Mahboob e Ilahi Hazrat Khwaja Syed Nizamuddin Auliya Chishti Alaihirrahmah

 


محبوب الہی حضرت خواجہ سیدنظام الدین اولیاء چشتی علیہ الرحمہ

ہندوستان ہمیشہ سے  صوفی رشی کا مسکن رہا ہے۔ اس سرزمین نے ایسے ایسے صوفیاء کرام اور سنتوں کو جنم دیا ہے، جنہوں نے اپنی تعلیمات، روحانی تربیت اور پیار محبت سے روئے زمین پر بسنے والوں کو حقیقی خدا سے متعارف کروایا ہے۔ ان کے کارنامے اور ان کے اخلاص نے تاریکی و ظلمت میں ڈوبی  انسانیت کو ایک خدا سے متعارف کرایا ہے۔ ان کی شبانہ روز کی ریاضت و عبادت نے گم گشتہ راہ لوگوں کو معبود حقیقی سے رشتہ استوار کرایا ہے۔ ان کی جفا کشی اور عبادات نے پورے پورے علاقے کو انوار و برکات سے مالامال کیا ہے۔ انہیں نامور اور خدا ترس بندوں میں ایک نام سلطان الاولیاء، محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔ آپ ہندوستان کے ان چنیدہ اور منتخب اولیاء کرام میں سے ہیں جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت میں صرف کیا ہے۔ آپ سلسلہ چشتیہ کے اس کاروان کے امیر ہیں جس کی بنیاد برصغیر میں  سلطان الہند عطائے رسول خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قد س سرہ النورانی نے رکھی تھی۔ جسے حضرت سیدنا  قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے دہلی میں پروان چڑھایا اور  حضرت  سیدنا شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے پاکپتن کے علاقوں کو ان علوم سے متعارف کروایا اور جس کی ترویج و اشاعت اور گوشہائے عالم میں پھیلانے کا سہرا حضرت  شیخ  خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے سر جاتاہے۔

 

پیدائش:

آپ کی پیدائش 9 اکتوبر 1238 کو بدایوں اتر پردیش میں شیخ سید عبداللہ بن احمد الحسینی بخاری کے گھر ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسین رضی اللہ علیہ سے ہوکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ آپ کے جدِ امجد سید علی بخاری، بخارا سے ہجرت کرکے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے بدایوں پہنچے اور پھر یہاں سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے نانا خواجہ عرب بھی بخارا سے ہجرت کرکے تشریف لائے تھے۔ آپ کی والدہ بی بی زلیخا نہایت متقی، پرہیزگار، زہد و ورع کی پیکر اور صابر و شاکر پاکباز خاتون تھیں۔


ابتدائی تعلیم:

آپ کی عمر محض پانچ سال کی تھی جب آپ پر یتیمی کا سایہ فگن ہوگیا۔ اس چھوٹی سی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن آپ کی جفا کش، نیک صفت، صبر و تحمل کی حامل والدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا بار اٹھایا اور مسلسل ان کے تعلیمی مشاغل کا جائزہ لیتی رہی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مقری بدایونی کے پاس ہوئی۔ بعد ازاں مولانا علاؤالدین اصولی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے ظاہری علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ پڑھنے کا شوق، بچپن سے ہی للہیت اور زہد پیشانی پر نمایاں تھے۔ شوق تحصیل علوم نے کبھی بھی یتیمی اور دیگر دنیاوی عوارض کو خاطر میں نہیں آنے دیا۔ دہلی میں رہتے ہوئے آپ نے حضرت خواجہ شمس الدین خوارزمی سے شرعی علوم و معارف کے منازل طے کئے۔ بیس سال کی عمر میں آپ ماہر شریعت اور شرعی علوم و معارف کے ان نایاب ہستیوں میں شمار کئے جانے لگے تھے جن کے علوم پر عوام کے علاوہ خواص کا مکمل اعتماد قائم ہوگیا تھا۔

 

بیعت و سلوک:

عظیم ترین ماں کی تربیت نے بچپن سے ہی ایسا مزاج پیدا کردیا تھا جس کی بنا پر زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل و مناقب سے روشناس ہونے کے بعد شرف زیارت کو دل مچلنے لگا تھا۔ لیکن تحصیل علوم کی مشغولیت اس شوق کے درمیان حائل تھی۔ علوم قرآنیہ سے فراغت کے بعد سیدھا اجودھن (پاکپتن)روانہ ہوئے۔ دل میں سلگ رہی شمع معرفت کو ایک نگاہ یار کی ضرورت تھی۔ جب آپ آستانہ شیخ پر پہنچے، تو شیخ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا......

اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

ترجمہ : تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو جلا دیا ہے، اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانوں کو خراب کردیا ہے۔

حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر کا والہانہ تعلق اس شعر سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے مرید اور شاگرد پر اس درجہ اعتماد تھا کہ آپ نے محض چند ملاقاتوں کے بعد ہی انہیں خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا اور اپنا عمامہ اپنے دست مبارک سے حضرت نظام الدین اولیاء کے سر مبارک پر باندھا۔ نیز اپنی کھڑاؤں جو آپ کے زیر استعمال تھی وہ بھی بطور تبرک عطا پیش کردیا۔

 

دہلی میں قیام:

علوم و فنون کے منازل طے کرنے کے بعد جب آپ نے تصوف و سلوک کی وادی میں قدم رکھا، اور وقت کے شیخ کامل شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے خلعت خلافت کا شرف نصیب ہوا تو آپ نے خلق خدا کی جانب توجہ فرمائی، ان کی بجھی ہوئی اور تاریک زندگی میں شمع معرفت کو روشن کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ دہلی کے مختلف علاقوں میں قیام کرتے ہوئے آپ نے غیاث پور میں اپنی خانقاہ کی بناء ڈالی، تاکہ شہر کے شور شرابوں سے دور یاد الٰہی میں مصروف رہا جائے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آپ کی مقبولیت روز افزوں بڑھتی گئی۔ عوام کا سیلاب آپ کے آستانہ پر شرف زیارت کیلئے دن و رات لگا رہتا۔ آپ نے غریبوں اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کیا، ہر دن بلا ناغہ ہزاروں ضرورت مند اپنی بھوک پیاس بجھانے کیلئے تشریف لاتے اور یہاں سے مستفید ہوکر لوٹ جاتے۔ لیکن خود آپ کا حال یہ تھا کہ، جب خادم آپ کو رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں سحری کیلئے کھانا پیش کرتا تو آپ یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیتے معلوم نہیں کتنے فقراء و مساکین ابھی بھوک پیاس کی شدت جھیل رہے ہوں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خلق خدا بھوکی رہے اور ہم شکم سیر ہوکر کھانا تناول فرمائیں۔

آپ نے دہلی میں قیام کرتے ہوئے کئی بادشاہوں کے ادوار دیکھے لیکن آپ کی شان بے نیازی کہ کبھی بھی آپ کسی کے دربار میں حاضری نہیں دی ہے۔ یہ آپ کا وطیرہ تھا کہ آپ شاہوں سے دوری اختیار کئے رہتے لیکن اللہ والوں کی شان نرالی ہوتی ہے۔ اس درویش کے در پر امراء و سلاطین کا ہجوم لگا رہتا۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ دہلی کے تخت پر براجمان قطب الدین ایبک درویش کے لبادہ میں لپٹ کر آستانہ پر حاضری دی ہے، اور اپنی دینی و روحانی ضرورت کیلئے فریاد کی ہے۔

آپ کے متوسلین و منتسبین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ علاوہ ازیں آپ اپنے خلفاء کی مختلف جماعتوں کو مختلف علاقوں میں بغرض تبلیغ روانہ فرماتے۔ برصغیر کے گوشہ گوشہ میں آپ نے باعتبار ضرورت اپنے خلفاء کو داعی بنا کر روانہ کیا ہے۔ آپ کے مشہور ترین خلفاء میں شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی، امیر خسرو اور شیخ برہان الدین غریب، حضرت خواجہ اخی  سراج الدین آئینہ ہند   سعداللہ پورپنڈوہ شریف )وغیرہ ہیں۔ آپ کا امیر خسرو سے والہانہ تعلق ایک ازلی داستان ہے۔ خود کو خدا کی راہ میں لٹانے والوں کو خدا کس طرح آباد کرتاہے۔

