ جمعہ کی ساری رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ابن وہب کہتے ہیں، امام
مالک کی بہن سے پوچھا گیا کہ گھر کے اندر امام مالک کی مشغولیت کیا تھی؟ تو جواب
دیا ’’المصحف و التلاوۃ‘‘ اسی طرح مغیرہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات میں امام صاحب علیہ
الرحمہ کے پاس سے گزر رہا تھا وہ الحمد
للّٰہ کے بعد سورۃ ’’اَلۡہٰکُمُ
التَّکَاثُرُ‘‘ پڑھ رہے تھے۔ میں ٹھہر گیا۔ امام صاحب علیہ الرحمہ جب ’’لَتُسۡـَٔلُنَّ
یَوۡمَئِذٍ
عَنِ النَّعِیۡمِ‘‘ پر پہنچے
تو دیر تک روتے رہے اور یہی آیت دہراتے رہے اور صبح تک اسی حال میں رہے۔ امام
مالک علیہ الرحمہ رات کو نماز پڑھتے ہوئے اپنے رومال کو تہہ کر کے سجدہ کی جگہ
رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ میری پیشانی پر
سجدے کا نشان نہ پڑے جس کو دیکھ کر لوگ سمجھیں کہ میں قیامِ لیل کرتا ہوں‘‘۔(سیرت
امام مالک صفحہ150۔149)
امام مالک علیہ الرحمہ کے
متعلق بزرگانِ امت کے اقوال
حضرت امام مالک کے بے شمار طلباء تھے۔
حضرت امام الشافعی علیہ الرحمہ بھی انہی میں سے تھے۔ امام شافعی علیہ الرحمہ امام
مالک علیہ الرحمہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’مالک تو ستارہ ہے‘‘ (تزیین الممالک صفحہ
31)
امام نسائی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ’’میرے
نزدیک تابعین کے بعد امام مالک علیہ الرحمہ سے زیادہ دانش مند اور ان سے بزرگ اور
ان سے زیادہ ثقہ کوئی نہیں۔‘‘(سیرت امام مالک صفحہ 84)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ
الرحمہ کہتے ہیں کہ ‘‘امام مالک علیہ الرحمہ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کی حدیث میں سب سے زیادہ پختہ و ضابط تھے اور اسناد میں سب سے
زیادہ ثقہ تھے۔’’(سیرت امام مالک صفحہ 84)
تصانیف امام مالک علیہ
الرحمہ
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کی بہت سی
تصانیف کا ذکر آتا ہے جن میں سے سب سے زیادہ مشہور المؤطا ہے جو حدیث و فقہ کی
کتاب ہے۔ اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کی بعض تصانیف کے نام اس طرح سے ہیں:المناسک،
تفسیر، المجالسات عن مالک، رسالتہ فی الاقضیہ وغیرہ۔
امام مالک علیہ الرحمہ کی
وفات
حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی وفات
83 یا 84 سال کی عمر میں بروز اتوار 14 ربیع الاول 179ھ بمطابق 7 جون 795ء عیسوی میں مدینہ میں ہوئی اور مسجد نبوی کے سامنے
البقیع کے قبرستان میں دفن ہیں۔ اگرچہ قرون وسطیٰ کے اواخر میں آپ کی قبر مبارک کے
ارد گرد ایک چھوٹا سا مزار تعمیر کیا گیا تھا، جس میں بہت سے مسلمان ان کی تعظیم
کے لیے وہاں جاتے تھے، لیکن سعودی عرب کی بادشاہت نے اس کی بہت سی روایتی اسلامی
ورثے کو منہدم کرنے کی مہم کے دوران اس تعمیر کو زمین بوس کر دیا تھا۔ 1932ء میں مملکت کے قیام کے بعد کے مقامات۔ امام مالک کے آخری الفاظ
اسماعیل بن ابی اویس روایت کرتے ہیں کہ جب امام مالک بیمار ہو گئے تو میں نے ان
لوگوں سے جو آپ کی وفات کے وقت وہاں موجود تھے ، پوچھا کہ آپ نے موت کے وقت کیا
کہا تھا تو انھوں نے کہا کہ آپ نے ایمان کی گواہی پڑھی(کلمہ شہادت)۔ پھر آپ نے
تلاوت کی:" إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ " 'ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف
لوٹ کر جانے والے ہیں)
نماز جنازہ :
مکہ
اور مدینہ کے عباسی گورنر عبداللہ زینبی نے 795ء
میں امام مالک بن انس کے جنازے کی امامت کی۔