Mahe Ramaz in Malfoozate Syed Makhdom Ashraf Jahangir Simnani

 لطائف اشرفی / ملفوظات سید مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی
یہ کتاب غوث العالم محبوب یزدانی حضر ت سیدمخدوم   اشرف جہانگیر سمنانی  رضی  اللہ تعالے عنہ کے ملفوظات  اور ارشادات و کمالات و فضائل پر مبنی ہے جسے انکے مرید خاص حضرت نظام یمنی المعروف نظام حاجی غریب  یمنی  رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا ۔ وہ آپکے خدمت میں تیس سال رہے۔

Wali, Wali Allah Aur Wali Min Doonillah


ولی

لفظ'' وَلِیْ'' وَلْیٌ یا وَلَایَۃٌ سے بنا ہے ۔ وَلْیٌ کے معنی قرب اور ولایت کے معنی حمایت ہیں، لہٰذا وَلْیٌ کے لغوی معنی قریب ، والی ، حمایتی ہیں۔ قرآن شریف میں یہ لفظ اتنے معنی میں استعمال ہوا ہے ۱۔دوست ،۲۔قریب ،۳۔مددگار ،۴۔والی، ۵۔وارث ، ۶۔معبود ، ۷۔ مالک ، ۸۔ ہادی

(1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵

تمہارا دوست یا مدد گار صرف اللہ اور اسکے رسول اور وہ مومن ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اوررکوع کرتے ہیں۔(پ6،المائدۃ:55)

(2)نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ

ہم ہی تمہارے دوست ہیں دنیا اور آخرت میں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:31)


(3) فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴

پس نبی کا مدد گار اللہ ہے اور جبریل اور نیک مومن او راس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4)

(4) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵

پس بنادے تو ہمارے لئے اپنے پاس سے والی اور بنادے ہمارے لئے اپنے پاس سے مدد گار ۔(پ5،النسآء:75)

(5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ

نبی زیادہ قریب یا زیادہ مالک ہیں مسلمانوں کے بمقابلہ ان کی جانوں کے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6)
ان آیتوں میں ولی کے معنی قریب ، دو ست ، مدد گار، مالک ہیں۔

(6) اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ؕ

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں اوروہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ان کے بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:72)
    اس آیت میں ولی بمعنی وارث ہے کیونکہ شروع اسلام میں مہاجرو انصار ایک دوسرے کے وارث بنادیئے گئے تھے ۔

(7) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمْ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا

اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہ کی انہیں ان کی وراثت سے کچھ نہیں یہاں تک کہ ہجرت کریں۔ (پ10،الانفال:72)

اس آیت میں بھی ولی سے مراد وارث ہے کیونکہ اول اسلام میں غیرمہاجر،مہاجرکا وارث نہ ہوتاتھا۔

(8) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ

اور کافر بعض بعض کے وارث ہیں۔(پ10،الانفال:73)

(9)  وَاُوْلُوا الۡاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ

رشتہ دار بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:75)

(10)  فَہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾یَّرِثُنِیۡ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوۡبَ

تومجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث دے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث وجانشین ہو۔ (پ16،مریم:5،6)
ان آیات میں بھی ولی سے مراد وارث ہے جیسا کہ بالکل ظاہر ہے ۔

(11) اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُخْرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙیُخْرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ

اللہ تعالیٰ مومنوں کا حامی والی ہے کہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طر ف نکالتا ہے اور کافروں کے حامی والی شیطان ہیں جوانہیں روشنی سے اندھیرے کی طر ف نکالتے ہیں ۔(پ3،البقرۃ:257)
اس آیت میں ولی بمعنی حامی والی ہے ، بعض آیات میں ولی بمعنی معبود آیا ہے ملاحظہ ہو:

(12) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ

جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3)

جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔

اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے آگے فرمایا گیا: مَانَعْبُدُہُمْ

(13) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۲

تو کیا یہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے سوا میرے بندوں کو معبود بنالیں بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کیلئے دوزخ تیا رکر رکھی ہے ۔(پ16،الکہف:102)
    اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے ۔ اس لئے ان ولی بنانے والوں کو کافر کہا گیا ۔ کیونکہ کسی کو دوست اور مدد گار بنانے سے انسان کافر نہیں ہوتا جیسا کہ پچھلی آیتوں سے معلوم ہوا ہے ۔ معبود بنانے سے کافر ہوتا ہے :

(14) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ  ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا

ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا ۔(پ20،العنکبوت:41)
اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے کہ یہاں کفار کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور کافر ہی دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔

ولی اللہ
 ولی من دون اللہ

    ولی بمعنی دو ست یامدد گار دو طرح کے ہیں ایک اللہ کے ولی ،دوسرے اللہ کے مقابل ولی۔ اللہ کے ولی وہ ہیں جو اللہ سے قرب رکھتے ہیں اور اس کے دوست ہوں او راسی وجہ سے دنیا والے انہیں دوست رکھتے ہیں ولی من دون اللہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کے دشمنوں کو دوست بنایا جائے جیسے کافر وں یابتوں یا شیطان کو ، دوسرے یہ کہ اللہ کے دوستوں یعنی نبی ،ولی کو خدا کے مقابل مدد گار سمجھا جائے کہ خدا کا مقابلہ کرکے یہ ہمیں کام آئیں گے ۔ ولی اللہ کو ماننا عین ایمان ہے اور ولی من دون اللہ بنانا عین کفر وشرک ہے ۔ ولی اللہ کے لئے یہ آیت ہے :

(1)اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳

خبردار ! اللہ کے دوست نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے وہ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔(پ11،یونس:62،63)
اس آیت میں ولی اللہ کا ذکر ہے۔

(2) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ

مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے سوا۔(پ3،اٰل عمرٰن:28)

