Huzoor Makhdoom Ashraf Sinmami ki Kitabon ke naam

ایک شبہ کا ازالہ
حاجی الحرمین الشریفین  مخدوم الآفاق سید عبدا لرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی  7 ذی الحجہ                      872؁ ہجری میں وصال فرمایا ۔ معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سید عبدالرزاق نورالعین نے اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادگان کو تبرک اور مختلف علاقوں کی ولایت عطافرمادی تھی اور ان کے لئے مقام تجویز کردیئے تھے تاکہ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرسکیں،چنانچہ بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن کو اپنا جانشین بنایا اور ولایت کچھوچھہ عطا کیا دوسرے صاحبزادے سید شاہ حسین کو ولایت جونپور عطا کی تیسرے صاحبزادے سید شاہ احمد کو ولایت جائس رائے بریلی اور چوتھے صاحبزادے سید شاہ فرید کو ولایت بارہ بنکی عطا کی اس طرح آپ نے تمام صاحبزادگان کو علاقے عطافرمائے لیکن اپنا جانشین سید شاہ حسن کو ہی بنایا ۔ہماری اس بات کی حیات محدث اعظم ہند کے مصنف کی اس تحریر سے ہوتی ہے وہ  لکھتے ہیں :
"حضرت نورالعین پاک نے ہر وجہہ اور ہر لحاظ سے اکبریت حسن کا خاص خیال کھتے ہوئے اپناقائم مقام خلیفہ اور سجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر کو بنایا اور خدمت آستانہ و جاروب کشی بھی ان کے سپرد فرمائی جیساکہ مولانا صالح رودولوی خلیفہ سید شاہ کرم اللہ اشرف جائسی اپنے رسالہ"خلافت نامہ اشرفیہ" میں تحریر کرتے ہیں " چنانچہ حضرت نورالعین وقت وفات خدمت جاروب کشی بخلف اکبر سپردند وسید حسین رابجون پوروسید احمد رابجائس وسید فرید رابردولی فرستادہ وصیت بجاآورند" اس بیان سے یہ حقیقت رونما ہوگئی کہ حضرت حاجی الحرمین الشریفین شیخ الاسلام والمسلمین سید عبدا لرزاق نورالعین کی وفات کے بعد درگاہ کچھوچھہ شریف کے تنہا واحد حقیقی اصلی اور جائزسجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں تھےسید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں کے عہد سجادگی میں ان کے چھوٹے بھا ئی سید شاہ حسین ایک عرصے کے بعد ولایت جونپور سے درگاہ کچھوچھہ شریف بغرض چلہ کشی پہنچےاور پھر مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایاولایت جونپور چھوڑنے کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ"چوں بست ودومواضع ازبعض معتقدین بفتوح دارندحصہ سید حسین خلف ثانی نیز درآن قراریافت بدیں وجہہ تعلق سکونت کچھوچھہ اختیارکردند"۔   (بحوالہ:  خلافت نامہ اشرفیہ)
بہرحال ! سید شاہ حسین ثانی جب کچھوچھہ شریف پہونچے تو بڑے بھائی کی محبت و شفقت نے انہیں پناہ دی اور مستقل رہنے کی اجازت بھی ان کی بے نفسی وسیع القلبی اور والہانہ تعلق خاطر کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ خود تمام حقوق رکھنے کے باوجود تنہامراسم عرس اداکریں اور چھوٹے بھائی کے نام کا چراغ روشن نہ ہو لہذا انہوں نے بکمال اخلاص و محبت اپنے چھوٹے بھائی سید شاہ حسین کو 27محرم الحرام کی تاریخ برائے ادائیگی مراسم عرس مرحمت فرمائی اور اپنے لئے 28 محرم الحرام یعنی عرس حضرت مخدوم صاحب کی خاص تاریخ محفوظ رکھی اس طرح سید شاہ حسین خلف ثانی کو سید شاہ حسن  خلف اکبر سرکار کلاں کے بخشندہ یا مرحمت کردہ حقوق سجادہ نشینی حدوددرگاہ کچھوچھہ شریف ملے ورنہ نورالعین نے انہیں ولایت جونپور کا سجادہ نشین نامزد فرمایا تھا۔                   (حیات محدث اعظم ہندصفحہ 13)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام والمسلمین مخدوم الآفاق حاجی الحرمین الشریفین سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن ہی درگاہ کچھوچھہ شریف  کے سجادہ نشین تھے لیکن جب ان کےچھوٹے بھائی سید شاہ حسین ولایت جونپور چھوڑکر کچھوچھہ شریف آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جگہ دی بلکہ مراسم عرس بھی تقسیم کرلیں چنانچہ 27 محرم الحرام کو سید شاہ حسین درگاہ شریف میں مراسم عرس ادا کرتے ہیں اور اصل تاریخ یعنی 28 محرم الحرام کو سید شاہ حسن جو درگاہ شریف کے سجادہ نشین تھے مراسم عرس ادا فرماتے تھے۔
             بہرحال رسالؔہ قبریہ اور بشاؔرۃ المریدین  جس میں حالات نزول ملائکہ اور اظہار اپنے عقائد حقہ اور بشارت عالم غیب تحریر فرمایااور علم اصول میں فصوؔل اشرفی لکھی ۔ ایک جلد مکتوباؔت اشرفی آپ کے صاحب سجادہ حضرت نورالعین نے جمع کیا ۔ ایک جلد رقعاتؔ اشرفی جس کو حضرت مولانا شیخ دریتیم نے جمع کیا تھا ۔ اس میں مختصر رقعات حضرت محبوب یزدانی درج  کئے ہیں اور دیوان ؔاشرف ایک مبسوط کتاب منظوم ہے جس کو اہل زمانہ مثل دیوان حافظ لسان الغیب مانتے ہیں۔          (بحوالہ:صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ118)
حضرت نورالعین نے فرمایا کہ جس وقت امیر تیمور گورکانی ، حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تقتمش خاں پر فوج کشی کرنا چاہتا ہوں حضور فال نیک دیکھ کر بتلائیے۔ حضرت کے سامنے آپ کا دیوان رکھا ہوا تھا اس میں جو فال دیکھی یہ شعر برآمد ہوا۔
از  آیت   و   حدیث  دو قرن  اند بیقراں
اے بادشاہ کو ش کہ صاحب قران شوی
لقب صاحب قرانی  امیر تیمور کو حضور کے دیوان کے فال سے عطا ہوا ۔ بعد ملاحظہ فال امیر صاحب قراں کے حضرت محبوب یزدانی دست دعا ہوئے اور فاتحہ پڑھا۔ چنانچہ آپ کی دعا کے برکت سے سلطان صاحب قران نے غنیم پر نصرت و فتح پائی ۔
غوث العالم محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے  ارشاد فرمایا:
میرے خاندان کی عظمت اور شان بلند ہے یہاں سے تصور کرنا چاہیے کہ سلطان محمود غزنوی جیسے بادشاہ ہمارے بزرگوں کے غلام زادوں نے سلطنت اور بادشاہت کی ہے۔ (حوالہ: اشرف الفوائد)
آپ  اپنے مکتوبات اشرفی  میں تحریر فرما تے ہیں کہ میرے جد امجد حضرت سید شمس الدین محمود نوربخشی قدس سرہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی چشتی قدس سرہ کے زمانہ میں ہندوستان کی سیر کو تشریف لائے اور سلطان شمس الدین التمش کے گھر مہمان ہوئے سلطان موصوف جو قطب صاحب کے مرید اور خلیفہ تھے ۔ ان سے تعریف کی کہ میرے گھر ایک مہمان سید عالی خاندان ملک ایران کے رہنے والے تشریف لائے ہیں وہ مرتبہ ولایت میں نقباء کے درجہ کو پہونچے ہوئے ہیں ۔
