Kaun hai Sultan Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani RadiAllahu Anhu Kichhauchha Sharif

 


کون ہے  سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی؟؟؟

مختصر اجمالی تعارف

وہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جهانگیر سمنانی قد س سره النورانی.....................

جن كے خانوادہ نور بخشیہ میں پانچ پشتوں تک مسلسل سلطان ابن سلطان سید ابن سید ولی ابن ولی حافظ ابن حافظ قاری ابن قاری عالم ابن عالم حضرت مخدوم اشرف تک ہوتے رہے۔ (صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٩/ ساتواں صحیفہ/ اعلی حضرت اشرفی میاں كچهوچهوی ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت ١٤٠٥)

جن کی ولادت کی بشارت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے والد ماجد علیہ الرحمہ کو عالم خواب میں دی اور اشرف نام بھی عطاء فرمایا۔(خاتمہ مکتوبات اشرفی/صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٠ تا ٦١/دوسرا صحیفہ/ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت ١٤٠٥/محبوب یزدانی ص ٢٤/ حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی)

جو نجیب الطرفین سید ہیں۔ (صحائف اشرفی حصہ اول ص ٥٣ صحیفہ اول سے ماخوذ/ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ/ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت ١٤٠٥هجری)

جن كی ولادت سے قبل ہی ولادت و ولایت کی خوشخبری آپ کی والد ماجدہ  کو حضرت خواجہ احمد یسوی رضی اللہ عنہ نے روحانی اعتبار سے دی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤١ لطیفہ نمبر ٢٢"اوکھائی پرنٹنگ پریس کراچی پاکستان بار اول ٢٠٠٢ء)

جن كی ولایت اور جہانگیریت کا چرچا آپ کی پیدائش سے بہت پہلے سرزمین ہند میں آپ کے جد امجد حضرت شمس الدین نور بخشی رضی اللہ عنہ سے  حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔(مکتوبات اشرفی صفحہ ٤٢/مکتوب نمبر ہفتادم بنام شیخ محمد عیسٰی/ صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٤ تا ١٣٥/سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ/صفحہ نمبر ١٢/مقالہ نگار:سید محمد اشرف جیلانی/ شعبہ: کلیہ معارف اسلامیہ  جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ )

جومجذوب وقت حضرت سیدنا ابراہیم علیه الرحمه کی نظر عنایت ہیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٣ لطیفہ نمبر ٢٢)

جن كے والد سلطنت سمنان کے بادشاہ ولی کامل متقی وقت پابند و صوم وصلوٰة حضرت سید ابراہیم نور بخشی رضی اللہ عنہ ہیں۔(لطائف اشرفی مترجم جلد دوئم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢)

جن كی والدہ وقت کی ولیہ عابدہ زاہدہ ساجدہ متقیہ قرآن پاک کی قاریہ جو حضرت خواجہ احمد یسوی(رضی اللہ عنہ) کی اولاد میں سے تھیں جن کا نام حضرت سیدہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا)ہے۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢)

وہ مخدوم اشرف سمنانی قدس سره جن كی ولادت مبارک(اختلاف روایت کے ساتھ مگر تحقیقی روایت کے مطابق )سن ٧١٢هجری میں بمقام سمنان(خراسان)میں ہوئی۔ (سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ/صفحہ ٣٣/مقالہ نگار:سیدمحمد اشرف جیلانی/شعبہ:کلیہ معارف اسلامیہ  جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ )

جو مادر زاد ولی تھے۔(مرآة الاسرار مترجم/ص ١٠٤٤۔ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان۔اشاعت ١٤١٤/شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ/تذکرۃ الانساب ١٨٤ /حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی/اشاعت ٢٠١٦عیسوی /ناشر رفاعی مشن ناسک)

جن کی رسم بسم اللہ خوانی  حضرت عماد الدین تبریزی رضی اللہ عنہ نے چار سال چار مہینہ چار دن میں فرمائی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٥/دوسرا صحیفہ)

