Asra o Meraj Aek Azeem Mojazaa (Urdu)

اسراء و معراج ایک عظیم معجزہ

اسراء اورمعراج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والا کا ایک عظیم معجزہ ہے، اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مختلف نشانیوں کا جو مشاہدہ کرایا یہ بھی انتہائی اہم ہے. معراج کےدو حصے ہیں، ایک حصہ کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے۔
 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے ایک حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفراسراء کہلاتا ہے ، مسجد حرام مکہ میں ہے اور مسجد اقصی فلسطین میں ہے، دونوں کے درمیان کی دوری چالیس دن کی تھی، چالیس دن کی یہ دوری اللہ کے حکم سے رات کے ایک تھوڑے سے حصہ میں طے ہو گئی۔
جس میں اللہ کی عظمت کی پہچان ہے کہ اس کا کوئی بھی کامذریعے کا پابند نہیں ہوتا  اسی طرح مسجداقصی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمان کا سیر کرایا گیا، پہلے آسمان سے ساتوں آسمان تک گئے، ہر آسمان پر کسی نبی سے ملاقاتہوئی ، ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا، مبارکباد دی اورآپ صلی اللہ علیہوسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔ یہاں تک کہ ساتویں آسمان سے سدرة المنتہی تک پہنچے تو وہیں پر آپ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا، آگے چلے تو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ جب دو کمان یا اس سے کم کی دوری رہ گئی تو اللہ پاک نے آپ سے پردے سے بات کیا اورآپ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں ۔ وہاں سے لوٹے اورچھٹے آسمان پر موسی علیہ السلام سے گذرے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی آپ جائیں اور اللہ سے اِس میں کمی کرائیں ،اس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کئی بار اللہ کے پاس گئے اورآئے یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز کردی گئی ۔ پھر فرمایاگیا کہ دیکھو! میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ۔ یہ ہے تو پانچ وقت کی نماز لیکن ثواب پچاس وقت کاہی ملے گا ۔

سوال یہ ہے کہ اسراءاورمعراج کا یہ واقعہ کیوں عمل میں آیا؟
آپ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پہلے دن ہی جب آپ نے اسلام کا پرچارکیا مخالفت شروع ہوگئی ۔آپ کو اورآپ کے ساتھیوں کو ٹارچر کیاگیا، پاگل اوردیوانہ کہا گیا، ایک دن اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار گیارہ سال تک آپ کوآپ کے ماننے والوں کو ستایا گیا۔ اسی بیچ آپ طائف جاتے ہیں اِس امید کے ساتھ کہ آپکے پیغام کو شاید وہ قبول کرلیں، لیکن آپ پر پتھر برسایا جاتا ہے، ہر طرف سے پریشانی ہی پریشانی ہے ،دعوت کو قبول کرنے والے بھی محدود ہیں ۔ مکہ کی زمین بنجر بن چکی ہے۔ اِسی بیچ اللہ پاک اپنے نبی کو اپنے پاس بلاتا ہے تاکہ یہ پیغام دے کہ اے انسانوں ! تم نے ہمارے حبیب کی قدر نہیں کی لیکن آسمان والے اُن کا احترام کرنے کے لیے تیارہیں ۔ پھراللہ تعالی نے آپ کو وہاں کچھ مشاہد بھی کروایا آپ نے جہنم کے داروغہ کو دیکھا ، آپ نے یتیموں کا مال کھانے والوںکاانجام دیکھا ، آپ نے زناکاروں اور سودخوروں کا انجام دیکھا ۔ اوربھی بہت ساری چیزیں دیکھیں ۔یہ سب اس لیے تاکہ آپ کو اپنے پیغام پر عین الیقین حاصل ہوجائے ۔
