اسم
مبارک:
حضرت سید ابو محمد حسن المثنیٰ
شجرہ
نسب:
سیدنا حسن مثنیٰ بن خلیفہ راشد پنجم سیدنا امام حسن المجتبیٰ بن سیدنا امام
علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
ولادت باسعادت:
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ۱۲ رمضان
المبارک کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شادی سید الشہدائے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ
عنہاسے ہوئی۔ آپ علویوں کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ کربلا کے میدان میں زخمی ہوئے اور اپنے
ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے اس معرکے سے نجات حاصل کر سکے۔ کوفہ میں اپنے
ماموں کے زیر نگرانی صحت یاب ہوئے۔ اس کے بعد کوفہ سے مدینہ واپس آگئے۔
حجاج بن یوسف کے خلاف عبد
الرحمان بن محمد بن اشعث کی شورش میں آپ نے عبد الرحمٰن کا ساتھ دیا۔ آپ رضی اللہ
عنہ اپنے زمانِ حیات میں حضرت امیر المؤمنین
امام علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے
موقوفات کے متولی تھے۔
نام و نسب:
آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حضرت سیدنا امام حسن المجتبیٰ رضی
اللہ عنہ ہے۔ آپ کی والدہ کا نام "خولہ
بنت منظور بن زبان فزاری ہے۔ محمد بن طلحہ بن عبید اللہ کا جنگ جمل میں قتل ہونے کے
بعد حضرت امام حسن کے عقد میں آئیں۔
کنیت:
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت "ابو محمد" تھی۔
ازدواج:
حضرت امام حسین رضی اللہ
عنہ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاآپ کی زوجہ تھیں۔ امام حسین رضی
اللہ عنہ نے واقعۂ عاشورا سے پہلے اپنی صاحبزادی کا عقد امام حسن مثنیٰ رضی اللہ
عنہ سے کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا
امام حسین رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا رشتہ مانگا تو سیدنا امام
حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری بیٹیوں فاطمہ صغری، فاطمہ کبری اور سکینہ میں سے
جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کچھ نہ کہا۔لیکن امام
حسین رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاکا عقد حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ
سے کر دیا۔یہ شادی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سال انجام پائی۔حضرت امام
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت 61 ہجری قمری کی 10 محرم کو ہوئی۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال
یہی ہے کہ عاشورا سے کچھ مدت پہلے 60 ہجری میں ہی مکہ میں انجام پائی۔ پس اس بنا پر
حسن مثنی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ صغری بنت امام حسین کے ہمراہ کربلا میں
موجود تھے۔
علامہ ابن کثیر نے بھی حضرت
سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاکی کربلا میں موجودگی کا ایک واقعہ نقل کیا علامہ ابن
کثیر لکھتے ہیں کہ جب مستورات اہلبیت کو یزید کے دربار میں لایا گیا تو سیدہ فاطمہ
صغری بنت حسین جو سیدہ سکینہ بنت حسین سے بڑی تھی نے کہا کہ اے یزید !رسولﷺ کی بیٹیاں
قیدی؟
یزید کہنے لگا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں۔
اولاد وامجاد:
حضرت سیدہ فاطمہ صغری بنت
امام حسین سے امامزادہ حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد عبدﷲالمحض ، ابراہیم الغمر
، حسن مثلث تھے۔ ان تینوں فرزندوں کی وفات عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زندان میں
ہوئی۔پھر ان کے بعد عبداللہ المحض بن حسن رضی اللہ عنہ ایک عالم اور ادیب شخص تھے جنہوں
نے عباسیوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی۔ نفس زکیہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہونے
والے محمد اور قتیل باخمرا کے نام سے مشہور
ابراہیم بھی ان کی نسل میں سے ہیں۔امامزادہ
سید حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے دو اور صاحبزادے
