حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی: ان کا نام ملا نظام الدین بن ملا قطب الدین  شہید سِہالوی بن عبد الحلیم بن عبد الکریم ہے فاضلِ جید، عارف فنون رسمیہ، ماہر علوم نقلیہ و عقلیہ، فقیہ اصولی تھے۔

القاب: استاذ الہند، بانی درس نظامی علامہ فرنگی محلی

ولادت باسعادت: ملا نظام الدین کی ولادت 1088ھ بمطابق27 مارچ1677ء میں سِہالی میں ہوئی جوصوبہ اتر پردیش ضلع بارہ بنکی کا ایک قصبہ ہے۔

تعلیم و تربیت: ملا نظام الدین صاحب کی عمر پندرہ برس کی تھی جب ملا قطب الدین کا خاندان لکھنؤ میں آباد ہوا شرح جامی پڑھتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد بھی علوم کی تحصیل جاری رکھی۔ ’’ملا صاحب نے یورپ کا سفر کیا اور مختلف شہروں میں تحصیل کی۔ اخیر میں لکھنؤ واپس آکر شیخ غلام نقشبند گھوسوی ثم لکھنوی سے بقیہ کتابیں پڑھیں اور انہی سے سند فضیلت حاصل کی۔ ابتدائی کتابیں دیوا (جموں میں دریائے توی کے ساتھ ایک قصبے کا نام ہے جو چھمب اور جوڑیاں کے مغرب میں واقع ہے۔)میں پڑھیں، لیکن انتہائی کتابیں بنارس میں جا کر حافظ امان اللہ بنارسی سے ختم کیں۔‘‘

حصول تصوف: علوم ظاہری کی تکمیل سے فارغ ہو کر ملا صاحب نے علوم باطنی کی طرف توجہ کی۔ اس وقت سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ شاہ عبدالرزاق بانسوی قادری چشتی صابری علیہ الرحمہ  کے فیوض و برکات کا تمام ہندوستان میں غلغلہ تھا۔ ملا صاحب ان کے آستانے پر حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ شاہ صاحب موصوف علوم اسلامیہ سے ناآشنا تھے اس لیے تمام لوگوں کو تعجب ہوا۔ یہاں تک کہ علمائے فرنگی محل نے علانیہ ملاصاحب سے شکایت کی۔ ملاصاحب کے تلامذہ میں سے ملاکمال علوم عقلیہ میں بڑی دستگاہ رکھتے تھے اور چونکہ بے انتہا ذہین اور طباع تھے کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، ملاصاحب کی بیعت پر دو بدو گستاخانہ عرض کیا کہ آپ نے ایک جاہل کے ہاتھ پر کیوں بیعت کی۔ اس پر بھی قناعت نہ کر کے شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے اور فلسفہ کے چند مشکل مسئلے سوچ کر گئے کہ شاہ صاحب سے پوچھیں گے اور ان کو الزام دیں گے۔ مشہور ہے کہ شاہ صاحب نے خود ان مسائل کو چھیڑا اور ملاکمال کی خاطر خواہ تسکین کر دی، چنانچہ اسی وقت ملا کمال اور ان کے ساتھ بہت سے علماءشاہ صاحب کے قدموں پر گر پڑے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

درسِ نظامی کی ترتیب: یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ استاذ العلماء حضرت علامہ نظام الدین محمد فرنگی محلی علیہ الرحمہ کی نسبت سے درس نظامی کو ” درس نظامی “ کہتے ہیں لیکن درحقیقت اس سلسلۂ درس کی تاریخ ایک پشت اوپر حضرت علامہ نظام الدین محمد فرنگی محلی علیہ الرحمہ  کے والدِ گرامی ملا قطب الدین شہید سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ملا شہید نے اپنے درس کیلئے ایک خاص طریقہ قائم کیا ، وہ یہ کہ ہر فن کی ایک ہی کتاب جو اپنے موضوع پر بہترین ہوتی تھی ، پڑھاتے تھے ، اسی سے ان کے تلامذہ صاحب تحقیق ہو جاتے تھے۔ جبکہ ان کے فرزند حضرت علامہ نظام الدین محمد فرنگی محلی علیہ الرحمہ  نے ہر ہر علم و فن پر ایک ایک کتاب کا مزید اضافہ کر دیا۔ یوں یہ ہر فن کی دو دو کتابیں پڑھاتے اور بعض ذہین طلبہ کو ایک ہی کتاب پڑھاتے تھے۔(بانیِ درسِ نظامی ، ص262)

آج کے دور میں ملا نظام الدین کے منتخب کردہ فنون اور کتب کو ہی ” درس نظامی “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ” فرنگی محل “ میں بیٹھ کر حضرت ملا نظام الدین علیہ الرحمہ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو پانچ یا چھ سال میں طلبہ کو فارغ التحصیل ہونے کا موقع ملنے لگا۔(  بانی درس نظامی ، ص79)