 سوال یہ ہےکہ اسرا اور معراج سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے:
پہلا سبق: سب سے پہلے اس سفر میں مسجد حرامسے مسجد اقصی تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایاگیا۔ جانتے ہیں کیوں ؟یہ بتانے کے لیے کہ مسجد اقصی سے آپ کا اورآپ کی امت کا دلی تعلق ہوگا ۔ مسجد اقصی کے وارث آپ کی امت بننے والی ہے ۔ افسوس کہ آج یہ مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہمیشہ اس کی توہین کرتے رہتے ہیں. اللہ اُس کی آزادی کا سامان فراہم کرے ۔ آمین
دوسراسبق: اسرا اورمعراج سے دوسرا سبق یہ ملتاہے کہ عالمی ہیرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نبیوں کا نماز پڑھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارےنبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں. اس میں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہر نبی کا دین ایک ہی تھا، اور وہ ہے اسلام جس کے علاوہ کوئی دین اللہ کے پاس منظور نہیں. اللہ نے فرمایا:” جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین طلب کرے گا تو اس کی طرف سے کچھ بھی قبول نہ کیاجائے گا. اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آل عمران 85)
تیسرا سبق:اسراءاورمعراج کا سب سے اہم سبق نماز کی اہمیت ہے ۔ وہ نماز جو ہمارے نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ، وہ نماز ایک مسلمان کی پہچان ہے ۔ وہ نماز جس کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے پوچھ ہونے والی ہے۔
            محمد عباس مصباحی  قاہرہ مصر

Waqiya E Meraj Ba Zuban e Sahib E Meraj (Urdu)


واقعہ معراج بزبانِ صاحب معراج ﷺ

اللہ کریم کےمحبوب کریم حضرت مُحمّد مصطفٰی ﷺ نےاپنی زبان حق ترجمان سے اپنی معراج کریم کویوں بیان فرمایا: میں مسجد حرام میں عشاءکی نماز پڑھ کر حطیم میں سویا ہواتھاکہ تین فرشتے مجھے مسجد حرام سے اٹھا کرزمزم شریف کے کنویں پر لے آئے ۔
حضرت جبریل ان فرشتوں کے نگران تھے،پھر انہوں نےحلقوم اور ناف کے درمیان میراسینہ چاک کیا اورسونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایماناور حکمت سے بھرا ہواتھا،پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے دل کو زمزم کے پانی کےساتھ دھویااوراس میں ایمان اور حکمت کو بھر دیا حتی کہ تمام گوشت اور رگوں میںایمان اور حکمت کو سمودیا گیاپھردل کو اس کی جگہ پر رکھ کر سینہ بند کردیاگیا.  
اس کے بعد براق نامی سواری لائی گئی جو لگام اورزین سے آراستہ تھی براق نے شوخی سے اچھل کود کی توحضرت جبریل (علیہ السلام) نے کہا:
”کیا تم سیدنا محمدمصطفی ﷺ کے ساتھ ایسا کررہےہو۔ان سے بڑھ کرکوئی مکرم شخصیت آج تک تم پر سوار نہیں ہوئی ۔“ تو براق ٹھنڈاپڑگیا اور اس کا پسینہ بہنے لگاوہ براق متہائے نظر پر قدم رکھتا تھا ، میں اس پرسوار ہوکر روانہ ہوا،راستے میں کثیب احمر کے پاس میراگزرحضرت موسی علیہ السلام کیقبر پرہوا،وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے۔