داؤد اور جعفر بھی ہوئے جو آپ کی دوسری زوجہ ام داؤد حبیبہ سے ہوئے آپ حسن مثنی رضی
اللہ عنہ کی زوجہ اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی رضاعی ماں ہیں۔ آپ کی کنیت آپ
کے بیٹے داؤد بن حسن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ام داؤد مشہور ہوئی۔ آپ کے نام میں اختلاف
پایا جاتا ہے، بعض نے آپ کا نام حبیبہ جبکہ بعض نے فاطمہ لکھا ہے۔ آپ کی حالات زندگی
کا تذکرہ کرنے والے تمام مورخین نے ایک واقعے کو ذکر کیا ہے جس میں ام داؤد اپنے بیٹے
کو منصور دوانیقی کے جیل سے آزاد کرانے کیلئے امام جعفر صادق سے مدد مانگتی ہیں اس
موقع پر امام انہیں ایک مخصوص عمل انجام دینے کا حکم دیتے ہیں جو بعد میں عمل ام داؤد
سے مشہور ہو گیا ۔
واقعۂ عاشورا:
امام حسن مثنیٰ رضی اللہ
عنہ واقعۂ کربلا میں موجود تھے ابو مخنف احمد بن ابراہیم حسنی سے منقول روایت کے مطابق
اس وقت آپ کی عمر 19 یا 20 سال تھی۔ روز عاشورا آپ رضی اللہ عنہ نے بڑی بہادری کے ساتھ
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں جنگ کی اور زخمی ہو کر اسیر ہوئے۔ لیکن اپنے
ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے نجات پائی اور کوفہ میں ان کی زیر نگرانی آپ
کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ واپس آگئے۔
نقل حدیث:
حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت امام حسن المجتبیٰ
اور دوسرے افراد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ
کریم کی وصیت کے مطابق حسن مثنیٰ مدینے میں حضرت امام علی المرتضیٰ موقوفات کے شرعی متولی تھے۔ حجاج بن یوسف ثقفی جب مدینے کا حاکم تھا
تو اس نے حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے تقاضا
کیا کہ وہ اس کے چچا عمر بن علی کو ان موقوفات کی تولیت میں شریک قرار دے لیکن چونکہ
یہ تولیت حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہاکی اولاد سے مخصوص تھی اس لئے آپ نے انکار
کیا اور شام میں عبد الملک بن مروان کے پاس گئے جہاں اموی خلیفہ نے بھی حجاج کو اس
کام سے منع کیا۔امامزادہ سید حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد ان موقوفاتِ کی تولیت
اپنے فرزند امامزادہ سید عبد اللہ المحض رضی اللہ عنہ کے سپرد کی لیکن منصور عباسی
نے امامزادہ سید عبدﷲ المحض رضی اللہ عنہ کو زندانی کر دیا اور ان موقوفات کی تولیت
اپنے اختیار میں لے لی۔
عبد الرحمٰن بن محمد کی معاونت:
جب عبد الرحمٰن بن محمد بن
اشعث کندی نے حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزد
کرنے کا ارادہ کیا تو چونکہ لوگ اس وقت خلافت صرف قریشی شخص کی نسبت قبول کرنے کو تیار
تھے،اس نے اس کے متعلق علویوں کے بزرگوں حضرت امام سجاد رضی اللہ عنہ اور امامزادہ
حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی ۔ امام سجاد رضی اللہ عنہ نے اس کے اس تقاضے
کو رد کر دیا اور امامزادہ حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے
والوں کے بیعت توڑنے کے احتمال کی بنا پر اسے رد کیا لیکن عبد الرحمان بن محمد کے مسلسل
اسرار کی بنا پر اسے قبول کر لیا اور اس کے ساتھ بعنوان خلیفہ انکی بیعت ہوئی ۔ عراق
کے مشہور علماء عبدالرحمان بنابی لیلی، شعبی، محمدبن سیرین و حسن بصری نے ان کی بیعت
کی اور حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ الرضا کے نام سے ملقب ہوئے ۔
وصال پر ملال:
85 ہجری
میں ابن اشعث کے قتل کے بعد امامزادہ سید حسن مثنی رضی اللہ عنہ مخفی ہو گئے لیکن آخرکار
ولید بن عبد الملک بن مروان کے ساتھیوں نے انہیں زہر دے کر شہید کیا۔ آپ رضی اللہ
عنہ کی شہادت ۱۷ رجب المرجب کو ہوا۔ صحیح بخاری میں روایت
منقول ہے جس کی بنا پر سیدہ فاطمہ صغری بنت
امام حسین نے ان کے مزار پر قبہ کی تعمیر کروائی۔(صحیح بخاری، البدیہہ والنہایہ، انسابالاشراف، المصابیح، تاریخ مدینہ
)
No comments:
Post a Comment