(3) مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷

اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار (پ1،البقرۃ:107)
    ان دو آیتو ں میں ولی من دون اللہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں دشمنان خدا کو دوست بنانے کی ممانعت ہے ۔ دوسری میں خدا کے مقابل دوست کی نفی ہے یعنی رب تعالیٰ کے مقابل دنیا میں کو ئی مد د گار نہیں نہ ولی ، نہ پیر ، نہ نبی۔ یہ حضرات جس کی مدد کرتے ہیں اللہ کے حکم اور اللہ کے ارادے سے کرتے ہیں ۔
ولی یا اولیاء کے ان معانی کابہت لحاظ رکھنا چاہیے۔ بے موقع تر جمہ بدعقیدگی کا باعث ہوتا ہے مثلا ۔ اگرنمبر۱کی آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ، (المائدۃ:55) کا ترجمہ یہ کردیا جائے کہ تمہارے معبود اللہ، رسول اور مومنین ہیں شرک ہوگیا اور اگر وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷ (البقرۃ:۱۰۷)

کے یہ معنی کردیئے جائیں کہ خدا کے سوا کوئی مددگا ر نہیں تو کفر ہوگیاکیونکہ قرآن نے بہت سے مدد گا روں کا ذکر فرمایا ہے اس آیت کا انکار ہوگیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے کافر وں ، ملعونوں کا کوئی مددگار نہیں۔ معلوم ہواکہ مومنوں کے مدد گار ہیں۔

(1) وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲

اور جس پر خدا لعنت کردے اس کے لئے مدد گار کوئی نہیں پاؤگے۔(پ5،النسآء:52)

(2) وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ (پ25،الشورٰی:44)

اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے پیچھے کوئی مدد گار نہیں۔

(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷(پ15،الکھف:17)

جسے اللہ گمراہ کردے اس کیلئے ہادی مرشد آپ نہ پائیں گے ۔

دعا

    دُعَا دَعْوٌ یادَعْوَتٌ سے بناہے جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے ۔قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے ۔۱۔پکارنا، ۲۔بلانا، ۳۔مانگنا یا دعا کرنا، ۴۔پوجنا یعنی معبود سمجھ کر پکارنا، ۵۔ تمنا آرزو کرنا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ (پ21،الاحزاب:5)

انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے نزدیک عدل ہے ۔

(2) وَّ الرَّسُوۡلُ یَدْعُوۡکُمْ فِیۡۤ اُخْرٰىکُمْ (پ4،اٰل عمرٰن:153)

اور پیغمبر تم کو تمہارے پیچھے پکارتے تھے ۔

(3) لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا ؕ (پ18،النور:63)

رسول کے پکارنے کو بعض کے بعض کو پکارنے کی طر ح نہ بناؤ ۔
ان جیسی تمام آیات میں دعا بمعنی پکارنا ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (پ14،النحل:125)

اپنے رب کے راستہ کی طر ف لوگو ں کو حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ ۔

(۲)وَادْعُوْاشُہَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ (پ۱،البقرۃ:۲۳)

اور بلاؤ اپنے مدد گار وں کو اللہ کے سوا۔

(3) وَلْتَکُنۡ مِّنۡکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوۡنَ اِلَی الْخَیۡرِ (پ4،اٰل عمرٰن:104)

اور تم میں ایک گر وہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طر ف بلائے ۔
ان جیسی آیات میں دعا کے معنی بلانے کے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً  (پ8،الاعراف:55)

اپنے رب سے عاجزی سے خفیہ طو ر پر دعا مانگو ۔

(2) اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾ (پ13،ابراہیم:39)

بے شک میرا رب دعا کا سننے والاہے ۔

(3) رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ  (پ13،ابراہیم:40)

اے ہمارے رب میری دعا سن لے ۔

(4) فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ (پ21،العنکبوت:65)

جب وہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں توخداسے دعامانگتے ہیں دین کو اس کیلئے خالص کر کے ۔

(5) وَّ لَمْ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾ (پ16،مریم:4)

اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگنے میں کبھی نامراد نہ رہا ۔

(6)  اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (پ2،البقرۃ:186)

میں دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دعا کرتا ہے۔

(7) وَمَا دُعَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾ (پ13،الرعد:14)

اور نہیں ہے کافرو ں کی دعا مگر بربادی میں۔

(8) ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ (پ3،اٰل عمرٰن:38)

وہا ں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ۔
ان جیسی تمام آیات میں دعا کے معنی دعا مانگنا ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَشْتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾ (پ24،حمۤ السجدۃ:31)

اور تمہارے لئے جنت میں وہ ہوگا جو تمہارے دل چا ہیں اور تمہارے لئے وہاں وہ ہوگا جس کی تم تمنا کرو ۔
اس آیت میں دعا بمعنی آرزو کرنا، چاہنا ،خواہش کرنا ہے۔

(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ  (پ9،الاعراف:194)

جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو وہ تم جیسے بندے ہیں ۔

(2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ (پ29،الجن:18)

بے شک مسجدیں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔

(3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ  (پ26،الاحقاف:5)

اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا ایسوں کو پوجتا ہے جو اس کی عبادت قبول نہ کرے قیامت تک ۔

(4) قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلۡ لَّمْ نَکُنۡ نَّدْعُوۡا مِنۡ قَبْلُ شَیْـًٔا ؕ (پ24،المؤمن:74)

کافر کہیں گے کہ وہ غائب ہوگئے ہم سے بلکہ ہم ا س سے پہلے کسی چیز کو نہ پوجتے تھے ۔

(5) وَالَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾اَمْوَاتٌ غَیۡرُ اَحْیَآءٍ
(پ14،النحل:20،21)

اور وہ جن کی یہ مشرکین پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ پیدا کئے جاتے ہیں یہ مردے ہیں زندہ نہیں ۔

(6) وَ اِذَا رَاَ الَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا شُرَکَآءَہُمْ قَالُوۡا رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیۡنَ کُنَّا نَدْعُوْ مِنۡ دُوۡنِکَ (پ14،النحل:86)

