Kufr o Shirk kya hai ???


کفر

    کفر کے معنی چھپانا اور مٹا نا ہے اسی لئے جرم کی شرعی سز اکو کفارہ کہتے ہیں کہ وہ گناہ کو مٹادیتا ہے ایک دوا کانام کافور ہے کہ وہ اپنی تیز خوشبو سے دوسری خوشبوؤ ں کو چھپالیتا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

اِنۡ تَجْتَنِبُوۡا کَبٰٓئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنۡکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمۡ مُّدْخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱

اگر تم بڑے گناہوں سے بچو گے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ مٹا دیں گے اور تم کو اچھی جگہ میں داخل کر یں گے (پ5،النسآء:31)
    قرآن شریف میں یہ لفظ چندمعنوں میں استعمال ہواہے ناشکری،انکار، اسلام سے نکل جانا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷

اگر تم شکر کرو گے تو تم کو اور زیادہ دیں گے اور اگر تم ناشکری کرو گے تو ہمارا عذاب سخت ہے(پ13،ابرٰہیم:7)

(2) وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲

میرا شکر کرونا شکری نہ کرو(پ2،البقرۃ:152)

(3) وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلْتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹

فرعون نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ تم نے اپنا وہ کام کیا جو کیا اور تم ناشکر ے تھے(پ19،الشعرآء:19)


    ان آیات میں کفر بمعنی ناشکری ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:

(1) فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی

پس جوکوئی شیطان کا انکا ر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے مضبوط گرہ پکڑلی۔(پ3،البقرۃ:256)

(2) یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اس دن تمہارے بعض بعض کا انکار کریں گے اور بعض بعض پر لعنت کریں گے ۔(پ۲۰،عنکبوت:۲۵)

(3) وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶

یہ معبود ان باطلہ ان کی عبادت کے انکاری ہوجاویں گے۔(پ26،الاحقاف:6)
    ان تمام آیات میں کفر بمعنی انکار ہے نہ کہ اسلام سے پھر جانا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲

فرمادو کافر و میں تمہارے معبودوں کو نہیں پوجتا۔(پ30الکٰفرون:1۔2)

(2) فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ

پس وہ کافر (نمرود )حیران رہ گیا۔(پ3،البقرۃ:258)

(3) وَالْکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴

اور کافر لوگ ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)

(4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ

وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا ، اللہ عیسی ابن مریم ہیں۔(پ6،المآئدۃ:17)

(5) لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ

بہانے نہ بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے(پ10،التوبۃ:66)

(6) فَمِنْہُمۡ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ

ان میں سے بعض ایمان لے آئے بعض کافر رہے ۔(پ3،البقرۃ:253)
    ان جیسی اور بہت سی آیات میں کفر ایمان کا مقابل ہے جس کے معنی ہیں بے ایمان ہوجانا، اسلام سے نکل جانا ۔ اس کفر میں ایمان کے مقابل تمام چیزیں معتبر ہوں گی یعنی جن چیزوں کا ماننا ایمان تھا ان میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے ۔ لہٰذا کفر کی صدہا قسمیں ہوں گی ۔ خدا کا انکار کفر، اس کی تو حید کا انکا ر یعنی شرک یہ بھی کفر، اسی طر ح فرشتے،دوزخ وجنت، حشر نشر ، نماز ، روزہ،قرآن کی آیتیں،غرضیکہ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔ اسی لئے قرآن شریف میں مختلف قسم کے کافروں کی تردید فرمائی گئی ہے جیسا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ شرک کی بحث میں آوے گا۔

حقیقتِ کفر

     جیسے کہ صدہاچیزوں کے ماننے کا نام ایمان تھا لیکن ان سب کا مدار صرف ایک چیز پر تھا یعنی پیغمبر کوماننا کہ جس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کما حقہ مان لیا ۔ اس نے سب کچھ مان لیا ۔ اسی طر ح کفر کا مدار صرف ایک چیز پر ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاانکار، ان کی عظمت کا انکار ، ان کی شان اعلی کا انکار ، اصل کفر تو یہ ہے باقی تمام اس کی شاخیں ہیں مثلا جورب کی ذات یا صفات کاانکار کرتا ہے وہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے کہ حضور نے فرمایا : اللہ ایک ہے۔ یہ کہتا ہے کہ دو ہیں۔اسی طر ح نماز، رو زہ وغیرہ کسی ایک کا انکار درحقیقت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا

انکار ہے کہ وہ سر کار فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں فرض ہیں۔وہ کہتا ہے کہ نہیں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ادنی توہین ،ان کی کسی شے کی توہین، قرآنی فتوے سے کفر ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙ ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوۡنَ حَقًّا

اور وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم پیغمبر وں پر ایمان لائینگے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان وکفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں یہی لوگ یقینا کا فر ہیں(پ6،النسآء:150۔151)

(2) وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴

کافروں ہی کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

(3) وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۱

اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان ہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ10،التوبۃ:61)
    یعنی صرف کافر کو دردناک عذاب ہے اور صرف اسے درد ناک عذاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دے ۔لہٰذا پتا لگا کہ صرف وہ ہی کافر ہے جو رسول کو ایذادے اور جو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت واحترام ، خدمت ، اطاعت کرے وہ سچا مومن ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴

اورجوایمان لائے اورانہوں نے ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیااوروہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74)

رب تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلَمْ یَعْلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیۡمُ ﴿۶۳

کیا انہیں خبر نہیں کہ جو مخالفت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ اس میں رہے گا ۔ یہ بڑی رسوائی ہے ۔
    بلکہ جس اچھے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطا عت کا لحاظ نہ ہو بلکہ ان کی مخالفت ہو وہ کفر بن جاتا ہے اور جس برے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہو وہ ایمان بن جاتا ہے مسجد بنانا اچھا کام ہے لیکن منافقین نے جب مسجد ضرار حضور کی مخالفت کرنے کی نیت سے بنائی توقرآن نے اسے کفر قرار دیا ہے۔ فرماتا ہے :

وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ

اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچا نے اور کفر کیلئے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے۔(پ11،التوبۃ:107)
    نماز توڑنا گناہ ہے لیکن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بلانے پر نماز توڑنا گناہ نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحْیِیۡکُمْ

اے ایمان والو اللہ رسول کا بلاوا قبول کروجب وہ تمہیں بلائیں اس لئے کہ وہ تمہیں زندگی بخشتے ہیں۔(پ9،الانفال:24)

    اسی لئے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اونچی آواز کرنے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ادنیٰ گستاخی کرنے کو قرآن نے کفر قرار دیا جس کی آیات ایمان کی بحث میں گز ر چکیں۔ شیطان کے پاس عبادات کافی تھیں مگر جب اس نے آدم علیہ السلام کے متعلق کہا کہ

قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۶﴾قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿۷۷

میں ان سے اچھا ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا کیا رب نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہوگیا۔ (پ23،ص:76۔77)
تو فورا کافر ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام کے جادو گر وں نے موسیٰ علیہ السلام کا ادب کیا کہ جادو کرنے سے پہلے عرض کیا

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحْنُ الْمُلْقِیۡنَ ﴿۱۱۵

عرض کیا کہ اے موسی یا پہلے آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں ۔(پ9،الاعراف:115)
    اس اجازت لینے کے ادب کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک دن میں ایمان ،کلیم اللہ کی صحابیت ، تقویٰ ، صبر ، شہادت نصیب ہوئی۔رب نے فرمایا :

فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶

جادو گر سجدے میں گرادیئے گئے ۔(پ19،الشعرآء:46)
    یعنی خود سجدے میں نہیں گرے بلکہ رب کی طر ف سے ڈال دیئے گئے۔ کافر کے دل میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب آجائے توان شاء اللہ مومن ہوجائے گا ۔ اگر مومن کو بے ادبی کی بیماری ہوجائے تو اس کے ایمان چھوٹ جانے کاخطرہ ہے۔

یوسف علیہ السلام کے بھائی قصور مند تھے مگر بے ادب نہ تھے آخر بخش دیئے گئے ۔ قابیل یعنی آدم علیہ السلام کا بیٹا جرم کے ساتھ نبی کا گستاخ بھی تھالہٰذا خاتمہ خراب ہو ا۔

شرک

    شرک کے لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا ۔ لہٰذا شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۚ

کیا ان بتوں کا ان آسمانوں میں حصہ ہے ۔(پ22،فاطر:40)

(2) ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیۡفَتِکُمْ اَنۡفُسَکُمْ ؕ

کیا تمہارے مملوک غلاموں میں سے کوئی شریک ہے اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ تم اس میں برابر ہو ان غلاموں سے تم ایساڈرو جیسا اپنے نفسوں سے ڈرتے ہو(پ21،الروم:28)

