حضرت سید عثمان سخی لعل شہباز قلندرعلیہ الرحمہ


 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بشارت

آذربائیجان کے ایک چھوٹے سے قصبے مروند میں حضرت کبیر الدین احمد علیہ الرحمہ تقویٰ اور پرہیزگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ حضرت سید محمد کبیرا لدین احمد شاہ علیہ الرحمہ کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔آپ کی اہلیہ اس مسئلہ کی وجہ سے اُداس رہنے لگی تھیں۔ سید محمد کبیر الدین علیہ الرحمہ ہر شب تہجد کے بعد بارگاہِ ایزدی میں مناجات کرتے اور ایک حالتِ گریہ طاری ہوجاتی۔ایک شب اُنہوں نے خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا اور عرض کی ‘‘یا امیر المومنین! آپ میرے حق میں اﷲ تعالیٰ سے اولاد کے لئے دعا کیجئے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے’’۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے تسلی دیتے ہوئے آپ کو ایک فرزند کی بشارت دی۔کچھ عرصہ بعد570 یا 573ہجری بمطابق 1177عیسوی میں سیدکبیرالدین احمد علیہ الرحمہ کے گھر ایک فرزند کی ولادت ہوئی جس کا نام ‘‘محمد عثمان’’ رکھا گیا اسے آنے والے زمانے میں آسمانِ ولایت کا شہباز بننا تھا۔

تعلیم و تربیت محمد عثمان علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم آپ کی والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی۔ سات برس کی عمر میں کلام پاک حفظ کرلیا۔ حضرت شیخ منصور کی نگرانی میں علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔ عربی اور فارسی زبانوں میں آپ نے بہت کم عرصے میں خاصی مہارت حاصل کرلی۔ آپ کی والدہ صاحبہ آپ کی اوائل عمری میں وفات پاگئیں اور والد کا سایہ بھی والدہ کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد آپ کے سر سے اُٹھ گیا۔

ظاہری علوم کی تحصیل کے بعد آپ کا میلان طریقت و معرفت یعنی روحانی علوم کی طرف ہوا ، چنانچہ آپ نے اس تعلیم کے لیے مروند سے سبزوار کا بھی سفر کیا۔ ان دنوں وہاں جلیل القدر شخصیت سید ابراہیم ولی  مقیم تھے۔ آپ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ   کی اولاد سے تھے ۔ آپ  بڑے عابد وزاہد اور جیّد عالم تھے۔ حضرت لعل شہباز قلندر علیہ الرحمہ حضرت ابراہیم ولی کی خدمت میں رہ کرتحصیلِ علم میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ابراہیم ولی نے حضرت لعل شہباز قلندر  کی صلاحیتوں کو پرکھ کر جلد ہی مشائخ اور علماء کی ایک محفل میں حضرت لعل شہباز قلندر علیہ الرحمہ کو خلافت کی دستار سے نواز دیا۔

غیبی اشارہ ملنے پر اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے اور وہاں سے ایران تشریف لائے۔ حضرت امام ِرضا رضی اللہ عنہ سے روحانی وقلبی وابستگی کی وجہ سے آپ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ چندروز تک مراقبے کا سلسلہ جاری رہا، آپ کو باقاعدہ گوشہ نشینی کا حکم ہوا۔ آپ  خانقاہِ رضویہ میں مصروفِ عبادت رہے یہ سلسلہ چالیس روز تک جاری رہا اور آخری ایّام میں آپ کو حکم ہو ا کہ حج بیت اللہ اور زیارتِ روضہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کریں۔ اس طرح آپ امام رضا رضی اللہ عنہ سے روحانی اجازت ملنے کے بعد حجازِمقدس روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں عراق پہنچنے پر حضر ت لعل شہباز قلندر، حضرت عبدالقادر جیلانی  رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضر ہوئے۔ حضرت لعل شہباز قلندر رضی اللہ عنہ نے بغداد سے حجاز تک راستے میں کئی مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔ آپ  تین ماہ تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے حج کی ادائیگی کے بعدمدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مسجدِنبوی میں جب روضۂ اطہر کے قریب پہنچے تو دیر تک بارگاہِ رسالت میں سرجھکائے سلام پیش کرتے رہے۔آپ  گیارہ ماہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے ۔

غیبی اشارہ ملنے پر آپ سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔

سفر کے دوران شہباز قلندر  مکران کے ساحل پہنچے ، جب آپ وادی پنج گور میں داخل ہوئے تو ایک سرسبز میدان نے آپ کے قدم پکڑلیے۔ آپ نے یہاں چلہ کشی کی اور اس میدان کو یادگار بنا دیا۔ مقامی مکرانیوں نے اس ویرانے میں ایک فقیر کو چلہ کشی کرتے دیکھا تو دیدار کے لیے امڈ کر آگئے۔ آپ کی عبادت و ریاضت سے متاثر ہو کر ہزاروں مکرانیوں اور بلوچوں نے اسلام قبول کرلیا اور آپ کے مرید ہوگئے۔
یہاں ایک عرصہ قیام کرنے کے بعد آپ اس دشت کو ‘‘دشت شہباز’’ بنا کر آگے بڑھ گئے۔ آپ جب پسنی سے گزرے تو ایک گڈریا اپنی بکریوں کا ریوڑ لے کر جا رہا تھا۔ آپ  عالم جذب میں تھے۔ وہ گڈریا اپنی بکریوں کو بھول کر آپ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے چند دن کے ساتھ میں اسے اپنے رنگ میں ایسا رنگا کہ آپ کے جانے کے بعد وہ گڈریا ‘‘لعل’’ کےلقب سے مشہور ہوگیا۔ پسنی بندرگاہ کے ٹیلے کی دوسری جانب گڈریا لعل کا ایک مزار آج تک اسی گڈریے کی یاد دلاتا ہے۔یہاں سے آپ سندھ میں داخل ہوئے لیکن رکے بغیر سیدھے ملتان پہنچے اور شہر ملتان کے مضافات میں قیام فرمایا۔ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر ملتان اور گرد و نواح کے لوگ آپ کے پاس آنے لگے۔ ہر وقت لوگوں کا ایک ہجوم رہنے لگا۔ یہ لوگ طرح طرح کے مسائل لے کر آپ کے پاس آتے۔ قلندر شہباز  کی دعاؤں سے بے شمار مریضوں کو شفا ملی، لاتعداد دکھیاروں کے دکھ دور ہوئے، ان خوش نصیب لوگوں کی زبانی قلندر شہباز کی کرامات کا شہرہ بھی دور دور تک ہونے لگا۔

 ملتان کے قاضی علامہ قطب الدین کاشانی کی سماعت بھی ان قصوں سے آثنا ہوئی۔ علامہ قطب الدین کاشانی ایک عالم فاضل شخص تھے لیکن صوفیت اور درویشی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہوں آپ کے خلاف فتوٰی جاری کردیا۔ حضرت لعل شہباز قلندر رضی اللہ عنہ کے کسی عقیدت مند نے قاضی کا یہ فتویٰ آپ تک بھی پہنچا دیا۔آپ چند خدمت گاروں کے ساتھ ملتان کی طرف روانہ ہوگئے۔

