Syeda Nafeesa Radiallahu Anha (Urdu)


افق علم و ولایت کا درخشاں ستارہ خاتون اہل بیت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا
تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے زہد و ورع، تقویٰ و پاکیزگی، عبادت و ریاضت اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے ذریعہ اﷲ رب العزت کا قرب حاصل کیا، اور سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی ان ہستیوں پر تاریخ نازاں ہے اور ان کی سیرت انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو مراتبِ ولایت پر فائز شخصیات میں اکثریت مردوں کی ہے، لیکن تاریخ میں بے شمار نام ان خواتین کے بھی ہیں کہ جنہوں نے اپنی عائلی زندگی کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سلوک و تصوف اور طریقِ ولایت پر ایسے ایسے سنگِ میل رقم کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس صف میں جہاں ازواج مطہرات، صحابیات، اہل بیت اطہار کی عظیم المرتبت شہزادیاں جلوہ افروز ہیں وہاں ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی بھی افق ولایت پر درخشاں ہے جس سے بیک وقت سلوک و تصوف اور علوم و فنون کا فیض جاری ہوا اور تاریخِ اسلام میں کئی صوفیا اور ائمہ کرام نے اپنے دامن کو ان کے فیوضات سے معطر کیا۔ اس ہستی کو تاریخِ اسلام نفیسۃ العلم والمعرفہ رضی اللہ عنہا کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔ اس تحریر کا مقصود انہی کے ذکر سے اپنے قلوب و اذہان کو منور کرنا ہے۔
نام و نسب
آپ رضی اللہ عنہا کا اسمِ گرامی سیدۃ نفیسہ رضی اللہ عنہا بنت سید حسن الانور رضی اللہ عنہ ہے۔ سید حسن الانور سید زید الابلج رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا امام حسن رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی ہیں۔ (الدّرر النفیسۃ)
ولادت باسعادت اور ابتدائی زندگی
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں 11 ربیع الاول 145ھ کو بروز بدھ حسن الانور رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمہ زینب رضی اللہ عنہا کے گھر پیدا ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ابھی پانچ سال تھی جب آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی کو مدینہ منورہ کا امیر بنا دیا گیا اور آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے چھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا او راس کے ساتھ ساتھ امام دار الہجرت امام مالک بن انس اصبحی سے حدیث اور فقہ کا علم بھی حاصل کرتی رہیں۔ نیز مسجد نبوی میں ہونے والی علمی و فقہی مجالس میں شرکت کر تیں اور ان علوم میں تبحرُّ حاصل کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے بعد اپنی کم سن صاحبزادی سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حاضری دلوانے کے لئے لے جاتے اور وہاں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کناں ہوتے : ’’یا رسول ا ﷲ! میں اپنی اس بیٹی نفیسہ سے راضی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر آپ واپس پلٹ آتے۔ ایک روز تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کو خواب میں شرفِ زیارت بخشا اور فرمایا :
يا حسن، انّنى راضِِِ عن ابنتکَ نفيسه رضاک عنها، والحق سبحانه وتعالى راض عنها برضاى عنها.
(اے حسن! میں بھی تیری بیٹی نفیسہ سے راضی ہوں اور میرا رب بھی اس سے راضی ہے)۔
(الجواهر النفيسة : 5، اهل البيت : 53)
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور اولاد مبارک
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کا نکاح تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود مقرر فرمایا۔ امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کناں ہوئے : ’’یا رسول ﷲ ! میں نے یہ خواہش صرف اس لئے کی ہے کیونکہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا تقویٰ، حیاء، خدمت خلق، زہد و ورع اور عبادت و ریاضت میں اپنی مثال آپ ہیں اور کلام الٰہی کی حافظہ اور مفسّرہ بھی ہیں۔‘‘ یہ عرض کرنے کے بعد آپ واپس لوٹ آئے۔ اگلی ہی رات تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کو خواب میں شرف زیارت بخشا اور فرمایا : ’اے حسن! نفیسہ کی نسبت اسحاق المؤتمن سے کر دو۔‘‘
(الجواهر النفيسة)
اور یوں آپ کا نکاح بروز جمعہ 5 رجب 161ھ میں ہوا۔ حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدّث تھے اور کئی آئمہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے روایات نقل کیں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زیارت سے مستفید ہونے والے لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کو ایک صاحبزادہ سیدقاسم اور ایک صاحبزادی سیدہ ام کلثوم عطا فرمائے۔
(مرشد الزوار : 161)
عبادت و ریاضت
