Wisal e Mubarak Ala Hazrat Ashrafi Miyan Qist No. 11


تاریخ وصال کی اطلاع
 پانچوں رجب المرجب کی شام کو علالت کا اشتداد اور بہت بڑھ گیا ، اطباء نے قلب مبارک کی حرکت کے بند ہونے کا اعلان کر دیا، تب کہرام برپا ہوگیا ۔ ہر شخص گریہ کناں اور اشک بار ہوگیا ، اسی دوران حضور کی حاحبزادی صاحبہ روتے روتے آواز بلند ہوئی ، اچانک حضور پرنور نے پوچھا کہ .....
" یہ شور کیسا ہے اور یہ کس کی آواز ہے"
اس احوال کو دیکھ کے دولت دیدار کے لئے سب دوڑپڑے، محی الملۃ والدین حضرت مولانا سید شاہ محی الدین اشرف اچھے میاں مریدوخلیفہ اجل  سلطان الواعظین حضرت سید شاہ احمد اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ نے قریب جاکر عرض کیا کہ ....
حضور کی ناسازی طبع پر صاحبزادی گریہ کررہی ہیں۔
چند لمحات کی خاموشی کے بعد فرمایا:
"فقیر اپنے جد کی تاریخ کو اس دنیا سے جائے گا، ابھی چھ روز باقی ہیں سب سے کہدو کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں"
حضور سیدنا غوث الثقلین محی الملۃ والدین رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ بعض اولیاء جو نہایت نادر الوجود ہوتے ہیں صرف ان کو موت کی اطلاع موت سے پہلے دی جاتی ہے یہ اطلاع ہر عام ولی کو نہیں دی جاتی ،  حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں بھی ان بعض مخصوصان و محبوبان میں نادرالوجود ولی ہیں ، جن کو وصال سے پہلے اطلاع مل چکی تھی اور جن کے اوصاف  حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نے  کائنٌ ، بائنٌ ، منفصلٌ، ارضیٌ ، سماویٌ، ارشاد فرمایا۔
ماہنامہ اہل سنت سنبھل ضلع مرادآباد میں مرقوم ہے کہ وصال کے شب حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنے محبوب مقرب مرید و خلیفہ حضرت حکیم سید شاہ آل حسن صاحب ساکن قصبہ ہاپور سے ارشاد فرمایا:
"اگر آج کی شب گذر گئی تو فقیر کے گیارہ برس اور بڑھادیئے جائیں گے"

آخری شب اور وصال
گیارہویں رجب المرجب کی شب کے دوپہر سے حضور پر نور قدسی منزلت آیہء رحمت اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ نے اپنے زندگی کے معمول کے مطابق نہایت ہی شدومد سے ذکر فرمایا، ہزاروں حاضرین نے مرشدپاک کی ذکر کی آواز سنی تو ان سب پر ایک عجیب وکیف کا عالم طاری ہوا اور سب نے ذکر شروع کردیا اس وقت کا عالم یہ تھا کہ صاف معلوم و مشہود تھا کہ پورا عالم حضرت باری تعالیٰ جل جلالہ کی وحدانیت کا اور سرکار رسالت صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے اقرار رسالت کے پاکیزہ نغموں سے پرکیف ہے اور قلوب پر راز و اسرار منکشف ہورہے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت موجود حاضر اہل دل حضرات نے سمجھ لیا کہ حضور اب کسی بھی لمحہ دارآخرت کے لئے رخصت ہوجائیں گے ، ذکر کی تسبیحات حضور نے مکمل فرمالیں  لیکن ذاکرین حاضرین کو ذکر پاک جاری رکھنے کی تلقین فرمائی  پھر کسی کو سلام کیا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا، اسی طرح کئی بار سلام و مصافحہ فرمایا ،آخرمیں دریافت فرمایا:
"یہاں کوئی عورت تو نہیں ہے"
سب نے نفی میں جواب دیا اور ایک بج کر بیس منٹ ہوئے تھے کہ حضور پرنورقدسی منزلت نے نہایت شدومد سے

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ و سلم 


کہ کر جوار قدس کی راہ لی اور
صورت نے صورتی آمد بروں شد ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