پھرہم آگے بڑھے ، اثنائے سفر مجھے پہلے دائیں طرفسے اور پھر بائیں طرف سے دومختلف لوگوں نے آواز دی کہ”یامحمد (ﷺ )! میں آپ سے سوالکرتا ہوں مجھے دیکھئے۔“مگر میں نے انہیں جواب دیا نہ ان کے پاس ٹھہرا۔ پھرکیا دیکھا کہ ایک عورت انتہائی زیب وزینت کے ساتھ کھڑی کہی رہی ہے:”یامحمد(ﷺ )! میں آپ سے سوال کرتی ہوں مجھے دیکھئے۔“میں نے اس کی طرف بھی توجہ کینہ ہی اس کے پاس ٹھہرا ۔
جبریل نے بتایا : ”دائیں طرف سے آوازدینے والایہودی تھا ،اگر آپ اسے جواب دیتے اور اس کے پاس ٹھہرتے تو آپ کی اُمت یہودی ہوجاتیاوربائیں طرف سے بلانے والا عیسائی تھا اگر آپ اس کی بات سنتے اور اس کے پاسٹھہرتے تو آپ کی اُمت عیسائی ہوجاتی اورزیب وزینت والی جو عورت آپ نے دیکھی وہ”دنیا“ تھی اگر آپ اسے جواب دیتے تو آپ کی اُمت دنیا کو آخرت پر اختیار کرلیتی ۔“ پھر ہم ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو ایک دن فصل کاشت کرتی اور دوسرے دن کاٹلیتی تھی اور وہ جتنی فصل کاٹتے تھے اتنی ہی فصل بڑھ جاتی تھی ۔جبریل نے کہا:یہراہِ خدا میں ہجرت کرنے والے ہیں۔ان کی نیکیاں 700 گناتک بڑھا دی گئی ہیں ۔
پھرہم ایسے لوگوں کے پاس آئے جن کے سر پتھروں سےکچلے جارہے تھے اور جب بھی سرکچلا جاتا وہ پھر درست ہوجاتاتھا اور انہیں مہلت نہملتی کہ سرپھر کچل دیا جاتا۔جبریل نے بتایا:یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز کےوقت بھاری ہوجاتے تھے ۔
پھر ایسی قوم کے پاس گئے جن کے آگے پیچھے کپڑے کیدھجیاں تھیں اور وہ دوزخ کے کانٹے دار درخت ”زقوم“ کو جانوروں کی مانند چر رہے تھےاورآگ کے انگارے کھار ہے تھے۔میرے استفسارپر جبریل نے بتایا:یہ لوگ اپنے اموال کیزکوة ادا نہیں کرتے تھے   پھرایسے لوگوں کے پاس پہنچے جن کے سامنے ایک طرفپکاہواصاف ستھرااورپاکیزہ گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا،بدبوداراور خبیثگوشت تھا اوروہ پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کرخبیث گوشت کھا رہے تھے۔جبریل نے کہا:یہ وہبدبخت ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیویاں تھیں اوریہ انہیں چھوڑ کرحرام اوربدکارعورتوں کے پاس رات گزارتے تھے۔
پھر ہم ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کی زبانیںاورہونٹ آگ سے کاٹے جارہے تھے اورکٹنے کے بعد ہر بارپہلے جیسے ہوجاتے تھے۔جبریل نےکہا:یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں۔
پھرایک چھوٹا پتھردیکھاجس کے سوراخ سے ایک بیلنکلااوردوبارہ اسی سوراخ میں داخل ہونا چاہتا ہے مگر داخل نہیں ہوپارہاتھا۔جبریلنے بتایا:یہ وہ شخص ہے جو کوئی بڑی بری بات کہتاہے اوربعدمیں اس پر نادم ہوکر اپنیبات واپس لینا چاہتا ہے مگر واپس نہیں لے سکتا ۔  چلتے چلتے ہم بیتالمقدس(مسجد اقصیٰ) پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر جبریل میرے پاس دو برتن لائے ایک میںشراب تھی اور دوسرے میں دودھ،میں نے دودھ پی لیا اور شراب نہ پی۔ جبریل نے کہا :آپنے فطرت کو پالیا۔  بیت المقدس میں  تمام انبیا کرام (علیہم السلام)کو میرے لئے جمع کردیاگیا تھاپھر جبریل نے مجھے پکڑ کر ان کے آگے کھڑا کردیا اور میں نے سب انبیا کرامعلیہ السلام کو نماز پڑھائی۔
