Hazrat Ghaus E Azam (Urdu)

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، حیات و شخصیت
قیامت کا دن انتہائی خوف و گھبراہٹ اور ہولناکی و مصیبت کا دن ہوگا لیکن اللہ تعالی کے وہ خاص بندے جو ہر حال میں اسی سے ڈرتے رہتے تھے بجز اس کے کسی سے نہیں ڈرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کی خوف و گھبراہٹ سے محفوظ و مامون رکھے گا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات شریفہ اور احادیث صحیحہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بروز محشر اپنے نیک و صالح بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازے گا اور تمام خلائق کے مابین ان کی قدرومنزلت کو آشکار کردے گا۔
اللہ تعالی کے انعام و افضال کے باعث وہ اولیاء کرام اور صالحین بندے کمال درجہ مسرت و فرحت ‘انبساط و شادمانی میں رہیں گے، انہیں قیامت کے دن کی گھبراہٹ متفکرنہیں بنائے گی،چنانچہ ارشادباری ہے : لایحزنھم الفزع الاکبر وتتلقھم الملائکۃ۔
  ترجمہ : ان کو بڑی گھبراہٹ غمزدہ نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے ۔ (سورۃ الانبیاء : 103)
 مزید ارشاد فرمایا:
 لھم البشریٰ فی الحیوٰۃ الدنیا و فی الآخرۃ۔
 ترجمہ :  انہی کے لئے دنیوی زندگی میں اور آخرت میں بشارت و خوشخبری ہے ۔(سورۂیونس :64)
 احادیث شریفہ کے ذخائر سے بطور نمونہ چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
سنن ابوداؤد شریف ج 2‘ ص 495باب فی الرھن، حدیث نمبر (3528)
(مطبع دارالکتب العلمیہ ، بیروت ) میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
 أن عمر بن الخطاب قال: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ان من عباداللہ لاناسا ماھم بانبیاء ولاشھداء یغبطھم الانبیاء والشھداء یوم القیامۃ بمکانھم من اللہ تعالی ۔ قالوا:  یارسول اللہ ! تخبرنا من ھم؟ قال: ھم قوم تحابوا بروح اللہ علی غیر ارحام بینھم، ولا اموال یتعاطونھا۔ فواللہ ان وجوھھم لنور و انھم علی نور۔ لایخافون اذا خاف الناس و لا یحزنون اذا حزن الناس۔ وقرأ ھذہ الآیۃ " الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون "۔
 ترجمہ :سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں نہ وہ انبیاء ہیں اور نہ شہداء ‘بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے انبیاء و شہداء ان کی تعریف کریں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون حضرات ہیں ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ محض اللہ کی رحمت و عنایت کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ‘ نہ تو آپسی رشتہ داری کی بناء پر اور نہ مالی لین دین کی وجہ سے اللہ کی قسم یقیناً ان کے چہرے حد درجہ نورانی ہوں گے اور وہ نور (کے منبروں ) پر ہوں گے ۔ جب لوگ ڈر رہے ہوں گے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا ۔ جب لوگ غمزدہ ہوں گے اور یہ غمگین نہ ہوں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :
 الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔
 ترجمہ : یقیناً اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے ۔
 یہ حدیث شریف مشکوۃ المصابیح ج 2ص 426اور زجاجۃ المصابیح ج 4ص 103 اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب احادیث شریفہ میں بھی موجود ہے ۔ مستدرک للحاکم‘ مسند احمد‘ معجم طبرانی ‘ شعب الایمان للبیہقی ‘ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ‘ ابن عساکر ‘ ابن ابی الدنیا ‘ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ کے حوالے سے کنز العمال شریف میں آٹھ سے زیادہ مرتبہ آئی ہے ۔ (کنز العمال ج 9ص 6تا 9‘ ص 97) اور الترغیب والترھیب میں دو مرتبہ (ج 4ص 12‘ ج 4ص 11) جامع الاحادیث المراسیل میں تین (3)مرتبہ (ج 1ص 330)  ج 3ص 152‘ ج 18ص 248) مجمع الزوائد میں ایک مرتبہ (باب المتحابین فی اللہ عزو جل ) مسند الحارث میں ایک مرتبہ (ج 2ص 993)
       محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے زجاجۃ المصابیح میں (ج 4ص 103) بحوالہ ترمذی " لھم منابر من نور یغبطہم النبیون والشھداء " کی روایت ذکر کی ہے ۔ یعنی ان کے لئے نور کے منبر ہوں گے ۔ انبیاء و شہداء ان کی تعریف کریں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن ان کا لباس بھی نورانی ہوگا ۔ کنزالعمال ج 9ص 8میں مسند احمد کے حوالہ سے ایک طویل حدیث پاک ہے جس میں یہ الفاظ ہیں ۔
 یضع اللہ لھم یوم القیامۃ  منابر من نور فیجلسون علیھا و ان ثیابھم لنور وجوھھم نور ۔