اورجب مشرکین اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے رب ہمارے یہ ہمارے وہ معبود ہیں جنہیں ہم تیرے سوا پوجا کرتے تھے ۔
    ان جیسی تمام وہ آیات جن میں غیر خدا کی دعا کو شرک وکفر کہا گیا یا اس پر جھڑکا گیا ان سب میں دعا کے معنی عبادت (پوجا) ہے اور یدعون کے معنی ہیں وہ پوجتے ہیں اس کی تفسیر قرآن کی ان آیتو ں نے کی ہے جہاں دعا کے ساتھ عبادت یا الٰہ کا لفظ آگیا ہے ،فرماتا ہے :

(1) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۵﴾قُلْ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ  (پ24،المؤمن:66)

وہ ہی زندہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسے پوجو۔ اس کے لئے دین کو خالص کر کے سب خوبیاں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں تم فرماؤ میں منع کیا گیا ہوں کہ انہیں پوجوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔
    اس آیت میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَا وراَنْ اَعْبُدَنے صاف بتادیا کہ یہاں دعا سے پوجنا مراد ہے نہ کہ پکارنا۔

(2) وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾  (پ24،المؤمن:60)

اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھ سے دعا کرومیں تمہاری دعاقبول کرو ں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر دو زخ میں جائیں گے
    یہاں دعا سے مراد دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اس لئے ساتھ ہی عبادت کا ذکر ہو افقط پکارنا مراد نہیں ۔

(3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنۡ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوۡنَ ﴿۵﴾ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمْ اَعْدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾ (پ26،الاحقاف:5ـ6)

اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا اس کی پوجا کرتا ہے جو قیامت تک اس کی نہ سنیں اور جب لوگوں کا حشر ہوگا تو یہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوجاویں گے۔

    یہاں بھی دعا سے مراد پکارنا نہیں بلکہ پوجنا یعنی معبود سمجھ کرپکارنا مراد ہے کیونکہ ساتھ ہی ان کے اس فعل کو عبادت کہا گیا ہے۔ ان آیات نے ان تمام کی شرح کردی جہاں غیر خدا کی دعاکو شرک فرمایا گیا اور بتا دیا کہ وہاں دعا سے مراد پوجنا یا دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اگر غیر خدا کو پکارنا شرک ہوتا تو جن آیتو ں میں پکارنے کا حکم دیا گیا ۔ ان سے ان آیات کا تعارض ہوجاتا ۔ پکارنے کی آیات ہم نے ابھی پیش کردیں اس لئے عام مفسرین ان ممانعت کی آیتو ں میں دعا کے معنی عبادت کرتے ہیں ان کی یہ تفسیر قرآن کی ان آیتوں سے حاصل ہے ۔
اعتراض: دعا کے معنی کسی لغت میں عبادت نہیں دعا کے معنی بلانا، نداکر نا عام لغت میں مذکور ہیں لہٰذا ان تمام آیتوں میں اس کے معنی پکارنا ہی ہیں (جواہر القرآن )
جواب : اس کے دو جواب ہیں ایک یہ کہ دعاکے لغوی معنی پکارنا ہیں او راصطلاحی معنی عبادت ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا جہاں دعا کی اجاز ت ہے وہا ں لغوی پکارنا مراد ہیں اور جہاں غیر خدا کی دعا سے ممانعت ہے وہاں عرفی معنی پوجنا مراد ہیں ۔ جیسے لغت میں صلوۃ کے معنی دعا ہیں او رعرفی معنی نماز۔ قرآن میں اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں صلوٰۃسے مراد نمازہے اور صَلِّ عَلَیْہِمْ اور صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا میں صلوٰۃسے مراددعا ہے ۔ تمہارا اعتراض ایسا ہے جیسے کوئی نماز کا انکار کردے اور کہے قرآن میں جہاں بھی صلوٰۃآیاہے وہاں دعامرادہے کیونکہ یہی اس کے لغوی معنی ہیں ایسے ہی طواف کے لغوی معنی گھومنا ہیں اوراصطلاحی معنی ایک خاص عبادت ہیں قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہو اہے ۔

    دوسرے یہ کہ واقعی دعا کے معنی پکارنا ہیں مگر پکارنے کی بہت سی نوعیتیں ہیں جن میں سے کسی کو خدا سمجھ کر پکارنا عبادت ہے ، ممانعت کی آیات میں یہی مراد ہے یعنی کسی کو خدا سمجھ کر نہ پکارے ۔ اس کی تصریح قرآن کی اس آیت نے فرمادی:

وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَب

اور جو خدا کے ساتھ دوسرے خدا کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب رب کے پاس ہے ۔ ِّہٖ (پ18،المؤمنون:117)
    اس آیت نے خوب صاف فرمادیا کہ پکارنے سے خدا سمجھ کر پکارنا مراد ہے ۔
اعتراض : ان ممانعت کی آیتو ں میں پکارنا ہی مراد ہے مگر کسی کو دور سے پکارنا مراد ہے یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہا ہے یہ ہی شرک ہے ۔(جواہر القرآن)
جواب :یہ بالکل غلط ہے ۔ قرآن کی ان آیتو ں میں دور نزدیک کا ذکر نہیں ۔ یہ قید آپ نے اپنے گھر سے لگائی ہے نیز یہ قید خود قرآن کی اپنی تفسیر کے بھی خلاف ہے لہٰذا مردود ہے نیز اگر دور سے پکارنا شرک ہو تو سب مشرک ہوجائیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا حالانکہ وہ نہا وند میں تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنا کر تمام دور کے لوگوں کو پکارا اور تمام روحوں نے جو قیامت تک پیدا ہونیوالی تھیں انہوں نے سن لیا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ آج نمازی حضور علیہ السلام کو پکارتا ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیّ اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو ۔اگر یہ شرک ہوجاوے تو ہر نمازی کی نماز تو پیچھے ختم ہوا کرے ایمان پہلے ختم ہوجاوے آج ریڈیو کے ذریعہ دور سے لوگو ں کو پکارتے ہیں او روہ سن لیتے ہیں اگر کہا جائے کہ ریڈیوکی بجلی کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت دور

