Huzoor Makhdoom Ashraf Simnani ki Karaamaten


محبوب یزدانی غوث العالم
 تارک السلطنت مخدوم سلطان اوحدالدین
 سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی
کچھوچھہ شریف یوپی انڈیا
کرامت قسط 1:
صحائف اشرفی میں حضور شیخ المشائخ اعلی حضرت حضرت سید علی حسین اشرف اشرفی میاں قدس سرہ سجادہ نشین کچھوچھہ شریف لکھتے ہیں کہ سنوات الاتقیاء جو تصنیف شیخ ابراہیم سرہندی کی ہے اس کو حضرت مولانا سید اسماعیل حسن صاحب قادری مارہروی قدس سرہ نے مجھے(اعلی حضرت اشرفی میاں کو  )دکھلایا ۔اس میں لکھا ہے کہ ایک دن قاضی شہاب الدین ملک العلماء خدمت عالی حضرت محبوب یزدانی میں اس خیال سے حاضر ہوئے کہ حضور محبوب یزدانی مجھ کو میرے لائق خطاب عطا فرمائیں ۔اور وہ چیز کھلائیں۔جو میں نے کبھی نہ کھائی ہو۔جیسے ہی خیمے مبارک کے قریب آئے طناب خیمہ سے الجھ کر قاضی صاحب کی پگڑی گر پڑی۔
حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا ۔ملک العلماء دستار سرپر رکھو ۔جب خدمت عالی میں حاضر ہوئے تو حضرت نے باورچی سے فرمایا کہ طعام ماحضر قاضی صاحب کے لئے لاو۔باورچی نے ایک پیالہ کھیر کا قاضی صاحب کے سامنے پیش کیا۔قاضی صاحب دل میں سوچنے لگے کہ کھیر کوئی نایاب کھانا نہیں ۔میں نے تو بارہا کھیر کھائی ہے۔
حضور محبوب یزدانی نے فرمایا کہ فقیر کے ساتھ گائے بھینس نہیں رہتی ہیں ۔جہاں فقیر جاتا ہے جنگل کے ہرن ۔نیل گاو آکر دودھ دے جاتے ہیں ۔بھلا ایسی کھیر آپ کو کب میسر ہوئی ہوگی۔یہ سن کر قاضی صاحب دل ہی دل میں پشیمان ہوئے ۔
کرامت قسط 2
سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں سجادہ نشین کچھوچھہ شریف صحائف اشرفی میں لطائف اشرفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضور محبوب یزدانی مقام پنڈوہ شریف سے جب رخصت ہوکر چلے اور خطہ جونپور میں قیام فرمایا ۔حضرت قاضی شہاب الدین ملک العلماء دولت آبادی قدس سرہ خدمت عالی میں تین باتوں کا خیال کرکے حاضر ہوئے۔ایک تو یہ کہ اپنا جوٹھا عنایت فرمائیں ۔دوسرے ایسا تحفہ دیں جو کہ نادرالعصر ہو۔تیسری وہ بات کریں کہ آپ کی طرف سے گمان شیعت کا میرے دل سے اٹھ جائے۔
جس وقت حاضر خدمت ہوئے حضور محبوب یزدانی وضو فرمارہے تھے۔جیسا کہ طریقہ اہل سنت کا ہوتا ہے۔جب مبارک دھوئے تو قاضی صاحب کی طرف ہنس کر فرمایا ۔
ظن المؤمنين خيرا .مسلمانوں کی طرف نیک گمان کرنا چاہئے ۔
ہندوستان کے آدمی عجیب قسم کے شبہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔بقیہ وضو کا پانی اول حضرت نے خود پیا ۔تھوڑا سا بچا ہوا پانی قاضی صاحب کو عنایت فرمایا کہ پی جاواس میں آب زمزم ہے۔