جنہوں نے ایک ہی سال کے اندر قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن پاک حفظ فرمالیا جبکہ آپ اس وقت صرف ٧سال کے تھے۔ (لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ لطیفہ ٢٢ / صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦؛دوسرا صحیفہ/حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی ص ٣٣/ ڈاکٹر سید وحید اشرف/مطبع سرفراز قومی پریس لکھنؤ )

جنہوں نے صرف ١٤ سال کی عمر میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل فرمایا اور دور طالب علمی ہی میں آپ کے علم کا چرچا عراق کے جامعات و شہروں میں ہونے لگا اور دور طالب علمی ہی میں آپ دینی مسائل کے مشکلات کو دلائل کے ساتھ حل فرما دیا کرتے تھے۔ ( لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ تا ٣٥ لطیفہ ٢٢)

جو والد محترم کے وصال کے بعد سلطنت سمنان کے بادشاہ بنے جبکہ آپ اس وقت صرف ١٥سال کے تھے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦/دوسرا صحیفہ)

جنہوں نے پندرہ سال کی عمر سے پچیس سال کی عمر تک یعنی دس سال شان و شوکت کے ساتھ سلطان سمنان بنکر حکمرانی کی اور عدل وانصاف کی وہ مثال قائم فرمائی کہ ہر چہار جانب آپ کے عدل انصاف کے چرچے ہونے لگے۔ (لطائف اشرفی جلد دوئم ص ٣٥ تا ٣٨ لطیفہ ٢٢/صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧١/تیسرا صحیفہ/تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:ص ٤٣ بعنوان بحیثیت ایک عادل حکمراں)

جو بادشاہ وقت ہوکر بھی ایک وقت کی فرض نماز تو دور کی بات سنت ونوافل تک ترک نہ فرمائی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧٠/تیسرا صحیفہ)

 جن كی عالم رویا میں حضرت خضر علیہ السلام سے بار بار ملاقات ہوتی رہیں اور جنہوں نے دنیاوی سلطنت تخت وتاج کو چھوڑ کر روحانیت کی سلطنت کو ترجیح دی اور فقیری اختیار فرمالی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم ص ٣٨؛لطیفہ ٢٢)

جو اپنے پیر ومرشد حضرت علاء الحق والدین گنج نبات چشتی رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کیلئے سمنان سے چل کر شہر بخارا حاضری دیتے ہوئے پھر اوچہ شریف میں حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرہ العزیز (یعنی حضرت مخدوم جلال الدین بخاری علیہ الرحمہ)سے ملاقات کرکے ملک ہند کے شہر دہلی آئے اور مزار حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ و مزار حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہی چشتی رضی اللہ عنہ میں حاضری دیکر فیوض و برکات حاصل کی پھر صوبہ بہار کی طرف سے صوبہ بنگال کے شہر پنڈوا تک تشریف لاکر بیعت ہوئے اس وقت آپ کی عمر شریف ستائیس سال کی تھی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٨ تا ٤٨ لطیفہ ٢٢/صحائف اشرفی حصہ دوم ص ٥٣ گیارہواں صحیفہ/تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٦١ تا ٦٤۔بعنوان۔ہندوستان میں ورود) (یعنی سمنان سے بنگال تک کا سفر اول دو سال میں طے ہوا کیونکہ جب سمناں سے چلے تو پچیس سال کی عمر تھی اور بیعت ہوئے تو ستائیس کی عمر تھی نتیجہ دو سال نکلتا ہے اور دو سال کا ذکر"تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ"کے ص ٧٠ میں بھی موجود ہے۔

جن كی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو حضرت خضر علیہ السلام نے ٧٠ ستّر بار دی اور جب آپ کی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو ہوئی تو آپ کو لانے کیلئے اور آپ سے ملاقات کیلئے آپ کے استقبال کیلے خود آپ کے پیر ومرشد  خانقاہ پنڈوا شریف سے باہر مریدوں کی جماعت لیکر نکلیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٨ تا ٥٠  لطیفہ ٢٢)

جنہوں نے اپنے پیر ومرشد کی کئی سالوں تک خدمت کی سفر وحضر میں ساتھ رہےاور جن کے لئے لقب جہانگیری آپ کے پیر ومرشد کو اللہ عزوجل نے غیبی طور پر عطاء کی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٥٩ لطیفہ نمبر ٢٢)