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کا قلب اطہر ذوق عبادت، محبت الٰہی، نور ایمان، صدق و یقیں سے معمور تھا۔ عبادت، علم و عمل، طلبِ معرفت، رضاءِ حق اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ آپ کی بھتیجی سیدہ زینب بنتِ سید یحییٰ فرماتی ہیں : ’’میری پھوپھی جان بہت پرہیزگار اور متّقی خاتون تھیں۔ میں چالیس سال آپ کی خدمت میں رہی ہوں اور اِس عرصے میں میں نے انہیں کبھی سوتے نہیں دیکھا۔ آپ تین دن میں فقط ایک بار کھانا تناول فرماتی تھیں۔‘‘
امام شرف الدّین بوصیری رضی اللہ عنہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی شان میں اس طرح لب کشا ہیں :
عرشُ الحقائق مهبط الاَسرار
قبرُ نفيسةِ بنت ذِى الاَنوار
عرش کے حقائق سے گرتے ہیں جو اسرار قبرِ نفیسہ پر، جو ہیں بنتِ ذی الانوار
حسنُ بنُ زيدِ بنَ الحسن نجلُ الاِما
مِ على ابن عمِّ المصطفى المختار
حسن بن زید بن الحسن ہیں بیٹے امام علی کے وہ ہیں بیٹے مصطفی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا نے زندگی میں تیس مرتبہ حج بیت اﷲ کا شرف حاصل کیا اور اکثر حج انہوں نے پیدل چل کر ادا کیے۔ جب آپ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کے عالمِ ضعف میں بھی ایسی مشقت پر مداومت کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : امام حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’مجھے شرم آتی ہے اگر میں اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کے لیے پیدل چل کے بھی نہ جا سکوں۔‘‘ بس میں انہی کی سنت پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی سیدہ زینب بنتِ سید یحییٰ فرماتی ہیں کہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا نے اپنی قبر مبارک خود تیار فرمائی اور اس میں چھ ہزار مرتبہ ختم قرآن فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہا قرآنِ مجید کی تلاوت کثرت سے کیا کرتیں اور اس معمول کو آپ رضی اللہ عنہا نے تا دمِ مرگ جاری رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے کئی نمازیں اپنی قبر مبارک میں ادا کیں اور آپ رضی اللہ عنہا نے ساری زندگی روزہ کی حالت میں گزاری (سوائے عید اور تشریق کے دنوں میں)۔ (The light of Ahl-ul-Bait by Metawalli al-Sha`rawi)
سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام سے قلبی تعلق اور زیارت
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرما تی تھیں : سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا قرآن مجید کی حافظہ، مفسّرہ اور ایک عظیم شاعرہ تھیں۔ ہمیشہ دوران تلاوت قرآن آپ رضی اللہ عنہا کی آنکھیں اشک بار رہتیں اور آپ رضی اللہ عنہا اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا کرتیں : میرے اﷲ! میرے مالک! میرے لئے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی زیارت آسان فرما، اس لئے کہ تو جانتا ہے کہ وہ ابو الانبیاء ہیں اور میرے جدِّ امجد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی جد ہیں۔‘‘
(الدّرر النفیسۃ : 41)
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا جب مصر کے لئے سفر پر روانہ ہوئیں تو راستہ میں حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کے مزارِ اقدس پر فلسطین میں حاضر ہوئیں۔ وہاں دیر تک سورۃ ابراہیم کی تلاوت کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کناں ہوئیں : ’’اے میرے جدِّ اعلیٰ! میں آپ کی بارگاہ میں آج جسم و روح کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں جبکہ اس سے پہلے فقط میری روح آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی تھی۔ آج مجھے حالت بیداری میں اپنے دیدار سے مشرف فرمائیں۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لے آئے اور فرمایا :
يا ابنتى! يا نفيسة! ابشرى فاِنَّکِ من الصّالحات القانتات. إنَّنى أوصيکِ بأَن تقرَئى سورة المزمل
(اے میری بیٹی! اے نفیسہ! تجھے بشارت ہو کہ بے شک تو صالحات اور بارگاہِ اِلٰہی میں مؤدِب ہستیوں میں سے ہے۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ سورۃ المزمل کثرت سے کو پڑھا کرو۔‘‘
پھر سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : ’’یا جدّ الاکبر! میری تمنّا ہے کہ مجھے ا ﷲ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو اور وہ مجھ سے راضی ہو جائے، اس کے بعد میری کوئی تمنّا نہیں۔‘‘ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ’’اے میری بیٹی! تجھے مبارک ہو کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے تیری دعا قبول کر لی اور وہ تجھ سے راضی ہو گیا۔ اور میں تجھے عالم ارواح میں اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن نہیں بھلاؤں گا۔‘‘
(اهل البيت : ص 54؛ السيدة نفيسة : 60 - 62
مصر کی طرف ہجرت
جب عباسی خلیفہ منصور کا دور آیا تو اس نے بلا وجہ حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے والدِ گرامی کو قید کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اپنے والدِ گرامی کے وصال کے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ اور بچوں۔ سید قاسم رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ہمراہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے مصر کی جانب ہجرت فرمائی۔ بلاد شام سے ہوتی ہوئیں ہفتہ کے روز 26 رمضان المبارک 193ھ کو مصر پہنچیں۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 48 سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کی آمد سے قبل ہی سرزمینِ مصر پر آپ رضی اللہ عنہا کی عظمت و ولایت اور علم و معرفت کے چرچے ہو چکے تھے۔ اسی لئے جب آپ رضی اللہ عنہا مصر پہنچیں تو اہل مصر نے آپ کا عظیم الشان استقبال کیا جو کہ اہل مصرکا اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
(الدّرر النفيسة : 43)
کرامات
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا اپنے دور کی باکرامت ولیہ کاملہ تھیں اور اہلِ حجاز و مصر ہمیشہ ان کی کرامات پر گواہ رہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ایسی بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں جن کا چرچا نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی ہونے لگا۔ ایک جم غفیر حاجت روائی کی غرض سے آپ کی چوکھٹ پر موجود رہتا۔ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت اپنی ٹانگوں سے مفلوج بیٹی کو آپ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں چھوڑ کر کسی کام سے چلی گئی۔ اس وقت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا وضو فرما رہی تھیں۔ جب وضو والے پانی کے چند قطرے اس لڑکی کی مفلوج ٹانگوں پر گرے تو اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں اس لڑکی کو محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں زندگی لوٹ آئی ہے اور وہ شفایاب ہوگئی۔ جب اس کی والدہ نے یہ منظر دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اسی واقعہ کی وجہ سے اس یہودی عورت کا پورا خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ جہاں سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے جسمِ اطہر سے مس ہونے والے پانی کے قطروں نے مردہ ٹانگوں کو زندگی بخشی وہاں اس واقعہ کی شہرت نے سینکڑوں دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور بھی کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کے وسیلے سے ستر یہودی گھرانے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مؤرخین نے آپ رضی اللہ عنہا کی 150 نمایاں کرامات کا ذکر کیا ہے جن کو شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا ہے۔
(الدّرر النفيسة : 89)، (The light of Ahl-ul-Bait by Metawalli al-Sha`rawi)
علمی مقام و مرتبہ
آپ رضی اللہ عنہا سے سلوک و تصوف اور علوم و فنون کا فیض بیک وقت جاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رضی اللہ عنہ اور حضرت ذو النون مصری رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت ہستیاں آپ رضی اللہ عنہا سے اکتساب فیض کرتی رہیں۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہا سے علم ا لحدیث و فقہ حاصل کرتے رہے۔ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا ہر سال امام شافعی رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کیا کرتیں۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب آپ رضی اللہ عنہ علیل ہوتے تو سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں دعا کے لیے درخواست بھیجا کرتے اوراس سے پہلے کہ پیغام بر واپس لوٹتا، اﷲ رب العزت آپ رضی اللہ عنہ کو شفایاب فرما دیا کرتا۔ جب امام شافعی رضی اللہ عنہ اپنی مرض الموت میں مبتلا تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے معمول کے مطابق ایک شاگرد کو دعا کی غرض سے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اُس شاگرد کو اِس پیغام کے ساتھ واپس بھیج دیا :
اَحسنَ اﷲ لقاء ه ومتَعَه بالنظرِ إلي وجهه الکريم
(اللہ تعالیٰ کی ملاقات بہت خوب ہے اور اس کی طرف توجہ کرنا بہت نفع بخش ہے)۔
یہ پیغام سنتے ہی امام شافعی رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے تو آپ نے اپنے تلامذہ کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا میرے جنازے میں ضرور شرکت کریں۔ جب امام شافعی رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو امیرِ مصر ابن الحکم نے کہا کہ امام شافعی رضی اللہ عنہ کا جنازہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں لے جایا جائے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا کثرتِ عبادت اور روزے کی وجہ سے کافی علیل ہو چکی ہیں۔ اس پر امام شافعی کا جنازہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے گھر مبارک پر لے جایا گیا جہاں سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حجرے میں باپردہ امام شافعی رضی اللہ عنہ کا جنازہ امام یعقوب البویطی رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ادا فرمایا۔ امام البویطی رضی اللہ عنہ حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ کے عظیم ساتھیوں میں سے تھے۔ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد جنازے میں شریک صالحین میں سے ایک بزرگ نے فرمایا :
