نام و نسب:
ابن حجر عسقلانی مشہور محدث تھے جنھوں نے بخاری کی شرح لکھی۔
آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ اورشافعی مذہب فقیہ تھے۔ 10 شعبان 773 ہجری کو مصر میں پیدا ہوئے اور مصر
ہی میں پرورش پائی۔علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ طلب علم کے سلسلے میں متعدد
بار مصر، شام، حجاز اور یمن کا سفر کیا اور اس شوق کے باعث حافظ عصر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ
کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا نام احمد تھا۔ اور كنيت
ابوالفضل تھی اور ان کا لقب شہاب الدين تھا۔
سلسلہ نسب:
ابوالفضل شہاب الدین احمد بن
على بن محمد بن علی بن احمد احمد کنانی شافعی۔ جو ابن حجر عسقلانی کے نام سے مشہور
ہیں۔ ابن حجر کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ مشہور علمی خاندان آل حجر
میں سے تھے۔ اس عظیم خاندان مین محدثین وفقہا کثیر تعداد میں پیدا ہوئے۔ آپ سنت نبوی
کا علم بلند کرنے والے قاضی القضاۃ اور حفاظ و رواۃ میں منفرد شخصیت ہیں۔
ابتدائی تعلیم اوراساتذہ کرام:
نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور الحاوی، مختصر ابن حاجب اور
دیگر کتب حفظ کر لیں، بعد ازاں اپنے ایک وصِی کے ہمراہ مکہ مکرمہ کا سفر کیا اور وہاں
اہل علم سے سماع کیا، پھر آپ کو طلب حدیث کا شوق ہوا تو آپ حجاز، شام اور مصر کے کبار
شیوخ الحدیث سے علم حدیث حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے، چنانچہ آپ نے دس سال تک علم حاصل
کرنے کے لیے زین عراقی کے پاس قیام کیا اور بلقینی، ابن ملقن اور دیگر اہلِ علم سے
فقہ حاصل کی۔ آپ کو اتنی کثیر تعداد میں جلیل القدر ائمہ و شیوخ الحدیث کے پاس بیٹھنے
اور علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا جو کسی دوسرے کو میسر نہ ہو سکا۔ متقدم الذکر ائمہ
و شیوخ نے آپ کو فتویٰ دینے اور تدریس کرنے کا اجازت نامہ عنایت کیا۔ آپ نے دونوں اصول،
یعنی کتاب و سنت اور دیگر علوم ”عز بن جماعہ“ سے، لغت ”مجد فیروز آبادی“ سے، عربی زبان
”عماری“ سے، ادب و عروض ”بدر مشتکی“ سے اور کتابت ایک جماعت سے حاصل کی، اور فنون و
علوم میں اس قدر محنت اور سعی کی کہ ان کی چوٹیوں کو چھونے لگے، نیز آپ نے قرأت سبعہ
میں قرآن مجید کا کچھ حصہ ”تنوخی“ سے پڑھا۔
تعلیمی سفر:
پھر علم حدیث کی نشر و اشاعت کی طرف متوجہ ہوئے اور مطالعہ، قرأت، تدریس
و تصنیف اور افتا کی صورت میں اس پر جمے رہے، اور متعدد جگہوں میں تفسیر، حدیث اور
فقہ کی تدریس کی، وعظ و نصیحت میں مشغول رہے اور ازہر ”جامع مسجد عمرو“ اور دیگر مقامات
پر خطبہ دیتے رہے، نیز اپنے سینے میں محفوظ خزینے کی املا کروانے کا سلسلہ جاری کیا،
چنانچہ بڑے بڑے فضلاء اور نامور علماء آپ سے فیض یاب ہوئے اور آپ کے علمی چشمے سے سیراب
ہونے کے لیے آپ کے پاس آتے رہے۔
تصانیف:۔
علم حدیث کے فنون میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں آپ نے ضخیم
کتب تصنیف نہ کی ہوں۔ اور آپ کی یہ تصانیف آپ کی حیات ہی میں طباعت کے زیور سے