یہ نماز دورکعات تھی،پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ  اخلاص پڑھی ۔ اس میں سات صفیں انبیاءکرام کی اور تین صفیںمرسلین علیہم السلام کی تھیں اور فرشتوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی۔
  پھرحضرات انبیا کرام علیہم السلام میں سےبعض جیسے حضرت ابراہیم ، حضرت داو د ،حضرت سلیمان ،حضرت عیسی(علیہم السلام )نے ربتعالی کی حمد وثنا کے بعد اپنی اپنی شان میں خطبے پڑھے۔   آخر میں، میں نےباری تعالی کی حمد وثنا کے بعد اپنی شان میں خطبہ پڑھا تو حضرت ابراہیم علیہالسلام نے انبیا کرام علیہم السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”انہی فضائل وشانوںکی وجہ سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کوتم سب پر فضیلت دی گئی ہے۔“  پھرمیں اور جبریلآسمان کی طرف بلند ہوئے اور ہماری ملاقات آسمانِ دنیا کے فرشتے سے ہوئی جس کا نام اسماعیلتھا۔اس کے ماتحت ہزار فرشتے تھے اور ان ہزارمیں سے ہرفرشتے کے ماتحت ایک لاکھفرشتے تھے۔  ارشادباری تعالیٰ ہے
ترجمہ:اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئینہیں جانتا ۔(کنزالایمان)  پھر جبریل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، پوچھاگیا:’کون ہیں ؟“کہا :جبریل ۔پوچھا :”اورآپ کے ساتھ کون ہیں؟“ کہا:”حضرت محمدمصطفیﷺ ۔“توآسمان کا دروازہ کھول دیاگیا۔  وہاں میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلامسے ہوئی، میں نے انہیں سلام کیا،انہوں نے جواب دیا اور کہا: ” صالح بیٹے اور صالحنبی کوخوش آمدید ہو۔  “ابھی میں کچھ ہی چلاتھاکہ میں نے دیکھا : ایک طرف دسترخوان پر نہایت نفیس بھنا ہوا گوشت رکھا ہے اور دوسری طرف دستر خوان پر نہایتبدبودار اور سٹرا ہوا گوشت رکھا ہے اور کچھ لوگ دیکھے جو عمدہ گوشت چھوڑکر سٹراہوا گوشت کھارہے تھے۔میرے استفسارپر جبریل نے بتایا:”یہ وہ لوگ ہیں جو حلال چھوڑکر حرام کی طرف جاتے تھے۔“ کچھ آگے بڑھا توکوٹھریوں کی مانند بڑے بڑے پیٹوں والےلوگ دیکھے ،ان میں سے کوئی اٹھنے کی کوشش کرتا تو گرجاتااور کہتا :”اے اللہ !قیامتقائم نہ کرنا۔“انہیں فرعونی جانور روند رہے تھے اور وہ بارگاہِ الہٰی میں فریاد کررہے تھے۔ جبریل نے کہا:”یہ آپ کی امت کے سودخور ہیں اور بروزِقیامت یہ لوگ آسیبزدہ شخص کی طرح اٹھیں گے۔“
کچھ آگے چلاتو ایسے لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کےہونٹوں جیسے تھے اوران کے منہ میں پتھرڈالے جارہے تھے جو ان کے نچلے دھڑ سے نکلجاتے تھے ۔جبریل نے بتایا:”یہ ناحق یتیموں کامال کھاتے تھے اورحقیقت میں اپنےپیٹوں میں آگ بھرتے تھے ، عنقریب انہیں جہنم میں ڈالاجائے گا۔“
پھر میں آگے بڑھا تو دیکھاکہ کچھ عورتیں سینوں کےبل لٹکی ہوئی ،باری تعالیٰ سے فریاد کررہی تھیں ۔