 حضرت بہاؤ الدین زکریا رضی اللہ عنہ کی روحانی ولایت سے اس وقت ملتان جلوہ افروز ہو رہا تھا۔ ہر روز مجلس ارشاد کا انعقاد ہوتا تھا۔ ہزاروں طالبان حق کسب فیض کے لیے حاضر ہوتے تھے۔آپ مسند ارشاد پر جلوہ افروز تھے کہ کسی نے اطلاع دی :"حضرت عثمان مروندی قلندر نام کے کوئی بزرگ علامہ قطب الدین کاشانی سے مناظرے کے لیے تشریف لارہے ہیں۔"

آپ نے کہا ‘‘جاؤ اور قلندر کو نرمی سے سمجھا بجھا کر میرے پاس لے آؤ۔’’ حضرت لعل شہباز قلندر ابھی ملتان کے دروازے پر پہنچے تھے کہ بہاؤالدین زکریا ملتانی رضی اللہ عنہ کے مریدین آپ کے استقبال کے لیےپہنچ گئے۔

اب آپ کے قدم قاضی کی عدالت کے بجائے حضرت بہاؤ الدین زکریا کی خانقاہ  کی جانب تھے، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی  رضی اللہ عنہ سے پہلی ہی ملاقات دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت لعل شہباز قلندر ایسی صحبتوں کے متلاشی تھے۔ خانقاہ میں بیٹھے تو اٹھنا بھول گئے۔ دن رات صحبتیں رہنے لگیں۔ اسی خانقاہ میں آپ کی ملاقات حضرت فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ اور حضرت سرخ بخاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔

اس زمانے میں خطہ پنجاب اور سندھ میں قرامطہ فرقے کا بہت زیادہ اثر تھا۔ ان کے عقائد بنیادی اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔ خطہ پنجاب میں کئی علاقے ایسے تھے جہاں ابھی تک اسلام کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ ان حالات کے پیش نظر حضرت بہاؤ الدین زکریا نے رشد و ہدایت اور اسلام کی تبلیغ کا ایک عملی منصوبہ تیار کیا۔ ایک طرف اپنے مریدوں کو مختلف تبلیغی دوروں پر روانہ کیا تو دوسری جانب حضرت لعل شہباز قلندر حضرت فرید الدین گنج شکر اور سید جلال سرخ بخاری کے ہمراہ تبلیغی دوروں پر روانہ ہوئے۔ یہ چارروں بزرک کافی عرصہ ایک ساتھ رہے۔بعد میں یہ چاروں بزرگ چار یا رکے نام سے بھی مشہور ہوئے۔
آپ علیہ الرحمہ  کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی جس کی وجہ سے لوگ آپ سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ آپ ان تبلیغی دوروں میں جہاں بھی گئے ، آپ سے بے پناہ کرامات بھی ظاہر ہوئیں، جن سے عوام الناس میں آپ کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اان اولیاء اللہ کی تبلیغی کوششوں نے لوگوں کو بہت سکون اور اعتماد عطا کیا اور لوگ کثرت سے اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ہندوستان کے مختلف شہروں کی حضرت لعل شہباز قلندر سیاحت کرتے ہوئے جونا گڑھ تشریف لائےان دنوں  یہاں کے لوگ ایک عجیب مصیبت میں گرفتار تھے۔ دن کی ایک خاص گھڑی میں ایک زنبیل اور ڈنڈا نظر آتا تھا۔ اسے کون پکڑے ہوئے ہے، کچھ نظر نہ آتا تھا۔ بس ایک آواز آتی تھی :جسے جو کچھ دینا ہے، اس زنبیل میں ڈال دے۔’’

لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہوگئی تھی کہ اگر کوئی اس زنبیل میں کچھ نہیں ڈالے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ اس لیے لوگ خوف زدہ ہو کر کچھ نہ کچھ اس زنبیل میں ڈال دیاکرتے تھے۔ یہ زنبیل کہنے کو ایک چھوٹا سا کاسہ تھا لیکن اس میں بہت سارا سامان سما جاتا تھا۔ لوگ اس زنبیل سے متاثر تو تھے لیکن روز روز کی طلب سے تنگ آچکے تھے۔ انہوں نے بہت سے بزرگوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی بھی اس زنبیل اور ڈنڈے کو نظر آنے سے نہ روک سکا۔

یہ قصہ چل ہی رہا تھا کہ آپ علیہ الرحمہ  شہر سے باہر آ کر مقیم ہوئے۔ آپ کی شہرت سن کر ایک درویش آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس درویش نے پورا واقعہ آپ کے گوش گزار کرتے ہوئے اپنی بے بسی ظاہر کی۔

وہ درویش آپ کو اس محلے میں لے گیا جہاں وہ زنبیل ظاہر ہوتی تھی۔  کھیل شروع ہوچکا تھا۔ زنبیل اور ڈنڈا ہر دروازے پر، ہوا میں اُڑتا ہوا پہنچ رہا تھا اور لوگ اپنی نذریں اس میں ڈال رہے تھے۔ قلندر شہباز نے اپنا دست مبارک بڑھا یا۔ زنبیل اور ڈنڈا دونوں آپ کے ہاتھ میں آگئے۔ لوگ دم بہ.خود کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔

آپ علیہ الرحمہ  نے ڈنڈا اپنے پاس رکھا اور زنبیل اس درویش کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘زنبیل تم رکھ لو۔ آج سے تم زنبیل شاہ ہو۔ جو بھی تمہاری زنبیل سے کھائے گا، فیض یاب ہوگا۔’’
جوناگڑھ میں آج بھی زنبیل شاہ کا مزار موجودہے۔

دوران سیاحت آپ گرنار اور گجرات بھی تشریف لے گئے اور لوگوں کو توحید اور حقانیت کا درس دیا۔ جس زمانے میں آپ گرنار میں مقیم تھے،آپ کے گرد حاجت.مندوں کا ہجوم رہتا تھا۔ یہ زمانے بھر کے ستائے ہوئے، بیمار اور مفلس انسان تھے جنہیں قلندر کے تسکین آمیز کلمات جینے کا حوصلہ دیتے تھے۔آپ دکھی لوگوں کے آنسو پونچھتے، انہیں تسلی دیتے، غمخواری فرماتے۔

ایک روایت یہ ہے کہ اسی سیاحت کے دوران میں آپ نے حضرت بوعلی شاہ قلندر سے بھی ملاقات کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بوعلی شاہ قلندر ہی نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ سندھ میں سیوستان (سہون) میں سکونتاختیارفرمائیں۔ ملتان کے لوگوں کی خواہش تھی کہ آپ واپس جاکر ملتان میں ہی قیام کریں لیکن آپ نے سیہون جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور سندھ کا رُخ کیا۔  حضرت لعل شہباز قلندر 649ہجری میں سندھ تشریف لائے ۔