درسِ نظامی کے ابتدائی مشمولات:  حضرت ملا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً 11 فُنون کی کتب اپنے نصاب میں شامل کی تھیں۔ قراٰن و حدیث چونکہ تمام دینی ضروریات کی بنیاد ہیں اور ان کیلئے عربی زبان کی تعلیم لازمی ہے۔ فارسی اُس دور کی دفتری اور عدالتی زبان تھی اور فقہِ حنفی کو ملک میں رائج قانون کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے علاوہ فلسفہ ، حکمت ، ہندسہ ، منطق اور علمِ کلام سمیت دیگر کئی فنون بھی اس نصاب کا حصّہ تھے۔ یوں یہ اس وقت کی دینی و قومی ضروریات پر مشتمل جامع نصاب تھا۔ 11مضامین کیلئے مقررہ 43کتب پر مشتمل اس نصاب میں معقولات کی کتابوں کی تعداد 20 تھی جن میں سے منطق کی آٹھ ، حکمت کی تین ، علمِ کلام کی چار اور ریاضی کی پانچ کتابیں شامل تھیں۔ علوم لسانیات کی چودہ کتابوں میں سے علم الصرف کی سات ، علمُ النحو کی پانچ اور بلاغت کی دو کتابیں جبکہ علومِ عالیہ یعنی خالص دینی مضامین کی کل نو کتابوں میں سے فقہ کی دو ، اصولِ فقہ کی چار ، تفسیر کی دو اور حدیث کی ایک کتاب شامل تھی۔ ( القلم ، جون 2012 ، ص271)

تصنیفات: حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ  کی تصنیفات کثرت سے ہیں مگر یہاں کچھ مشہورو معروف کتابوں کا ذکر کئے جاتے ہیں :

  • شرح مسلم الثبوت
  •  شرح منار مسمی بہ صبح صادق
  • حاشیہ صدرا
  • حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمۃ صدر الدین شیرازی
  • حاشیہ شمس بازغہ
  • حاشیہ بر حاشیہ قدیمہ
  • شرح تحریر الاصول
  • حاشیہ شرح عضدیہ
  • مناقب رازقیہ‘‘ (فارسی)
  •  شرح مبارزیہ

یہ تمام کتابیں بڑے پایہ کی ہیں اور نہایت دقیق تحقیقات پر مشتمل ہیں، لیکن درحقیقت حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ  کی شہرت ان تصنیفات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے طریقۂ درس نظامی کی بدولت ہے۔

تاریخ وفات: علوم و مَعارِف کا یہ آفتاب و ماہتاب حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ  9   جمادی الاولیٰ بروزبدھ 1161ھ بمطابق مئی 1748ء عمر 75برس میں انتقال ہوا۔’’فاضل قدوۂ دین و دنیا‘‘ تاریخ وفات ہے۔


صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین اشرفی مرادآبادی علیہ الرحمہ

 

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین اشرفی مرادآبادی علیہ الرحمہ  

اسم گرامی: سید محمد نعیم الدین

والد گرامی: حضرت علامہ مولانا سید معین الدین نزہت مرادآبادی۔

جد مکرم: استاد الشعراء حضرت علامہ مولانا سید امین الدین راسخ ابن مولانا سید کریم الدین آزاد۔

نسب و گھرانا: حسینی نقوی سادات

تاریخ ومقامِ ولادت: بروزپیر،21 صفر المظفر 1300ھ / جنوری 1883ء؛ مراد آباد، یو پی۔ غلام مصطفٰی تاریخی نام قرار پایا۔

رسم بسم الله: بعمر چار سال۔

تکمیل حفظ قرآن: بعمر آٹھ سال۔

تحصیلِ علم و اساتذہ:

حضرت علامہ مولانا سید معین الدین نزہت مرادآبادی(والد گرامی  )

حضرت مولانا حکیم فضل احمد امروہی۔

شیخ الکل حضرت علامہ مولانا سید محمد گل قادری کابلی۔

فراغت: 1320 ہجری/ 1900ء بعمر بیس سال۔

بیعت وخلافت: قطب پیلی بهیت  حضرت شیر محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے سے اپنے استاد گرامی حضرت مولانا سید محمد گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ جب استاد گرامی کی ملاقات مجدد سلسلہ اشرفیہ محبوب ربانی  مخدوم الاولیا ہم شبیہ غوث اعظم اعلی حضرت اشرفی میاں  سید علی حسین اشرفی جیلانی کچهوچهوی سے ہوئی تو صدر الأفاضل کو ان کے نذر کرتے ہوئے سلسلہ اشرفیہ میں مرید کروادیا۔ حضور صدر الأفاضل کو اعلی حضرت اشرفی میاں نے "نعیم اللہ جلالی" کے خطاب سے نوازتے ہوئے خلافت قادریہ چشتیہ اشرفیہ عطا فرمائی تهی۔

 حضرت صدر الافاضل کو اپنے استاد محترم سے تمام علوم و فنون، اوراد و وظائف اور سلاسل طریقت میں بهی اجازت حاصل تهی۔ قطب وقت مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی سے بهی اجازت و خلافت عطا ہوئی تهی۔

صدر الأفاضل نے اپنے مرشد کی شان میں ارشاد فرمایا تها:

"راز وحدت کهلے نعیم الدین!

