شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید عثمان ہاروَنی چشتی علیہ الرحمہ

 

نام و نسب:

آپ کا نام عثمان، کنیت ابو النور، لقب شیخ الاسلام، آپ ہارون یا ہرون کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ہارونی کیا جاتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ تک پہنچتا ہے۔

ولادت باسعادت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 536ھ کو قصبہ ہارون یا ہرون خراسان میں ہوئی۔(اہل سنت کی آواز، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ)

ابتدائی تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، آپ کے والد ماجد جید عالم تھے۔

اعلیٰ تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔

بیعت و خلافت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ تحصیل علوم کی تکمیل کے بعد امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللہ کے دست حق پرست پرسلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے، اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔نیز حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔

جس دن حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ خلافت ملا، تو آپ کے پیرو مرشد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ نے کلاہ چارترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلے ترک دینا دوسرے ترک عقبیٰ (اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہوگا) تیسرے ترک کھانا اور سونا (مگر اتنا جس سے زندگی باقی رہے) چوتھا ترکِ خواہشِ نفس (یعنی جو کچھ نفس کہے اُس کے خلاف کیا جائے)  جو شخص ان چار چیزوں کو ترک کردیتا ہے اُسے ہی چار تر کی کلاہ پہننا ترتیب دیتا ہے۔

حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے پیر کی اجازت سے دنیا کی بڑی سیر و سیاحت کی۔ ایک دن ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کے تمام لوگ آتش پرست تھے، اُنہوں نے ایک بہت بڑا آتش کدہ روشن کیا ہوا تھا، آپ اُسی شہر میں ٹھہر گئے اور اپنےخادم فخرالدین کو کہا کہ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ کھانا پکالیں، فخرالدین آتش پرستوں کے پاس گیا اور تھوڑی سی آگ مانگی لیکن انہوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آتش تو ہمارا معبود ہے۔ اس آگ سے آگ دینا ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ خادم نے وہیں آکر حضرت خواجہ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ حضرت خواجہ بذاتِ خود تشریف لے گئے، اور آتش پرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ معبود حقیقی تو اللہ کی ذات ہے آگ اس کی مخلوق ہے اور اُسی نے بنائی ہے اس کی عبادت کرنا درست نہیں۔ اگر تم آتش پرستی سے توبہ کرلو تو دوزخ کی آگ سے رہائی پاؤ گے، انہوں نے کہا اگر آتش پرستی سے توبہ کرنا آگ سے رہائی کی دلیل ہے تو پہلے تم آگ میں چلے آؤ، اگر آگ نے تم پر اثر نہ کیا تو ہم توبہ کرلیں گے، حضرت خواجہ نے یہ بات سن کر وضو کیا دو رکعت نماز ادا کی اور آتش پرستوں کا ایک سات سالہ بچا اٹھاکر بڑی تیزی سے آگ میں داخل ہوگئے، دو گھنٹے تک آگ میں رہے لیکن آگ نے حضرت خواجہ اور اُس چھوٹے بچے پر اثر نہ کیا اور صحیح سلامت باہر آگئے آتش پرستوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت خواجہ کے مرید بن گئے حضرت خواجہ نے ان آتش پرستوں کے سردار کا نام عبداللہ رکھا اور چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اُنہیں مدارج اعلیٰ تک پہنچا دیا۔

 

عبادت و ریاضت:

حضرت خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔قرآن مجید کے حافظ تھے۔ روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کرلیتے۔

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔

ہندوستان آمد:

 حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دہلی تشریف لائے اور یہاں تقریباً دو ڈھائی سال قیام فرمایا۔ دہلی میں قیام کے دوران جب سلطان التمش کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔شیخ نے دعا فرمائی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے سلطان التمش کیلئے کتاب مرتب فرمانے کا حکم دیا۔

بارگاہ الٰہی میں مقبولیت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ جب نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمہاری نماز پسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمہارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے: الٰہی! مصطفیٰﷺ کی امت سے گناہ گاروں کو بخش دے۔آواز آتی کہ امت محمدﷺ کے تیس ہزار ۳۰۰۰۰ گناہ گار تمہاری وجہ سے بخشے، آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی۔

سیرت و خصائص:

قطب الاقطاب، ناصرالاسلام، عارف اسرار رحمانی، واصل ذات باری، محبوب صاحب لامکانی، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابرین امت اور کبار اولیاءکرام و مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ ،شریعت و طریقت، تصوف و معرفت میں مجمع البحرین تھے۔ تاریخ مشائخ چشت میں ہے: در علم شریعت و طریقت و حقیقت اعلم بود۔(بہار چشت)

کافروں کا قبول اسلام:

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ خواجہ عثمان ہارونی آدھی رات کے وقت گھر میں تشریف فرما تھے کہ 79 کافروں نے مشورہ کیا کہ آدھی رات کو خواجہ عثمان ہارونی کے پاس چلیں اور کہیں کہ ہم بھوکے ہیں۔ ہر ایک کو نئے طباق میں علاحدہ علاحدہ کھانا دیجیے اور ہر ایک کو جدا گانہ نوع کا۔ اس باہمی مشورے کے بعد جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا: اے آدم و حوا کے بیٹو! بیٹھ جاؤ اور ہاتھ دھو لو۔ پھر خودبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور ہر جنس کے مختلف کھانوں سے بھرے طباق جیسا کہ وہ لوگ سوچ کر آئے تھے غیب سے لیتے اور ان کے سامنے رکھ دیتے۔ وہ لوگ بھی مسلسل نظریں جمائے ہوئے دیکھتے رہے کہ طباق غیب سے آ رہے ہیں۔ خیر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: خداے تعالیٰ کی نعمت کھا لی؟ اب اس پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر ہم تمہارے خدا و رسول پر ایمان لے آئیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا خدائے تعالیٰ ہمیں بھی تمہاری طرح کر دے گا؟ فرمایا: میں غریب کس گنتی میں ہوں؟ خدائے تعالیٰ تو اس پر قادر ہے کہ مجھ سے ہزار درجے تمہیں بلند فرمائے۔ وہ سب ایمان لے آئے اور خواجہ صاحب کی مبارک صحبت میں رہ کر ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی ہو گیا، ان کی نظروں میں عرش بریں سے لے کر تحت الثریٰ تک سب منکشف ہو گیا۔