سیہون میں اس وقت ہندو راجہ جیسر جی(جو عرف عام میں راجاچوپٹ کہلاتا تھا) کی حکومت تھی۔  راجہ چوپٹ ایک عیاش طبع آدمی تھا ۔ راجہ رعایا کے حال سے بے خبر رہتا۔ لاقانونیت اور ظلم و تشدد ہر طرف عام تھا کسی کی کوئی فریاد نہیں سنی جاتی تھی۔ اسی وقت کا یہ مقولہ بھی مشہور ہے‘‘اندھیر نگری چوپٹ راج’’۔

لوگوں کو بے بس اور لاچار دیکھ کر ایک مجذوب جس کا نام سکندر بودلہ تھا وہ اکثر ایک نعرۂ مستانہ لگایا کرتاتھا۔‘‘میرا مرشد آنے والا ہے، ظلم کا زوال ہونے والا ہے۔

سکندر بودلہ سیوستان کی پہاڑیوں میں عبادت و ریاضت کرتے تھے۔ ایک رات بزرگ نے خواب میں آوازِ غیبی سُنی کہ ‘‘ایک مرد قلندر آرہا ہے جو ظلمت کو نور میں تبدیل کردے گا’’…. پھر اکثر اُن بزرگ کی زبان پر یہ ورد رہتا کہ ‘‘میرا مرشد سائیں آرہا ہے۔

اس نعرے کو سن کر شہر کے لوگوں کے دلوں سے دعا اُٹھتی کہ خدا کرے ہمارا نجات دہندہ جلد آئے اور ہمیں راجہ کے ظلم سے بچائے۔

مجذوب کی آواز میں ایسی کڑک تھی کہ راجہ کے قلعے کی دیوار کو چیرتی ہوئی اندر آجاتی تھی۔ رات کے اندھیرے اور سناٹے میں یہ پر سوز آواز اہل قلعہ کی نیندیں اڑادیتی تھی۔ شروع شروع میں تو راجہ اور قلعہ کے لوگوں نے نعروں کو سن کر نظرانداز کردیا تھا۔ جب نعروں میں شدت آگئی تو وہ بھی بوکھلا اٹھے۔ ان فلک شگاف نعروں نے نجانے کیوں راجہ جیسرکونہ صرف مشتعل کرتا بلکہ خوفزدہ کردیا تھا ، بالآخر راجا کے سپاہی گئے اور اس مجذوب کو گرفتار کرکے راجہ کے پاس لے آئے۔ راجہ کے سامنے بھی سکندر بودلہ کی زبان پر یہی الفاظ تھے ‘‘میرا مرشد آنے والا ہے، ظلم کا زوال ہونے والا ہے’’…. تو راجہ غضبناک ہوگیا اور اُس نے سکندر بودلہ کو قید کروادیا، لیکن قید خانے میں بھی اس کے فلک شگاف نعرے بند نہ ہوئے ۔

راجہ رات بھر اذیت کی آگ میں جلتا رہا۔ صبح ہوئی تو اس نے وزیروں کو طلب کیا۔ وزیروں نے کہا کہ اس شخص کی کھال ادھیڑی جائے آپ ہی دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ راجا نے اجازت دے دی۔ سکندر بودلہ پر تازیانوں کی بارش کردی گئی لیکن وہ یہی کہتے رہے"میرا مرشد آنے والا ہے۔"

سکندر بودلہ پر وحشیانہ تشدد جاری رہا۔ تقریباً روزانہ ان پر تازیانوں کی بارش کی جاتی تھی لیکن آپ کے ہونٹوں پر ایک ہی نعرہ جاری رہتا تھا۔

سندھ کا علاقہ آپ علیہ الرحمہ  کے لیے انجان تھا۔ آپ یہاں کی زبان اور ثقافت سےواقف نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپ  سرزمین سندھ کی طرف تشریف لے آئے۔ حالات کا مشاہدہ کرکے آپ نے کسی ایک جگہ مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ترک کرکے پہلے ارد گرد علاقوں میں تبلیغی دوروں کاآغاز کیا۔

آپ علیہ الرحمہ  نے ٹھٹھے کے قریب ‘‘آرائی’’ کے مقام پر ایک بزرگ پیر پیٹھ سے ملاقات کی۔یہ بزرگ ایک پہاڑی کے غار میں مصروف عبادت رہتے تھے۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے اسی غار میں آپ سے ملاقات کی اور کامرانی کی دعائیں لے کر رخصت ہوئے۔ آپ نے سندھ کے ایک گاؤں ‘‘ریحان’’ میں بھی کچھ دن قیام فرمایا تھا۔ بعد میں یہی گاؤں حضرت رکن الدین ملتانی کی نسبت سے رکن پور کہلایا۔ جب حضرت لعل شہباز قلندر  اس گاؤں میں تشریف لے گئے تو اس کی زمین بنجر تھی۔ پھر اللہ نے آپ کی برکت سے اس زمین کی سرشت بدل ڈالی۔ علاقہ آباد ہوگیا۔ سرسبزوشادابی کی وجہ سے بنجر زمین بھی خزانے اگلنے لگی۔

کراچی کے قریب منگھوپیر کا مزار ہے۔ بعض روایات کے مطابق صاحب مزار حضرت فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ ہیں۔ اسی پہاڑ پر لعل شہباز قلندر کے نام سے ایک بستی آباد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت لعل شہباز قلندر یہاں تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کیا۔

آپ علیہ الرحمہ  کی ایک چلہ گاہ حیدرآباد کے نزدیک گنجہ ٹکر کے نزدیک ٹنڈو غلام حسین میں بھی موجود ہے۔ مشہور ہے کہ آپ یہاں چلہ کش ہوئے تھے آپ نے حیدرآباد کے اطراف میں بھی کئی تبلیغی دورے کیے تھے۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ دوران سیاحت قلندرپاک نے ‘‘پاٹ’’ شہر میں حاجی اسماعیل منوہر سے بھی ملاقات کی تھی۔‘‘پاٹ’’ دراصل سندھ کا ایک قدیمی شہر تھا۔

 بہت سے علمائے کرام دور دراز کی مسافت طے کرکے اس شہر میں آتے تھے۔ قدیم تذکروں میں اس شہر کو اسی وجہ سے ‘‘قبتہ الاسلام’’ کہا گیا ہے۔ دریا کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں باغات کی کثرت تھی جس میں انار بہت کثرت سے ہوتے تھے۔

سہون شریف کے ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں ایک بلند پہاڑ ہے جس کے اندر ایک قدیم غار موجود ہے۔ روایت ہے کہ  اس غار میں حضرت لعل شہباز قلندر نے چلہ کشی کی تھی۔ سہون کے ر یلوے اسٹیشن کے قریب آپ کے نام سے منسوب ایک ‘‘لال باغ’’ بھی ہے روایات کے مطابق  اس باغ کے قریب ایک پہاڑی پر بھی آپ نے چلی کشی کی تھی۔ مقامی لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر کی آمد سے قبل نہ یہ باغ تھا اور نہ یہ چشمہ۔ لوگ اس مقام پر چشمے کی موجودگی کو شہباز قلندر کی کرامت سمجھتے ہیں۔

