قطب المشائخ حضرت علامہ سید شاہ قطب الدین اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ

 

ولادت باسعادت:جنوری ۱۹۳۱ میں آپ کی ولادت کچھوچھہ  مقدسہ میں ہوئی۔

 اسم گرامی:  حضرت علیہ الرحمہ کی جب ولادت ہوئی ، خانوادۂ اشرفیہ کے عظیم بزرگ حضور اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ جور شتے میں آپ کے پر نانا تھے موجود تھے، انہوں نے آپ کا نام قطب الدین اشرف منتخب فرمایا اور آپ کے لیے دعافرمائی۔

شجرۂ نسب:  آپ نجیب الطرفین سادات میں ہیں ۔ آپ کا سلسلہ  نسب  سولہویں  پہ  حضرت سیدنا عبدالرزاق نورالعین جیلانی علیہ الرحمہ سے ستائیسویں نمبر پہ حضور غوث پاک قد س سرہ  سے اور ۳۸ نمبر پر  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

 حلیہ مبارکہ: قد لمبا جسم سڈول ،سر بڑا، رنگ گورا ، بال کچھ گھونگریالے ، آنکھیں سرمگیں، ناک کھڑی ،رخسار بھرے ہوئے ، پیشانی روشن و کشادہ، چال میں متانت و وقار ، پرنو راور مسکراتا چہرا، جود یکھتا ہے آپ کا گرویدہ ہو جا تا اور آپ کی ولایت کی قسم کھاتا ۔

حضرت علیہ الرحمہ کالباس:آپ کلی دار کر تا، علی گڑھ کٹ پائجامہ، تہ بند، صدری اور دو پلیے والی ٹوپی استعمال فرماتے۔ آپ کالباس عموماً سفید ہوتا، کپڑے میں کوئی چھینٹ وینٹ اورنقش ونگار نہ ہوتے، البتہ ٹوپی میں سفید دھاگے کی کڑھائی ہوتی۔ کرتے اور صدری ہمیشہ بے کالر کے ہوتے ۔کرتے کی لمبائی گھٹنے سے تقریباً دوانگل زیادہ اور پائجامہ ہمیشہ ٹخنے سے اوپر ہوتا ۔سخت جاڑے کے موسم میں گدڑی پہنتے اور اخیر عمر میں عصا ساتھ میں رکھتے۔

 تعلیم وتربیت :حضرت علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم وتر بیت جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ میں ہوئی۔ میزان ومنشعب ، ہدایۃ النحو اور کافیہ وغیرہ آپ نے اپنے چچا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ سے پڑھا۔  حضرت علیہ الرحمہ نے خود فرمایا کہ ۱۹۴۲ میں آل انڈیاسنی کانفرنس کے موقع پر میرے چچا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ مجھے اپنے ساتھ بنارس لے گیے ۔ صدرالافاضل حضرت علامہ سیدنعیم الدین قادری اشرفی مرادآبادی علیہ الرحمہ بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بنارس تشریف لائے تھے ۔ بعد جلسہ چچا جان نے مجھے حضرت صدرالا فاضل علیہ الرحمہ کے سپر دفر مایا۔ میں اس سال آپ کی معیت میں جامعہ نعیمیہ پہونچا اور وہیں سے میں نے مروجہ علوم وفنون کی تکمیل کی۔

سن فراغت: جامعہ نعیمیہ مراد آباد کے رجسٹر کے مطابق ۳ شعبان ۱۳۲۹ مطابق مئی ۱۹۵۰ بروز یکشنبہ ۱۹ سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ کے چالیسواں سالانہ اجلاس کے موقع پر حضرت علیہ الرحمہ کی دستار بندی ہوئی اور اس کے بعد ایک سال جامعہ نعیمیہ میں اعزازی مدرس رہے۔