جب حضرت نے رخصت کیا تو کتاب ہدایہ جو ولایت سے تصحیح کرکے ہمراہ لائے تھے۔اور اس پر حاشیہ قلم مبارک مولانا برہان الدین مرغینانی ہروی قدس سرہ کا تھا۔اور بعض حاشیہ حضرت محبوب یزدانی نے اپنی طرف سے اس پر لکھا تھا ۔قاضی صاحب کو عنایت فرمایا ۔اور فرمایا کہ اس راہ کا علم مشکل ہے۔کم سے برادر شہاب الدین کے علم کے برابا ہونا چاہیے ۔
آئینہ          ہوتا          ہے       اہل               دل            کا                     دل
کشف ہو تجھ پر کسی کامل سے مل


 کرامت قسط 3
صاحب صحائف اشرفی حضور اشرفی میاں قدس سرہ لکھتے ہیں ۔کہ جب حضرت محبوب یزدانی کے پیرومرشد خواجئہ خواجگان حضرت مخدوم علاء الحق گنج نبات پنڈوی بنگالی قدس سرہ نے فرمایا کہ فرزند اشرف تم کو معلوم ہے کہ تمہارے قبر کی جگہ کہاں ہے۔تم ولایت جونپور کی طرف جاو وہاں ہی اسی جوار میں تمہارا مقام اور جائے قبر ہے۔
حضور محبوب یزدانی نے عرض کیا کہ آپ مجھ کو خطئہ جونپور کی طرف بھیجتے ہیں اور مجھ کو اپنے کشف سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک شیر رہتا ہے۔
آپ کے پیرومرشد نے فرمایا کہ کچھ اندیشہ کی بات نہیں ۔وہاں ایک شیر بچہ تم کو ملے گا وہی اس شیر کے لئے کافی ہے۔چنانچہ جب حضرت محبوب یزدانی نے مقام پنڈوہ شریف خانقاہ سے رخصت ہوکر مع حشم و خدم شاہانہ قصبہ ظفر آباد متصل شہر جونپور میں نزول فرمایا ۔اور مسجد ظفر خاں میں اترے۔اسباب سفر وہاں ہی رکھا گیا۔حضرت کے ہمراہ اونٹ گھوڑے خچر جوتھے ۔ان کو قلندروں نے مسجد کے صحن کے اندر باندھنا شروع کیا۔اس خبر کو سن کر چند علماء اور طلباء بغرض استفسار آپ کی خدمت عالی میں حاضر ہوئے۔چاہتے تھے کہ کچھ عرض کریں اسی اثناء میں ایک گھوڑے نے گردن سے اشارہ کیا۔حضور محبوب یزدانی غوث العالم  نے فرمایا یہ گھوڑا لید کرے گا۔اشارہ کرتا ہے اس کو مسجد کے باہر لے جاو۔پھر ایک اونٹ نے اشارہ کیا ۔فرمایا کہ یہ پیشاب کرے گا۔اس کو بھی باہر لے جاو۔غرض کہ اسی طرح چند جانوروں نے اشارے کئے۔
حضور محبوب یزدانی نے ان لوگوں کی طرف جو حاضر ہوئے تھے متوجہ ہوکر فرمایا یہ جانور پاک ہیں ۔صحن مسجد میں ان کا لانا ممنوع نہیں ۔چونکہ ہمارے ساتھ رہنے والے جانور باادب ہیں اپنی حوائج سے خبر کردیتے ہیں ۔تو ایسے جانوروں کا مسجد میں لانا کیا قباحت ہے۔ہاں مقتضائے ادب یہ ہے کہ یہ جانور مسجد میں نہ لائے جائیں ۔
معترضین نادم اور پشیمان ہوکر چلے گئے۔
 کرامت قسط 4
سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں لکھتے ہیں مسجد ظفر خاں شہر جونپور میں حضور محبوب یزدانی مع خلفاء و مریدین کلمات سر و معرفت الہی بیان فرمارہے تھے۔کہ کچھ لوگ ایک زندہ آدمی کو ایک چارپائی پر لٹائے ہوئے اوپر سے چادر اوڑھاکر لائے اور روروکر عرض کرنے لگے۔کہ حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھادیجئے۔
یہ نقال تھے جن کو ہندی بھونڈا کہتے ہیں ۔اس غرض سے زندہ آدمی کو مردہ بناکر لائے تھے کہ جب حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں گے تو آدمی چارپائی سے اٹھ کر بھاگے گا جس سے ہم مذاق اڑائیں گے۔