جو اپنے پیر ومرشد کے عشق میں فنا فی الشیخ ہوگئے اور ادب و احترام کا عالم یہ ہوا کہ بیعت کے دن سے لیکر سفر آخرت تک کبھی اپنے مرشد کے شہر کی طرف نہ پاو(پیر)پھیلایا اور نہ کبھی شہر مرشد کی طرف منھ کرکے تھوکا۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٤٣/محبوب یزدانی ص٤٠/حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی)

جنہوں نے وصیت کے مطابق وقت کے ولی کامل مخدوم وقت مخدوم  بہاری حضرت شرف الدین یحیی منیری فردوسی رضی اللہ عنہ کی نمازے جنازہ پڑھائی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٥ تا ٤٧ لطیفہ نمبر ٢٢)

جو مقام غوثیت و محبوبیت پر فائز ہوئے اسی سبب آپ غوث العالم و محبوب یزدانی بھی ہیں۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٢١ تا ١٢٢ اور ص ١٤٠)

جن كی شفارش پر شہزادہ حضور علاؤ الحق پنڈوی حضرت شیخ نور قطب عالم پنڈوی علیہ الرحمہ مقام قطبیت پر فائز ہوئے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٦ تا ١٣٦)

جن کو ١٤ سلاسل کی(خصوصی)خلافت و اجازت حاصل تھی۔(مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٤٤/ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان/اشاعت ١٤١٤ہجری محرم الحرام/مصنف شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ )

جنہوں نے پورے تیس سال تک پوری دنیا کی سیر کی۔( صحائف اشرفی حص اول ص ١٥٢/ تذکرۃ الانساب ١٨٤ / حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی/اشاعت ٢٠١٦ء/ناشر رفاعی مشن ناسک)

جن کو ایک سو چودہ بزرگوں سے نعمتیں ملی یعنی ان بزرگوں میں سے کچھ سے اجازت و خلافت کچھ سے اذکار و وضائف کی اجازت خاصہ اور کچھ سے تبرکات خاصہ وغیرہ اور فیوض و برکات جیسی عظیم نعمتیں ملی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٢٥٤ لطیفہ نمبر ٢٥)

جب آپ مدینہ شریف حاضر ہوئے تو عالم خواب میں زیارت رسول اکرمﷺ سے مشرف ہوئے۔(صحائف اشرفی حصہ دوم ص ١٢٨ تیرہواں صحیفہ)

جب آپ حج بیت اللہ کے لئے مکہ شریف پہنچے تو بہت سے علماء و مشائخین سے ملاقات بھی ہوئی اور امام عبد اللہ یافعی رضی اللہ عنہ سے شرف ملاقات ملی اور سند حدیث بھی حاصل ہوئی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٤۔ساتواں صحیفہ)

جنہوں نے اپنی تبلیغ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلموں کو مسلمان بنایا۔(تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٩٨)

جنہوں نے سرزمین بنارس میں پتھر کی مورتی سے پجاریوں کے سامنے مذہب اسلام کی حقانیت پر شہادت  دلوائی جسکے بعد ایک ہزار غیر مسلم اسی وقت کلمہ پڑھ دامن اسلام سے وابستہ ہو گئے ۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٦٩ تا ٢٧٠/مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٥٤)

جس نے مردے تک کو قم باذن اللہ کی صدا سے زندہ فرمایا۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٩)

جن  کی صحبت میں رہکر جانور بھی مسجد کا ادب سیکھ جاتے ہیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٦٦ لطیفہ نمبر ٢٢)

جن كی صحبت سے صرف کمال راوت جوگی ہی فیض یاب نہیں بلکہ جوگی کمال کی بلی بھی کمال کی ہوجاتی ہے اور خانقاہ مخدومی میں آنے والے مہمانوں کی تعداد بتاتی ہے اور خانقاہ مخدومی کی جاروب کشی بھی کرتی ہے(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٤ تا ٢٣٥/محبوب یزدانی ص ١١٠/مصنف حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی)