ایک بار بادشاہِ وقت نے حضرت خواجہ کو سماع سننے سےمنع کردیا بلکہ شہر کے تمام قوالوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی قوال کسی مجلس میں سماعکرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا، حضرت خواجہ نے بادشاہ کو کہا کہ سماع ایسی چیز ہےجو ہمارے پیروں کی سنت ہے ہمیں سماع سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سلطان نے کہا کہ پہلےسماع کے جواز میں علماء کرام کے ساتھ مناظرہ کریں، پھر دیکھا جائے گا، چنانچہ شہرکے علماء کی ایک مجلس برپا کی گئی جس میں بادشاہ بھی شریک ہوا، حضرت خواجہ اُس محفل میں تشریف لائے، علماء نے چاہا کہ سماع کے متعلق حضرت خواجہ سے بات کریں، مگروہ تمام کے تمام اپنے آپ کو بے علم محسوس کرنے لگے جو کچھ وہ جانتے تھے ان کےحافظے سے محو ہو چکا تھا حتی کہ الف سے لے کر یا تک تمام حروف بھول گئے۔ بادشاہ نےبڑا زور لگایا کہ علماء بات کریں مگر وہ گفتگو سے عاجز نظر آتے تھے آخر اس کے بغیرچارۂ کار نہ تھا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، وہ آہ و زاری کرنے لگے۔خدارا ہماری عمر کا حاصل شدہ علم برباد نہ کیا جائے آپ بزرگ ہیں اور سخی ہیں ہمارےحال پر رحم کریں اور اپنی نظرِ عنایت سے ہمارے علوم کو زندہ کردیں، حضرت خواجہ نےان کے گم شدہ علوم کو تو لوٹا دیا بلکہ ان پر باطنی علوم کے دروازے کھول دیے اسواقعہ کو دیکھ کر تمام علماء حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے، بادشاہ بھی پشیماں ہوا اور معذرت کرنے لگا اور اُس کے بعد کبھی سماع کی ممانعت نہ کی۔

معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ہمرقاب ہوکر دریا کے کنارے پہنچا۔ اتفاقاً اس وقت کوئی کشتی نہ تھی۔ حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ پھر ایک لحظے کے بعد فرمایا کہ اب کھول لو، جب میں نے آنکھیں کھولیں میں اور حضرت خواجہ دریا کے دوسرے کنارے کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا گم ہوگیا ہے مجھے کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے، وہ شخص گھر گیا لڑکے کو گھر پر موجود پایا وہ خوشی میں لڑکے کو ساتھ لے کر اُسی وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر پہنچ گئے، اس نے کہا میں جزائر الہند کے ایک جزیرے میں موجود تھے۔ آج ایک ایسے بزرگ جن کی صورت حضرت خواجہ سے ملتی جلتی ہے میرے پاس تشریف لائے مجھے کہا اُٹھو، میرے پاؤں پر پاؤں رکھو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میری آنکھیں کھلیں میں گھر میں موجود تھا۔

اُمّت کے گنہگاروں کی بخشش کا وعدہ

نقل ہے کہ جب حضرت اقدس نماز شروع کرتے تھے تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عثمان میں نے تجھے قبول کیا ہے اور پسند کیا ہے اب مانگو جو کچھ مانگو تاکہ تجھے عطا کروں۔ جب حضرت اقدس نماز سے فارغ ہوتے تو عرض کرتے کہ یا الٰہی میں تجھے دیا۔ خاطر جمع رکھو اور اس کے علاوہ جو کچھ طلب کرو مل جائے گا آپ جواب دیتے تھے کہ یاالٰہی محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت کے گنہگاروں کو بخش دے۔ آوازآتی تھی کہ میں نے امت محمدیہﷺ کے تیس ہزار گنہگاروں کو تمہاری بدولت بخش دیا۔ حضرت اقدس ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتے تھے اور ہر بار یہی جواب سنتے تھے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب الہام ربانی سے آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو سر پاؤں میں رکھ کر عرض کہ بندہ عثمان یہ چاہتا ہے کہ اپنے غلاموں میں شامل فرمالیں حضرت خواجہ بڑے لطف و کرم سے پیش آئے اور کلاہ چار ترکی اُن کے سر پر رکھی۔ بیعت کیا اور سر پر قینچی چلائی اس کے بعد فرمایا کہ عثمان چار ترکی کا مطلب یہ ہے کہ اوّل ترک دنا کرو، اہل دنیا کو اہل دنیا سے اجتناب کرو۔ اور اُن کو نزدیک نہ آنے دو۔ دوم یہ کہ خواہشات نفسانی ترک کرو۔ سوم جو کچھ نچس چاہے اس کے برعکس کرو۔ چہارم راتوں کو جاگو اور ذکر خدا میں مشغول رہو۔ ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلاہِ چار ترکی سر پر رکھے ؟؟؟؟؟؟

اللہ سے اٹھالے۔ اور جو کچھ حق تعالیٰ کے سوا ہے اُسے چھوڑ دے محبت کا بیچ اپنے دل میں بوئے اس وجہ سے حضرت سرور کائنات علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ کلاہ چار ترکی زیب تن فرمائی تو فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کلاہ سر پر رکھی تو اس شیر میدان نے بھی کمال فقر و فاقہ اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ان کااتباع کرتے ہیں تم بھی ان کی پیروی کرو۔ تاکہ قیامت کے دن اُن سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ نیز تم ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھو تاکہ سب میں بہتر بن جاؤ۔ خلق، تواضع اور عاجزی اختیار کرو تاکہ مقام درویشی تک پہنچ سکو۔ جو شخص یہ کام نہیں کرتا اس خرقہ کےلائق نہیں ہوتا۔ یہ خرقہ اس پر حرام ہوتا ہے۔ وہ اس طریق کا قطع کرنے والا ہے اور ہمارے مشائخ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے یہ تمام نصیحتیں قبول کرلیں۔ اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ تین چار سال کے بعد خلافت حاصل کرلی۔ نیز حضرت شیخ نے اسم اعظم جو مشائخ سے سیکھا تھا ان کو تعلیم کیا جس سے ظاہری وباطنی علوم آپ پر مکشوف ہوگئے۔ اور جو کچھ چاہتے تھے مل گیا۔

