حضرت خواجہ حافظ محمد یوسف تونسوی المعروف خواجہ یوسف میٹھا علیہ الرحمہ

 


آپ علیہ الرحمہ  کا اسم گرامی محمد یوسف اور آپ علیہ الرحمہ  کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت خواجہ میاں محمد حامد تونسوی علیہ الرحمہ  (سوم سجادہ نشین دربار عالیہ سلیمانیہ تونسہ شریف) ہیں ۔

ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ  کی ولادت 28 رمضان المبارک 1924ء کو تونسہ شریف میں ہوئی ۔

شجرہ نسب:

آپ علیہ الرحمہ  اولاد پیر پٹھان علیہ الرحمہ  ہیں آپ علیہ الرحمہ  کا شجرہ نسب حضور پیرپٹھان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ  سے یوں ملتا ہے۔حضرت خواجہ حافظ محمد یوسف تونسوی علیہ الرحمہ  بن حضرت خواجہ میاں حامد تونسوی علیہ الرحمہ   بن حضرت خواجہ حافظ محمد موسی تونسوی علیہ الرحمہ  بن حضرت خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی علیہ الرحمہ  بن حضرت خواجہ گل محمد تونسوی علیہ الرحمہ  بن حضرت پیرپٹھان خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ  ۔

تعلیم و تربیت :

آپ علیہ الرحمہ  کی عمر جب چار سال چار ماہ چار دن ہوئی تو قرآن پاک پڑھنے کےلئے مولانا غلام رسول صاحب کی خدمت میں آپ کو بیٹھا دیا گیا آپ علیہ الرحمہ  نے ابھی پانچ سپارے حفظ کیے تھے کہ آپ علیہ الرحمہ  کے والد محترم حضرت خواجہ میاں محمد حامد تونسوی علیہ الرحمہ  کا وصال ہو گیا ۔

آپ علیہ الرحمہ  اپنے والد محترم کے دست اقدس پہ بیعت تھے لیکن خلافت اپنے بڑے بھائی حضرت خواجہ حافظ سدیدالدین تونسوی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی ۔ آپ کے دو بھائی تھے حضرت خواجہ حافظ سدیدالدین تونسوی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ خان محمد تونسوی علیہ الرحمہ  ۔

آپ علیہ الرحمہ  کو پیار سے لوگ یوسف میٹھا بھی کہتے تھے ۔

تونسہ شریف میں آپ نے کئی مساجد تعمیر کرائی صدر بازار روڈ پہ واقع مدینہ مسجد جامع اور راقم الحروف کے گھر کے نزدیک مسجد قرت القرآن المعروف خواجہ یوسف صاحب والی مسجد آپ ہی کی تعمیر کرائی گئی مساجد میں سے ہیں

اولاد و امجاد:

آپ علیہ الرحمہ  کے دو فرزند تھے بڑے حضرت خواجہ غلام اللہ بخش یوسفی رحمتہ اللہ علیہ اور چھوٹے حضرت حضرت خواجہ مسعود یوسفی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے دونوں صاحبزادگان نہایت کریمانہ اخلاق اور اعلی صفت کے مالک تھے آپ نے اپنے دونوں صاحبزادگان کو بیعت و خلافت سے نوازا ۔

وصال پر ملال:

آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 10 رجب المرجب 1406 ہجری بمطابق 22 مارچ 1986ء بروز ہفتہ کو ہوا ۔آپ علیہ الرحمہ  کے وصال کے بعد حسب خاندانی دستور آپ کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت خواجہ غلام اللہ بخش یوسفی رحمتہ اللہ علیہ کی دستار بندی خواجگان مہار شریف اور خواجگان تونسہ شریف نے کی ۔ آپ کا مزار اقدس دربار عالیہ سلیمانیہ کے برآمدے میں واقع ہے ساتھ ہی آپ کے دونوں صاحبزادگان کے مزار بھی واقع ہیں ۔ ہر سال 10 رجب المرجب کو آپ کا عرس چینی مسجد نزد شیش محل چینی مسجد تونسہ شریف میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ 

حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ


آپ علیہ الرحمہ کا اسم گرامی شریف اور لقب نیرالدین، حج کی وجہ سے حاجی مشہور ہو گئے زندن ایک پرگنہ ہے بخارا کے سات پرگنوں میں سے ہے ۔آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ کے دست اقدس پہ بیعت ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت حاصل کیا آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ کے مشہور و معروف خلیفہ تھے ۔ سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کے استاد و مرشد بھی تھے ۔

نام و نسب:

پوار نام قطب الاقطاب خواجہ خواجگاں حضرت سیدنا سرکارحاجی شریف زندنی علیہ الرحمہ تھا۔ حاجی شریف زندنی علیہ الرحمہ کی پیدائش بخارا کے موضع زندنہ میں ہوئی اسی مناسبت سے زندنی کہے گئے۔

القابات:

صاحب اسرار،مقتدائے اولیاء عالی،قطب افراد اور مشائخ وقت

کتاب سر العارفین میں ہے کہ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ باعظمت شیخ اہل ولایت صاحب کرامت اہل ریا سنت اور مجاہدہ تھے آپ کی نظر اکسیر کا حکم رکھتی تھی جس پر آپ نگاہ ڈالتے وہ صاحب نعمت اور کامل درویش بن جاتا اور عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک دیکھنے لگ جاتا ۔ آپ ہمیشہ خلوت میں رہا کرتے اور تین دن کے بعد افطار کرتے اور بے نمک سبزی کے تین لقمے کھاتے جو آپ کا پس خوردہ کھاتا وہ مجذوب ہو جاتا اور اس کا دل دنیا سے بالکل سرد ہو جاتا اور پھر کبھی گناہ کے نزدیک نہ پھٹکتا ۔ منقول ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کی عمر 120 سال تھی 14 سال کی عمر سے لے کر آخری دم تک آپ کا وضو سوائے قضائے حاجت کے کبھی باطل نہ ہوا ۔

کتاب سیرالاولیاء میں ہے کہ منقول ہے کہ سلطان سنجر کو لوگوں نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کیا سلطان نے کہا کہ میں نے جو نیک و بد کام دنیا میں کیے تھے ایک ایک میری آنکھوں کے سامنے رکھے گئے اور عذاب کے فرشتوں کو حکم صادر ہوا کہ اسے دوزخ میں لے جا کر داخل کرو ابھی میں دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھ میں نہ گیا تھا کہ دوبارہ یہ فرمان صادر ہوا چونکہ اس شخص نے فلاں دن دمشق کی مسجد میں خواجہ حاجی شریف زندنی کی قدم بوسی حاصل کی تھی لہذا میں نے انکی برکت سے بخش دیا ۔

کتاب مخزن چشت میں ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی عمر کے چالیس سال گم نامی اور تجرّد میں بسر کیے اس عرصہ میں آپ صحراوں میں عبادت میں مصروف رہے اور اکثر اوقات درختوں کے پتے کھا کر گذارا کیا آپ لوگوں سے میل جول پسند نہ کرتے تھے فاقہ کشی کی نوبت آتی تو شکرانہ کی سو رکعت نماز ادا کرتے ۔

نافع السالکین میں ہے کہ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ علیہ الرحمہ کی مجلس میں اگر کوئی دنیا ذکر کرتا تو اُسے مجلس سے باہر نکال دیا جاتا ۔

کتاب سر العارفین میں ہے کہ جب کوئی فقیر آپ علیہ الرحمہ کے گھر آتا تو آپ علیہ الرحمہ اس کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتے کہ لوگ حیران رہ جاتے بارہا آپ فقیر دل غریبوں اور مسکینوں کی خاک پا کو اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے پر ملتے اور بارگاہ الہیٰ میں عرض کرتے کہ اے پروردگار ! بیچارے حاجی کو فقیروں غریبوں کو اور مسکینوں کی حرمت سے فقر و فاقہ پر مستقل اور ثابت قدم رکھ ۔منقول ہے کہ جب کوئی فقیرآپ علیہ الرحمہ کے گھر آتا تو آپ با ادب اس کے روبرو بیٹھتے اور جو اس کا مطلب ہوتا اسے پورا کرتے ۔