حضرت قطب الدین بختیارکاکی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایسے مہمان عظیم الشان کو تم نے اپنے گھر میں ٹھہرالیا ان کو ہمارے گھر ٹھہرنا چائیے تھا ۔ میں تو ان کو خواجگان چشت سے سمجھتا ہوں۔ دوسرے دن سید شمس الدین محمود حضرت قطب صاحب کے گھر مہمان ہوئے حضرت قطب صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ آپ کی ذریت میں ایک غوث جہانگیر پیدا ہوں گے اور وہ میرے سلسلے کو جاری کریں گے اور خطہ یوض جس کو اودھ کہتے ہیں ۔ اس میں پچھم حدودقصبہ جائس اور سترک سے لے کر پورب دریائے کوسی تک اسی درمیان میں ان کا ظہور کامل ہوگا اور رسالہ غوثیہ میں حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند خواجہ معین الدین ولی الہند چشتی اجمیری نے تحریر فرمایا ہے کہ میرے سلسلوں میں ایک غوث جہانگیر پیدا ہوگا اور وہ ترقی کے ساتھ میرے سلسلہ کو جاری کرے گا۔ غرض کہ جس طرح غوث الثقلین محبوب سبحانی کے زمانہ ظہور سے پہلے آپ کی ظہور کی بشارت مشائخ ماسبق فرماتے تھے اسی طرح سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ظہور سے پہلے اولیاماسبق نے آپ کے ظاہر ہونے کی پیشن گوئی فرمائی تھی اور آپ کے پیر برحق حضرت شیخ علاؤ الحق پنڈوی نےمحبوب یزدانی کو  خوشخبری سنائی تھی کہ تم غوث زمانہ ہوگے اور اسی طرح حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ نے مژدۂ حصول مراتب غوثیہ اور قطبیہ حضرت محبوب یزدانی کو پہونچایا تھا۔                               (صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ135)
حضرت محبوب یزدانی نےفرمایا کہ اس فقیر نے حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی تصانیف سے پانچ سو کتابیں دیکھی ہیں ۔ بیشتر آپ کی تصانیف فن حدیث و تصوف میں دیکھی گئی ۔ دوسو کتابوں کا دیباچہ اور خطبہ مجھ کو یاد ہے ۔ کتاب خاتمہ مکتوبات اشرفی میں نورالعین سے منقول ہے کہ حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا کے سند علم قرأت  کی معناً پانچ پشتوں تک اپنے آباؤ اجداد سے علی الاتصال پہونچی ہے جس کی سند علی ابن حمزہ الکسائی سے اوپر منسوب ہے ۔ میر ا عمل قرأت امام عاصم اور نافع ہے ۔ اور یہ  بھی فرماتے تھے کہ میر ے سلطنت میں میرے خاندان سادات نوربخشیہ سے ستر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں  موجود تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی کی کہ پانچ پشتوں میں سلطان ابن سلطان اور سید ابن سید اور ولی ابن ولی اور حافظ ابن حافظ اور قاری ابن قاری اور عالم ابن عالم برابر نسلاً بعد نسلاٍ حضرت کے ہوتے ہوئے چلے آئے۔

غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی  صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کےسب پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں ۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو ۷۵۸؁ھ مطابق ۱۳۰۸؁ ء میں میں تصنیف کیا گیا یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے ۲۸ صفحات ہیں قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں ۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ  اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں۔

تصانیف جلیلہ
تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
ê رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین
ê رسالہ غوثیہ
ê بشارۃ الاخوان 
ê ارشاد الاخوان
ê فوایدالاشرف
ê اشرف الفواید
ê رسالہ بحث وحدۃ الوجود
ê تحقیقات عشق
ê مکتوبات اشرفی
ê شرف الانساب
ê مناقب السادات
ê فتاوائے اشرفی