آپ زاہد خشک نہیں تھے بلکہ قرآن و حدیث کے جید عالم دین تھے۔ آپ نے تصوف و سلوک میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ سرزمین ہند پر خدا کا عظیم الشان احسان ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے کتابوں کی تصنیف بھی فرمائی ہیں جن میں سیر الاولیاء ، فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین ہیں۔

آپ کے قیمتی اقوال کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ آپ کے در اقدس پر جس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں ہر مذہب کے لوگ قدم بوسی کیلئے حاضری دیا کرتے تھے، آج بھی آپ کی آرامگاہ مرجع خلائق ہے۔ دہلی کا پورا علاقہ آپ سے منسوب ہے۔ ہمہ وقت معتقدین گوشہائے عالم سے فاتحہ خوانی کو جوق در جوق تشریف لاتے ہیں۔

 

وفات:

آپ وفات سے قبل تقریباً چالیس دنوں تک نیم بیہوشی کے عالم میں رہے ۔ جب ہوش آتا سب سے پہلے نماز اور وقت نماز کے متعلق سوال فرماتے۔ بسا اوقات ذہنی ذہول کی وجہ سے نماز میں تکرار ہوجاتا۔ لیکن شرعی فرائض کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی تو درکنار اس کا شائبہ بھی ذہن سے نہیں گزرا تھا۔ آپ کی وفات بروز بدھ 4 مارچ، 1324 بمطابق 18 ربیع الثانی 725ہجری کو بوقت طلوع آفتاب ہوئی ہے۔ آپ کی تاریخ وفات مسجد کی دیوار پر کندہ ہے۔

 


Hamare Bachche Masajid se Door Kyun???

 

ہمارے بچے مساجد سے دُور کیوں؟؟؟

 چھوٹا بچہ گھر میں جب امی اور ابو کو  نمازپڑھتے ہوئے دیکھتا ہےتو اس کے دل میں بھی ویسا کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔وہ بغیر کہے مصلے کے ساتھ آکر کھڑا ہو جاتا ہے رکوع و سجود کی نقل اُتارتا ہے۔

بالکل سنجیدگی کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے جیسا وہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔

پھر وہ اپنے ابو کو مسجد میں جاتے دیکھتا ہے۔

وہ بھی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں اور بغیر کہے وہ پیچھے پیچھے مسجد چلا جاتا ہے۔

کبھی گھر سے کوئی نہ بھی جائے تو وہ خود مسجد پہنچ جاتا ہے۔

 وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہاں آکر لوگ کیا کرتے ہیں یہاں لوگ جمع کیوں ہوتے ہیں ؟

وہ مسجد آتا ہے لیکن اسے مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا وہ یہاں بھی گھر کی طرح دوڑتا بھاگتا ہے، شرارتیں کرتا ہے،

 کبھی اس صف میں جاتا ہے کبھی دوسری صف میں ، کبھی وضو خانے پر آکر دوسروں کی طرح منہ ہاتھ دھوتا ہے۔

وہ بھی ٹونٹی کھولتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتا ہے۔

کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہتا ہے کیونکہ اُسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہے،

اسے اچھا لگتا ہے وہ بھی دوسروں کی طرح ’’بڑے بڑے ‘‘ کام کرنا چاہتا ہے اور وہ ان تمام کاموں میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے۔دل سے کرتا ہے اپنی طرف سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں خوشی محسوس کرتا ہے۔

 لیکن ؟

کوئی بابا جی اُسے وضو خانے پر جھڑکتے ہیں "اوئے ادھر کیا کر رہے ہو ؟!

