حضرت علامہ عبد الخالق غجدوانی علیہ الرحمہ


 


آپ علیہ الرحمہ سلسلہ نقشبندیہ کے گروہ سلسلہ خواجگان کے عظیم صوفی بزرگ ہیں انھیں خواجہ ہردوجہاں بھی کہا جاتا ہے۔

ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ  کی پیدائش بخارا کے ایک بڑے شہر غجدوان میں ہوئی۔ آپ کی ولادت 22؍شعبان 435ھ/ 1044ء کو غجدوان میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام خواجہ عبد الجلیل یا خواجہ عبد الجمیل تھا جن کا وصال آپ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہو گیا لہذا آپ علیہ الرحمہ  کی پرورش کا سارا اہتمام آپ کی نیک سیرت والدہ نے کیا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو مدرسہ میں قرآن پاک پڑھنے کے لیے مشہور زمانہ بزرگ اور مفسر قرآن استاد صدر الدین کے حوالے فرمایا۔ پیدائش سے پہلے بشارت دی گئی کہ تمھارے گھر ایک چراغ روشن ہونے والا ہے جو ایک عالم کو پرنور بنائے گا۔ اس کا شمار خدا کے محبوبین اور مقربین میں ہوگا، میں اسے اپنی فرزندی میں قبول کرتا ہوں۔ اس کا نام عبد الخالق رکھنا۔ یہ بشارت دینے والے خضر علیہ السلام تھے جو اللہ کے ایک کامل بندے کی دنیا میں آمد آمد کی خوشخبری آپ کے والدین کو دے رہے تھے اس لیے کہ بچے کی پرورش بھی اسی نہج پر ہو۔ 

بیعت و خلافت:

آپ علیہ الرحمہ  نے بیعت و خلافت خواجہ ابو یوسف ہمدانی سے حاصل کی اور بخارا میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے۔ آپ اپنی روش و حالات کو اغیار کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ علیہ الرحمہ  جب لوگوں کو تلقین فرماتے تو جذبہ و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور ’ہو حق‘ کا غلغلہ بلند ہوجاتا۔ آپ پر راز الٰہی منکشف ہونے لگے تھے، آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی اور ایک دنیا تھی کہ آپ کی طرف امنڈتی چلی آتی تھی۔

تصانیف جلیلہ:

·       رباعیات

·       رسالہ طریقت

·       وصیت نامہ

·       رسالہ صاحبیہ

·       اصطلاحات

آپ علیہ الرحمہ  نے سالکانِ طریقت فقراء کرام کی اصلاح نفس اور قربِ خداوندی کے حصول کے لیے لوگوں کو چند اصطلاحات بتائیں اور نصیحت فرمائی کہ انھیں ہمیشہ یاد رکھو اور انھیں سمجھو اور خلوص دل سے ان پر کاربند ہو جاؤ تاکہ دین و دنیا کی سرخروئی حاصل ہو۔ لوگوں نے اصطلاحات سے متعلق جب آپ سے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ:

1۔ ہوش در دم، 2۔ نظر بر قدم، 3۔ سفر در وطن، 4۔ خلوت در انجمن، 5۔ یاد کرد، 6۔ باز گشت، 7۔ نگاہ داشت، 8۔ یادداشت 9۔ وقوف عددی، 10۔ وقوف زمانی، 11۔ وقوف قلبی۔

سننے والوں کے ہوش جاتے رہے، زبانیں گنگ ہوگئیں اور شعور نے جواب دے دیا۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت ہم ناقص العقل ہیں، ذرا ان کی وضاحت بھی فرمادیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم وضاحت چاہتے ہو تو سنو کہ

ہوش در دم ’ہوش در دم‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان کا ہر سانس یاد اللہ کے لیے وقف ہو، کسی بھی سانس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ جس سانس میں خدا کی یاد نہ ہوئی وہ لمحہ غفلت میں گذرا۔ سانس کے اندر جاتے اور باہر آتے دونوں میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ غفلت کا لمحہ نہ ملنے پائے۔

نظر بر قدم ’نظر بر قدم‘ کا مطلب یہ ہے کہ سالک راہ چلنے میں نگاہ اپنے پاؤں کی پشت پر رکھے تاکہ بیجا نظر اِدھر اُدھر نہ پڑے اور دل محسوسات متفرقہ سے پراگندہ نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات مانع حصول مقصود ہے۔ یا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔

سفر در وطن ’سفر در وطن‘ کا اصل مطلب یہ ہے کہ سفر در نفس۔ انسان کو دنیاوی سفر کی بجائے اپنے اندر کا سفر اختیار کرنا چاہیے۔ دنیاوی سفر اسی قدر اختیار کرے کہ پیر کامل تک رسائی حاصل ہو جائے، دوسری حرکت جائز نہیں۔ اگر اپنے پیر کی قربت اور محبت میسر ہو جائے تو انسان کو سفر سے گریز کرنا چاہیے۔

خلوت در انجمن ’خلوت در انجمن‘ سے مراد یہ ہے کہ انجمن جو تفرقہ کی جگہ ہے اس سے تعلق رکھنے کے باوجود ازراہ باطن حق تعالیٰ کے ساتھ خلوت رکھے اور غفلت کو دل میں راہ نہ دے۔ یعنی بازار سے گذرتے ہوئے ذکر میں اس قدر مشغول ہو کہ بازار کے شور و غل کو نہ سن سکے۔ شروع میں یہ معاملہ بتکلف ہوتا ہے اور آخر میں بے تکلف۔