تغسیل اور تکفین
حضور پر نورقدس سرہ کی تغسیل میں خاندان عالی شان کے ارکان کے سواء جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے اساتذہ کرام بالخصوص محدث کبیر مفسرشہیر مصنف جلیل جامع شریعت وطریقت حکیم الامت حضرت مولانا الحاج المفتی احمد یار خاں نعیمی اشرفی بھی شامل تھے ۔ بلکہ روایت کی جاتی ہے حضور پرنور قدسی منزلت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت آئینہ رحمت مرشدالعالم محبوب ربانی قدس سرہ نے تغسیل وتکفین کے لئے موصوف کو منتخب فرماکر ہدایت دی تھی۔
حضرت موصوف نے اپنی شرح مشکوۃ میں تحریر فرمایاتھا کہ
"ہمارے دادا پیر حضرت علی حسین صاحب کچھوچھوی عرف اشرفی میاں نے اپنی موت و کفن کے لئے یمنی حلہ ، طائف شریف کا شہد اور آب زمزم اور خاک شفا محفوظ رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ
"نزع کے وقت یہ شہد ، پانی اور خاک شفاء ملاکر میرے ٹپکایا جائے اور اس حلہ یمنی میں مجھے کفن دیا جائے"
یہ اسی حدیث پر عمل تھا الحمد للہ کہ فقیر اس وقت حاضر تھا بلکہ حضرت کو غسل میں نے دیا۔
(بحوالہ مرأۃالمناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد دوم صفحہ 264)
حضور کے نماز جناز کی امامت جانشین حضرت اقدس مخدوم المشائخ سرکارکلاں سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ نے فرمائی۔

تدفین
ارکان خاندان ، اکابر مشائخ اورعلماء روزگار، اولیائے پروردگار اور پاک نہادوں کا مجمع حضور کےمبارک تابوت کو سروں اور کاندھوں پر لئے ہوئے آخری سفر اور آخری آرام گاہ کی طرف لے کر رواں دواں تھا۔
جیسے جیسے قبر مبارک کی جگہ قریب ہوتی جاہی تھی ۔
الااللہ ۔ الا اللہ
کی آوازیں اور شدومد سے بلند ہوتی جارہی تھیں، مقام قبر پر آکر عاشقوں نے لرزہ ہا تھوں سے ودیعت الہی کو سپرد قبر کیا ۔ آخری دیدار سے غمناک آنکھوں کو مشرف کیا ۔ اس مرحلہ کے بعد گرد قبر مبارک حلقہ ذکر بالجہر ہوااور وہ تمام تسبیحات مکمل ہوئیں جو شب میں حضور کے ہمراہ  مکمل کی گئیں تھیں ۔ اس کے بعد قبر مبارک پاٹ دی گئی ، حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی چشتی نظامی رضی اللہ عنہ کے قدم بقدم رشدوہدایت کی زندگی گذرنے والی اس قدسی منزلت گرامی کا تربت پاک ٹھیک ان کے قدموں میں بنا اسی مرقد میں ایصال الی المطلوب کا موصل وہادی اورسلسلہ عالیہ قادریہ اشرفیہ چشتیہ کا مجدد اعظم اور خانوادہ غوثیہ اشرفیہ کا چمکتا دمکتا آقتاب نگاہ عالم سے روپوش ہوکر نورو برکات اور تجلیات و فیوضات سے اہل قلب کے قلوب کو منورومجلیٰ فرمارہاہے ۔ تدفین اور ذکر پاک کے بعد مرقد منور پر گل باری گئی۔                                                                     (بحوالہ حیات مخدوم الاولیاء)
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا وصال مبارک 11 رجب المرجب   1355؁ ہجری  میں ہوا۔آج  اسی جگہ آپ کا مزاز پر انوار مرجع خاص و عام ہے اور فیض رسانی کا سر چشمہ ء نیر ہے۔
موت آئے در   نبی  صلی اللہ علیہ و سلم   پر    سیدؔ
ورنہ تھوڑی سی زمیں ہو شہ سمنا ں کے قریب
غوثؔ کی شکل پائی توخواجؔہ کا رنگ
اشرؔفی دین و ملت پہ لاکھوں سلام

No comments:

Post a Comment