جن کے مریدوں کی بخشش کاوعدہ اللہ عزوجل نے غیبی طور پر فرمالیا ہے۔تبھی حضور  اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی فرماتے ہیں"مریدوں کی قیامت میں رہائی نار دوزخ سے:کریں گے اشرف سمناں حمایت ہو تو ایسی ہو۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٥٤)

جو صرف ایک صوفی بزرگ ہی نہیں بلکہ ساتویں صدی کے مجدد اعظم بھی ہیں۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٥/ساتواں صحیفہ)

جنہوں نے فارسی زبان میں خط نستعلیق پر ٧٢٧ہجری میں قرآن پاک کا بہترین اور عمدہ ترجمہ فرمایااور اس فارسی ترجمہ کو اردو ترجمہ کی شکل حضور شیخ اعظم علامہ سید اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ علامہ سید ممتاز اشرفی صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے دیا ہے اور ساتھ تفسیر کا اضافہ بھی فرمایا اور مکمل نام رکھا ہے اشرف البیان مع اظہار العرفان جس کو مخدوم اشرف اکیڈمی لان سیکٹر ١٤ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے شائع کیا۔ (تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص 177) واضح رہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فارسی زبان میں سے سب سے پہلے ترجمہ قرآن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ (المتوفیٰ 1176ہجری) کا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی قدوۃ الکبریٰ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کچھوچھوی  رضی اللہ عنہ ( المتوفی 808 ہجری) کا ترجمہ قرآن آپ سے بھی پہلے کا ہے۔

جنہوں نے ایک نہیں بلکہ کثرت کے ساتھ کتابیں عربی و فارسی اور دیگر زبانوں میں تصنف فرمائی جو کہ فن تفسیر،فقہ،اصول فقہ،تصوف،علم نحو،علم صرف،علم عقائد،علم الانساب وغیرہ علوم پر مشتمل ہے تبھی اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا"دکھایا جوہر علمی لیاقت اس کو کہتے ہیں"ہوئی تصنیف ہر فن میں بلاغت اس کو کہتے ہیں(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٦ تا ١١٩)

جنہوں نے تفضیلت و رافضیت اور ناصبیت سے لوگوں کو بچانے کیلئے خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیق وعمرو عثمان ومولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)کی فضیلت پر عقائد اہل سنت وجماعت کے مطابق کتاب تصنیف فرمائی اور فضائل مولیٰ علی رضی اللہ عنہ میں زیادہ صفحات لکھے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٧ و ص ٢٢٩)

جوآخری وقت میں اپنے سارے اصحاب کو نصیحت کی کہ سید اشرف سمنانی کاعقیدہ یہ ہے کہ اصحاب رسول ﷺ میں سب سے افضل و اعلی حضرت صدیق اکبر ہیں پھر حضرت عمر،پھر حضرت عثمان ،پھر مولی علی(رضی اللہ عنہم اجمعین)ہیں اور یہ بھی فرمادیا کہ جو اس عقیدہ پر نہیں وہ گمراہ و بدمذہب ہے اور ایسوں سے سید اشرف  بیزار ہے(رسالہ پیغام اشرف/صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف)

وہ مخدوم اشرف سمنانی قدس سره جن کو اللہ عزوجل نے خدمت خلق و مخلوق کی ہدایت و رہبری کےلئے لگ بھگ ١٢٠ سال کی عمر شریف عطاء فرمائی۔( تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٣٣ بعنوان/تحقیق سن ولادت و وفات/ ص ٩٥ مقالہ نگار:سید محمد اشرف جیلانی/ شعبہ:کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی/اکتوبر ۔٢٠٠٣ء،)

جن كی مزار شریف کچھوچھہ شریف میں  مرجع الخلائق بنا ہوا ہے اور جن کے مزار پاک سے فیض کا دریا جاری ہونے کی شہادت محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب اخبارالاخیار  میں دیتے ہیں۔( اخبار الاخیار مترجم ص ٣٥٨/طبقہ سوم/ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی پاکستان)

