Mazhab Vs Science (Urdu)


انسان مذہب اور سائنس

ایک غیر مختلف فیہ مسئلہ:-تاریخ انسانی میں جس طرح موت کا مسئلہ ہمیشہ یقینی اور حتمی رہا ہے، اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ غیر متنازع رہی ہے کہ اس کائنات کا خالق کوئی نہ کوئی ہے، اور آنکھ بند کرکے یہ بھی سب کہتے ہیں کہ وہ ازل سے ہے اور ابد تک ہے-ہمیشہ سے ہمیشہ تک اس کا وجود قائم رہے گا۔یہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک کون سا زمانہ ہے؟ اس کا آغاز کہاں سے ہے اور انجام کہاں پر ہوگا؟ اس سوال کے جواب سے عقل انسانی عاجز ہے، آج تک نہ تو کسی سے اس کا جواب بن پڑا ہے اور نہ جواب بن سکتا ہے، تخلیق کائنات میں تفکر کا یہ ابتدائی مرحلہ ہے جہاں عقل اپنی درماندگی کا اعلان کردیتی ہے اور یہی درماندگی مافوق الفطرت قوت کا بر ملااعتراف ہے-
خالق کائنات کے وجود پر یقین کے بعد عقل انسانی کا اس میں اختلاف ہو گیا، کہ وہ خالق ہے کون؟ اور پھر وہ ایک ہے دوہے یا چند؟ ان مباحث سے قطع نظر ہم تھوڑی دیر اس متفق علیہ مسئلہ پر غور کرلیں کہ خدا موجود ہے اور خدا کا وجود یقینی اور حتمی ہے تو اس کے وجود کے ساتھ ہمارے فرائض کیا ہیں اور خالق کو مانتے ہوئے ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
خدا کے وجود کو ماننے کو بعد جو سب سے پہلا احساس ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے وہ اپنے مخلوق ہونے کا احساس ہے۔ یہ احساس سب سے پہلے ہمارے کبر ونخوت کے بت کو توڑتا ہے، اکڑنے کے بجائے جھکنے کا درس دیتا ہے۔ یہ احساس ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اس جہاں میں خود سے نہیں آئے کسی نے بھیجا، کسی نے چاہا تب ہم آئے۔ جب ہم عقل کے سہارے یہاں تک پہنچتے ہیں تو ہماری روح ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنے خالق کو مانیں، پھر جانیں اور پھر پہچانیں۔ اگر انسان فکر کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے تو فوراً اس کا وجدان بول اٹھے گا کہ اس کی زندگی، طرز زندگی اور شعور زندگی کے حوالے سے اس کے خالق کی مرضی کیا ہے اسے جانے، اس کے بعد اس کی زندگی کا صحیح ڈھنگ وہ ہوگا جو اس کے خالق کی مرضی ہوگی، انسان تخلیقی طور پر ہر قدم پر دو اختیار رکھتا ہے کہ قدم کو آگے بڑھائے یا پیچھے ہٹائے، اس کی عقل بڑی حد تک اس کی رہنمائی کرتی ہے کہ کب آ گے بڑھانے میں اس کے لئے خیر ہے اور کب پیچھے ہٹانے میں، لیکن باوجود اس کے اسے بارہا دھوکہ ہو جاتا ہے، اس لئے اگر اسے اپنے خالق کی مرضی کا علم ہوجائے تو اس کے علم میں بہت بڑا اضافہ ہوگا اور وہ خطرات کی زد سے یکسر محفوظ ہوجائے گا -
انسانی فطرت کی طلب:-انسان کی فطرت کسی انسان کی عظمت قبول کرنے سے ابا کرتی ہے- ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے بڑا انسان بنے- اسی فطرت نے انسانوں میں مسابقت کا جذبہ پیدا کیا اور اسی جذبہ نے دنیا میں تہذیب وتمدن کے رنگ برنگے پھول کھلائے۔ اس کے ساتھ انسان میں ایک دوسرا جذبہ بھی ہے اور یہ جذبہ ہے کسی بڑی طاقت کے سامنے جھکنے اور اس کی عظمت کے اعتراف کرنے کا- بچہ جب سے پیدا ہوتا ہے وہ بڑوں کی تقلید کرتا ہے، یہ تقلید اسی جذبے کا ایک حصہ ہے۔ پھر جب انسان شعور کی اس منزل تک پہنچتا ہے جب اسے اپنے انسان ہونے کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ دوسرے انسان بھی اسی کی طرح انسان ہیں تو پھر اس کے اندر مافوق البشری طاقت کی تلاش شروع ہوجاتی ہے-
انسانی فطرت کی یہ طلب بعینہ خدا کی طلب ہے۔ اسی طلب نے جذبات سے مغلوب انسان کو مظاہرفطرت، سورج، چاند، دریا، آگ، زمین، شجر اور پہاڑ کی پرستش پر مجبور کیااور اسی مزاج نے خدا کو اپنے سامنے نہ پاکر خدا کا انکار اور اپنی خدائی کے دعوے پر ابھارا، گویا جس طرح اوہام پرستی خدا طلبی اور خدا شناسی میں ناکامی کا نتیجہ ہے اسی طرح الحاد وبے دینی اور فرعونیت بھی اسی ناکامی کا نتیجہ ہے۔
بات یہ ہے کہ ہر انسان خدا طلبی اپنی فطرت میں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں جب وہ غور وفکر کرنا شروع کرتا ہے تو کبھی تلاش بسیار کے بعد بھی اپنے سامنے خدا کونہ پاکر خدا کے وجود کا ہی منکر ہو جاتا ہے اور کبھی اپنے گرد وپیش ایک حیرت انگیز کائنات دیکھ کر جس کے ہر حصے سے اسے فائدہ اور نفع حاصل ہوتا ہے، وہ کائنات کو ہی خدا کا درجہ دے دیتا ہے، پھر کائنات کی ہر شئی کی پرستش شروع کردیتا ہے۔حتیٰ کہ آگ کی بھی جس سے اسے گرمی ملتی ہے۔
انسان اپنی ذات کا مطالعہ کرے یا کائنات کا ، بہر کیف!حیرانی اس کا مقدر ہوگی، اس کا مطالعہ جتنا گہرا ہوتا جائے گا اس کی حیرانی اسی قدر بڑھتی جائے گی،وہ جتنا جانتا جائے گا اتنا ہی اسے یہ معلوم ہوگا کہ وہ کم جانتا ہے۔ پوری کائنات بے مثال کاریگری کا بے مثال نمونہ ہے، جس میں سب سے زیادہ حیران کن اور عظیم مخلوق انسان ہے۔ جب بھی انسان اس کائنات کا مطالعہ کرتا ہے وہ الجھ کر رہ جاتا ہے، یہ الجھائو بالعموم اسے دو میں سے ایک راستے پر ڈال دیتی ہے۔الجھنے اور حیران ہونے کے بعد یا تو وہ یہ کہہ دیتا ہے جو ہے وہ خود سے ہے ، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے یا پھر یہ کہتا ہے کہ جو چیز انسان کی عقل سے پرے ہو وہ انسان کی خالق ہی ہوگی۔اس کائنات‘ کارخانہ عجائب نے ہی انسان کو جنم دیا ہے، وہی اسے نفع پہنچاتا ہے ، اس کی نگرانی کرتا ہے، اس کی رضا جوئی واجب ہے۔ نتیجۃً کائنات کی سب سے بڑی مخلوق خود سے کم تر مخلوقات کی پرستش شروع کردیتی ہے۔
اس مہذب و متمدن دنیا کی سب سے کمتر اور حقیر تخلیق سوئی ہے ، لیکن دنیا کا کوئی انسان ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے کے تیار نہیں ہوسکتا کہ یہ سوئی خود سے آئی ہے، اس کا کوئی بنانے والا نہیں، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اس حیران کن وسیع وعریض ، حیرت اور سر تا پا حیرت خوبیوں ، اور ناقابل فہم حد تک حسین وجمیل ،منظم ومرتب کائنات کے بارے میں انسان عجلت اور جھنجھلاہٹ میں یہ فیصلہ کر لیتاہے کہ یہ آپ سے آپ بن کر تیا ر ہوگئی ، اس کوئی خالق نہیں۔جب یہ منطق درست ہے کہ ہر صنعت وخلقت کسی صانع وخالق سے وجود میں آتی ہے تو یہی منطق کائنات کے بارے میں کیوں نہیں دہرائی جاتی ؟
دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جن کی منطق کائنات کے بارے میں بھی وہی رہتی ہے جو انسان کی مصنوعی دنیا کے بارے میں تمام انسانوں کی منطق ہے۔ کائنات ایک حیرت انگیز شئی ہے، نظر وہ نظر ہے جو اس کائنات سے پار ہو ، یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ جس کائنات کو ہم استعمال کرتے ہیں، جس کی تسخیر کا خیال ہمارے ذہنوں میں اور جس کی تسخیر کی طاقت ہمارے دست وبازو میں ہے، ہم اسی خود سے حقیر کائنات کو اپنا خالق ومالک مان لیں، جس طرح ہم اپنے بارے میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم اپنی جیسی حیرت انگیز مخلوق اپنی طرف سے تخلیق کردیں تو پھر ہم اپنے سے کمتر اور حقیر کائنات کو اپناخالق مان کر اس کے حضور اپنی اونچی پیشانی کو کیوں جھکائیں؟؟
اسی طرح یہ بات بھی کس قدر احمقانہ ہے کہ ہم کسی حقیر سے حقیر شئی کے لئے خالق تو مانیں لیکن اس عظیم کائنات کے لئے کوئی خالق نہ مانیں ،(Principle of causation) سببیت کا قانون جدید علم سائنس کا مسلمہ قانون ہے، انسان ہر جگہ اسے لاگو کرتا ہے مگر جب کائنات کی تخلیق پر پہنچتاہے تو وہاں اس اصول کو معطل اور بے کار سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہ بات نہ صرف علمی نقطہ نظر سے غلط ہے بلکہ اپنی فطرت کے خلاف جنگ بھی ہے اور فطرت کے خلاف جنگ میں انسان جو خود فطرت کا ایک حصہ ہے ، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
سائنس یا افسانہ:-سائنس بیسویں صدی کا وہ واحد لفظ ہے جو انسانی ذہنوں پر سب سے زیادہ حکم راں رہا ہے ، اس کا تسلسل اب بھی قائم ہے، یہ اور بات ہے کہ نئی صدی میں اس کا خوف کم ہوا ہے اور بیسویں صدی میں جو اس پر ایمان بالغیب کا سایقین قائم تھا وہ اب رفتہ رفتہ متزلزل ہونے لگا ہے۔ اور یہ انقلاب بھی سائنسی ارتقا کا ہی مرہون منت ہے، پچھلی صدی میں سمجھا جانے لگا تھا کہ سائنس اپنی ارتقا کی انتہا کو پہنچ چکی ہے مذہب مخالفین نے اس زعم کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے ایسا ماحول بنایا کہ مذہب کے قلعہ کو سائنس کے ترازو پر تولا جانے لگا۔ گویا سائنس مطالعہ‘ کائنات کا علم نہیں رہا خالق کائنات کا نام بن گیا، لیکن پھر جلد ہی جب اہل علم نے آفاق کی نامعلوم وسعتوں میں قدم رکھا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس حوالے سے (as Fiction Science )کے عنوان سے روز نامہ ٹائمز آف انڈیا ۲۲/ستمبر۲۰۰۶ء کی اشاعت میں ایک فکر انگیز مضمون شائع کیاجس کے اہم اقتباسات حسب ذیل ہیں:
’’
میں کمبل(Carligan)کے پا س پہنچ جاتا ہوں جب یہ فضائی رپورٹ آتی ہے کہ ٹمپریچر پانچ درجہ کم ہوگیا ہے اور اٹھ بیٹھتا ہوں جب یہ سنتا ہوں کہ پارہ چڑھ رہا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ سائنس اور اس کی پیشیں گوئیوں میں نامکمل یقین رکھتے ہیں۔ فضائی رپورٹ سے بھی زیادہ حساس وہ خبریں ہیں جو ہمیں طرز زندگی، معالجہ ، ماحولیات، عوامی پالیسی کے فیصلے حتی کہ ذاتی تعلقات کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ سائنس دانوں کے غیر ثابت شدہ وغیر موکد دعوے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں جب وہ صرف افواہوں کی بنیاد پر حکومتی پالیسی کی تشکیل کریں یا شخصی وسماجی یقین کومتاثر کریں۔‘‘
’’
بطور خاص حیاتیاتی سائنس میں نئی عملی تحقیق کے بروے کار لانے میں اخلاقی پہلو سے بہت سے شبہات ہیں۔ آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ہندوستان،برطانیہ، جاپان اور چین موجودہ دورمیں تحقیقات کی دنیا میں نمبر ون امریکہ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کے لئے سائنسی ریسرچ کا آغاز کررہے ہیں۔ادھر نئے نئے خیالات بہت تیز ی سے سامنے آرہے ہیں ، جن کے لئے گہرے تجربات کی ضروت محسوس ہورہی ہے۔‘‘
’’ The Economist
نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ سائنسی پیپرز کس حد تک قابل یقین ہیں؟ اس رپورٹ میں امریکی سائنسی افسانوی مصنف Theodore Sturgeonکا یہ بیان بھی چھپا ہے کہ ’’ہر چیز کا ۵۹فیصد حجاب (crap)ہے ‘‘
’’
امریکی شہری David Horrobinجو ایک طبی جنرل Medical Hypothesesکے بانی ہیں ،نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ سائنس کے نام پر بعض چیزیں بغیر سوچے سمجھے زبانی یاد کرلی گئی ہیں ؟‘‘
’’
سائنس دانوں کے سنسنی خیز دعوے عموماً پائے ثبوت تک نہیں پہنچ سکے ہیں ، افواہوں نے سائنس کو مذہب اور سیاست کے قلم رو میں داخل کردیا ہے۔غلط بیانی خوف و ہراس اور عدم اعتمادی پیدا کررہی ہے جب کہ حقیقی سائنس قید کر لی گئی ہے۔ ‘‘
’’
دی رائل سوسائٹی آف لندن نے میڈیا کے ساتھ سائنس دانوں کے معاملات کی بابت اپنی ہدایات میں سائنس دانوں کو اس بات سے روکا ہے کہ وہ ایسے متنازع مسائل میں اپنی آرا پیش کریں جن کا تعلق براہ راست ان کی اپنی حدود سے نہ ہو۔ ہدایات میں کہا گیا ہے ’’اپنے کام کی اہمیت کو مبالغہ سے پیش کرنے کی ہوس سے گریز کریں ‘کسی دبائو میں آکر کبھی ایسی ذمہ داری قبول نہ کریں کہ بعد میں کف افسوس ملنا پڑے۔‘‘
’’
رائل سوسائٹی کے نائب صدر Patrick Bateson نے ایک بڑے نقصان کا ذکر کیا ہے جو ان کہانیوں سے پیدا ہوا ہے جن پر اچھی طرح نظر ثانی نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سائنس کے نام پر وہ افسانوی بیانات کس طرح عوامی پالیسی پر اثر انداز ہوئے ہیں اور کس طرح رائے عامہ ان سے متاثر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ نظر ثانی اور تجزیہ سونے کی طرح کھرا ہونا چاہئے ،تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ سائنس داں اور عوام، سطحی محققین اور ان کے بلند بانگ دعووں سے گمراہ نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
’’
سائنس کو مذہب اور سیاست سے بالکل الگ ہونا چاہیے، فضائی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے نظریات، کلوننگ اور فصلوں کی تطعیم Genetic Engineering of cropsسب سیاسی بازی گری کی زد میں ہیں۔‘‘
دی ٹائمز آف انڈیا کے ان اقتباسات پر سرسری نظر ڈالنے سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔
(
۱)سائنسی بیانات پر آنکھ بند کرکے اعتماد نہیں کیا جاسکتا-
(
۲)سائنس کے کسی بھی بیان کو حرف آخر سمجھنا غلط ہے-
(