یہ چند نشانات جو تاریخ میں محفوظ رہ گئے ہیں، صاف بتاتے ہیں کہ آپ نے سندھ کے دور دراز علاقوں کے دورے کیے۔ اس دور کے سفر آج کی طرح بہ سہولت نہیں تھے۔ دین کی تبلیغ کے لیے ہمیں آپ کے عزم اور حوصلوں سے رہنمائی اور ترغیب لینی ہوگی۔آپ کی بہت سی کرامات لوگوں میں مقبول ہیں۔
روایات ہیں کہ جب کبھی آپ کے پاس کوئی لاعلاج مریض آتا تو آپ اس پر گہری نظر ڈالتے اور فرماتے ۔
‘‘
اے بیماری! میں تمہیں اﷲتعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ تو اسے چھوڑے دے‘‘۔
لعل شہباز قلندر  کا یہ جملہ مریض میں تندرستی کے آثار پید ا کردیتا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات پانی پر دم کرکے بھی مریض کو دیتے اور فرماتے یہ پانی بیمار کو پلاؤ اور آنکھوں کو لگاؤ آپ  کی ہدایت پر عمل کرکے بیمار صحتیاب ہوجاتے تھے۔

ایک مرتبہ سندھ اور اس کے قرب وجوار میں اتنا شدید قحط پڑا کہ مخلوقِ خدا سخت پریشان ہوئی۔ اس قحط سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے قلندر سے عرض کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اس قحط سے نجات دیدے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی، ابھی دعا میں مصروف ہی تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کے تمام خشک کھیت پانی سے بھر گئے۔ ندی نالے پر ہوگئے۔ اور مخلوقِ خدا نے سکون کاسانس لیا۔

وادیٔ مہران سندھ کے مختلف علاقوں کو فیضیاب کرنے لے بعد حضرت لعل شہباز قلندر  ‘‘سیوستان’’ یعنی سیہون میں مقیم ہوئے جہاں آپ کو بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور آپ کے حسن اخلاق کی بہت دور دور تک شہرت ہوگئی۔

لعل شہباز قلندر اور ان کے ساتھیوں نے جس میدان میں پڑاؤ ڈالا تھا، اس کے قریب ایک بستی میں شراب و شباب کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ درویش کے پڑاؤ کی وجہ سے اس بستی کے مکینوں نے خوف محسوس کیا اور راجہ کے پاس جاکر ان کی شکایت کی۔

ان لوگوں کی دروغ گوئی سن کر راجہ غصہ سے تلملا اُٹھا۔ اس نے بہت مغرور لہجے میں اپنے کوتوال کو حکم دیا کہ ان مسلمان فقیروں کو بےعزت کرکے اس کی ریاست سے نکال دیا جائے۔
راجہ جیر جی کے سپاہی گدڑی پوشوں کے خیمے میں داخل ہوئے اور انہیں حاکم سیوستان (سہون) کا حکم سنایا۔
گدڑی پوشوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے مرشد کے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔اگر تمہیں کچھ کہنا ہے تو ان سے کہو۔

راجا جیر جی کے سپاہی اسی حالت غضب میں قلندر شہباز کے خیمے کی طرف بڑھے مگر اندر داخل نہیں ہوسکے۔ سپاہیوں کو ایسا محسوس ہوا جسے ان کے پیروں کی طاقت سلب ہوچکی ہے اور وہ اپنے جسم کو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔ پھر جب سپاہیوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ان کی ساری طاقت بحال ہوگئی۔ سپاہیوں نے دوبارہ خیمے میں جانے کی کوشش کی اس بار بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مجبوراً سپاہی کچھ کیے بنا واپس چلے گئے۔

راجا جیر جی اپنے سپاہیوں کی مجبوریوں کا قصہ سن کر چراغ پا ہوگیا۔ اس نے فور طور پر اپنے وزیروں، مشیروں اور درباری نجومیوں کو طلب کرلیا۔تمام واقعات سن کر حاکم سہون کی طرح اراکین سلطنت اور ستاروں کا علم جاننے والے بھی حیران وپریشان تھے۔

پھر درباری نجومیوں نے ستاروں کی چال اور زائچے وغیرہ بنائے تو یکا یک ان کے چہروں پر خوف کے گہرے سائے لرزنے لگے۔نجومیوں نے راجا جیر جی سے عرض کیا۔ ‘‘زائچے بتاتے ہیں کہ ایک شخض حدود سلطنت میں داخل ہوگا اور پھر وہی شخص اقتدار کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔ شاید وہی شخص ہے جس کے ایک مجذوب شاگرد کو آپ نے قید میں ڈال دیا ہے۔’’
نئی چال سوچی گئی، وزیروں کے کہنے پر ہیرے جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہوا خوان لے کر شہباز قلندر  کی خدمت میں پیش کیا گیا  کہ اسے قبول فرمائیں اور کسی دوسرے جگہ قیام فرمالیں۔
آپ نے حکم دیا کہ ان جواہرات کو آگ میں ڈال دو، خدمت گار نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق خوان اٹھا کر آگ میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک شعلہ سا بھڑکا، اور واقعی تمام ہیرے جواہرات اور سونے کے ٹکڑے کوئلے اور لکڑی کی طرح آگ میں جل کر خاک ہوگئے۔
حاکم سہون کا نمائندہ کچھ دیر تک پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ یہ ناقابل یقین منظر دیکھتا رہا۔ وہ سونا جو تپتی ہوئی بھٹی میں بہت دیر کے بعد پگھلتا ہے، اسے معمولی آگ کے شعلوں نے چند لمحوں میں جلا کر خاک کر ڈالا تھا۔ مسلمان درویش کی یہ کرامت دیکھ کر وزیر نے قدموں پر سر رکھ دیا اور گداگرانہ لہجے میں عرض کرنے لگا۔ پھر جب وزیر کانپتے قدموں کے ساتھ واپس جانے لگا تو آپ  نے نہایت پر جلال لہجے میں فرمایا۔

‘‘اپنے راجا سے کہہ دینا کہ ہم یہاں سے واپس جانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اگر حاکم سہون اپنی سلامتی چاہتا ہے تو خود یہاں سے چلا جائے۔’’

وزیر دوبارہ حاکم سہون کی خدمت میں پہنچا اور اس نے لعل و جواہر کے راکھ ہوجانے کا پورا واقعہ سنایا تو راجا جیر جی اور زیادہ غضبناکہوگیا۔ اور کہنے لگا ‘‘تو بزدل ہے کہ ایک معمولی سی بات سے ڈر گیا۔ میں نے اس سے بھی بڑی شعبدہ بازیاں دیکھی ہیں۔ میری سلطنت میں ایسے ایسے کامل جادوگر موجود ہیں جو مسلمان سنیاسی کے طلسم کو پارہ پارہ کردیں گے۔’’

