Hazrat Maula Ali Mushkil Kusha (Urdu)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ
خصائص وکمالات ارشادات وتعلیمات
      اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ  
اَمَّا بَعْدُ! فاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ:الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمْ.
     جہاں ماہ رمضان المبارک کو بہت سی خصوصیات حاصل ہیں وہیں اس ماہ کو یہ خصوصی نسبت بھی حاصل ہے کہ اس میں مولائے کائنات ،فاتح خیبر،باب العلم، حیدرکرار،ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت عظمی ہوئی،اسی مناسبت سے آج’’حضرت مولائے کائنات‘خصائص وکمالات ،تعلیمات وارشادات‘‘کے عنوان پر عرض کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
     مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا،آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر،زہد و ورع ،شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا،آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں۔

مولود کعبہ ہونے کا اعزاز
     سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خصوصی شرف حاصل ہے کہ آپ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی ،جیساکہ روایت ہے:
ولد رضی اللہ عنہ بمکۃ داخل البیت الحرام
ولم یولد فی البیت الحرام قبلہ احد سواہ
قالہ ابن الصباغ
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر ہوئی۔علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی۔ (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ص 84)
     آپ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی،اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے،آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:أَلنَّظْرُ إِلٰی وَجْہِ عَلِیٍّ عِبَادَۃٌ۔
سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا :علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃرضی اللہ عنہم،حدیث نمبر:4665)

ایمان میں سبقت
     حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ کمسن حضرات میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ یَقُوْل:أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِیٌّ.
ایک انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (کمسن حضرات میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)
     ونیز جامع ترمذی شریف میں روایت ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْإِثْنَیْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ یَوْمَ الثُّلَاثَاء۔
 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی  (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094)

اہل بیت کے فرد فرید اورعظیم صحابی
      حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے،چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لئے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے۔
      آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمایا:
أَنْتَ مِنِّی وَأَنَا مِنْکَ ۔
ائے علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ (صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 )

عقد نکاح
      حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح ،خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا۔معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِیْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَۃَ مِنْ عَلِیٍّ.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا :بیشک  اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا)کا نکاح علی(رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،8،ص،497،حدیث نمبر:10152)

کرّم اللہ وجہہ کہنے کی وجہ
      حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ کہا جاتا ہے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ اس عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص’’کرم اللہ وجہہ‘‘کہا جاتا ہے،اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
(وامہ)فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ’’کرم اللہ وجہہ‘‘۔
 سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت’’فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف‘‘رضی اللہ عنہم ہے۔ ۔ ۔ جب وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیںسجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو ’’کرم اللہ وجہہ‘‘(اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو بزرگ و باکرامت بنایاہے)کہا جاتاہے۔    (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ص 85)

آپ سے محبت د رحقیقت
حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
      حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ذات سے بغض رکھنا قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:’’ مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی‘‘۔
 سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،6،ص،47، حدیث نمبر:5973)

حضرت مولائے کائنات محبوب خلائق
      حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے:
وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر "  وأنی أظن ہذا مما لم یجب.
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے  ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمولیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اسی درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،الباب الرابع فی مناقب امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ)

محبوب خدا اور محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
      غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ   رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ. فَأُتِیَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  فِی عَیْنَیْہِ ، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ۔
حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی (رضی اللہ عنہ )کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا!جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا لعاب دہن  مبارک ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا،اورآپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر:3701)

شجاعت وبہادری
      فاتح خیبر، حیدر کرار،صاحب ذو الفقار، شیریزداں، شاہ مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجواں افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے:
وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا۔ أخرجہ ابن عساکر.

سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے)دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا،یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا، یہاں تک کہ  چالیس( 40)افراد نے اسے اٹھایا۔(ابن عساکر نے اس روایت کی تخریج کی ہے۔) (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)

 حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ‘جامع کمالات
      حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے:
عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے  کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے،حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب کو دیکھ لے!(کہ ان میں سب کے جلوے ہیں). ( فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی،ج1ص 75)

دنیا ہی میں جنت کی بشارت
      سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کوعشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی:
وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔
اور علی(رضی اللہ تعالی عنہ)جنت میں ہیں۔ ( سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم،حدیث نمبر:138)

حضرت مولائے کائنات کی شان میں آٹھ سو(800)آیات وارد
      صحابۂ کرام میں سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ آپ کی شان میں(800) آیات مبارکہ نازل ہوئیں ‘ جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام ابن عساکر کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے:
وأخرج ابن عساکر عن ابن عباس قال: نزلت فی علی ثمان مائۃ آیۃ.
امام ابن عساکر نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی،آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شان میں آٹھ سو(800)آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں۔ (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 70)

حضرت مولائے کائنات اور قرآن کریم ہمیشہ ساتھ رہیں گے
      سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نہ صرف آٹھ سو(800)آیات نازل ہوئی ہیں بلکہ آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین ،معجم اوسط طبرانی اورمعجم صغیر طبرانی وغیرہ میں روایت ہے:
عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض.

ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر : 4604۔ المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، حدیث نمبر :5037۔ المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد،حدیث نمبر: 721)

حضرت مولائے کائنات قرآن کریم جمع کرنے والوں میں شامل
      حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے:وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 68)

 حضرت مولائے کائنات کی فیاضی بارگاہ الہی میں مقبول
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔
جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں)رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سورۃ البقرۃ،آیت:274)
      اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے:
عن ابن عباس فی قولہ (الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً وعلانیۃ)قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً ، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً .
 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ’’ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔۔‘‘سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ’ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر۔ ( الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ 274)
      آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کے لئے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
      حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطراپنی جان قربان کیا اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے آپ کے شہزادوں نے بھی عظیم قربانیاں دیں ۔

جنت حضرت مولائے کائنات کی آمد کی آرزو مند
      اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی اور معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کے لئے یہ بشارت عنایت فرمائی:
 وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔
یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الزخرف،آیت:72)
       چونکہ جنت کو مومنین کے لئے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ،اسی لئے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کے لئے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّۃَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلاَثَۃٍ عَلِیٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا جنت تین افراد کی مشتاق ہے (1) (حضرت)علی(رضی اللہ عنہ) (2) (حضرت) عمار (رضی اللہ عنہ)(3) (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہ) (جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166)

دور خلافت
جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے:
 استخلف یوم قتل عثمان وہو یوم الجمعۃ لثمانی عشرۃ خلت من ذی الحجۃ سنۃ خمس وثلاثین ۔
حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ  سنہ پینتیس(35)ہجری ،18 ذوالحجہ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔
(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘میں ہے : وکانت خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشہر وایاما۔آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی۔
 (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
      مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے  حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ  نے کوفہ کواپنا دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہاوند میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا :دس(10) اہل اسلام شہید ہوںگے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس(10) لوگ بچیں گے۔

شہادت کی بشارت
      حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی،چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے:
عن جابر بن سمرۃ ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی : إنک مؤمر مستخلف  وإنک مقتول ۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کئے جانے والے ہو۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی ،ج 1 ص 347)

شہادت مولائے کائنات
       حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں:
ضربہ عبد الرحمن بن ملجم المرادی بالکوفۃ صبیحۃ الجمعۃ لثمانی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر رمضان سنۃ اربعین ومات بعد ثلاث لیال من ضربۃ۔
ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس(40)ہجری ، اٹھارہ(18)رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اورحملہ کے تین(3)رات  بعد آپ کی شہادت ہوئی۔
 (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
      اور الریاض النضرۃ کے بموجب17رمضان شریف کو آپ پر حملہ ہوا اور اس کے تین دن بعد آپ شہید ہوئے ۔وکان ذلک فی صبیحۃیوم سبع عشرۃ من رمضان صبیحۃ بدر۔(الریاض النضرۃ ،ج1،ص296)
      حضرت مولائے کائنات کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو شہادت کا منصبِ رفیع عطا فرمایا، ابن ملجم شقی کے حملہ کرنے کے بعد صبح صادق کے وقت آپ نے فرمایا کہ’’ میرا چہرہ مشرق کی سمت پھیر دو!جب چہرۂ مبارک مشرق کی جانب پھیر دیا گیا تو آپ نے فرمایا:ائے صبح صادق؛تجھے اس ذات کی قسم جس کے حکم سے تو نمودار ہوتی ہے!بروز قیامت تو گواہی دینا کہ جس وقت سے میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ہے ؛اس وقت سے آج تک کبھی تو نے مجھے سوتا ہوا نہ پایا،تیرے نمودار ہونے سے قبل ہی میں بیدار ہوجاتا۔‘‘پھر سجدہ ریز ہوکر آپ نے دعا کی؛الہی!قیامت کے دن جبکہ ہزارہا انبیاء وملائکہ ،صدیقین وشہداء تیرے عرش عظیم کو دیکھ رہے ہوں گے؛ اس وقت تو گواہی دینا کہ جب سے میں نے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا؛ کبھی آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔        (ملخص ازشہادت نامہ)