حضرت محبوب یزدانی نے ایک خلیفہ سے فرمایا کہ ادائے نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ۔تم جاکر اس کی نماز جنازہ پڑھا دو سب کو جانے کی ضرورت نہیں ۔
ایک نقال نے میت کا وارث بن کر نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دی۔
جب حضرت کے خلیفہ نے نماز جنازہ کے لئے تکبیر اولی اللہ اکبر کہکر کان تک ہاتھ اٹھائے۔ادھر اس کی روح پرواز کر گئی۔
نماز جنازہ کے بعد حضرت کے خلیفہ نے فرمایا کہ میت کو اٹھاو اور لے جاکر دفن کردو۔
وہ نقال تو اس کے آٹھ کر  بھاگنے کے منتظر تھے۔مگر اس کی روح پرواز کرچکی تھی۔سب لوگ اپنی اس حماقت پر پشیمان ہوئے۔
حضور محبوب یزدانی غوث العالم نے فرمایا کہ اب کچھ نہیں ہوگا لے جاو اس کو سپرد خاک کردو ۔(صحائف اشرفی حصہ اول  )
 کرامت قسط 5
صاحب صحائف اشرفی سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں سجادہ نشین کچھوچھہ شریف صحائف اشرفی میں لطائف اشرفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا شیخ محمد کبیر عباسی سرور پوری جو ایک خواب کی بنا پر سرور پور سے ظفر آباد میں حضرت حاجی چراغ ہند کی خدمت میں آئے۔خواب یہ تھا کہ جس کا سبب یہ پیدا ہوا۔یعنی جب حضرت مولانا محمد کبیر تحصیل علوم سے فارغ ہوئے آپ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ کسی مرد کامل اور درویش صاحب دل سے بیعت حاصل کرکے تکمیل سلوک حاصل کریں ۔شب کو یہ خواب دیکھا کہ ایک صاحب نورانی صورت ،میانہ قد، ریش مبارک کے بال سرخ،تشریف لائے ہیں اور مجھ کو بیعت کیا ہے۔شربت پلایا اور روٹی بھی کھلائی ۔جب خواب سے بیدار ہوئے ۔شوق دل طلب سلوک میں حد سے زیادہ بڑھا۔دل میں سوچنے لگے کہ اس دیار میں صاحب ولایت حضرت حاجی چراغ ہند ہیں ۔غالبا خواب میں اشارہ انہیں کی طرف سے ہوا ہوگا۔اسی خیال سے رواں دواں ظفر آباد پہونچے ۔آپ کے ہمراہ شاگردوں کی بھی ایک جماعت تھی اور وہ سب آپکے ساتھ بیعت کرنا چاہتے تھے۔جب حضرت حاجی چراغ ہند کی صورت دیکھی تو جو شکل خواب میں نظر آئی تھی وہ نہ پائی۔حضرت شیخ کبیر کا دل چراغ ہند سے بیعت کرنے پر راضی نہ ہوا۔مگر چندروز وہاں ٹھہرے ۔اسی اثناء میں نسیم ولایت جہانگیری عالم میں چلنے لگی اور تجلیات خورشید ہدایت چار سمت میں پھیل گئی ۔
حضور محبوب یزدانی مسجد ظفر خاں میں رونق افروز تھے۔اور فرماتے تھے کہ میرے دماغ میں ایک دوست کی خوشبو آتی ہے۔اور تعجب ہے کہ وہ چلا کیوں نہیں آتا۔جب حضرت کی شہرت عام طور سے ادنی واعلی کو پہونچی۔تو حضرت شیخ کبیر کو بھی اشتیاق قدمبوسی ہوا۔کہ شرف دیدار حاصل کروں ۔