آراستہ ہو گئی تھیں۔ بادشاہ اور اُمراء ایک دوسرے کو ان کتب کے تحائف دیا کرتے
تھے۔ اگر ”فتح الباری“ شرح صحیح بخاری کے علاوہ
آپ کی کوئی اور تالیف نہ بھی ہوتی تو یہی فتح الباری آپ کی شہرت اور آپ کے عظیم
المرتبت ہونے پر واقفیت حاصل کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں
کہ آپ کی یہ کتاب، سنت نبوی کے لیے قاموس کا مقام رکھتی ہے۔ 813 ہجری میں اس کا
مقدمہ مکمل کرنے کے بعد آپ نے سے 817 ہجری میں اس کی تالیف کا آغاز کر کے شروع رجب
842 ہجری میں اس کی تکمیل کی۔ اور اس کی تکمیل پر آپ نے ایک دعوت عام کا اہتمام
کیا، جس میں تمام عام و خاص مسلمان شریک ہوئے۔ اس دعوت پر آپ نے پانچ سو دینار خرچ
کیے اور ایک بادشاہ نے آپ سے یہ کتاب طلب کر کے تین سو دینار میں خرید لی۔ ان کی
کتابوں کی تعداد 150 سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ لیکن وہ اپنی کئی تصانیف سے مطمئن
نہیں تھے اور ان پر نظرثانکی خواہش رکھتے تھے، مگر حالات نے انہیں ایسا کرنے کا
موقع نہ دیا۔ ابن حجر کے معروف شاگرد،سخاوی نے ان کے اپنے الفاظ میں ان کی اس عدم
اطمینان کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق، ابن حجر نے اپنی کئی تصانیفاپنی زندگی کے
ابتدائی ایام میں تحریر کیں، اور انہیں افسوس تھا کہ انہیں ان تصانیف کو نظرثانی
یا بہتر بنانے کا موقع نہ ملا۔ تاہم، انہوں نے بعض اہم تصانیف کے بارے میں خاص
استثنٰی ذکر کیا، اور فرمایا۔
"صرف میری 'فتح الباری' (شرح صحیح بخاری)، اس کا مقدمہ، 'المشتبہ'،
'تهذیب تهذیب'، اور 'لسان المیزان' وہ تصانیف ہیں جنہیں میں کسی حد تک مکمل اور
پالش شدہ سمجھتا ہوں۔
مشہور کتابیں درج ذیل ہیں۔
·
الاصابہ فی تمييز الصحابہ : اصحاب رسول
کے متعلق ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو اب اُردو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
·
فتح الباری شرح صحیح البخاری : علامہ ابن
حجر عسقلانی یہ عظیم تصنیف ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، یہ تصنیف رجب 842ھ مطابق دسمبر 1428ء میں مکمل ہوئی۔ فتح الباری کے مکمل ہونے پر
قاہرہ کے نزدیک ایک مقام پر ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جِس کے متعلق مورخ ابن عیاص
(متوفی930ھ) کا کہنا ہے کہ مصر کی تاریخ میں یہ عظیم تر تقریب تھی۔ یہ کتاب عقائد،
فقہ اور حدیث کا شاہکار ہے۔
·
تہذيب التہذيب : یہ کتاب عربی میں دائرۃ المعارف حیدرآباد
دَکن ہندوستان سے 1335ھ میں شائع ہوئی تھی۔ اکمال فی اسماء الرِجال کے نام سے
مشہور ہے۔ جس میں احادیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کے حالات مذکور ہیں
جس سے کسی حدیث پیش کرنے والے کے حال کا پتہ چلتا ہے کہ آیا وہ ضعیف راوی ہے یا
معروف الحال۔ یہ احادیث نبوی کا انسائیکلوپیڈیا ہے جِسے يوسف بن عبد الرحمن المزی
(متوفی742ھ) نے علامہ ابن حجر عسقلانی سے روایت کیا ہے۔
·
الدُر الکامنہ : یہ تصنیف آٹھویں صدی ہجری کی نامور شخصیات کی سوانحی لغت ہے۔
·
التقريب التہذيب : یہ تصنیف تہذیب التہذیب کا خلاصہ ہے۔