جبریل نے کہا:یہ آپ کی اُمت میںسے زناکرنے والیاں ہیں۔
مزید آگے بڑھاتووہاں کچھ لوگوں کے پہلووں سے گوشتکاٹ کاٹ کر ان کے منہ میں ڈالا جارہاتھا اور ان سے کہا جارہا تھا:”اسے کھاجیساکہ تم دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھاتے تھے۔“جبریل نے بتایا:”یہ غیبتاور چغلی کرنے والے ہیں۔“
یہ عذابات دیکھنے کے بعددوسرے آسمان پر پہنچاوہاںحضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام سے ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں سلام کیا،انہوں نے جواب دیا اور کہا:” صالح بھائی اور صالح نبی کوخوش آمدید ہو۔“
 پھر تیسرے آسمان پر پہنچا وہاں حضرت یوسفعلیہ السلام سے ملاقات ہوئی چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ،پانچویں پرحضرت ہارون علیہ السلام سے اورچھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی پھرمیںساتویں آسمان پرپہنچاجہاں فرشتوں کے قبلہ ”بیت المعمور“کے پاس ابوالانبیاءحضرتابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نےجواب دیا اور کہا:”صالح بیٹے اور صالح نبی کوخوش آمدید ہو ۔  بیت المعمور سےآگے بڑھے تو” سدرة المنتہی“کا مقام آگیا۔سدرہ ایک درخت ہے جس کے پھل مقام ہجر کےمٹکوں کی مانند بڑے بڑے تھے او ر اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مثل تھے۔  فرشتوںاور انوارنے سدرة المنتہی کو ڈھانپ رکھا تھااوراس کی جڑ سے چار دریا نکل رہے تھے،دودریا ظاہری تھے اور دوباطنی۔جبریل نے کہا:”ظاہری دریا نیل اور فرات ہیں جبکہباطنی دریاجنت کے دریاہیں اورقیامت کے دن نیل وفرات بھی جنت میں چلے جائیں گےاوروہاں یہ شہد اور دودھ کے دریا ہوں گے۔“
اس کے بعد میرے سامنے شراب ،دودھ اور شہد کے برتنلائے گئے تومیں نے دودھ لے لیا،جبریل نے کہا:”یہی فطرت یعنی دین اسلام ہے، آپاورآپ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔“ وہاں میں براق سے اترگیااورآگے بڑھا توحضرت جبریل علیہ السلام وہیں رک گئے اورکہنے لگے :”اگر میں انگلی کے پورے برابربھی آگے بڑھا تو جل جاں گا۔“ اسسے آگے میری سواری کے لئے ”رفرف“نامی سبز رنگ کا تخت لایاگیا۔ رفرف مجھے لے کر مقامِاستواءپر پہنچ گیا۔جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں ،قلم اللہ تبارک وتعالیٰکے مخلوق سے متعلق احکام کو تختیوں میں لکھ رہے تھے۔  پھر میں نے اپنے سامنےنور دیکھا تو تیزی کے ساتھ اس میں دوڑا. پس رفرف پیچھے رہ گیا اوراب ہرطرف نور ہینور تھا ۔  جب میں نے اپنے ساتھ کسی کو نہ دیکھا توکچھ گھبراہٹ ہوئی ۔تب حضرتابوبکر صدیق کی آواز سے ملتی جلتی ایک آوازآئی: اے محبوب !ٹھہریئے آپ کا رب صلوةپڑھتاہے۔“میرے دل میں آیا کہ ”کیا میرا رب نماز پڑھ رہا ہے(حالانکہ وہ تو اس سےپاک ہے)؟“تو یہ آیت تلاوت کی گئی:ھُوَ الَّذِي یُصَلِّی عَلَیکُم وَ مَلٰٓئِکَتُہ¾ پارہ۲۲،الاحزاب:۳۴)