حضور محبوب یزدانی بعد ادائے وظائف صبح اشراق کی نماز پڑھ کر مجمع یاراں میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ حضرت شیخ کبیر حاضر ہوئے۔دور سے جیسے ہی نظر پڑی ۔حضور محبوب یزدانی نے فرمایا کہ وہ یار کہ جس کو میں یاد کررہا تھا۔آگیا ۔شیخ کبیر کے آنے سے پہلے ہی خادم کو روٹی اور شربت تیار کرنے کا حکم دے چکے تھے۔جب شیخ کبیر نے دور سے جمال مبارک دیکھا جو صورت خواب میں دیکھی تھی وہی نظر آئی ۔آیتہ كريمه. انى وجهت وجهى للذى فطرالسموات والأرض؟پڑھتے ہوئے سر قدم مبارک پر رکھ دیا۔
اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔حضور محبوب یزدانی نے روٹی اور شربت اپنے دست مبارک سے کھلایا پلایا ۔بیعت کا شرف حاصل کرنے کے بعد حضرت کے اصحاب سے مصافحہ کیا اور سب نے مبارکباد دی۔
حضرت شیخ کبیر کے مرید ہونے کی خبر جب عام طور سے مشہور ہوئی۔حضرت حاجی چراغ ہند نے بھی ان کے مرید ہونے کا قصہ سنا یہ بات آپ کے مزاج کے موافق نہ ہوئی۔کہ ایک آدمی کل میرے پاس مرید ہونے کے لئے آیا اور جاکر مرید ہوگیا ۔اس لئے ہر چند کہ آپ کے مناسب حال نہ تھا۔مگر انسانی تقاضا کے تحت مزاج عالی میں تعصب پیدا ہوا۔اور تجلی اسم جلال شیخ کے سر میں متجلی ہوئی۔فرمایا کہ کبیر جوان مرجائے گا۔کہ یہاں سے جاکر وہاں مرید ہوگیا۔
چونکہ حضرت شیخ کبیر مخدوم سمنانی محبوب یزدانی کے فیض نظر کیمیا اثر سے کامل ہوچکے تھے۔حضرت حاجی چراغ ہند کا کہنا آپ پر ظاہر ہوگیا۔اور حضور محبوب یزدانی بھی اس حال سے متاثر ہوئے۔فرمایا کہ اے فرزند کبیر تم غم نہ کھاو۔کہ کبیر تو بوڑھا ہوگا۔لیکن جنہوں نے تم کو بدعا دی ہے تم بھی ان کے بارے میں کچھ کہو ۔جو تم کہوگے وہی ہوگا۔
حضرت شیخ کبیر نے کمال عاجزی سے عرض کیا۔کہ اب میں ان کو کیا کہوں جو کچھ کہ ان کی طرف سے صادر ہوا ہے انہی کی طرف لوٹ جائے۔
حضور محبوب یزدانی نے جب یہ معائنہ کیا تو فرمایا کہ درویشوں سے یہ بات آسان ہے۔مشیئت الہی یہی تھی۔دونوں بزرگوں کی بات اپنی اپنی جگہ پر رہی۔حضرت شیخ کبیر پچیس برس کی عمر میں ایسے بوڑھے ہوگئے کہ جیسے سو سال کا بوڑھا ہوتا ہے۔اور حضرت شیخ حاجی چراغ ہند کا شمع ہدایت شیخ کبیر کے انتقال سے پانچ سال قبل گل ہوگیا۔
اس مقام پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ولی کی زبان سے جو کچھ نکل جائے دوسرا ولی اس کو ٹال سکتا ہے ۔مگر حالت مشائخ دیکھنے سے یہ بات ثابت ہوئی کی سوائے غوث کے دوسرا ولی کسی ولی کی زبان کو ٹال نہیں سکتا۔
چونکہ حضور غوث العالم محبوب یزدانی اولیائے روئے زمین کے سردار تھے۔اس لئے آپ کےفرمانے سے حضرت کبیر پچیس برس کی عمر میں بوڑھے ہوگئے ۔اب اگر جوان ہوتے تو اسی وقت انتقال کر جاتے اسی لئے آپ کی حیات میں اسقدر خدانے برکت دی کہ حضرت چراغ ہند ظفر آبادی وصال کے بعد پانچ برس اور زندہ رہے۔
(صحائف اشرفی ۔لطائف اشرفی  )

 کرامت قسط6