(3) رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ

ایک وہ غلام جس میں برابر کے چند شریک ہوں اور ایک وہ غلام جو ایک ہی آدمی کا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں(پ23،زمر:29)
    ان آیتوں میں شرک اور شریک لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حصہ ، ساجھا اور حصہ دار وساجھی ۔ لہٰذا شرک کے لغوی معنی ہیں کسی کو خدا کے برابر جاننا ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہواہے ۔شرک بمعنی کفران آیات میں آیا :

(1) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ

اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48)

(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا ؕ

نکاح نہ کرو مشرکوں سے یہاں تک کہ ایمان لے آویں۔(پ2،البقرۃ:221)

(3) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ

مومن غلام مشرک سے اچھاہے۔(پ2،البقرۃ:221)

(4) مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعْمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ بِالْکُفْرِؕ

مشرکوں کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجد یں آباد کریں اپنے پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے ۔(پ10،التوبۃ:17)
    ان آیات میں شرک سے مرادہر کفر ہے کیونکہ کوئی بھی کفر بخشش کے لائق نہیں اور کسی کافر مرد سے مومنہ عورت کا نکاح جائز نہیں او رہر مومن ہر کافر سے بہتر ہے خواہ مشرک ہو جیسے ہند و یا کوئی اور جیسے یہودی ، پارسی ، مجوسی۔
    دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں ۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے

(1)جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا

ان دونوں نے خدا کے برابر کر دیا اس نعمت میں جو رب تعالیٰ نے انہیں دی۔(پ9،الاعراف: 190)

(2) حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹

میں تمام برے دینوں سے بیزار ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔(پ7،الانعام:79)

(3) اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳

بے شک شرک بڑا ظلم ہے ۔(پ21،لقمٰن:13)

(4) وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶

ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔(پ13,یوسف:106)
ان جیسی صدہا آیتو ں میں شرک اس معنی میں استعمال ہوا ہے بمعنی کسی کو خدا کے مساوی جاننا۔

شرک کی حقیقت

شرک کی حقیقت رب تعالیٰ سے مساوات پر ہے یعنی جب تک کسی کو رب کے برابر نہ جانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔

تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷

خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کورب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔(پ19،الشعرآء:97)
    اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائی عیسی علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:

(1) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶

یہ لوگ بولے کہ اللہ نے بچے اختیار فرمائے پاکی ہے اس کے لئے بلکہ یہ اللہ کے عزت والے بندے ہیں ۔(پ17،الانبیاء:26)

(2) وَقَالَتِ الْیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیۡحُ ابْنُ اللہِ

یہودی بولے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی بولے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔(پ10،التوبۃ:30)

(3) وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا ؕ اِنَّ الْاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵

بنادیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا بے شک آدمی کھلا ناشکرا ہے۔(پ25،الزخرف:15)

(4) وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیۡنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ؕ اَشَہِدُوۡا خَلْقَہُمْ ؕ

انہوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں عورتیں ٹھہرایا کیا ان کے بناتے وقت یہ حاضر تھے ۔(پ25،الزخرف:19)

(5) اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىکُمۡ بِالْبَنِیۡنَ ﴿۱۶

کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیا ں بنالیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا۔(پ25،الزخرف: 16)

(6) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ

اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو بنایا اور اس کیلئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں جہالت سے ۔(پ7،الانعام:100)

(7) لَیُسَمُّوۡنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنۡثٰی ﴿۲۷

یہ کفار فرشتوں کا نام عورتوں کا سا رکھتے تھے ۔(پ27،النجم:27)
    ان جیسی بہت سی آیتوں میں اسی قسم کا شرک مراد ہے یعنی کسی کو رب کی اولاد ماننا دوسرے یہ کہ کسی کو رب تعالیٰ کی طر ح خالق مانا جائے جیسے کہ بعض کفار عرب کا عقیدہ تھا کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شرکا خالق دوسرا رب ،اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں

خالق خیر کو'' یزداں'' اور خالق شر کو ''اہر من ''کہتے ہیں ۔ یہ وہی پرانا مشر کا نہ عقیدہ ہے یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا براہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے اس قسم کے مشرکوں کی تردید کے لئے یہ آیات آئیں۔ خیال رہے کہ بعض عیسائی تین خالقوں کے قائل تھے جن میں سے ایک عیسی علیہ السلام ہیں ان تمام کی تردید میں حسب ذیل آیات ہیں۔

