حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ


 حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ  کوفہ میں پیدا ہوئے آپ علیہ الرحمہ  کا اصل نام وہاب بن امر تھا۔ آپ علیہ الرحمہ  حضرت سیدنا  امام جعفر صادق  علیہ السلام کے شاگرد اور  حضرت سیدنا امام موسی کاظم  علیہ السلام کے معتقد خاص میں سے تھے ۔ آپ علیہ الرحمہ  بنوامیہ کے امیر خلیفہ ہارون رشید کے رشتہ دار تھے۔ حق بیان کرتے تھے اور سچوں کا ہمیشہ ساتھ دیتے تھے۔

خلیفہ ہارون رشید نے جن  حضرت سیدنا امام موسی کاظم علیہ السلام  کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ علیہ الرحمہ  کچھ ساتھیوں کے ہمراہ حضرت حضرت  امام موسی کاظم  علیہ السلام سے ملے جو اس وقت  خلیفہ ہارون الرشید کے قید خانے میں زیرحراست تھے حضرت جب امام موسی کاظم  علیہ السلام نے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ علیہ الرحمہ  نے صرف ایک حرف "ج" (جیم) لکھ دیا اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا ۔جیم سے جلا وطن جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ  کے لیے جیم سے جنون۔   اگلے روز آپ علیہ الرحمہ  نے اپنے عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ  حلیے  میں بغداد کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے ۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر  اہل بغداد نے آپ علیہ الرحمہ  کو مجنوں کے نام سے پکارنا شروع کیا  چنانچہ آپ  علیہ الرحمہ کے چند مشہور واقعات بیان کیے جاتے ہیں :

ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھے ساحل کی گیلی ریت کو اپنے سامنے جمع کر کے اس کی ڈھیریاں بنا رہےتھے۔ اور ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک سے ان کو یہ کام کرتے دیکھ رہی تھی وہ مٹی کی ڈھیری بناتے اور پھر اپنے ہاتھ سے ہی اس کو مسمار کر دیتے ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے آ گئ اور بہلول سے پوچھا کیا کر رہے ہو بہلول ؟

بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا جنّت کے محل بنا رہا ہوں ،،

ملکہ نے سوال کیا اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو کیا تم کو اس کو فروخت کرو گے ،

بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں

تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے ملکہ کے سوال کرتے ہی بہلول نے بے ساختہ کہا تین درہم ،

ملکہ زبیدہ نے اسی وقت اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ بہلول کو تین درہم ادا کئے جائیں ۔ اور ادا کردئیے گئے۔

یہ تمام واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا۔خلیفہ نے اس واقعہ کو مذاق میں ٹال دیا۔ رات کو جب ہارون الرشیدسوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔

بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے۔

چنانچہ وہ شام کو بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟

 بہلول نے کہا، جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا ۔ بیچو گے ۔تو بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔

تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے۔بہلول نے بے ساختہ کہا تیری پوری سلطنت۔

ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ تین درہم کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں؟

بہلول دانا نے کہا، خلیفہ! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو۔

خلیفہ یہ سن کر گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ اور کہا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں۔ اور مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا ۔ کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے۔جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو ۔اس محل کو بھی تمہارے لئے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔

 

حضرت سید نا سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے حضرت سید نا بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مِٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔

میں نے پوچھا:''آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

'' جواب دیا:''میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہوجاؤں تو میری غیبت نہیں کرتی۔''

میں نے عرض کی:''روٹی مہنگی ہو گئی ہے ؟''

تو فرمانے لگے:''اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم !مجھے کوئی پرواہ نہیں،اگرچہ ایک دانہ دینار کا ملے۔ ہم پر اس کی عبادت فرض ہے جیسا کہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمارا رزق اس کے ذمہ کرم پر ہے جیسا کہ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔''

 

ایک مرتبہ کسی نے کہا : ’’ بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں -

ایک مرتبہ حضرت بہلول دانا ہارون الرشید کے پاس پہنچے۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھا کر دی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔

حضرت بہلول دانا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔

عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا۔ حضرت بہلول دانا عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ بادشاہ کیا حال ہے؟

 ہارون رشید نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟

 بڑا لمبا سفر درپیش ہے۔

کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔

حضرت بہلول دانا نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہو گی؟

 جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔

 حضرت بہلول دانا نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟

 جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔

 حضرت بہلول دانا بولے۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ امانت واپس لے لو۔ مجھے تمہارے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ تم جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم و خدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ تم نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو رو پڑے اور کہا۔ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگر آج پتہ چلا۔ کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں۔


 

خلیفہ راشد پنجم حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کا علم و فضل

 

یہ مسلمات سے ہے کہ حضرات آئمہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کا علم لدنی ہوا کرتا تھا ۔ وہ دینا میں تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف ہوتے تھے جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمر تک بے بہرہ رہتےہیں ۔

 آپ علیہ السلام  کا علم و فضل براہ راست نبوت و رسالت کا فیضان تھا لہذا آپ کے علم و فضل کی کوئی انتہا نہ تھی ۔ ابن سعد (متوفی 230ہجری)،  بلاذری (متوفی 279 ہجری) اور ابن عساکر (متوفی 571 ہجری) نقل کرتے ہیں کہ امام حسن بن علی علیہ السلام صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی معمول ہوتی تھی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق/ ابن عساکر 13/241، الطبقات الکبرى/ ابن سعد 10/297،أنساب الأشراف/ بلاذری ، 3/21)

" امام حسن بن علی علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر مختلف موضوعات پر آپ سے سوال کرتے تھے جس کا آپ جواب دیتے تھے۔ (الفصول المہمۃ /ابن صباغ مالکی علیہ الرحمہ 2/702)

چنانچہ علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفسیر واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعد وہ شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی’’ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا‘‘’’اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم)  ہم نے تم کوشاہد و مبشر اورنذیربناکربھیجاہے  ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود‘‘،’’ قیامت کاوہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع کردیے جائیں گے، اوریہی یوم مشہود ہے ‘‘سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا ”فکان قول الحسن احسن“  ،’’ حضرت امام حسن علیہ السلام  کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے ‘‘۔ (مطالب السوال صفحہ 235)

 تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابوالحواری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام سے پوچھا:آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث یاد ہے؟

فرمایا: یہ حدیث یاد ہے کہ ( بچپن میں) ایک مرتبہ میں نے صدقے (یعنی زکوٰۃ) کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر مُنہ میں ڈال لی تو نانا جان، حضور اکرم ﷺ میرے مُنہ سے وہ کھجور نکالی اور صدقے کی کھجوروں میں واپس رکھ دی۔

عرض کی گئی: صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ایک کھجورانہوں نے اُٹھالی تو اس میں کیا حرج ہے؟

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّااٰلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ ہم آلِ محمد کیلئے صدقے کا مال حلال نہیں ہے۔ (اسد الغابۃ 2/16)

ابن سعدیہ روایت کرتے ہیں کہ آپ کی شیریں کلامی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کسی سے تکلم فرماتے توجی چاہتا کہ بس آپ اسی طرح سلسلہ کلام جاری رکھیں اور خاموش نہ ہومیں نے آپ کی زبان سے کبھی کوئی فحش بات نہیں سنی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 395)


جلیل القدرصحابی رسول ﷺ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ


 حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ قدیم الاسلام اور مہاجرین اولین میں سے ہیں اور یہ ان مصیبت زدہ صحابیوں میں سے ہیں جن کو کفار مکہ نے اس قدر ایذائیں دیں کہ جنہیں سوچ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ظالموں نے ان کو جلتی ہوئی آگ پر لٹایا چنانچہ یہ دہکتی ہوئی آگ کے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لیٹے رہتے تھے اور جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور یہ آپ کو یا رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کہہ کر پکارتے تو آپ ان کے لئے اس طرح آگ سے فرمایا کرتے تھے : یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍکَمَا کُنْتِ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ (یعنی اے آگ !تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی او ر سلامتی والی بن جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈ ی اور سلامتی والی بن گئی تھی)۔