ایک دن حضرت محبوب یزدانی مسجد ظفر خاں میں رونق افروز تھے۔اصحاب بھی ساتھ تھے۔ایک بار حاضرین کو سخت گرمی محسوس ہوئی کہ جیسے مسجدمیں آگے برس رہی ہو۔ایک دم سب نے سکوت کیا آخر تاب نہ لاسکے ۔سب نے باری باری مسجد سے باہر نکلنا شروع کیا۔سامنے کوئی باقی نہ رہا۔حضور محبوب یزدانی نے تبسم فرمایا ۔اور فرمایا کہ یہ آتش چراغ سے ہے اس کا بجھا دینا آسان ہے۔تھوڑی ہوا میں سرد ہوجاتا ہے ۔ایک خادم سے فرمایا کہ پانی کا لوٹا لاو۔کہ تم لوگوں کی تکلیف جاتی رہے۔بموجب فرمان ،خادم نے زمین پر پانی گرایا ۔حضرت حاجی چراغ ہند پانی میں غرق ہونے لگے۔اپنے پیر کو یاد کیا ۔اور انہوں نے اپنے پیر کو۔درجہ بدرجہ یہاں تک نوبت پہونچی کہ روحانیت پاک حضور پرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان جاری ہوا کہ۔تم کو مناسب نہ تھا کہ مہمان کے ساتھ یہ ادائے مخالفت کرو۔اگر کچھ نہ تھا تو اتنا تو سمجھتے کہ میرا فرزند تھا۔اس کی رعایت تم کو کرنی چاہئے تھی۔اب اٹھو اور جاو اور ان سے معافی طلب کرو۔
حضرت حاجی چراغ ہند ادھر اپنے گھر سے نکلے ادھر حضور محبوب یزدانی غوث العالم کے پاس تمام اکابرین کی روحانیاں تشریف لائیں ۔آپ نے فرمایا کہ میرا خیال ان کی ولایت میں قیام کرنے کا نہیں ہے ۔تمام روحانیہ اکابرین سے آپ نے معذرت کی۔اور یہ فرمایا کہ درمیان خاندان چشت اور سہرورد جہاں کہ ہیں ۔ایک حد مقرر کی جاتی ہے۔بس اب درمیان جانبین دریائے گومتی حد فاضل قرار دی جاتی ہے۔کہ کوئی اپنی حد سے متجاوز نہ ہو۔
حضرت محبوب یزدانی مسجد سے نکل کر حضرت حاجی چراغ ہند کے پاس جانا چاہتے تھے ادھر وہ تشریف لارہے تھے۔راستے میں دونوں کی ملاقات ہوئی مصافحہ اور معانقہ ہوا۔
پھر حضرت حاجی چراغ ہند نے حضور محبوب یزدانی کی دعوت کی اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔
 کرامت 7
حضور محبوب یزدانی ایک دن قصبہ چاندی پور بڈہڑ میں بغرض ادائے نماز جمعہ تشریف لے گئے۔اس قصبہ میں ایک بزرگ شیخ زاہد نام عابدانہ اور زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔اور ان کی یہ کرامت نہایت مشہور تھی کہ اکثر رات کو حجرے سے باہر نکلنا جاتے ہیں ۔جب لوگ آپ کو تلاش کرتے تو آپ کو دریائے سرجو کے پانی پر مصلی بچھائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھتے ہیں ۔اسی کرامت کی شہرت سے جوارودیار کے آدمی ازحد ان کے معتقد تھے۔
حضور محبوب یزدانی بھی شیخ زاہد کی ملاقات کے لئے تشریف گئے۔دیکھا کہ آپ دریا کے درمیان مصلی بچھائے نماز پڑھ رہے ہیں ۔حضرت محبوب یزدانی بھی دریا کے اوپر پیر رکھتے ہوئے۔شیخ زاہد کے مصلی کے پاس پہونچے اور بمقتضاء شفقت بزرگانہ ان کی پیٹھ پر دست شفقت پھرانے لگے ۔اور فرمایا کہ تجھ پر خدا تعالی کی رحمت ہو کہ عرفان اور آراستگی تم نے اس قدر بہم پہونچائی جیسا کہ بزرگوں کا ددستور ہوتا ہے۔
حضرت شیخ زاہد بھی اپنی پیری اور زہد پر نازاں تھے۔وہ حضرت محبوب یزدانی کی پشت مبارک پر ہاتھ پھرانے لگے اور دعا کے کلمات کہنے لگے۔
