سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ


 

ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ یکم جمادی الثانی 1039ہجری  (17جنوری1630ء) بروز جمعرات بوقت فجر شاہجہان کے عہدِ حکومت میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ  ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔

شجرہ نسب:

آپ علیہ الرحمہ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اعوانوں کا شجرہ نسب علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ اعوان علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کے والد بازید محمد پیشہ ور سپاہی تھے اور شاہجہان کے لشکر میں  ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کی والدہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں اور پاکیزگی اور پارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔ سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ فنا فی ھُو کے مطابق ان کا اسمِ گرامی "باھُو" الہاماً بتا دیا گیاتھا جیسا کہ سخی سلطان باہو فرماتے ہیں:

نام باہومادر باہو نہاد

زانکہ باہودائمی باہو نہاد

ترجمہ:باہوکی ماں نے نام باہورکھا کیونکہ باہوہمیشہ ہو کے ساتھ رہا۔

پیدائشی ولی:

سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ پیدائشی عارف باللہ تھے۔ اوائل عمری میں ہی آپ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رہتے۔ آپ علیہ الرحمہ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ آپ علیہ الرحمہ کی پیشانی نورِ حق سے اس قدر منور تھی کی اگر کوئی کافر آپ کے مبارک چہرے پر نظر ڈالتا تو فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا۔

تلاش مرشد:

آپ علیہ الرحمہ اپنی کتب میں بیان فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک مرشد کی تلاش میں رہا مگر مجھے اپنے پائے کا مرشد نہ مل سکا۔ یہ اس لیے کہ آپ علیہ الرحمہ فقر کے اس اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے جہاں دوسروں کی رسائی بہت مشکل تھی۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمہ  اپنا ایک کشف اپنی کتب میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ علیہ الرحمہ  دیدارِ الٰہی میں مستغرق شورکوٹ کے نواح میں گھوم رہے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت سوار نمودار ہوئے جنہوں نے اپنائیت سے آپ علیہ الرحمہ  کو اپنے قریب کیا اور آگاہ کیا کہ میں علی ابنِ طالب ہوں اور پھر فرمایا کہ آج تم رسول اللہﷺ کے دربار میں طلب کیے گئے ہو۔ پھر ایک لمحے میں آپ علیہ الرحمہ  نے خود کو آقا پاک ﷺ کی بارگاہ میں پایا۔ اس وقت اس بارگاہ میں ابوبکر صدیق ،عمر، عثمان غنی اور تمام اہلِ بیت حاضر تھے۔ آپ علیہ الرحمہ  کو دیکھتے ہی پہلے ابوبکر صدیق نے آپ علیہ الرحمہ  پر توجہ فرمائی اور مجلس سے رخصت ہوئے، بعد ازاں عمر اور عثمان غنی بھی توجہ فرمانے کے بعد مجلس سے رخصت ہو گئے ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا میرے ہاتھ پکڑو اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت فرمایا۔ بعد ازاں آقائے دو جہاں ﷺ نے آپ علیہ الرحمہ  کو غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی  علیہ الرحمہ کے سپرد فرمایا۔ آپ علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں جب فقر کے شاہسوار نے مجھ پر کرم کی نگاہ ڈالی تو ازل سے ابد تک کا تمام راستہ میں نے طے کر لیا۔ پھر عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے حکم پر سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ نے دہلی میں عبدالرحمن جیلانی دہلوی علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر ظاہری بیعت کی اور ایک ہی ملاقات میں فقر کی وراثت کی صورت میں اپنا ازلی نصیبا ان سے حاصل کر لیا۔

سلسلہ نسبت:

سخی سلطان باہوکا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ سلسلہ قادری کا آغاز عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ سے ہوا اور اس کی دو شاخیں سروری قادری اور زاہدی قادری ہیں۔ سخی سلطان باہو کا سلسلہ سروری قادری ہے اور آپ علیہ الرحمہ  سروری قادری طریقہ کو ہی اصل قادری یا کامل قادری تسلیم کرتے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ   فرماتے ہیں: قادری طریقہ بھی دو قسم کا ہے، ایک سروری قادری اور دوسرا زاہدی قادری۔

سروری قادری مرشد صاحبِ اسم اللہ ذات ہوتا ہے اس لیے وہ جس طالبِ اللہ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی تعلیم و تلقین سے نوازتا ہے تو اسے پہلے ہی روز اپنا ہم مرتبہ بنا دیتا ہے جس سے طالبِ اللہ اتنا لایحتاج و بے نیاز متوکل الی اللہ ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر میں مٹی و سونا برابر ہو جاتا ہے۔