کافروں کا مسلمان ہونا اور ولی اللہ بن جانا

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت چند کافروں نے جمع ہوکر آپس میں کہا کہ ہم ابھی خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چل کر ان کو آزمائیں۔ اگر وہ ہمیں مطمئن کردیں تو ہمیں یقین ہوجائے گا کہ آج اُن کے برابر کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر شخص نے اپنے دل میں کھانے کی کوئی نہ کوئی قسم کی تمنا دل میں رکھ لی اور حضرت اقدس کی خدمت مین پہنچ گئے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ آگے آؤ۔ فرزندان آدم، خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جس شخص پر کرم فرماتا ہے اُسے بھی غیب سے مطلع فرماتا ہے۔ آپنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اور خادم کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ دھلاؤ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور ہر مرتبہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر عالم غیب سے طعام کا ایک طبق لیا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سرے سے رکھتے گئے اور جس شخص نے جس چیز کی خواہش کی تھی۔ اس کے سامنے پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کین عمت کھاؤ۔ جب انہوں نے طعام کھایا تو اس قدر لذیز تھا کہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے طعام کھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سخت حیران ہوئے کچھ دیر کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ اے خواجہ یہ بات تو ہم کو معلوم ہوگئی کہ آپ جیسا باعظمت اور ان کمالات کا مالک کوئی بزرگ نہیں ہے اب یہ فرمادیں کہ اگر ہم خدا عزوجل کی وحدانیت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں آپ کا خدائے بزرگ ہم کو بھی آپ کی طرح صاحب نعمت کردے گا یا نہیں۔ آپ نے فرمایا میں بیچارہ کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ اگر وہ لطف و کرم کی نگاہ فرمائے تو مجھ سے ہزار مرتبہ زیدہ بزرگ بنا سکتا ہے۔ یہ سنکر وہ سب مسلمان ہوگئے اور مرید ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک پر عرش سے تحت الثریٰ تک مکشوف ہوگیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں اولیائے کامل بن گئے۔

کتاب گنج الاسرار کی عیادت سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو اپنے مرید حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے اس قدر محبت تھی۔ کہ ان کو ملنے کی خاطر آپ دہلی تشریف لائے اور چند روز دونوں بزرگ اکٹھے رہے۔ لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے اس وجہ سے کہ کتاب گنج الاسرار کو بعض مجاوروں نے جمع کیا ہے، جو غیر معتبر ہیں۔ حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ قول صحیح یہ ہے۔ کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی طویل مسافت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور معتکف ہوگئے۔ وہاں آپ نے حضرت رب العزت سے دو مقاصد کے لیے دعا کی۔ ایک یہ کہ میری قبر مکہ معظمہ میں ہو۔ اور اس کا نشان بر قرار رہے تاکہ لوگ فاتحہ پڑھتے رہیں کیونکہ مکہ معظمہ میں یہ رسم ہے کہ وہاں کسی کی قبر کا نشان نہیں رکھا جاتا۔ اور برابر کردیتے ہیں۔ دوسری دعا یہ تھی کہ میرے فرزند معین الدین جس نے مدت تک مقام تجرید و تفرید میں اس بندہ کی خدمت کی ہے اس کو اس قسم کی ولایت ملے جو کسی اور عطا نہ ہوئی۔ ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمہاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان بر قرار رہے گااور معین الدین کو ہم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی ہے جو اس وقت تک کسی اہل اسلام نہیں ملی۔ لیکن پہلے وہ مدینہ جائے اور محمد مصطفیﷺ سے اجازت لے کرآجائے۔ اس پر خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے تمام مشائخ کی امانت اور اسمائے عظام اور خرقہ خلافت خواجہ بزرگ معین الدین کو دیکر مدینہ منورہ کی جانب رُخصت فرمایا۔ آنحضرتﷺ کمال شفقت سے ولایت ہندوستان آپ کو عطا فرمائی جس کی تفصیل آپ کے ذکر خیر میں آرہی ہے۔ آپ کو یہ بھی فرمایا گیا کہ تمہارا مسکن اجمری ہوگا۔ تم وہاں جاکر رہو۔ تمہارے وجود سے ہندوستان میں دین اسلام استقامت پذیر ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اور حضرت خواجہ بزرگ نے ہندوستان کے راجہ رائے پھتوار کی بیخ نکال دی اور اس کی جگہ سلطان معز الدین سام (شہاب الدین غوری) کو استقامت بخشی۔ اُس وقت سے آج تک کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ اور اسلام کو وہ ترقی حاصل ہوئی کہ تاریخ گواہ ہے۔

وصال و مدفن:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے بقیہ عمر مکہ معطمہ میں بسر فرمائی اور باطن میں حضرت خواجہ بزرگ کے احوال کی طرف متوجہ رہے اور حق تعالیٰ سے ہمیشہ اُن کے لیے دعا مانگتے رہے جب ان کی طرف سے خاطر جمع ہوئی حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا وصال 5 شوال المکرم 617ھ مطابق 3 ستمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔

آپ علیہ الرحمہ  کو مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ کے قریب سپرد خاک کیا  گیا۔اور آج تک مرجع خلائق ہے۔

 


حضرت سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ

 

نام ونسب: سید موسیٰ

 کنیت: ابو صالح

لقب: جنگی دوست

 سلسلہ نسب :

سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سید ابو عبد اللہ الجیلانیبن سید یحییٰ زاہدبن سید محمدبن سید داؤدبن سید موسیٰ ثانیبن سید عبد اللہبن سید موسیٰ الجونبن سید عبداللہ المحضبن سید حسن المثنیٰبن سیدنا امام المتقین سیدنا امام حسن علیہ السلام بن امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم

تاریخِ ولادت:

آپ  علیہ الرحمہ کی ولادت بروز اتوار 27/رجب المرجب 400ھ، بمطابق 9/اپریل 1048ء کو گیلان عربی میں ("جیلان" ایران کے صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے،جو آذربائیجان کے ساتھ ہے) میں ہوئی۔

تحصیل علم:

آپ علیہ الرحمہ تمام علوم وفنون میں کامل و اکمل تھے۔ علوم کی تحصیل و تکمیل اور اسی طرح روحانی تعلیم وتربیت اپنے والدِ گرامی سید عبد اللہ الجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت علما ِ ربانیین میں سے تھے۔

بیعت وخلافت:

آپ علیہ الرحمہ اپنے والد گرامی سید عبد اللہ جیلانی کے مرید و خلیفہ تھے۔

 

جنگی دوست کی وجہ تسمیہ:

"جنگی دوست" لقب ہونے کی وجہ "قلا ئد الجواہر" میں یہ ہے کہ آپ جہاد فی سبیل اللہ کو دوست رکھتے تھے۔" ریاض الحیات "میں اس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیۂ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس مجاہدہ نفس میں مکمل ایک سال تک قطعی کھانا پینا ترک فرما دیا تھا۔ ایک سال گذر جانےکے بعد جب ذرا کھانے کی خواہش محسوس ہوئی ،تو ایک شخص نے عمدہ غذا اور ٹھنڈا پانی لاکر پیش کیا آپ نے اس ہدیہ کو قبول فرما لیا لیکن فوراًٍٍ فقر اء ومساکین کو بلا کر اسے تقسیم کر دیا اور اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا !

اے نفس تیرے اندر ابھی غذا کی خواہش باقی ہے؟ تیرے واسطے تو جو کی روٹی اور گرم پانی بہت ہے۔ اسی کیفیت میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف فرما ہوئے اور فرمایا آپ پر سلام ہو۔ خدائے قدیر نے آپ کے قلب کو جنگی

(نفس و کفار سے لڑنے والا ) اور آپکو اپنا دوست بنالیا ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ افطار کروں ۔ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جس قدر کھانا تھا اسی کو دونوں حضرات نے تناول فرمایا۔ تب سے آپ کا لقب " جنگی دوست" ہو گیا۔

دیگر کتب تواریخ میں یہ بھی درج ہے کہ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ خالصۃً الله عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ الله علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ رحمۃ الله علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ الله علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا،

 تو خلیفہ نے کہا: سید موسیٰ (رحمۃ الله علیہ) کو فوراً میرے دربار میں پیش کرو۔چنانچہ حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا۔

خلیفہ نے للکار کر کہا: آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کردیا؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے فرمایا:

میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔

خلیفہ نے کہا: آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا: جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔

آپ رحمۃ الله علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہوگیا (یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا:

حضور والا! امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے ارشاد فرمایا: تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اور ذلت سے بچانے کی خاطر۔

خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: عالیجاہ!

آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں۔

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔اُسی دن سے آپ جنگی دوست کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(سيرت غوث الثقلين صفحہ: ۵۲)

سیرت وخصائص:

عالم ربانی، والد غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانی حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ ۔ آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔ہر وقت ذکر و اذکار ، وعظ و نصیحت ، مجاہدۂ نفس ، اور دینِ متین کی نشرواشاعت اور جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول رہتے تھے۔ آپکا چہرہ مبارک انوار بانی کا مرقع تھا ۔ جسے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ جس محفل میں آپ رونق افروز ہوتے تووہ محفل منور ہو جاتی تھی۔ زبان میں بلا کی فصاحت اور شیرنی تھی ۔ جب تک آپ وعظ کا سلسلہ جاری رکھتے تھے، حاضرین سوائے انتہائی مجبوری کے مجلس وعظ سے جنبش بھی نہیں کرتے تھے۔

آپ کا تقویٰ اور مشہور واقعہ:

منقول ہے کہ حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ ایک سیب بہتا ہوا آیا ، آپ نے اسےکھا لیا ۔ سیب کھانے کے بعد آپ پر خوفِ خدا کا غلبہ ہوا اور آپ  اپنا محاسبہ کرنے لگے کہ نہ جانے یہ سیب کس کا تھا ؟ اور کیا اس طرح نا معلوم سیب کھانا میرے لئے حلال ہوسکتا ہے؟ یہ خیال پیدا ہوتے ہی آپ اپنا قصور مُعاف کروانے کیلئے سیب کے مالک کی تلاش میں دریا کے کِنارے کِنارے چل دئیے۔ ایک لمبا سفرکرنےکےبعد آپ علیہ الرحمہ کو دریا کے قریب ایک نہایت عظیم الشان عمارت نظرآئی، جس میں سیب کا ایک بہت بڑا درخت لگا ہوا تھا، جس کی شاخوں پر پکے ہوئے سیب لگے ہوئے تھے اور سیبوں سے بھری یہ شاخیں پانی پر پھیلی ہوئی تھیں۔آپ کو یقین ہوگیا کہ جو سیب میں نے کھایا تھا ،وہ اسی درخت کا ہے ،چنانچہ آپ نے لوگوں سے اس درخت کے مالک کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اس باغ کے مالک تو اپنے زمانے کے مشہور عابد و زاہد حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ ہیں۔

حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ:

حضرت علامہ شیخ ابو محمدالداربانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کی دعائیں بہت جلد قبول ہوجاتی تھیں ۔آپ کا مقام و مرتبہ بارگاہِ الٰہی میں اتنا بلند و بالا تھا کہ اگر آپ کسی شخص سے(کسی شرعی وجہ کے سبب کبھی )ناراض ہوجاتےتو اللہ کریم اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سےآپ علیہ الرحمہ خوش ہوجاتے تو اللہ پاک اس کو انعام و اکرام سےنوازتا ۔آپ کا جذبہ جوانوں سے زیادہ پُر جوش تھا جسمانی کمزوری کے باوجود بھی آپ کثرت سے نوافل ادا فرماتے اور ذکرو اَذکار میں مشغول رہتےتھے ۔اللہ پاک کی عطا سے آپ علیہ الرحمہ ،نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے اکثر  غیب کی خبریں بتا دیا کرتے تھے اور جیسا آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا ہوتا حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو جایا کرتا تھا، بِلاشبہ یہ آپ علیہ الرحمہ کی ایک شاندار کرامت تھی۔)بہجۃ الاسرار ،ذکر نسبہ وصفتہ، ص۱۷۲ملخصاً(

بہرحال جب حضرت سیدنا موسیٰ جنگی علیہ الرحمہ کو باغ کے مالک حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کے متعلق علم ہوگیا تو آپ  علیہ الرحمہ بغیر کسی تاخیر کےان کی خِدمتِ بابرکت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا عَرض کرنےکےبعدان سےمُعافی چاہی۔حضرت عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ چونکہ ولایت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے، لہٰذا آپ بھانپ گئے کہ یہ شخص اللہ کریم کےمقبول بندوں میں سے ایک بندہ ہے، جبھی تو اپنا قصور معاف کروانے کی خاطر اتنا لمبا سفر کرکے یہاں تک آیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ نے آ پ کی بات سُن کر فرمایا:بارہ (12)برس ہماری خدمت میں رہو گے، تب ہی معافی ملے گی ،قربان جائیے! حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ پر جنہوں نے بغیر کسی بحث و تکرار کئے،اس شرط کو بخُوشی منظور فرما لیا اگر چہ شرعاً اس طرح قصور مُعاف کروانا لازم نہ تھا اوربارہ(12)سال تک آپ  علیہ الرحمہ کی صحبت ِ بابرکت میں رہ کر آپ کی خدمت کرتے رہے۔جب 12سال پورے ہوگئے تو اگلا امتحان آپ کا استقبال کرنے کے لئے تیار تھا اور اس دفعہ کا امتحان شاید پچھلے امتحان سے عجیب اور سخت تھا، وہ یہ کہ ولیِ کامل حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ نے آپ سےفرمایا ! ایک خِدمت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میری ایک لڑکی ہے، جس میں چار(4)عیب ہیں:

(1)آنکھوں سے اندھی ہے

(2)کانوں سے بہری ہے،

(3) ہاتھوں سے معذور ہے اور

(4)پاؤں سے لنگڑی(اپاہج)ہے،

تمہیں اس سے نکاح بھی کرنا ہوگا اور دو سال تک مزید میری خدمت بھی کرنی ہوگی، اس کے بعد جہاں تمہارا جی چاہے چلے جانا۔

حضرت سیدنا ابو صالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ  چونکہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ خوف خدا کے پیکر اور مذہبی سوچ رکھنے والے تھے،لہذا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کو بھی قبول فرمالیا، اب آپ کا دوسرا امتحان بهی شروع ہوگیا، حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی شہزادی کا نکاح آپ علیہ الرحمہ  سے کر دیا، نکاح کے بعد جیسے ہی اپنی زوجہ سے آپ کا آمنا سامنا ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوگئے کیونکہ نگاہوں کے سامنے جو منظر دکھائی دے رہا تھا وہ بنائی گئی۔ صورت حال کے بالکل ہی الٹ تھا، کیا دیکھتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ محترمہ کے تو تمام ہی اعضا صحیح و سالم ہیں اور ان کے حسن و جمال کے آگے چودہویں رات کا چاند بھی شرما رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کرآپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی نئی نویلی دلہن کے قریب تک نہ گئے بلکہ وہیں سے واپس پلٹ آنے اور حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ سے ماجرا بیان کیا۔

انہوں نے فرمایا: پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔تمہاری زوجہ  وہی ہے جسے تم ابھی ابھی دیکھ کر آرہے ہو بات دراصل یہ ہے کہ میں نے اپنی لڑکی کی جو جو باتیں تم سے بیان کی تھیں وہ سب کی سب اس میں موجود ہیں۔

"وه انکھوں سے اندھی ہے"اس سے مراد یہ ہے کہ نامحرم کے لئے اس کی آنکھیں اندھی ہیں۔

"کانوں سے بہری ہے "اس سے مراد یہ ہے کہ ناحق بات سننے کے لئے اس کی کانیں بہرے ہیں ۔

"ہاتھوں سے معذور ہے" اس سے مراد یہ ہے کہ غیر مردوں کو چھونے کیلئے اس کے ہاتھ معذور ہیں"

"پاؤں سے معذور ہے"اس سے میری مراد یہ تھی کہ اپنے شوہر کے حکم کے خلاف قدم اٹھانے کیلئے اس کے پاؤں لنگڑے ہیں۔

جب آپ علیہ الرحمہ  نے حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمۃ  اللہ علیہ کی زبانی اپنی نئی نویلی دلہن کے منطق وضاحتیں سنیں تو آپ کے دل کو قرار آگیا، آپ کے دل میں اپنی زوجہ کی اہمیت اجاگر ہو گئی اور اللہ پاک کے فضل وکرم سے آپ کو اپنے زمانے کے زبردست ولی اللہ کی بہت سی اچھی خوبیوں سے آراستہ خوبصورت اور خوب سیرت بیٹی کا شوہر بننے کا شرف نصیب ہوا۔(سیرت غوث اعظم ، ص ۳۶ ملخصا)

وصال مبارک:

بروز جمعۃ المبارک11/ذوالقعدہ 489ھ، بمطابق 30/اکتوبر 1096ء کو آپ کاوصال ہوا۔آپ کامزار "گیلان" (ایران) میں ہے۔(حوالہ جات: سیرتِ غوث الاعظم، سیرتِ غوث الاعظم۔تذکرہ قادریہ۔تذکرہ مشائخِ قادریہ۔تذکرہ مشائخ قادریہ)


Sarwar e Kayinat Huzoor Ahmad e Mujtaba Muhammad Mustafa ﷺ


 Huzoor Imam ul Awliya, Sarwar e Anbiya, Baais e Ijaad e Aalam, Fakhr e Maujudat, Mehboob e Rabbul Aalameen, Rahmat ul lil Aalameen, Shafi ul Muznibeen, Manba e Faiz e Anbiya Wa Mursaleen, Ma'dan e Uloom e Awwaleen Wa Aakireen, Waseeta e Par Fazl o Kamal, Mazhar e Par Husn o Jamaal Aur Khalifa e Mutlaq Wa Naaib e Kul Hazrat e Baari Ta'ala Jalla Jalaluhu Ke Hain. 

 Aap  Ka Nasab Shareef:

Huzoor Syedna Muhammad  Bin Abdul Allah Bin Abdul Muttalib Bin Hashim Bin Abdul Manaf Bin Qusai Bin Kilab Bin Murrah Bin Kaab Bin Luwai Bin Ghalib Bin Fihr Bin Maalik Bin Nadhir Bin Kinanah Bin Khuzaimah Bin Mudrikah Bin Ilyas Bin Mudar Bin Nizaar Bin Maad Bin Adnan Aur Walida Maajida Ki Taraf Se Huzoor Ka Shajra Shareef Ye Hai: Hazrat Muhammad  Bin Aaminah Bint Wahb Bin Abdul Manaf Bin Zuhrah Bin Kilab Bin Murrah.  (Sahih Al Bukhari) 

Kunniyat:                 Abu Al Qasim.

Walida Ka Naam:    Aaminah Bint Wahb. 

Wiladat:                  Baroz Dushanba 12/ Rabi ul Awwal Aam ul Feel.

