آپ
علیہ الرحمہ کا اسم گرامی شریف
اور لقب نیرالدین، حج کی وجہ سے حاجی مشہور ہو گئے زندن ایک پرگنہ ہے بخارا کے سات
پرگنوں میں سے ہے ۔آپ علیہ الرحمہ حضرت
خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ
الرحمہ کے دست اقدس پہ بیعت ہوئے اور انہی سے خرقہ
خلافت حاصل کیا آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ قطب الدین
مودود چشتی علیہ الرحمہ کے
مشہور و معروف خلیفہ تھے ۔ سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی
علیہ الرحمہ کے استاد و مرشد
بھی تھے ۔
نام و نسب:
پوار نام قطب الاقطاب
خواجہ خواجگاں حضرت سیدنا سرکارحاجی شریف زندنی علیہ الرحمہ تھا۔ حاجی شریف
زندنی علیہ الرحمہ کی
پیدائش بخارا کے موضع زندنہ میں ہوئی اسی مناسبت سے زندنی کہے گئے۔
القابات:
صاحب اسرار،مقتدائے
اولیاء عالی،قطب افراد اور مشائخ وقت
کتاب سر العارفین میں ہے کہ
حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ
الرحمہ باعظمت شیخ اہل ولایت صاحب کرامت اہل ریا سنت
اور مجاہدہ تھے آپ کی نظر اکسیر کا حکم رکھتی تھی جس پر آپ نگاہ ڈالتے وہ صاحب نعمت
اور کامل درویش بن جاتا اور عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک دیکھنے لگ جاتا ۔ آپ ہمیشہ خلوت میں رہا کرتے اور تین دن کے بعد
افطار کرتے اور بے نمک سبزی کے تین لقمے کھاتے جو آپ کا پس خوردہ کھاتا وہ مجذوب ہو
جاتا اور اس کا دل دنیا سے بالکل سرد ہو جاتا اور پھر کبھی گناہ کے نزدیک نہ پھٹکتا
۔ منقول ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کی
عمر 120 سال تھی 14 سال کی عمر سے لے کر آخری دم تک آپ کا وضو سوائے قضائے حاجت کے
کبھی باطل نہ ہوا ۔
کتاب سیرالاولیاء میں ہے کہ
منقول ہے کہ سلطان سنجر کو لوگوں نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ
کیسا برتاؤ کیا سلطان نے کہا کہ میں نے جو نیک و بد کام دنیا میں کیے تھے ایک ایک میری
آنکھوں کے سامنے رکھے گئے اور عذاب کے فرشتوں کو حکم صادر ہوا کہ اسے دوزخ میں لے جا
کر داخل کرو ابھی میں دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھ میں نہ گیا تھا کہ دوبارہ یہ فرمان صادر
ہوا چونکہ اس شخص نے فلاں دن دمشق کی مسجد میں خواجہ حاجی شریف زندنی کی قدم بوسی حاصل
کی تھی لہذا میں نے انکی برکت سے بخش دیا ۔
کتاب مخزن چشت میں ہے کہ آپ
علیہ الرحمہ نے اپنی عمر کے چالیس
سال گم نامی اور تجرّد میں بسر کیے اس عرصہ میں آپ صحراوں میں عبادت میں مصروف رہے
اور اکثر اوقات درختوں کے پتے کھا کر گذارا کیا آپ لوگوں سے میل جول پسند نہ کرتے تھے
فاقہ کشی کی نوبت آتی تو شکرانہ کی سو رکعت نماز ادا کرتے ۔
نافع السالکین میں ہے کہ حضرت
خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی علیہ
الرحمہ نے فرمایا کہ آپ علیہ الرحمہ کی مجلس میں اگر کوئی
دنیا ذکر کرتا تو اُسے مجلس سے باہر نکال دیا جاتا ۔
کتاب سر العارفین میں ہے کہ
جب کوئی فقیر آپ علیہ الرحمہ کے
گھر آتا تو آپ علیہ الرحمہ اس کی اس قدر تعظیم
و تکریم کرتے کہ لوگ حیران رہ جاتے بارہا آپ فقیر دل غریبوں اور مسکینوں کی خاک پا
کو اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے پر ملتے اور بارگاہ الہیٰ میں عرض کرتے کہ اے پروردگار
! بیچارے حاجی کو فقیروں غریبوں کو اور مسکینوں کی حرمت سے فقر و فاقہ پر مستقل اور