ê دیوان اشرف
ê رسالہ تصوف و اخلاق(بزبان اردو)
ê رسالہ حجۃ الذاکرین 
ê بشارۃ المریدین
ê کنزالاسرار
ê لطائف اشرفی  (ملفوظات سید اشرف سمنانی)
ê شرح سکندرنامہ
ê سرالاسرار  
ê شرح عوارف المعارف
ê شرح فصول الحکم  
ê قواعد العقائد
ê تنبیہ الاخوان
ê رسالہ مصطلحات تصوف
ê تفسیر نور بخشیہ
ê رسالہ در تجویز طعنہ یزید
ê بحرالحقائق
ê نحو اشرفیہ
ê کنزالدقائق
ê ذکراسمائے الہی
ê مرقومات اشرفی
ê بحرالاذکار
ê بشارۃ الذاکرین
ê ربح سامانی
ê رسالہ قبریہ
ê رقعات اشرفی
ê تسخیرکواکب
ê فصول اشرفی
ê شرح ہدایہ
حوالاجات
حیات غوث العالم   صفحہ 74 تا 77
صحائف اشرفی حصہ اول 115 تا 118
سید اشرف جہانگیر سمنانی  علمی دینی اور روحانی خدمات  صفحہ 173 تا 206

Syed Ashraf Simani ki Tasaneef, Ilmi o Adbi Khidmat

تصانیف ، علمی وادبی خدمات
سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف بزرگ تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ بیشتر علوم و فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے علم و روحانیت کے ذریعے تبلیغ دین کا فریضہ بحوبی انجام دیااور اس مقصد کے لئے تحریر وتقریر دونوں سے اہم کا م کیا کسی کی علمیت کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تحریر یعنی کتب کا جائزہ لیا جائے اس سلسلے میں کتب نمایاں حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہی وہ علمی سرمایہ ہے جو کسی بھی عالم کی علمی حیثیت اور مقام کو واضح کرتا ہے۔ آپ نےبہت ساری کتب تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی الحمد اﷲ کچھ کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں ۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جس طرح ایک کتاب فوائد العقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اسکا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کی تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب کچھوچھہ مقدسہ کی لائبریری کے علاوہ  دیگر جامعات میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
 مجمع البحرین   حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی اپنی مشہور ومعروف کتاب صحائف اشرفی میں لکھتے ہیں:
حضرت مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی خلیفہ حضرت کے جامع لطائف اشرفی ملفوظات حضرت محبوب یزدانی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے ۔ بہت سی کتابیں آپ کی عربی ، فارسی ، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں جو تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول تھاکہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف ہوئے ہوں گے۔
کتاب کؔنزالاسرار ۔ ذکراسمائؔے الہی اور تسخیر کواکؔب حضرت نے تالیف فرمائیں جس کی تعلیم مجھ کو حضور سے حاصل ہوئی تھی ۔ یہ عجیب کتاب آ پ کی تالیفات سے فن تکسیر میں تھی  تصانیف کثیرہ آ پ کی اس قدر ہیں کہ جس کی فہرست لکھنا محال ہے اکثر کتابیں آ پ کی تالیفات سے بنام قدوۃ الخوانین حضرت مسند عالی سیف خاں حضرت کے خلیفہ جو دامادسلطان فروزشاہ تغلق بادشاہِ دہلی کے تھے تصنیف  ہوئیں اور اس فقیر نظام یمنی نے دوجلدیں حضرت کے ملفوظات سے کتابیں لطائف ؔاشرفی اور کتاب سرؔاالاسرار اور رقعات حضرت کو جمع کرکے اس کو مرقوماتؔ اشرفی کے نام سے موسوم کیا  اور کتاب سکنؔدرنامہ حضرت نظامی گنجوی کی بھی شرح لکھی  علاوہ اس کے مقامات مختلفہ میں حضور نے جو کتابیں تحریر فرمائیں انہیں سے خاص خاص کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
