تصانیف
، علمی وادبی خدمات
سید اشرف
جہانگیر سمنانی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب
تصانیف بزرگ تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ،
محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ بیشتر علوم و فنون میں کامل
مہارت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے علم و روحانیت کے ذریعے تبلیغ دین کا فریضہ بحوبی
انجام دیااور اس مقصد کے لئے تحریر وتقریر دونوں سے اہم کا م کیا کسی کی علمیت کا
جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تحریر یعنی کتب کا جائزہ لیا جائے اس سلسلے
میں کتب نمایاں حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہی وہ علمی سرمایہ ہے جو کسی بھی عالم کی
علمی حیثیت اور مقام کو واضح کرتا ہے۔ آپ نےبہت ساری کتب تصنیف فرمائیں جو مرور
ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی الحمد اﷲ کچھ کتابیں ایسی ہیں
جو صحیح حالت میں ہیں ۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔اکثر کتابیں
فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جس طرح ایک کتاب فوائد
العقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اسکا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کی
تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ
نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں
نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب کچھوچھہ مقدسہ کی لائبریری کے علاوہ دیگر جامعات میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو
میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
مجمع البحرین
حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت
سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ
النورانی اپنی مشہور ومعروف کتاب صحائف اشرفی میں لکھتے ہیں:
حضرت
مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی خلیفہ حضرت کے جامع لطائف اشرفی ملفوظات حضرت
محبوب یزدانی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے
زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب
تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے ۔ بہت سی کتابیں آپ کی عربی ، فارسی ،
سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں جو تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر
لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول تھاکہ جس قدر
تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف
ہوئے ہوں گے۔
کتاب کؔنزالاسرار
۔ ذکراسمائؔے الہی اور تسخیر کواکؔب حضرت نے تالیف فرمائیں جس کی تعلیم مجھ کو
حضور سے حاصل ہوئی تھی ۔ یہ عجیب کتاب آ پ کی تالیفات سے فن تکسیر میں تھی تصانیف کثیرہ آ پ کی اس قدر ہیں کہ جس کی فہرست
لکھنا محال ہے اکثر کتابیں آ پ کی تالیفات سے بنام قدوۃ الخوانین حضرت مسند عالی
سیف خاں حضرت کے خلیفہ جو دامادسلطان فروزشاہ تغلق بادشاہِ دہلی کے تھے تصنیف ہوئیں اور اس فقیر نظام یمنی نے دوجلدیں حضرت
کے ملفوظات سے کتابیں لطائف ؔاشرفی اور کتاب سرؔاالاسرار اور رقعات حضرت کو جمع
کرکے اس کو مرقوماتؔ اشرفی کے نام سے موسوم کیا
اور کتاب سکنؔدرنامہ حضرت نظامی گنجوی کی بھی شرح لکھی علاوہ اس کے مقامات مختلفہ میں حضور نے جو
کتابیں تحریر فرمائیں انہیں سے خاص خاص کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
حسب ارشاد
امام عبداللہ یافعی اور بموجب بشارت روحانی حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب سہر وری قدس
سرہ کی کتاب عوارف اؔلمعارف پر شرح لکھی
اور حضرت مولانا شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ کی کتاب فصوصؔ الحکم پر بھی روم
میں جب تشریف لے گئے شرح لکھی اور اس کو