حضرت عمار  بن یاسر کے والد حضرت یاسر قحطانی النسل تھے، یمن ان کا اصلی وطن تھا اپنے ایک مفقودالخبر بھائی کی تلاش میں دوسرے دو بھائی حارث اور مالک کے ساتھ مکہ پہنچے، وہ دونوں واپس لوٹ گئے، لیکن انہوں نے یہیں طرحِ اقامت ڈال دی اور بنو مخزوم سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی ایک لونڈی سمیہ نام سے شادی کرلی جس سے حضرت عمار بن یاسر پیدا ہوئے، ابو حذیفہ نے حضرت عماربن یاسر کو ان کے بچپن ہی میں آزاد کر کے تاحیات دونوں باپ بیٹے کو لطف و محبت سے اپنے ساتھ رکھا۔( طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 177)

 آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو اسلام قبول کرنے کی و جہ سے ابو جہل نے بہت ستایا یہاں تک کہ ان کی ناف کے نیچے نیزہ مار دیا جس سے ان کی روح پرواز کر گئی اور عہد اسلام میں سب سے پہلے یہ شہادت سے سرفراز ہوگئیں۔ چنانچہ تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی، جو استقلال واستقامت کے ساتھ راہِ خدا میں واقع ہوئی، ان کے والد حضرت یاسر اور بھائی حضرت عبداللہ  بھی اسی گرداب اذیت میں جان بحق ہوئے۔( اصابہ تذکرہ سمیہ ام عمارہ)

ایک دفعہ حضرت یاسر نے حضوراکرم  سے گردشِ زمانہ کی شکایت کی، ارشاد ہوا"صبر کرو، پھر دعا فرمائی، اے خدا آلِ  یاسرکو بخش دے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :178)

ایک روز مشرکین نے ان کو پانی میں اس قدر غوطے دیئے کہ بالکل بدحواس ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس حالت میں ان جفا کاروں نے جو کچھ چاہا ان کی زبان سے اقرار کرا لیا، اس کے بعد گو اس مصیبت سے گلو خلاصی ہوگئی، تاہم غیرت ملی نے عرق عرق کردیا، دربارِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا جاری تھا، حضوراکرم   نے پوچھا، عمار کیا خبر ہے؟  عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نہایت ہی بُری خبر ہے، آج مجھے اس وقت تک مخلصی نہ ملی جب تک میں نے آپ کی شان میں بُرے الفاظ اوران کے معبودوں کے حق میں کلماتِ خیر استعمال نہ کئے۔

ارشاد ہوا، تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟

 عرض کیا، میرا دل ایمان سے مطمئن ہے،۔

سرورِ کائنات ﷺ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے پونچھ کر فرمایا: کچھ مضائقہ نہیں اگر یہ پھر ایسا ہی کرو، اس کے بعد ہی قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی: مَنْ كَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ۔ سورہ النحل 106)

جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے اس سے کوئی مواخذہ نہیں۔( طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :178)

ایک مرتبہ حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس سے پوچھا کہ کیا قریش مسلمانوں کو اس قدر اذیت پہنچاتے تھے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائیں؟

بولے، خداکی قسم ہاں!وہ ان کو مارتے تھے، بھوکا اور پیاسا رکھتے تھے، یہاں تک کہ ضعف اور کمزوری سے وہ اُٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور ہو جاتے تھے، اسی حالت میں وہ جو کچھ چاہتے تھے ضمیر کے خلاف ان سے اقرار کرا لیتے تھے۔ (اسدالغابہ تذکرہ عمار )

غرض حضرت عماربھی ان مصائب میں گرفتار تھے، انہوں نے راہِ خدا میں صبرو استقامت کے ساتھ گو ناگوں مصائب اور مظالم برداشت کیے، لیکن آئینہ دل سے توحید کا عکس زائل نہ ہوا، ضعیفی کے عالم میں جن لوگوں نے ان کی پیٹھ ننگی دیکھی تھی، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تک کثرت کے ساتھ سیاہ لکیریں، تپتی ہوئی ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں کے داغ ان کی پیٹھ میں موجود تھے۔( ابن سعد قسم اول جز ثالث : 177)

 حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شہادت کے بعد خلافت کا بارِ گراں حضرت علی کے سر ڈالا گیا، حضرت عمار بن یاسر کو ان سے جو خاص انس و خلوص تھا اس کے لحاظ سے تمام مہماتِ امور میں وہ ان کے دست و بازو ثابت ہوئے، حضرت عائشہ ، حضرت زبیر  اور حضرت طلحہ  وغیرہ نے جب شہید خلیفہ کے قصاص کا مطالبہ کرکے جنگی تیاریوں کے لیے بصرہ کا رخ کیا تو خلیفۂ چہارم کے حکم سے وہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے کہ اہل کوفہ کو خلافت کے تحفظ و حمایت پر آمادہ کریں۔ حضرت عمار بن یاسر کوفہ پہنچے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جامع مسجد میں ایک مجمع کے سامنے غیر جانبداری کا وعظ بیان فرما رہے تھے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا تم ابھی ہماری مسجد سے نکل جاؤ، اور منبر پر کھڑے ہوکر ایک نہایت پرجوش تقریر کی، حضرت عمارؓ بن یاسر بھی ان کے ساتھ منبر پر چڑھ گئے اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا "صاحبو! بے شک میں جانتا ہوں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا دنیا اور آخرت میں حضرت سرورِ کائنات  کی حرمِ محترم ہیں، لیکن اس وقت خدا تمہاری آزمائش کر رہا ہے کہ تم اس کی فرما نبرداری کرتے ہو یا عائشہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل :4/265)

حضرت سیدنا حجربن عدی رضی اللہ عنہ  نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ   کی تائید کی اور دوسرے روز صبح کے وقت تقریبا ساڑھے نو ہزار جانباز سپاہیوں کی ایک فوجِ گراں حضرت عمار رضی اللہ عنہ   کے ساتھ ہو گئی۔ ماہ جمادی الاخریٰ 36ھ میں دونوں طرف کی فوجیں مقام ذی قار میں مجتمع ہوئیں، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ   بھی حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم  کے ساتھ ہیں تو انہیں نظر آنے لگا کہ وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حق عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور باغی گروہ ان کو قتل کرے گا، اس کے ساتھ ہی حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم  نے ایک ایسی بات یاد دلائی کہ وہ اس وقت اس خانہ جنگی سے کنارہ کش ہوگئے۔ جمعرات کے روز جنگ شروع ہوئی، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ  میسرہ پر متعین تھے، چونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ حق کا ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے غیر معمولی جوش سے لڑے، یہاں تک کہ حامیانِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک جنگ کا خاتمہ ہوا۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کی خالص مذہبی سلطنت کو زمانہ برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا، جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائی ہوئی جنگ صفین جولائی 657 عیسوی میں مسلمانوں کے خلیفہ حضرت سیدنا مولی ٰ علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم  اور شام کے گورنر معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو  اب ملک شام میں شامل ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے پنتالیس ہزار 45000 اور خلیفہ کی افواج کے پچیس ہزار 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی تھی حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ  رعد کی طرح گرجتے ہوئے جس طرف گھس جاتے تھے صفیں کی صفیں درہم برہم کر دیتے تھے، ایک دفعہ اثنائے جنگ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے علم بردار حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر نظر پڑی تو بولے میں اسی علمبردار سے تین دفعہ رسول خدا ﷺ کی معیت میں لڑچکا ہوں اب یہ چوتھی مرتبہ ہے، خدا کی قسم اگر وہ ہم کو شکست دیتے ہوئے مقام ہجر تک بھی پسپا کردیں جب بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہم لوگ حق پر ہیں اور وہ غلطی پر۔(بقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:185)