(1) وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۹۶

اللہ نے تم کو اور تمہارے سارے اعمال کو پیدا کیا ۔(پ23،الصافات:96)

(2) اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲

اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا مختار ہے۔(پ24،الزمر:62)

(3) خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ

اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا ۔(پ29،الملک:2)

(3) اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرْضَ

اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔(پ13،ابرٰھیم:19)

(4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ

بے شک کافر ہوگئے وہ جنہوں نے کہاکہ اللہ وہی مسیح مریم کابیٹاہے ۔(پ6،المآئدۃ:17)

(5) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ

بے شک کافر ہوگئے وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے ۔(پ6،المآئدۃ:73)

(6)لَوْکَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَت

اگر زمین وآسمان میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بگڑجاتے۔َا  (پ17،الانبیآء:22)

(7) ہٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ

یہ اللہ کی مخلوق ہے پس مجھے دکھا ؤ کہ اس کے سوااوروں نے کیا پیداکیا ۔(پ21،لقمٰن:11)
    ان جیسی تمام آیتو ں میں اسی قسم کے شر ک کا ذکر ہے اور اسی کی تردید ہے۔ اگر یہ مشرک غیر خدا کو خالق نہ مانتے ہوتے تو ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ ان معبودوں کی مخلوق دکھاؤ درست نہ ہوتا ۔
     تیسرے یہ کہ خود زمانہ کو مؤثر مانا جائے اور خدا کی ہستی کا انکار کیا جائے جیسا کہ بعض مشرکین عرب کا عقیدہ تھا ۔ موجودہ دہر یہ انہی کی یادگارہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) وَقَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوۡتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۚ

وہ بولے وہ تو نہیں مگر یہ ہی ہماری دنیا کی زندگی مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ اور انہیں اس کا علم نہیں ۔(پ25،الجاثیۃ:24)
     اس قسم کے دہر یوں کی تردید کے لئے تمام وہ آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عالم کی عجائبات میں غور کر و کہ ایسی حکمت والی چیز یں بغیر خالق کے نہیں ہوسکتیں۔

(1) یُغْشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳

ڈھکتا ہے رات سے دن کو اس میں نشانیاں ہیں فکر والوں کے لئے۔(پ13،الرعد:3)

(2) اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلْبَابِ ﴿۱۹۰

بے شک آسمان وزمین کی پیدائش اور دن رات کے گھٹنے بڑھنے میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:190)

(3) وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوۡنَ ﴿۲۱

اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لئے اور خود تمہاری ذاتوں میں ہیں تو تم دیکھتے کیوں نہیں ۔(پ26،الذٰریٰت:20،21)

(4) اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتْ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتْ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتْ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیۡفَ سُطِحَتْ ﴿۲۰﴾ٝ

کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کی طر ف کہ کیسے پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کیسا اونچا کیاگیااورپہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑاگیا اور زمین کی طر ف کہ کیسے بچھائی گئی ۔(پ30،الغاشیۃ:17۔20)
    اس قسم کی بیسیوں آیات میں ان دہر یوں کی تردید ہے ۔
    چوتھے یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو رب ہی ہے مگر وہ ایک بار پیدا کر کے تھک گیا،اب کسی کام کانہیں رہا،اب اس کی خدائی کی چلانے والے یہ ہمارے معبودین باطلہ ہیں۔ اس قسم کے مشرکین عجیب بکواس کرتے تھے ۔ کہتے تھے کہ چھ دن میں آسمان زمین پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کو

اب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے۔ چنانچہ فرقہ تعطیلیہ اسی قسم کے مشرکوں کی یاد گار ہے۔ ان کی تردید ان آیا ت میں ہے :

(1) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸

اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکن نہ آئی(پ26،قۤ:38)

(2) اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ؕ بَلْ ہُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍ ﴿٪۱۵

تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں۔(پ26،قۤ:15)

(3) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰی ؕ

اور کیا ان لوگو ں نے غور نہ کیا کہ اللہ نے آسمانوں او رزمین کو پیدافرمایا اور انہیں پیدا کر کے نہ تھکا وہ قادر اس پر بھی ہے کہ مردو ں کو زندہ کر ے ۔(پ26،الاحقاف:33)