حضور محبوب یزدانی کو ان کی یہ حرکت ناپسند ہوئی۔فرمایا کہ ہندوستان کے آدمی عجیب گستاخ ہوتے ہیں ۔تھوڑی کرامت میں مغرور ہوجاتے ہیں ۔ایسے لوگ چند روز میں گمنام ہوجاتے ہیں ۔
تھوڑے دن میں زاہد غائب ہوگیا ۔کسی نے نہ جانا کہ کیا ہوا۔کہاں گیا۔ان کی قبر کا بھی نشان نہ رہا۔
زبان مبارک سے اس وقت حضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تیری قبر گدھوں کی چراگاہ میں ہوگی۔سناگیا کہ اکثر دھوبیوں کے گدھے جب گم ہوجاتے ہیں تو دھوبی اس طرف تلاش کو نکلتے ہیں مدھر زاہد کی قبر بے نشان تھی ۔اور یہ بات بھی زبان مبارک سے نکلی کہ یہ قصبہ کبھی آباد ہوگا اور کبھی ویران ہوجائے گا۔یہ بات بھی دیکھی گئی۔
(صحائف اشرفی ۔لطائف اشرفی  )
 کرامت 8
قصبہ نظام آباد کے پاس ایک گاوں ہے۔جس کا نام دو بتیہا ہے۔اس میں ہندو اور مسلمان دونوں آباد تھے۔اور اتفاقا حضور محبوب یزدانی اس گاوں میں تشریف لے گئے ۔خود مسلمانوں کی مسجد میں اترے اور ہمراہیوں کے واسطے خیمے نصب ہوئے۔گاوں چھوٹا تھا۔اور بازار اس میں نہیں تھا۔وہاں کے مسلمانوں نے کم ہمتی کی حضرت کی دعوت کا کچھ سامان نہ کیا۔حضرت کے ہمراہی رات کو بھوکے سوئے رہے۔جب صبح ہوئی دوسرے فرقہ ہندو میں سے جو غریب تھا اس شخص کو معلوم ہوا کہ رات کو فقرا نے فاقہ کیا۔حضرت محبوب یزدانی کے سامنے آکر نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کرنے لگا۔کہ اگر تھوڑی حضرت ٹھہر جائیں تو میں کچھ ناشتہ کا سامان کروں۔حضرت نے اس کی استدعا قبول فرمائی ۔وہ شخص گیا اس کی صرف ایک گائے تھی۔اور کچھ اس کے پاس نہ تھا ۔حضرت محبوب یزدانی کے پاس لاکر کہا کہ اس کو ذبح کراکر ہمراہیوں کے واسطے ناشتہ پکوائیے۔اور بڑی کوشش اور تردد سے تمام ہندووں نے مل کر دو تین من آٹا بھی پیش کیا۔دودھ دہی گھی مصالحہ بھی لاکر باورچی کو دیا۔
باورچی نے جب کھانا تیار کیا جملہ پانچ سو درویشوں کو تقسیم کیا گیا۔لیکن کھانا کم نہ ہوا۔کھانے کے بعد ہندو آیا اور ادب سے کنارے کھڑا ہوا۔
حضور محبوب یزدانی نے فرمایا کہ فرقہ مسلمان کی دولت ہم نے تجھ کو دی۔اور تیرےسات بیٹے پیدا ہوں گے۔
تھوڑی ہی مدت میں حضرت کا فرمان ظاہر ہوا۔جماعت مسلمان مفلسی کے سسبب گاوں چھوڑ کر  بھاگ گئے۔
حضور محبوب ربانی سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ صحائف اشرفی میں میں لکھتے ہیں۔ کہ فقیر اشرفی جب اس گاوں میں گیا تو ایک زمیندار جس کا نام پنی راو تھا ملا۔اور کیفیت دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو ہم لوگ حضرت کی دعا سے بکمال فارغ البالی بسر کرتے تھے۔مگر اب ہم لوگوں پر ایک خطا کی وجہ سے تکلیف آنے لگی ۔