یاد کرد ’یاد کرد‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہے، ذکر خواہ زبانی ہو یا قلبی۔

باز گشت ’باز گشت‘ سے یہ مراد ہے کہ جب ذاکر کلمۂ توحید کا دل سے ذکر کرے تو ہر بار حکم توحید کے بعد اپنے دل کی زبان سے یہ کہے کہ خدایا میرا مقصود تو اور تیری رضا ہی ہے۔

نگاہ داشت ’نگاہ داشت‘ کا مطلب یہ ہے کہ قلب کو خطرات و حدیثِ نفس سے نگاہ رکھے، یعنی کلمہ طیبہ کی تکرار کرتے وقت دل کو تمام وسوسوں سے دور رکھے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد حبس دم کے ساتھ ہو۔

یاد داشت ’یاد داشت‘ سے مراد یہ ہے کہ دوام آگہی بحق سبحانہ (یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ رب العزت کا ذکر قلب و روح میں سرایت کرجائے) اور یہ دوام آگہی اس حد تک غالب ہو کہ سالک کو اپنے وجود کا بھی شعور نہ رہے (اور جب اس بے شعوری کا بھی شعور نہ رہے تو یہ فنائے فناء کہلاتا ہے اور یہی یاد داشت ہے)۔ ایک خادم نے ادب سے اٹھ کر عرض کیا حضرت نگہداشت اور یادداشت میں کیا فرق ہے۔ فرمایا نگہداشت میں طالب اپنی کوشش سے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یادداشت میں بلا کوشش خود بخود قلب خدا کی طرف متوجہ و مشغول ہوجاتا ہے۔

وقوف عددی ’وقوف عددی‘۔ اس سے مراد ذکر نفی اثبات میں عدد ذکر سے واقف رہنا ہے، یعنی ذاکر اس ذکر میں سانس کو طاق عدد پر چھوڑے نہ کہ جفت پر، جیسے 3، 5، 7، 11، 13۔ کیونکہ ارشاد ہے ”اللہ وتر یحب الوترخدا ایک ہے اور اکیلے کو دوست رکھتا ہے۔

وقوف زمانی ’وقوف زمانی‘ سے مراد ہے کہ واقف نفس رہے، پاس انفاس کو ملحوظ رکھے یعنی محاسبہ رکھے کہ سانس حضور میں گذرتا ہے یا غفلت میں۔ بصورت اطاعت شکر بجا لائے اور بصورت غفلت و معصیت میں عذر خواہی کرے اور استغفار کرے۔ یہ محاسبہ کہلاتا ہے۔

وقوف قلبی ’وقوف قلبی‘ سے مراد یہ ہے کہ سالک ہر آن ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے اور قلب خدا کی طرف متوجہ رہے تاکہ سب طرف کی توجہ ٹوٹ کر معبود حقیقی کی طرف توجہ رہ جائے اور خطرات اور وسوسے قلب میں داخل نہ ہوں، خصوصًا ذکر کے وقت اس کا پورا پورا خیال رکھے۔ وقوف قلبی خواجہ عبد الخالق کے نزدیک بہت ضروری اور رکن عظیم ہے اور دارومدار طریقہ نقشبندیہ کا اسی پر ہے۔

آپ علیہ الرحمہ  کی اس تشریح و تقریر کا لوگوں پر زبردست اثر ہوا اور لوگوں کو آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوا۔ جو لوگ آپ کو ایک عام انسان کی نظر سے دیکھتے تھے ان کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور رعب بیٹھ گیا اور مریدین کے دلوں میں آپ کی عزت و تکریم میں زیادہ اضافہ ہوا۔

وصال مبارک:

ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ  نہایت علیل ہو گئے، اصحاب و مریدین چاروں طرف جمع تھے۔ یکدم آپ نے چشم مبارک وا فرمائی اور ارشاد فرمایا لوگو تمھیں مبارک ہو کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے اپنی رضامندی کی خوشخبری دی ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے، اس لیے کہ لوگوں کو یقین تھا کہ اب یہ ماہتاب کامل روپوش ہوا چاہتا ہے۔ آپ نے لوگوں کی جذباتی حالت کو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ بار بار دعا کی خواہش کر رہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا دوستو تم کو مبارک ہو کہ حق تعالیٰ سبحانہ نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے، اس طریقہ کو جو لوگ اختیار کریں گے اور آخر تک اس پر قائم رہیں گے میں ان سب کو بخش دوں گا اور سب پر اپنی رحمت نازل فرماؤں گا۔ پس بہت زیادہ کوشش کرو۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں پر جوش و جذبہ اور گریہ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی کہ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف آ کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو“۔

یہ سن کر احباب و اصحاب نے دیکھا کہ آپ علیہ الرحمہ  واصل باللہ ہو چکے ہیں۔ ۱۲ ربیع الاول ۵۷۵ ہجری بخارا کے قریب غجدوان میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 

 

 

مولانا ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ المعروف بہ محدث دکن علیہ الرحمہ


 