ثابت قدم رکھ ۔منقول ہے کہ جب کوئی فقیرآپ علیہ الرحمہ کے گھر آتا تو آپ با ادب اس کے روبرو بیٹھتے
اور جو اس کا مطلب ہوتا اسے پورا کرتے ۔
منقول ہے کہ ایک دن آپ علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایک آدمی
کچھ نقد رقم بطور نذرانے کے لایا۔ آپ علیہ
الرحمہ نے اسے فرمایا کہ کیا تم درویشوں سے دشمنی رکھتے
ہو کہ دشمن خدا کو ساتھ لائے ہو یہ کہہ کر آپ نے اس سے فرمایا کہ ذرا جنگل کی طرف دیکھو
اس شخص نے دیکھا تو اسے نظر آیا کہ جنگل میں سونے کی ایک نہر جاری ہے۔ اس کے بعد حضرت
خواجہ حاجی شریف زندنی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا کہ جس کو خزانہ غیب پر اس قدر
قدرت حاصل ہو وہ تمہارے مال کی طرف کیسے دیکھے گا ۔
سیرالاقطاب میں ہے کہ آپ علیہ الرحمہ سماع کے شوقین تھے
اور آپ علیہ الرحمہ کی مجلس سماع میں علماء
اور مشائخ بھی شریک ہوتے تھے اور علماء میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا آپ کی
مجلس سماع میں جو شریک ہوتا تارک دنیا ہو جاتا ۔
کتاب اقوال اولیاء میں ہے
کہ آپ علیہ الرحمہ نے
فرمایا درویش وہ ہے جو چار اشیاء کو ترک کرے۔
ترک دنیا:
1. ترک عقبیٰ یعنی ذات پاک حق سبحانہ تعالیٰ کے
سوا اور کچھ مقصود نہ ہو
2. ترک حوزو خواب ماسوائے بقدر ضرورت
3. ترک خواہشات نفسانی ، نفس جو کہے اس کے خلاف
کرے ۔
آپ علیہ الرحمہ کے بے شمار خلفاء تھے
لیکن ہمارا سلسلہ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہرونی رحمتہ اللہ علیہ سے جاری ہوا جو کہ
آپ کے مشہور و معروف خلیفہ ہیں۔آپ علیہ
الرحمہ کے وصال کے متعلق مختلف تواریخ لکھی گئی ہیں
آداب الطالبین کے مطابق آپ کا وصال 13 رجب کو ہوا ۔سفینتہ الاولیاء کے مطابق 6 رجب
کو ۔ اور مرات الاسرار ، شجرة الانوار ، اقتباس الانوار کے مطابق آپ کا وصال 3 رجب
کو سلطان سنجر سلجوقی کی سلطنت کے زمانہ میں ہوا ۔ کتاب سیر الاقطاب کے مطابق10 رجب
المرجب 612ھ میں انتقال ہوا اور مزار پاک قنوج اتر پردیش ہندوستان میں ہے ( صفحہ
90)۔ وصال کے وقت آپ کی عمر 120سال تھی ۔ آپ کا مزار اقدس کے متعلق مختلف روایات ہیں
مرات الاسرار کے مطابق آپ کا مزار اقدس ملک شام میں ہے ۔ سیر الاقطاب کے مطابق قنوج
(انڈیا) میں ہے ۔اقتباس الانوار میں لکھا ہے آپ کا مزار اقدس قنوج (انڈیا) میں دریا
کے کنارے شہر سے متصل شمال کی جانب ہے ایک صاحب کے بقول روس کے سرحدی علاقوں میں حضرت
خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ
الرحمہ کا مزار موجود ہے ایک اور روایت کے مطابق شہر
بخارا کے محلہ زندنہ میں حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ کا مزار واقع ہے ۔واللہ
اعلم حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے احوال و ملفوظات کے متعلق
کوئی کتاب حاصل نہ ہو سکی البتہ ان مختلف کتب میں مختصراً آپ کی سوانح عمری اور ملفوظات
کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:کتاب سِر العارفین ،کتاب مرآة الاسرار،کتاب اقتباس الانوار،کتاب
سیرالاولیاء،کتاب مناقب المحبوبین،کتاب مخزن چشت
،کتاب سفینتہ الاولیاء،کتاب سیرالاقطاب،کتاب خزینتہ
الاصفیاء ،کتاب آثار الصالحین ،کتاب ہفت اقطاب،کتاب تکملہ سیرالاولیاء، کتاب تذکرہ
خواجگان چشت ۔ہر سال حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس مبارک قنوج انڈیا میں عقیدت و احترام
کے ساتھ منایا جاتا ہے۔