شہادت: ایک روز شام کے وقت جب آفتاب غروب ہو رہا تھا اور جنگ پورے زور کے ساتھ جاری تھی، حضرت عمار بن یاسر دودھ کے چند گھونٹ حلق سے فرو کرکے بولےرسول اللہ  نے مجھ سے فرمایا ہے کہ دودھ کا یہ گھونٹ تیرے لیے دنیا کا آخری توشہ ہے" اور کہتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے کہ آج میں اپنے دوستوں سے ملوں گا، آج میں محمد  اور ان کے گروہ سے ملوں گا۔(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :184)کچھ ایسے عزم واستقلال سے حملہ آور ہوئے تھے کہ جس طرف نکل گئے پرے کا پرا صاف ہوگیا اور جس پر وار کیا ڈھیر ہوکر رہ گیا، واقف کار مسلمان ان پر ہاتھ اٹھانے سے پہلو بچاتے تھے، لیکن اسی حالت میں ابن الغادیہ کے نیزہ نے ان کو مجروح کرکے زمین پر گرا دیا اور ایک دوسرے شامی نے بڑھ کر سرتن سے جدا کردیا، یہ دونوں قاتل جھگڑتے ہوئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں پہنچے ، کیونکہ ان میں کا ہر ایک اس کارنامہ کو اپنی طرف منسوب کرتا تھا،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حاضرِ دربار تھے، انہوں نے کہا"خدا کی قسم یہ دونوں جہنم کے لیے جھگڑرہےہیںامیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے برہم ہو کر کہا عمرو ! تمہاری یہ کیا حالت ہے؟ جو لوگ ہمارے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں، ان کو ایسا کہتے ہو۔  بولے خدا کی قسم ایسا ہی ہے، کاش آج سے بیس برس پہلے مجھے موت آگئی ہوتی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 185)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ   کو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ   کی شہادت سے سخت پریشانی لاحق ہوئی اور اس جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن حضرت امیر معاویہ نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ عمار رضی اللہ عنہ   کے قاتل ہم نہیں ہیں ؛بلکہ وہ جماعت ہے جو ان کو میدان جنگ میں لائی۔(طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :180، ومستدرک وحاکم:3/387)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے درحقیقت حق و ناحق کا فیصلہ ہو گیا ، حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور معرکۂ صفین میں شریک تھے، لیکن اس وقت تک کسی طرف سے اپنی تلوار بے نیام نہیں کی تھی، حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ   کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ انہیں حیدر کرار کرم اللہ وجہہ الکریم  کا ساتھ دینا چاہئے؛ چنانچہ اس کے بعد تلوار کھینچ کر شامی فوج پر ٹوٹ پڑے اور شدید کشت وخون کے بعد شہادت حاصل کی۔(طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث:187)

آپ کی شہادت جنگِ صفین میں ہوئی جس میں آپ حضرت  علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف سے شریک تھے۔ یہ 9 صفر 37ھ تھی اور ان کی عمر اس وقت 93 برس تھی۔ بعض نے 91 اور بعض نے 92 سال ذکر کیا ہے۔۔عمار بن یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔( ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، جلد 3، صفحہ 262)

حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب اپنے مونس و جانثار کی شہادت کی خبر سنی تو آہ سرد کھینچ کر فرمایا، "خدا نے عمار بن یاسر پر رحم کیا، جس دن اسلام لائے، خدا نے رحم کیا، جس دن شہید ہوئے، اور خدا ان پر رحم کرے گا۔ جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے، میں نے ان کو اس وقت رسول اللہ  کے ساتھ دیکھا تھا جب کہ صرف چار یا پانچ صحابہ کو اعلانِ ایمان کی توفیق عطا ہوئی تھی، قدیم صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کوئی بھی ان کی مغفرت میں شک نہیں کرسکتا، عمار اور حق لازم و ملزوم تھے ، اس لیے ان کا قاتل یقیناً جہنمی ہوگا ، اس کے بعد تجہیز و تکفین کا حکم دیا۔

طالب دعا: الحاج آل رسول احمد الصدیقی

7282896933

(انٹرنیشنل سنی سینٹر ناگپور)