’’اتنی زیادہ ٹونٹی کیوں کھولی ہے؟‘‘ ’’

اتنی دیر سے پانی ضائع کر رہے ہو‘‘

’’چلو اُٹھو دفع ہو جاؤ یہاں سے ‘‘

بعض اوقات تو ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹ کر اُسے وہاں سے نکال دیتے ہیں۔بعض بابے اُسے کھینچ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں۔ بعض مساجد کے بزرگ تو بچوں کو دیکھتے ہی اُن کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور جب تک وہ مسجد سے نکل نہیں جاتے یا اُن کی مرضی کے مطابق ٹک کر نہیں بیٹھتے اُنہیں چین نہیں آتا۔ کچھ نمازی تو ایسے ہیں کہ بچے دیکھ کر ہی غصے میں آجاتے ہیں ۔

صف میں بیٹھے دیکھا تو قمیض سے پکڑ کر پیچھے کر دیا۔

کسی بچے کو باتیں کرتا دیکھا تو جا کر ایک تھپڑ لگا دیا

  ’’بدتمیز یہ مسجد ہے چپ کرو‘‘

وہ نماز پڑھتے ہوئے ہل رہا تھا تو نماز کے دوران یا بعد میں سرعام تذلیل کر دی جاتی ہے۔

جہاں دو تین بچے اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے یا ہنستے دیکھے فوراً انہیں مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے کیونکہ

  مسجد کا ماحول ’’خراب‘‘ ہوتا ہے۔ وہ قرآن پکڑتا ہے تو چھین لیا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ہے قرآن پھاڑ دے گا۔

کوئی بچہ صاف ستھرا ہو تب بھی دھکے دے کر مسجد کے دروازے پر کر دیا جاتا ہے۔

دوران تراویح بچے لمبی نماز سے تھک کر بیٹھے یا ساری تراویح پڑھنے کی بجائے کوئی پڑھ لی کوئی چھوڑ دی تو اس پر کوئی صاحب انہیں گھوریں گے،

منہ بنائیں گے،

باتیں سنائیں گے کوئی بازو سے پکڑ کر یا جھپٹ کر اُسے زبردستی نماز میں کھڑا کریں گے،

یا کہیں گے نہیں نماز پڑھنی تو مسجد سے دفع ہو جاؤ،

یا اے سی والے ہال سے نکال کر گرم صحن میں بھیج دیا جاتا ہے۔

یہی صوتحال خواتین کے ہال میں بچیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔

  ان سب دُرشت رویوں ، گرم لہجوں، سخت غصے والے مزاجوں اور بچوں کے بے عزتی کرنے، ڈانٹنے ڈبٹنے اور مارنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟

انہیں گھورنے، مارنے کے لیے دوڑنے اور گھسیٹنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟

  ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالانکہ انہی بچوں نے تو کل جواں ہو کر پختہ نمازی بننا تھا۔

  ’’لیکن افسوس ان غنچوں پر جو بِن کھلے مُرجھا گئے‘‘

 دوسرا سبب مساجد کے قاری صاحبان ہیں کہ جن کے پاس بچے سپارہ / قاعدہ پڑھنے آتے ہیں ۔

  اب یہاں بھی ’’نظم و ضبط‘‘ کا ’’عظیم مسئلہ‘‘ سامنے آتا ہے۔

کسی بچے کی پڑھنے کی غلطی نکلی نہیں اور ٹھاہ کر کے ڈنڈا، مکا یا چپت اس کے جسم پر لگی نہیں۔

 خوف اور جبر کا ماحول!

ہر غلطی پر سزا، ہر بار سبق یاد نہ ہونے پر بے عزتی اور مارکٹائی یا کم از کم سرعام ’’انعام‘‘

مجھے کتنے لوگ ایسے ملے کہ جنھوں نے کہا کہ میری بچپن میں خواہش تھی کہ

  میں عالم دین بنوں ، حافظ قرآن بنوں ، دین سیکھوں لیکن فلاں قاری صاحب کی وجہ سے میں ایسا متنفر ہوا کہ دوبارہ مسجد داخل نہیں ہوا،