Walid e Majid Ka Inteqaal Wiladat Se Qabal Hi Bahalat e Safar Madina Munawwarah Mein Ho Chuka Tha. Aap  Ki Kifalat Aap Ke Dada Abdul Muttalib Ne Ki Aur Haleema Sa’diyah Ne Doodh Pilaya. Phir Jab Aap  Ki Umar Mubarak 6 Saal Ki Hui To Aap Ki Walida Maajida Aap Ko Madina Aap Ke Nanhaal Le Gayi, Wapsi Mein Ba Maqam Abwa Unka Inteqaal Hua Aur Aap  Ki Parwarish Umm e Aiman Ke Supurd Hui. Jab Aap 8 Saal Ke Hue To Dada Ka Saya Bhi Sar Se Uth Gaya, Kifalat Ka Zimma Aap Ke Chacha Janab e Abu Talib Ne Liya. 9 Saal Ki Umar Mein Chacha Ke Saath Shaam Ka Safar Kiya. Aap  Yateem Paida Hue The Aur Mahol Wa Muashra Sara But Parast Tha; Magar Aap Baghair Kisi Zaahiri Taleem Wa Tarbiyat Ke Na Sirf Un Tamaam Aalaishon Se Paak Saaf Rahe; Balke Jismani Taraqqi Ke Saath Saath Aqal Wa Fehm Aur Fazl o Kamal Mein Bhi Taraqqi Hoti Gayi; Yahan Tak Ke Sab Ne Yaksa Wa Yak Zubaan Ho Kar Aap Ko Sadiq Wa Ameen Ka Khitaab Diya. Bachpan Mein Chand Qiraat Par Ahl e Makkah Ki Bakriyan Bhi Charayi; Aur 25 Saal Ki Umar Mein Shaam Ka Dosra Safar Hazrat Khadijatul Kubra رضی اللہ عنہا Ki Tijarat Ke Silsile Mein Kiya Aur Is Safar Se Wapsi Ke Do Maah Baad Hazrat Khadijatul Kubra رضی اللہ عنہا Se Aqd Hua. 35 Saal Ki Umar Mein Quraish Ke Saath Tameer e Kaaba Mein Hissa Liya Aur Pathar Dhoiye, Hajar e Aswad Ke Baare Mein Quraish Ke Uljhe Hue Jhagde Ka Hakeemana Faisla Kiya Jis Par Sabhi Khush Ho Gaye. Baad Mein Aap Ko Khalwat Pasand Aayi; Chunanchah Ghaar e Hira Mein Kai Kai Raatein Ibadat Mein Guzar Jaati Thi. 

Ailan e Nabuwat Se Pehle Aap  Sachay Khwab Dekhnay Lage, Khwab Mein Jo Dekhte Wohi Hota. Jab Umar Mubarak 40 Ko Pahunchi To Allah Ta'ala Ne Aap Ko Ailan e Nabuwat Ka Hukm Diya, Aap  Ghaar e Hira Mein The Ke Jibreel علیہ السلام Surah Iqra Ki Ibtidaai Ayatain Le Kar Naazil Hue. Us Ke Baad Kuch Muddat Tak Wahi Ki Aamad Band Rahi, Phir Lagataar Aane Lagi. Wahi Asmani Aap Tak Pahunchane Ke Liye Jibreel e Ameen علیہ السلام Ka Intikhab Hua Jin Ko Hamesha Se Ambiya علیہم السلام Aur Baari Ta'ala Ke Darmiyan Waseeta Ban ne Ka Sharaf Haasil Tha Aur Jin Ki Sharafat, Quwwat, Azmat, Buland Manzilat Aur Amanat Ki Khud Allah Ne Gawahi Di Hai.  Is Wahi e Ilahi Ki Roshni Mein Aap  Ki Aisi Tarbiyat Hui Ke Aap  Har Aitbaar Se Kaamil Ban Gaye. Aur Aap  Ki Zindagi Ka Har Pehlu Ummat Ke Liye Ek Behtareen Uswah Hasanah Ban Kar Samnay Aaya. Ummat Ke Har Fard Ke Liye Bil Khusoos Aam Logon Ke Liye Bhi Aap  Ki Hayaat Wa Zaat Mubarakah Ek A'la Misaal Hai, Jise Wo Samne Rakh Kar Zindagi Ke Har Shobay Mein Mukammal Rehnumai Haasil Kar Saktay Hain. 

Pehla Daur: Teen Baras Tak Huzoor  Poshida Tor Par Aur Raazdaari Ke Saath Da'wat Wa Tableegh Ka Fareeza Ada Farmaate Rahe, Is Darmiyan Mein Sabse Pehle Ibtidaai Da'wat Par Auraton Mein Hazrat Khadijatul Kubra رضی اللہ عنہا, Mardon Mein Hazrat Abu Bakr Siddiq رضی اللہ عنہ, Bachon Mein Hazrat Ali رضی اللہ عنہ, Azaad Shuda Ghulamon Mein Hazrat Zaid Bin Harithah رضی اللہ عنہ Aur Ghulamon Mein Hazrat Bilal رضی اللہ عنہ Sab Se Pehle Imaan Laye, In Ke Baad Bohat Se Azaad Aur Ghulam Is Daulat Se Bahra Mand Hue. Sab Se Pehle Islam Laanay Wale Jo Sabiqeen e Awwaleen Ke Laqab Se Sarfaraz Hue. 

Dosra Daur: Teen Saal Ke Baad Is Khufia Da'wat Se Musalmanon Ki Ek Jamaat Tayyar Ho Chuki Thi, Is Ke Baad Allah Ta'ala Ne Aap  Par Surah Shoara Ki Ayat e Mubarakah Naazil Farmaayi: Wa Andhir A'sheerataka Al Aqrabeen. Aap  Ko Alania Da'wat Wa Tableegh Ka Hukm Hua Chunanchah Aap  Ne Koh e Safa Ki Choti Par Khade Ho Kar Qabeela Quraish Ko Pukara. Jab Sab Quraish Jama Ho Gaye To Aap  Ne Irshaad Farmaya Ke Tumhain Allah Ke Azaab Se Darta Hoon Agar Imaan Nahi Lao Gay To Tum Par Azaab e Ilahi Utaray Ga. Tamaam Qaum Ko Sirf Allah Ta'ala Ki Ibaadat Karne Aur But Parasti Chhodne Ki Puri Quwwat Se Da'wat Di. Yeh Sun Kar Tamaam Quraish Jin Mein Aap Ke Chacha Abu Lahab Bhi Maujood Tha, Sakht Naraaz Hue Aur Shan e Risalat Ka Inkaar Kiya. 