قصبہ نظام آباد کے پاس ایک گاوں ہے۔جس کا نام دو بتیہا ہے۔اس میں ہندو اور مسلمان دونوں آباد تھے۔اور اتفاقا حضور محبوب یزدانی اس گاوں میں تشریف لے گئے ۔خود مسلمانوں کی مسجد میں اترے اور ہمراہیوں کے واسطے خیمے نصب ہوئے۔گاوں چھوٹا تھا۔اور بازار اس میں نہیں تھا۔وہاں کے مسلمانوں نے کم ہمتی کی حضرت کی دعوت کا کچھ سامان نہ کیا۔حضرت کے ہمراہی رات کو بھوکے سوئے رہے۔جب صبح ہوئی دوسرے فرقہ ہندو میں سے جو غریب تھا اس شخص کو معلوم ہوا کہ رات کو فقرا نے فاقہ کیا۔حضرت محبوب یزدانی کے سامنے آکر نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کرنے لگا۔کہ اگر تھوڑی حضرت ٹھہر جائیں تو میں کچھ ناشتہ کا سامان کروں۔حضرت نے اس کی استدعا قبول فرمائی ۔وہ شخص گیا اس کی صرف ایک گائے تھی۔اور کچھ اس کے پاس نہ تھا ۔حضرت محبوب یزدانی کے پاس لاکر کہا کہ اس کو ذبح کراکر ہمراہیوں کے واسطے ناشتہ پکوائیے۔اور بڑی کوشش اور تردد سے تمام ہندووں نے مل کر دو تین من آٹا بھی پیش کیا۔دودھ دہی گھی مصالحہ بھی لاکر باورچی کو دیا۔
باورچی نے جب کھانا تیار کیا جملہ پانچ سو درویشوں کو تقسیم کیا گیا۔لیکن کھانا کم نہ ہوا۔کھانے کے بعد ہندو آیا اور ادب سے کنارے کھڑا ہوا۔
حضور محبوب یزدانی نے فرمایا کہ فرقہ مسلمان کی دولت ہم نے تجھ کو دی۔اور تیرےسات بیٹے پیدا ہوں گے۔
تھوڑی ہی مدت میں حضرت کا فرمان ظاہر ہوا۔جماعت مسلمان مفلسی کے سسبب گاوں چھوڑ کر  بھاگ گئے۔
حضور محبوب ربانی سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ صحائف اشرفی میں میں لکھتے ہیں۔ کہ فقیر اشرفی جب اس گاوں میں گیا تو ایک زمیندار جس کا نام پنی راو تھا ملا۔اور کیفیت دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو ہم لوگ حضرت کی دعا سے بکمال فارغ البالی بسر کرتے تھے۔مگر اب ہم لوگوں پر ایک خطا کی وجہ سے تکلیف آنے لگی ۔
حضور اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ فرماتے ہیں ۔کہ جب میں اس زمیندار جس کا نام پنی راو تھا ملا اور پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ جب حضور محبوب یزدانی ہمارے گاوں میں ٹھہرے تھے تو بڑی کی شاخ سے مسواک کی اور اس کو زمین میں دبا دیا اور یہ فرمایا کہ یہ ہماری نشانی رہے گی ۔چنانچہ اس مسواک سے ایک عظیم الشان بڑ کا درخت پیدا ہوا۔اور اس کی شاخوں سے جہاں جہاں ریش زمین تک لٹکی اس میں جڑ نکل آئی ۔بڑھتے بڑھتے یہ درخت بادہ بیگہ کے حلقے میں پھیل گیا۔ہماری قوم والے اس درخت کے پتے تک نہیں چھوتے تھے ۔اب ہماری قوم والوں نے اس درخت کی لکڑی کاٹنا شروع کی۔پانچ بیگہ تک کاٹ کر صاف کردیا۔اور اس جگہ میں کھیتی کرنے لگے۔اس وقت وہ درخت سات بیگہ کے حلقے میں موجود ہے۔
سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ فرماتے ہیں۔یہ واقعہ 1326 ہجری کا ہے جب اس فقیر نے اس کی زبان سے سنا۔تو میں نے کہا کہ تم لوگوں بڑی غلطی ہوئی ۔جب حضرت نے تم کو گاوں بخش دیا تو جہاں تک بڑ کا درخت حضرت کی مسواک کی نشانی تھی اس کو نہ کاٹتے۔