 جن کے مزار پاک کی زیارت کے لئے مصنف مرآة الاسرار حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی رضی اللہ عنہ کو عالم رویا میں حضرت غریب نواز رضی اللہ عنہ تلقین فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ اے عبد الرحمٰن اگر واقعی تم کو رجال الغیب اور حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہے تو سید اشرف سمنانی کی بارگاہ میں جاو۔(مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٥٦ )

جن کے خلفاء عظام کی تعداد کثرت میں ہیں جو کہ عالم دنیا میں پھیل کر تبلیغ اسلام فرمایا اور آج پوری دنیا میں سلسلہ اشرفیت کا بول بالا ہے اور چھ سو  سال  سے مسلسل آج بھی سید مخدوم اشرف سمنانی قدس سره کی روحانی اور سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور جیلانی(رضی للہ عنہما) کی اصلی اولادیں پوری دنیا میں پھیل  کر تقریرا و تحریرا تبلیغ اسلام کرنے میں رات و دن مصروف عمل ہے تبھی ہر اشرفی کہتا ہےاشرفی ناز کر تو اپنے اشرف پر:کون پاتا ہے خاندان ایسا (لطائف اشرفی/شیخ الاسلام حضرت مولانا نظام یمنی قد س سرہ /صحائف اشرفی / سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی/ مرآة الاسرار /شیخ عبد الرحمٰن چشتی/ رسالہ پیغام اشرف کچھوچہ شریف)

ازقلم:  علامہ شبیر احمد راج محلی حفظہ اللہ

خطیب و امام جامع مسجد درگاہ مخدوم شاہ ملاڈ ویسٹ ممبئی نمبر ٦٤

 

Hazrat Umar Farooque Azam Ki Shahadat Ka Din

 حضرت عمرفاروق اعظم کی شہادت کا دن

آج کل ہند و پاکستان میں مخصوص لوگ جو اپنے آپ کو غلط طور پر اہلسنت (وہابی) کہتے ہیں خلیفہ دوئم امیر المومنین حضرت سیدناعمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی تاریخ شہادت کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مقصد ان لوگوں کا عاشورہ محرم میں مسلمانوں کو نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم سے دور کرنا ہے ۔

کل تک جولوگ امام حسین(رضی اللہ عنہ)کی شہادت اوررسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی ولادت کی یادمیں نکالےجانےوالےعاشورہ اورعیدمیلادالنبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کےجلوسوں کوبدعت قراردیتےتھےاب وہ بھی جلوس نکالنےلگےہیں – مقصد اس یزیدی ٹولے کا فتنہ و فساد ہے یہ سنی اور شیعہ دونوں کے دشمن ہیں۔حضرت عمررضی الله تعالی عنہ کی صحیح تاریخ وفات 26 ذوالحجہ ہے ۔

 کتب کےنام برائے حوالاجات:

کتاب//الفاروق//ص166

تاریخ ابن کثیر//ج ہفتم//ص 186

طبقات ابن سعد//حصہ سوم//ص123

تاریخ طبری جلدسوم حصہ اول//ص217

تاریخ مسودی//حصہ دوم//ص240

ان کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ) کی بیعت 29 ذی الحج سنہ 23ھجری کوہوئی !!!

مستند اہل سنت کتب سے حوالہ جات دیکھیں :

٭طبقات ابن سعد جلد ۳، ص ۱۴۷ مطبوعہ کراچی۔

٭تاریخ طبری جلد ۳، ص ۲۳۵ مطبوعہ کراچی۔

٭تاریخ ابن خلدون جلد۱، ص ۳۸۴ مطبوعہ کراچی۔

٭ تاریخ المسعودی جلد ۲، ص ۲۴۰ مطبوعہ کراچی۔

٭ تاریخ ابن کثیر جلد ۷، ص ۲۷۹ مطبوعہ کراچی۔

دوستو !