مولانا ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ المعروف بہ محدث دکن علیہ الرحمہ ، 10 ذی الحج 1292ہجری بمطابق6 فروری 1872عیسوی کو حسینی عالم، حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ مولانا سید مظفر حسین علیہ الرحمہ آپ کے والد تھے، جن کا آبائی گھر نلدرگ میں تھا۔ چونکہ ان کے جد اعلیٰ حضرت سید علی علیہ الرحمہ ہجرت کر کے آئے تھے، اس لیے بیجاپور کے حکمران عادل شاہ اول نے انہیں زمین عطا کی تھی۔ مولانا کی والدہ حضرت گل بادشاہ کی بیٹی تھیں۔

سلسلہ نسب : آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے چالیسویں پشت میں اور ۴۴ واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے، اس طرح آپ کا شمار نجیب الطرفین سادات میں ہوتا ہے۔

تعلیم و تربیت : حضرت محدثِ دکن علیہ الرحمہ کی تعلیم جن بزرگ ہستیوں کے فیض سے پروان چڑھی ان میں قابل ذکر خود حضرت کے والد محترم حضرت سید مظفر حسین شاہ علیہ الرحمہ  جنہوں نے آپ کی ابتدائی اور فارسی تعلیم میں سرپرستی فرمائی، اور علم معقول و منطق مولانا منصور علی خان علیہ الرحمہ اور اس زمانے کے مشہور فلسفی علماء سے حاصل کیا، شرح جامی و تفسیر اور دیگر علوم مولانا انوار اللہ خان علیہ الرحمہ (بانی جامعہ نظامیہ) سے حاصل کیا اور فقہ اور اصول مولانا حبیب الرحمن صاحب سہانپوری علیہ الرحمہ سے اور علم حدیث و ادب مولانا حکیم عبدالرحمن صاحب سہانپوری علیہ الرحمہ سے حاصل کیا۔غرض ان بزرگوں سے آپ نے جملہ علوم دینی اور ضروری کی تکمیل فرمائی اور فطری صلاحیت و وسعت سے شہر کے علماء میں شمار کئے جانے لگے۔

روحانی سفر اور تصوف: مولانا عبداللہ شاہ ابتدائی طور پر حیدرآباد کے ایک عظیم صوفی شخصیت حضرت مسکین شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ حضرت مسکین شاہ کی وفات کے بعد، مولانا عبداللہ شاہ حضرت سید محمد بادشاہ بخاریؒ کے حلقہ ارادت میں آ گئے، جو ایک قادری نقشبندی صوفی تھے۔ اس کے بعد مولانا عبداللہ شاہ تقریباً 20 سال تک روزانہ 4 میل پیدل چل کر اپنے مرشد سے ملنے جاتے رہے۔ وہ رات کو تہجد کے وقت ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔مولانا عبداللہ شاہ اپنے روحانی مرشد کی تعلیمات کے سخت پیروکار تھے، اور انہوں نے اپنی پوری زندگی دو سلاسل طریقت، قادریہ اور نقشبندیہ کے لیے وقف کردی۔ انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو ان دونوں سلسلوں میں داخل کیا، اور آپ کا روحانی اثر دور دور تک پھیلا۔ ان کے مریدین و متوسلین اکثر زبردست روحانی تجربات کا مشاہدہ کرتے ہیں، بعض اوقات وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے دل اپنے شیخ کی موجودگی میں خدا کے ذکر کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔مولانا عبداللہ شاہ، حماد اسامہ، مشہور صوفی بزرگ حضرت پیر حمید الدین جعفری قادری کے صاحبزادے تھے، جو خود معروف بزرگ حضرت پیر کامل الدین دہلوی کے پوتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے اپنے روزمرہ کے معمولات پر سخت پابندی کے ساتھ، پوری نظم و ضبط کی زندگی گزاری، جس کی بدولت وہ روزانہ کے 21 گھنٹے عبادت، درس و تدریس اور خدمت خلق میں صرف کیا کرتے تھے۔ آپ کا دن فجر کی نماز سے شروع ہوتا، اور اس کے بعد روحانی تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ آپ صبح میں خواتین کی روحانی تربیت کرتے اور ان کے سوالات کے جواب دیتے، اور دوپہر کا وقت اپنے شاگردوں کی رشد و ہدایت میں صرف کرتے۔ ان کی زندگی مصروف ترین تھی، پھر بھی وہ اپنے مریدین و متوسلین کے قریب تھے، اور خود ان کے خطوط کا جواب دیتے، اور انہیں مفید مشوروں سے نوازتے۔

اپنی عظیم ترین روحانی خدمات کے علاوہ، حضرت عبداللہ شاہ نے حدیث اور فقہ کے میدان میں قابل ذکر علمی خدمات انجام دیں۔ ان کی انتہائی مشہور تصنیف "زوجاجت المصابیح" ہے، جو فقہ حنفی کے حوالے سے پانچ جلدوں پر مشتمل ایک حدیث کی کتاب ہے۔ ان کی دوسری کتابیں: "فضائل نماز"، "یوسف نامہ"، "قیامت نامہ"، "معراج نامہ"، "میلاد نامہ"، "گلزار اولیاء"، "مواعظ حسنہ"، "سلوک مجددیہ"، "فضائل رمضان"، "کتاب المحبت"، "علاج السالکین" ہیں۔