حضرت صاحب المعارف شیخ نجم الدین ابن شیخ صدرالدین فغانی کے سامنے پیش کیا اور عرض
کیا کہ میں اس شرح کو بحکم روحانیہ پاک شیخ اکبر لکھا ہے۔
جب عرب
میں تشریف لے گئے تو اہالی عرب نے حضرت کے رسائل تصوف کی طرف نہایت میل کیا اور
کتابؔ العقائد عربی زبان میں تصنیف کیا ۔ حضرت نے اہل عرب کی تعلیم کے واسطے خاص
کر یہ کتاب لکھی جیساکہ مولانا اعظم اعلم مولانا علی نے لمعات کو عربی میں کیا ۔
شرح بھی عربی زبان میں لکھی ۔ اسرارمعارف الہی بہت کچھ اس میں درج فرمائے۔
جب حضرت
محبوب یزدانی اطراف عراق و خراسان و ماوراء النہر میں تشریف لے گئے وہاں کے سادات
نے کتاب بحرالانساب پیش کی ۔ حضرت محبوب یز دانی نے کتاب مذکورہ سے منتخب کر کے
کتاب "اشرف اؔلانساب "تصنیف کی اور کتاب بحراؔلاذکار بھی وہاں ہی تصنیف
فرمائی اور رسالہ"اشرف الؔفوائد" اور"فوائدالاؔشرف " ملک
گجرات میں تصنیف فرمایا اور کتا ب بشارۃ الؔذاکرین اوررسالہ تنبیہ الؔاخوان اور رسالہ بشارتؔ
الاخوان بیاس خاطر حضرت مسند عالی سیف خاں تصنیف فرمائے اور روم میں رسالہ مصطلحاتؔ
تصوت تحریر فرمایا اور رسالہ مناقب خلفؔاء
راشدین فضائل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم میں لکھی جس پر علمائے محمد آباد گوہنہ نے بسبب مناقب حضرت
مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اعتراض کیا تھا اور چند رسائل تصوف میں بمقام روم
اور لکھے جن کے نام یاد نہیں اور رسالہ حجت الذاکرین بنگالہ میں تصنیف فرمایا اس
رسالہ میں پانچوں وقت بعد ادائے فریضہ تین باربآواز بلند کلمہ طیبہ کا ثبوت احادیث
اورتفسیر سے فرمایا ہے اس رسالہ کو نصیحت نامہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اور کتاب
فتاوائے اؔشرفیہ بزبان عربی محض بپاس خاطر حضرت نورالعین تحریر فرمایا اس کتاب میں
مسائل فقہ بڑی بڑی کتابوں سے انتخاب کرکے تصنیف فرمایا ۔ یہ فتاویٰ جامع مسائل
ضروریہ مذہب حنفیہ میں اس خوبی کے ساتھ لکھا ہے کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا کہ جس کی
سفر و حضر میں دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔
علم تفسیر
میں کتاب ربح سؔامانی اور کتاب تفسیرنورؔبخشیہ
تصنیف فرمائی ۔ جس میں تمام مسائل تصوف مثل خواجہ روز یہاں بقلی رحمۃ اللہ علیہ
بکمال خوبی درج فرمائے او ر کتاب ارشاد اؔلاخوان اوراداشغال مشائخ چشت اہل بہشت
میں اور رسالہ بحث وؔحدۃ الوجودمیں یہ ایک نایاب رسالہ ہے جس میں سر ہمہ اوست کو
بہ دلائل احادیث و تفسیر تحریر فرمایا اوررسؔالہ تجویز یہ درتجویز لعن بر یزید
جونپور میں علمائے کے مباحثہ کے بعد تحریر فرمایااورموافق عقیدۂ صاحب عقائد نسفی
یزید پر لعنت فسقی کہنا جائز ثابت کیا۔
اور کتاب بحرالؔحقائق میں سرمعرفت و حقیقت بیان ہے اور علم نحو اؔشرفیہ تصنیف
فرمایا جس میں تمامی مسائل نحوی بالتفصیل درج فرمائے اور کتاب کنز اؔلدقائق فن تصوف میں تصنیف
فرمائی اور بشارۃ المؔریدین حسب درخواست
سلطان ابراہیم شرقی جونپورمیں تصنیف کیا اور رسالؔہ غوثیہ ذکر مردان اہل خدمات
ابدال و اوتاد و غوث و قطب وغیرہ میں تصنیف کیا اور رسالہ قؔبریہ اپنے قبر شریف
میں لکھا ۔ یہ 27 محرم الحرام کو قبر شریف میں آرام فرمایا عالم حیات میں تھا ۔ اس
میں رسالؔہ قبریہ اور بشارۃ ؔالمریدین لکھا اور 28 محرم الحرام کو جملہ خلفاء اور
مریدین باصفا کے حق میں دعائے خیرفرمائی
اور اسی تاریخ 28 محرم الحرام کو بعد ظہر مجلس سمع میں رحلت فرمائی ۔ مقام
اعلیٰ علیین کی طرف روانہ ہوئے چنانچہ اب تک سجادہ نشینان خانقاہ حسنی مراسم و
فاتحہ قل اسی تاریخ پر ادا کرتے ہیں جیساکہ اولاد شاہ حسین سجادہ نشین چھوٹی سرکار
کے ایک دن پیشتر حضور کے وصال سے 27 یعنی محرم الحرام کو رسم فاتحہ ادا کرتے ہیں۔ (حوالہ:
صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ117)
No comments:
Post a Comment