غسل مبارک
      حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہکے غسل مبارک اور نمازجنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں:
وغسلہ ابناہ الحسن والحسین وعبد اللہ بن جعفر وصلی علیہ الحسن ۔

آپ کے شہزادگان
 حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔  (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)



ارشادات وفرمودات‘حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ
      علامہ مومن بن حسن شبلنجی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کتاب’ نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ سے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشادات وفرمودات نقل کئے جارہے ہیں:
شیریں کلامی
من عذب لسانہ کثر اخوانہ۔
جس کی زبان شیریں ہو اس کے دوست واحباب زیادہ ہوتے ہیں۔
نیکی کی برکت
بالبر یستعبد الحر۔
نیکی اور حسن سلوک کے ذریعہ آزاد شخص کو بھی تابع کیا جاسکتا ہے۔
تقلیل کلام
اذا تم العقل نقص الکلام۔
جب عقل کا مل ہوتی ہے تو آدمی گفتگو کم کرتا ہے۔
من طلب مالا یعنیہ فاتہ مایعنیہ۔
جو شخص بے فائدہ چیزوں کو طلب کرتا ہے، ضروری چیزیں اس سے چھوٹ جاتی ہیں۔
غیبت سے پرہیز
السامع  للغیبۃ احد المغتابین ۔
غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
تقدیر اور تدبیر
اذا حلت المقادیر بطلت التدابیر۔
جب تقدیر کا فیصلہ آجاتا ہے تو تدبیر ناکام ہوجاتی ہے۔
نادان اور دانا کی پہچان
قلب الاحمق فی فیہ ،ولسان العاقل فی قبلہ۔
بے وقوف کا دل اس کی زبان میں ہوتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔
عفوودرگزر
اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو شکرا للقدرۃ علیہ۔
جب تم اپنے دشمن پر قابو پالو تو اس پر قابو پانے کے شکر میں عفو ودرگزر کو اختیار کرو!۔
بخالت کا نقصان
البخیل یستعجل الفقر،یعیش فی الدنیا عیشۃ الفقراء ویحاسب فی الاخرۃ حساب الاغنیاء ۔البخل جامع لمساوی الاخلاق۔
بخیل شخص بہت جلد تنگدست ہوجاتا ہے ،وہ دنیا میں تو تنگدستوں کی طرح زندگی گزار تا ہے اور آخرت میں اس سے مالداروں کی طرح حساب لیا جائے گا۔بخالت تمام اخلاقی خرابیوں کا مجمع ہے۔
علم کا فائدہ اور جہالت کا نقصان
العلم یرفع الوضیع ،والجھل یضع الرفیع۔
علم پستی میں رہنے والوں کو بلندی عطا کرتا ہے اور جہالت بلند آدمی کو بے وقار کردیتی ہے۔
تواضع وخاکساری
لاتکون غنیا حتی تکون عفیفا،ولاتکون زاھدا حتی تکون متواضعا،ولاتکون متواضعا حتی تکون حلیما،ولا یسلم قلبک حتی تحب للمسلمین ما تحب لنفسک۔
تم اس وقت تک مالدار نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم پاک دامن نہ ہوجاؤ،اور اس وقت تک زاہد (دنیا سے بے رغبتی کرنے والے )نہیںہوسکتے جب تک کہ تم منکسر المزاج نہ ہوجاؤ،اور تم اس وقت تک متواضع نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم بردبار نہ ہوجاؤ،اور تمہارا دل اس وقت تک قلب سلیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم مسلمانوں کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
مصیبت کے وقت صبر کا دامن تھامنے کی تلقین
وطن نفسک علی الصبر علی ما اصابک۔قل عند کل شدۃ:’’ لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘ تکف۔وقل عند کل نعمۃ :’’ الحمد للہ‘‘ تزد منھا۔