عشاء کی نماز  ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حضرت شہباز قلندر  نے خدمت گاروں کی موجودگی میں قلعہ کی جانب رخ کرتے ہوئے فرمایا  ‘‘بودلہ! اب تم ہمارے پاس چلے آؤ’’ خدمت گار حیران تھے کہ مرشد کسے پکار رہے ہیں….؟

سکندر بودلہ جو راجہ جیر جی کی قید میں تھے اور کئی مہینے سے درد ناک سزائیں برداشت کررہے تھے۔ ادھر آپ  کی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے اور ادھر بودلہ کا جسم اچانک زنجیروں سے آزاد ہوگیا۔ بودلہ ابھی اسی حیرانی میں تھے کہ یکایک زنداں کا دروازہ کھل گیا۔ بودلہ کو اپنے مرشد کی آواز سنائی دی، بودلہ سمجھ گئے کہ یہ مدد کے سواء کچھ نہیں۔ اس نے بے اختیار نعرہ لگایا۔
‘‘
میرا مرشد آگیا…. میرا مرشد آگیا۔’’

شدید زخمی ہونے کے سبب بودلہ تیزی سے اُٹھے اور قید خانے سے باہر کی جانب دوڑنے لگے۔ آخر اس میدان میں پہنچ گئے جہاں لعل شہباز قلندر اور ان کے ساتھیوں نے قیام کیا ہوا تھا۔بودلہ سے مل کر لعل شہباز قلندر نے اپنے مریدوں کو بتایا کہ ‘‘یہی تمہارا بھائی بودلہ ہے۔ اسے حاکم سہون نے ناحق ستایا ہے۔ انشاء اللہ ! وہ بہت جلد اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گا۔’’

شدید مخالفتوں کے باوجود آپ نے سیہون شریف میں رہ کر اسلام کا نور پھیلایا ہزاروں لوگوں کو راہِ ہدایت دکھائی، لاتعداد بھٹکے ہوئے افراد کا رشتہ خدا سے جوڑا، لوگوں کو اخلاق او ر محبت کی تعلیم دی۔ سچائی اور نیکی کی لگن انسانوں کے دلوں میں اجاگر کی۔  آپ    کی تعلیمات اور حسن سلوک سے سیہون کی ایسی کا یا پلٹی کہ بہت بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا آپ نے لاتعداد بھٹکے ہوئے افراد کا رشتہ خدا سے جوڑا، لوگوں کو اخلاق کی تعلیم دی، سچائی اور نیکی کی لگن انسانوں کے دلوں میںپیداکی۔
لعل شہباز قلندر کی وجہ سے راجہ کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آرہا تھا۔

راجہ جیر جی کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ سہون میں ایک مسلمان درویش کی موجودگی اس کے لیے مستقل عذاب بن کر رہ گئی تھی۔ راجہ جیر جی کئی مرتبہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرچکا تھا مگر ہر مرتبہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ آخر حاکم سہون نے اپنے علاقے کے کچھ جادوگروں کو طلب کرکے ان سے مسلمان درویش سے مقابلے کا کہا، لیکن سہون کے ساحروں نے مقابلے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی تھی کہ انہیں ہرا پانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ البتہ جادوگروں نے راجہ کو مشورہ دیا کہ  اگر کسی طرح مسلمان درویش کے شکم میں حرام غذا داخل کردی جائے تو اس کی ساری روحانی قوت زائل ہوجائے گی اور پھر ہمارے جادو کی طاقت اس پر غالب آجائےگی۔راجہ نے ایک روز کسی حرام جانور کا گوشت پکوایا اور کئی خوان سجا کر مسلمان درویش کی خدمت میں بھیج.دیے۔جب یہ خوان حضرت شہباز قلندر کی خدمت میں پیش ہوا تو کھانا دیکھتے ہی شیخ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے یہ کہہ کر شیخ نے کھانے سے بھرا ہوا خوانالٹ دیا۔
‘‘
ہمارا خیال تھا کہ وہ کافر اتنی نشانیاں دیکھنے کے بعد ایمان لے آئے گا مگر جس کی تقدیر میں ہلاکت و بربادی لکھی جا چکی ہو، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔’’

مرشد کے اس عمل سے خدام پر لرزہ طاری ہوگیا۔ پھر دوسرے ہی لمحے زمین بھی لرزنے لگی۔ سہون شدید زلزلےکی لپیٹ میں تھا۔ زمین نے دو تین کروٹیں لیں اور طاقت و اقتدار کا سارا کھیل ختم ہوگیا۔ ادھر شیخ کے سامنے خوان الٹا پڑا تھا…. راجہ جیر جی کے قلعے کی بنیادیں الٹی ہوگئی تھیں۔

حضرت لعل شہباز قلندر ناصرف صوفی باعمل بزرگ تھے بلکہ آپ نے علم کی ترویج کے لئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔  حضرت لعل شہباز قلندر  صرف ونحو کے بھی ماہر تھے۔ ایک مغربی مورخ سررچرڈ برٹن کی تحقیق کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر  ایک عظیم ماہر لسانیات بھی تھے آپ نے چار کتابیں گر امر اور لسانیات کے حوالے سے فارسی زبان میں تحریر کی تھیں۔مشہور محقق شیخ اکرم نے بھی اپنی کتاب موجِ کوثر میں برٹن کی ہسٹری آف سندھ کے حوالے سے دومشہور کتابوں، میزان الصرف اور صرف صفر کا تذکرہ کیا ہے جو کہ حضرت لعل شہباز کی تحریرکردہ تھیں۔

حضرت لعل شہباز قلندر ایک معروف شاعر بھی تھے۔ آپ کے کلام میں معرفتِ الٰہی اور سرکارِ مدینہ ﷺکی مدح سرائی، عشق حقیقی کے والہانہ انداز جا بجا نظر آتا ہے۔ آپ کی شاعری میں روحانی وارفتگی اور طریقت و تصوف کے اسرار و رموز بے حد نمایاں اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں جو اکابر صوفیاء کرام کا ایک خاص طرئہ امتیاز ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر اپنے کلام میں عبدو معبود کے رشتوں کی ترجمانی اتنے حسین پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے قلوب میں گداز اور عشق و محبت کا جذبہ فروزاں ہونے لگتا ہے۔

آپ کو ‘‘لعل’’ کہنے کی مختلف روایات ہیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ لعل شہباز قلندر کا خطاب آپ کے پیرومرشد نے عطا فرمایا تھا…. ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ اکثر لال رنگ کا لباس زیب تن فرماتے تھے کیونکہ یہ اہل مروند کا مخصوص لباس تھا۔