۳)سائنس اور مذہب کے موضوعات الگ الگ ہیں، دونوں کے میدان مختلف ہیں، اس لئے سائنس کو مذہب سے الگ ہی رکھنا چاہیے، سائنس کے ترازو سے مذہب کو نہیں تولا جا سکتا-
(
۴)عصر حاضر میں سائنس کا سیاسی استعمال بھی ہورہا ہے، جس کا سیدھامطلب اس کا غیر علمی استعمال ہے۔ یہ بات بہت ہی توجہ طلب ہے اور اس کے مضمرات بڑے حیران کن ہیں۔
یہاں ایک اور اہم بات ہماری گہری توجہ کی طالب ہے، وہ یہ کہ سائنس چوں کہ مطالعہ وتسخیر کائنات کا نام ہے،اور کائنات کے اسرار کھلتے جا رہے ہیں، اس لئے سائنسی بیانات میں بھی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے، لیکن چوں کہ کائنات خود ایک مخلوق ہے، اس کاکوئی خالق ہوگا، کیوں کہ یہ منطقی اور حتمی بات ہے کہ خلقت خالق کے بغیر اور صنعت صانع کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ انسان جو اس کائنات کاباشعور ترین مخلوق ہے اور استثنائی طور پراسے ہی اس کائنات کے بتدریج مطالعے اور اس کی تسخیر کی قوت ملی ہے، اسے چاہئے کہ اپنے سفر زندگی میں تھوڑی دیر کے لئے پڑائو کرے اور خالق کائنات کا تخلیقی پروگرام Creation Planکیا ہے جاننے کی کوشش کرے تاکہ اس کا عمل بے سمتی یا غلط جہتی کا شکار نہ ہوجائے۔
سائنس کا موضوع:-۱۴/مئی ۲۰۰۷ء کو ہمدرد پبلک اسکول تعلیم آباد ، سنگم وہار، نئی دہلی میں سدبھائونا مشن اور ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کے اشتراک سے مدارس کے اساتذہ کے لئے میتھ میٹکس ورکشاپ منعقد ہوا، جس میں راقم بھی شریک تھا ، ایک دن دہلی یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کا ’’تخلیق کائنات‘‘ کے موضوع پر لیکچر تھا، انہوں نے کائنات کی مادی توجیہہ کرتے ہوئے اپنے لیکچر میں کہا کہ ’’آج سے تقریباً پچاس کھرب سال پہلے ایک زور کا دھماکہ ہوا، وہ کوئی روشنی تھی ،جو دھماکے کے بعد تین طرف منقسم ہوئی ،ان میں ایک کا نام الیکٹران ہے، دوسرے کا نام پروٹان اور تیسرے کا نیوٹران۔ پھر وہ تینوں خلا میں پھیل گئے، ان سے مختلف اجزا نکلے اور ان کے باہم اتصال واختلاف سے اس وسیع وعظیم کائنات کی تخلیق ہوئی، حال یہ ہے کہ آج اس دھرتی کی طرح اربوں کھربوں دھرتیاں اور اس سورج کی طرح اربوں کھربوں سورج موجودہیں، اس سے کائنات کی وسعت وعظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘
لیکچر کے اختتام پر میں نے سوال کیا:’’سر!وہ روشنی کہاں سے آئی؟اور پھر اس میں دھماکہ کیوں ہوا؟پھر اس روشنی میں اتنی طاقت کہاں سے آئی کہ دھماکے کے بعد اس سے اتنی بڑی کائنات کی تخلیق ہوگئی؟‘‘انہوں نے بڑی طمانیت اور سادگی سے جواب دیا کہ ’’آپ جو سوال کر رہے ہیں یہ سائنس کے موضوع سے خارج ہے، سائنس اس سے بحث ہی نہیں کرتی کہ وہ روشنی کہاں سے آئی اور دھماکہ کیوں ہوا؟ چوں کہ اس کا تعلق مادیت سے اوپر ہے، اور سائنس صرف مادی دنیا سے بحث کرتی ہے، سائنس کا تعلق طبعیات سے ہے نہ کہ مافوق الطبعیات سے۔‘‘
موصوف کا جواب میرے سوال کا مکمل جواب تھا ، اس جواب کے ہوتے ہوئے کوئی بھی شخص مذہب کو سائنس سے ٹکرانے کی غلطی نہیں کر سکتا ، کیوں کہ مذہب اور سائنس کے بیچ ٹکرائو کی بات ایسی ہی ہے جیسے کوئی سائیکل اور جہاز کے ٹکرانے کا واقعہ بیان کرے۔
مذہب اور سائنس کا موضوع جداگانہ ہے، سائنس اس کائنات رنگ وبو سے بحث کرتی ہے اور مذہب اس کے خالق سے بحث کرتا ہے، سائنس کا مقصد یہ ہے کہ وہ کائنات کے اسرار کی تلاش کرے اور مظاہر فطرت کو انسانیت کے حق میں بہتر اور مفید بنا سکے تاکہ انسان اس سے نفع اندوز کرسکے۔ جب کہ مذہب کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح یہ وسیع وعریض کائنات کسی باہمی ٹکرائو اور فساد کے بغیر ایک متعین سسٹم اور نظام سے چل رہی ہے، کائنات کی استثنائی طور پرواحد باشعور اور دانا مخلوق صحیح اور پر امن طریقے سے زندگی گزارے اور اپنے خالق ومالک کا شکر گزاربنے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذہب سائنس کے قلم رومیں داخل ہوجاتا ہے اور سائنس مذہب کی حدود میں قدم بڑھا دیتی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مذہب کا مقصد سائنس کی مملکت میں داخل اندازی نہیں ہوتی ،یعنی کبھی ایسا نہیں سنا گیا کہ کسی بھی مذہب نے کسی سائنسی ایجاد یا اختراع کا ،جو انسانیت کے حق میں مفید ہو، مخالفت کی ہو، مذہب کے کائنات سے جزوی بحث کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ بھولا ہوا انسان کائنات میں غور کرکے اپنی فکر کو اس کے خالق کے یک گونہ ادراک کے لائق بنا سکے، اس کے برعکس بعض سائنس دانوں نے مذہب کے قلم رو میں قدم ڈالا، سائنس کی مادی توجیہہ کی ، انہیں کائنات میں توسیع اور ارتقاء کے کچھ نشانات ملے، جن کو بنیاد بناکر انہوں نے اس کائنات کے خالق کا ہی انکار کردیا۔ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی ، کیوں کہ توسیع اور ارتقاء کو بنیاد بناکر انہوں نے کائنات کی مادی توجیہہ تو کردی لیکن وہ توسیع اور ارتقاء کیوں عمل میں آئی؟وہ دھماکہ کیوں ہوا؟اس دھماکے سے پہلے کیا تھا؟ان تمام سوالات کو یکسر نظر انداز کردیا۔ ان کا یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص دیوار چین یا اہرام مصر کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اس کی تعمیر کی تاریخ اور تعمیر کے اجزاء کا پتہ لگا کر یہ تو کہے کہ اس دیوار /اہرام کی تعمیر کب اور کن چیزوں سے عمل میں آئی لیکن اس کے معمار کے وجود کا انکار کرتے ہوئے اس کی علت ایک اتفاقی دھماکہ کو قرار دے کر آگے بڑھ جائے۔
جن سائنس دانوں نے مذکورہ غلطی کی وہ ایک ازلی وابدی خدا کے وجود کا انکار کر بیٹھے اور مادے کو ہی ازلی وابدی مان لیا، اسے ہی ایک دھماکے کے اتفاقی مفروضے کے ساتھ کائنات اور خالق کائنات قراردے دیا، جب کہ بعضوں کو اس غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی فکروتحقیق کو مادیت تک محدود رکھا اور اس سے اوپر کا معاملہ خالق مادہ کے حوالے کردیا، مثلاً امریکی عالم طبیعیات جارج ارل ڈیوس Eral Davis اپنی کتاب The Evidence of God.P.7میں دو ٹوک لفظوں میں کہتا ہے:
’’