 ’’میں نے فلاں بچے کی خوفناک پٹائی لگتے دیکھی اور میں وہاں سے بھاگ گیا‘‘

مجھ پر قاری صاحب کے رعب کی وجہ سے سبق یاد ہی نہیں ہوتا تھا،

یا یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا تھا‘‘

قاریوں اور نمازیوں کے ان رویوں نے ہماری مساجد کو بے رونق کر رکھا ہے۔

  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیا ہوتا تھا ؟

مسجد نبوی میں کیا صورت حال تھی؟

بچے تو ہر دور میں شرارتی رہے۔ بھاگنے دوڑنے،

باتیں کرنے،

اچھلنے کودنے والے۔

ابھی انہیں کیا پتا کہ مسجد کے آداب کیا ہیں؟

مساجد میں آتے جاتے رہیں گے نمازیوں کو دیکھتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ سب سیکھ جائیں گے کہ

مسجد میں کس طرح رہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بچے ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

 کبھی اس صف میں دوڑ کبھی اس صف میں کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چڑھ گئے ۔

کبھی سجدے میں آپ ہیں تو آپ کی پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگے۔ کبھی منبر پر چڑھ گئے کبھی رونے لگے کبھی کچھ کبھی کچھ۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیا تھا،

سر سجدے میں ہے تمام صحابہ بطور مقتدی بھی سر بسجود ہیں۔ سجدہ طویل ہو گیا طویل سے طویل تر۔

صحابہ کے دل میں مختلف خیالات آرہے ہیں کہ آج اللہ خیر کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر سجدے سے کیوں نہیں اُٹھا رہے۔

 بہت دیر بعد سر اُٹھایا ،نماز مکمل کی، سلام پھیرا صحابہ کو متفکر پایا،

  تو فرمایا بات دراصل یہ تھی کہ ایک بچہ میری پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگا میں نے اُسے اُتارنا مناسب نہیں سمجھا جب وہ خود ہی اُترا تو پھر میں نے سر اُٹھایا۔

کتنی عزت کتنا احترام مسجد میں نماز کے دوران بھی ایک بچے کے کھیل یا اُس کی شرارتوں کا!

  بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مختصر کر دیا کرتے تھے۔

لیکن یہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ لوگو یا عورتو ! اپنے بچوں کو مساجد میں نہ لایا کرو۔

 اس سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہیں ۔

  کیا ہماری نمازوں کا خشوع و خضوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کی نمازوں سے زیادہ ہے کہ جو کسی بچے کی آواز پر فوراً خراب ہوجاتا ہے۔

 بلکہ آپ تو لوگوں کو کہتے کہ عورتوں کو مساجد میں آنے سے نہ روکو۔

اب عورتیں آئیں گی تو اُن کے ساتھ بچے بھی آئیں گے اور وہ ہنسیں گے بھی روئیں گے بھی ۔۔۔تو کیا کیا جائے؟

برداشت کیا جائے !

اپنے اندر صبرو تحمل پیدا کیا جائے لیکن ہم جوں جوں

  پہلی دوسری صف کے پختہ نمازی بنتے جاتے ہیں

ہمارا مزاج اتنا ہی سخت ہوتا چلاجاتا ہے،

اتنا ہی تکبر آجاتا ہے مزاج گرم ہوجاتا ہے۔

 یہ کیسی عبادت ہے ؟!

اس کا نتیجہ تو دل کی نرمی کی صورت میں نکلنا چاہیے۔ اچھے اخلاق ،

نرم گفتگو بچوں سے محبت کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔

ہوناتو یہ چاہیے کہ ہم بچوں کو مساجد میں آنے کی ترغیب دیں۔

 کوئی بچہ مسجد آئے اس کا استقبال کریں اُسے گلے لگائیں اُسے بوسہ دیں اُسے اتنی محبت، اتنا پیار، اتنی عزت و احترام دیں کہ اُسے لگے کہ دنیا میں اس سے بہترین جگہ کوئی نہیں،

 ایسے اعلیٰ لوگ کہیں نہیں،

اُس کی شرارتوں، غلطیوں ، باتوں، اچھلنے کودنے کو برداشت کریں

اور کبھی سمجھائیں تو علیحدگی میں نرمی اور شفقت سے اسطرح کہ اُس کی عزتِ نفس محفوظ رہے۔

غصے کی بجائے مسکرائیں

اور اُنھیں دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کریں کہ ہم سب بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

بچے شیطان نہیں ہوتے بلکہ یہ

  اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔

معصوم ہوتے ہیں،

گناہوں سے پاک لیکن ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔

وہ ہمیں دیکھ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں

وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں

وہ ان مساجد سے جڑیں گے تو کل زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائیں گے