محرم کی پہلی تاریخ والی بات کا شور مچانا ،بالکل ہی جھوٹ ہےاور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے

امیرالمومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات کے باب میں دو قول مشہور ملتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ زخمی ہونے کے بعد تین دن زندہ رہے اور پھر چھبیس 26 ذی الحجہ کو ان کا وصال ہوا ، چنانچہ علامہ قلقشندی ، اور حافظ ابن النجار البغدادی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔

علامہ قلقشندی لکھتے ہیں  کہوطعنه أبو لؤلؤة الفارسي غلام المغيرة بن شعبة فبقي ثلاثاً ومات لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة

بحوالہ: نہاية الأرب في معرفة أنساب العرب// جلد1 // صفحہ152// ۔

اسی قول کو حافظ ابن النجار البغدادی نے بھی اختیار کیا ہے،

وكانت وفاته رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة ۔ الدرة الثمينة في أخبار المدينة // ذکر وفات عمر // ۔

قلقشندی اور ابن النجار کے اس قول کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو حافظ ابن شبہ نے اپنی تاریخ میں اور امام بیہقی نے سنن میں نقل کیا ہے، یہ روایت معدان ابن ابی طلحہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے جمعہ کو خطبہ دیا اور جب ذی الحج کے چار دن باقی تھے، یعنی چھبیس ذی الحج کے دن حضرت عمر کا انتقال ہوا ملاحظہ ہو :

قال خطب لھم یوم الجمعة و مات یوم الأربعاء لأربع بقین من ذی الحجة۔

 حوالاجات:

السنن الکبری للبیھقی // رقم الحدیث 16578 //۔

تاریخ المدینة لأبن شبة // باب مقتل عمر // ۔

دوسرا قول جو کہ مشہور ہے، اور اسی قول کو جمھور مؤرخین اور علماء نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے کہ ابو لؤلؤ نے چھبیس 26 ذی الحج کو ضرب لگائی تھی، جس سے حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ تین دن تک زخمی رہے اور پھر ان کا وصال ہوا اور حضرت صہیب رومی نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا، چنانچہ مؤرخ ابن اثیر نے اسی قول کو ابن قتیبہ سے نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو ،و قال ابن قتیبة : ضربه أبو لؤلؤة يوم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب ۔ (بحوالہ : أسد الغابة في معرفة الصحابة// جلد3// صفحہ676 //۔)

مشہور سلفی محقق شیخ شعیب الأرنؤوط نے بھی مسند احمد کی تحقیق میں اسی قول کو اختیار کیا ہے، شیخ ارنؤوط رقمطراز ہیں ۔وكانت خلافته رضي الله عنه عشر سنين وستة أشهر، ضربه أبو لؤلؤة المجوسي لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثاً وتوفي، فصَلَّى عليه صهيبٌ  

(بحوالہ: المسند للأحمد // تحت رقم الحدیث 82 // مسند عمر //۔)

یہ کلام تھا حضرت عمر کی تاریخ وفات کے باب میں، جہاں تک تدفین کی بات ہے تو بعضے علماء نے بیان کیا ہے، کہ حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ کو محرم کے پہلے دن دفن کیا گیا، تدفین کے اس قول کو ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں اور حافظ ابن اثیر الجزری نے جامع الاصول میں اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو ،

وطعنه أبو لؤلؤة غلام المغيرة بن شعبة مصدر الحاج بالمدينة يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد غرة المحرم سنة أربع وعشرين ۔

(بحوالہ:جامع الاصول //جلد 12// صفحہ127// عمر بن الخطاب //۔)

خلاصہ کلام : حضرت عمر کی تاریخ وفات سے متعلق جتنے بھی اقوال ہیں ان اقوال میں اختلاف اس حد تک ہے کہ ابو لؤلؤ نے ضرب کس دن لگائی ؟

۱۔ علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت سیدناعمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔  (بحوالہ:مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)

۲۔علامہ دنیوی لکھتے ہیں: ماہ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کی چار راتیں باقی تھیں کہ حضرت سیدناعمر فاروق رضی الله تعالی عنہ جمعہ کے روز رحلت فرما گئے۔ (اخبار الطوال صفحہ ۱۳۹)

۳۔ علامہ محب الدین طبری لکھتے ہیں: آپ نے (حضرت سیدناعمر فاروق رضی الله تعالی عنہ) ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی۔ (ریاض النضرہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۵)