سے سننا شرک نہیں تو ہم بھی کہیں گے کہ نبوت کے نور کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت سننا شر ک نہیں غرضیکہ یہ اعتراض نہایت ہی لغوہے ۔
اعتراض: ممانعت کی آیتو ں میں مردو ں کو پکارنا مراد ہے یعنی مرے ہوئے کو پکارنا یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہاہے شرک ہے ۔    (جواہر القرآن)
جواب : یہ بھی غلط ہے چند وجہ سے ایک یہ کہ یہ قید تمہارے گھر کی ہے قرآن میں نہیں آئی۔ رب تعالیٰ نے مردہ ، زندہ ، غائب ، حاضر ، دور نزدیک کی قید لگا کر ممانعت نہ فرمائی ۔ لہٰذا یہ قید باطل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تفسیر خود قرآن کی تفسیر کے خلاف ہے ۔ اس نے فرمایا کہ دعا سے مراد عبادت ہے ۔ تیسرے یہ کہ اگر مردو ں کو پکارنا شرک ہو تو ہرنمازی نمازمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو پکارتا ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو،حالانکہ حضور وفات پاچکے ہیں ہم کو حکم ہے کہ قبر ستان جا کر یوں سلام کریں : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اے مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلام ہو۔
    ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کی ہوئی چڑیوں کو پکارا اور انہوں نے سن لیا ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا :

ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا

پھر ان مرے ہوئے پرندوں کو پکار و وہ دوڑتے ہوئے تم تک آجائیں گے ۔(پ3،البقرۃ:260)
    حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو ان کی ہلاکت کے بعد پکارا ، صالح علیہ السلام کا قصہ سورہ اعراف میں اس طر ح بیان ہوا :
فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹

تو انہیں زلزلے نے پکڑلیا تو وہ اپنے گھرو ں میں اوندھے پڑے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔ (پ8،الاعراف:78۔79)
شعیب علیہ السلام کا واقعہ اسی سورہ اعراف میں کچھ آگے یوں بیان فرمایا :

فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳

شعیب نے ہلاکت کفار کے بعد ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم ! میں نے تجھے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی تو میں کا فر قوم پر کیسے غم کرو ں ؟ (پ9،الاعراف:93)
    ان دونوں آیتو ں میں فَتَوَلّٰی کی ف سے معلوم ہوا کہ ان دونوں پیغمبر وں علیہما الصلوۃ والسلام کا یہ خطاب قوم کی ہلاکت کے بعد تھا ۔ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بد ر کے دن مرے ہوئے ابوجہل، ابولہب،امیہ ابن خلف وغیرہ کفار سے پکار کر فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرض کرنے پر فرمایا کہ تم ان مردوں سے زیادہ نہیں سنتے ۔

(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر، الحدیث۱۳۷۰،ج۱،ص۴۶۲،دار الکتب العلمیۃ)

    کہیے ! اگر قرآن کے فتوے سے مردوں کو پکارنا شرک ہے تو ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اس پکارنے کا کیا جواب دوگے ۔ غرضیکہ یہ اعتراض محض باطل ہے ۔

اعتراض : کسی کو دور سے حاجت روائی کے لئے پکارنا شرک ہے اور ممانعت کی آیتو ں میں یہی مراد ہے لہٰذا اگر کسی نبی ولی کو دور سے یہ سمجھ کر پکارا گیا کہ وہ ہمارے حاجت روا ہیں تو شرک ہوگیا ۔    ( جواہر القرآن)
جواب : یہ اعتراض بھی غلط ہے ۔ اولًا تو اس لئے کہ قرآن کی ممانعت والی آیتو ں میں یہ قید نہیں تم نے اپنے گھر سے لگائی ہے ۔لہٰذا معتبر نہیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ۔ تیسرے اس لئے کہ ہم نے بتادیا کہ اللہ کے بندے دور سے سنتے ہیں خواہ نورنبوت سے یا نور ولایت سے۔ دوسرے باب میں ہم عرض کریں گے کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ کے بندے حاجت روا ، مشکل کشا بھی ہیں ۔ جب یہ دونوں باتیں علیحد ہ علیحد ہ صحیح ہیں تو ان کا مجموعہ شرک کیونکر ہوسکتا ہے ۔قرآن فرمارہا ہے کہ اللہ کے بندے وفات کے بعد سن بھی لیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں جوخاص خاص کو محسوس ہوتا ہے ۔ رب فرماتا ہے :

وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵

اے حبیب ان رسولوں سے پوچھوجو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے خدا کے سوا ایسے معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جاوے ۔(پ25،الزخرف:45)
    غور کر و کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام وفات پاچکے تھے۔ مگر رب تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے محبوب ! ان وفات یافتہ رسولوں سے پوچھ لوکہ کیا کوئی خدا کے سوا اور معبود ہے اور پوچھا اس سے جاتا ہے جو سن بھی لے اور جواب بھی دے ۔پتا لگا کہ اللہ کے بندے بعد وفات سنتے اور بولتے ہیں معراج کی رات سارے وفات یافتہ رسولوں نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی ۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر وفات یافتہ رسولوں نے حج میں شرکت کی اور حج ادا کیا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں ۔
    خلاصہ یہ ہے کہ دعا قرآن کریم میں بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے ہر جگہ اس کے وہ معنی کرنا چاہئیں جو وہاں کے مناسب ہیں ۔ جن وہابیوں نے ہرجگہ اس کے معنی پکارنا کئے ہیں وہ ایسے فحش غلط ہیں جس سے قرآنی مقصد فو ت ہی نہیں بلکہ بدل جاتا ہے۔ اسی لئے وہابیوں کو اس پکارنے میں بہت سی قیدیں لگانی پڑتی ہیں کبھی کہتے ہیں غائب کو پکارنا ،کبھی کہتے ہیں مردہ کو پکارنا،کبھی کہتے ہیں دور سے سنانے کیلئے پکارنا، کبھی کہتے ہیں مافوق الاسباب سنانے کے لئے دور سے پکارنا شرک ہے مگر پھر بھی نہیں مانتے پھر تعجب ہے کہ جب کسی کو پکارنا عبادت ہوا تو عبادت کسی کی بھی کی جائے شرک ہے ، زندہ کی یا مردہ کی ، قریب کی یادور کی پھر یہ قیدیں بے کار ہیں ۔ غرضکہ یہ معنی نہایت ہی غلط ہیں ۔ ان جگہوں میں دعا سے مراد پوجنا ہے ۔ اس معنی پر نہ کسی قید کی ضرورت ہے نہ کوئی دشواری پیش آسکتی ہے ۔
نوٹ ضروری: اللہ کے پیارے وفات کے بعد زندوں کی مدد کرتے ہیں۔
قرآن شریف سے ثابت ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ

یاد کرو جب اللہ نے پیغمبر وں سے عہد لیا کہ جو میں تمہیں کتا ب وحکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔ (پ3،اٰل عمرٰن:81)
    اس آیت سے پتا لگاکہ میثاق کے دن رب تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے دو وعدے لئے ۔ ایک حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ، دوسرے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنا ۔ اور رب تعالیٰ جانتا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی کی زندگی میں نہ تشریف لائینگے پھر بھی انہیں ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا معلوم ہوا کہ روحانی ایمان اور روحانی مدد مراد ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے دونوں وعدوں کو پورا کیا کہ معراج کی رات سب نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی یہ ایمان کاثبوت ہے ۔ بہت سے پیغمبر وں نے حج الوداع میں شرکت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شب معراج دین مصطفی کی اس طر ح مدد کی کہ پچا س نمازوں کی پانچ کرادیں ۔ اب بھی وہ حضرات انبیائعلیہم الصلوۃ والسلام مسلمانوں کی اور حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی روحانی مدد فرمارہے ہیں اگر یہ مدد نہ ہوا کرتی تو یہ عہد لغو ہوتا عیسی علیہ السلام آخر زمانہ میں اس عہد کو ظاہر طور پر بھی پورا فرمانے کے لئے تشریف لائیں گے ۔






Bid'at Aur Lafz e Ilah ki Tahqeeq


بدعت

    بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے۔

(1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ

وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117)

(2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ

فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9)
    ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے :


وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷

اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27)
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔

الٰہ

    قرآن شریف کی اصطلاحوں میں سے ایک اصطلاح لفظ الٰہ بھی ہے اس کی پہچان مسلمان کے لئے بہت ہی ضروری ہے کیونکہ کلمہ میں اسی کا ذکر ہے : لا الہ الا اللہ  اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں نماز شر وع کرتے ہی پڑھتے ہیں: لاالہ غیرک یا اللہ ! تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں غرضیکہ ایمان اور نماز بلکہ سارے اعمال اسی کی پہچان پر موقوف ہیں اگرہمیں الٰہ کی خبر نہ ہو تو دوسروں سے نفی کس چیز کی کریں گے اور رب تعالیٰ کیلئے ثبوت کس چیز کا کرینگے غرضیکہ اس کی معرفت بہت اہم ہے ۔
الٰہ کے متعلق ہم تین چیز یں عرض کرتے ہیں :
(۱) الٰہ کے معنی وہابیوں نے کیا سمجھے اور اس میں کیا غلطی کی(۲) الٰہ ہونے کی پہچان شریعت اورقرآن میں کیا ہے یعنی کیسے پہچا نیں کہ الٰہ حق کو ن ہے اور الٰہ باطل کون (۳)ا لوہیت کامدار کس چیز پر ہے یعنی وہ کونسی صفات ہیں جن کے مان لینے سے اسے الٰہ ماننا پڑتا ہے ۔ان تینوں باتو ں کو بہت غور سے سوچنا چاہیے۔
(۱) وہابیوں نے الٰہ کا مدار دو چیزوں پر سمجھا ہے علم غیب اور مافوق الاسباب حاجات میں تصرف یعنی جس کے متعلق یہ عقیدہ ہو کہ وہ غیب کی بات جان لیتا ہے یا وہ بغیر ظاہری اسباب کے عالم میں تصرف یعنی عملدر آمد کرتا ہے حاجتیں پوری اور مشکلیں حل کرتاہے وہی الٰہ ہے، دیکھو جواہر القرآن صفحہ۱۱۲ ( قانون لفظ الہ)مصنفہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب۔
     اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ عام مسلمان انبیاء علیہم السلام،اولیاء رحمہم اللہ کو عالم
غیب بھی مانتے ہیں او رمافوق الاسباب متصرف بھی لہٰذا یہ لوگ کلمہ کے ہی منکر ہیں اور مشرک ہیں۔
    لیکن یہ معنی بالکل غلط قرآن کے خلاف ، خود وہابیہ کے عقیدوں کے خلاف ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور عام مسلمین کے عقائد کے خلاف ہیں ، اس لئے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرشتے باذن پروردگار عالم میں تصرف کرتے ہیں کوئی زندوں کو مردہ کرتا ہے (ملک الموت) کوئی ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے کوئی بارش بر ساتا ہے کوئی حساب قبر لیتا ہے اوریہ سارے کام مافوق اسباب ہیں ۔ تو وہابیہ کے نزدیک یہ سارے الٰہ ہوگئے اسی طر ح انبیاء کرام علیہم السلام ما فوق اسباب حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام اندھوں، کوڑھوں کو اچھا اور مردو ں کو زندہ کرتے تھے ۔ یوسف علیہ السلام اپنی قمیص سے باذن پروردگار نابینا آنکھ کو بینا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ، یہ سب الٰہ ٹھہرے او ران کا ماننے والا لاالہ الا اللہ کا منکر ہو احضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر میں کھائی بچائی چیزوں کی خبر یں دیتے تھے ۔ آصف برخیاتخت بلقیس آن کی آن میں شام میں لے آتے ہیں یہ بھی الٰہ ہوئے ۔ غرضیکہ اس تعریف سے کوئی قرآن ماننے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ شاید جو اہر القرآن والے نے یہ تعریف سوتے میں لکھی ہے یا نشہ میں۔
مذکورہ بالا امور کی آیات ان شاء اللہ تیسرے با ب میں پیش ہوں گی۔
(۲) الٰہ بر حق کی بڑی پہچان صر ف یہ ہے کہ جس کو نبی کی زبان الٰہ کہے ، وہ الٰہ بر حق ہے او ر جس کی الوہیت کا پیغمبر انکار کریں وہ الٰہ باطل ہے ۔ تمام کافرو ں نے سورج ، چاند ، ستا روں ، پتھرو ں کو الٰہ کہا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا انکار کیا سارے