آپ کے اساتذہ: حضرت علیہ الرحمہ کے اساتذہ میں آپ کے والد گرامی حضور اچھے میاں علیہ الرحمہ جودس سال تک جامعہ اشرفیہ کچھو چھ مقدسہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ۔حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ ،حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ، حضرت مفتی حبیب اللہ صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حضرت مفتی عمر صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حضرت مولانا یونس صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حافظ الہی بخش ، حضرت مولا نا سلامت اللہ ، حضرت مولانا ذ کی ، حضرت مولانا آل حسن (علیہم الرحمہ ) جیسے جلیل نےالقدرعلمائے کرام ہیں۔ حضرت علیہ الرحمہ نے حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ کے تعلق سے کئی واقعات بتائے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے حضور صدرالافاضل علیہ الرحمہ کی بعض تحریروں کو پڑھا تو ان کے دل میں حضور صدرالافاضل علیہ الرحمہ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے حاجی محمد اشرف کے ذریعہ حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ کواپنے یہاں مدعو کیا۔حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ مرادآباد سے کچھوچھہ مقدسہ  تشریف لائے اور اعلی حضرت اشرفی میاں  کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے اجازت لے کر اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے بریلی تشریف لے  گئے اور اس طرح سے  یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہو گیے ۔

  طبابت و حکمت: علم طب خدمت خلق کا ایک بہترین ذریعہ ہے غالباً علم طب کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت علیہ الرحمہ نے درس نظامی کی تکمیل اور یک سالہ تدریس کے بعد اپنے والد گرامی اور خاندان کے بزرگوں سے اجارت لے کر اس علم کی تحصیل کے لیے ۱۹۵۱ میں لکھنو طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۵ میں آپ نے بی ۔آئی۔ایم۔ایس کی ڈگری حاصل کی ۔

عقد مسنون: آپ کا عقد نکاح ۱۹۵۴میں بی بی سیدہ ثریارحمۃ اللہ علیہا بنت سید ضمیراشرف اشرفی جیلانی سے ہوا۔ جو خانوادہ اشرفیہ میں بڑی نیک سیرت اور پاک طینت خاتون تھیں۔  آپ سے تین فرزند سید فریدالدین اشرف ،سید نظام الدین اشرف اور سید سراج الدین اشرف جیلانی اور پانچ صاحبزادیاں ہوئیں۔

بیعت و خلافت : حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے والد گرامی حضورا چھے میاں علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل تھا اور اجازت و خلافت خانوادۂ اشرفیہ کی تین عظیم المرتبت شخصیات سے حاصل تھی ۔ (١)والد گرامی حضورا چھے میاں علیہ الرحمہ ،(٢)عم گرامی حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ اور (٣)خال محترم حضور سرکار کلاں  سید مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ سے۔

مرزا پور میں قیام:  حضرت علیہ الرحمہ جب مرزا پور تشریف لے گئے اس وقت وہاں وہابیت ودیوبندیت کا بڑاز بر دست غلبہ تھا۔ مدرسہ عربیہ اور گنگا بائی مسجد جیسے مرکزی ادارے اور مرکزی مقامات وہابیوں کے زیر تسلط تھے۔ حضرت علیہ الرحمہ بظاہروہاں ایک طبیب و معالج کی  حیثیت سے تشریف لے گئے تھے ۔مگر مرزاپور میں آپ کے جو کارنا مے ہے اور خدمات ہیں اور سرزمین مرزا پور پر دین وسنیت کے لیے آپ نے جو جد وجہد فرمائی ہے، وہاں کے وہابیت  و دیوبندیت  زدہ لوگوں کو جس حسن تدبر کے ساتھ آشنائے حق کیا اور گمراہ گروں کا جس طرح مردانہ وار مقابلہ کیا، یہ سارے واقعات و حقائق اس بات کے غماز ہیں کہ حضرت علیہ الرحمہ مرزا  پورصرف ایک معالج کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسیحائے قوم وملت کی حیثیت سے تشریف لے گئے تھے ۔

مسند ارشاد پر: والد گرامی اور برادرا کبر حضرت سید شاہ مفتی معین الدین اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد سیمانچل (اضلاع : کشن گنج، ارریہ ، پورنیہ ، کٹیہار)کے علاقے سے حضرت مولانا فخرالدین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ اور مرحوم جناب منشی اسیر الدین اشرفی اور مرحوم مولوی قمرالدین صاحب کچھو چھہ مقدسہ آئے اور حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بصد اصرار یہ عریضہ پیش کیا کہ آپ ہمارے علاقے (سیمانچل) میں تشریف لے چلیں اور وہاں دعوت وارشاد کا کام انجام دیں مگر حضرت علیہ الرحمہ از راہ عجز ان کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ یہ دونوں حضرات  حضور سرکار کلاں سید مختاراشرف  اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پہنچے اور حقیقت حال سنایا بالآخر حضور سرکارکلاں علیہ الرحمہ کے اشارے اور ان کے ایما پر حضرت علیہ الرحمہ ان حضرات کے ساتھ  جانے کے لئے رضامند ہو گیے اوراسی سفر سے آپ کے دعوت وارشاد کا سلسلہ شروع ہوا۔

