Shabe Bara't Ki Fazilat (Urdu)

 

ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں ۔ اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔ 

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ''لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ٭لطائف المعارف ص١٤٥٭

جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اس یطرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہین فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ 
٭غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩٭

تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہوا
قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا
 بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام''۔ 
٭الدخان ٢ تا ٤ ، کنزالایمان٭
''اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت'' (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ''لیلۃ مبارکۃ'' سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر مین مکمل ہوتا ہے۔
 اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔
٭ماثبت من السنہ ص ١٩٤٭

علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ 
٭الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٨٭
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ مین تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔ 

حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال مین جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات مین لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔
٭مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧٭

حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں
''شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے
 حالانکہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔

٭مصنف عبد الرزاق جلد ٤ ص ٣١٧ ، ماثبت من السنہ ص ١٩٣٭
حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔
٭الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٦، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٦٭
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے
 اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔ 
مغفرت کی رات
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ 
٭ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩٭

شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔ 
حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے''۔ 

٭شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠٭
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے''۔ 
٭ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧٭
 حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔
٭مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٥٭

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ

آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ''شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا''۔ 
٭مسند احمد ج ٢ ص ١٧٦، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٨٭

امام بیہقی نے شعب الایمان  (ج ٣ ص ٣٨٤) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔ 
غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیچ میں مزید ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہوا ''اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے''۔
٭التحریم ٨ ، کنزالایمان٭
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔ 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔ 

رحمت کی رات
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ
 یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔ 

 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے''۔ 
٭شعب الایمان للبیہقی ج٣ ص ٣٨٣٭
 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔
٭ابنِ ماجہ ص ١٠٠، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٧٨، مشکوٰۃ ج ١ ص ٢٧٨٭
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی
شبِ برأت ی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں شاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔۔۔ راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
 شبِ بیداری کا اہتمام
شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو'' اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔ 

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
''تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے'

٭ما ثبت من السنہ ٢٠٢، لطائف المعارف ص ١٤٤٭
علامہ ابنِ الحاج مانکی رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں

''اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہیم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔
٭المدخل ج ١ ص ٣٩٢٭

 مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقد رات مین مسجد مین جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہانا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام کا طریقہ رہا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

''اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔"
٭ماثبت من السنہ ص ٢٠٥٭

 آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد ہے۔ 
اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہجب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ 

٭غنیۃ الطالبین ص ٢٥٠٭

 اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وی اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرتے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ''مال برباد اور گناہ لازم'' کا مصداق ہیں ۔ 
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ ھضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا
اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ''۔٭بنی اسرائیل٭ 

شعبان کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے،
''جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان مٰں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں''۔
یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزی کی برکت کو جاری رکھتا ہے
٭ماثبت من السنہ ١٩٢٭

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ،

میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا''۔
٭بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٤٤١٭
ایک اور روایت میں فرمایا،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے''۔

Shaban Ki Fazilat (Urdu)


غوث الثقلین ، امام الفریقین، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ''اس مہینے میں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ مہینہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے ۔ درود شریف اور اس مہینے کے وسیلے سے بار گاہِ الٰہی میں قرب حاصل کرنا چاہئے۔ (غنیۃ الطالبین عربی، جلد ۔١،صفحہ ٢٨٨)

فضائل میں احادیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،'' رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔''
 (ماثبت با السنۃ صفحہ١٧٠بحوالہ جامع الکبیر بروایت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ) 
محدث ویلمی علیہ الرحمۃ روایت کرتے ہیں، ''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، میں نے حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔

(١) شب عید الاضحی
(٢) شب عید الفطر
(٣) ماہ رجب کی پہلی شب
(٤) شب نصف شعبان۔ 

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم رؤف الرحیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا، ''پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی،

