ولادت باسعادت:
آپ علیہ الرحمہ یکم جمادی الثانی 1039ہجری (17جنوری1630ء) بروز جمعرات بوقت فجر شاہجہان کے
عہدِ حکومت میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔
شجرہ نسب:
آپ علیہ الرحمہ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اعوانوں کا شجرہ نسب علی کرم اللہ
وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ اعوان علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی غیر فاطمی اولاد
ہیں۔سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کے والد بازید محمد پیشہ ور سپاہی تھے اور شاہجہان کے لشکر میں ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ایک
صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کی
والدہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں اور پاکیزگی اور پارسائی میں اپنے خاندان میں
معروف تھیں۔ سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے
اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ فنا فی ھُو کے مطابق ان کا
اسمِ گرامی "باھُو" الہاماً
بتا دیا گیاتھا جیسا کہ سخی سلطان باہو فرماتے ہیں:
نام باہومادر باہو نہاد
زانکہ باہودائمی باہو نہاد
ترجمہ:باہوکی ماں نے نام باہورکھا کیونکہ باہوہمیشہ ہو کے ساتھ
رہا۔
پیدائشی ولی:
سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ پیدائشی عارف باللہ تھے۔ اوائل عمری
میں ہی آپ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رہتے۔ آپ علیہ الرحمہ نے
ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ آپ علیہ الرحمہ کی
پیشانی نورِ حق سے اس قدر منور تھی کی اگر کوئی کافر آپ کے مبارک چہرے پر نظر
ڈالتا تو فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا۔
تلاش مرشد:
آپ علیہ الرحمہ اپنی کتب میں بیان فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک مرشد کی تلاش میں رہا مگر مجھے اپنے پائے کا مرشد
نہ مل سکا۔ یہ اس لیے کہ آپ علیہ الرحمہ فقر کے اس اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے
جہاں دوسروں کی رسائی بہت مشکل تھی۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمہ اپنا ایک کشف اپنی کتب میں بیان فرماتے ہیں کہ
ایک دن آپ علیہ الرحمہ دیدارِ الٰہی میں
مستغرق شورکوٹ کے نواح میں گھوم رہے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت سوار
نمودار ہوئے جنہوں نے اپنائیت سے آپ علیہ الرحمہ کو اپنے قریب کیا اور آگاہ کیا کہ میں علی ابنِ
طالب ہوں اور پھر فرمایا کہ آج تم رسول اللہﷺ کے دربار میں طلب کیے گئے ہو۔ پھر ایک لمحے میں آپ
علیہ الرحمہ نے خود کو آقا پاک ﷺ کی
بارگاہ میں پایا۔ اس وقت اس بارگاہ میں ابوبکر صدیق ،عمر، عثمان غنی اور تمام اہلِ
بیت حاضر تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کو دیکھتے
ہی پہلے ابوبکر صدیق نے آپ علیہ الرحمہ پر
توجہ فرمائی اور مجلس سے رخصت ہوئے، بعد ازاں عمر اور عثمان غنی بھی توجہ فرمانے
کے بعد مجلس سے رخصت ہو گئے ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف
بڑھا کر فرمایا میرے ہاتھ پکڑو اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت فرمایا۔ بعد ازاں آقائے دو جہاں ﷺ نے
آپ علیہ الرحمہ کو غوث الاعظم شیخ
عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے سپرد
فرمایا۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب فقر کے شاہسوار نے مجھ پر کرم کی نگاہ ڈالی تو ازل سے ابد تک کا
تمام راستہ میں نے طے کر لیا۔ پھر عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے حکم پر سخی
سلطان باہو علیہ الرحمہ نے دہلی میں عبدالرحمن جیلانی دہلوی علیہ الرحمہ کے ہاتھ
پر ظاہری بیعت کی اور ایک ہی ملاقات میں فقر کی وراثت کی صورت میں اپنا ازلی نصیبا
ان سے حاصل کر لیا۔
سلسلہ نسبت:
سخی سلطان باہوکا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ سلسلہ قادری کا
آغاز عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ سے ہوا اور اس کی دو شاخیں سروری قادری اور زاہدی قادری ہیں۔ سخی سلطان باہو کا سلسلہ سروری قادری ہے اور آپ علیہ الرحمہ سروری قادری طریقہ کو ہی اصل قادری یا کامل
قادری تسلیم کرتے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: قادری طریقہ بھی دو قسم