 زاہدی قادری طریقے کا طالب بارہ سال تک ایسی ریاضت کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں طعام تک نہیں جاتا، بارہ سال کی ریاضت کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی اس کی دستگیری فرماتے ہیں اور اسے سالک مجذوب یا مجذوب سالک بنا دیتے ہیں اس کے مقابلے میں سروری قادری کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے۔ 

 آپ علیہ الرحمہ  سروری قادری مرشد کا مرتبہ یوں بیان فرماتے ہیں: سروری قادری کی ابتداء کیا ہے؟ قادری کامل (سروری قادری) نظر سے یا تصورِ اسمِ اللہ ذات سے یا ضربِ کلمہ طیب سے یا باطنی توجہ سے طالبِ اللہ کو معرفتِ الٰہی کے نور میں غرق کر کے مجلسِ محمدیﷺ کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے کہ طریقہ قادری میں یہ پہلے ہی روز کا سبق ہے۔ جو مرشد اس سبق کو نہیں جانتا اور طالبوں کو مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری میں نہیں پہنچاتا وہ قادری کامل ہرگز نہیں۔

 سلطان العارفین سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ اسی اعلیٰ ترین پائے کے مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں

ہر کہ طالب حق بود من حاضرم

زابتداء تا انتہاء یکدم برم

طالب بیا طالب بیا طالب بیا

تا رسانم روز اول باخدا

ترجمہہر وہ شخص جو حق تعالیٰ کا طالب ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ میں اسے ابتدا سے انتہا تک فوراً پہنچا دیتا ہوں۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ تاکہ میں تجھے پہلے ہی دن اللہ تعالیٰ تک پہنچا دوں۔

سلطان الفقر:

فقر میں سخی سلطان باہو کا مقام و مرتبہ ہر کسی کے وہم و گمان سے بھی بالا تر ہے۔آپ علیہ الرحمہ  سلطان الفقر پنجم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ  کو وہ خاص روحانی قوت حاصل ہے کہ آپ علیہ الرحمہ  قبر میں بھی زندوں کی طرح تصرف فرماتے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سربلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم ﷺسے تمام خلقت، کیا مسلم، کیا کافر، کیا بانصیب کیا بے نصیب، کیا زندہ کیا مردہ سب کو ہدایت کا حکم ملا ہے، آپ  ﷺنے اپنی زبانِ گوہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخرزمانی فرمایا ہے۔  

سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ نے ہر لمحہ استغراقِ حق میں مستغرق رہنے کی وجہ سے ظاہری علم حاصل نہیں کیا لیکن پھر بھی آپ علیہ الرحمہ  نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لیے ایک سو چالیس کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ علیہ الرحمہ  کی تمام کتب علمِ لدّنی کا شاہکار ہیں۔ ان کتب کا سب سے بڑا  معجزہ یہ ہے کہ انہیں ادب اور اعتقاد سے پڑھنے والے کی مرشدِ کامل اکمل تک راہنمائی ہو جاتی ہے۔ اپنی تمام کتب میں آپ علیہ الرحمہ  نے معرفتِ الٰہی کی منازل طے کرنے کے لیے راہِ فقر اختیار کرنے اور مرشدِ کامل کی زیرِ نگرانی ذکر و تصور اسمِ ذات کی تلقین کی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ  ذکر و تصورِ اسمِ ذات کو قلب (باطن) کی کلید فرماتے ہیں جس کے ذریعے تزکیہ نفس اور تجلیۂ روح کے بعد طالبِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری کے اعلیٰ ترین مقامات عطا ہوتے ہیں۔ سخی سلطان باہو فرماتے ہیں کہ میں تیس سال ایسے طالبِ حق کی تلاش میں رہا جسے میں وہاں تک پہنچا سکتا جہاں میں ہوں لیکن مجھے ایسا طالبِ حق نہ مل سکا۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمہ  امانتِ فقر کسی کے بھی حوالے کیے بغیر وصال فرما گئے۔

وصال پرملال:

آپ علیہ الرحمہ  کا وصال یکم جمادی الثانی 1102ہجری (بمطابق یکم مارچ1691ء) بروز جمعرات بوقت عصر ہوا۔ سلطان العارفین سخی سلطان باہو کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ پاکستان میں ہے۔ آپ علیہ الرحمہ  کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔

حضرت سید عبداللطیف کاظمی المعروف امام بری سرکار رضی اللہ عنہ


 حضرت سید عبداللطیف کاظمی  المعروف امام بری سرکار رضی اللہ عنہ

نام ونسب:

اسمِ گرامی:شاہ عبدالطیف۔

لقب:امام بری سرکار(خشکی کےامام)۔لقب سے ہی معروف ہیں۔

نسب و حسب:

سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت سیدعبدالطیف امام برّی بن سیدمحمود بن سید حامد بن سید بودلہ بن سید شاہ سکندر ۔الی ٰ آخرہ۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔آپ کےوالدِ ماجدسیدسخی محمود کاظمی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔(ان کا مزار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر ہے)۔(علیہم الرحمۃ اولرضوان)

تاریخِ ولادت:

آپ کی ولادت 1026ہجری ،مطابق 1617ء کو موضع کرسال تحصیل چکوال ضلع جہلم(پاکستان) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:

ابتدائی تعلیم وتربیت والدِگرامی کے زیرِ سایہ ہوئی۔مزید علم حاصل کرنے کے لیے آپ کوغورغشتی ضلع کیمل پور بھیجا گیا۔ جو اس زمانے میں علم کا مرکز تھا۔ وہاں آپ نےتفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور ریاضی وغیرہ علوم کی مکمل تحصیل کی۔ اس کے علاوہ علم ِطب بھی حاصل کیا۔ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد آپ کشمیر، بدخشاں، مشہد، نجف اشرف،کربلامعلیٰ،بغداد،بخارا،مصر،دمشق کی سیروسیاحت کرتے رہے پھر وہاں سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت حیات المیر رحمۃاللہ علیہ کےدست پر بیعت ہوئےاورمجاہدات کےبعدخلافت سےمشرف کیے گئے۔

سیرت وخصائص:

قطب الاقطاب، امام الاولیاء،قدوۃ الصلحاء،شیخ الاتقیاء،عارفِ شریعت وطریقت وحقیقت،واصل باللہ حضرت شاہ عبداللطیف المعروف امام بری سرکار رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت امام بری اپنے عہد کے عظیم اور مشہور اولیاء میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہےآپ کی زندگی میں زہد اور جذب بہت نمایا ں ہے آپ کی بزرگی اور عظمت کا چرچا عام ہے۔اللہ جل شانہ کچھ بندوں کو خصوصی نوازتا ہے،اور ان کوشروع سے ہی اپنی ذات کے لئے منتخب فرمالیتا ہے۔ان ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی حضرت امام بری علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی ہے۔آپ پر بچپن سے ہی ولایت کے آثار نمایاں تھے۔آپ کا بچپن عام بچوں سے قطعاً مختلف تھا۔ بچپن ہی میں آپ کا رحجان زہد وتقویٰ ترکِ دنیا اور مذہب کی طرف مائل تھا۔ گاؤں کے دیگر بچوں سے مل کر نہیں کھیلتے تھے، بلکہ اپنے مویشیوں کو لےکر گاؤں سے دور نکل جاتے تھے، اور علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت ِالہٰی میں مشغول ہوجاتے اور مویشی ادھر ادھر چرتے رہتے اور اشام کو انہیں جمع کرکے واپس گھر لے جاتے۔بچپن میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کسی کوگالی دی ،اور نہ کبھی غیبت کی، اور شرارت سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔ آپ کے اس رحجان اور مالکِ حقیقی سےعشقِ صادق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ چھوٹی سی عمر میں اللہ کےمحبوب بن گئے اور آپ کی زبان میں ایسی تاثیر پیدا ہوگئی تھی جو بات منہ سے نکالتے پوری ہوجاتی تھی۔
حالت ِجذب سے پہلے آپ نے "چور پور" میں قیام کی جو بعد میں آپ کی برکت سے"نورپور شاہاں" کے نام سے مشہور ہوا۔یہاں آپ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ احسن طریقہ سے شروع کیا۔ دینِ مبین کو منظم انداز میں جاری کرنے کے لیے دروس کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کی روحانیت و علم کی شہرت سن کر دور درازسے لوگ آپ کے درس میں شرکت کے لیے آیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی درسگاہ میں طلباء کے لیے ان کی خوردنوش کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ جس کےاخراجات اللہ تعالیٰ اپنے خزانوں سے پورے کرتا تھا۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔ حقیقت و طریقت آپ پر روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ نوجوانوں کی زندگی او ر ان کے تخیل کی رفعت و پابندی آپ کی تربیت پر منحصر تھی۔

