تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سید سلطان
اوحدالدین قدوۃ الکبریٰ مخدوم اشرف
جہانیاں جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ساتویں صدی ہجری میں ایران کے صوبہ خراسان میں سادات حسینی کی حکومت
تھی جسکا دارالحکومت شہر سمنان تھا۔ سلطان سید ابراہیم (المتوفی 723ہجری) اس
حکومت کے سربراہ تھے جو ظاہری شان و شوکت اور سطوت و جلال کے ساتھ ساتھ باطنی
خوبیوں سے بھی پوری طرح بہرہ و ر تھے سلطان سید ابراہیم صرف ایک بیدار مغز حکمران
ہی نہ تھے بلکہ متقی و پرہیز گار عالم باعمل بھی تھے۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ان ہی دین و دنیا کی دولت سے
مالامال مکرم و محترم
شخصیت کے فرزند ارجمند تھے سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع
اسلام فروزاں ہوئی اور جنکے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت
پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات با
برکت ہے ۔
ولادت باسعادت
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے
۔شہر سمنان میں ایک صاحب حال مجذوب شیخ ابراہیم علیہ الرحمہ نامی رہا کرتے تھے ایک روز سلطان
سید ابراہیم اور انکی اہلیہ محترمہ شاہی محل کے حرم میں تشریف فرما تھے کہ اچانک
شیخ ابراہیم مجذوب اس جگہ پر وارد ہوئے تو سلطان اور ملکہ عالیہ نے ان مجذوب بزرگ
کی حد درجہ تعظیم کی انکو نہایت احترام سے اپنی جگہ بٹھایا اور خود انکے سامنے ادب
سے کھڑے ہو گئے ۔مجذوب نے پوچھا ’’ابراہیم کیا تو اﷲ تعالی سے بیٹا مانگتا ہے ؟‘‘
یہ سن کر سلطان اور ملکہ بہت خوش ہوئے کیونکہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں
بہت ملول رہتے تھے اور اکثر بارگاہ خداوندی میں رو رو کر دعائیں کیا کرتے تھے اب
مجذوب کی زبان سے اچانک یہ سنا تو دونوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں دوڑ
گئیں۔ سلطان نے ادب سے عرض کی ،آپ بزرگ ہیں دعا فرما دیں ۔مجذوب بزرگ نے اولاد
نرینہ کی دعا فرمائی اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چند روز بعد سلطان ابراہیم نے سرور
کائنات فخر موجودات ﷺ کو خواب میں دیکھا حضور پُرنور ﷺ نے فرمایا ’’ اے ابراہیم !
تجھ کو اﷲ تعالی دو فرزند عطا کرے گا بڑے کا نام اشرفؔ اور چھوٹے کا نا م اعرافؔ رکھنا اشرفؔ اﷲ کا ولی ہو گا اور مقرب بارگاہ
ایزدی ہو گا۔اسکی پرورش اور تربیت بھی خاص طریقے سے کرنا ۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت سے تین ماہ قبل
اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا
لگا رہا تھا ’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف
دوراں تشریف لاتے ہیں ‘‘ اس مجذوب کو سب سے پہلے اس
سپاہی نے دیکھا جو شہر سمنان کی فصیل پر پہرہ دے رہا تھا کیونکہ رات کو شہر کے
دروازے بند کر دئیے جاتے تھے تاکہ ڈاکو و لٹیرے اندر داخل نہ ہوسکیں ۔رات کے سناٹے
کو چیرتی ہوئی یہ آواز جب اسکے کانوں پہنچی تو وہ بڑا حیران ہوا لیکن اس کی حیرت
کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجذوب کو فصیل کے اندر پایا کیونکہ فصیل اتنی بلند تھی
کہ بغیر کسی ذریعے کے اسکو عبور کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا اب سپاہی
پردہشت طاری ہو گئی اور وہ حیرت سے مجذوب کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی آواز بلند سے
بلند تر ہوتی جا رہی تھی اور وہ مسلسل یہی صدا لگا رہا تھا ’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں
‘‘ اس آواز سے شہر سمنان کے
در و دیوار گونج رہے تھے لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون اور کس کے آنے کی خبر دے
رہا ہے ۔یہ وہی شیخ ابراہیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراہیم کو فرزند سعید
کی بشارت دی تھی ۔اور اب ان کی ولادت سے تین ماہ قبل یہ خبر پورے شہر سمنان میں
پھیلا دی تھی ۔آخر مجذوب کی دعا اور حضور پرنور ﷺ کی بشارت پوری ہوئی اور 708 ہجری کو حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت
باسعادت ہوئی ۔
(بحوالہ حیات غوث العالم مصنف مخدوم الملت
ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی محدث اعظم ہند علیہ
الرحمہ)
حضرت شیخ نجیب الدین علی بزعش علیہ الرحمہ کا یہ قول
ہے"دیوانہ عجب بود" ۔ کہا جاتا
ہے کہ شیخ مجذوب علیہ الرحمہ چند روزتو کچھ نہ کھاتے تھے اور پھر وقت آنے پر سومن
ایک نشست میں کھا جاتے تھے۔
اسی طرح اور بھی روایتیں ہیں جو انکے خوارق
عادات اور کرامات عجیبیہ کی غماز ہیں ۔ (نفحاس الانس صفحہ 424۔لطائف اشرفی جلد1صفحہ 258تا259)
تعلیم و تربیت :
سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے
شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف
جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر
میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا ،حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت
شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید
عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے حضرت رکن الدین کی خصوصی توجہ اور اپنے جذبہ
صادق کی وجہ سے حضرت مخدوم سمنانی تیزی سے راہ سلوک پر گامزن ہو گئے ۔ جب آپ کی
عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد سلطان سید ابراہیم وصال فرما گئے ۔ اس طرح اس
کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپکے کندھوں پر آگیا لیکن آپ نے
اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ
گئے ۔ آپنے اپنے۷۲2ھ سے۷۳3ھ تک دس سال نہایت عدل
و انصاف سے حکومت کی اسی دوران حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ
کو ’’اسم ذات‘‘ بغیر مدد زبان ورد کرنے کی مشق کرائی اور اس کا ورد کرنے کا حکم
دیا ،آپ نے اس ورد کی مشق مسلسل دو سال کی ۔ اس مشق کے بعد اشغال اویسیہ کی جانب
رجوع ہوئے تو خواب میں حضرت اویس قرنی رضی اﷲ تعالی عنہہ کی زیارت ہوئی جنھوں نے
براہ راست آپ کو اشغال اویسیہ کی تعلیم دی اور اجازت شغل مرحمت فرمائی۔
ترک سلطنت
آخر وہ وقت آگیا جب آپکو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہو کر روحانیت
کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا۔ ۷۳3ھ ۲۷رمضان المبارک کی شب تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور
فرمایا ’’حجاب تخت و تاج دور کر کے لذت وصل الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ حضرت علاؤ
الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں ۔صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید اعراف
کی تخت نشینی کا اعلان کیا اور خود ہمیشہ کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو گئے ،اس
وقت آپکا سن ۲۵ سال تھا اور آپ دس سال
حکومت فرما چکے تھے ۔آپنے والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لی تو انہوں نے فرمایا
بیٹا اس طرح نہ جاؤ لوگ کیا کہیں گے کہ سمنان کا شہنشاہ تن تنہا ہ جا رہا ہے لہذا
شہر سے نکلتے وقت وزراء امراء اور کچھ محافظ ساتھ رکھو تاکہ رعایا سمجھے کہ بادشاہ
کسی مہم پر جا رہا ہے ۔ والدہ محترمہ کے حکم پر آپ نے وزراء امراء اور کچھ محافظوں
کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سمنان سے نکل کھڑے ہوئے کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے ان
تمام وزیروں اور محافظوں کو واپس کر دیا اور خود تن تنہا منزل مقصود کی جانب روانہ
ہو گئے ۔سب سے پہلے آپ ملتان کے نواح میں قصبہ اوچ شریف میں وارد ہوئے جہاں حضرت
مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ جب حضرت سید
اشرف جہانگیر سمنانی اوچ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم اس وقت اپنے مریدین کو تعلیم دے
رہے تھے اچانک انہوں نے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے یہ کہہ کر تیزی سے اپنی خانقاہ کے
دروازے کی طرف آئے اسی وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وہاں پہنچے تو حضرت مخدوم
جہانیاں جہاں گشت نے آگے بڑھ کر آپکی پیشانی کو بوسہ دیا اور سینے سے لگایا اور
فرمایا ’’سرداری و سیادت کے باغ میں ایک مدت بعد نسیم بہار آئی ہے ‘‘ پھر فرمایا
عزیز جلدی راہ سلوک میں قدم رکھو برادرم علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں ۔ پھر کچھ
عرصے اپنی خانقاہ میں ٹھہرا کر چلہ کشی کرائی اور تمام روحانی نعمتیں عطا فرمائیں
اور خرقہ خلافت عطا فرمانے کے بعد فرمایا :اب تک جن اکابرین سے میں نے استفادہ کیا
ہے وہ سب تمہیں عطا کر دیا ۔ان تمام نعمتوں سے سرفراز ہوکر آپ پا پیادہ یہاں سے
روانہ ہو گئے اور ہندوستان کے قصبہ بہار اس وقت پہنچے جب مخدوم الملک حضرت شیخ شرف
الدین احمد یحیٰ منیری رحمتہ اﷲ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا حضرت مخدوم نے وصیت
فرمائی تھی کہ انکی نماز جنازہ وہی شخص پڑھائے گا جو صحیح النسب سید ہو ۔ تارک
السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہو
گا اسی سے میری نماز پڑھوانا ۔ یہ سب شرطیں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی میں
موجود تھیں اس لئے انہوں نے ہی حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی
اور تجہیز و تکفین کے بعد مزار کے پاس مراقبہ کیا تو انکو اپنے سامنے پایا انہوں
نے روحانی طور پر آپکو تمام نعمتوں سے نوازا اور فرمایا ’’فرزند اشرف ‘‘ کاش تم
میرے حصے میں آئے ہوتے لیکن تمہیں بھائی علاؤ الدین آواز دے رہے ہیں میں اب تمہیں
زیادہ دیر نہیں روک سکتا جاؤ یہ سفر تمہیں مبارک ہو ۔سید اشرف جہانگیر سمنانی
یہاں سے روانہ ہوئے دشت و بیاباں کو ناپتے ،ندی نالوں کو پھلانگتے ،پہاڑوں کو
چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔صحراء کے کانٹوں اور چٹانوں کے نوکیلے پتھروں پاؤں
زخمی کر دئیے اﷲ اﷲ طلب حق کایہ راہی اور راہ سلوک کا یہ مسافر جو بھوکا پیاسا بے
سرو سامان صحراؤں کو پیدل ناپ رہا ہے یہ کون ہے یہ شہنشاہ شمنان ہے فلک بوس محلوں
کا مکیں کوہ و بیاباں میں گزر اوقات کر رہا ہے جہاں رات ہوئی وہاں ٹھہر جاتے اور
فجر تک عبادت میں مصروف رہتے صبح ہوتے ہی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ۔جنگلوں
کے پُر خطر راستوں اور پہاڑوں کی ہیبت ناک وادیوں کو پیچھے چھوڑکر اور سینکڑوں میل
کی دشوارگزار راہیں طے کر کے سر زمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوا شریف کے قریب
پہنچ گئے جہاں شیخ علاؤ الدین علاؤ الحق گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ رشد و ہدایت کے
جواہر لٹا رہے تھے اور یہی آپ کے سفر کی آخری منزل تھی ۔
جس وقت آپ پنڈوا شریف کے
قریب پہنچے تو حضرت شیخ علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ اپنے مریدین کو طریقت
کی تعلیم دے رہے تھے انہوں نے اہل محفل سے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے جس کا دو سال سے
ہم انتظار کر رہے ہیں وہ عنقریب یہاں پہنچنے والا ہے ۔پھر تمام مریدین کے ہمراہ
شہر سے باہر تشریف لائے اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ
پالکی میں بٹھا کر خانقاہ تک لائے خانقاہ پہنچنے کے بعد آپکو بیعت کیا اور فرمایا
فرزند اشرف جس وقت تم سمنان سے چلے تھے اس وقت سے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے اور سخت
ریاضت و مجاہدے کئے مرشد کامل نے آپ کو اپنی تمام روحانی نعمتیں عطا کیں اور خرقہ
و خلافت سے نوازا۔
حضرت بندگی نظام الدین
امیٹھوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ"حضرت
امیر کبیر سید اشرف جہانگیر علیہ الرحمہ رابخلاف پیران دے سلطان جی مطلق گو یند
زیراکہ سلطنت ظاہری ہم میداشت" اور
حضرت ملک محمد جائسی علیہ الرحمہ کا قول ہےکہ " درصدیقین امت محمدیہﷺ دوکس تک
سلطنت برجمیع اولیاء اللہ فضلیت دارند۔ اول سلطان التارکین سیدنا ابراہیم بن ادھم
رضی اللہ تعالی عنہ دوم سید مخدوم اشرف
جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ ۔ (صحائف
اشرفی صفحہ 113، حیات غوث العالم صفحہ 22)
No comments:
Post a Comment