إن اﷲ غفر لمن صلي علي الشافعي بالشافعي، وغفر للشافعي بصلاة السيدة نفيسه عليه
(بے شک اﷲ تعالیٰ نے امام شافعی رضی اللہ عنہ کے صدقے ہر اس شخص کی مغفرت فرما دی ہے جس نے امام شافعی رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا، اور سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی امام شافعی پر نمازِ جنازہ پڑھنے کے صدقے ان کی مغفرت فرما دی ہے۔
(الدرر النفيسة من مناقب و مآثر السيدة نفيسة : 40، 41)
اسی طرح حضرت ذو النون مصری رضی اللہ عنہ کا سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے تعلقِ ارادت بھی کافی قوی تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان تھا کہ اس زمانے میں سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر مستجاب الدعوات اور کوئی ہستی نہیں ہے۔
(الجواهر النفيسة، الدّرر النفيسة مِن مناقب ومآثر السيدة نفيسه : 106 - 109)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیدہ نفیسہ بیک وقت عالم و فاضلہ اور ولیہ کاملہ تھیں اور دونوں میادین کے شہسوار آپ سے رشد و ہدایت اور اکتسابِ فیض کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔
نفیسۃ الدارین رضی اللہ عنہا کا وصال مبارک
آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کا وقت جب قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں۔ طبیبوں نے آپ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاکہ روزہ افطار فرما لیجئے، اس پر سیدہ نے فرمایا : ’’تعجب ہے، مجھے تیس سال ہوگئے ہیں اپنے رب سے یہ دعا مانگتے ہوئے کہ مجھے روزے کی حالت میں موت دینا، اور آپ کہہ رہے ہیں کے میں روزہ افطار کر لوں!‘‘ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے یہ ا شعار پڑھے :
اصرفوا عنى طبيبى
ودعونى وحبيبى
اے میرے طبیب میرے پاس سے چلے جاؤ
اور مجھے اور میرے حبیب کو اکیلا چھوڑ دو
جسدِى راض بسقمى
وجفونى بتحيب
میرا جسم میری بیماری میں راضی ہے
اور میری پلکیں میرے آنسوؤں میں خوش ہیں
آپ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کے آپ رضی اللہ عنہا بسترِمرگ پرسورۃ الانعام کی تلاوت فرما رہی تھیں۔ جب اس سورت کی آیت نمبر 127۔
لَهمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهمْ وَهوَ وَلِيهمْ بِمَا کَانُوْا يعْمَلُوْنَo
(انہی کے لیے ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہی ان کا مولیٰ ہے ان اعمالِ (صالحہ) کے باعث جو وہ انجام دیا کرتے تھے)
پر پہنچیں تو آپ پر غشی طاری ہو۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کو سینے سے لگا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے شہادت کے کلمات ادا کئے اور داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ رضی اللہ عنہا 15 رمضان المبارک 208ھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 63 برس تھی۔
(نور الابصار : 394)
اہلِ حجاز و مصر کے لئے آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس روز مصر کے ہر گھر سے آہ و بُکا کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ آپ کے شوہر حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ میں دفنانے کا ارادہ فرمایا تو اہل مصر مزید غم میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے درخواست کی کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کو ہم سے جدا مت کیجیے۔ اسی رات تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو خواب میں شرف زیارت بخشا اور فرمایا : ’’اے اسحاق! نفیسہ کو مصر میں دفن کردو۔‘‘ پھر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کو مصر میں ہی دفن کیا گیا۔ آج سوا بارہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کا مزارِ مقدس مرجع خلائق ہے ۔ دنیا آج بھی آپ رضی اللہ عنہا کے مزارِ اقدس پر فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے قاہرہ جاتی ہے۔
بقول میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ
جنہاں عشق نمازاں پڑھیاں اوہ کدے نئیں مردے
اج وی انہاں دیاں قبراں اتے ویکھ لا دیوے بلدے
مصادر
1.      محمد طاہر القادری، شیخ الاسلام الدکتور، عرفان القرآن
2.      عصفور، رمضان احمد عبد ربہ، الدّرر النفیسۃ مِن مناقب ومآثر السیدۃ نفیسہ رضی اللہ عنہا
3.      الشبلنجی، نور الابصار
4.      ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنھایۃ
5.      ابن سعد، ابو عبد اﷲ محمد، الطبقات الکبری
6.      ابو علم، السیدۃ نفیسۃ
7.      حمزۃ شاھین، السیدۃ نفیسۃ
8.      عبد الخالق، الشیخ محمد، الجواھر النفیسۃ
9.      الموفق بن عثمان، مرشد الزوار الی مقابر الاخیار
10.   The light of Ahl-ul-Bait by Metawalli al-Sha`rawi

 تحریر : فضہ حسین قادری