·
المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ
·
مقدمہ فتح الباری
·
بلوغ المرام من ادلۃ الاحكام : بلوغ المرام اصل میں 1358 احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
مجموعہ ہے، یہ احادیث صحاح ستہ اور مُسند احمد بن حنبل سے روایت کی گئی ہیں۔ 1996ء میں دار السلام پبلیکیشنز نے اِس کتاب
کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا۔ حسین بن محمد المغربی نے اِس کی شرح اَلبدر التمام
کے نام سے لکھی اور محمد ابن اسمٰعیل الامیر السنائی نے سُبل السلام کے نام سے شرح
لکھی۔
ازدواجی زندگی:
799ہجری یعنی 1397ء میں آپ نے 26 سال کی عمر میں انس خاتون سے نکاح کر لیا۔ انس خاتون
بھی حدیث کی عالمہ تھیں اور انھیں علامہ حافظ العراقی عبد الرحیم بن حسين بن عبد
الرحمن العراقی المصری سے حدیث روایت کرنے کی اجازت تھی۔ انس خاتون عوامی طور پر
بھی حدیث کا درس دیا کرتی تھیں جن میں کئی علما شریک ہوا کرتے تھے، امام شمس الدين
محمد بن عبد الرحمن السخاوي (متوفی 902ہجری)بھی انس خاتون سے
حدیث کا درس لینے والوں میں سے ایک تھے۔
اہم مناصب:
پہلے پہل آپ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) مصری علاقوں کے قاضی بنے، پھر
چند سال کے بعد مستقل طور پر شامی علاقے بھی آپ کی قضا میں شامل کر دیے گئے، جو اکیس
سال سے زائد عرصے تک آپ کے زیر قضا رہے، شروع میں آپ قاضی بننے سے پرہیز کرتے رہے حتی
کہ بادشاہِ وقت نے آپ کو ایک خاص مقدمے میں قاضی مقرر کیا، پھر آپ بلقینی کے اصرار
پر ان کے نائب بنے، بلقینی کی جانشینی کی وجہ سے انہیں کئی اور لوگوں کا نائب بننا
پڑا، یہاں تک کہ آپ قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے، آپ کی یہ تقرری بروز ہفتہ
12 محرم 827 ہجری میں ہوئی، پھر سات مرتبہ آپ کی قاضی القضاۃ کے عہدے پر تقرری ہوئی
اور سات دفعہ ہی اس سے الگ ہوئے، پھر جمادیٰ الثانیہ 852 ہجری کو آخری مرتبہ اس عہدے
سے دستبردار ہوئے اور اسی سال آپ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
منفرد شخصیت:
اس کے علاوہ آپ تواضع، بردباری، صبر و تحمل، خوش طبعی، وسعت ظرافت،
قیام و صیام، احتیاط و ورع، جود و سخا، حوصلہ و برداشت، دقیق و لطیف کلام اور عمدہ
و نفیس نوادر کی طرف میلان میں مشہور و معروف تھے، جس طرح کہ آپ ائمہ متقدمین و متأخرین،
اور اپنے پاس بیٹھنے والے ہر چھوٹے بڑے کا ادب و احترام کرنے میں منفرد اور بے مثال
تھے۔
وصال مبارک:
آپ علیہ الرحمہ نے 79 سال 3 ماہ 26 یوم کی عمر میں اتوار 8 ذوالحجہ 852ھ بمطابق 2 فروری 1449ء کو بعد نماز عشاء انتقال
کیا۔ اُس وقت مصر پر سلاطین برجی مملوک کی حکومت
تھی۔ نمازِ جنازہ قاہرہ میں ادا کی گئی جِس میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے۔ نمازِ جنازہ میں برجی مملوک سلطانِ مصر الظاہر سیف الدین جقمق بھی موجود تھے۔ علامہ سخاوی کا
بیان ہے کہ میں نے اتنا بڑا جنازه کسی کا نہیں دیکها، نماز جنازه علامہ بلقینی علیہ
الرحمہ نے پڑهائی۔
No comments:
Post a Comment