جب آپ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر چکے تھے کہ آپ کو ملتان جانے کا خیال آیا۔ آپ کے دوست حضرت بہاؤ الدین زکریا اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ ان کے فرزند حضرت صدرالدین عارف ان کے جانشین تھے۔ حضرت صدرالدین عارف کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ حضرت لعل شہباز قلندر چند خدمت گاروں کے ہمراہ ملتان آرہے ہیں تو آپ کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ اپنی خانقاہ پر لے آئے۔ اس وقت شہزادہ سلطان محمد تغلق حاکم ملتان تھا ، اس نے بھی اپنے دربار میں محفلِ سماع رکھی اور حضرت لعل شہباز  کو اپنے دربار میں مدعو کیا۔ آپ نے دعوت قبول کرلی۔ کہتے ہیں اس محفل میں دوران سماع اچانک حضرت لعل شہباز قلندر پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ حالت وجد میں اٹھے اور رقص کرنے لگے۔ آپ یہی وجدانہ رقص اس دھمال کی بنیاد بنا جو آج بھی آپ کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے۔
سلطان نے خواہش ظاہر کی کہ آپ ملتان میں ہی قیام فرمائیں مگر آپ نے فرمایا کہ  آپ سیہون میں ہی رہیں گے۔

وصال مبارک:

 حضرت لعل شہباز قلندر نے تقریباً 103 برس (بعض تذکروں کے مطابق 112 برس )کی عمر پائی ، آسمانِ ولایت کا یہ شہباز اور سیہون اور سندھ  کے گردونواح کے تاریک علاقوں کو نورِ اسلام سے منور کرنے والا یہ آفتاب 18شعبان المعظم673ھ بمطابق1275ء میں غروب ہوگیا لیکن لوگوں کے دلوں میں تاقیامت اس آفتاب کی روشنی باقیرہےگی۔ آپ کا مزار سیہون شریف میں ہے جہاں ہر سال18شعبان المعظم کو عرس منایا جاتا ہے۔

 

 

حضرت علامہ محمد رضا خاں عرف ننھے میاں بریلوی علیہ الرحمہ


اسم گرامی  :

محمد رضا عرف ننھے میاں

والدماجد  :

رئیس المتکلمین حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔ آپ رئیس المتکلمین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں ۔

تعلیم وتربیت  :

رسم بسم اللہ والد محترم نے ادا کی ، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، کم سنی کے عالَم میں والد محترم کی وفات ہوگئی ، حالت یتیمی میں پروان چڑھے ، جب شعور آیا تو برادر محترم ( امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ) کی درس گاہ اور شخصیت ساز تربیت گاہ سے وابستہ ہوئے ، برادر ِمکرم کی شفقت اور بہترین تعلیم و تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ممتاز عالم ربانی ، بالغ نظر مفتی ، دور اندیش مفکر بن کر عالم اسلام پر ابھرے۔ ( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،46 )

اساتذہ کرام :

۱۔ رئیس المتکلمین حضرت مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ( حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے رئیس المتکلمین کے تلامذہ میں محمد رضا خان کا نام اس وجہ سے لکھا کہ آپ نے ان کو رسم بسم اللّٰہ پڑھائی )

۲۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔(مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

فتویٰ نویسی :

علم معقول و منقول خصوصاً علم الفرائض میں آپ مہارت تامہ اور ید طولیٰ رکھتے تھے، دارالافتاء بریلی شریف کا جب شُہرہ ہوا اور کثرت سے استفتاء ( سوالات ) آنے شروع ہوگئے تو علم الفرائض و میراث کے متعلقہ مسائل کے فتوے حضرت مولانا محمد رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی لکھا کرتے تھے ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

تقریب نکاح :

آپ کا عقد نکاح غلام علی خان کی صاحبزادی سکینہ بیگم کے ساتھ ہوا ۔ شادی خانہ آبادی کے موقع پر استاذ ِزمن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سہرا لکھا ، پورا سہرا ثمر فصاحت میں موجود ہےجس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

”واہ کیا خوب سجا نوشہ کے سر پر سہرا

ہے مجھے تارِ رگِ جاں کے برابر سہرا“

(کلیات حسن،ثمر فصاحت، 698 ،اکبر بک سیلرز)

اولادوامجاد  :

عین جوانی میں وفات کے سبب آپ کے یہاں ایک ہی بیٹی ہوئی جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادے مفتی اعظم ہند مفتی مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نکاح میں آئیں، مفتی اعظم ہند رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سات بیٹیاں اور ایک بیٹا انور رضا خان پیدا ہوئے مگر انور رضا خان کا کمسنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ انوار رضا خان کو اپنے پردادا حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پائنتی میں دفن کیا گیا ۔(حیاتِ اعلیحضرت ، 74 )

انتظامی و دینی مصروفیات :

آپ علم و فضل کے ساتھ ساتھ خاندان اور حسن انتظام میں اپنی مثال آپ تھے جب برادر مکرم کو علمی مشاغل اور فتاویٰ جات میں مستغرق دیکھا تو خانگی (خاندانی) اور جاگیری ( زمین کے معاملات ) ذمے داریوں کو اپنے کاندھوں پر لے لیا گویا کہ آپ اعلیٰ حضرت کے قوت بازو بن کر اپنی جاگیر کے علاوہ اعلیٰ حضرت کی جاگیر کا انتظام بھی کرنے لگے اعلیٰ حضرت کو بس خدمت دین اور فروغ علم دین کے لیے آزاد کردیا امام اہلسنت بھی آپ پر جملہ امور میں مکمل اعتماد کرتے۔ اس کے علاوہ آپ کی دینی دلچسپی بھی برقرار رہی، علمی معاملات میں مشغول رہے فتاوجات کے علاوہ امام اہلسنت کے مُسوَّدوں کو بھی دیکھتے رہے جس کا ثبوت ان کی لگائی ہوئی مہر سے ملتا ہے۔ (مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

ایک اہم خاصیت :

آپ کو قریب سے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوجود آپ سے کوئی نماز ترک نہ ہوئی زندگی بھر تمام نمازیں باجماعت ادا فرمائیں جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی نماز و روزہ قضا نہ تھا۔(حضرت مولانا محمد رضا خان بریلوی ،مصنف : مولانا افروز قادری چِڑیاکوٹی، 12 )

وصال مبارک  :

عین جوانی کے عالم میں 21 شعبان المعظم 1358ھ بمطابق 15 اکتوبر 1939ء کو رات بعد نماز عشاء دنیا سے رخصت ہوئے ۔ نماز جنازہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ جنازہ میں حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مفتی امجد علی اعظمی، مولانا سردار احمد خان ، مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمہم اللہ جیسی ہستیوں نے شرکت کی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں والدین کریمین کے پاس سپردِ خاک کیا گیا، مفتی اعظم ہند نے مزار تعمیر کروایا ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے، 67 )

حضرت شرف الدین خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ

 

معروف اسم گرامی:

 حضرت شرف الدین خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ

 ولادت باسعادت:

ابو اسحٰق شامی چشتی ملک شام میں پیدا ہوئے، اسی لحاظ سے شامی کہلائے۔ قصبہ چشت میں تعلیم و تربیت ہوئی۔

شیخ طریقت:

 ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری علیہ الرحمہ

خلیفہ اکبر:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ۔06 محتشم و مکرم واسطوں سے آپ نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمتہ اللہ تعالٰی کے شیخ طریقت ہیں۔

علوم ظاہری و باطنی:

علوم ظاہریہ و باطنیہ کے جامع تھےآپ نے خرقہ خلافت حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ سے پایا تھا۔ ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے اور زہد و ریاضت میں بے مثال۔ خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہمراز، درویشوں سے محبت کرتے۔ ’’معراج الفقراء الجوع‘‘ کے مصداق ہمیشہ روزہ سے رہتے اور سات دن بعد افطار کیا کرتے۔ بہت کم کھانا کھاتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ بھوک میں جو لذت پاتا ہوں وہ کسی کھانے میں نہیں پاتا۔

 پیرو مرشد حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری

مرید ہونے سے پہلے چالیس دن تک استخارہ کرتے رہے۔ ہاتف غیبی نے حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضری کا اشارہ دیا تو ان کے خدمت میں حاضر ہوئے۔بغداد پہنچ کرخواجہ ممشاد دینوری نے بیعت کی۔ سات سال بعد تکمیل کو پہنچے اور خلافت عطا ہوئی۔

سلسلہ چشتیہ کے حقیقی بانی:

درویشوں اور فقراء کے مسلک "سلسلہ چشتیہ" کے بانی ہیں۔ آپکے ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے جب نام پوچھا تو ابو اسحٰق شامی بتایا۔ ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا آج سے لوگ تمہیں ابواسحٰق چشتی کہیں گے اور جو بھی تمہارے سلسلے میں داخل ہوگا، "چشتی" کہلائے گا۔ اسی نسبت سےسلسلہ کی ابتدائی شہرت میں چشتیہ انہی کی وجہ سے ہوئی۔ آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو یہ بشارت دی کہ اہل چشت کے امام بنو گے۔ چنانچہ آپ اپنے وطن چشت واپس آئے تو ’’قطب چشتیہ ‘‘کے لقب سے مشہور ہوئے۔

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالی کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کر لی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔

چشت شریف (افغانستان) کے مرکز روحانیت سے ایسی نامور ہستیاں پیدا ہوئیں جن کی اتنی عزت و توقیر تھی کہ انتہائی ظالم و سفاک تاتاری ان کے اصطبل کے گھوڑوں کے سموں پر بوسے دیتے تھے۔ آپکے بعد مزید چار مشائخ کا تعلق بھی چشت شریف سے ہی تھا۔

ان میں

 حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو محمد چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ سید قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ کےاسمائے گرامی مشہور ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چاروں بزرگ سلسلۂ چشتیہ کے ستون مانے جاتے تھے۔

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوت حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ’’ چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالا وجہہ سے ملتا ہے۔

سلسلہ چشتیہ کی وجہ تسمیہ

فرمایا آج سےتم ابو اسحاق چشتی کہلاؤ گے اور چشت کی خلقت تم سے ہدایت حاصل کرے گی اور جو شخص تمہارا مرید ہوگا اسے بھی قیامت تک چشتی کہا جائے گا۔ چنانچہ تربیت کے بعد حضرت ابو اسحاق چشتی کو حضرت اقدس نے خلافت دے کر چشت کی طرف روانہ کیا۔ اسی دن سے خواجگان چشت وجود میں آئے۔ ان کے سر حلقہ پنجتن یعنی پانچ بزرگ ہیں حضرت ابو اسحاق چشتی، خواجہ ابو احمد چشتی، خواجہ ابو محمد چشتی، خواجہ ناصر الملۃ والدین ابو یوسف چشتی اور خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس اسرارہم۔ یہ پانچ حضرات چشت میں رہتے تھے۔ اسی طرح ان کے خلفاء بھی ملک ہندوستان میں پنج تن ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار چشتی حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس اسرارہم جس شخص کا شجرہ ان پنج تن کے ذریعے سابقہ پنج تک جا پہنچتا ہے وہ چشتی ہے۔لکھا ہے کہ چشت دو ہیں۔ ایک شہر ملک خراسان میں ہے۔ جو ہرات کے نواح میں ہے دوسرا ہندوستان میں ہے جو ملتان اور اوچ کے درمیان ہے۔ ہمارے خواجگان کا تعلق ملک خراسان کے چشت سے ہے چنانچہ میر سید علاو الدین چشتی فرماتے ہیں کہ گرزہندوستان شدیم چہ باک-سبزہ، گلشن، خراسانیم(اگر ہم ہندوستان میں پیدا ہوئے تو کیا ہوا اوراصل تو ہم خراسان کے باغ کا سبزہ ہیں)۔

واقعہ خلافت:

حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی چھ سات دن کے بعد افطار کرتے تھے اور وہ بھی تین لقموں سے زیادہ نہیں۔ جب آپ حضرت علو ممشاد دینوری قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو آپ کے حکم کے مطابق سات سال تک خلوت میں ذکر لا الہ الا اللہ میں مشغول رہے۔ ان ایام میں آپ ساتویں طے کےبعد افطار کرتے تھے یعنی اکیس دن کے بعد چند لقمے روٹی اور تھوڑا سا پانی لیتے تھے۔ حتیٰ کہ غیب سے آوازآئی کہ اے علو! ابو اسحاق کا کام بن چکا ہے اور وہ اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ گیا ہے اسے اپنا خرقہ خلافت پہناؤ اور اپنا جانشین بناؤ اور تم ہمارے پاس آجاؤ۔ چنانچہ حضرت شیخ نے ان کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔اسی وقت یہ آواز آئی کہ ابو اسحاق ‘‘تو مقبول حضرت ماشدی’’(تم ہماری بارگاہ میں مقبول ہو چکے ہو) چنانچہ یہی ہوا اور بہت لوگ آپ کے حسن تربیت سے منزل کمال و تکمیل کو پہنچے۔

حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ سماع کثرت سے سنتے تھےاور علمائے وقت میں کسی کو مجال نہ تھی کہ اعتراض کرے۔ جو شخص آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا۔ پھر کبھی اس سے گناہ سرزد نہ ہوتا تھا۔ حضرت شیخ کے وجد کے اثر سے حاضرین مجلس پر بھی وجد اور ذوق طاری ہوجاتا تھا اور جب آپ پر وجد میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ درو دیوار وجد میں ہیں اور ان سے پسینہ بہتا تھا۔ نیز جس مرض کا مریض آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا اسے شفائے کامل حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن آپ دنیاہ داروں اور دولت مندوں کو مجلس سماع میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسا شخص شریک مجلس ہوتا تو تارک الدنیا ہوجاتا۔ جب آپ سماع کا ارادہ کرتے تھے تو دو تین دن پہلے اپنے اصحاب کو خبردار کرتے تھے اور خود طے کا روزہ رکھتے تھے اور قوالوں کو بھی توبہ کراتے تھے۔

 سلسلۂ چشتیہ اور سرزمین ہند:

اللہ تعالا نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے ۔اس سلسلہ کی نام ور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارہ مل چکا تھا کہ وہ سرزمین ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔

 شغف سماع:

آپ کو سماع سے بے حد لگاؤ تھا۔ آپ کی مجلس میں جو شخص ایک بار حاضر ہوتا پھر گناہ سے دور رہتا، آپ کی مجلس کی برکات سے ہر شخص وجد میں رہتا، اگر کوئی مریض ایک بار مجلس میں آجاتا تو شفا پاتا، دنیا کا پجاری آتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا

 کیفیات وجد:

ایک با ر قحط پڑ گیا ۔ بادشاۂ وقت بذات خود دیگرہزاروں لوگ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باران رحمت کےلیے دعا طلب کی ۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے محفل سماع کا اہتمام فرمایاجب آپ وجد میں آئے تو آسمان پر بادل گھر آئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ اس کے روکنے کی دعا ئیں مانگنے لگے۔لوگ دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش روکنے کی استدعا کی۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اگر دل بھر گیا ہے تو بارش رک جائے گی۔ جس کے بعد بارش رک گئی۔۔
 
آپ کے ہم عصرمشائخ عظام

حضرت ابو بکر شبلی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ حسن بن منصور حلاج علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو العباس ابن عطاء علیہ الرحمہ

سیرالاولیاء میں ہے کہ

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ مکاشفات کے پوشیدہ رکھنے میں بے حد کوشش فرماتے تھے اس لئے آپ نے صورت صحو اختیار کر رکھی تھی تاکہ عوام آپ کے کمال حال سے مطلع نہ ہوں اور صوفیاء کے نزدیک یہ مقام بہت بلند ہے ۔

کتاب سرالعارفین میں لکھا ہے منقول ہے کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا الفقر طریق الاولیاء یعنی فقراء اللہ تعالی کے دوستوں کی راہ ہے جو درویشی کی راہ چلا اور فقر اختیار کیا ۔ وہ کسی مرتبے کو پہنچ گیا تمام انبیاء اور اولیاء اور ہمارے پیر فقیر تھے اور فقر کو عزیز جانتے تھے اور سب کے سب اہل مجاہدہ اور اہل مشاہدہ تھے ۔

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ علوم ظاہری و باطنی کے عالم اور صاحب وجد و سماع تھے آپ فرمایا کرتے تھے سماع ہم پر جائز ہے کیونکہ زخم دل کی آلودگی اسی سے صاف ہوتی ہے ۔حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے بے شمار خلفاء تھے لیکن ہمارا سلسلہ چشتیہ آپ کے مشہور خلیفہ حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ سے جاری ہوا ۔

کتاب اقتباس الانوار میں ہے کہ ایک دفعہ خشک سالی ہوئی بادشاہ وقت تمام ائمہ کرام سمیت حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی۔ آپ نے قوالوں کو بلاکر سماع شروع کرایا۔ لیکن بادشاہ کو کہہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔ بادشاہ نے بعض فقراء کے ذریعے عرض کرابھیجا کہ اس احقر کو بھی سماع میں شریک کی اجازت دی جائے۔"آپ نے فرمایا کہ اگر تم شریک ہوئے تو سماع کا کوئی اثر نہ ہوگا لہذا بارش کیسے ہوگی۔ تم چلے جاؤ اور عنایت ایزدی کے منتظر رہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ بارش ہوجائے گی بادشاہ حسب الحکم گھر چلا گیا۔ جونہی سماع شروع ہوا۔ آپ پر حال طاری ہوگیا اور وجد کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ایسی بارش ہوئی خلق خدا خوش ہوگئی۔ دوسرے دن بادشاہ شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر آپ رونے لگے۔ اس سے حاضرین مجلس پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ حضور کس وجہ سے روتے ہیں فرمایا نا معلوم مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ بادشاہ متواتر میرے پاس آرہا ہے۔ اور مجھے فقراء کی صحبت سے باز رکھ رہا ہے ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ شاید میرا حشر قیامت کے دن امراء کے ساتھ ہو۔ اس کے بعد آپ نے نعرہ لگایا اور بیہوش ہوکر گر پڑے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو یہ حدیث زبان پر تھی اللہم احیینی مسکیناً دامتنی مسکیناً واحشرفی فی زمرۃ المساکین (یا الٰہی مجھے مسکین زندہ رکھو۔ مساکین کے ساتھ مجھے مارو اور مساکین کے زمرہ میں مجھے قیامت کے دن اٹھاؤ) یہ حالت دیکھ کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور گھر چلا گی ۔

 وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ نے 14 ربیع الثانی 329 ہجری کو وصال فرمایا۔بعض کے مطابق شام میں رہے وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

مزار شریف:

آپ کا مزار مبارک شہر عکہ شام میں ہے۔

 چراغ مقبولاں:

سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کے وصال سے لے کر آج تک آپ کے مزار پر ایک چراغ روشن ہے جو کبھی نہیں بجھا۔ وہ شام سے صبح تک روشن رہتا ہے باد و باراں کا کئی بار طوفان آیا۔ مگر رات کے وقت اس چراغ کو نہیں بجھا سکا۔ یہ چراغ اس شعر کی عملی تصویر ہے۔

اگر گیتی سراسر باد گیرد-چراغ مقبولاں ہرگز نمیرد

اگر پوری دنیا تیز و تند ہواؤں کے نرغے میں آ جائے پھر بھی اللہ کے ولیوں کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ کے اقوال

دنیا میں مکر و فریب جنم لیتے ہیں اور دنیا میں ہی عروج پا کر زوال پذیر ہوتے ہیں

علم حاصل کرو کہ یہ عمل کر سکو

علم زندگی کا سرمایہ ہے کبھی ضائع نہ ہونے دو کیونکہ علم کے بغیر عمل کی زندگی بے سود ہے

علم نور خدا بھی ہے اس کا حصول آسان ہو یا مشکل ہر صورت حاصل کرو

عارف لوگ خدا کے قریب ترین ہوتے ہیں اور خدا ان کے قریب ہوتا ہے

عارف کی زندگی زاہد کی زندگی سے اتنی مختلف نہیں ہوتی

متوکل زندگی بھر حق پر بیٹھ کر فخر محسوس کرتا ہے

صادق اپنے عہد پر پورا اترتے ہیں اور خدا کو راضی رکھتے ہیں

زندگی بھر ایسے کام کرو جو دوسروں کےلئے راحت جان ثابت ہو

ایک دوسرے کی مدد کرو بروقت کام آنا ہی عبادت ہے اور اطاعت خدا کو دعوت دینا ہے

خود کو کسی کامل کے سپرد کردے تاکہ تیری زندگی میں عجیب انقلاب برپا ہو

دل آئینہ دوست ہے جتنا بھی صاف رکھو گے اتنا ہی مزہ آئے گا

مسافروں ، غریبوں ، مساکین کی مدد کرو اور ان کو زندگی بہتر طور پر گزارنے کا موقع دو

آداب محفل برقرار رکھو کیونکہ ان کے بغیر اچھا معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا ۔

(مناقب المحبوبین ، کتاب مخزن چشت ، کتاب سیرالاولیاء ، کتاب سرالعارفین ، کتاب مرآت الاسرار ، کتاب اقتباس)