کرامات اور پیشین گوئیاں: عمومی طور پر مولانا عبداللہ شاہ کے مریدین و متوسلین ان کی موجودگی میں بڑی بڑی کرامات کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو ان کی رفاقت میں ایک بھرپور روحانیت کا احساس ہوتا تھا۔ ان کی ایک عظیم کرامت یہ ہے کہ موت کے وقت اکثر ان کے مریدوں کے ہونٹوں پر "لا الہ الا اللہ" کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، جو کہ ایک اچھی موت کی علامت ہے۔

اپنے ہم عصر سید محمد بادشاہ حسینی کی وفات کے کچھ عرصہ بعد، 25 اگست 1964 کو، مولانا عبداللہ شاہ نے پیشین گوئی کی کہ وہ دو دن کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ آپ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی، اور آپ 18 ربیع الثانی 1384ہجری (1964ء) کو 92 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ علیہ الرحمہ کے جنازے میں 250,000 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی، جو کہ حیدرآباد کی تاریخ کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک ہے۔ مولانا عبداللہ شاہ نقشبندی چمن، مصری گنج، حیدرآباد میں سپرد خاک ہوئے۔

میراث اور جانشینی: مولانا عبداللہ شاہ کی روحانی اور فکری وراثت ان کے شاگردوں اور اولاد میں اب تک زندہ ہے۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ آپ کی گدی پر بیٹھے۔ ان کے بعد ابوالخیرات سید انوار اللہ شاہ نے ان کی جگہ لی۔ موجودہ سجادہ جانشین ابوالفیض سید عطاء اللہ شاہ ہیں، اور نقشبندی چمن کے موجودہ سجادہ نشین ابوالخیر سید رحمت اللہ شاہ ہیں۔ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر، مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی قادری کا قائم کردہ ایک عظیم ادارہ ہے، جہاں مولانا عبداللہ شاہ کی تمام تصانیف کو عام کیا جا رہا ہے۔ (بحوالہ: تذکر ہ حضور محدث دکن علیہ الرحمہ) 

 

حضرت خواجہ ابو علی فارمدی رحمۃ اللہ علیہ

 

آپ علیہ الرحمہ  کی ولادت 407ہجری  1043ء میں طوس کے نواحی گاؤں فارمد میں ہوئی جس کی نسبت سے فارمدی کہا جاتا ہے۔

نام و کنیت:

اسم گرامی فضل بن محمد بن علی اور کنیت ابو علی اور فارمد کی طرف منسوب ہے جو طوس موجودہ ایران کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔ علم کا حصول فقہ کے امام ابو حامد غزالی سے ہوا اور ابو عبد اللہ بن باکو شیرازی ابو منصور تمیمی، ابو عبد الرحمن نیلی اور ابو عثمان صابونی سے حدیث کا سماع کیا۔

مقام و مرتبہ:

خراسان کے شیخ الشیوخ ہیں ا پنے وقت کے یکتا تھے۔ اوراپنی طریقت میں خاص تھے وعظ و نصیحت میں ابو القاسم کے شاگرد تھے۔ ان کی نسبت تصوف میں دوطرف کی ہے۔ ایک تو شیخ بزرگوار ابو القاسم گرگانی(جرجانی) علیہ الرحمہ  کی طرف دوسری شیخ بزرگوار ابو الحسن خرقانی علیہ الرحمہ  کی طرف جو مشائخ کے پیشوا اور وقت کے قطب ہیں۔ طریقہ نقشبندیہ میں خواجہ ابو القاسم گرگانی علیہ الرحمہ  سے بیعت ہوئے لیکن اویسی طور پر ابو الحسن خرقانی سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کے صاحب کمال ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی آپ کے مرید اور تربیت یافتہ تھے۔

حصول علم باطن:

آپ علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں کہ میں شروع جوانی میں نیشا پور میں طلب علم میں لگا تھا میں نے سنا کہ شیخ سعید ابوالخیر منہ سے آئے ہیں اور وعظ کہتے ہیں میں گیا تاکہ ان کو دیکھوں جب میری آنکھ ان کے جمال پر پڑی تو میں ان پر عاشق ہو گیااور صوفیہ کی محبت میرے دل میں بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ شیخ کی زیارت کی آرزو ہوئی لیکن وہ زیارت کا وقت نہ تھا ایسے ہی باہر نکلا تو شیخ کو کثیر انبوہ میں دیکھا شیخ نے مجھے نہ دیکھا تھا میں چپکے سے پیچھے چل پڑا جب وہ سماع میں پہنچے میں بھی چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب شیخ پر وجد کی حالت طاری ہوئی کپڑے پھاڑ دئے قمیص کا اگلا حصہ چاقو سے پھاڑا اور آواز دی اے ابو علی طوسی کہاں ہو میں سمجھا کسی اور کو بلا رہے ہیں تین دفعہ بلانے پر میں نہ گیا تولوگ کہنے لگے تمھیں بلاتے ہیں میں گیا تو شیخ نے وہ قمیص اور چاقو مجھے عنایت کیے اور فرمایا تم ہمیں اس قمیص اور چاقو کی طرح ہومیں نے انھیں بڑی عزت سے رکھ لیا۔