اور اعظم گرھ میں ایک معتبر شخص کی زبان سے فقیر نے سنا کہ اعظم گڑھ کے ایک کنجڑے نے تھوڑی زمین موضع دو بیتھا کی نیلام کے ذریعہ خرید کی ۔ایک سال بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ وہ ایسا تباہ ہوا کہ کہیں اس کے مال و دولت کا پتہ نہ لگا۔            (صحائف اشرفی  )
کرامت 9
حضور اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ سجادہ نشین کچھوچھہ شریف صحائف اشرفی میں نقل فرماتے ہیں کہ۔حضور محبوب یزدانی خطہ جونپور سے چل کر موضع سرس جو اسٹیشن شاہ گنج کے قریب ہے۔آئے اور وہاں ایک بزرگ شیخ نصیر الدین سرسی رہتے تھے۔صاحب کمالات عالی مقام تھے۔اس جوار کے آدمی آپ کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے۔انہوں نے ایک خانقاہ بھی بنائی تھی۔حضور محبوب یزدانی جب ان کی خانقاہ میں آٹھہرے کسی قدر حضرت کی خدمت گزاری میں کم توجہی کی جس سے خاطر مبارک میں ملال پیدا ہوا۔فرمایا کہ جس گاوں میں ایسے درویش رہتے ہیں آگ کیوں نہیں لگتی۔زبان مبارک سے یہ بات نکلنی تھی کہ گاوں میں آگ لگ گئی۔اور حضور محبوب یزدانی اس گاوں سے باہر چلےلے آئے۔تمام گاوں جل گیا۔شیخ سرسی حضرت کے پیچھے دوڑتے ہوئے ایک کوس تک گئے۔حضرت کے سامنے بہت عاجزی کی اور دوبارہ گاوں میں واپس لائے۔دو تین گھر جو جلنے سے بچ گئے تھے۔وہیں حضرت کو ٹھہرا یا۔اور کھانے کا سامان مہیا کیا۔تھوڑی دیر میں جب کھانا تیار ہوا اور حضرت کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا۔حضرت کے چہرہ مبارک پر آثار خوشی ظاہر ہوئی۔شیخ سرسی نے بہت معذرت کی ۔
حضرت نے فرمایا کہ یہ امر اتفاقا حسب مرضئ خدا واقع ہوا۔اور جس مقام پر آگ لگی ہے وہاں پر کوئی آباد نہ ہو۔اس جگہ کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر آباد ہوں۔
حضور اعلی حضرت اشرفی میاں فرماتے ہیں ۔فقیر اشرفی جب شاہ گنج میں حاجی الہی بخش رئیس کے مکان پر فروکش ہوا۔موضع سرس وہاں سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا۔حضرت شیخ سرسی کے مزار پر فاتح پڑھنے گیا۔آپ کے مزار پر ایک جنگلی درخت جما ہے جس کا پھل نہایت شیریں ہوتا ہے۔اہل دیہات اس کو تبرکا کھاتے ہیں ۔
وہاں کے لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضور محبوب یزدانی کے رخصت ہونے کے بعد حضرت شیخ سرسی نے اپنے مٹی کے بدھنی (لوٹا ) کو سات ٹکڑے کرکے سات مقام پر ڈالا ۔اس وقت اسی سات مقام پر موضع مذکور کے سات پورے آباد ہیں ۔ (صحائف اشرفی  )
ولی اللہ                 میں             شان                جلال اللہ                          ہوتی           ہے
مگر بدمذہبوں کی عقل کب آگاہ ہوتی ہےمیں

محمد عمر ارشدی اشرفی بلرامپوری خانقاہ ارشدیہ اشرفیہ جہانگیریہ گوا

No comments:

Post a Comment