 ترجمہ :  اللہ تعالی قیامت کے دن ان کے لئے منبر رکھے گا تو وہ ان منبروں پر تشریف رکھیں گے اور یقیناً ان کا لباس نورانی ہے ۔
ان کے چہرے نورانی ہوں گے۔
      غرض یہ کہ اللہ کے محبوب و مقرب بندے قیامت کے دن مسرتوں میں ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ کی عطاؤں اور سرفرازیوں پر شاداں و فرحاں رہیں گے‘ ان کے لئے نور کے منبر ہوں گے ‘ ان کا لباس نورانی ہوگا اور ان کے چہرے پرنور ہوں گے ۔
      اولیاء کرام کی عظمت وجلالت سے متعلق صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:
 عن أبی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إن اللہ قال من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔ ۔ ۔ ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی میں اسے جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری شریف ‘ کتاب الرقاق‘ باب التواضع‘ حدیث نمبر6137)
       انہی بزرگ وباعظمت ‘محبوب ومقرب نفوس قدسیہ میں بے مثال شان والی ہستی محبوبِ سبحانی قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘ آپ کا اسم مبارک عبدالقادر اور کنیت ابو محمد ہے اور القاب محی الدین ‘ محبوب سبحانی‘ غوث الثقلین ‘ غوث اعظم وغیرہ ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت 470؁ھ بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں ہوئی اور وصال مبارک 561؁ھ     بغداد میں ہوا۔
 آپ نجیب الطرفین ہیں، اپنے والد ماجد کی نسبت سے حسنی ہیں،آپ کی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سید ہیں-
والد گرامی کی نسبت سے سلسلۂ نسب مبارک:
حضرت سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سید عبداللہ بن سید یحییٰ بن سید داؤد بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسی جواد بن سید عبداللہ محض بن سید امام حسن مثنیٰ بن سید امام حسن بن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
والدہ ماجدہ کی جہت سے سلسلۂ نسب مبارک:
حضرت سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن امۃ الجبار بنت سید عبداللہ صومعی بن سید ابوجمال الدین محمد بن جواد بن امام سید علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن زین العابدین بن امام ابو عبداللہ حسین بن امیر المومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
        آپ کا عالی خاندان اولیاء اللہ کا مبارک گھرانہ ہے‘ آپ کے نانا جان داداجان والد ماجد والدہ محترمہ پھوپھی جان بھائی اور صاحبزادگان سب باکمال اولیاء کرام میں سے ہیں‘ اور صاحبِ کرامات عالیہ ، مقامات رفیعہ ودرجات عظیمہ ہیں ۔
 ولادت باسعادت سے قبل خوشخبریاں:
طبقات کبری ، بہجۃ الاسرار ، قلائد الجواہر، نفحات الانس ، جامع کرامات اولیاء، نزہۃ الخاطر الفاتراور اخبار الاخیاروغیرہ کتب میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ولادت کے خصائص اس طرح مذکور ہیں:٭محبوبِ سبحانی  حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ولادت کی شب مشاہدہ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرات  صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک جماعت کے ساتھ ان کے گھر جلوہ افروز ہیں اور اولیاء کرام بھی تشریف فرماہیں،حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بشارت عطافرمائی :یا ابا صالح ! اعطاک اللہ ابنا وھو ولی و محبوبی ومحبوب اللہ تعالی و سیکون لہ فی شان الاولیاء و الاقطاب کشانی بین الانبیاء والرسل ۔
اے ابو صالح! اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسا فرزندصالح عطا فرمایا ہے جو ولی ہے، وہ میرا بیٹا ہے، وہ میرا اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔ اورعنقریب اس کی اولیاء اللہ اور اقطاب میں وہ شان ہوگی جو انبیاء اور مرسلین میں میری شان ہے۔
       ٭  حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالی علیہ  کو خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام نے یہ بشارت دی کہ تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا۔
     ٭ جس رات حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادتہوئی اس رات جیلان شریف کی جن عورتوں کے ہاں کسی کی ولادت ہوئی، ان سب کو اللہ تعالی  نے لڑکا ہی عطا فرمایا اور وہ ہر لڑکا، ولی اللہ بنا۔
     ٭ آپ کی ولادت  باسعات انتیس (29)شعبان المعظم کو ہوئی اور یکم رمضان المبارک ہی سے روزہ رکھا، سحری سے لے کر افطار تک آپ اپنی والدۂ محترمہ کا دودھ نہ پیتے,جیساکہ آپ  کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں کبھی دن بھر دودھ نہ پیتا تھا۔
     موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے لوگوں کورمضان شریف کا چاند دکھائی نہ دیا، اس لئے لوگوں نے میرے پاس آکر میرے بیٹے  عبدالقادرکے متعلق دریافت کیا کہ انہوں نے دودھ پیا ہے یا نہیں ؟
 تو میں نے اُن کو بتایا کہ میرے فرزند نے آج دودھ نہیں پیا! بعد ازیں تحقیقات کرنے پر اس حقیقت کا انکشاف ہوگیا کہ اُس دن رمضان کی پہلی تاریخ ہی تھی ،اس طرح سارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئي:
 واشتھر ببلدنا فی ذالک الوقت انہ ولد فی الاشراف ولد لا یرضع فی نھار رمضان ۔ 
       ترجمہ: ہمارے شہر میں اس وقت مشہور ہوگیا کہ سادات گھرانہ  میں ایک صاحبزادہ تولد ہوے ہیں جو رمضان شریف میں دن کو دودھ نہیں پیتے بلکہ روزہ رکہتے ہیں۔
  )طبقات کبری - بہجۃ الاسرار - قلائد الجواہر- نفحات الانس - جامع کرامات اولیاء- نزہۃ الخاطر الفاتر- اخبار الاخیار-سفینۃ الاولیاء (
حضرت غوث پاک کی ولایت:
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسینے پوچھا: متیٰ علمت انک ولی اللہ تعالی؟  آپ کو کب سے معلوم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: انا ابن عشر سنین فی بلدنا اخرج من دارنا و اذھب الی المکتب فاری الملائکۃ علیھم السلام تمشی حولی فاذا وصلتُ الیٰ المکتب سمعت الملائکۃ یقولون: افسحوا لولی اللہ حتی یجلس۔ میں بارہ برس کا تھا کہ اپنے شہر کے مدرسہ میں پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا تو میں اپنے ارد گرد فرشتوں کوچلتے دیکھتا، اور جب مدرسہ میں پہنچتا تو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنتا کہ اللہ تعالیٰ کے ولی کے لئے راستہ فراہم کرو،یہاں تک کہ وہ تشریف رکھیں۔
(بہجۃ الاسرار- قلائد الجواہر-اخبار الاخیار-(
بہجۃ الاسراراور قلائدالجواہر میں منقول ہے کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ  فرماتے ہیں کہ بچپن میں جب  کبھی  میں ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں غیب  سے آواز سنا کرتا’’ الی یا مبارک‘‘ اےبرکت والے، تُم میرے پاس آجاؤ! تو میں فوراً والدہ ماجدہ کی گود میں چلاجاتا-(بہجۃ الاسرار- قلائدالجواہر-)
علم دین حاصل کرنے کا اشارہ
   حضرت شیخ محمد بن قائد الاوانی رحمۃ اللہ علیہ بیانفرماتے ہیں کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ  نے ہم سے فرمایا کہ بچپن میں ایک دفعہ حج کے ایام میں مجھے جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوااور ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اچانک اُس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: ائے عبدالقادرما لھذا خُلِقْتَ ۔ تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔ میںگھبراکر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے میدان عرفات میں لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا،یہ سارا واقعہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں عرض کیا اور اجازت طلب کی " ھبینی للہ عزو جل واءذنی لی فی المسیر الی بغداد اشتغل بالعلم و ازور الصالحین۔ اے مادر مہربان!آپ مجھے اللہ تعالی کی  خاطر  وقف کردیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں علم دین حاصل کروں اور صالحین کی زیارت کروں اور ان کی صحبت میں رہوں ۔      والدہ ماجدہ نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا‘ میں نے بیل کا واقعہ عرض کیا‘ تو آپ کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرمائی، اور نصیحت کی کہ میں ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپناوں –
ریاضتیں اور مجاہدے:
آپ فرماتے ہیں کہ میں مدت مدید تک شہر کے ویران اور بے آباد مقامات پر زندگی بسر کرتا رہا، نفس کو طرح طرح کی ریاضت اور مشقت میں ڈالا ، پچیس (25)برس تک عراق کے بیابان جنگلوں میں تنہا پھرتا رہا  چنانچہ ایک سال تک میں ساگ گھاس وغیرہ سے گزارا کرتا رہا اور پانی مطلق طور پر نہ پیا پھر ایک سال تک پانی بھی پیتا رہا پھر تیسرے سال صرف پانی پر ہی گزارا تھا کھاتا کچھ بھی نہ تھا پھر ایک سال تک نہ ہی کچھ کھایا نہ ہی پیا اور نہ ہی سویا۔(طبقات کبری - جامع کرامات اولیاء - قلائد الجواہر)
 چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمانا
      حضرت ابوالفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بیان فرما تے ہیں کہ میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں چالیس(40) سال تک رہا اور اس مدت کے دورانDescription: http://cdncache-a.akamaihd.net/items/it/img/arrow-10x10.pngمیں نے آپ کو ہمیشہ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
(بہجۃ الاسرار۔ قلائد الجواہر۔ اخبار الاخیار۔ جامع کرامات اولیاء ۔ نفخات الانس- طبقات کبری-)
        حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ پندرہ سال رات بھر میں ایک قرآن پاک ختم کرتے رہے۔ (اخبار الاخیار- جامع کرامات اولیاء ) حضرت شیخ ابوعبداللہ نجار رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مروی ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میں نے بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ (قلائد الجواہر۔ طبقات کبری)
حضرت غوث اعظم سید الاولیاء:
حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے جب یہ ارشاد فرمایا " قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ " میرا یہ قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہے ‘ اولیاء کرام نے آپ کے اس ارشاد کو سماعت کیا اور اپنے اپنے مقامات سے ہر ولی نے اس ارشاد کو قبول کیا اور سر تسلیم خم کیا چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایسا ادب بجالایا کہ اس ارشاد کے وقت آپ خراسان کی پہاڑیوں میں غاروں میں مجاہدوں اور ریاضتوں میں مشغول تھے، آپ نے حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا یہ اعلان سنتے ہی اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیا اور زبان حال سے عرض کیا :  حضور والا گردن پر کیا بلکہ میرے سر پر آپ کا مبارک قدم ہے۔ وضع راسہ علی الارض و قال بل علی راسی۔ (تفریح الخاطر۔ شمائم امدادیہ۔ لطائف الغرائب للشیخ امیر محمد الحسینی)
        خواجۂ خواجگاں، شاہ نقشبند حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ ارشاد مبارک کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: گردن ہی نہیں آپ کا قدم مبارک میری آنکھوں اور بصیرت پر ہے۔ علی عینی و علی بصیرتی۔ (تفریح الخاطر)
       کرامات غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مقاصد الاسلام ،حصۂ ہشتم میں ایک عنوان "غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی سلطنت " قائم فرمایا اور حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامت اس طرح نقل فرمائی "دا‏ئرۃ المعارف میں معلم بطرس بستانی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا:میری ایک لڑکی گھر کے چھت پر چڑھی تھی وہاں سے وہ غائب ہوگئی ! آپ نے فرمایا کہ آج رات کو تم محلہ کرخ کے ویرانہ میں جاؤ اور پانچویں ٹیلہ کے پاس بیٹھو اور زمین پر یہ کہتے ہوئے ایک دائرہ اپنے اطراف کھینچ لو کہ (بسم اللہ علی نیۃ عبد القادر) جب اندیھرا ہوجائے گا تو جن کی ٹکڑیاں مختلف صورتوں میں تم پر گزریں گی ، ان کی ہیبت ناک صورتوں تو دیکھ کر ڈرنا نہیں ، صبح کے قریب ان کا بادشاہ ایک بڑے لشکر میں آئے گا اور تم سے پوچھے گا کہ تمہاری کیا حاجت ہے ؟ تو کہہ دینا کہ مجھے عبد القادر نے بھیجا ہے،اور اس وقت لڑکی کا واقعہ بھی بیان کردو! اس شخص نے اس مقام پر جاکر حکم کی تعمیل کی اور کل واقعات وقوع میں آئے ، جب بادشاہ نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالی عنہ  نے بھیجا ہے،یہ سنتے ہی وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور زمین بوسی کرکے دائرہ کے باہر بیٹھ گيا اور اس کی حاجت دریافت کی ، جب اس نے اپنی لڑکی کا واقعہ بیان کیا تو اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ جس نے یہ کام کیا ہے فورا اسے پکڑ کے لاؤ! چنانچہ ایک سرکش جن لایا گیا جس ساتھ میری لڑکی بھی تھی ، حکم دیا کہ اس سرکش کی گردن ماردی جائے،اور لڑکی کو میرے حوالہ کرکے رخصت ہوگيا-"
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ کرامت نقل فرماکر حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں "اس سے جنوں کے علم کا بھی حال معلوم ہوتاہے کہ دائرہ تو کرخ میں کھینچا گيا اور مسافت بعیدہ پر بادشاہ کو خبر ہوگئي کیونکہ رات بھر چل کر قریب صبح اس دائرہ کے پاس پہنچا جو صرف حضرت شیخ کی نیت سے کھینچا گيا تھا،اور اس سے حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ کے تصرف کا حال بھی معلوم ہوگيا کہ جنوں تر آپ کا کیا اثر تھا کہ لکیر جو آپ کی نیت سے کھینچی گئی تھی وہاں پادشاہ بذات خود حاضر ہوا اور زمین بوسی کی  "  - (مقاصد الاسلام،حصۂ ہشتم،ص:169/170)