آپ کی زندگی اتباع رسولﷺ کا کامل نمونہ تھی۔ آپ نے پوٹھوہار کے خطہ میں رشد وہدایت کے و ہ چراغ روشن کیےکہ تمام علاقے کی کایا ہی پلٹ گئی۔ آپ نے بے لوث دینی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے دمِ قدم سے کفر اور ظلمتوں کے بادل چھٹ گئے ۔ آپ نے لوگوں کوجہاں اخلاقی، اسلامی اور مذہبی تعلیم دی۔ وہاں تصوف اور روحانیت کے جام بھی لٹائے ۔آپ ایک انقلاب آفریں ہستی تھے۔ آپ کی نادر روزگار درسگاہ نے اسلام کو بہت ترقی دی، آپ نے اسلام کی حقیقی خدمت کرکے خدا کی رضا حاصل کی۔ آپ کی تبلیغ سےسینکڑوں غیرمسلم دولتِ اسلام سے مشرف ہوئے۔اسی طرح اس وقت کے حکمرانوں کے عوام پرظلم وستم کے خلاف آپ کی آوازایک اثر رکھتی تھی۔اورنگ زیب عالمگیر آپ سےملاقات کے لئے حاضر ہواتھا، اس وقت آپ درسِ قرآن دے رہے تھے۔لیکن آپ نے اپنے درس کو جاری رکھا۔وہ کھڑےہوکر سنتارہا۔اس نے آپ کواپنی طرف متوجہ کرنے کےئے پڑھا:اطیعو اللہ واطیعوالرسول والی الامرمنکم۔آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہم اللہ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں مستغرق ہیں،ہمیں "اولی الامر "کی فرصت ہی نہیں ہے۔شہزادہ عالمگیر آپ کی خودداری،اور دینداری سے متاثرہوئے۔آپ نے اسے پورے ہندوستان کے بادشاہ بننے کی خوشخبری دی،اور ساتھ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اللہ کی زمین پر اللہ کانظام قائم کرنا ،اور مخلوقِ خداپر ظلم نہ کرنا،رزقِ حلال کھانا حرام سے بچنا۔(بادشاہ بننے کے بعدعالمگیر نےان تمام باتوں پر عمل کیا) آخر میں جب وہ نذرانہ دینے لگے،تو آپ نے فرمایا: ہمیں ان سکوں کی ضرورت نہیں ہے،اس ملک میں بھوکے بہت ہیں ان کو دےدینا۔یہ تھے ہمارے اسلاف اولیا اللہ جن کی زندگی کاایک ایک باب روشن ہے۔لیکن اس وقت بقول مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ ؎ زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن۔جو شاہینوں کے نشیمن تھے ،آج وہاں پہ گرگسوں نے قبضے جمالیے ہیں۔

اسلام آباد:

قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف امام بری نے آج (1438ہجری)سے تین سو اکیس سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار (موجودہ اسلام آباد )کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندانِ توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔ حضرت امام بری سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر آبادہوگیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار بھی ہے ۔رب ذوالجلال سے دعاہے کہ پروردگارِعالم !اسلام آباد کو اسم با مسمیّٰ بناکراس مملکتِ خدادادکو نظام ِمصطفیٰﷺ کا گہوارہ بنائے۔(آمین )

آپ علیہ الرحمہ کی کرامات:

جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ سید کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ٗ و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی علیہ الرحمہ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ علیہ الرحمہ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ٗ جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔

موجودہ پاکستان کے ایک علاقہ جسے چوروں اور رہزنوں کی بدولت چور پور کا نام دے دیا گیا آپ کا گزر ہو رہا تھا۔ ابھی چار کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ علیہ الرحمہ  کا راستہ روک لیا۔ قدم رک گئے، ڈاکوئوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ آپ علیہ الرحمہ  نے چہرہ مبارک جیسے ہی اوپر اٹھایا ڈاکوئوں کی ٹانگیں کانپنے لگ گئیں، آپ علیہ الرحمہ  نے نرمی کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی و نصیحت جاری رہی اور ڈاکوئوں کے دل پگھلتے گئے، دل کی دنیا بدل گئی۔ وہ جو کل تک کشت و خون ، لوٹ مار پر خوش ہوتے، اپنے سابقہ گناہوں پر نادم تھے، آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں جاری ہوجھڑیاں جاری ہو گئیں، گناہوں سےتائب ہونے کے بعد ڈاکوئوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور آپ علیہ الرحمہ کے مریدین میں شمار ہو گئے۔یہ ولی کامل کوئی اور نہیں بلکہ حضرت امام بری سرکار علیہ الرحمہ  تھے اور چور پور کے نام سے مشہور یہ علاقہ آج پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے۔یہ بری امام سرکار علیہ الرحمہ  کی کرامت ہی تھی کہ چور پور سے نور پور شاہاں اور پھر وفاقی دارالحکومت کا درجہ حاصل کرنے کے بعد یہ علاقہ اسلام آباد کہلایا جانے لگا۔یہ علاقہ چوروں اور اسلام دشمنوں سے آباد تھا لیکن آپ علیہ الرحمہ  کے رشد وہدایت سے چور گناہوں سے تائب ہوگئے۔یہ روایت بہت معروف ہے کہ اسلام آباد کے نام کی وجہ تسمیہ آپ علیہ الرحمہ  کی دعا کی قبولیت بنی حضرت بری امام سرکارعلیہ الرحمہ  نے 17ویں صدی میں جب یہاں ولایت کا پودا نصب کیا توارشاد فرمایا تھا کہ لوگو جان لو کہ نور پور پوٹھوہار ایک دن توحید کا مرکز بنے گا۔وقت نے آپ علیہ الرحمہ کی پیش گوئی سچ کر دکھائی اور آج یہاں پاکستان کا نواں بڑا شہر آباد ہوچکاہے ۔

حضرت امام بری سے متعلق ایک واقعہ کافی مشہور ہے امام سرکار جن دنوں ندی نیلاں میں چلہ کشی کر رہے تھے۔ اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے۔ صرف دودھ پیا کرتے تھے ٗ گوجر قوم کا ایک عقیدت مند روزانہ آپ کو دودھ دینے آتا تھا جس بھینس کا دودھ وہ گوجر آپ کے پاس لاتا وہ مر جاتی ہے ٗ گوجر دھن کا پکا تھا اپنی زبان سے یہ بات بری امام سرکار کو نہیں بتائی آخر کار ایک ایک کرکے تمام ختم ہوئیں تو اگلے روز دودھ کی خاطر تمام گائوں میں پھرا مگر ہر طرف سے مایوس ہوا چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی داستان سنائی ۔آپ مسکرائے اور فرمایا جائو ندی کے کنارے چلتے جائو اور اپنی بھینسوں کے نام پکارتے جائو سب تمہارے پیچھے چلی آئیں گی مگر خیال رکھنا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا چنانچہ اس گوجر نے ایسا ہی کیا جب آخری بھینس کا نام لیا جو کہ ندی سے نکل رہی تھی تو گوجر نے پیچھے موڑ کر دیکھ لیا بھینس اسی جگہ پتھر کی بن گئی ۔ گوجر پہلے تو پریشان ہوا مگر باقی بھینسوں کو دیکھ کر خوشی خوشی گھر چلا آیا ۔ علاوہ ازیں ایک روز آپ نور پور شاہاں کے جنگل میں عبادت الہی میں مصروف تھے کہ ہندوئوں کا ایک گرہ وسیع سازو سامان سے دا پھندا آپ کے قریب سے گزرا آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے ہم اپنے گناہوں کو دھونے کیلئے گنگا میں نہانے کیلئے جا رہے ہیں تو حضرت بری امام ؒ نے فرمایا کہ انسانوں کے گناہ دریائو میں نہانے سے نہیں دھلتے بلکہ یہ گناہ عبادت الہی اور اعمال صالح سے جھڑتے ہیں اس پر ہندئوں کے پنڈت نے کہا کہ اگر آپ کی بات درست ہوتی تو آپ جو یہاں سالہا سال سے عبادت الہی میں مصروف ہیں اس کا کچھ تو اثر ظاہر ہوتا کم از کم اتنا ہی ہو جاتا کہ جس درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ عبادت کر رہے ہیں وہی سر سبز و شاداب ہو جاتا تاکہ آپ سکون سے عبادت تو کر سکتے ۔ بارش دھوپ اور دوسری موسی سختیوں سے آپ عبادت کرتے ہوئے محفوظ رہتے ۔ اس پر حضرت بری امام ؒ نے فرمایا اس کے قبضہ قدرت میں تو سب کچھ ہے ہم نے اس سے کچھ مانگا ہی نہیں اس کے بعد آپ نے درخت کی طرف رخ کرکے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درخت سر سبز و شاداب ہوگیا ۔ ہندئووں نے جب یہ دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت سارا گروہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔

وصال مبارک:

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 1117ہجری ، میں وفات پائی۔ آپ کامزارشریف اسلام آباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان۔تذکرہ مشائخِ قادریہ۔فیضانِ بری امام)

حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلوی علیہ الرحمہ

 

حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے ممتاز صوفی بزرگ گزرے ہیں ۔جن کو چراغِ سلسلۂ چشت کے مہتم بالشان لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔

نام و نسب:

والد کا نام شیخ یحیی تھا۔ آپ کے دادا سید عبد اللطیف سب سے پہلے ہندوستان آئے اور کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد اودھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہیں فیض آباد میں حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ ابھی نو برس کے تھے کہ والد بزرگوار انتقال فرما گئے۔

تعلیم و تربیت:

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ نے دینی تعلیم کے لیے آپ کو مولانا عبد الکریم شیروانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بٹھایا۔ ان مولانا کی وفات کے بعد آپ مولانا افتخار الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے اور ان سے علوم ظاہری حاصل کیے۔

بیعت و خلافت:

چالیس برس کی عمر میں پیر و مرشد کی تلاش میں نکلے۔ دہلی پہنچ کر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ شیخ و مربی نے اپنے ہونہار مرید کو علوم باطنی سے نوازا اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی فرماتے دیکھا تو خلعت خلافت سے نوازا۔ محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو چراغ دہلی کے خطاب سے بھی نوازا۔

زہد و تقوی:

حضرت چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر روزے سے رہتے۔ سیر الاولیاء کے مصنف لکھتے ہیں کہ مجھے شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سے وہی خوشبو آتی کہ جس طرح کی خوشبو محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سے آتی تھی۔

ولایت و قطبیت:

شیخ طریقت سُلطان المشائخ، محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد دہلی کی ولایت و قطبیت آپ کو منتقل کی گئی۔

مشہور خلفائے کرام:

حضرت سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ، گلبرگہ
حضرت شیخ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ، دہلی
میر سید محمد ابن جعفر مکی رحمۃ اللہ علیہ
سید علاؤ الدین برادر زادہ مخدوم سید جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت رحمہم اللہ علیہم ، سندیلہ، ہردوئی
حضرت شیخ دانیال رحمۃ اللہ علیہ ، سترکھ، بارہ بنکی
حضرت شیخ صدرالدین طبیب رحمۃ اللہ علیہ ، دہلی
حضرت شیخ خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ ، فیران پٹن، گجرات
حضرت شیخ عبدالمقتدر رحمۃ اللہ علیہ ، مہرولی ، دہلی
حضرت مولانا خواجگی رحمۃ اللہ علیہ، کالپی ، بندیل کھنڈ
اوچی احمد تھانیسری رحمۃ اللہ علیہ ، کالپی، بندیل کھنڈ
حضرت شیخ متوکل کنتوری رحمۃ اللہ علیہ ، بہرائچ
حضرت قاضی شیخ قوام الدین رحمۃ اللہ علیہ، لکھنؤ
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ ، بنتوا، جونا گڑھ
حضرت شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ ، چراغ ، دہلی
حضرت شیخ مسعود رحمۃ اللہ علیہ ، لاڈو ساری دہلی
حضرت میر سید جلال الحق والدین جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ اوچی ،ملتان
حضرت شیخ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ ، بارہ بنکی ، ردولی
حضرت سید محمد بن جعفر مکی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ     (سیرالاولیاء وغیرہ کتب)

وفات و تدفین:

حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی تاریخ میں معمولی اختلاف ہے بعض 17 رمضان اور بعض 18 رمضان 757ہجری  / - 1356ء لکھتے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا:" تمہیں چاہیے کہ مجھے قبر میں اتارتے وقت خرقہ میرے سینے پر، کاسہ سر کے نیچے، تسبیح زیرِ انگشت اور میری پشت کی ایک جانب نعلین اور دوسری جانب عصا رکھ دینا۔’’چناچہ مریدین نے ایسا ہی کیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار دہلی کی ایک بستی چراغ دہلی میں مرجع خلائق ہے۔