منقول ہے کہ ایک دن آپ علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایک آدمی کچھ نقد رقم بطور نذرانے کے لایا۔ آپ علیہ الرحمہ نے اسے فرمایا کہ کیا تم درویشوں سے دشمنی رکھتے ہو کہ دشمن خدا کو ساتھ لائے ہو یہ کہہ کر آپ نے اس سے فرمایا کہ ذرا جنگل کی طرف دیکھو اس شخص نے دیکھا تو اسے نظر آیا کہ جنگل میں سونے کی ایک نہر جاری ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا کہ جس کو خزانہ غیب پر اس قدر قدرت حاصل ہو وہ تمہارے مال کی طرف کیسے دیکھے گا ۔

سیرالاقطاب میں ہے کہ آپ علیہ الرحمہ سماع کے شوقین تھے اور آپ علیہ الرحمہ کی مجلس سماع میں علماء اور مشائخ بھی شریک ہوتے تھے اور علماء میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا آپ کی مجلس سماع میں جو شریک ہوتا تارک دنیا ہو جاتا ۔

کتاب اقوال اولیاء میں ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا درویش وہ ہے جو چار اشیاء کو ترک کرے۔

ترک دنیا:

1.   ترک عقبیٰ یعنی ذات پاک حق سبحانہ تعالیٰ کے سوا اور کچھ مقصود نہ ہو

2.    ترک حوزو خواب ماسوائے بقدر ضرورت

3.   ترک خواہشات نفسانی ، نفس جو کہے اس کے خلاف کرے ۔

آپ علیہ الرحمہ کے بے شمار خلفاء تھے لیکن ہمارا سلسلہ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہرونی رحمتہ اللہ علیہ سے جاری ہوا جو کہ آپ کے مشہور و معروف خلیفہ ہیں۔آپ علیہ الرحمہ کے وصال کے متعلق مختلف تواریخ لکھی گئی ہیں آداب الطالبین کے مطابق آپ کا وصال 13 رجب کو ہوا ۔سفینتہ الاولیاء کے مطابق 6 رجب کو ۔ اور مرات الاسرار ، شجرة الانوار ، اقتباس الانوار کے مطابق آپ کا وصال 3 رجب کو سلطان سنجر سلجوقی کی سلطنت کے زمانہ میں ہوا ۔ کتاب سیر الاقطاب کے مطابق10 رجب المرجب 612ھ میں انتقال ہوا اور مزار پاک قنوج اتر پردیش ہندوستان میں ہے ( صفحہ 90)۔ وصال کے وقت آپ کی عمر 120سال تھی ۔ آپ کا مزار اقدس کے متعلق مختلف روایات ہیں مرات الاسرار کے مطابق آپ کا مزار اقدس ملک شام میں ہے ۔ سیر الاقطاب کے مطابق قنوج (انڈیا) میں ہے ۔اقتباس الانوار میں لکھا ہے آپ کا مزار اقدس قنوج (انڈیا) میں دریا کے کنارے شہر سے متصل شمال کی جانب ہے ایک صاحب کے بقول روس کے سرحدی علاقوں میں حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ کا مزار موجود ہے ایک اور روایت کے مطابق شہر بخارا کے محلہ زندنہ میں حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ کا مزار واقع ہے ۔واللہ اعلم حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے احوال و ملفوظات کے متعلق کوئی کتاب حاصل نہ ہو سکی البتہ ان مختلف کتب میں مختصراً آپ کی سوانح عمری اور ملفوظات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:کتاب سِر العارفین ،کتاب مرآة الاسرار،کتاب اقتباس الانوار،کتاب سیرالاولیاء،کتاب مناقب المحبوبین،کتاب مخزن چشت ،کتاب سفینتہ الاولیاء،کتاب سیرالاقطاب،کتاب خزینتہ الاصفیاء ،کتاب آثار الصالحین ،کتاب ہفت اقطاب،کتاب تکملہ سیرالاولیاء، کتاب تذکرہ خواجگان چشت ۔ہر سال حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی چشتی علیہ الرحمہ  کا سالانہ عرس مبارک قنوج انڈیا میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