جو کچھ تم پر مصیبت آئے اس پراپنے آپ کو صبر کا عادی بنالو۔ہر مصیبت کے وقت’’لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘کہا کرو ،اس کی برکت سے تم مصیبت کو روک دوگے،اور ہر نعمت وراحت کے وقت ’’الحمد للہ‘‘کہا کروکہ تم نعمتوں میں اضافہ پاؤگے۔
گوشہ نشینی وتنہائی
 الوحدۃراحۃ ، والعزلۃ عبادۃ،والقناعۃ غنی،والاقتصاد بلغۃ۔
 تنہائی راحت ہے،گوشہ نشینی عبادت ہے،قناعت(اپنے نصیب پر راضی رہنا)تونگری ہے اور میانہ روی بقدر ضرورت (چیزوں کو پورا کرتی)ہے۔
مردم شناسی کا طریقہ
ولا تعرف الناس الا بالاختبار،فاختبر اہلک وولدک فی غیبتک،وصدیقک فی مصیبتک،وذا القرابۃ عند فاقتک
لوگوں کو امتحان وآزمائش کے ذریعہ تم پہچان سکتے ہو، توتم اپنے گھر اور اپنی اولاد کو غائبانہ میں آزماؤ!اپنے دوست کو اپنی مصیبت کے وقت آزماؤ!اور اپنے رشتہ دار کو اپنی فاقہ کشی اور تنگدستی کے وقت آزماؤ!۔
دنیا کی بے ثباتی
      آپ نے ارشاد فرمایا:
الناس نیام فاذا ماتوا انتبھوا۔
لوگ خواب غفلت میں ہیں،جب انہیں موت آئے گی تو بیدار ہوںگے۔
الدنیا والآخرۃ کالمشرق والمغرب،ان قربت من احدھما بعدت عن الاخر۔
  دنیا وآخرت مشرق ومغرب کی طرح ہے ،اگر تم ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوجاؤگے تو دوسرے سے خود بخود دور ہوجاؤگے۔
٭۔ ۔ ۔      آپ نے ارشاد فرمایا:
الناس من جہۃ التمثال أکفاء   ٭   أبوہم آدم ، والأم حواء .
تمام انسان جسم کے لحاظ سے برابر ہیں،ان کے والد حضرت آدم اور والدہ حضرت حواء ہیں علیہما السلام۔
فإن یکن لہم من أصلہم شرف  ٭  یفاخرون بہ،فالطین والماء .
اگر ان کی اصل کے لحاظ سے کوئی عزت وبزرگی ہے ،جس پر وہ فخر کرسکتے ہیں تو وہ مٹی اور پانی ہے
ماالفضل إلا لأہل العلم إنہم  ٭  علی الہدی لمن استہدی أدلاء.
فضیلت وعظمت صرف اہل علم کے لئے ہے کیونکہ،وہ ہدایت پر ہیں اور طالبین ہدایت کے لئے رہنما ہیں۔
وقیمۃ المرء ما قد کان یحسنہ  ٭  والجاہلون لأہل العلم أعداء .
اور آدمی کی قدر وقیمت انہیں خوبیوں سے ہے جو اسے زینت بخشے ،
اور جاہل لوگ اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں۔
فقم بعلم، ولاتطلب بہ بدلا    ٭  فالناس موتی،وأہل العلم أحیاء .
تو تم طلب علم کے لئے کمربستہ ہوجاؤ اور اس علم کے ذریعہ کوئی دنیوی فائدہ کے طلبگار نہ بنو،کیونکہ عام انسان مردے ہیں اور علم والے زندے ہیں۔
      حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ ،آپ کے فرامین وارشادات، عادات واطوار اور آپ کی تابناک زندگی بہترین نمونۂ عمل ہے،جس میں آپ کے چاہنے والوں اور محبین کے لئے درس حق وصداقت ہے کہ وہ غفلت سے بچیں اور آخرت کی تیاری کریں،نمازوں کا اہتمام کریں اور کتاب وسنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔
      اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ وطفیل حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے بے پناہ محبت کرنے والا بنائے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے بے انتہاء عقیدت والفت رکھنے والابنائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں مستفیض فرمائے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے۔
      آمِیْن بِجَاہِ  طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
از:ضیاء ملت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآباد۔