حسب ارشاد امام عبداللہ یافعی اور بموجب بشارت روحانی حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب سہر وری قدس سرہ کی کتاب عوارف اؔلمعارف  پر شرح لکھی اور حضرت مولانا شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ کی کتاب فصوصؔ الحکم پر بھی روم میں  جب تشریف لے گئے شرح لکھی اور اس کو حضرت صاحب المعارف شیخ نجم الدین ابن شیخ صدرالدین فغانی کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ میں اس شرح کو بحکم روحانیہ پاک شیخ اکبر لکھا ہے۔
جب عرب میں تشریف لے گئے تو اہالی عرب نے حضرت کے رسائل تصوف کی طرف نہایت میل کیا اور کتابؔ العقائد عربی زبان میں تصنیف کیا ۔ حضرت نے اہل عرب کی تعلیم کے واسطے خاص کر یہ کتاب لکھی جیساکہ مولانا اعظم اعلم مولانا علی نے لمعات کو عربی میں کیا ۔ شرح بھی عربی زبان میں لکھی ۔ اسرارمعارف الہی بہت کچھ اس میں درج فرمائے۔
جب حضرت محبوب یزدانی اطراف عراق و خراسان و ماوراء النہر میں تشریف لے گئے وہاں کے سادات نے کتاب بحرالانساب پیش کی ۔ حضرت محبوب یز دانی نے کتاب مذکورہ سے منتخب کر کے کتاب "اشرف اؔلانساب "تصنیف کی اور کتاب بحراؔلاذکار بھی وہاں ہی تصنیف فرمائی اور رسالہ"اشرف الؔفوائد" اور"فوائدالاؔشرف " ملک گجرات میں تصنیف فرمایا اور کتا ب بشارۃ الؔذاکرین  اوررسالہ تنبیہ الؔاخوان اور رسالہ بشارتؔ الاخوان بیاس خاطر حضرت مسند عالی سیف خاں تصنیف فرمائے اور روم میں رسالہ مصطلحاتؔ تصوت تحریر فرمایا  اور رسالہ مناقب خلفؔاء راشدین فضائل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم میں لکھی جس  پر علمائے محمد آباد گوہنہ نے بسبب مناقب حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اعتراض کیا تھا اور چند رسائل تصوف میں بمقام روم اور لکھے جن کے نام یاد نہیں اور رسالہ حجت الذاکرین بنگالہ میں تصنیف فرمایا اس رسالہ میں پانچوں وقت بعد ادائے فریضہ تین باربآواز بلند کلمہ طیبہ کا ثبوت احادیث اورتفسیر سے فرمایا ہے اس رسالہ کو نصیحت نامہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اور کتاب فتاوائے اؔشرفیہ بزبان عربی محض بپاس خاطر حضرت نورالعین تحریر فرمایا اس کتاب میں مسائل فقہ بڑی بڑی کتابوں سے انتخاب کرکے تصنیف فرمایا ۔ یہ فتاویٰ جامع مسائل ضروریہ مذہب حنفیہ میں اس خوبی کے ساتھ لکھا ہے کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا کہ جس کی سفر و حضر میں دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔
علم تفسیر میں کتاب ربح سؔامانی  اور کتاب تفسیرنورؔبخشیہ تصنیف فرمائی ۔ جس میں تمام مسائل تصوف مثل خواجہ روز یہاں بقلی رحمۃ اللہ علیہ بکمال خوبی درج فرمائے او ر کتاب ارشاد اؔلاخوان اوراداشغال مشائخ چشت اہل بہشت میں اور رسالہ بحث وؔحدۃ الوجودمیں یہ ایک نایاب رسالہ ہے جس میں سر ہمہ اوست کو بہ دلائل احادیث و تفسیر تحریر فرمایا اوررسؔالہ تجویز یہ درتجویز لعن بر یزید جونپور میں علمائے کے مباحثہ کے بعد تحریر فرمایااورموافق عقیدۂ صاحب عقائد نسفی یزید پر لعنت فسقی کہنا جائز ثابت  کیا۔ اور کتاب بحرالؔحقائق میں سرمعرفت و حقیقت بیان ہے اور علم نحو اؔشرفیہ تصنیف فرمایا جس میں تمامی مسائل نحوی بالتفصیل درج فرمائے   اور کتاب کنز اؔلدقائق فن تصوف میں تصنیف فرمائی اور بشارۃ المؔریدین  حسب درخواست سلطان ابراہیم شرقی جونپورمیں تصنیف کیا اور رسالؔہ غوثیہ ذکر مردان اہل خدمات ابدال و اوتاد و غوث و قطب وغیرہ میں تصنیف کیا اور رسالہ قؔبریہ اپنے قبر شریف میں لکھا ۔ یہ 27 محرم الحرام کو قبر شریف میں آرام فرمایا عالم حیات میں تھا ۔ اس میں رسالؔہ قبریہ اور بشارۃ ؔالمریدین لکھا اور 28 محرم الحرام کو جملہ خلفاء اور مریدین باصفا کے حق میں دعائے خیرفرمائی  اور اسی تاریخ 28 محرم الحرام کو بعد ظہر مجلس سمع میں رحلت فرمائی ۔ مقام اعلیٰ علیین کی طرف روانہ ہوئے چنانچہ اب تک سجادہ نشینان خانقاہ حسنی مراسم و فاتحہ قل اسی تاریخ پر ادا کرتے ہیں جیساکہ اولاد شاہ حسین سجادہ نشین چھوٹی سرکار کے ایک دن پیشتر حضور کے وصال سے 27 یعنی محرم الحرام کو رسم فاتحہ ادا کرتے ہیں۔                (حوالہ: صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ117) 

Hazrat Shaikh Burhanuddin Muhammad Bin Taqi

حضرت برہان الدین محمد بن النقی قدس سرہ
حضرت برہان الدین محمد بن النقی قدس سرہ جلیل القدر عالم اورصوفی گرزے ہیں آپ سے سید اشرف سمنانی کے معاصرین میں تھے خاتمہ مکتوبات اشرفی میں  شیخ الاسلام حضرت  علامہ سید عبدالرزاق نورالعین الحسینی الحسینی(  سید اشرف جہانگیر سمنانی کے فرزندمعنوی ، خلیفہ برحق اور جانشین  ہیں)نے انکا ذکر کیا ہےکہ "برہان الدین محمد بن النقی الحکیم الصوفی آپ صاحب تفسیر بدیع الہمدانی اور صاحب مقامہ ہیں۔  آپ راستے سے کپڑے لپیٹ کر اس طرح گزرتے تھے جیسے شمشیر کو غلاف میں لپیٹا گیا اس لباس میں لوگ  آپ کو پہچان نہیں سکتے تھے ۔ سید بشیر بن غیاث آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ خلق ایوان و ارحام ہیں ۔  آپ حیا ت ظاہری کے متحمل ہیں علمائے تبزیر آپ کی خدمت میں آتے تھے حضرت قدوہ الکبریٰ نے آپ سے ملاقات کی اور بعض اشکال کے بارے میں حل طلب کیا جو انہوں نے احسن طریقے سے حل فرمایا۔                                                                (حوالہ: خاتمہ مکتوبات اشرفی جلددوم صفحہ361)

 قدوۃ الآفاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین  کی تحریر سے پتہ سے چلتا ہے کہ حضرت برہان الدین محمد مفسر بھی تھے اور بہت سے علوم کے جامع تھے ۔ علوم و مسائل پر قابل رشک عبور تھا ۔ مشکل سے مشکل مسئلہ نہایت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے خصوصاً تصوف کے پیچیدہ مسائل اس خوبی سے بیان فرماتے تھے کہ سننے والے کا ذہن بالکل صاف ہوجاتا تھا اور اس کے ذہن میں پھر کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہتا تھا یہی وجہ تھی کہ وقت کے جید علماء جب کسی مسئلے میں دقت محسوس کرتے تو آپ ہی کے طرف رجوع کرتے اور آپ اپنی فہم وفراست ، علمیت و قابلیت وروحانیت سے اس مسئلے کو حل فرمادیا کرتے تھت ۔ ان کی علمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی جیسی عظیم المرتبت شخصیت نے ان سے فیض حاصل کیا۔