اشرفی کا یہ فیض تجھ پر ہے!

اس لئے آپ کو "خسرو بارگاہ اشرفی" کے لقب سے بهی یاد کیا جاتا ہے۔

مدرسہ اہل سنت، مرادآباد: 1328 ہجری/ 1908ء میں مخدوم الاولیا اعلی حضرت اشرفی میاں کچهوچهوی کی سر پرستی میں قیام عمل میں آیا۔ بعد میں اس عظیم مدرسے کا نام صدر الافاضل کے عرس چہلم میں سیدی ابو الحسنات قادری اشرفی لاہوری کے مشورے اور حضور محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی جیلانی کچهوچهوی کی تائید سے صدر الأفاضل کی ذات بابرکت سے منسوب کرتے ہوئے" جامعہ نعیمیہ" رکها گیا۔

ماہنامہ سواد اعظم: 1343 ہجری/1924ء مرادآباد سے جاری کیا۔

آل انڈیا سنی کانفرنس: 1344 ہجری /1925ء میں اپنے عزیز دوست محدث اعظم ہند کچهوچهوی کے ساتھ مل کر اعلی حضرت اشرفی میاں کچهوچهوی کی سرپرستی میں بر صغیر کی مشہور سنی سیاسی تحریک "آل انڈیا سنی کانفرنس" قائم کی جس کا مقصد اہل سنت کی ملی اور سیاسی نمائندگی کے ساتھ ساتھ حصول پاکستان تها۔

اشاعت ترجمہ کنز الایمان: اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کا مشہور زمانہ ترجمہ قرآن ۔ "کنز الایمان" کا مرادآباد سے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ پہلی بار اشاعت فرمائی۔

القابات: نعیم اللہ جلالی (عطا کردہ : اعلی حضرت اشرفی میاں)، صدر الأفاضل (عطا کردہ : اعلی حضرت بریلوی)، فخر الامثال، امام اہل سنت، خسرو بارگاہ اشرفی۔

نکاح و اولاد: صدر الافاضل نے 1322 ہجری میں نکاح فرمایا جس سے آپ کو چار لڑکیاں اور چار لڑکے ہوئے۔ صاحبزادوں کو نام حسب ذیل ہیں:

حضرت علامہ مولانا مفتی سید ظفرالدین احمد قادری نعیمی۔

حضرت علامہ مولانا سید اختصاص الدین احمد قادری نعیمی۔

حضرت علامہ مولانا حکیم سید ظہیر الدین احمد قادری نعیمی۔

حضرت علامہ مولانا حکیم سید إظهار الدین احمد قادری نعیمی۔

تصانیف جلیلہ:

تفسیر خزائن العرفان: ترجمہ قرآن کنز الایمان شریف پر مشہور زمانہ حاشیاتی تفسیر۔

کتاب العقائد

ریاض نعیم( دیوان/کلام)

نعیم الباری شرح صحیح البخاری

فتاوی نعیمیہ

الکلمۃ العلياء علی علم المصطفی

اسواط العذاب لی قمع القباب

اطيب البيان فى رد تقويۃ الايمان

موالات

التحقيقات لدفع التلبيسات

زاد الحرمين

سوانح كربلا

سيرت صحابہ

گلبن غریب نواز

کشف الحجاب عن مسائل ایصال الثواب

آداب الاخیار فی تعظیم الآثار

فرائد النور علی جرائد القبور

احقاق حق

ارشاد الانام فی محفل لی مولود و القیام

القول السدید

المعجزہ

پراچین کال

فن سپہ گری

شرح قطبی

اصول حدیث (وغیرها)

شاگردین:

نائب صدر الافاضل تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی مرادآبادی (بانی جامعہ نعیمیہ، کراچی)

سیوطی ہند حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی بدایونی، صاحب:اشرف التفاسیر المعروف ۔ تفسیر نعیمی و دیگر کتب کثیرہ۔

مترجم کتب کثیره مفتی سید غلام معین الدین نعیمی اشرفی مرادآبادی (سابق مدیر ماہنامہ سواد اعظم، لاہور)