جھوٹے اورنبی سچے ،رب تعالیٰ کی الوہیت کا سارے فرعونیوں نے انکار کیا کلیم اللہ صلوۃ اللہ علیہ وسلامہ نے اقرار کیا ۔ سارے فرعونی جھوٹے اور موسیٰ علیہ السلام سچے الٰہ کی پہچان اس سے اعلی ناممکن ہے نبی الٰہ کی دلیل مطلق او ربرہان ناطق ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔

(1)فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۴۸

پس جادو گر سجدے میں ڈال دیئے گئے وہ بولے کہ ہم ایمان لائے جہانوں کے رب پر ، جو رب ہے حضرت موسی وہارون کا ۔(پ19،الشعرآء:46۔48)
    رب العالمین کی پہچان یہ بتائی کہ جو حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کا رب ہے ورنہ فرعون کہہ سکتا تھا کہ رب العالمین تو میں ہوں یہ مجھ پر ایمان لارہے ہیں فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا :اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ میں حضرت موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لایا۔اس نے بھی رب تعالیٰ کی معرفت بذریعہ ان دو پیغمبر وں کے کی اگر چہ اس کاایمان اس لئے قبول نہ ہوا کہ عذاب دیکھ کر ایمان لایا ۔ جب ایمان کا وقت گزرچکا تھا ۔

(2) اِذْ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعْدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا

جب فرمایا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہ میرے بعد کسے پوجوگے ؟ تو وہ بولے کہ آپ کے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام کے رب کی عبادت کریں گے۔(پ1 البقرۃ:133)
    ان بزرگو ں نے بھی سچے الٰہ کی پہچان یہی عرض کی کہ جو پیغمبر وں کا بتایا ہوا الٰہ ہے وہی سچا ہے جیسے دھوپ آفتاب کی بڑی دلیل ہے ایسے ہی انبیاء کرام علیہم السلام نور الٰہی کی تجلی اولی ہیں ان کافر مان رب تعالیٰ کی قوی برہان ہے اگر کوئی نبی کا فرمان چھوڑ کر اپنی عقل ودانش سے خدا کو پہچانے نہ وہ مومن ہے نہ موحد ۔


لفظ اِلٰہ کی تحقیق


    اِلٰہ اِلٰہٌ سے بنا جس کے لغوی معنی ہیں انتہائی بلندی یا حیرانی ۔ الٰہ وہ جو انتہائی بلند و بر تر ہو یا جس کی ذات یا صفات میں مخلوق کی عقل حیران رہ جائے قرآن کی اصطلاح میں الٰہ بمعنی مستحق عبادت ہے یعنی معبود جہاں کہیں اِلٰہ آوے اس کے معنی معبود ہونگے لااِلٰہ نہیں ہے کوئی مستحق عبادت اِلَّا اللہ خدا کے سوا۔ مستحق عبادت وہ جس میں یہ صفات ہوں پیدا کرنا ،رزق،زندگی، موت کا مالک ہونا ۔ خود مخلو ق کی صفات سے پاک ہونا جیسے کھانا ،پینا ،مرنا ، سونا، مخلوق ہونا، کسی عیب کا حامل ہونا وغیرہ دانا غیب مطلق ہونا ۔ عالم کا مالک حقیقی ہونا وغیرہ۔ فرماتا ہے :

(1) اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنۡشِرُوۡنَ ﴿۲۱

کیا انہوں نے زمین میں سے معبود بنالیے وہ کچھ پیدا کرتے ہیں ۔(پ17،الانبیآء:21)
یعنی چونکہ ان بتوں میں پیدا کرنے کی قابلیت نہیں وہ توخود مخلوق ہیں لہٰذا وہ خدا نہیں۔

(2) اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ ؕ

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ ہے اور وں کو قائم رکھنے والا ہے اسے نہ اونگھ آوے نہ نیند اس کی ہی وہ چیزیں ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔(پ3،البقرۃ:255)

(3) مَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ

اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے یوں ہوتا تو ہر خدا پنی مخلوق لے جاتا ۔(پ18،المؤمنون:91)

(4) وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوۡنَ وَلَا یَمْلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِکُوۡنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳

انہوں نے خدا کے سوا اور خدا ٹھہرالئے جو کچھ نہیں پید اکرتے او رخود پیدا کئے جاتے ہیں اور نہیں مالک ہیں اپنی جانوں کیلئے نقصان ونفع کے اور نہیں مالک ہیں مرنے جینے کے اور نہ اٹھنے کے۔(پ18،الفرقان:3)
    ان جیسی بہت سی آیات سے یہ ہی پتا لگتا ہے کہ الٰہ حقیقی ہونے کا مدار مذکورہ بالا صفات پر ہے۔ مشرکین کے بتو ں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر بندو ں میں چو نکہ یہ صفات موجود نہیں ہیں او رمخلوق کی صفتیں موجود ہیں جیسے کھانا ،پینا ، مرنا، سونا، صاحب اولاد ہونا ۔ لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہوسکتے ۔

وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ

اور عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بہت سچی تھیں یہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔(پ6،المآئدۃ:75)
یعنی مسیح اور ان کی والدہ صاحبہ چونکہ کھانا کھاتے لہٰذا الٰہ نہیں ۔
    مشرکین عر ب نے اپنے معبودوں میں چونکہ حسب ذیل باتیں مانیں لہٰذا انہیں الٰہ مان لیا اور مشرک ہوگئے ۔
(۱) رب تعالیٰ کے مقابل دوسروں کی اطاعت کر نا حق سمجھ کر یعنی ان کا معبود جو کہے وہی حق ہے۔ خواہ رب کے خلاف ہی ہو ۔

(1) اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳

تو دیکھوتو جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا الٰہ بنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہوگئے ۔(پ19،الفرقان:43)

(2) اِتَّخَذُوۡۤا اَحْبَارَہُمْ وَرُہۡبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَالْمَسِیۡحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا

عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا او رمسیح بیٹے مریم کو او رانہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک خدا کو پوجیں۔(پ10،التوبۃ:31)
    ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے نہ تو اپنی خواہش کو نہ اپنے پادریوں کو خدا مانا مگر چونکہ رب تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی اس لئے انہیں گویا الٰہ بنالیا۔
(۲) کسی کو یہ سمجھناکہ یہ ہم کو رب تعالیٰ کے مقابلہ میں اس سے بچالے گا یعنی وہ عذاب دینا چاہے تو یہ نہ دینے دیں۔

(1) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳

کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہمارے مقابل ہم سے بچالیں وہ تو اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی مدد کی جائے ۔ (پ17،الانبیآء:43)
(۳) کسی کو دھونس کا شفیع سمجھنا کہ رب تعالیٰ کے مقابل اس کی مرضی کیخلاف ہمیں اس سے چھڑا لیگا ۔

(1) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا

کیا انہوں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنا رکھے ہیں فرمادو کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو کہ شفاعت تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔(پ24،الزمر:43،44)

(2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ؕ

وہ کو ن ہے جو رب کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔(پ3البقرۃ:255)

(۴)کسی کو شفیع سمجھ کر پوجنا اسے تعبدی سجدہ کرنا ۔

وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ

اور وہ اللہ کے سواا ن چیزوں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے نزدیک۔(پ11،یونس:18)
(۵)کسی کو خدا کی اولاد ماننا، پھر اس کی اطا عت کرنا ۔

وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ

اور بنایا ان مشرکین نے جنات کو اللہ کا شریک حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور بنایا اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں ۔ (پ7،الانعام:100)
    غرضیکہ الٰہ کا مدار صرف اسی پر ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر ماننا اور برابر ی کی وہ ہی صورتیں ہیں جو اوپر کی آیا ت سے معلوم ہوئیں۔ ہم مخلوق کو سمیع ، بصیر، زندہ ، قادر ، مالک ،وکیل، حاکم ،شاہد اور متصرف مانتے ہیں مگر مشرک نہیں کیونکہ کسی کو ان صفات میں رب تعالیٰ کی طر ح نہیں مانتے ۔
اعتراض:رب تعالیٰ بتو ں او رنبیوں ، ولیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۶۸

اور ان کے لئے کوئی اختیار نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس سے جو شرک کرتے ہیں۔ (پ20،القصص:68)
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کو اختیارماننا ہی شرک ہے تم بھی نبیوں ، ولیوں کو اختیار مانتے ہو۔ تم نے انہیں الٰہ بنالیا ۔

جواب : یہا ں اختیار سے مراد پید اکرنے کا اختیارہے، اسی لئے فرمایا گیا :

وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ

آپ کا رب جو چاہے پیدا کرے اور اختیار فرمائے انہیں کوئی اختیار نہیں ۔(پ20،القصص:68)
    بااختیار سے مراد ہے رب تعالیٰ کے مقابل اختیار ورنہ تم بھی بادشاہوں ، حاکموں کوبا اختیار مانتے ہو ۔ اسی لئے ان سے ڈرتے ہو ۔
اعتراض : رب تعالیٰ نے نبیوں ، ولیوں اور بتوں کے لئے فرمایا:

وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ

وہ ا للہ کے سوا ان چیز وں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع ۔(پ11،یونس:18)
معلوم ہوا کہ کسی کو نافع اور ضار ماننا اسے الٰہ ماننا ہے اور تم بھی نبیوں ، ولیوں کو نافع اور ضار مانتے ہو تم بھی مشرک ہوئے ۔
جواب: ان جیسی آیات میں رب تعالیٰ کے مقابلہ میں نافع ماننا مراد ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہمیں نقصان پہنچا نا اور یہ ہمیں نفع پہنچادیں ، اس کی تفسیر یہ آیت ہے :

وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ

اگر خدا تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد تمہیں مدد کون دے گا ۔(پ4،اٰل عمرٰن: 160)
ورنہ تم بھی بادشاہ حاکموں ، بلکہ سانپ ، بچھو، دواؤں کو نافع اور نقصان دہ مانتے ہو۔ نیز فرماتا ہے :

وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷

اگر تجھے اللہ سختی پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنیوالا نہیں اور جو تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(پ7،الانعام:17)

    یہ آیت ان تمام آیتو ں کی تفسیر ہے کہ نفع نقصان سے مراد رب تعالیٰ کے مقابل نفع او رنقصان ہے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ﴿۴۲

براہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے باپ تم اسے کیوں پوجتے ہو جو نہ سنے نہ دیکھے نہ تم سے کچھ مصیبت دور کرے ۔(پ16،مریم:42)
     معلوم ہوا کہ کسی کو غائبانہ پکار سننے والا ،غائبانہ دیکھنے والا ، نافع وضا ر ماننا، اسے الٰہ ماننا ہے۔ یہ شرک ہے ۔تم بھی نبیوں ، ولیوں میں یہ صفات مانتے ہو ۔ لہٰذا انہیں الٰہ مانتے ہو ۔
جواب : اس آیت میں دور سے سننے، دیکھنے کا ذکر کہا ں ہے؟ یہا ں تو کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں جن میں دیکھنے ،سننے کی بھی طاقت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو سنے، دیکھے ،وہ خدا ہے ورنہ پھرتو ہر زندہ انسان خدا ہونا چاہیے کہ وہ سنتا ،دیکھتا ہے۔ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾  (الدہر:2) ، رب تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَیۡدٍ یَّبْطِشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوۡنَ بِہَاۤ ۫

کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں ۔(پ9،الاعراف:195)
    اس میں بھی ان کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ بے آنکھ ، بے ہاتھ اور بے پاؤں کی مخلوق کو پوجتے ہیں حالانکہ ان بتو ں سے خود یہ بہترہیں کہ ان کے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان وغیرہ تو ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کے آنکھ ، کان ہوں وہ خدا

ہوجائے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتاہے :

وَ اِنۡ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ﴿۷﴾اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ

اگر تم اونچی بات کہو تو وہ پوشیدہ اور چھپی باتو ں کو جان لیتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(پ16،طہ:7،8)
    اس آیت سے معلوم ہو اکہ ا لٰہ کی شان یہ ہے کہ اونچی نیچی ، ظاہر، چھپی سب باتوں کو جانے، اگر کسی نبی ولی میں یہ طاقت مانی گئی تو اسے الٰہ مان لیا گیا او رشرک ہوگیا ۔
جواب : خدا کی یہ صفات ذاتی ، قدیم ، غیر فانی ہیں ۔ اسی طر ح کسی میں یہ صفات ماننا شرک ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو ظاہر پوشیدہ باتیں جاننے کی قوت بخشی ہے یہ قوت بہ عطاء الٰہی عارضی غیر میں ماننا عین ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸

بندہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار بیٹھا ہے ۔(پ26،قۤ:18)
    یعنی اعمالنا مہ لکھنے والا فرشتہ انسا ن کا ہر ظاہر اور پوشیدہ کلام لکھتا ہے ۔اگر اسی فرشتے کو ہر ظاہر باطن بات کا علم نہ ہوتا تو لکھتا کیسے ہے ؟

وَ اِنَّ عَلَیۡکُمْ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾یَعْلَمُوۡنَ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿۱۲

اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں معزز لکھنے والے جانتے ہیں ہر وہ جوتم کرو ۔(پ30،الانفطار:10۔12) پتا لگا کہ اعمال نامہ لکھنے والے فرشتے ہمارے چھپے اور ظاہر عمل کو جانتے ہیں ورنہ تحریر کیسے کریں ۔

اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :

وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوۡہُمْ رَہَقًا ۙ﴿۶

اورکچھ انسانوں کے مرد کچھ جنوں کے مردوں کی پنا ہ لیتے تھے اور اس سے ان کا اور تکبر بڑھ گیا ۔(پ29،الجن:6)
معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی کی پناہ لینا کفر و شرک ہے ۔ فرماتا ہے :

وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ

وہ رب پناہ دیتا ہے اور اس پر پناہ نہیں دی جاتی ۔ (پ18،المؤمنون:88)
جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ کے مقابل پناہ لینا مراد ہے نہ کہ اس کے اذن سے اس کے بندوں کی پناہ ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴

اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے تمہارے پاس آجاویں اور اللہ سے بخشش چاہیں اور آپ بھی ان کی مغفرت کی دعا کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں ۔(پ5،النسآء:64)
    اگر یہ مراد نہ ہو تو ہم سردی گرمی میں کپڑوں مکانوں سے پناہ لیتے ہیں، بیماری میں حکیم سے ، مقدمہ میں حاکموں سے یہ سب شرک ہوجاوے گا ۔
اعتراض : خدا کے سوا کسی کو علم غیب ماننا شرک ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ؕ

فرمادو جو آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا ۔(پ20،النمل:65)
علم غیب دلیل الوہیت ہے جسے علم غیب مانا اسے الٰہ مان لیا ۔(جواہر القرآن )

جواب : اگر علم غیب دلیل الوہیت ہے تو ہر مومن الٰہ ہے کیونکہ ایمان با لغیب کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوتا اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرۃ:3) اور بغیر علم کے ایمان ناممکن ہے اور ملک الموت، ابلیس ، فرشتہ کا تب تقدیر بھی الٰہ ہوگئے کہ ان سب کو بہت علوم غیبیہ دیئے گئے ہیں۔ رب فرماتا ہے :

اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ

وہ ابلیس اور اس کے قبیلہ والے تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔(پ8،الاعراف:27)
     غیب کے متعلق نفی کی آیا ت بھی ہیں اور ثبوت کی بھی ۔ نفی کی آیات میں واجب، قدیم، کل ،ذاتی علم مراد ہے اور ثبوت کی آیات میں عطائی، ممکن، بعض، عارضی علم مراد۔ رب فرماتا ہے :

(1) وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹

نہیں ہے کوئی خشک وتر چیز مگر وہ روشن کتاب لوح محفوظ میں ہے ۔(پ7،الانعام:59)

(2) وَتَفْصِیۡلَ الْکِتٰبِ لَارَیۡبَ فِیۡہِ

قرآن لوح محفوظ کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں ۔(پ11،یونس:37)

(3) وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ

ہم نے آپ پرقرآن اتاراتمام چیزوں کاروشن بیان(پ14،النحل:89)
اگر کسی کو علم غیب نہیں دینا تھا تو لکھا کیوں ؟ اور جب لکھا گیا تو جو فرشتے لوح محفوظ کے حافظ ہیں تو انہیں علم ہے یا نہیں ؟ضرور ہے تو چا ہیے کہ یہ سب الٰہ بن جائیں ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے :

(1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ

نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔(پ7،الانعام:57)

(2) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا

میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)

(3)وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶

اللہ کافی حساب لینے والاہے۔ (پ4،النسآء:6)
تو چاہیے کہ وکیل ہونا ، حکم ہونا ، حسیب ہونا ، الوہیت کی دلیل ہو ۔ جسے وکیل مانا ۔ اسے خدا مان لیا۔

؎ گرہمیں مکتب وہمیں ملا          کار طفلاں تمام خواہدشد