اس وقت میرا ذہن اس طرف متوجہ ہوا کہ اس سے مراداللہ تعالیٰ کی رحمت (درودشریف)کا نزول ہے . پھراللہ رب العزت کی خاص بارگاہِعالی میں داخل ہونے کی اجازت ملی .پس میں نے اپنے رب کوانتہائی حسین صورت میںدیکھا،اس نے اپنا دست ِقدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھاجس کی ٹھنڈک میں نےاپنے سینے میں پائی اور اس کی برکت سے میں نے وہ سب کچھ جان لیا جوزمین وآسمان میںپس میری آنکھوں نے وہ جلوہ دیکھا جسے میرے سواکسی نےنہ دیکھاپھروہ جلوہ مجھے سے قریب ہوا،پھر اور قریب آیا حتی کہ وہ مجھ سے دوہاتھ کےفاصلے پر آگیایا اس سے بھی کم اور جو وحی فرمانی تھی وہ وحی فرمائی اورمیرے ربتعالیٰ نے مجھ سے فرمایا:”مانگئے۔“میں نے مختلف انبیاءکرام یعنی حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ،حضرت داد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو دئیےگئے کمالات ومراتب اور معجزات کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا میں نے آپ کو اپنا خلیل بنایاتمام لوگوں کی طرف بشیر ونذیر بنا کرمبعوث فرمایاآپکا شرح صدر کرکے آپ سے بوجھ کو دور کردیاآپ کا ذکراس طرح بلند کیا کہ جب بھی میراذکر ہوگا اس کے ساتھ آپ کا بھی ذکرہوگاآپ کی اُمت تمام امتوں سے بہتر بنائی آپ کےبعض امتیوں یعنی حفاظ کے سینوں میں آپ کی کتاب”قرآن کریم“رکھی ان کا کوئی خطبہ اسوقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک وہ آپ کے بندہ اور رسول ہونے کی گواہی نہ دیں آپکوتخلیق کے لحاظ سے تمام انبیا میں اول اورمبعوث ہونے کے اعتبارسے تمام انبیاسےآخر میں بنایا اورآپ کو ”سورة فاتحہ“ اور عرش کے خزانے کے نیچے سے ”سورہ بقرہ“ کیآخری آیات دیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔  
پھر مجھ پچاس نمازوں کا حکم ملااو رواپسی پرجب میںحضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا:یارسول اللہ!آپ کے رب نے آپکو کیا حکم دیا ؟ میں نے کہا:ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیاہے۔انہوں نےکہا:آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، واپس جائیے اور اپنے رب سے نمازیں کمکروائیے میں نے بارگاہِ الہی میں حاضر ہوکرکمی کی درخواست کی ،اللہ تعالیٰ نےدس(یاایک روایت کے مطابق پانچ )نمازیں کم کردیں میں پھر حضرت موسی علیہ السلام کےپاس پہنچا انہوں نے مزیدکم کروانے کاکہا ،میں تخفیف کے لئے پھر بارگاہِ الہی میںحاضر ہواپھر کچھ کم ہوئیں ،اس طرح حضرت موسی علیہ السلام مجھے باربار لوٹاتے رہےحتی کہ پانچ نمازیں باقی بچیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”ہمارا قولبدلتا نہیں ،آپ کی اُمت نمازیں پانچ پڑھے گی اور میں انہیں ثواب پچاس کا دوں گا۔پانچ ہوجانے کے باوجود حضرت موسی علیہ السلام نےایک بار پھرکمی کے لئے بھیجناچاہاتو میں نے کہا:”اے موسی !اللہ کی قسم !مجھے اپنےرب سے حیاآتی ہے۔  
“پھر اسی رات میں واپس آکر مسجد حرام میں سوگیااور صبح کو بیدار ہوا۔  
حوالہ جات :صحیح بخاری،الحدیث:۷۸۸۳۔۷۱۵۷۔
صحیح مسلم،الحدیث:۴۷۳۲۔
سنن نسائی،الحدیث:۱۳۶۱۔ 
سنن ترمذی،الحدیث:۱۳۱۳
دلائل النبوة، ج۲، ص۰۹۳تا ۳۹۳۔۱۰۴۔۲۰۴۔۴۰۴۔۵۹۳۔  
خزائن العرفان ۔تفسیرابن کثیر۳،ص۸۔روح المعانی،جز۵۱،ص۷۱۔
 غرائب القرآن ،ج۲،ص۲۰۲۔روح البیان،ج۹،ص۴۲۲۔
  الیواقیت والجواہر،ج۲،ص۶۶۳۔شرح المواہب اللدنیہ،ج۲،ص۶۲۱۔