تو مساجد کو اعلیٰ مقام دیں گے،

مساجد کے اماموں قاریوں کو عزت دیں گے،

 علماء کا احترام کریں گے بلکہ خود بھی عالم بنیں گے۔

وہ دنیا کے دیگر اداروں کی بجائے مساجد کو بنیادی مقام دیں گے۔

اکثر بچوں کو تو کئی سال اور بڑا ہونے پر علم ہوتا ہے کہ

  انھوں نے کیا غلطی کی تھی جس کی وجہ سے انھیں مسجد میں بے عزت کیا گیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ جس وقت بچوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو وہ بے خبر ہوتے ہیں۔

کہ انھوں نے کیا غلط کیا نہ ہی انھیں کوئی سمجھاتا ہے۔

  ایک دوبار سمجھانا بھی کافی نہیں ہوتا بلکہ دس بار سمجھانا بھی نہیں !!!

بس اپنے عمل اور ماحول سے سمجھائیں وہ خود بخود اندازہ لگا ئے کہ یہاں کا ماحول مختلف ہے۔

 اور یہاں مجھے کیسے آنا جانا ہے اور کیا کس طرح کرنا ہے ؟!

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے تو درکنار کسی بڑے انسان کے مسجد میں پیشاب کرنے کو بھی برداشت کیا اور لوگوں کو اُسے مارنے یا ڈانٹنے سے منع کیا ۔پھر اُسے بلا کر شفقت سے سمجھایا کہ مساجد نماز کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ ایسے کاموں کے لیے ،

وہ اس سلوک سے اتنا متاثر ہوا فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔

 کیا آج ہم کسی غیر مسلم کے لیے اپنی مساجد میں اتنی برداشت اور حوصلہ رکھتے ہیں ؟

کم از کم مسلمان بچوں کے لیے تو پیدا کریں۔

میرے خیال میں تو بچے مساجد میں اگر پیشاب یا پاخانہ بھی کر دیں۔

تو اس پر ہنگامہ کھڑا نہ کریں اور نہ ان کے والدین کو شکایات لگائیں۔

کہ انھوں نے بچوں کو مسجد میں کیوں بھیجا۔

اسکول اپنے کاروبار کے لیے اڑھائی تین سال کے بچے کو برداشت کرتا ہے۔

اُن کے لیے آیا یا ماسی کا بندوبست کرتا ہے ۔

انھیں ہر صورت صاف ستھرا رکھتا ہے۔

پیمپرز کا بندوبست رکھتا ہے۔

یا کم از کم والدین کے تعاون سے اسے سر انجام دیتا ہے۔

اور اس کی کوشش ہوتی ہے۔

کہ باوجود ان تمام تکالیف کے زیادہ سے زیادہ بچے سکول میں آئیں۔

یہی وجہ ہے سکول بچوں سے بھرے ہوئے ہیں کلاسز میں جگہ نہیں لیکن مساجد ؟

مساجد کی صفائی ستھرائی کے لیے ہم خرچ کرتے ہیں۔

ایک اور صفائی والے آدمی کا خرچہ برداشت کر لیں تو ہماری نئی نسلیں نمازی بن سکتی ہیں۔

جب سے ہماری مساجد میں قیمتی قالین بچھانے اور شیشے والی کھڑکی اور دروازوں کا رجحان پیدا ہوا ہے۔

اس وقت سے مساجد کی انتظامیہ بچوں کے حوالے سے اور زیادہ حساس ہو گئی ہے۔

انھیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ بچے قیمتی قالین خراب کر دیں گے۔

شیشے والے دروازے ٹوٹ سکتے ہیں۔

ہم یہ سوچ لیں کہ بچے زیادہ قیمتی ہیں یا قالین؟

 بچوں کی تربیت زیادہ ضروری ہے یا شیشوں والے دروازوں کی حفاظت ؟؟؟

    آئیے ! !

مساجد اور اپنے دلوں کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیجیے۔

  یہی ہماری ذمہ داری ہے۔

طالب دعا: ابومحامدآل رسول احمد