Teesra Daur: Ab Waqt Aagaya Ke Ailan e Nabuwat Ke Chauthe Saal Surah Hijr Ki Ayat: Fasda' Bima Tu'maru Wa A'ridh Anil Mushrikeen Naazil Farmayi Aur Mehboob e Haq  Ko Yeh Hukm Farmaya Ke Is Da'wat e Haq Ko Alaan e Aama Mein Bayan Farmaiye. Jab Aap Arlaniya Taur Par Deem e Mubeen Ki Dawaat Farmane Lage. Shirk o But Parasti Ki Khullam Khulla Burayi Farmayi. Tamaam Quraish, Ahl e Makkah, Tamaam Kuffar o Mushrikeen Aap Ki Mukhalifat Me Jama Ho Gye Aur Ezaa Rasaniyon Ka Aek Taulani Silsila Shuru Ho Gya. Kuffar e Makkah Khandan Banu Hashim Ke Inteqam Aur Ladai Bharak Uthne Ke Khauf Se Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Qatal Karne Ki Himmat To Na Kar Sake, Magar Tarah Tarah Ki Takaleef Aur Eza Rasaniyon Se Aap Par Zulm O Sitam Ke Pahaad Todne Lage. Har Kocha O Bazaar Mein Propaganda Shuru Kar Diya Kuffar Mushrikeen Ne Aap Par Aur Islam Qabool Karne Wale Musalmanon Par Itne Mazalim Dhaye Ke Jin Ke Tasavvur Se Rooh Kanp Uthti Hai. Kuffar O Mushrikeen Is Baat Par Musir The Ke Musalmanon Ko Itna Tang Karo Ke Wo Islam Ko Chor Kar Phir Shirk O Kufr Mein Mubtala Ho Jayen. Isliye Qatal Karne Ke Bajaye Har Tarah Ke Zulm O Sitam, Sazaon, Aur Eza Rasaniyon Aur Jaansooz Azaabon Ke Sath Sataate The. Magar Khuda Ki Qasam! Mahboob e Khuda Ne Unhein Sharab e Tauheed Ke Wo Jaam Pila Rakhe The Ke In Farzandaan e Tauheed Ne Istiqlal, Istiqamat Ka Wo Manzar Paish Kar Diya Ke Pahadon Ki Chotiyaan Sar Utha Kar Hairat Se In Bala Kashaane Islam Ke Jazba, Quwat e Imani Ke Sath Istiqamat Ka Nazarah Karti Rahin. Be Rehm, Sangdil, Darinda Sifat Kafiron Ne In Ghareeb, Be Kas Musalmanon Par Jabro Karah Zulm O Sitam Ka Koi Daqeeqa Baqi Na Chhoda Magar Ek Bhi Musalman Ke Paaye Istiqlal Mein Tazalzul Nahin Aaya.

          Ailan e Nabuwat Ke Saatwen Saal Kuffar e Makkah Ne Jab Dekha Ke Islam Roz Baroz Phailta Ja Raha Hai To Ghaiz O Ghazab Mein Aapay Se Bahar Ho Gaye. Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ke Khandan Ke Sath Mukammal Social Boycott Kar Diya Gaya Aur Quraish Ne Banu Hashim Aur Banu Abdul Muttalib Ke Khilaf Ek Muaahida Par Dastakhat Kiye Ke Jab Tak Ye Log Aanhazrat Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Hamare Hawalay Nahin Karte, Us Waqt Tak In Se Har Qisam Ka Muqata'a Kiya Jayega. Iske Natije Mein Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Apne Khandan Aur Chacha Abu Talib Ke Sath Shaib e Abu Talib Mein Teen Saal Mehsoor Rahe. Teen Saal Ka Zamana Itna Sakht Aur Kathin Tha Ke Sangdil Aur Zalim Kuffar Ne Har Taraf Pehra Bitha Diya Tha Ke Kahin Se Bhi Ghaati Ke Andar Khanay Peenay Ka Samaan Jane Na Paye. Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Aur Khandan e Banu Hashim In Hosh Ruba Masaaib Ko Jheeltay Rahe.       

Muaahida Ki Dastawaizat Ko Deemak Ne Kha Liya. Hazrat Abu Talib Ne Logon Ko Aagah Kiya Ke Mera Bhatija Kehta Hai, Muaahida Ki Dastawaizat Ko Deemak Kha Gayi Hai, Jahan Khuda Ka Naam Likha Hua Tha Wo Hissa Bach Gaya Hai. Ye Sun Kar Mut'im Bin Adi Kaaba Ke Andar Gaya Aur Dastawaiz Utaar Laaya. Waqai Bajuz Allah Ke Naam Ke Saari Dastawaiz Keeron Ne Kha Li Thi. Iske Baad Ye Muhasra Khatam Hua. Mansur Bin Akrama Jisne Ye Dastawaiz Likhi Thi, Us Par Qahr e Ilahi Toot Pada Aur Uska Haath Shal Ho Kar Naakara Ho Gaya.

Isi Saal Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ke Chacha Abu Talib Shaib e Abu Talib Se Nikal Kar Ghar Jab Aaye To Hazrat Abu Talib Shadeed Illat Ke Baad Intiqal Kar Gaye. Chacha Abu Talib Ki Wafat Ke Baad Aap Bohat Maghmoom Rehne Lage Aur Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ki Ghamgusar Zaujah Mutahhara Hazrat Khadijah Al Kubra Razi Allah Anha Ki Wafat Hui. Abhi Abu Talib Ke Intiqal Ka Zakhm Taaza Tha Ke Makkah Mein Abu Talib Ke Baad Jis Hasti Ne Rahmat e Aalam Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ki Nusrat Aur Himayat Mein Tan, Man, Dhan Sab Kuch Luta Diya Wo Hazrat Khadijah Thi. Jab Duniya Mein Aap Ka Koi Mukhlis O Ghamkhwar Nahin Tha, Ye Dono Hastiyaan Aap Ke Sath Jan Nisaar Aur Madadgar Rahi. Ab Dono Is Duniya Mein Na Rahe. Aap Ke Qalb e Mubarak Par Itna Sadma Guzra Ke Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ne Is Saal Ka Naam Aam ul Huzn Rakh Diya. Quraish Ki Eza Rasani Aur Barh Gayi. Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ahl e Taaif Ki Tableegh Ke Liye Tashreef Le Gaye, Unhone Ek Bhi Na Suni Balki Ulta Dar Paay Eza Hue. Isliye Ye Saal Aam ul Huzn (Gham Ka Saal) Kahlata Hai.

 11 Nabuwat: Isi Saal Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Mairaj Hui. Panj Gana Namaz Farz Hui. Aanhazrat Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ne Hajj Ke Mauqe Par Arab Ke Mukhtalif Qabail Ko Dawat Di. Chunancha Madina Ke Qabeela Khazraj Ke 6 Aadmi Musalman Hue.

12 Nabuwat: Is Saal Aws Aur Khazraj Ke 12 Afraad Ne Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Se Bait Ki. Ye Bait Aqaba Oola Kehlati Hai.

 13 Nabuwat: Is Saal Madina Ke 70 Mardon Aur 20 Aurton Ne Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Se Bait Ki. Ye Bait Aqaba Saniya Kehlati Hai.