تاج الشریعہ حضرت مفتی محمد اختررضاخاں قادری ازہری علیہ الرحمہ


 

ولادت باسعادت:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 24ذیقعدہ 1362ھ /23 نومبر 1943ء بروز منگل ہندوستان کے شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی۔

اسم گرامی:

آپ کااسم گرامی ’’محمداسماعیل رضا‘‘ جبکہ عرفیت ’’اختر رضا‘‘ہے۔ آپ ’’اخترؔ‘‘تخلص استعمال فرماتے ہیں۔آپ کے القابات میں تاج الشریعہ، جانشین مفتی اعظم،شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔

شجرہ نسب:

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرہ نسب یوں ہے۔ تاج الشریعہ  حضرت مفتی محمد اختررضاخاں قادری ازہری بن مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمدحامد رضا خاں قادری رضوی بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی (رضی اللہ عنہم)

 آپ کے4 بھائی اور3بہنیں ہیں۔2بھائی آپ سے بڑے ہیں۔ ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری اورتنویر رضا خاں قادری(آپ پچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآخر مفقود الخبرہوگئے)اور2 آپ سے چھوٹے ہیں۔ڈاکٹر قمر رضا خاں قادری اور مولانا منان رضا خاں قادری۔

تعلیم و تربیت:

جانشین مفتی اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب سال ماہ اور دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہندحضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی۔اس تقریب سعید میں یاد گار اعلیٰ حضرت’’دار العلوم منظر الاسلام‘‘ کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتی اعظم ہندمحمد مصطفیٰ رضاخاں نور ی علیہ الرحمہ نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ’’ناظرہ قرآن کریم‘‘اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظم سے گھر پرہی ختم کیا۔والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ’’دار العلوم منظرالاسلام‘‘ میں داخل کرا دیا۔ درس نظامی کی تکمیل آپ نے’’منظر الاسلام‘‘ سے کی۔ مروجہ دنیاوی تعلیم ’’اسلامیہ انٹر کالج‘‘بریلی شریف سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1963ء میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ ’’جامعۃ الازہر‘‘ قاہرہ،مصرتشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ’’کلیہ اصول الدین‘‘ میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک ’’جامعہ ازہر‘‘ مصر، کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ 1966ء / 1386ھ میں جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ ’’جامعہ ازہر ایوارڈ‘‘سے نوازے گئے۔ ایوارڈ اور سند فراغت مصرکے اس وقت کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے دی۔ (بحوالہ: مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ:150)

اساتذہ کرام:

آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضاخاں نوری بریلوی، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری، مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر،قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت، قائد اعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی،صدرالعلماء علامہ تحسین رضا خان بریلوی،حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ (مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء 1:150)

ازدواجی زندگی:

جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون ’’حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی علیہ الرحمہ‘‘ کی دختر نیک اخترکے ساتھ 3?نومبر1968ء/ شعبان المعظم1388ھ بروز اتوار کو محلہ ’’کا نکر ٹولہ، شہر کہنہ بریلی‘‘ میں ہوا۔

اولادامجاد:

آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانامفتی محمد منور ضا محامد المعروف عسجدرضا خان قادری بریلوی اور پانچ (5) صاحبزادیاں ہیں۔

درس وتدریس:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے تدریس کی ابتدا ’’دار العلوم منظر اسلام،بریلی‘‘ سے 1967ء میں کی۔1978ء میں آپ دار العلوم کے صدر المدرس اور ’’رضوی دارالافتاء‘‘ کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہا لیکن حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔لیکن یہ سلسلہ مکمل ختم بھی نہ ہوا،آپ بعد میں بھی ’’مرکزی دارالافتاء، بریلی شریف‘‘میں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے علمائے کرام کو ’’رسم المفتی،اجلی الاعلام‘‘ اور ’’بخاری شریف‘‘ کا درس دیتے رہے۔

بیعت وخلافت:

حضورتا ج الشریعہ علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتی اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف 19 سال کی عمر میں15نوری1962ء/8شعبان المعظم1381 ھ کوایک خصوصی محفل میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کوخلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری علیہم الرحمہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔(تجلیّات تاج الشریعہ  صفحہ: 149)

بارگاہ مرشد میں مقام:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو اپنے مرشد برحق،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت امام المشائخ مفتی عظم ہند ابو البرکات آل رحمن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضاخاں نوری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے:’’اس لڑکے (حضور تاج الشریعہ) سے بہت اُمید ہے۔‘‘ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔‘‘لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا:’’آپ لوگ اب اختر میاں سلمہٗ سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔‘‘حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔

تصنیف و تالیف :

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اپنے جد امجد مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل ہیں ۔ اعلیٰ حضرت کی تحریری خدمات اور طرز تحریر محتاج تعارف نہیں ہے۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا میدان تحریر میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرزا ستدال ، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانہئ عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تحریر پڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔”(حیات تاج الشریعہ/صفحہ :٦٦)

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا افتاء و قضا، کثیر تبلیغی اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔

اردو تصانیف :

١۔۔۔۔۔۔ ہجرت رسول

٢۔۔۔۔۔۔ آثار قیامت

٣۔۔۔۔۔۔ ٹائی کا مسئلہ

٤۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر

٥۔۔۔۔۔۔ ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم

٦۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث نیت

٧۔۔۔۔۔۔ سنو چپ رہو

٨۔۔۔۔۔۔ دفاع کنز الایمان (2جلد)

٩۔۔۔۔۔۔ الحق المبین

١٠۔۔۔۔۔۔ تین طلاقوں کا شرعی حکم

١١۔۔۔۔۔۔ کیا دین کی مہم پوری ہوچکی ؟

١٢۔۔۔۔۔۔ جشن عید میلاد النبی

١٣۔۔۔۔۔۔ سفینہ بخشش (نعتیہ دیوان)

١٤۔۔۔۔۔۔ فضیلت نسب

١٥۔۔۔۔۔۔ تصویر کا مسئلہ

١٦۔۔۔۔۔۔ اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ

١٧۔۔۔۔۔۔ القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق

١٨۔۔۔۔۔۔ سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی

١٩۔۔۔۔۔۔ العطایاالرضویہ فی فتاویٰ الازہریہ المعروف ازہرالفتاویٰ (زیر ترتیب 5جلد)

 عربی تصانیف:

١۔۔۔۔۔۔ الحق المبین

٢۔۔۔۔۔۔ الصحابۃ نجوم الاھتداء

٣۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث الاخلاص

٤۔۔۔۔۔۔ نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا

٥۔۔۔۔۔۔ سد المشارع

٦۔۔۔۔۔۔ حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ

٧۔۔۔۔۔۔ تعلیقاتِ زاہرہ علی صحیح البخاری

٨۔۔۔۔۔۔ تحقیق أن أباسیدنا إبراہیم ں (تارح)لا(آزر)

٩۔۔۔۔۔۔ مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ (2جلد)

۱۰۔۔۔۔۔۔ نهاية الزين في التخفيف عن أبي لهب يوم الإثنين

۱۱۔۔۔۔۔۔ الفردۃ فی شرح قصیدۃ البردۃ

تراجم

١۔۔۔۔۔۔ انوار المنان فی توحید القرآن

٢۔۔۔۔۔۔ المعتقد والمنتقد مع المعتمد المستمد

٣۔۔۔۔۔۔ الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی

تعاریب

١۔۔۔۔۔ ۔برکات الامداد لاہل استمداد

٢۔۔۔۔۔۔ فقہ شہنشاہ

٣۔۔۔۔۔۔ عطایا القدیر فی حکم التصویر

٤۔۔۔۔۔۔ اہلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین

٥۔۔۔۔۔۔ تیسیر الماعون لسکن فی الطاعون

٦۔۔۔۔۔۔ شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام

٧۔۔۔۔۔۔ قوارع القھارفی الردالمجسمۃ الفجار

٨۔۔۔۔۔۔ الہاد الکاف فی حکم الضعاف

٩۔۔۔۔۔۔ الامن والعلی لناعیتی المصطفی بدافع البلاء

۱۰۔۔۔۔۔۔ سبحان السبوح عن عيب كذب المقبوح

۱۱۔۔۔۔۔۔ حاجز البحرين الواقي عن جمع الصلاتين

 وصال پر ملال :

 آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 6 ذو القعدہ الحرام 1439ہجری بمطابق 20 جولائی 2018ء بروز جمعہ، بوقت مغرب ہوا آپ کے جنازے میں ملک و بیرون ملک سے کروڑں لوگوں نے شرکت کی آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے علامہ مفتی عسجد رضا خان بریلوی نے پڑھائی اور تدفین ازہری مہمان خانہ مقابل درگاہِ اعلیٰ حضرت میں ہوئی ۔