(4) اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲

اس کی شان یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ۔(پ23،یٰسۤ:82)
    اس قسم کے مشرکوں کی تردید کیلئے اس جیسی کئی آیات ہیں جن میں فرمایا گیا کہ ہم کو عالم کے بنانے میں کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں پہنچتی ۔ اس قسم کے مشرک قیامت کے منکر اس لئے بھی تھے کہ وہ سمجھتے تھے ایک دفعہ دنیا پیدا فرما کر حق تعالیٰ کافی تھک چکا ہے اب دو بارہ کیسے بنا سکتا ہے۔ معاذاللہ ! اس لئے فرمایا گیا کہ ہم تو صرف

''کُنْ''سے ہر چیز پیدا فرماتے ہیں تھکن کیسی؟ ہم دوبارہ پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادرہیں کہ اعادہ سے ایجاد مشکل ہے ۔

شرک کی پانچویں قسم

    یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق ومالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لئے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لئے چن لئے ہیں جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے ، اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں، ہماری مشکل کشائی کردیں،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑجاوے جیسے اسمبلی کے ممبرکہ اگر چہ وہ سب بادشاہ کی رعایا تو ہیں مگر ملکی انتظام میں ان کو ایسا دخل ہے کہ ملک ان سب کی تدبیر سے چل رہا ہے ۔ یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتا ر تھے اور اپنے بت ودّ ، یغوث، لات ومنات وعزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے ۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک ، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک ، غرضیکہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتو قیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے ۔ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے :

وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶

ان مشرکین میں سے بہت سے وہ ہیں کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے۔(پ13،یوسف:106)

    کہ خدا کو خالق ، رازق مانتے ہوئے پھر مشرک ہیں ، انہی پانچویں قسم کے مشرکین کے بارے میں فرمایا گیا :

(1) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱

اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین پیدا کئے او رکام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ کہ کیوں بھولے جاتے ہیں ۔(پ21العنکبوت:61)

(2) قُلْ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۸﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوۡنَ ﴿۸۹

فرمادو کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضے میں ہے جو پناہ دیتا ہے اور پناہ نہیں دیا جاتا بتا ؤ اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ ہی کی ہے کہو پھر کہا ں تم پر جادو پڑا جاتا ہے ۔(پ18المؤمنون:88۔89)

(3) وَ لَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیۡزُ الْعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹

اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کئے تو کہیں گے کہ انہیں غالب جاننے والے اللہ نے پیدا کیا ہے ۔(پ25،الزخرف:9)

(4) قُلۡ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۵

فرماؤ کس کی ہے زمین اور اس کی چیزیں اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ کی فرماؤ کہ تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے ۔(پ18،المؤمنون:84۔85)

(5) قُلْ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۸۶﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۸۷

فرماؤ کہ سات آسمان اور بڑے عرش کا رب کون ہے ؟ توکہیں گے اللہ کا ہے فرماؤ کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ۔(پ18،المؤمنون:86۔87)

(6) قُلْ مَنۡ یَّرْزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرْضِ اَمَّنۡ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الۡاَبْصَارَ وَ مَنۡ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمْرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱

فرماؤ تمہیں آسمان وزمین سے رزق کو ن دیتا ہے یا کان آنکھ کاکون مالک ہے اورکون زندے کو مردے سے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور کاموں کی تدبیر کو ن کرتاہے تو کہیں گے اللہ!فرماؤتوتم ڈرتے کیوں نہیں ؟(پ11،یونس:31)

(7) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱

اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج وچاند تا بعدار کیا تو کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ تم کدھر پھر ے جاتے ہو۔(پ21،العنکبوت:61)

(8) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنۡۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ؕ

اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتاراپس زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔(پ21،العنکبوت:63)

    ان جیسی بہت سی آیات سے معلوم ہوا کہ یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ،مالک ، زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، پناہ دینے والا, عالم کا مدبر مانتے تھے مگر پھر مشرک تھے یعنی ذات، صفات کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک رہے کیوں ؟ یہ بھی قرآن سے پوچھئے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ ان عقائد کے باوجود وہ دو سبب سے مشرک تھے ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ کوبھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی۔ یہاں'' للہ ''میں لام ملکیت کا ہے یعنی وہ اللہ کی ملکیت مانتے تھے مگر اکیلے کی نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسرے معبودوں کی بھی،اسی لیے وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت وقبضہ صرف اللہ کا ہے ، اور وں کا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے اللہ کا بھی ہے اور دوسروں کا بھی، دو سرے اسلئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے ۔ خود مجبور ہے اسی لئے ان دونوں عقیدوں کی تردید کے لئے حسب ذیل آیات ہیں:

 (1) وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪

اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے لئے اولاد نہ بنائی او رنہ اس کے ملک میں کوئی شریک ہے او رنہ کوئی کمزوری کی وجہ سے ا س کا ولی مدد گار ہے تو اس کی بڑائی بولو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111)
    اگر یہ مشرکین ملک اور قبضہ میں خدا کے سوا کسی کوشریک نہیں مانتے تھے تو یہ تردید کس کی ہو رہی ہے او رکس سے یہ کلام ہو رہاہے ۔

(2) تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾اِذْ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۸

دوزخ میں مشرکین اپنے بتوں سے کہیں گے اللہ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے ۔کیونکہ ہم تم کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔(پ19،الشعرآء:97۔98)
    یہ مشرک مسلمانوں کی طر ح اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا خالق، مالک بلا شرکت غیرکے مانتے تھے تو برابر ی کرنے کے کیا معنی ہیں ،فرماتا ہے:

(3)اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳

کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہم سے بچاتے ہیں وہ اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی کوئی یاری ہو۔(پ17،الانبیآء:43)
    اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید کی ہے کہ ہمارے معبود ہمیں خدا سے مقابلہ کر کے بچاسکتے ہیں :

(4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ

بلکہ انہوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرماد و کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔(پ 24الزمر:43،44)
    اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے معبود بغیر اذن الٰہی دھونس کی شفاعت کر کے ہمیں اس کے غضب سے بچاسکتے ہیں اسی لئے اس جگہ بتوں کے مالک نہ ہونے اور رب کی ملکیت کا ذکر ہے یعنی ملک میں شریک ہونے کی وجہ سے اس کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے:

(5) وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ

او رپوجتے ہیں وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو جو نہ انہیں نقصان دیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے شفیع ہیں اللہ کے نزدیک ۔(پ11،یونس:18)
    اس آیت میں بھی مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے بت دھونس کی شفاعت کریں گے کیونکہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی مِلک میں او رعالم کاکام چلانے میں شریک ہیں ۔
    خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا بلکہ اس کی پانچ صورتیں تھیں:
(۱)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا (۲) چند مستقل خالق ماننا (۳) اللہ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا (۴) اللہ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا (۵) اللہ کو خالق و مالک مان کر اسے دوسرے کا محتاج ماننا ،جیسے اسمبلی کے ممبر، شاہان موجودہ کیلئے اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔ ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شر ک ثابت نہیں۔
     ان پانچ قسم کے مشرکین کے لئے پانچ ہی قسم کی تردید یں قرآن میں آئی ہیں جن پانچوں کا ذکر سورہ اخلاص میں اس طر ح ہے کہ قُلْ ھُوَاللہُ میں دہر یوں کا رد کہ اللہ عالم کا خالق ہے ۔ اَحَدٌ میں ان مشرکوں کا رد جو عالم کے دوخالق مستقل مانتے تھے تا کہ عالم کا کام چلے۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ میں ان مشرکین کا رد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام وحضرت عزیر علیہ السلام کو رب تعالیٰ کا بیٹا یا فرشتوں کو رب تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے

تھے۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُوًا اَحَدٌ میں ان لوگو ں کا رد جو خالق کو تھکاہوا مان کر مدبر عالم اوروں کو مانتے تھے ۔
(۱) اعتراض: مشرکین عرب بھی اپنے بتو ں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا رسی کا وسیلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی نبیوں ، ولیوں کو شفیع اوروسیلہ مانتے ہیں تو وہ کیوں مشرک ہوگئے اور یہ کیوں مومن رہے ؟ ان دونوں میں کیا فر ق ہے ؟
جواب : دو طر ح فرق ہے کہ مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو کہ واقعہ میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ کے محبو بوں کو شفیع او روسیلہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کافر ہوئے اور یہ مومن رہے جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم ، ہولی، دیوالی ، بنارس ، کاشی کی تعظیم شرک ہے مگرآب زمزم ، مقام ابراہیم ، رمضان ، محرم، مکہ معظمہ ، مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے ۔ حالانکہ زمزم اور گنگا جل دو نوں پانی ہیں۔ مقام ابراہیم اور سنگ اسود ۔ اور بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں وغیرہ وغیرہ ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے، مومن انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو محض بندہ محض اعزازی طور پر خدا کے اذن وعطا سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں ۔ اذن اور مقابلہ ایمان وکفر کا معیا ر ہے ۔
(۲)اعتراض : مشرکین عر ب کا شرک صرف اس لئے تھا کہ وہ مخلوق کو فریاد رس، مشکل کشا، شفیع ، حاجت روا،دور سے پکار سننے والا، عالم غیب،وسیلہ مانتے تھے وہ اپنے بتوں کو خالق، مالک ، رازق ، قابض موت وحیات بخشنے والا نہیں مانتے تھے ۔ اللہ کا بندہ مان کر یہ پانچ باتیں ان میں ثابت کرتے تھے قرآن کے فتوے سے وہ مشرک ہوئے۔ لہٰذاموجودہ مسلمان جو نبیوں علیہم السلام ، ولیوں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے لئے یہ مذکورہ بالا چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ انہیں کی طر ح مشرک ہیں اگر چہ انہیں خدا کا بندہ مان کر ہی کریں چونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لئے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے۔
جواب : یہ محض غلط اور قرآن کریم پر افترا ہے۔جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جاوے ، شرک نہیں ہوسکتا۔ وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے ۔ مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ کا بندہ جان کر مانتا ہے لہٰذا وہ مومن ہے ۔ ان اللہ کے بندوں کے لئے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ،قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
    عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ، اندھوں ، کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں، میں باذن الٰہی ہی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں جو کچھ تم گھر میں کھاؤیا بچا ؤ بتا سکتا ہوں ۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیص میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ۔ انہیں آرام ہوگا، جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا ۔ ان تمام میں مافوق الاسباب مشکل کشائی حاجت روائی علم غیب سب کچھ آگیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کی خاک نے بے جان بچھڑے میں جان ڈال دی،یہ مافوق الاسباب زندگی دینا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء دم میں لاٹھی اور دم میں زندہ سانپ بن جاتا تھا آپ کے ہاتھ کی بر کت سے، حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام میں لے آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان بیٹھے ہوئے یوسف علیہ السلام کو سات قفلوں سے بندمقفل کو ٹھڑی میں برے ارادے سے بچایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو حج کیلئے پکارا اور تاقیامت آنے والی روحوں نے سن لیا یہ تمام معجزات قرآن کریم سے ثابت ہیں جن کی آیات ان شاء اللہ باب احکام قرآنی میں پیش کی جائیں گی ۔ یہ توسب شرک ہوگئیں بلکہ معجزات اور کرامات توکہتے ہی انہیں ہیں جواسباب سے ورا ہو ۔ اگر مافوق الاسباب تصرف ماننا شرک ہوجاوے تو ہر معجزہ وکرامت ماننا شرک ہوگا۔ ایسا شرک ہم کو مبارک رہے جو قرآن کریم سے ثابت ہو اور سارے انبیاء و اولیاء کا عقیدہ ہو۔
    فرق وہی ہے کہ باذن اللہ یہ چیزیں بندوں کو ثابت ہیں اور رب کے مقابل ماننا شرک ہے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کے معجزات اور کرامات تو ہیں ہی ۔ ایک ملک الموت اور ان کے عملہ کے فرشتے سارے عالم کو بیک وقت دیکھتے ہیں او رہر جگہ بیک وقت تصرف کرتے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

 (1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ

فرمادو کہ تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11)

(2) حَتّٰۤی اذَا جَآءَتْہُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ

یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے قاصد آئینگے انہیں موت دینے (پ8،الاعراف:37)
     ابلیس ملعون کو یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ گمراہ کرنے کیلئے تمام کو بیک وقت دیکھتا ہے وہ بھی اور اس کی ذریت بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(3)  اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ

وہ شیطان اور اس کا قبیلہ تم سب کو وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔(پ8،الاعراف:27)
    جو فرشتے قبر میں سوال و جواب کرتے ہیں، جو فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے، وہ سب جہان پر نظر رکھتے ہیں کیونکہ بغیر اس قوت کے وہ اتنا بڑا انتظام کرسکتے ہی نہیں اور تمام کا م مافوق الاسباب ہیں ۔ جواہر القرآن کے اس فتوے سے اسلامی عقائد شرک ہوگئے ۔ فر ق وہ ہی ہے جو عرض کیا گیا کہ رب کے مقابل یہ قوت ماننا شرک ہے اور رب کے خدام اور بندوں میں باذن الٰہی رب کی عطا سے یہ طاقتیں ماننا عین ایمان ہے ۔