(١) رجب کی پہلی رات
(٢) نصف شعبان کی رات
(٣) جمعہ کی رات
(٤) اور
(٥) دونوں عیدوں کی رات۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی تیرہویں شب اپنی امت کی شفاعت کیلئے دعا کی تو آپ کو تہائی عطا ہوا، پھر چودہویں شب دعا کی تو دو تہائی عطا ہوا، پھر پندرہویں شب دعا کی تو سب کچھ عطا ہوا ، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے بِدکے ہوئے اونٹ کی طرح بھاگے یعنی نافرمانی کرنے والا۔(مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨٢)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمد شعبان پر فرماتے ، اس میں اپنی جانوں کو پاک کرو اور اپنی نیتوں کو درست کرو۔ (مکاشفۃ القلوب ٦٨١)

ابن اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا نصف شعبان کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے ،

سَجَدَ لَکَ سَوَا دِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فَوَا دِیْ وَہٰذِہ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلیٰ نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْ جیٰ لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَوَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، وَشَقَّ سَمْعَہ، وَبَصَرَہ،
میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی:
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا
اے اللہ ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو شرک سے پاک ہو ، نیک ہو ۔۔۔۔۔۔ نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو

پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سُنا،

اَعُوْذُ بِرِضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآءَ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاؤ،دُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ
میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤود علیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کیلئے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کیلئے خاک آلودہ ہو۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٨٣۔٦٨٤)

شعبان میں روزوں کی فضیلت:
یوں تو عام طور پر ہر ماہ چند نفلی روزے جسمانی و روحانی اعتبار سے مفید ہوتے ہیں۔ اگر ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں (ایامِ بیض) کے تین دن مسلسل روزے رکھیں تو ایمانی درجات کی بلندی، روحانی بالیدگی اور ایمان پر استقامت کی ضمانت حاصل ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ صحیح العقیدہ سنی شیخ طریقت کی راہنمائی حاصل ہو، جو اپنے مریدین کو کامل طور پر مسلک امام احمد رضا محدث و محقق بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے دائرے میں رکھے اور صلح کلی کے فریب سے بچائے۔

نسائی شریف میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اس قدر روزے رکھتا نہیں دیکھتا جس قدر کہ شعبان میں آپ روزوں کا اہتمام کرتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل جب پیش ہو تو میں روزے کی حالت سے ہوں۔'' 
(مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨١، جامع الصغیر، جلددوم، صفحہ٣٠١)

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔'' 
(بخاری شریف جلد اول صفحہ٢٦٤، مسلم شریف جلد اول صفحہ٣٦٥)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، پھر اسے رمضان سے ملادیا کرتے ۔ 
(جامع الترمذی جلد اول، صفحہ ٢٧٥، سنن ابو داؤد ، جلد اول صفحہ ٣٣٧، سنن ابن ماجہ صفحہ١١٩)

یہی روایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی ہے، جسے ابن ماجہ صفحہ ١١٩ ، اور ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥ پر ملاحظہ کریں۔


انچویں صدی کے مجدد سیدنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ''شعبان دراصل شعب سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ہے پہاڑ کو جانے کا راستہ، اور یہ بھلائی کا راستہ ہے۔ شعبان سے خیر کثیر نکلتی ہےــ'' (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨١) 

ایک اور قول کے مطابق شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنی تفرق کے ہیں۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے، نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٠٤/ ماثبت باالسنۃ صفحہ١٨٦)

سیدی و سندی حضور غوث اعظم الشیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں۔

١۔ شین
٢۔ عین
٣۔ باء
٤۔ الف
٥۔ نون

پس ''شین'' عبارت ہے شرف سے اور ''عین'' عبارت ہے علو سے اور ''با ''عبارت ہے بِرّ (یعنی بھلائی) سے اور ''الف ''عبارت ہے الفت سے اور ''نون ''عبارت ہے نور سے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ ( غنیۃ الطالبین عربی، جلد۔١، صفحہ ٢٨٨، نزہۃ المجالس ج۔١، صفحہ ١٣١)

شب برات سے متعلق ارشاد خداوندی :
حٰمۤ o وَ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ o فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍo اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَo
(پارہ ٢٥، سورہ دخان، آیت ١ تا ٥)
ترجمہ :۔ قسم اس روشن کتاب کی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔ (کنز الایمان)

اس رات سے کون سی رات مراد ہے علمائے کرام کے اس میں دو قول ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما و حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی کیونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت موجود ہے اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات تھی۔

 
شبِ برأت کے فضائل و اعمال
(١) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا ، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا '' اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
 (ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥، ابن ماجہ صفحہ ٩٩) 
امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس باب میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔

(٢) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے ''کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں ، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں۔ 
(ابن ماجہ شریف صفحہ نمبر٩٩)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے 
(سنن ابن ماجہ صفحہ ٩٩)

قبل مغرب مختصر عمل مگر اجر بے مثل:
ماہ شعبان کی چودہ (١٤) تاریخ کو قبل مغرب چالیس مرتبہ
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اور سو (١٠٠) مرتبہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں چالیس برس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ بہشت میں خدمت کے لئے چالیس حوریں مامور کردی جاتی ہیں ۔ (مفتاح الجنان)

شعبان المعظم کے نوافل 
 
آفات و بلیات و محتاجی سے نجات:
نماز مغرب کے بعد ٦ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سوۃ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھنے کے نتیجے میں انشاء اللہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔

صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (٤٩٠٠) حاجتیں پوری ہوتی ہیں:
حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں کہ '' مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔

تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی:
آٹھ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر خلوص دل سے توبہ کریں اور درج ذیل دعا کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور سجدے میں ٤٤ مرتبہ پڑھیں ۔ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے کہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ

رزق میں برکت اورکاروبار کی ترقی کیلئے:

دورکعت نماز ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ ، سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں۔ سلام کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر تین سو تیرہ مرتبہ
یَاوَہَّابُ یَا بَاسِطُ یَارَزَّاقُ یَا مَنَّانُ یَا لَطِیْفُ یَا غَنِیُّ یَا مُغْنِیُّ یَا عَزِیْزُ یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ کا وظیفہ پڑھنے سے کاروبار میں برکت اور رزق میں وسعت ہوجاتی ہے۔

موت کی سختی آسان اور عذابِ قبر سے حفاظت:
چار رکعت پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر ایک مرتبہ اور اخلاص تین دفعہ پڑھ کر سلام کے بعد سورۃ ملک اکیس مرتبہ اور سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں اکیس دفعہ پڑھنے سے انشاء اللہ والرسول صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختیوں اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

صلوۃ التسبیح:
حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا ، نیا ، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو ، بڑا ہو ، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔ طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ پندرہ بار پھر تعوذ ، تسمیہ ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(٧٥) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (٣٠٠) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (٢٥) بار اور رکوع و سجود میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔

روز محشر اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی نظر کرم:
اس نعمت کے وہ مستحق ہوں گے جو پندرہ شعبان کا روزہ رکھیں اور بعد نماز ظہر چار رکعت دو دو کر کے اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسورۃزلزال ایک بار،سورۃ اخلاص دس بار، دوسری رکعت میں سورۃ تکاثر ایک بار، سورۃاخلاص دس بار، دوسری نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون تین دفعہ ،سورۃ اخلاص دس بار اور آخری رکعت میں آیت الکرسی تین دفعہ، سورۃ اخلاص پچیس بار، جو یہ عمل کریں گے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرف نظر کرم فرمائے گا۔
نوٹ: یاد رکھیں نوافل سے پہلے فرض نمازوں کی قضا کی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔

دعائے نصف شعبان المعظم
 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰہُمَّ یَا ذَ الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط یَا ذَاالطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ فلَاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَہْرُ اللَّاجِئِیْنَ ط وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ ط وَاَمَانُ الْخََآئِفِیْنَ ط اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِۤی اُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقَتَّرًاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِ ط فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَا وَتِیْ وَحِرْ مَا نِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَرِزْقِیْ ط وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیۤ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا امَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرَاتِ ط فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ ط عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ ط یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہ، اُمُّ الْکِتٰبِ
o اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّیِّ الْاَعْظَمِ ط فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ ط اَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرَمُ ط اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَ آءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَمُ ط وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ o

فاتحہ اور حلوہ کھانے اور کھلانے کے فائدے:
١٤ شعبان کو گھر میں خواتین (باوضو ہوں تو بہتر ہے) حلوہ پکائیں اور آقائے دوجہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہما کی خصوصیت کے ساتھ نیز دیگر صالحین ، اولیائے کاملین ، سلاسل تصوف و طریقت کے بزرگان دین، اپنے آباؤ اجداد، اعزاو اقربا (جو حالتِ ایمان پر رحلت کر گئے ہوں) اور عام مومنین کی حلوے پر فاتحہ دلائیں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں، خصوصاً محتاج و مستحقین امداد کو حلوے کے علاوہ کچھ خیرات بھی دیں۔ مشائخ سے منقول ہے یہ ارواح اپنے عزیزوں کی جانب سے فاتحہ و نذور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب کے تحفے وصول کرکے خوش ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے زندہ عزیزوں کے حسنِ خاتمہ و آخرت کے لئے سفارش بھی کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث جلد دوم صفحہ ٨١٧ کے مطابق حلوہ کھانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواتر اور سنتِ عادیہ دونوں پر عمل ہے۔ جبکہ حلوہ کھلانے سے متعلق اللہ کے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فرماتے ہیں'' جس نے اپنے مسلمان بھائی کو میٹھا لقمہ کھلایا اس کو سبحانہ و تعالیٰ حشر کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا،۔ (شرح الصدور، للعلامہ امام سیوطی مجدد قرن نہم)


قبرستان حاضری کے آداب 
مرحومین اور عزیزوں کی مغفرت کیلئے: باوضو ہو کر اور تازہ گلاب(یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں، قبروں کے آداب اور خصوصًاقبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے ، ہر قبرستان میں شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے کھمبوں کی تنصیب کرے اور ان ہی کھمبوں پر تیز روشنی کے بلب لگائے جائیں تاکہ پورا قبرستان روشن ہو کیونکہ قبرستان بہت گنجان ہوتا ہے قبروں کے درمیان قطعاً جگہ نہیں ہوتی کہ وہاں موم بتی یا چراغ جلا سکیں لیکن بعض نادان حضرات ایسا کرتے ہیں جو شرعاً منع ہے، خوشبو کے لئے اگر بتی جلا کر قبر سے ایک فٹ دور رکھیں۔ اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں ۔ قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُورِ الْمُسْلِمِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اَنَا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْاَلَ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃِ

پھر درج ذیل درود شریف ایک مرتبہ پڑھنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مُردوں پر سے ستر سال کے لئے اور چار دفعہ پڑھنے پر قیامت تک کا عذاب اٹھا لیتا ہے ۔ چوبیس مرتبہ پڑھنے والے کے والدین کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے والدین کی قیامت تک زیارت کرتے رہو۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط

اَلّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الصَّلٰوۃِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الرَّحْمَۃِ
وَصَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍا فِی الْارْوَاحِ
وَصَلِّ عَلٰی صُوْرَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الصُّوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَسْمَائِ
وَصَلِّ عَلٰی نَفْسِ مُحَمَّدٍا فِی النُّفُوْسِ
وَصَلِّ عَلٰی قَلْبِ مُحَمَّدٍا فِی الْقُلُوْبِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی القُبُوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی رَوْضَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الرِّیَاضِ
وَصَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَجْسَادِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی التُّرَابِ
وَصَلِّ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ وَ ذُرِّیَّتِہ وَ اَہْلِ بَیْتِہ
وَاَحْبَابِہ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