حج وزیارت :حضرت علیہ الرحمہ نے دوحج فرمائے  ۔ پہلا حج ۱۹۹۷ میں ۔اس پہلے سفر میں آپ نے مصر کے تمام مقامات مقدسہ کی زیارت فرمائی ۔ دوسراحج  ۲۰۰۴ میں فرمایا اس سفر میں آپ کے ساتھ آپ کے جانشین حضرت علامہ سید شاہ نظام الدین اشرف اشرفی جیلانی  دامت برکاتہم العالیہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔

 پابندی صلوۃ :آپ نماز ہمیشہ وقت مستحب میں ادا فرماتے ۔اذان کے بعد آپ کو سب سے پہلی فکر نماز کی ہوتی ۔

تلاوت قرآن کی کثرت :حضرت علیہ الرحمہ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے ،اہل خانہ کا بیان ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں حضرت علیہ الرحمہ ہر تین چار دن میں قرآن پاک کا ایک دور مکمل فرما لیتے۔

اخلاق کی بلندی :حضرت علیہ الرحمہ کی زندگی بڑی سادہ اور پاکیزہ زندگی تھی ،آپ اخلاق عالیہ کے بلندمرتبے پر فائز تھے۔ جو بھی چند منٹوں کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا وہ آپ کی عالی ظرفی اور اخلاق کی بلندی سے متاثر ہو کر آپ کا گرویدہ ہو جا تا۔

انداز گفتگو:حضرت علیہ الرحمہ جب بھی گفتگوفرماتے بالکل ٹھہر ٹھہر کر اور بڑے سلیس انداز میں گفتگو فرماتے ،لب و لہجے میں مکمل اعتقاد ہوتا ، آواز نرم و آہستہ، جملے نپے تلے ایسا لگتا کہ آپ کسی اچھے ادیب کا مضمون پڑھ رہے ہوں نہ کوئی لفظ ضرورت سے زائداور نہ کوئی لفظ ضرورت سے کم ، گفتگو کے وقت نہ کہیں اٹکتے اور نہ کسی لفظ کی بار بار تکرارفرماتے ۔ زبان بڑی شیر میں اور شائستہ ہوتی ، پریشان زدہ لوگ آپ کی مجلس میں سکون وراحت محسوس کرتے ، آپ کی مجلس میں جو بیٹھتا گھنٹوں بیٹھ جاتا نہ تو اسے کوئی اکتاہٹ ہوتی اور نہ مجلس سے اٹھنے کو جی چاہتا۔

حضرت علیہ الرحمہ کی مجلسیں: حضرت علیہ الرحمہ مجلس میں جب بھی بیٹھتے چارزانو بیٹھتے۔ گھنٹوں گذر جاتے مگر پہلونہ بدلتے  اور نہ ہی کبھی لوگوں کے سامنے پاؤں پھیلا کر بیٹھتے۔ آپ کی مجلس گفتگوتذکیر وموعظت ، بزرگوں کے واقعات اور علمی موضوعات پر مشتمل ہوا کرتی ۔

 ذہانت و قوت حافظہ: حضرت علیہ الرحمہ کی عمر تر اسی چوراسی برس کی ہو چکی تھی مگر اس عمر میں بھی آپ کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ برسوں پہلے جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی ہوتی آپ اسے فورا پہچان لیتے ،اس سے اس کے ،اس کے اہل خانہ اور اس کے گاؤں کے لوگوں کی خبر و خیر یت نام بنام دریافت   کرتے کہ فلاں بابو کا کیا حال ہے ،فلاں صاحب کیسے ہیں؟

حضرت علیہ الرحمہ کے خطابات : حضرت علیہ الرحمہ کا خطاب مختصر وجامع ہوا کرتا تھا، آپ اکثر و بیشتر عشق ومحبت ، بزرگوں کے فضائل ومناقب ، سیرت وسوانح اور تصوف وتزکیہ جیسے موضوعات پر خطاب فرمایا کرتے تھے۔

