Shaane Mahoobi Ala Hazrat Ashrafi Miyan Qist No. 09


شان محــــبوبـی
حضرت  علامہ مولانا شاہ محمدمحمود احمدقادری چشتی نظامی رفاقتی   ابن امین شریعت حضرت مولانا شاہ محمدرفاقت حسین اشرفی  کانپوری  حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی میں فرماتے ہیں:
حضور پرنور اعلیٰ حضرت مرشد انام مرجع العلماء الکبار مخدوم الاولیاء محبوب ربانی قدس سرہ کا جب مبارک زمانہ آیا اس وقت سلاطین کی سلطنتوں کی بساط پلٹ چکی تھی ۔ شاہ اودھ جلا وطن ہوا،شاہ ہند بہادر شاہ ظفر ارض ہند سے کڑے کالےکوسوں دور رنگون میں صعوبتوں اور رنج و الم کی قید میں تھے ۔ مگر سلاطین شریعت اور شاہان طریقت و معرفت کی پوری ایک باوقار جماعت موجود تھی ،جن کے انفاس طیبہ کی برکتوں ست قلوب ہورہے تھے اور نظام و طریقت سرسبز وشاداب اور مستحکم ہورہا تھا۔ اس ماحول میں حضور پرنور مخدوم الاولیاء محبوب ربانی قدس سرہ کی نورانی شخصیت اورعلم ومعرفت کا ظہور ہوا ۔ ان سب نےبنظر قبول اوربکمال تکریم بے شمار اپنی محفلوں میں ممتاز جگہ دی۔
قابل لحاظ امریہ ہے کہ قبولیت وپذیرائی کا سلوک قدیم ترین خانوادہ علم ومعرفت کے مکرم و معظم صدر نشینوں نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کیا ، اس خصوص میں مجددماہ تاسعہ حضرر قاضی القضاہ ملک العلماء امام شہاب الدین شیخ الاسلام سلطنت شرقیہ کے اخلاف کبار اور خضرت سادات کنتورشریف اور حضرات علمائے فرنگی محلی لکھنؤ کا نام نامی سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ خطہ پاک بہار کے اولیاء کبار ، جن کی علم و معرفت کی تاجداری ہر دور میں ممتاز رہی جہاں کے اہل علم ومعرفت کی خدمت می تحصیل وعلم ومعرفت کا جذبہ حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی قدس سرہ کے پاک دل میں پیدا ہوا۔ مسندالہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے جس خطہ کو " مجمع علماء بود" تحریر فرمایا۔ لطائف اشرفی ملاحظہ کیجیے تومعلوم ہوجائے گا کہ حضرت کہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی محبوب یزدانی خطہء بہار شریف میں برہنہ پا چلاکرتے تھے۔ حضرت حضرت سلطان المحققین مخدوم شرف الدین مخدوم جہاں حضرت  یحیی منیری اور ان کے بعد مخدوم بدرعالم زاہدی کی خدمت میں باربار حاضری دی ان عالی قدر تاجداران علم و معرفت کے جانشینوں کی طرف سے بہت زیادہ اکرام و احترام کا معاملہ رہا اس ماحول میں حضور پرنورمخدوم الاولیاء محبوب ربانی قدس سرہ کی بلند پایہ عظمت و شخصیت کا غیر معمولی نقش ہم جیسے بے بصروں کو بھی نمایاں تر  دیکھائی دینے لگتا ہے  اور صاف  معلوم ہوتاہے کہ ایک گوہر گراں مایہ برج ولایت کا آفتاب کس طرح بزم اولیاء مردان حق خاصان خدا میں محبوبیت کی شان کا حامل ہے قدرے واجب ان اکابر کے درمیان محبوبیت و مقبولیت کے کچھ واقعات لکھے جاتے ہیں۔

حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی
حضرت مولانا مرجع خاص و عام بررگ تھے ان جد اعلی مخدوم بدرالدین بدرعالم زاہدی سے حضر ت غوث العام محبوب یزدانی سلسلہ زاہدیہ میں فیض یاب ہوئے تھے، حضرت مولانا اعلی حضرت محبوب ربانی سے عنایت خاص برتتے تھے ۔ شاہ سلیمان صاحب پھلواروی نے بیان فرمایا کہ ایک بار حضرت مولانا نے حضور سے بڑے ولولہ کے ساتھ فرمایا۔
" تم اپنے بزرگ کی طرف متوجہ رہو وہ بہت بڑے بزرگ ہے"
سب کچھ تم کو وہیں سے مل جائیگا اور سنو میں درود میں پڑھتا ہوں۔
"اللھم صلی علی محمد وعلی سیدنا اشرف جھانگیر سمنانی"

سرکار عالم پناہ حضرت  حافظ حاجی وارث علی شاہ قدس سرہ
حضرت وارث علی شاہ رئیس العشاق بحر توحید میں غرق صاحب مقامات عالیہ بزرگ تھے۔آپ کے بزرگ حضرت غوث العالم محبوب یزدانی کے دامن دولت سے سرفراز تھے۔ حضرت حاجی صاحب کے بارے میں عام شہرت تھی کہ آپ نماز کے پابند نہیں لیکن یہ بھی عجیب اور ماورائے عقل بات ہوئی کہ حضرت حاجی صاحب نے اپنے پسندیدہ مقام قصبہ سیدن پور ضلع بارہ بنکی میں طویل قیام فرمایا۔ اسی قیام کے زمانے میں عید الاضحی کا مبارک زمانہ قریب آگیا۔ ایک دن فرط شوق میں فرمایا:
" بقرعید کی نماز ہم یہاں ہی پڑھیں گے"
اور نماز پڑھانے والے کا انتخاب بھی خود ہی ارشاد فرمایا کچھوچھہ شریف آدمی بھیج کر پیر زادہ صاحب (محبوب ربانی سیدی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں)  کو بلاؤ ۔ ہماری نماز وہی پڑھائیں گے۔
دربار وارثی کے والہ و شیدا اور مہاجر دیویٰ شریف  جناب شیخ عنایت اللہ صاحب کی اس مبارک میں اس واقعہ کو ملاحظہ کیجئے ۔ لکھتے ہیں:
"حسب ارشاد ِ جناب حاجی وارث علی شاہ    (اعلی حضرت  اشرفی میاں کچھوچھوی)  سیدن پور  تشریف لائے ونماز عید الاضحٰی کی امامت فرمائی اور یہ انتخاب خاص حسب ہدایت حاجی علی صاحب قبلہ عمل میں آئی۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے خود بھی اس واقعہ کا بیان تحریر فرمایا ہے۔  حضرت شاہ فضل حسن وارثی نے اپنی مبسوط سیرت وارثی میں لکھاہے کہ میں نے حاجی سید شاہ علی حسین صاحب قبلہ سے سجادہ نشین کچھوچھہ شریف سے دربار وارثی دیویٰ شریف میں تشریف آوری کے موقع پر دریافت کیا کہ کیا آپ نے  تشریف آوری کا حظ حضور کو تحریر فرماتے ہیں  یا کسی سے اطلاع کراتے ہیں کہ حضورحاجی صاحب قبلہ پہلے سے بتاشا منگواکر رکھ لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
" کچھوچھہ شریف کے شاہ علی حسین صاحب آنے والے ہیں بتاشے منگا لو  میلاد شیریف ہوگا"
حضرت شاہ علی حسین صاحب سجادہ نشین نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں کرتا"۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ تشریف فرما ہوتے ۔ مولود شریف کی محفل پڑھتے ، ان محفلوں میں  حضرت حاجی صاحب قبلہ تشریف فرما ہوکر بڑی محویت سے ذکر پاک سماعت فرماتے ۔ یہ بھی متواتر دربار وارثی کے مخصوص خدام کی روایت ہے کہ  حضور پرنور کی موجودگی میں حضرت حاجی صاحب قبلہ جماعت کی نماز میں شرکت فرماتے ۔ ایک بار ارشاد فرمایا:
"ایسا امام میسر ہوتو میں بھی جماعت کی نماز پڑھوں"۔                          ( بحوالہ سیرت وارثی)

حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی
حضرت موصوف حضرت قطب الاقطاب ملا نظام الدین محمد لکھنوی استاد الہند کے پرپوتے اور علمی وروحانی جانشین تھے۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے کمال شفقت اور تعظیم کا تعلق کا برتاؤ کرتے تھے حضور فرماتے ہیں :
"اس فقیر کے ساتھ ان کو کمال عنایت مبذول تھی کیونکہ یہ فقیر نسباًخاندان حضرت محبوب سبحانی سے ہے" ۔  

حضرت شاہ خلیل احمد صفی پوری
صفی پور ضلع اناؤ کے کثیر الفیوض بزرگ تھے۔بلگرام و مارہرہ کے سادات و مشائخ اسی آستانہ کے متوسل تھے۔  دور ِآخرمیں  حضرت شاہ خلیل احمد صفوی صاحب کا درویشی و بزرگی کا غلغلہ بلند تھا ایک جہاں ان سے فیض باب ہوا۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ کو بھی آپ سے فیض حاصل ہوا ۔ سلسلہ چشتیہ میں اجازت و خلافت ملی ۔ حضرت صفی پوری نے حضوراعلیٰ حضرت اشرفی میاں  قدس سرہ کے بارے میں بلند کلمات فرماتے ، تحریرفرماتے ہیں۔
"حضرت علی حسین صاحب کی صحبت سے مستفیض ہوا ھوالحق لائق اور زیباسجادہ نشین ایسے ہی"مردان خدا" کو کہتے ہیں ۔
حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہری علیہ الرحمہ
موصوف خانوادہ برکاتیہ میں بدر منیرکی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے بعد ان کی شان کا دوسرا مرد کامل وہاں نہیں پیداہوا موصوف حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی  علیہ الرحمہ کے پوتے اور جانشین تھے ، ان کے خاص الخاص خاندانی مرید مقرب و خلیفہ مقبول وخادم محبوب غلام شبیر بدایونی نے نور مدائح حضور میں تحریر فرمایا۔
"حضور پرنورقدس سرہ کو حضرات قادریہ سے خاص انس تھا  صاحبزادگان قادری کا نہایت اکرام  فرماتے ................سیدشاہ علی حسین صاحب اشرفی دامت برکاتہم حاجی سید وارث صاحب خاص حضور کے ملنے والے ہیں"۔

حضرت مولانا شاہ اسماعیل حسن مارہروی
حضرت شاہ آل رسول مارہروی کے برادر اوسط حضرت شاہ اولاد رسول کے پوتے اور برادر خور شاہ غلام محی الدنی کے نواسے تھے علوم کی تکمیل حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی سے کی ، ان کا شمار ان کے ممتاز ترین تلامذہ میں تھا۔ انہوں نےخانوادہ میں حضرت آلِ رسول صاحب سے خلافت پائی ۔ اپنے خانوادہ میں"شاہ جی میاں" کے لقب سے معروف تھے ان جیسا اور ان کی جیسی خصوصیت کا ان کے بعد کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا ۔
حضرت ابوالحسین احمد نوری کے بعد خانوادہ برکاتیہ میں حضرت شاہ جی میاں حضور پرنور مرشد العالم مخدوم الاولیاء کےسب سے بڑے قدرداں تھے ۔ مارہرہ شریف میں تشریف آوری کے وقت حضرت شاہ جی میاں بدل و جان مہمانی کا اہتمام کرتے ۔ باہمی گہرے روابط کے یہ دوواقعے لکھے جاتے ہیں ۔
ایک یہ کہ حضرت شاہ جی میاں کی صاحبزادی جو  حضرت سید شاہ آل رسول صاحب کے نواسے کے فرزند سید آل عبا صاحب کو بیاہی تھیں ۔ ان کے یہاں اولادیں پیدا ہوکر فوت ہوجایا کرتی تھیں، حضرت شاہ جی میاں نے حضور پرنور مرشدالعالم مخدوم الاولیاء محبوب ربانی اعلیٰ حضر ت اشرفی میاں  قدس سرہ سے اس بارے میں گفتگو کی ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے فرمایا:
" میں اپنی بیٹی کو کچھوچھہ مقدسہ لے جاؤں گا"۔
چنانچہ سید العلماء حضرت مولانا سید شاہ آل مصطفٰے میاں علیہ الرحمہ کی ولادت کچھوچھہ مقدسہ میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے آستانہ فیض کاشانہ میں ہوئی۔ یہ بات خود سیدالعلماء علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمائی تھی  حضرت سیدالعلماء دوران گفتگو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو "اشرفی نانا "فرماتے تھے۔
دوسرا یہ کہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی مبارک تصنیف صحائف اشرفی  شریف میں حضرت شاہ جی میاں کا ذکر خیر ہے حضرت شاہ جی میاں کو کثرت سے  اعلی حضرت اشرفی میاں کا ذکر پاک کرکے محامد و محاسن بیان فرمایا کرتے تھے اسی طرح ان کے فرزند جانشین تاج العلماء مولانا سید شاہ محمد میاں مارہری نے اپنی محققانہ تصنیف اصح التواریخ اور خاندان برکات میں حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا ذکر فرمایا ہے۔  حضرت شاہ میاں کا   1345؁ ہجری میں وصال ہوا۔

تاج الفحول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی
عالم اسلام کے جلیل الشان عالم و عارف امام اہل سنت تاج الفحول مولانا شاہ مظہرحق محب رسول حضرت عبدالقادر بدایونی قدس سرہ جن کو اکابر کرام  "اعلیٰ حضرت امام اہل سنت"  کہاکرتے تھے۔
تاج الفحول امام اہلسنت حضرت بدایونی علیہ الرحمہ کی حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے ملاقات حضرت سلطان المشائخ  محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے آستانہ  پاک میں ہوئی۔چہرہ پرانورپر سیادت کا نوردرخشاں دیکھ کر گرویدہ ہوگئے۔ آپ کے والد ماجد معین الاسلام عماد الدین حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی کے عرس کا مبارک زمانہ قریب تھا۔ تشریف آوری کی دعوت پیش فرمائی ۔ خانقاہ قادری بدایوں شریف کے مقرب مولانا شاہ ضیا ء القادری نے 1327؁ ہجری کے عرس قادری کے روداد میں تحریر فرمایا:
" حضور اقدس حضرصاحب کا یہ احسان بھی اہل بدایوں فراموش نہیں کرسکتے،کہ حضور ہی کی بدولت اہل شہر کو آپ کی دولت دیدار میسر ہوئی ، سب سے پیشتر حضور اقدس کی سچی محبت آپ کو بدایوں لائی"۔
حضرت سید شاہ یحییٰ حسن سجادہ نشین خانقاہ برکاتی مارہرہ شریف کا بیان ہے کہ حضرت تاج الفحول صفا و مروہ کی سعی میں مشغول تھے آپ کے ہمراہ حضرت مارہرہ مطہرہ کے صاحبزادگان گرامی قدر حضرت سید شاہ اسمعیل صاحب شاہ جی میاں اور حضرت سید شاہ  حسن میاں  بھی سعی میں  مشغول تھے ان دونوں بزرگوں  نے دیکھاکہ حضرت تاج الفحول نے اچانک سعی کی ترتیب بدل دی، حضرت سید شاہ اسمعیل حسن صاحب نے حضرت سید شاہ حسن صاحب سے فرمایا کہ حضرت تاج الفحول سے پوچھوکہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہوئی، چنانچہ انہوں نے دریافت کیا ۔ حضرت تاج الفحول نے فرمایا"
"آپ نے دیکھا نہیں کہ سامنے سے شبیہ غوث الثقلین حضرت شاہ علی حسین صاحب قبلہ جیلانی  آرہے ہیں ، میں کیسے ان کی طرف پشت  (پیٹھ)کرتا"۔
دوسرے دن صبح کو تینوں حضرات نے ایک دوسرے سے اپنا  شب کا واقعہ بیان کہ :
"آج کی شب حضرت غوث الثقلین قطب الکونین رضی اللہ عنہ کی دولت دیدار سے مشرف ہوا"
فاضل بریلوی نے قصیدہ چراغ انس ( 1315؁ ہجری) درمدح تاج الفحول میں تحریر فرمایا۔

میں بھی دیکھوں جوتونے دیکھا ہے
روز   سعی   صفا   محب   رسول

حضرت مولانا اسلم خیرآبادی
حضرت خیرآباد شریف مرکز علم و معرفت کے نامور عالم و عارف ، سلسلہ چشتیہ نظامیہ فخریہ سلیمانیہ کے وسیع کثیرالفیوض شیخ مولانا حافط سید محمد علی خیرآبادی کے برادرزادہ، خصوصی پروردہ اور جانشین تھے ۔ حضرت خیرآبادی حضور اعلیٰ حضرت مرشدالعالم مخدوم الاولیاء محبوب ربانی کے درمیاں عمر کا بڑا فرق تھا، مگر تعظیم و تکریم کا معامل ملحوظ تھا۔ حضرت خیرآبادی ہاتھ چومتے سروقد اٹھ کر تعظیم بجا لاتے تھے۔

استاذالعلماء حضرت مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ
استاذالعلماء حضرت مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ دیار ہند کے بافیض علماء کبار میں تھے ان کے دور کا شاید ہی کوئی عالم ہوگا جو ان کا شاگرد نہ ہو۔ ان کا علمی دینی فیضان عرب و عجم میں پہونچا، علوم اسلامیہ کی ترویج وتدریس میں اساذالعلماء کے غیر معمولی کارنامے ہیں۔ حضور اشرفی میاں کے وحید العصرفرید الوقت صاحبزادہ درنجف سلطان الواعظین حضرت مولانا سید شاہ احمد اشرف قبلہ قدس سرہ نے   1306؁ ہجری تا 1313 ؁ ہجری حضرت استاذالعلماء کی خدمت میں رہ کر علوم وفنون میں استعداد کامل حاصل فرمایا۔ حضور کی علی گڑھ تشریف فرمائی کے وقت خود  کھانا لاتے اورہاتھ دھلاتے ، مراجعت کے وقت بس اڈا تک پہونچانے تشریف لاتے تھے۔

سرکار آسی حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم رشیدی علیہ الرحمہ
استاذ الشرق و الغرب قاضی القضاۃ ملک العلماء حضرت علامہ امام قاضی شہاب الدین دولت آبادی خلیفہ ء اجل غوث العالم محبوب یزدانی سلطان مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کے تلمیذ اجل وارشد قطب الاقطاب علامہ امام دیوان محمد رشید جونپوری مصنف مناظرہ رشیدیہ کی خانقاہ کے سجادہ نشین اور علم ومعرفت کے وارث تھے۔ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی علیہ الرحمہ علم حقائق کے بیان میں اپنے عہد کے حضرامام شیخ محی الدین ابن عربی تھے۔ حضور پرنور مرشدالعالم مخدوم الاولیاء کو اپنے زمانہ کا شیخ اکبر کہتے تھے۔ خانقاہ رشیدیہ کے مشائخ کبار سلسلہ عالیہ اشرفیہ کے فیوض سے فیضیاب بھی تھے اس وجہ سے بھی عقیدت و احترام کا غیر معمولی تعلق قائم تھا۔ سرکارآسی حضرت حضور پرنور کا غایت احترام فرماتے ،  حضرت مولانا کے مخلص فدائی مرید داروغہ عبدالکریم اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے تھے کہ اعلیٰ حضرت مولانا سید شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ خانقاہ رشیدیہ میں حضرت پیرومرشدمولاناشاہ عبدالعلیم آسی رشیدی علیہ الرحمہ کی دیدو ملاقات کے لئے تشریف لائے ، حضر ت آسی نے استقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایاکہ
آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میرا خاتمہ باالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور حضرت مخدوم صاحب کی اولاد ہیں سید ہیں "
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سرکار کچھوچھہ مقدسہ نے بھی فرمایاکہ :
آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ حق تعالیٰ میرا خاتمہ باالخیر فرمائے آپ اللہ والے ہیں"۔
اس کے بعد دیکھا گیا کہ ساری رات دونوں بزرگ محو گفتگو رہے ، حضرت پیر و مرشد آسی علیہ الرحمہ نے کسی کے لئے بھی ایسی خصوصیت نہیں برتی ان دونوں بزرگوں کے ارشادات ومعاملات دیکھ کر ہم حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری تھی ۔
حضرت مولانا کا  1335؁ ہجری میں وصال ہوا۔

حضرت شاہ التفات احمد صابری
حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبدالحق چشتی صابری رودولوی کی درگاہ کے سجادہ نشین اور مرجع انام بززگ تھے ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اور حضرت کے یکانگت کے جیسے تعلقا ت تھے ۔ مزید جانکاری کے لئے صحائف اشرفی ملاحظہ کریں۔

حضرت مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی
علم وفضل کے حلقوں میں حضرت الہ آبادی کا بلند ترین مقام تھا ان کی ذات پاک خدائے لم یزل کی خاص نشانی تھی آپ مجموعہ حسن و خوبی و کمالات تھے ان کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداداللہ شاہ مہاجر مکی ان کو شیر فرماتے تھے ، ان کی ذات مبارک سے خیرات و حسنات کا بہت اجراء ہوا ، مشہور چشی صابری بزرگ حضرت شیح محب اللہ الہ آبادی کے اخلات میں تھے ، اس خانقاہ کا ہرفرد حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا عقیدت مند تھا ۔ مولانا شاہ ولایت حسین حضرت الہ آبادی کے خلف باکمال تھے انکے فرزند مولانا محمد فاروقی فاضل جامعہ ازہر مصر نے حضرت الہ آبادی کے احوال  میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا ذکر خیر کیا ہے اس سےقلبی  تعلقات او ارتباط کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
معاصرین علماء مشائخ کے ذہل میں بڑے بڑے نامی بزرگوں کی بڑی تعد اد ہے ، جن میں حضرت مولانا شاہ عبدالوہاب فرنگی محلی، مولانا شاہ عبد الباری فرنگی محلی ، حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین رامپوری ، حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ رامپوری  ، حضرت مولانا شاہ ابوالخیر دہلوی، شاہ سراج الحق دہلوی علیہم الرحمہ کے نام نامی بہت اہمیت رکھتے تھے ان حضرات سے جو تعلقات خاص اور باہمی روابط تھے ان سب کے بیان کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی۔

استاذ زمن مولانا شاہ احمد حسن فاضل کانپوری

لیکن اس فرید عصر مرجع علماء مرکز فضلاء کا ذکر خیر ضرور کریں گے جو اگر چہ خود امام عصر ، قطب زمانہ تھے اور شیخ العرب و العجم حضرت حاجی شاہ امداداللہ مہاجر مکی کے والہ و شیدا عاشق مرید و خلیفہ اعظم تھے ، مگر ساتھ ہی  اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے بھی والہ و شیدا تھے اور آپ کے اخلاف گرامی کو بھی ویسا ہی تعلق تھا۔

No comments:

Post a Comment