 Madina Mein Islam Ki Roshni Ghar Ghar Phail Chuki Thi. Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ne Sahaba Kiram Alaihimur Rizwan Ko Hijrat e Madina Ka Hukm Farmaaya. Quraish Ko Pata Chala To Unhon Ne Dar ul Nadwa Mein Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Qatal Karne Ka Napak Mansooba Banaya Aur Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ke Ghar Ka Muhasra Karliya. Allah Ta’ala Ne Unka Ye Mansooba Khaak Mein Mila Diya. Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Hijrat Ka Hukm Hua. Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Kafiron Ke Ghere Se Ba Itminan Nikle Aur Hazrat Abu Bakr Razi Allah Anhu Ke Ghar Pahunche, Un Ko Sath Le Kar Ghaar e Thawr Tashreef Le Gaye. Yahan 3 Din Rahe, Phir Hijrat Farmaayi Aur Madina Ki Nawahi Basti Quba Pahunche. Yahan Se Islam Ka Ek Naya Daur Shuru Hota Hai. Quba Mein 14 Din Qayam Raha, Wahan Ek Masjid Banayi. Wahan Se Madina Tayyiba Muntaqil Huye. Hazrat Abu Ayyub Ansari Razi Allah Anhu Ke Ghar Qayam Farmaaya. Masjid e Nabwi Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ki Tameer Farmaayi, Azaan Shuru Hui Aur Jihad Ka Hukm Hua.

Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Aur Aap Ke Ashab Apna Sab Kuch Makka Mein Chor Kar Be Sar o Samani Ki Haalat Mein Madina Aaye Thay. Is Par Bhi Kuffar e Makka Raazi Na Huye. Madina Mein Bhi Sukh Ka Sans Na Lene Diya. Ahl e Madina Ke Bhi Jaan Ke Dushman Ho Gaye. Ab Tak Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ko Allah Ki Taraf Se Ye Hukm Tha Ke Logon Ko Islam Ki Dawat Dijiye Aur Kuffar O Mushrikeen Ki Ezaaon Par Sabr O Tahammul, Bardasht Ka Hukm Tha. Isi Liye Musalmanon Par Kuffar Ne Baday Baday Pahaad Tod Diye Magar Musalmanon Ne Kabhi Apne Difa Mein Hathiyar Nahin Uthaya. Lekin Hijrat Ke Baad Jab Kuffar O Mushrikeen Musalmanon Ke Jani Dushman Ho Gaye Aur Unka Jeena Doobhar Kar Diya, Ab Rab e Zuljalal Ne Musalmanon Ko Ye Ijazat Di Ke Jo Log Tum Se Jung Ki Ibtida Karo Tum Bhi Unse Lar Sakte Ho.

 

Allah Ta’ala Ne Zameen O Aasman (Ya’ni Nizaam e Aalam) Ko Jis Haalat Par Paida Kiya Tha, Zamana Apne Halaat O Waqiyaat Ka Daira Mukammal Karne Ke Baad Phir Us Maqam Par Dobara Aagaya Hai. Goya Zuban e Nabuwat Is Amr Ka Ailan Farma Rahi Thi Ke Nizaam e Aalam Ke Ek Daur Ka Khatma Ho Chuka Hai Aur Aaj Se Doosre Daur Ka Aaghaz Ho Raha Hai Aur Dunya e Insaniyat Ko Nizaam e Aalam Ke Naye Daur Ke Aaghaz Par Khutba Hujjat ul Wida Ke Zariye Bilkhusoos Aur Apni Taleemat O Hidayaat Ke Zariye Bil Umoom Naya Aalmi Nizaam Ataa Kar Raha Hoon. Zaroori Tha Ke Is Mauqe Par Aap Pichlay Nizaam Aur Iske Jahilana Umoor Ko Mansookh Karne Ka Ailan Bhi Farmate, So Irshaad Farmaaya: “Khabardar! Jahiliyat Ka Saara (Zalimana Aur Istehsali) Nizaam Mein Ne Apne Paon Se Rond Dala Hai Aur Aaj Se Nizaam e Jahiliyat Ke Saare Khoon (Qisas, Deeyat Aur Intiqam) Kaladim Qarar Diye Jate Hain Aur Aaj Se Nizaam e Jahiliyat Ke Saare Soodi Len Den Bhi Khatam Kiye Jate Hain.”

          In Do Ailanat Ke Baad Is Amr Mein Kisi Shak Ki Koi Gunjaish Baqi Nahin Rehti Ke Khutba Hujjat ul Wida Fil Haqiqat Ek Naye Nizaam Ka Ailan Tha. Huzoor Ke Farmaeen Se Ye Amr Wazeh Hai Ke Islam Deen e Aman, Mohabbat Aur Rahmat Hai. Aap Ne Hujjat ul Wida Ke Mauqe Par Irshaad Farmaaya: “Allah Ta’ala Ne Tum Par Tumhare Khoon, Tumhare Maal Aur Tumhari Aabruyein Haraam Kar Di Hain Aur In Cheezon Ko Aisi Izzat Bakhshi Hai Jo Izzat Tumhare Is Sheher Mein, Is Mahine Mein, Is Din Ko Haasil Hai. Kya Mein Ne Paigham e Haq Pohncha Nahi Diya?” Sabhi Ne Baik Zubaan Jawaban Arz Kiya, “Ji Haan, Zaroor!” Is Wazehiyat Ke Baad Aap Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ne Sab Haazireen Ko Talqeen Farmaayi:

“Suno! Jo Log Yahan Maujood Hain, Unhein Chahiye Ke Ye Ahkaam Aur Ye Baatein Un Logon Tak Pohncha Dein Jo Yahan Is Waqt Maujood Nahin Hain. Ho Sakta Hai Ke Koi Jo Yahan Maujood Nahin, Tum Se Zyada Samajhne Aur Mehfooz Rakhne Wala Ho.”

          Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ne Apni Hayat e Tayyiba Ke Aakhri Aur Numayan Mauqe Par Aalam e Insaniyat Ko Paigham e Aman Diya Aur Is Amr Ki Pabandi Par Zor Diya Ke Apne Amal O Kirdar Se Qayam e Aman Ko Har Satah Par Mumkin Banayein. Muashray Ko Puraaman Banane Ke Liye Farogh O Iblagh Ka Mujassam Ban Jayein. Ye Ek Haqiqat Hai, Aaj Karah e Arzi Ko Aman O Aman Ka Markaz Banane Ke Liye Mustafa Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wasallam Ke Aata Kardah Manshoor Se Zyada Mo’asar Aur Jame’ Zabta Kahin Aur Dastiyab Nahin.

Hijrat Ke Gyarhween Saal 12 Rabi ul Awwal Baroz Peer Bmutabiq 12 June 632 Aiswi Ko 63 Saal Ki Umar Mein Aap  Ka Wisaal Zahiri Hogaya Aur Hazrat Syedatuna Aisha Siddiqa Razi Allah Ta’ala Anha Ke Hujray (Ghar) Mein Tadfeen Hui.

(Ref:Seerat Syed ul Anbiya, Seerat Mustafa/Seerat un Nabi  /Haadi e Aalam  Wa Deegar Kutub Se Makhoz).