کا ہے، ایک سروری قادری اور دوسرا زاہدی قادری۔
سروری قادری مرشد
صاحبِ اسم اللہ ذات ہوتا ہے اس لیے وہ جس طالبِ اللہ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی
تعلیم و تلقین سے نوازتا ہے تو اسے پہلے ہی روز اپنا ہم مرتبہ بنا دیتا ہے جس سے
طالبِ اللہ اتنا لایحتاج و بے نیاز متوکل الی اللہ ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر میں
مٹی و سونا برابر ہو جاتا ہے۔
زاہدی قادری طریقے
کا طالب بارہ سال تک ایسی ریاضت کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں طعام تک نہیں جاتا، بارہ
سال کی ریاضت کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی اس کی دستگیری فرماتے ہیں اور اسے سالک
مجذوب یا مجذوب سالک بنا دیتے ہیں اس کے مقابلے میں سروری قادری کا مرتبہ محبوبیت
کا مرتبہ ہے۔
آپ علیہ
الرحمہ سروری قادری مرشد کا مرتبہ یوں
بیان فرماتے ہیں: سروری قادری کی ابتداء کیا ہے؟ قادری کامل (سروری قادری) نظر سے
یا تصورِ اسمِ اللہ ذات سے یا ضربِ کلمہ طیب سے یا باطنی توجہ سے طالبِ اللہ کو
معرفتِ الٰہی کے نور میں غرق کر کے مجلسِ محمدیﷺ کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے کہ
طریقہ قادری میں یہ پہلے ہی روز کا سبق ہے۔ جو مرشد اس سبق کو نہیں جانتا اور
طالبوں کو مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری میں نہیں پہنچاتا وہ قادری کامل ہرگز نہیں۔
سلطان
العارفین سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ اسی اعلیٰ ترین پائے کے مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
ہر کہ طالب حق بود من حاضرم
زابتداء تا انتہاء یکدم برم
طالب بیا طالب بیا طالب بیا
تا رسانم روز اول باخدا
ترجمہ: ہر وہ شخص جو حق تعالیٰ کا طالب ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ میں
اسے ابتدا سے انتہا تک فوراً پہنچا دیتا ہوں۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ
تاکہ میں تجھے پہلے ہی دن اللہ تعالیٰ تک پہنچا دوں۔
سلطان الفقر:
فقر میں سخی سلطان باہو کا مقام و مرتبہ ہر کسی کے وہم و گمان سے
بھی بالا تر ہے۔آپ علیہ الرحمہ سلطان
الفقر پنجم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کو وہ خاص روحانی قوت حاصل ہے کہ آپ علیہ الرحمہ
قبر میں بھی زندوں کی طرح تصرف فرماتے
ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سربلندی حاصل
ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم ﷺسے تمام خلقت، کیا مسلم، کیا کافر، کیا
بانصیب کیا بے نصیب، کیا زندہ کیا مردہ سب کو ہدایت کا حکم ملا ہے، آپ ﷺنے اپنی زبانِ گوہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور
مجتبیٰ آخرزمانی فرمایا ہے۔
سخی سلطان باہو علیہ الرحمہ نے ہر لمحہ استغراقِ حق میں مستغرق
رہنے کی وجہ سے ظاہری علم حاصل نہیں کیا لیکن پھر بھی آپ علیہ الرحمہ نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لیے ایک سو
چالیس کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ علیہ الرحمہ کی تمام کتب علمِ لدّنی کا شاہکار ہیں۔ ان کتب
کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ انہیں ادب اور اعتقاد سے پڑھنے والے کی مرشدِ
کامل اکمل تک راہنمائی ہو جاتی ہے۔ اپنی تمام کتب میں آپ علیہ الرحمہ نے معرفتِ الٰہی کی منازل طے کرنے کے لیے راہِ
فقر اختیار کرنے اور مرشدِ کامل کی زیرِ نگرانی ذکر و تصور اسمِ ذات کی تلقین کی
ہے۔ آپ علیہ الرحمہ ذکر و تصورِ اسمِ ذات
کو قلب (باطن) کی کلید فرماتے ہیں جس کے ذریعے تزکیہ نفس اور تجلیۂ روح کے بعد
طالبِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری کے اعلیٰ ترین مقامات عطا
ہوتے ہیں۔ سخی سلطان باہو فرماتے ہیں کہ میں تیس
سال ایسے طالبِ حق کی تلاش میں رہا جسے میں وہاں تک پہنچا سکتا جہاں میں ہوں لیکن
مجھے ایسا طالبِ حق نہ مل سکا۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمہ امانتِ فقر کسی کے بھی حوالے کیے بغیر وصال فرما
گئے۔
وصال پرملال:
آپ علیہ الرحمہ کا وصال
یکم جمادی الثانی 1102ہجری (بمطابق یکم مارچ1691ء) بروز جمعرات بوقت عصر ہوا۔ سلطان
العارفین سخی سلطان باہو کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ پاکستان میں ہے۔ آپ
علیہ الرحمہ کا عرس ہر سال جمادی الثانی
کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment