Ala Hazrat Ashrafi Miyan Kichhauchhwi Qist No. 01

الحمدللہ حمدا کثیرا دائما ابدا کما اثنی علی نفسه و اشرف الصلواۃ والسلام علی حبیبه سیدنا و شفیعنا محمد وعلی اله واھل بیته و اصحابه واتباعه واولیاء امته اجمعین
مسلمانوں کی تابناک علمی تاریخ ان کی بزرگی و عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ امام اعظم ہوں یا غوث اعظم .....   امام غزالی ہوں یا  امام رازی..... محبوب الہی ہوں یا محبوب یزدانی.....حضرت سعدی یا حافظ شیرازی ہوں .....شاہ عبدالحق محدث دہلوی ہوں یا علامہ فضل حق خیرآبادی ہوں(  رحمہم اللہ تعالی ) ان نفوس قدسیہ نے اپنے اپنے دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے فروغ واشاعت میں تاجدار عرب و عجم  صلی اللہ علیہ والہ و اصحابہ وسلم کی جانشینی کا حق ادا کیا ۔ اولیا ئے کرام ، علمائے دین اور محدثین رحمہم اللہ تعالی کی اسی نورانی و عرفانی لڑی کے ایک نایاب و بے بدل موتی قبلۃ العلماء، کعبۃ العرفاء، منبع الفیوض الرحمانیہ ، فاتح الکنوزالعرفانیہ جامع الطریقین مجمع البحرین ،  حاجی الحرمین الشریفین ،مرجع انام، اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء ، مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ (کچھوچھہ شریف) ہیں ۔

ولادت باسعادت
آپ کی ولادت سراپا سعادت 22 ربیع الثانی 1266 ؁ ہجری بمطابق دسمبر1844 ؁عیسوی کو بروز دوشنبہ بوقت صبح صادق ہوئی ۔ غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد آپ کے والد محترم حضرت سید شاہ سعادت علی قدس سرہ نے سب سے پہلے خاندان اشرفیہ کی  روایت اولی انجام دی کہ آپ دست مبارک میں قلم تھمایااور اسے پکڑ کے دوات میں ڈبوایا اور اپنے ہاتھ کے سہارے کاغذ پر "اسم جلالت"لکھوادیا۔یہ روایت خاندان اشرفیہ میں علم و فضل کی ترسیل و تحصیل کی علامت مانی جاتی ہے۔اسکے بعد آب زم زم میں ملاہوا شہد چٹایا اور غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی  کے آستانے کا  " کاجل " آنکھوں میں لگایا  یوں خاندانی  روایت کی تکمیل ہوئی۔                                    (بحوالہ حیات مخدوم الاولیاء)
آپ کا نام نامی واسم گرامی حاجی الحرمین سید علی حسین کنیت ابواحمد لقب خاندانی شاہ ۔پیر اور اعلیٰ حضرت ، خطاب سجادہ نشین سرکار کلاں اور تخلص اشرؔفی ہے۔ جناب ممدوح کا خاندان بھی اشرفی کہلاتا ہے کیونکہ آپ قدوۃ الآفاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی  کی اولاد سے ہیں ۔
شیخ الاسلام والمسلمین حاجی الحر مین الشریفین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی  محبوب سبحانی  غوث صمدانی حضرت قطب عالم غوث الاعظم سیدنا ابومحمد محی الدین الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اولاد امجاد سے ہیں اور محبوب یزدانی  غوث العالم حضرت مخدوم  سیداشرف جہانگیر سمنانی السامانی  قدس سرہ النورانی کے ہمشیرہ زادے اور نیز باعتبار تبنیت جناب موصوف کے فرزند برحق اور بلحاظ خلافت خلیفہ مطلق ہیں ۔ اسی لئے یہ خاندان والا شان حضرت  مخدوم  اوحدالدین سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ  کی طرف منسوب ہوکر خاندان اشرفیہ کہلاتا ہے۔  (بحوالہ لطائف اشرفی  وصحائف اشرفی)

سلسلہ نسب
اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ابن حاجی سید شاہ سعادت علی ابن سید شاہ قلندر بخش ابن سید شاہ تراب اشرف ابن سید شاہ محمد نوازابن سید شاہ محمد غوث ابن سید شاہ جمال الدین ابن سید شاہ عزیز الرحمن ابن سید شاہ محمد عثمان ابن سید شاہ ابوالفتح ابن سید  شاہ محمد ابن سید شاہ اشرف ابن سید شاہ حسن خلف اکبر حضرت سید شاہ عبدالرزاق  نورالعین ابن حضرت سید عبد الغفور جیلانی ابن حضرت سید ابوالعباس احمد جیلانی ابن حضرت سید بدرالدین حسن ابن حضرت سید علاء الدین  علی  جیلانی ابن حضرت سید شمس الدین محمد جیلانی ابن حضرت سید سیف الدین نجی جیلانی ابن حضرت سید ظہیر الدین احمد جیلانی ابن حضرت سید  ابونصرمحمد جیلانی ابن حضرت سید محی الدین ابی صالح نصر جیلانی ابن حضرت  قاضی القضاہ  سید تاج الدین عبدالرزاق خلف اکبر جناب غوث الثقلین سید ابومحمد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ۔چونکہ اس سلسلہ نسب کی رو سے اعلی حضرت اشرفی میاں حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین قدس سرہ کے خلف اکبر کے اولاد میں ہیں اسی لئے آپ کا خاندان سرکار کلاں کے لقب سے ملقب ہے۔                        (بحوالہ شجرہ سلسلہ عالیہ قادریہ اشرفیہ)
بچپن کا واقعہ
صاحب "حیات مخدوم الاولیاء" فرماتے ہیں:
حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی  قدس سرہ کے بچپن کا عظیم واقعہ جس نے خاندان والوں کو غرق حیرت کردیاتھا۔ وہ اس طرح بیان ہواکہ ایک مرتبہ سردی کے موسم میں حضور محبوب ربانی حسب معمول آگ جلاکر پاتھ تاپ ہے تھے کہ آپ کے خاندان کے مجذوب نسل کے ہم عصر ایک صاحب زادہ آئے اور آپ سے آگ تاپنے کی اجازت طلب کی حضرت محبوب ربانی نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ "پہلے آگ میں اپنا حصہ ڈالو پھر تاپو"۔
مجذوب صاحبزادے بولے میرے پاس تو کچھ بھی نہیں  صرف یہی شال ہے ۔ حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی نے فرمایا:
تو کوئی بات نہیں ، یہی شال آگ میں ڈال دو"
چنانچہ ان صاحبزادے نے بھی بلاچوںوچراوہی شال آگ میں ڈال دی پھر کیا تھا شال جل کر راکھ ہوگئی اور صاحبزادے بھی اور دوسرے بچوں کے ساتھ اطمینان سےہاتھ تاپتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد اٹھ کر وہ صاحبزادے گھر چل دیئے اور روتے ہوئے بزرگوں سے پورا ماجرا بیان کردیا۔ ان کی والدہ نے کہا جاؤ اور علی حسین سے اپنی شال مانگ کر لاؤ۔ بھلا جلی ہوئی چیزکو لانے کا سوال ہی کیا تھا ۔ مگر وہ صاحبزادے بھی پہونچ گئے اور رورو کر کہنے لگے ۔ "مور شال لاؤ، مور شال لاؤ"۔
اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء نے بھی فرمادیاجاؤ آگ سے کہدو "  علی حسین شال مانگتے ہیں " مجذوب صاحبزادے اٹھے اور آگ کے قریب جاکر زور زور سے کہنے لگے:
علی حسین میاں کہتے ہیں ۔ "شال نکل شال نکل "
یہ کہ کر آگ میں ہاتھ ڈال دیا اور شال نکال لی اور خوشی خوشی شال لے کر گھرپہونچے ۔ ہر شخص حیران و ششدررہ گیا اور ذراسی دیر میں یہ واقعہ مشہور ہوگیا اور ہر شخص کی زبان پر یہ واقعہ تھا زمانہ گزر جانے کے بعد آج بھی اس واقعہ کا ذکر جاری ہے۔                                           (بحوالہ حیات مخدوم الاولیاء)
تعلیم و تربیت
جب سن شریف چار برس چار مہینے اور چار دن کا ہوا تو موافق معمول خاندان مولانا گل محمد صاحب خلیل آبادی نے جو بڑے اہل دل اور عارف کا مل تھے آپ کی بسم اللہ کرائی۔اس کے بعد مولوی سلامت علی صاحب  گورکھپوری اور مولوی قادربخش صاحب کچھوچھوی سے تعلیم پائی۔ آپ عربی وفارسی کی تعلیم اپنے وقت کے جید علماء سے حاصل کی ۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد روحانیت کی جانب مائل ہوگئے آپ  نے     1282 ؁ ہجری میں اپنے برادراکبر حضرت سید شاہ ابومحمد حسین اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت کرکے خلافت و اجازت خاندانی حاصل فرمائی اور پھر انہی کی زیر نگرانی منازل سلوک و عرفان طے کیں برادرمحترم نے تکمیل روحانیت میں آپ کی بڑی مدد فرمائی آپ نے حصول روحانیت کے لئے سخت ریاضت و مجاہدہ کیا۔  1285؁ ہجری میں حضرت سید شاہ حمایت اشرف اشرفی الجیلانی  ابن سید شاہ نقی الدین اشرف اشرفی الجیلانی بسکھاروی کی دختر نیک اختر سے آپ کی شادی ہوئی۔  1290 ؁ ہجری میں حسب ارشاد ارواح بزرگان ایک سال مسلسل غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی کے درگا ہ پر چلّے کی غرض سے معتکف رہے ۔ اسی مدت میں بہ برکت روحانی حضرت محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ و بہ توجہ حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سید محی الدین عبدا لقادر جیلانی قدس سرہ تمام منازل ایقان و عرفان کو طے فرمایا ۔جب آپ  چلہ کشی سے فارغ ہوئے تو آپ کی ذات سے جہانگیری آثار ظاہر ہونے لگے ۔ آپ کی شخصیت میں ایسی کشش پیدا ہوگئی کہ جوشخص بھی ایک نظر آپ کو دیکھ لیتا آپ کا گرویدہ  ہوجاتا تھا اور جب آپ منصب خلافت و سجادہ نشینی سے ممتاز ہوئے  تھےتو آپ کے استاد محترم مولانا محمد قلندر بخش صاحب علیہ الرحمہ  نے آپ سے بیعت کی تھی اور فرمایاتھا کہ مجھ کو مدت سے اس دن کا انتظار تھا ۔ خدا کا ہزار ہزارشکرہے جس نے آج میری مراد پوری کی۔             (بحوالہ تحائف اشرفی)

خوارق عادات
آپ کےخوارق عادات جو اخلاقی صفات میں مضمر ہیں کرامتوں کی طرح مشہور ہیں بلکہ کہاجاتا ہے کہ آپ کے انسانی کمالات نے آپ کوپیکر تسخیر بنادیا ہے۔اگرچہ آپ کے صفاف و برکات غیر محدود ونامعدود ہیں لیکن بعض امور کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔ آپ سے کبھی کوئی لغزش شرعی نہیں ہوئی۔
2۔آپ نے کبھی کسی کے دل کو آزار نہیں پہونچایا۔
3۔آپ نے کبھی کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں فرمایا جو کانوں کو مکروہ معلوم ہو۔
4۔ آپ نے کبھی کسی سائل کے سوال کو رد نہیں فرمایا۔
5۔ آپ نے اپنے دسترخوان کو ہمیشہ وسیع رکھا۔
6۔ آپ نے مذہب و مشرب میں تقلیدی حثییت کو محبوب رکھا۔
7۔ ارباب حاجت کی حاجات کو رفع کرنا آپ کا جبلی شعار ہے۔
8۔ آپ نے راہ سلوک و تقلید مشائخ میں تشنیع خلائق کی کبھی پرواہ نہیں کی ۔
9۔ اعراس مشائخ چشتیہ  کی شرکت کو ہمیشہ مشاغل خاندانی کی طرح عزیز و محبوب رکھا۔
10۔ بھائی بندوں کی محبت ۔ مہمانوں  کی عزت آپ کے  خصائص سے ہے  ان صفات کو دیکھ کر خاندان اشرفیہ کےچھوٹے بڑے سب آپ کی  مدح و ثنا میں رطب اللسان تھے۔                   ( تحائف اشرفی)
سلســـــلة الذهــــب ودیگر اذکارمخصوصہ
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے بعض اذکار مخصوصہ کی تعلیم حضرت سید شاہ عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑشاہ کچھوچھوی قدس سرہ سے پائی۔ حضرت لکڑشاہ علیہ الرحمہ خاندان اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گزرے ہیں اسی طرح دیگر اوراد و ظائف کی اجازت اکثر علماء و مشائخ ہندوستان سے حاصل فرمائی۔چنانچہ جناب حضرت راج شاہ صاحب سوندھوی قدس سرہ سے اجازت و خلافت خاندان قادریہ وخاندان زاہدیہ حاصل کی اور تعلیم سلطان الاذکار وشغل محمودؔ اوردیگر اشغال مخصوصہ سے مشرف ہوئے۔ حضرت مولانا شاہ محمد امیر کابلی قدس سرہ سے مقام بلیامیں سلسلہ قادریہ منوریہ میں مجاذاور ماذون ہوئے اور تعلیم طریقہ خاص ذکر خفی قلبیؔ جو مدت مدورسے متعلق ہے حاصل کی ۔ اس سلسلے کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں جو عرفی طور سے چارواسطوں سے حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ یعنی اعلی ٰ حضرت اشرفی میاں   کو حضرت شاہ محمد امیر کابلی سے حاصل ہوا۔ ان کو حضرت مُلا اخون فقیر رامپوری قدس سرہ سے ۔ ان کو حضرت شاہ منورالہ آبادی سے ۔ جنکی عمر ساڑھے پانسو (550) سال برس کی ہوئی۔ ان کو حضرت شاہ دولاقدس سرہ سے ۔ ان کو حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ۔ اسی طرح سلسلہ اویسیہ اشرفیہ کی تعلیم حضرت سید محمد حسن غاریپوری سے حاصل ہوئی۔ سید محمد حسن غازیپوری  کو شاہ محمد باسط علی قدس سرہ سے ان کو شاہ عبدالعلیم قدس سرہ سے ۔ ان کو شاہ ابوالغوث گرم دیوان قدس سرہ سے ۔ ان کو غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی سے۔ انکو خود عاشق رسول سیدنا حضرت اُویس قرنی  رضی اللہ عنہ سے۔علاوہ ازیں شغل تلاوتؔ وجود،شغل اسمؔ ذات،شغل جامؔ جہاں نما، شغل ہفت ؔدورہ، شغل خفی قلبیؔ، شغل دونیمؔ ودیگراشغال ومراقباتؔ وعمل شجرہؔ زردواورادخمسہؔ وحرزیمانیؔ حزب البحرؔودعائے حیدریؔ ودعائے ؔبمشخ وحزرابوؔدجانہ ودعائے برؔہتی وچہلؔ اسماء وسی وسہؔ آیت دافع ؔسحروقصیدہ ؔبردہ وقصیدہ ؔغوثیہ ودروداکبرؔوعمل سورہ جنؔ وسورہ مزمل ؔوسورہ یاسینؔ وصلٰوۃ الختامؔ وغیرہ کی اجازت حضرت قدوۃ السالکین مولانا سید شاہ  اٰلِ رسول مارہروی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی۔ اسی طرح حرزیمانی کی اجازت سید شاہ سعادت علی محقق  احمد پوری قدس سرہ سے سلسلہ شطاریہ میں حاصل کی۔ حضرت مولانا سید شاہ عبدالقادر خلیفہ سید شاہ علی سجادہ نشین بغدادشریف سے مکہ معظمہ میں اجازت حرزؔیمانی مع ارشادات ظاہری وباطنی حاصل فرمائی۔حضرت مولانا نوازش رسول سجادہ نشین بیتھوی سے اجازت خاندانی حرزیمانی بطریقہ عالیہ اشرفیہ حاصل کی ۔ حضرت شاہ مقبول احمد حافظ عبدالعزیز دہلوی عرف اخون قدس سرہ سے دہلی میں حسب اجازت روحانیہ حضر ت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ اجازت کامل حرزؔیمانی وحزبؔ البحر ودؔعائے بمشخ ودعائے ؔحیدری ودیگر اعمال مخصوصہ حاصل کی۔دلائل الخیرات کی اجازت آپ کو اپنے پیر و مرشد وبرادر بزرگ  علیہ الرحمہ کے واسطےحضرت مولاناابوالحیاء  نعیم قدس سرہ  فرنگی محلی لکھنوی سے حاصل ہوئی۔نیز دلائل ؔالخیرات کی اجازت حضرت سید شاہ عبدالغنی قدس سرہ بیتھوی اور حضرت سید محمد رضوان مدنی اور مولانا عبدالحق ہندی مہاجر مکہ معظمہ سے بواسطہ پیرو مرشد برادربزرگ سے حاصل ہوئی۔علاوہ ازیں جسقدر دیگر نعمات و برکات اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو مختلف واسطوں سے حاصل ہوئی ۔ ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔مجمل یہ ہے کہ آپ کی ذات جامع الصفات تمام مشائخ کبارواکابردیارو امسار کی نعمتوں اور سلاسل مختلفہ متعددہ کی برکتوں کا خزینہ تھے۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔

No comments:

Post a Comment