اگر کائنات خود اپنے آپ کو پیدا کر سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اندر خالق کے اوصاف رکھتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ کائنات خود خدا ہے، اس طرح اگر چہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کر لیں گے،لیکن وہ نرالا خدا ہوگا جو بیک وقت مافوق الفطرت بھی ہوگا اور مادی بھی ،میں اس طرح کے مہمل تصور کو اپنانے کے بجائے ایک ایسے خدا پر عقیدے کو ترجیح دیتا ہوں جس نے عالم مادی کی تخلیق کی ہے اور اس عالم کا وہ خود کوئی جزو نہیں بلکہ اس کا فرماں روا اور ناظم ومدبر ہے۔‘‘(مذہب اور جدید چیلنج، ص:۴۸،مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی، ۲۰۰۴ء )
ان مسائل کو لیکر آج کا انسان الجھا ہوا ہے، سائنسی انسان بھی اور مذہبی انسان بھی، اس الجھن کا بس ایک ہی حل ہے کہ ہر شخص سائنس اور مذہب کے فرق کو سمجھے، ان کے مختلف النوع دائرہ? کار کو جانے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ وہ سائنس کے ذریعے انسانیت کی مادی خدمت کے لائق بن جائے گا اور مذہب کے ذریعے اس کی روحانی خدمت کے لائق۔ انسان کا وجود روح اور مادے سے مرکب ہے۔ اس لئے اس کی صحت وارتقا کے لئے بیک وقت مذہب کی بھی ضروت ہے اور سائنس کی بھی۔
کیا مادہ خدا ہے؟:-موجودہ دور جسے بعض افراد مادی دور سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اس میں جینے والے صرف ۱۵فیصد منکرین خدا ومخالفین مذہب اس بات کے قائل ہیں کہ اس دنیا کا خالق مادہ ہے۔ کیوں کہ کائنات رنگ وبو میں ایک چیز ایسی ہے جو فنا نہیں ہوتی اور وہ ہے مادہ، یہی کائنات کی اصل اور تخلیق کائنات کا سبب ہے، چوں کہ خدا کا تصور انسان پر ایسا مسلط ہے کہ کسی فرد بشر کو اس کے وجود سے انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ بظاہر خدا کا انکار بھی کرتے ہیں وہ مادے کو خالق کائنات کہہ کر اسے اپنے خدا کا درجہ دے دیتے ہیں۔ گویا وہ بھی خدا کے وجود سے بالکلیہ منکر نہیں ہوسکتے، ان کا خدا مادہ ہے جس کا بت انہوں نے اپنے تخیلات میں تراش رکھا ہے۔ لیکن سوال ہے کہ کیا علمی اعتبار سے مادے کو خالق بتانا اور خدا کا درجہ دینا درست ہے؟ جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سراسر غیر علمی اور بے بنیاد معلوم ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجہیں ہیں:
(
۱)یہ پوری کائنات مادی ہے، سارا جہاں مادے سے مرکب ہے۔ ایسے میں مادے کو اس کائنات کا خالق کہنا، گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ مادہ ہی خالق ہے اور مادہ ہی مخلوق اور یہ بالکل عقلاً محال اور ناممکن ہے کہ ایک ہی شئی خالق بھی ہو اور وہی مخلوق بھی، یہ تو اس بات کو لازم ہے کہ کوئی شئی اپنے آپ کو تخلیق کرے اورکسی شئی کا خود اپنے آپ کو تخلیق کرنا محال ہے اور ایسا قول کرنا سراسر جنون۔
(
۲)مادے کو کائنات کا خالق بتانا در اصل خالق کے وجود کا ہی انکار ہے۔ جو شخص مادے کو خالق کائنات کہے وہ سرے سے خالق کا ہی منکر ہوگا۔ کیوں کہ یہ کہنا کہ مادے کو مادے نے پیدا کیا ، یہ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ مادے کو کسی چیز نے پیدا نہیں کیا، وہ خود سے موجود ہے۔ اور کوئی چیز جو ہر آن تغیر پذیر بھی ہو ، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ اپنے آپ موجود ہے، کم ازکم ’’انسان‘‘(جسے منطقیت کی دولت ملی ہے)سے بعید ہے۔ بارات گھر کے قمقمے خود سے روشن نہیں ہیں ، تاریک راتوں میں درختوں پر چھوٹی چھوٹی جگمگ روشنیوں کا ڈوبنااورابھرنا خودبخود نہیں ہے تو تاروں کی یہ حسین انجمن آپ سے آپ کیوں ہے؟؟ اگر پچھلی دو مثالوں کو خود بخود ظہور پذیر ماننا حماقت ہے تو تاروں کی انجمن کے خود بخود قائم ہونے کی بات عقل مندی کہاں سے ہوگئی؟؟
(
۳)اس مادی دنیا کا نظام علیت وسببیت کے قانون (Princple of Causation)پر قائم ہے۔ اہل علم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ہر حادثے کے پیچھے ، ہر تغیر کے پیچھے ، ہر ظہور کے پس پردہ کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے، لیکن مادیت پرست نہ جانے کیوں اس اصول کا اطلاق مادے کی تخلیق اور اس کے ظہور پذیر ہونے پر نہیں کرتے؟ یہاں پر وہ یک طرفہ تعصب اور ہٹ دھرمی پر آجاتے ہیں اور ایک مسلمہ اصول کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ، یہاں ان کا تعصب کھل جاتا ہے اور مذہب سے بے بنیاد مخالفت واضح ہوجاتی ہے۔
(
۴)یہ کہنا کہ مادہ ہمیشہ سے ہے ایک بے بنیاد اور غیر ثابت شدہ ادعا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی بھی ٹھوس عقلی ومنطقی دلیل موجود نہیں ہے۔ موجودہ دنیا میں مادہ فنا ہونے کے بجائے اپنی شکل ضرور بدلتا رہتا ہے، لیکن اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ ہمیشہ سے یہ اپنی شکل بدلتا آرہا ہے اور ہمیشہ یونہی بدلتا رہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص پہلی بار جب تیز رفتا ر ٹرین کو ریل کی پٹریوں پر تیزی سے دوڑتی ہوئی دیکھے تو یہ کہنے لگے کہ چوں کہ یہ تا حد نگاہ رکی نہیں بلکہ ہر لمحہ آگے بڑھتی رہی، اس لئے یہ ہمیشہ سے اسی طرح دوڑتی اور آگے کی طرف بھاگتی آرہی ہے اورا سی طرح دوڑتی بھاگتی رہے گی۔
(
۵)کائنات کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ ہمیشہ سے نہیں ہے، اس کی ابتدائ￿ ہے اور ہمیشہ نہیں رہے گی ، بلکہ اس کی انتہا ہونے والی ہے۔ یہ بات سائنسی طور پر مسلمہ حقیقت تسلیم کرلی گئی ہے۔ تو جب اس مادے سے بنی دنیا کی ابتدا یقینی ہے۔ اس کی انتہا یقینی ہے، تو خود مادہ ازلی اور ابدی ہو ،ہمیشہ تا ہمیشہ اس کا وجود ہو، یہ ایک عجیب الٹی منطق ہے۔ واضح رہے کہ جب مادہ ہوگا تو کوئی مادی شئی بھی ہوگی، مادہ مادیت سے الگ پائی جانے والی کوئی چیز نہیں۔ اس لئے اس مادی دنیا کی ابتدا و انتہا کا علمی بنیادوں پر ثبوت براہ راست مادے کی ابتدا وانتہا کا ثبوت ہے اور اس سے اس کی ابدیت وازلیت کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے اور وہ اس لائق نہیں رہتا کہ اسے کوئی خدا تراش کر اپنے ذہن وفکر میں سجالے۔
ایک سوال:-پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:
’’
لوگ بحث وتکرار کرتے ہوئے اس حد تک پہنچ جائیں گے کہ کوئی کہے گا کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کیا ، لیکن اللہ کو کس نے پیداکیا ؟ جب کسی کے سامنے اس طرح کی بات آئے تو فوراً کہے ’’میں اللہ پر ایمان لایا۔‘‘(صحیح مسلم :کتاب الایمان ،باب الوسوسۃ فی الئیمان وما یقولہ من وجدہا)
ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
’’
شیطان تمہارے پاس آکر کہے گا:فلاں چیز کس نے بنائی ، فلاں چیز کی تخلیق کس نے کی ؟ پھر وہ یہ کہے گا:تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟تمہارا جب بھی اس صورت حال سے سامنا ہو تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس شیطنت سے الگ ہو جائو۔‘‘(صحیح مسلم : باب مذکور،صحیح بخاری:کتاب بدء الخلق ،باب صفۃ ابلیس وجنودہ)
مادی افکار کے مطالعے کے دورا ن جب پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ ارشاد یاد آتا ہے تو دل و جان ذات رسالت پر نثار ہونے کو بے تاب ہوجاتے ہیں اور فراست نبوی پر بے تابانہ ہزار آفریں کہنے کو جی چاہتا ہے۔ حیرت ہے کہ جس شیطنت اور جس منحوس سوال سے اعراض کا درس پیغمبر اسلام ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیا یہی سوال عصر جدید کے ملحدین کا سب سے بڑا سوال ہے، جان اسٹوراٹ مل نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’’میرے باپ نے مجھے یہ سبق دیا کہ کس نے مجھے پیدا کیا ‘خدا کے اثبات کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد فوراً دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا (مذہب اور جدید چیلنج،ص۴۵،نئی دہلی ۲۰۰۴ئ)
شارح حدیث علامہ یحیٰ بن شرف نووی درج بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’
علامہ مازری نے کہا کہ ظاہر حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے ان وساوس کو دفع کرنے کے لئے ان سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ اس وسوسہ کو بغیر کسی دلیل کے رد کردیا جا ئے۔ علامہ مازری نے کہا بعض وسوسے ذہن میں استقرار نہیں پاتے ، ان کو دفع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے اعراض کر لیا جائے اور یہ حدیث اسی صورت پر محمول ہے اور جو امور اس طرح طاری ہوں اور کسی دلیل پر مبنی نہ ہوں ان کو اسی طرح مسترد کردینا چاہیے اور جو خواطر کسی دلیل اور شبہہ پر مبنی ہوں اور ذہن میں مستقر ہوجائیں ان کو بغیر دلیل کے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ان کو استدلال اور غور وفکر سے باطل کرنا چاہئے۔‘‘(صحیح مسلم بشرح النووی ،۱/۲/۱۳۱، دار الکتب العلمیہ، بیروت ، ۲۰۰۳ئ)
اب یہ سوال جو اگر چہ فی الواقع کسی حیثیت کا حامل نہیں ، لیکن جدید ملحدین کے نزدیک یہی سب سے بڑا استدلال اور شبہہ ہے، اس لیے اس کا علمی جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اس کے جواب میں درج ذیل باتیں کہی جاسکتی ہیں:
(
۱)یہ سوال کہ فلاں فلاں چیز کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ اس اصول پر مبنی ہے کہ ہر چیز کا کوئی خالق ہوناچاہیے۔ اور یہ بات عقلاً باطل اور محال ہے۔ اس لیے اگر ایساہو تب تو خالق کا سلسلہ کبھی ختم ہی نہ ہوگا، ہر موجود سے پہلے ایک موجود ہوگا اور یہ باطل اور محال ہے۔ اس لیے لازمی طور پر کسی موجود کو آخری موجود ماننا پڑے گا جو سب سے پہلے ہو اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ ہو، اس کا ہونا ضروری ہو اور نہ ہونا محال ہو، وہی سب کا خالق ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ اسی موجود اول کو ہم خالق اور رب العالمین سے تعبیر کرتے ہیں۔
(
۲)منکرین خدا یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی موجود کو موجود اول ماننا ضروری ہوا توکیوں نہ ہم وہ موجود اول مادہ ہی کو تسلیم کرلیں؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ مادی کائنات میں ہمارا مشاہدہ اور استدلال حتمیت تک پہنچ چکا ہے کہ ہر موجود کے پیچھے اس کاکوئی سبب اور خالق ہو، اس لیے مادے کو ہم موجود اول تسلیم نہیں کرسکتے کیوں کہ اس سے پہلے کسی سبب کا ہونا ضروری ہے جس سے وہ وجود میں آیا ہو، اور ہمارے پاس ایسی کوئی حتمی دلیل نہیں ہے جس سے مادے کا ازلی ودائمی ہونا ثابت ہو، اس لیے مادے کو موجود اول تسلیم نہیں کیا جا سکتا—رہا یہ سوال کہ خالق کائنات کو یاخدا کو آپ موجود اول کیوں فرض کر رہے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ علیت وسببیت کا قانون (Princple of Causation)مادی دنیا میں جاری ہے، خدا چوں کہ مادی ہے ہی نہیں ، اس لیے یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو قانون مادی امور میں رائج ہو وہ غیر مادی امر میں بھی رائج ہو جائے—– خلاصہ یہ کہ موجود اول ماننا مجبوری ہے اور مادے کو موجود اول قانون سببیت کی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا سکتا، اس لیے لازمی طور پر ایسی ذات کو موجود اول ماننا ہوگا جو غیر مادی ہو، وہی غیر مادی موجود اول خدا ہے۔
منکرین کے شبہہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ موجود اول مادے کو ماننا اور اسے مادی کائنات کا خالق تسلیم کرنا در اصل خالق کا انکار اور قانون سببیت سے فرار ہے۔ کیوں کہ کوئی مادی چیز خودکو تخلیق نہیں کرسکتی۔ اس لیے لازمی طور پر ہمیں غیر مادی خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا جس کی ذات میں ان شبہات کا کوئی گزراس لیے نہیں ہو سکتا کہ ہماری عقل مادی کائنات میں استدلال کی عادی ہے اسے غیر مادی ذات کا صحیح ادراک نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی (پاکستان)لکھتے ہیں :
’’
ایک چیز ہے خلاف عقل ہونا ، مثلاً ایک چیزبیک وقت سیاہ بھی ہو اور سفید بھی ہو ، جس کو اجتماع ضدین کہتے ہیں اور ایک ہے ماوراے عقل ہونا ، یعنی جو چیز عقل کی پہنچ اور گرفت سے باہر ہو، اس کا ئنات کے ہزاروں اسرار ایسے ہیں جن تک صدیوں پہلے عقل کی پہنچ نہیں تھی اور آج ان کو عقل نے پالیا ہے اور اسی طرح اب بھی لاتعداد اسرار اور حقائق ایسے ہیں جن تک عقل نہیں پہنچ سکی لیکن ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس تمہید کے بعد واضح ہوگیا کہ ایسی حقیقت جو سب سے پہلے ہو اور اس سے پہلے کوئی نہ ہو، جو سب کی خالق ہو اور اس کا خالق کوئی نہ ہو، ہو سکتا ہے کہ ماوراء عقل ہو لیکن خلاف عقل ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے اس کا انکار ہرگز نہیں کیا جاسکتا اور اقرار اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کائنات کو بنانے اور چلانے کا اس کے سوا کوئی سچا دعویدا ر نہیں ہے۔ جن فرشتوں،نبیوں، ولیوں، درختوں، حیوانوں، عناصر اور کواکب کو لوگوں نے خدا مانا اور ان کی عبادت کی ان میں سے کسی نے خدا ئی کا دعویٰ نہیں کیا اور قیامت کے دن یہ سب اس دعویٰ سے برات کا اظہار کریں گے اور جن انسانوں نے از خود خدائی کا دعویٰ کیا وہ لوگوں کے سامنے پیدا ہوئے اور لوگوں کے سامنے مرگئے اور ان کا نام ونشان مٹ گیا اور یوں ان کی خدائی باطل ہوگی۔الغرض اس کائنات کو بنانے ،چلانے اور فنا کرنے کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی سچا دعویدار نہیں ہے ، اسی لیے وہی سچا خدا ہے اور اسی کا ماننا ضروری ہے-‘‘(شرح صحیح مسلم ،۱/۱۰۶،مرکز اہل سنت برکات رضا ، گجرات ،۱۴۲۳ھ)
(
۳)مولانا وحیدالدین خان منکرین خدا کے اس شبہہ کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’
انیسویں صدی تک منکرین کی اس دلیل میں ایک ظاہر فریب حسن ضرار موجود تھا ، مگر اب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون کے انکشاف کے بعد تو یہ دلیل بالکل بے بنیاد ثابت ہوچکی ہے۔ یہ قانون جسے ضابطہ‘ ناکارگی کہا جاتا ہے ، ثابت کرتا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہوسکتی ، ضابطہ? ناکارگی بتاتا ہے کہ حرارت مسلسل باحرارت وجود سے بے حرارت وجودمیں منتقل ہوتی رہتی ہے، مگر اس چکر کو الٹا چلایانہیں جاسکتا کہ خود بخود یہ حرارت، کم حرارت کے وجود سے زیادہ حرارت کے وجود میں منتقل ہونے لگے۔ناکارگی، دستیاب توانائی اور غیر دستیاب توانائی کے درمیان تناسب کا نام ہے اور اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کی ناکارگی برابر بڑھ رہی ہے اور ایک وقت ایسا آنا مقدر ہے جب تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کار آمد توانائی باقی نہ رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کیمیائی اور طبعی عمل کا خاتمہ ہوجائے گا اور زندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ کیمیائی اور طبعی عملی جاری اور زندگی کے ہنگامے قائم ہیں ، یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجود نہیں ہے ورنہ اخراج حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی اور یہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی موجود نہ ہوتی۔ اس جدید تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیوانات لکھتا ہے:
’’
اس طرح غیر ارادی طور پر سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning)رکھتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صدا قت کو ثابت کردیا ہے۔ کیوں کہ جو چیز ایک آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی ، یقینا وہ ایک محرک اول ،ایک خالق ،ایک خدا کا محتاج ہے۔’’The Evidence of God‘,P.51 (مذہب اور جدید چیلنج ،ص ۵۵،۶۵)
انسان ،مذہب اور سائنس:-روز نامہ ٹائمز آف انڈیا کی ۳۱/جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں عصر حاضر میں مذہب کی طرف بڑھتے رجحان کے حوالے سے ایک تحقیقی سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے۔
یہ رپورٹ جرمنی کے Bertelsmann Foundationنے ۱۲/ملکوں کے ۱۲ہزار لوگوں کی آراء کی روشنی میں تیارکی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ چار میں سے تین نوجوان خدا کی عبادت کرتے ہیں ، دنیا کے ۵۸ فیصد لوگ مذہبی ہیں اور ان میں نئی نسل زیادہ مذہبی ہے۔ مغرب کے بارے میں بتایا گیاہے کہ مغربی ممالک میں سب سے زیادہ امریکہ کے لوگ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ۵۷/فیصد امریکی روزانہ عبادت کرتے ہیں ، رپورٹ میں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں مسلم نوجوانوں پر یورپ کے عیسائی نوجوانوں کے بہ نسبت مذہب کی چھا پ زیادہ گہری ہے۔ مذکورہ فاو?نڈیشن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر مارٹن ریگر(Martin Rieger) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ مفروضہ کہ مذہبی اعتقاد نسلاً بعد نسلٍ لگاتار کم سے کم ہو کر سمٹتا جارہا ہے ہمارے اس عالمی سطح کے سروے سے غلط ثابت ہوچکا ہے، یہاں تک کہ بہت سے صنعتی ممالک کا حال بھی یہی ہے۔‘‘
The assumption that religious belief is dwindling continuously from generation to generation is clearly refuted by our worldwide surveys-even in many industrialised nations.
اس رپورٹ کے خاص نتائج یہ ہیں :
(
۱)اس وقت دنیا میں ۸۵فیصد مذہبی اور صرف ۱۵فیصد دہریہ اور منکرین خدا ہیں۔
(
۲)دنیا کے ۷۵فیصد افراد روزانہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔
(
۳)نئی نسل مذہب بیزار ہونے کی بجائے مذہب کے لیے بے تا ب ہوتی جارہی ہے۔
(
۴)مسلمان دیگر مذاہب والوں سے زیادہ مذہبی اور عبادت گزارہیں -
اس رپورٹ کے پڑھنے کے بعد فوراً خیال آیا کہ دنیا کے معدودے چند دہریوں نے سائنس کو غلط طور پر پیش کرکے مذہب کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کی تھیں وہ خالق کائنات کے فضل سے اور نسل انسانی کے شعور بڑھنے کی وجہ سے اب دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں۔ نئے اور تعلیم یافتہ افراد حقیقت سے قریب آتے جارہے ہیں۔ در اصل بات یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جو چیز یں موجودہ دور میں رائج ہیں ان میں بہت سی باتیں توہمات اور خرافات کے خانوں میں آتی ہیں ، دہریوں نے ان چیز وں کو ہائی لائٹ کرکے نسل انسانی کو سرے سے مذہب—- خدا کے وجود سے ہی برگشتہ کرنا شروع کردیا تھا۔ایک زمانے تک ان کا یہ جادوچلتا رہا لیکن اب ان کا فسوں ٹوٹ رہا ہے اور دنیا کے باشعور افراد یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مذہب کے نام پر اگر بعض چیزیں غلط بھی ہوں تو اس سے سرے سے مذہب کا ہی غلط ہونا لازم نہیں آتا۔ سائنس کی بہت سی باتیں غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں ، اس کے بہت سے نظریات غیر ثابت شدہ ہیں، ذرائع ابلاغ سے بہت سی افواہیں اور جھوٹی خبریں بھی شائع ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ افواہوں کے تعلق سے حقیقت کی تلاش وتحقیق کے ساتھ سائنس اورمیڈیا .

Hazrat Adam Ki Tauba (Urdu)



فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ اِنَّهٗ هُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۳۷ قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًافَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاوَكَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَااُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِهُمْ فِیْهَا  خٰلِدُوْنَ۝۳۹(بقرہ
ترجمہ:پھرآدم کو اس کے رب کی طرف سے بعض کلمات القا ہوئےجن پراللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی،یقیناً وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والاہے۔ہم نے حکم دیاکہ تم سب جنت سے اترجاؤ ۔بعدمیں جب میری طرف سے تمہارے پاس کوئی پیغام ہدایت پہنچے گا،اس وقت تم میںسے جو شخص میری ہدایت قبول کرے گا اسے نہ کوئی خوف ہوگااور نہ اسے کوئی غم ہوگا۔اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں کاانکار کریں گے ،ان کو جھٹلائیں گے،وہ جہنمی ہوں گے اورہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ انسان فرشتہ نہیں ہے،کیوںکہ اس کے خمیر میں امکان خطاہے اور وہ شیطان بھی نہیں ہے ،کیوںکہ اس کی فطرت میں توبہ وندامت ہے۔ایسے میں انسان اگر خطاؤں سے محفوظ رہاتو گویا وہ فرشتوںسے بھی آگے بڑھ گیاکہ امکان خطا ہوتے ہوئے بھی خطا سے محفوظ رہااور اگرخطاؤں پر اصرارکرتا رہا، خطاکےبعدبھی اس نے توبہ نہیں کی تو گویا وہ شیطان سے بھی نیچے گرگیاکہ اس کی فطرت میں جوہر توبہ وندامت ہوتے ہوئے بھی اس نے توبہ نہیں کی اور اپنی خطاپر مصر(Rigid)  رہا۔اس بات کو امام غزالی علیہ الرحمہ اپنے مخصوص لب ولہجے میں اس طرح لکھتے ہیں:  "صرف نیکی کا صدور مقرب فرشتوں کاخاصہ ہے اور صرف برائی پر قائم رہنا اورنیک عمل کرکے اس برائی کی تلافی نہ کرناشیطان کی فطرت، جب کہ غلطی ہوجانے کے بعداچھائی کی طرف رجوع ہوناانسانی خصوصیت ۔اس طرح خالص خیر کا انجام دینے والا بارگاہ الٰہی کامقرب فرشتہ ہوتاہے، فقط شر ہی شر پر عامل شیطان ہوتاہے اورخیر کی طرف رجوع ہوکر اپنے شر کی تلافی کرنے والا حقیقت میں انسان ہوتاہے۔گویا انسان کی فطرت میں دونوں صفات جمع ہیں اور ایک ساتھ اس کے اندر دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر بندہ اپنا نسب یاتوفرشتوں سےملاتا ہے، یاآدم سےیا شیطان سے۔ توبہ کرنے والااپنا نسب حضرت آدم سے اپنا نسب جوڑتاہے اور اس پر دلیل وبرہان قائم کردیتا ہے ، کیوںکہ وہ انسان کی تعریف پر پوری طرح اترتا ہے اورجو شخص سرکشی وخودسری پر قائم رہ جاتا ہے گویاوہ شیطان کے ساتھ اپنانسب رجسٹرڈ کردیتا ہے۔"احیاءالعلوم،باب بیان توبہ،  مکتبۃ الصفا،قاہرہ،
توبہ کی تاریخ
انسانی دنیامیں بابائے انسانیت حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے شروع ہوتی ہے ،ایک خاص حکمتکے تحت اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی، پھر ان کی عظمت کے اظہار کے لیے فرشتوں سے ان کا سجدہ کرایا۔ اس موقع پر ابلیس تکبراور خودپسندی کا شکارہوگیا اور سجدے سے انکارکردیا۔اس نےحکم ربانی کو بے چون وچرا تسلیم کرنے کے بجائے حضرت آدم سے اپنا تقابل کرناشروع کردیا،اس کا یہ تقابل بظاہر علمی منہج پر تھاکیوںکہ اس نے تجزیہ کرکے بتایاتھا کہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور میری آگ سے اورمٹی پرآگ کو فضیلت ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا وہ علم،ادب سے خالی تھا،اس لیے مردود ٹھہرا۔اس سے یہ حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ اطاعت کے بالمقابل علمی منہج اختیار کرنا شیطانی طرزفکرہے،ملکوتی طرزفکریہ ہے کہ حکم ربانی کو بے چون و چرا تسلیم کرلیا جائے،اسلام دراصل تسلیم ہی کا دوسرانام ہے۔اس کے بعد حضرت آدم اپنی زوجہ حوا علیہا السلام کے ساتھ جنت میں رہنے لگے،انھیں اس بات کی اجازت تھی کہ ایک درخت کے سوا پوری جنت میں جہاں چاہیں جائیں اور جوچاہیں کھائیں۔یہ درخت کون سا تھا؟اس سلسلے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔انگور،گیہوں،کھجور،انجیر وغیرہ مختلف الفاظ آئے ہیں۔اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات وہ معلوم ہوتی ہے جسے امام ابن کثیر نے جعفر بن جریر سے نقل کیاہے کہ اللہ نے کسی متعین جنتی درخت سے قریب ہونے سے منع فرمایاتھا، وہ درخت کس چیز کا تھا،یہ بات ہمیں تحقیق سے نہیں معلوم ، کیوںکہ اس سلسلے میں نہ کوئی قرآنی آیت ہے،نہ کوئی صحیح روایت ہے اور نہ اس کو جاننا کوئی دینی یاعلمی حاجت ہے۔تفسیرابن کثیر،زیرآیت مذکورہ   
حضرت آدم کو سجدہ نہ کرکے ابلیس مردود بارگاہ ہوگیا ، لیکن اس کے ساتھ تاقیام قیامت اولاد آدم کو راہ حق سے گمراہ کرنے کے لیے خصوصی اجازت بھی حاصل کرلی ۔یہ سارے معاملات اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کے تحت عمل میں آئے۔ ان کے اسرار ورموز اورصحیح علل واسباب کیاہیں، ان کا علم صرف اور صرف اللہ کو ہے،یا ان کو ہے جنھیں اللہ نے حسب لیاقت ان اسرارورموز سے واقف کراناچاہا ۔جو بات ہمیں معلوم ہے وہ یہ کہ یہ سب کچھ انسان کی آزمائش وامتحان کے لیے ہوا۔اس کے سامنے خیروشر کا آپشن دےدیا گیا،ان میں سے جس کوچاہےوہ اختیار کرے،یہ اختیار اسے مل گیا، پھر شرکی طرف خواہش ونفس کامیلان کردیاگیا،نیز وسوسے ڈالنے والے شیاطین کو انسانوںپر مسلط کردیاگیا کہ وہ انسان کے اندروسوسے ڈالتےرہیں،یہ انسان کاکام ہےکہ وہ ان وسوسوں کوترک کرے اور حق کے حضور بے چون وچرا سرتسلیم خم کردے۔ شیطان نے اپنے معرکے کاآغاز حضرت آدم سے کیا، اس نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کولغزش دینے کی کوشش کی،شیطان نےان کو بتایاکہ تمھیں اس درخت سے اس لیے منع کیاگیاہےکہ کہیں تم ان کو کھاکر فرشتہ نہ بن جاؤ،یاحیات جاوید نہ پالو۔اس نے حلفیہ طورسے یہ کہاکہ وہ ان کا دشمن نہیں،خیر خواہ ہے۔ (اعراف:۲۱-۲۰ اللہ کاکرنادیکھئے کہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام حکم ربانی بھول گئے اورغیرارادی طورپر شجر ممنوعہ کاپھل کھالیا، جس کی پاداش میں انھیں جنت سے باہر نکل جانے کا حکم آگیا۔وہ زمین پر آگئے اوراپنے رب کے حضورگریہ وزاری اورتوبہ و استغفار کرتے رہے۔ بالآخرانھیں رب کے حضورسے کچھ خاص کلمات ِدعاالہام کیے گئے،آپ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ کے حضورتوبہ کی اورآپ کی توبہ قبول فرمالی گئی۔ وہ کلمات جو خصوصی  طورپر حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کوالہام فرمائے گئے تھے جن کے توسط سے آپ کی توبہ قبول کی گئی ،وہ کیاتھے؟اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں: ایک قول یہ ہے کہ یہ کلمات وہ الفاظ ہیں جوحضرت آدم وحواکی طرف سےبطورتوبہ سورۂ اعراف ،آیت:۲۳میں مذکور ہیں،وہ الفاظ یہ ہیں:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ۔(اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوںپر ظلم کیاہے،اگرتم نے معاف نہیں کیااوررحم نہیں فرمایاتو ہم خائب وخاسرہی رہیں گے۔قرآن کریم کی اس آیت سے کلمات توبہ کے ساتھ ہمیں آداب توبہ بھی حاصل ہوتے ہیں۔بہرکیف!حضرت آدم کی توبہ قبول ہوگئی اوروہ مقبول بارگاہ ہوگئے۔حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے رجوع وتوبہ کے سلسلے میں اہل علم نے بہت سی بحثیں کی ہیں،اسی طرح توبہ کے اسرارورموز اورآداب وشرائط پر بھی بہت کچھ لکھاگیاہے۔ہم یہاں امام عبدالوہاب شعرانی اوران کے شیخ عارف ربانی حضرت علی خواص کاایک مکالمہ نقل کرتے ہیں،امام شعرانی لکھتے ہیں:’’ہم نے اپنے شیخ علی خواص علیہ الرحمہ سے ایک مرتبہ پوچھاکہ احکام شرعیہ کی مشروعیت کاسبب کیاہے؟ جب کہ اللہ تو پوری کائنات اور سب کی عبادتوں سے بے نیاز ہے۔شیخ نے فرمایا:اس کا سبب اولاد آدم کے لیے کمال توبہ کی راہ ہموار کرناہے کہ جب ان سے ممنوعات کا ارتکاب ہوجائے تو وہ توبہ ورجوع کریں۔اس طرح وہ تمام احکام وآداب جن کا اللہ نےاولادِآدم کومکلف بنایا ہے،ان کے لیے کفارے کا درجہ رکھتے ہیں۔
میں نے عرض کی:بعض اولادآدم توایسے ہیں جن سے احکام خداوندی کی مخالفت ممکن ہی نہیں ہے؟
شیخ نے فرمایا:اگرحکم شرع کی مخالفت ہوتو کفارہ ہوگا بصورت دیگررفع درجات کے لیے ہوگا،جیساکہ انبیاعلیہم الصلاۃ والسلام کے لیے ۔میں نے عرض کی:اگر انبیاکے لیے رفع درجات کامعاملہ ہے توپھراللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے کیامعنی ہیں؟وَعَصٰى آدَمُ رَبَّهٗ فَغَوىٰ۔ (طہ:۱۲۱)اورآدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوربھٹک گئے)۔ اس پر حضرت شیخ نے فرمایا:اے عزیز!یہ یادرکھوکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاکے حوالے سے معصیت اور خطاکے  جو الفاظ بیان کیے ہیں وہ سب بطورمجاز ہیں،کیوں کہ کوئی پیغمبر لمحہ بھرکے لیے بھی مقام احسان سےنیچے نہیں آیا اور مقام احسان مشاہدۂ حق کامقام ہے،جس میں کسی کے لیے معصیت کا ارتکاب ممکن ہی نہیں ہے۔معصیت توان لوگوںسے سرزد ہوتی ہے جو مقام مشاہدہ سے محجوب ہوتے ہیں۔ الحاصل ،انبیا کے معاصی اورخطاصوری ہوتے ہیں، معنوی اورحقیقی نہیں ہوتے اورایسا اس لیے ہوتا ہے،تاکہ بالواسطہ ان کی گنہگار امتوں کے سامنے ان کی طرف سے اتمام حجت ہوجائے اور وہ نفوس قدسیہ اپنی گنہ گارامتوں کوتوبہ و استغفار کے ذریعے تقرب الی اللہ کے آداب سکھا سکیں اور وصل کی طرح ہجر کی لذت یافراق کی طرح وصال کی عظمت کو جان سکیں،کیوںکہ چیز یںاپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں۔
شیخ نے مزیدکہا:میرےعزیز!میں اس کی مزید وضاحت کرتا ہوں۔حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعے کی مثال ایک عظیم بادشاہ کی ہے،ایک دن اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ خاص میں موجودین سے کہا:میں ایک خاص دنیا آباد کرنا چاہتاہوں،اس میں کتابیں نازل کروںگااور اوامرو نواہی کے ساتھ اپنے پیغمبربھیجوںگا، جوان کی اطاعت کریں گے ، ان کے لیے ایک ٹھکانہ بناؤں گا جس کانام جنت ہوگااور جوان کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے ایک ٹھکانہ بناؤں گا جس کا نام جہنم ہوگااورمیں اپنے بندے آدم کی پشت سے ایک نسل پیداکروںگا،جوزمین کو آبادکرے گی،میں آدم پر ایک درخت کاپھل کھانامقدر کردوں گا اور بظاہر اسے اس درخت سے قریب جانےسے منع کردوں گا۔اس کے بعدمیں اس کی نسل کو مختلف احکام کامکلف کردوںگا،پھر آدم اوراس کی معصوم اولاد پرمجازاًحجت قائم کردوںگا،اسی طرح آدم کی غیرمعصوم اولادپر مجازاً نہیں بلکہ حقیقتاًحجت قائم کردوں گا، پھر میں اسے اس جنت سے باہر نکال دوںگا جہاں اس نے شجرممنوعہ سے کھایاہوگااور اسے ایک دوسری جگہ آبادکروں گا  جس کا نام دنیاہوگااورمیں اس جگہ اس کے مقام کو کمال تک پہنچاؤں گا۔اب جس کی خواہش ہوکہ وہ مقام آدم پر فائز ہووہ آگے بڑھے۔اس وقت حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام آگے بڑھے اورعرض کی:اس آزمائش کے لیے میں ہوں،اس کے لیے میںحاضرہوں۔ان کا مقصدیہ تھاکہ بندوں کے حوالے سے اللہ کی قضاوقدر نافذہو۔ اس مجلس اتفاق میں جوحاضرتھا وہ حضرت آدم کے حوالے سے خالص معصیت کی بات نہیں کرسکتا،بلکہ وہ یہ کہےگا کہ اس میں رب کی طاعت شامل تھی۔برخلاف اس کے جواِس مجلس سے غائب تھا وہ حضرت آدم کو معصیت سے متصف کرتاہے اورمحجوبین کایہ حال ہوتاہی ہے ۔گویااس واقعے میںسب سے بڑی مصلحت محجوبین کے لیےہے کہ قضائے الٰہی سے اگر وہ معصیت میں گرفتار ہوجائیں توان کے لیے رب کی عفوومغفرت کاظہورہو اوراگران کی فطرت سے اطاعت وتسلیم کاصدور ہوتووہ اللہ کی نوازش وعطاکا جلوہ دیکھیں۔ گویا حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے ظاہری آہ وفغاں اور حزن وملال اپنی ان محجوب اولاد کے لیے کیاتھا جو حدودِالٰہی کی پامالی کرنے والی تھیں ۔گویا آپ نے اپنے واقعے کے ذریعے اپنی اولاد کے لیے باب مغفرت کھول دیا۔‘‘  میزان کبریٰ،خاتمہ،جلد:۲،دارالکتب      العلمیہ،بیروت۱۹۹۸ یہ تفصیل حضرت شیخ علی خواص کے کشف پر مبنی ہے، تاہم یہ بات نص قرآنی سےبھی واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ بظاہر حضرت آدم علیہ السلام سے معصیت کاصدورہوا(وَعَصٰى آدَمُ رَبَّهٗ فَغَوىٰ۔(طہ:۱۲۱)لیکن ان کو ہم عاصی نہیںکہہ سکتے ، کیوںکہ ان پر نسیان طاری ہوگیاتھا۔ (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً۔طہ:۱۱)اور بھولنے والے کو ہم گنہ گار نہیں کہتے،اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