انداز تبلیغ:  حضرت علیہ الرحمہ کا انداز تبلیغ اور لوگوں سے منفر دویگا نہ تھا۔ آپ کی مجلسوں میں دعوت تبلیغ کو اولین تر جیحات حاصل ہوئی تھی اور آپ کی کوئی مجلس دینی تذکرے سے خالی نہ ہوتی ۔ آپ کی محفل میں اگر کوئی وہابی ،دیو بندی آ تا تو آپ اس سے بھی حسن خلق اور کشادہ ظرفی سے باطل فرقے سے  ملتے  جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ  ایک دو ملاقات کے بعد وہ آپ کا گرویدہ اور آپ کا اسیر و مرید ہوجاتا۔

  کتب بینی کا شوق:  حضرت علیہ الرحمہ کودیکھا کہ آپ کثرت سے کتابوں کا مطالعہ فرماتے ۔اکثر و بیشتر آپ بیٹھ کر مطالعہ فرماتے تھے ۔رات سوتے وقت مچھر دانی لگ جاتی اور بجلی نہیں ہوتی تو آپ کتاب کے مطالعہ کے لیے مچھر دانی کے اندر لیمپ  یا ایمرجنسی لائٹ وغیرہ رکھواتے ۔

 علماء نوازی: حضرت علیہ الرحمہ علماء  کرام کی بڑی قدر کرتے تھے، مزید آپ  علیہ الرحمہ اکثر لوگوں کو اس بات کی تاکید کیا کرتے تھے کہ’ یہ علماء  کرام ہیں ان کے علم کی قدر کیا کرو۔

 طلبہ نوازی:جامع اشرف ،امیر العلوم سمنانی اور دیگر مدارس اسلامیہ کے سیکڑوں طلبہ اس بات پر گواہ ہیں کہ اگر ایک دو طالب علم بھی حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بغرض ملاقات پہو نچ جاتے اور حضرت علیہ الرحمہ گھر کے اندر ہوتے تو آپ ان کے لیے باہرتشریف لے آتے اور خادم خانہ کوفوری چائے بسکٹ کا حکم فرماتے ،طلبہ سے ان کی خبر وخیریت دریافت کرتے اور انہیں محنت سے پڑھنے لکھنے کی تاکید فرماتے ۔

 مہمان نوازی:  حضرت علیہ الرحمہ کا گھر ضیافت و مہمان نوازی میں پورے کچھو چھہ مقدسہ  میں مشہور ہے ۔ مہمان نوازی کے سلسلے میں حضرت علیہ الرحمہ کا معمول دیکھا  گیا کہ جیسے ہی کوئی مہمان وارد ہوتا ۔ سلام ومصافحہ کے بعد فوراً کرسی کی جانب بیٹھنے کا اشارہ فرماتے اور چائے ناشتہ حاضر کر نے کا حکم دیتے ،آنے والے مہمان سے ،اس کے گھر کے ہر ہر فرد کے بارے میں تفصیلی خیریت دریافت کرتے ،اگر مہمان درگاہ شریف جانے کی اجازت طلب کرتا تو حضرت تاکید فرماتے کہ شام کے وقت جلدی آجائیے گا اور کھانا یہیں کھائیےگا ،اگر سخت دھوپ اور گرمی ہوتی تو آپ فرماتے ،ابھی آرام کیجیے چار بجے جائیےگا۔ اگر مہمان پہلی مرتبہ  کچھوچھہ شریف حضرت کے مکان پر حاضر ہوتا تو حضرت کسی کو ساتھ میں کر دیتے۔ ہر آنے والے سے حضرت علیہ الرحمہ کے ملنے کا انداز اتنا پر تپاک ہوتا کہ اگر آنے والا بالکل نو وار داور پہلی بار آیا ہوتا تو اسے ایسا لگتا کہ حضرت علیہ الرحمہ سے یہ پہلی ملاقات نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