مفتی اعظم پاکستان ابو الحسنات سید محمد قادری اشرفی لاہوری (بانی حزب الاحناف، لاہور)۔

  حضرت سید ابو البرکات سید احمد قادری اشرفی لاہوری۔

امام اہل سنت علامہ مولانا سید احمد سعید کاظمی چشتی صابری امروہی ثم ملتانی (بانی جامعہ انوار العلوم، ملتان)

امام اہل سنت مخدوم المشائخ سرکار کلاں حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی کچهوچهوی علیہ الرحمہ

فقیہ اعظم پاکستان مفتی نور اللہ نعیمی اشرفی بصیرپوری (بانی جامعہ حنفیہ، بصیرپور، پاکستان)

استاد العلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد یونس نعیمی اشرفی مرادآبادی۔

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی اشرفی سنبهلی ثم لاہوری (بانی جامعہ نعیمیہ،لاہور)

حضرت مفتی محمد حبیب الله نعیمی اشرفی بهاگلپوری، صاحب فتاوی حبیبیہ۔

امام نحو صدر العلما حضرت علامہ مولانا مفتی سید غلام جیلانی اشرفی میرٹھی، صاحب بشیر النحو و بشیر کامل۔

حافظ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی عبد العزيز اشرفی مرادآبادی ثم مبارکپوری

اجمل العلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اجمل قادری رضوی سنبهلی، صاحب فتاوی اجملیہ۔

مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمٰن نقشبندی قادری اشرفی عباسی اوریسوی۔

مبلغ اسلام علامہ مولانا اکرام الحق انصاری گنگوہی اشرفی نعیمی۔

مفتی اعظم کانپور امین شریعت سلطان المناظرین حضرت علامہ مولانا مفتی رفاقت حسین اشرفی مظفر پوری ثم کانپوری۔

استاد العلما بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد العزیز خان اشرفی نعیمی فتحپوری (بانی جامعہ عربیہ ناگپور)۔

استاد العلما حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ عبد الرشید اشرفی نعیمی فتحپوری۔

مفسر شہیر حضرت علامہ مولانا جسٹس پیر کرم شاہ الازہری، صاحب تفسیر ضیا القرآن۔

استاد العلما حضرت علامہ مولانا مفتی غلام جیلانی قادری رضوی اعظمی۔

شمس العلما حضرت علامہ مولانا مفتی قاضی سید شمس الدین جعفری رضوی جونپوری۔

امام المعقولات حضرت علامہ مولانا سلیمان اشرفی نعیمی بهاگلپوری (سابق استاد جامعہ اشرفیہ مبارکپور)

استاد العلما علامہ مولانا عتیق الرحمٰن نعیمی تلسی پوری۔

مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا مفتی اکرام الحق اشرفی نعیمی بہرائچی۔

استاد العلما علامہ مولانا مفتی اطہر اشرفی نعیمی قبلہ (سابق چیرمین رویت ہلال کمیٹی، پاکستان)

مفتی اعظم راجستھان حضرت علامہ مولانا مفتی اشفاق حسین قادری نعیمی۔

حضرت علامہ مولانا مفتی نذیر الاکرم اشرفی نعیمی مرادآبادی۔

بلبل باغ صابری حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید عبد اللطیف صابری اشرفی نعیمی مراد آبادی۔

حضرت علامہ مولانا مفتی باقر علی اشرفی نعیمی گیاوی (سابق مفتی جامعہ اشرفیہ، کچهوچھہ مقدسہ)

استاد العلما حضرت مفتی طریق الله نعیمی اشرفی۔

استاد العلما حضرت علامہ مولانا سید غلام قطب الدین اشرفی نعیمی مرادآبادی ثم لاہوری۔

وصال: 18 ذوالحجہ 1367ھ / 23اکتوبر 1948ء بروز جمعۃ المبارک آپ کا وصال ہوا۔ محدث اعظم ہند مخدوم الملت حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد اشرفی جیلانی کچهوچهوی اس سال حج پر تهے، سرکار دو عالم رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں تهے کہ آپ کو کشف سے پتہ چلا کہ حضور صدر الأفاضل کا انتقال ہوگیا، آنسو جاری ہو گئے، حضرت علامہ مولانا سید غلام قطب الدین اشرفی نعیمی  علیہ الرحمہ نے ایک طویل منقبت میں سارے واقعہ کو قلم بند فرمایا ہے۔

نماز جنازہ: صدر الأفاضل کے محبوب شاگرد اور نائب ، تاج العلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عمر اشرفی نعیمی نے نماز جنازہ پڑھائی۔

مزار اقدس: جامعہ نعیمیہ، مرادآباد۔

(بشکریہ :بشارت علی صدیقی اشرفی نعیمی حفظہ اللہ )