۴۔ مشہور مورخ طبری لکھتے ہیں: آپ نے چہار شنبہ کی شب کو ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔ عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس خبر میں سہو ہوا ہے کیونکہ حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وفات پائی۔ ابو معشر کے نزدیک ۲۶ اور ہشام بن محمد کے نزدیک ۲۷ ذی الحجہ ہے۔ (تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۲۱۷۔۲۱۸)

۵۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: واقدی کا بیان ہے کہ حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ پر بدھ کے روز حملہ ہوا جب کہ ۲۳ ہجری کے ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں۔ (البدایہ و النہایہ جلد ۷ صفحہ ۱۸۶)

۶۔ علامہ ابو الفداء: توفی (عمر) یوم السبت سلخ ذی الحجہ روز شنبہ کو حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ نے وفات پائی۔ (تاریخ ابوالفداء صفحہ ۱۲۲)

۷۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)

۸۔ ابن خلدون لکھتے ہیں: زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو اپنی خلافت کے ۱۰ برس ۶ مہینے بعد جان بحق تسلیم ہوئے۔ (تاریخ ابن خلدون جلد ۱ صفحہ ۳۰۷)

۹۔ امام اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)

۱۰۔ ابن اثیر لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات ۲۶ ذی الحجہ کو ہوئی اور انتیس ذی الحجہ دو شنبہ کے دن حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) کی بیعت کی گئی۔ (اسد الغابہ جلد ۲، صفحہ ۶۶۷)

آپ سب نے ملاحظہ کیا کہ قدیم علماء اہلسنت میں کس قدر اختلاف ہے۔ اور کتنی تواریخ ہیں یوم وفات پر۔ اب ہم جدید اہلسنت علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

۱۱۔ دور جدید کے مشہور سلفی متعصب مورخ دکتر محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں: امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ بروز بدھ ۲۳ ھجری میں حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ نے جام شہادت نوش کیا۔ (سیدنا عمر بن خطاب صفحہ ۸۲۴،۸۲۵)

۱۲۔ مشہور دیوبندی عالم مفتی زین العابدین میرٹھی لکھتے ہیں: حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ کی وفات زخمی ہونے کے تیسرے دن ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بدھ کی رات میں واقع ہوئی۔ (تاریخ ملت جلد ۱ صفحہ ۱۸۷)

۱۳۔ بر صغیر کے مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری ۶۴۴ عیسوی۔ (الفاروق صفحہ ۱۷۷)

۱۴۔ امام اہلسنت اور بر صغیر میں مناظرے کا باب کھولنے والے شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں: روز قتل حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ کا اٹھائیسویں ذی الحجہ کی بلا اختلاف اور دفن ان کا عزہ محرم۔ (تحفہ اثناء عشریہ باب ۹ صفحہ ۵۱۱)

آپ نے غور کیا کہ شاہ صاحب ۲۸ ذی الحجہ کو وفات عمر کو بلا اختلاف قرار دے رہے ہیں

۱۵۔ اسی طرح مصر کے مشہور مورخ محمد رضا مصری نے بھی ۲۴ ذی الحجہ ہی یوم وفات لکھی ہے۔ (سیرت عمر صفحہ ۳۲۹)

قدیم اور جدید جید اور مستند علماء اہلسنت کے اقوال نقل کر دئیے ہیں جن سے ایک بات ثابت ہے کہ یوم وفات حضرت عمر ہر دور میں اختلافی رہی ہے۔ مگرجمھور کے نزدیک چھبیس ذی الحج ہے اور جمھور کی بات ماننا حق ہے

بعض کے نزدیک چھبیس سے پہلے ضرب لگائی ، اور بعض کے نزدیک ستائیس ذی الحج کو ضرب لگائی ۔

لیکن ابو لؤلؤ کی ضرب اور حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ کی تدفین، ان دونوں باتوں سے قطع نظر ، کم از کم اس بات پر تو تمام مؤرخین و علماء کا اجماع ہے کہ حضرت سیدناعمر فاروق  اعظم رضی الله تعالی عنہ کا وصال ذی الحجہ کے مہینہ میں ہی ہوا ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہی ہیں ۔

      و اللہ اعلم بالصواب

             راقم التحریر سید ابرار حسین بخاری