استاد کی خدمت:

دوران میں طالب علمی ابو القاسم قشیری علیہ الرحمہ   کی خدمت میں رہے جو حال مجھ پر ظاہر ہوتا انھیں عرض کرتا فرماتے علم سیکھو لیکن ہر روز روشنائی بڑھنے لگی ایک دن قلم کو دیکھا وہ سفید ہوگیااستاد سے عرض کی تو فرمایا جب علم نے تجھ سے علیحدگی کر لی تم بھی علاحدہ ہو جاؤریاضت میں مشغول ہو جاؤ میں خانقاہ میں استاد امام ابو القاسم کی خدمت میں مشغول ہو گیا ایک دن استاد حمام گئے میں نے پانی کے ڈول ان پر گرائے جب استاد ابو القاسم نماز سے فارغ ہوئے پوچھا یہ پانی کس نے گرایا تھا میں سمجھا شاید یہ بیوقوفی کی ہے خاموش رہا تیسری مرتبہ عرض کیا میں تھا تو استاد نے فرمایا اے بو علی جو کچھ ابو القاسم علیہ الرحمہ  نے ستر سال میں پایا تم نے ایک ہی ڈول میں پا لیا۔ بوعلی فارمدی بڑے پر اثر خطیب اور شیریں گو واعظ تھے۔طائفہ نقشبندیہ کے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ شیخ بو علی کو خطرات قلب پر واقفیت دی گئی مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔

مبارک ارشادات:

خواجہ ابو علی فارمدی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں کہ ؛ ” پیر و مرشد کی خدمت میں حاضری دینے سے نورِ معرفت کی روشنی ملتی ہے بشرط یہ کہ خلوصِ دل سے ہو۔

میں (ابو علی فارمدی) اوائل عمری میں نیشا پور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو کسی نے بتایا کہ شیخ ابوسعید ابی الخیر تشریف لائے ہوئے ہیں اور وعظ فرما رہے ہیں ۔ میں شوقِ زیارت سے بے تاب ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے مقدس اور نورانی چہرے پر پہلی نظر پڑتے ہی میں دل و جان سے شیدا ہو گیا اور حضرات صوفیہ کرام کی محبت میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ خواجہ ابو علی فارمدی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں کہ ” آدمی کبھی خیالات کی قید سے رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔

وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ  کا وصال مؤرخہ ۴ ربیع الاول ۵۱۱ ہجری یا ۴۷۷ ہجری میں ایران کے مشہور شہر طوس جسے آجکل مشہد کہا جاتا ہے، میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار طوس یعنی مشہد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(مراجع و مصادر: تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، محمد نور بخش توکلی/نفحات الانس، عبد الرحمن جامی /مرآۃ الاسرار ، عبدالرحمن چشتی /ملفوظاتِ نقشبندیہ)


جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں حضور اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا حصہ

 

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانانِ اہل سنت و جماعت کا معتبر و مرکزی دینی اور تعلیمی ادارہ ہے، اس کے مختلف شعبے اور بہت سی عمارتیں ہیں۔ اس ادارہ کے فارغین ہندوستان میں اور اس کے باہر امریکہ، افریقہ، یورپ وغیرہ کے مختلف ملکوں اور شہروں میں تدریسی، تنظیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

شروع میں یہ ادارہ ایک مکتب کی حیثیت سے قائم ہوا جس کا نام مدرسہ مصباح العلوم رکھا گیا، پھر مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم بنا جو ’’دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد میں جب اس کی مزید توسیع ہوئی تو ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کے نام سے چہار دانگ عالم میں معروف ہوا۔ اس کے فارغین قدیم نام "مصباح العلوم" کی نسبت سے ہی ’’مصباحی‘‘ کہلاتے ہیں۔

مدرسہ مصباح العلوم:

۱۳۱۷ھ/ ۱۸۹۹ء میں مبارک پور کے غریب مسلمانوں نے محلہ پورہ رانی دینا بابا کی مسجد کے قریب پچھّم طرف چھوٹےسے سفالہ پوش مکان میں ایک درس گاہ قائم کی جس کا نام مدرسہ مصباح العلوم تجویز کیا۔ اس کا تعلیمی معیار ناظرہ، قرآن مجید ا ور ابتدائی دینی تعلیم تھا، تمام لوگ تنگ حالی کے باوجود مل جل کر اس کا تعاون کرتے تھے۔ سنی دیوبندی کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ چند اہل تشیع کے سوا باقی تمام اہل سنت وجماعت تھے۔

مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم:

۳۰؍۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء میں اہل سنت وجماعت نے مدرسہ مصباح العلوم کی نشاۃ ثانیہ کی تو بہادر شاہ ظفر کی اولاد میں ایک تارک الدنیا بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف چشتی (ستھن شریف ضلع سلطان پور، یوپی) کے ایک مرید مولانا محمد عمر لطیفی مبارک پوری، اور شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (م۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء) کے مریدین کی خواہش کے مطابق اس کا نام ’’مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ تجویز کیا۔ یہ مدرسہ محدود پیمانے پر روایتی انداز سے موجودہ نگر پالیکا کے قریب ایک چھوٹی سی دو منزلہ عمارت میں کام کرتا رہا۔ اس کے بعد مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ اپنی خانہ بدوشانہ زندگی گزارتے ہوئے ۱۳۴۱ھ/ ۱۹۲۲ء میں پرانی بستی میں اس جگہ قائم ہوا جسے عام طور پر لوگ پرانا مدرسہ کے نام سے جانتے ہیں۔