انسانی ہمدردی و مشکل کشائی: حضرت علیہ الرحمہ کے اندر خدمت خلق کا جذ بہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ آپ ہمیشہ دوسروں کے غم کواپناغم اور دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے ۔ حضرت علیہ الرحمہ کا معمول دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی پریشان زدہ اپنی پریشانی لے کر آ تا تو اکثر وبیشتر ایسا ہوتا کہ آپ اسے اپنے قریب بلاتے ، اپنا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتے ، اس کی طرف ذرا جھک جاتے اور اس کی داستان مصیبت کو بڑے غور سے سنتے۔ پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ’’ بیٹا ہم دعا کر لیں گے ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘حضرت علیہ الرحمہ کے اس جملے میں نہ معلوم اللہ تعالی نے کون سا اثر اورتسلی کا کون سا سامان چھپارکھا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے جیسے ہی یہ کلمہ اداہوتا پریشان زدہ کے چہرے پراس وقت اطمینان وسکون کی لکیریں نمایاں ہو جاتیں ۔

 غریب نوازی:  حضرت علیہ الرحمہ غریبوں اور خستہ حال لوگوں کا بڑا خیال رکھتے ۔ آپ اپنے سارے مریدوں سے یکساں محبت فرماتے۔ آپ علیہ الرحمہ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا! ہم غریبوں میں ہیں اس لئے غریبوں کا خیال رکھا کریں۔

حضرت علیہ الرحمہ کے آخری ایام :وصال سے تقریبا چار سال قبل ہی سے حضرت علیہ الرحمہ کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی ۔ڈاکٹروں کا علاج مسلسل چلتا رہا۔ جب بھی  تکلیف کی شدت بڑھتی آپ اپنا سر تکیے پر رکھتے اور سجدہ کی حالت میں آجاتے، مسلسل علالت نے آپ کے جسم کوانتہائی کمز ورولاغر اور نحیف و ناتواں بنادیا تھالیکن اس کے باوجود بھی آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا تھا،اخیر اخیر میں آپ پر سکر کی حالت طاری رہنے لگی تھی۔کئی کئی گھنٹے گذر جاتے مگر آپ کی آنکھیں بند تھیں لیکن سکر کی حالت سے جیسے ہی’’صحو‘‘ کی طرف لوٹتے آپ کی زبان پر سب سے پہلا کلمہ یہ ہوتا " کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے مجھے تیم کراؤ نماز پڑھنی ہے۔

وفات حسرت آیات: جناب تاج الدین اشرفی صاحب کا بیان ہے کہ وصال سے تقریبا ایک ماہ قبل حضرت علیہ الرحمہ نے مجھ سے دریافت فرمایا: بیٹا یہ کون سا مہینہ چل رہا ہے؟  میں نے انگریزی مہینے کا نام لیتے ہوئے کہا کہ حضرت یہ دسمبر کا مہینہ ہے ۔حضرت نے فرمایا : ارے بھئی اپنا مہینہ بتاؤ، میں نے عرض کیا حضرت! یہ  ماہ صفر ہے ۔ حضرت نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا ابھی ایک مہینہ اور ہے۔ میں اس وقت حضرت کے اس جملے کا مطلب نہ سمجھ سکا لیکن جب ربیع الاول کے مہینے میں حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا تو اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ حضرت علیہ الرحمہ کا اشارہ شاید اسی طرف تھا ۔ آپ کا وصال شب جمعرات ۱ا/ربیع الاول ۱۳۳۴ہجری مطابق ۲۳ جنوری ۲۰۱۳ء باره بج کر دس منٹ میں لکھنو’’ آستھا اسپتال میں ہوا ’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔

تجہیز وتدفین: لکھنؤ سے آپ کا جسد خاکی کچھوچھہ مقدسہ لایا گیا۔ جمعہ کے دن تقریبا ا/بجے دن آپ کوغسل دیا گیا ،غسل کے وقت خانوادہ کے تقریبا ًسبھی افراد موجود تھے ۔۱۲/ ربیع الاول شریف کے دن نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ کچھوچھہ شریف سے درگاہ شریف آستانہ مخدومی پر لے جایا گیا۔ آپ کے جانشین تاج الاسلام حضرت علامہ سید شاہ نظام الدین اشرف اشرفی جیلانی نے آپ کی ترقی درجات اور سارے حاضرین کے لیے بڑے پرسوز اور درد بھرے انداز میں دعا کی ۔ آستانہ مخدومی پر حاضری کے بعد آپ کا جنازہ  جامع اشرف کے گراؤنڈ میں لایا گیا اور وہیں نماز جنارہ ادا کی گئی اور آپ اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔ (مآخوذ: قطب المشائخ  /ناشر ادارہ القطب کولکاتا)

 


No comments:

Post a Comment