1922 کی تعمیر میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا کردار:

مجمع البحرین، حاجی الحرمین الشریفین، اعلیٰ حضرت، قدسی منزلت، مخدوم الاولیاء، مرشد العالم، محبوب ربانی، ہم شبیہ غوث جیلانی، حضرت سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم (الجامعۃ الاشرفیہ) مبارکپور کے محرک اور بانیوں میں سے تھے۔ جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی سہولت نہیں تھی، اس وقت شیخ المشائخ مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں کچھوچھوی ( میاں بابا) قدس سرہ اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھہ مقدسہ سے مبارک پور آتے تھے ، انہوں نے وہاں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے، حضرت میاں بابا (اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) نے لوگوں پر زور دیا کہ "دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ ضروری ہے"۔ حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبد الوہاب، شیخ حاجی عبد الرحمٰن و شیخ حافظ عبد الاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے 1922 عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور شروع ہوا۔ چونکہ مبارکپور میں باقاعدہ دینی درسگاہ کے محرک اور بانی حضرت میاں بابا  (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) علیہ الرحمہ، حضرت محبوب یزدانی، سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے ۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم  رکھا گیا اور مدرسہ کی دیکھ بھال کے لئے جاں نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانیِ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ(اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ) کو مدرسہ کا سرپرست  بھی مقرر کیا گیا۔

1922 عیسوی تا 1924 عیسوی استاذ العلماء مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر، 14/اکتوبر  1931 عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ کوٹلہ بازار، ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا:

"میں  بغرض تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پور آتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچسپی ہے، جب بھی آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے، اس کی عمارت تنگ و خام و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابو احمد المدعو علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے۔ (بحوالہ: الفقیہ امرتسر، 14/اکتوبر، 1931)

   جدید عمارت کا سنگ بنیاد:

"مخدوم الاولیا محبوب ربانی" کے مؤلف رقم طراز ہیں:

شوال المکرم 1353 ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ امین صاحب صدرِ مدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پر نور اعلیٰ حضرت، مخدوم الاولیاء، مرشدالعالم، محبوب ربانی، اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور دعا فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:

"مدرسہ بہت ترقی کرے گا، فتنہ بھی اٹھے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے"۔

حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم کی جاندار سرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلۂ اشرفیہ کی غیر معمولی جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کے منازل طے کرنا شروع کردیے۔

 1960 عیسوی  تک حضرت محدث اعظم ہند کی مضبوط و مستحکم سرپرستی میں دار العلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوثِ وقت، مخدوم المشائخ، تاجدار اہلسنت حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔ (مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، صفحہ: 347)

دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے:

 "اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا "۔  (مخدوم الاولیا محبوب ربانی، صفحہ: 334)

اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ کے تاحیات سرپرست رہے۔ اس کے بعد سید محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی سرپرستی کی۔ ان کے وصال کے بعد غیر متبدل دستوری ضمانت کے مطابق سرکارکلاں حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کی طرف سرپرستی منتقل ہوئی۔

 اس حوالے سے معروف ناقد و ادیب ڈاکٹر فضل الرحمان شرر مصباحی مرحوم اپنے ایک وقیع مضمون ”اشرفی، اشرفیہ اور اشرف العلما“ مطبوعہ "اشرف العلماء نمبر"، ماہنامہ ماہ نور، نئی دہلی میں اپنی بہن کے حوالے سے اہل مبارک پور کا آنکھوں دیکھا حال اور دار العلوم اشرفیہ کی تقریب سنگ بنیاد کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:

"مشرقی ہند کا عظیم الشان دینی ادارہ دار العلوم اشرفیہ جو اب جامعہ اشرفیہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی نیو آپ ہی کی رکھی ہوئی ہے اور آپ ہی سے منسوب ہو کر یہ ادارہ چہار دانگ عالم میں بلندیوں کی سطح مرتفع پر دیکھا جاتا ہے ۔

 

ہمارے مبارکپور اور اطراف میں حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو میاں بابا کے نام سے جانا جاتا ہے، جب میاں بابا پالکی پر سوار ہوکر قصبہ میں آتے اور حاجی خیر اللہ دلال صاحب کے مکان واقع لال چوک پر فروکش ہوتے تو آپ کی زیارت کے لیے ازدحام خلائق ہو جاتا تھا، میری بڑی بہن عابدہ بیگم اپنے بچپن کا قصہ سناتیں کہ جب میاں بابا مبارک پور آتے تھے تو پورے قصبے میں عید کا سا سماں ہو جاتا تھا، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورتیں ہر ایک میاں بابا کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کے لیے لال چوک کی طرف رخ کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مبارک پور میں دار العلوم اشرفیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن اہل سنت و جماعت کا ایک ادارہ بنام مصباح العلوم محلہ پرانی بستی میں قائم تھا۔ جب اہل قصبہ کو ’’جاۓ تنگ است و مردمان بسیار “ کے مصداق ضرورت کے اعتبار سے ادارہ کی توسیع کا خیال آیا تو مبارک پور کے رئیس اعظم جناب شیخ محمد امین انصاری نے چند رؤسائے قصبہ حاجی محمد عمران انصاری ، حاجی محمد یوسف مناظر اشرفی، حاجی یاد علی اشرفی، حاجی محمد رفیع سوداگر اشرفی اور حاجی محمد طلحہ وغیر ہم کو بلا کر ایک مشاورتی میٹنگ کی جس میں طے پایا کہ موجودہ ادارہ ضرورت کی کفالت نہیں کرتا اس لیے اس کی توسیع ضروری ہے، چناں چہ شیخ محمد امین انصاری نے گولہ بازار میں اپنے گھرانے کی ایک وسیع اراضی کی نشان دہی کی ۔اس طرح شیخ صاحب کے گھرانے کی موقوفہ زمین پر دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم کا قیام عمل میں آیا اور میاں بابا یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے چاندی کی کرنی سے اس کی نیورکھی اور کہا کہ: "فقیر نے اپنی کرنی تو کر لی اب تم لوگ اپنی کرنی کر کے دکھاؤ‘‘، پھر اہل قصبہ نے اپنے پیر طریقت کی ”کرنی “ کی لاج رکھتے ہوئے اشرفیہ کی تعمیر میں دامے درمے قدمے سخنے ایساحصہ لیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔"

ڈاکٹر شرر مصباحی صاحب مرحوم کے اس اقتباس سے دار العلوم اشرفیہ کے قیام کا پورا منظر سامنے آجاتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت اشرفی میاں دینی امور میں حصہ داری کے لیے اپنے مریدوں کو کس طرح ابھارتے تھے ۔ اس کے علاوہ جب بھی دین اور سواد اعظم اہل سنت کو ضرورت پڑی تو حضرت اشرفی میاں پیش پیش رہے ۔ یہاں تک کہ انسداد شدھی تحریک میں بھی آپ کا بڑا اہم کردار ہے ۔

 ۱۳۵۳ھ سے اخیر عمر تک آپ (حضرت اشرفی میاں ) نے دار العلوم اشرفیہ کی سرپرستی فرمائی۔ اس ادارہ کی تمام خدمات آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

حضرت قاری محمد یحییٰ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ناظم دار العلوم اشرفیہ مبارکپور نے چہل سالہ رپورٹ جو آپ نے کل ہند تعلیمی کانفرنس مبارکپور میں پڑھ کر سنائی جس مجلس میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بھی موجود تھے جو کہ مئی ١٩٧٢ء میں منعقد ہوئی تھی اس رپورٹ میں لکھا ہے:

"حضرات! ایک نئے دور کے نقطہ آغاز پر پہنچ کر آج ان مقدس ہستیوں کی یاد میں ہماری آنکھیں پرنم ہوتی جا رہی ہیں جن کے مبارک ہاتھوں نے دارالعلوم اشرفیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔کاش آج وہ ہمارے درمیان ہوتے اور اپنے جذبہء اخلاص کی برکتوں کا یہ تماشا خود دیکھتے کہ کل ان کا جاری کیا ہوا چشمۂ فیض آج سمندر کی ناپیدا کنار وسعتوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔اس موقع پر دل نیاز کیش کا اصرار ہے کہ چند لمحے خاموش رہ کر اِس عظیم درس گاہ کے بانیوں اور سرپرستوں کے حضور میں ہم خراج عقیدت پیش کریں۔پس آئیے ہم مل جل کر ہاتھ اٹھائیں اور ناموس خانوادۂ اشرفیہ، قطب الوقت حضرت سرکار"سید علی حسین"اشرفی میاں صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ اور امین معارف برکاتیہ رضویہ فقیہ النفس حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام سیادت پناہ حضور"سید محمد اشرف"محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کی ارواح طیبات کو ہدیۂ ثواب نذر کریں۔(چہل سالہ رپورٹ، دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، ص: ٣، شائع کردہ مجلس استقبالیہ کل ہند تعلیمی کانفرنس، مبارکپور)

 

خود حافظ ملت اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ: جب حضرت 'اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ' نے بازار میں نئے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا تاریخی نام باغ فردوس(1353ھ) ہے اور یہ واقعی باغ فردوس ہے اس کا یہ نام آسمان سے اترا ہے تو اس کی پہلی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت 'اشرفی میاں علیہ الرحمہ' نے فرمایا: "جو اس'مدرسہ' کی ایک اینٹ کھسکائے گا خدا اس کی دو اینٹ کھسکائے گا۔" (ملفوظات حافظ ملت ص ٤٠ تا ٤١، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: ماہنامہ اشرفیہ جنوری-فروری، ١٩٨٣ء از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی)

 آپ (یعنی اشرفی میاں علیہ الرحمہ) حج سے تشریف لائے تو بیمار ہو گئے مجھے (یعنی حافظ ملت علیہ الرحمہ کو) معلوم ہوا تو فوراً کچھوچھہ مقدسہ زیارت کے لئے حاضر ہوا، حضرت نے دیکھتے ہی سب سے پہلے مدرسہ کے بارے دریافت فرمایا کہ مدرسہ چل رہا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور! مدرسہ چل رہا ہے، پھل رہا ہے، پھول رہا ہے، اس وقت تقریباً ستر طلبہ کو خوراک ملتی ہے- (ملفوظات حافظ ملت، ص ٤٠ تا ٤١، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: ماہنامہ اشرفیہ جنوری-فروری، ١٩٨٣ء)

اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے حافظ ملت علیہ الرحمہ کی عقیدت:

دارالعلوم معینیہ، اجمیر شریف کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت حافظ ملت، شیخ المشائخ اشرفی میاں قبلہ کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ قادریہ معمریہ میں بیعت ہوگئے تھے ۔ اس سلسلۂ مقدسہ میں غوث اعظم رضی اللہ عنہ تک صرف چار واسطے ہیں۔

جب حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں صدر المدرسین کی حیثیت سے تشریف لاۓ تو قریب قریب ہر سال حضور اشرفی میاں دار العلوم میں تشریف لایا کرتے تھے ۔ ایک بار جب آپ کی آمد ہوئی تو آپ نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کو خلافت دینا چاہی لیکن آپ نے اپنی منکسر المزاجی کی وجہ سے عرض کی کہ حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں ، میں خلافت کیسے لوں ؟ جوابا حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا: "داد حق را قابلیت شرط نیست"، اور خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا ۔

حضرت حافظ ملت ہر سال جامع مسجد راجا مبارک شاہ، مبارک پور میں ١١ رجب المرجب کو حضرت اشرفی میاں قبلہ کاعرس منعقد کیا کرتے تھے۔

حضرت مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: میں اور مولانا محمد احمد صاحب مصباحی بھیروی حضرت حافظ ملت کے حضور سلسلۂ معمریہ میں طالب ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ اس کے ذریعہ غوث پاک سے صرف چار واسطہ ہے اور روحانی فیوض و برکات سے محظوظ ہونے کا زیادہ موقع ملے گا، مقصد جان کر حضرت حافط ملت علیہ الرحمہ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ بڑی خصوصیتوں کے مالک تھے، ان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نہایت خوبصورت، وجیہ اور لانبے تھے، اب تک آپ جیسا چہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، آپ کا لقب شبیہ غوث اعظم تھا، حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کو عالم  خواب میں دیکھنے والوں نے اس کی شہادت دی ہے اور ان کے یعنی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے'شبیہ غوث اعظم' ہونے کا اقرار کیا ہے۔ (ملفوظات حافظ ملت ص ٧٠، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: قلمی یادداشت از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی۔ (یہ تحریر مختلف احباب کی اس حوالے سے لکھی تحریروں اور آن لائن معلومات سے مأخوذ ہے)

بشکریہ : محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

 

 

سرورا شاہا کریما دستگیرا اشرفا حرمت روح پیمبر اک نظر کن سوئے ما

 

ندزانہ عقیدت

بدرگارغوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی  علیہ الرحمہ

کلام: حضرت سید محدث اعظم ہند  ابوالمحامد سیدمحمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی نوراللہ مرقدہ

 سرورا                                                                                      شاہا                                                 کریما                                                                     دستگیرا                                                                               اشرفا

حرمت روح پیمبر                    اک نظر کن سوئے                ما

 اے شہ         سمناں و غوث العالم پیر و ہدیٰ

  صاحب         فضل                                 و              عطا                 سر     چشمۂ     جو           د و سخا
تیرے در پر تیرا
منگتا دست بستہ ہے کھڑا    
 لاج رکھ لے میرے داتا
میرے خالی ہاتھ کا

 سرورا                                                                                      شاہا                                                 کریما                                                                     دستگیرا                                                                               اشرفا

حرمت روح پیمبر                    اک نظر کن سوئے                ما

شہر  یار    اولیاء   اے  صاحب  عزوقار
   اے
    گل  باغ ولایت دونوں عالم کی بہار
ہوں خزانِ غم کے
ہاتھوں آجکل زار و قطار
تیری
چوکھٹ پر کھڑا ہوں ہاتھ باندھے اشکبار

 سرورا                                                                                      شاہا                                                 کریما                                                                     دستگیرا                                                                               اشرفا

حرمت روح پیمبر                    اک نظر کن سوئے                ما

اک طریقے  پر نہیں  رہتا کبھی دنیا کا  حال  
ہر                             کمال                             
  را                                               زوال                     ہر                                  زوال                                  را                                                              کمال
کٹ گئیں
فرقت کی راتیں اب تو ہو روز وصال
    ہاں                      نکل               اے               آفتاب             حسن               اے
                     مہر جمال

 سرورا                                                                                      شاہا                                                 کریما                                                                     دستگیرا                                                                               اشرفا

حرمت روح پیمبر                    اک نظر کن سوئے                ما

آگئے    ہیں اب عداوت پر بہت اہل زمن
     ایک
میں ہوں ناتواں اور لاکھ ہیں رنج ومحن
سیؔد                     محتاج             کی        سن لے               برائے پنجتن
   بول                                                         
   بالا                                     ہو                                                              تر    ا                                                    آباد                                                             تیری                              انجمن

 سرورا                                                                                      شاہا                                                 کریما                                                                     دستگیرا                                                                               اشرفا

حرمت روح پیمبر                    اک نظر کن سوئے                ما