Eid Ko Wa-Eid Na Banayen



عید کو وعید نہ بنائیں

            آج عید کا دن ہے۔خوشی و مسرت کا دن ہے۔سرور و انبساط کا دن ہے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنے جارہے ہیں۔ خوشبووں سے فضائیں معطر و معنبر ہیں۔ ایک دوسرے کے یہاں جارہے ہیں۔ معانقے ہورہے ہیں۔ مصافحے ہورہے ہیں۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ دراصل عید کا دن خالق کائنات جل جلالہٗ کی طرف سے ایک مہینے تک عبادت و ریاضت،تسبیح و تہلیل،ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن مین مصروف و منہمک رہنے والے اور مہینہ بھر بھوک پیاس کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ممنوعات و منکرات سے دور رکھ کر روزہ رکھنے والے بندوں کے لیے انعامِ خسروانہ سے کم نہیں۔ عید الفطر مسلمانانِ عالم کا جزوِ لاینفک ہے۔۱۴؍ سو برس سے ہلالِ عید زمان و مکان کی تمام تر قیود سے آزاد ہوکر ساری کائنات کے لیے خدائے وحدہٗ لاشریک کی توحید و الوہیت اور رسولِ رحمت  ﷺ کی رسالت و عظمت ،انسانی مساوات و اخوت،اجتماعیت اور کمزورو ں،ناداروں کی دستگیری کا ابدی پیغام لے کر نمودار ہوتا ہے۔

            عیدا لفطر
            عیدا لفطر کو یوم الرحمۃ بھی کہا جاتا ہے کہ اس روز رب العزت اپنے بندوں پر رحمت و غفران کی بارش برساتا ہے۔ یومِ عید و ہ مبارک و مسعود دن ہیکہ اللہ رب العزت اس دن اپنے بندوں کے ساتھ فرشتوں میں مفاخرت فرماتا ہے اور فرشتوں سے فرماتا ہے۔اس مزدور کا بدلہ کیا ہے جو اپنا کام مکمل کرچکا ہو؟فرشتے عرض کرتے ہیں :اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے اس کے کام کی پوری پوری مزدوری عطا کی جائے۔ یہ جواب سن کر اللہ رب العزت فرماتا ہے اے فرشتو! میرے بندوں نے وہ کام پورا کردیا جو میں نے ان کے اوپر فرض کیا تھا اب یہ دعا کے لیے نکلے ہیں اور اپنی آوازیں اور ہاتھ بلند کرکے مجھ سے مغفرت طلب کررہے ہیں ۔ مجھے میرے عزت و جلال کی قسم! میں ان کی دعائیں ضرور سنوں گا،پھر فرماتا ہے جاؤ میرے بندو! میں نے تمہارے گناہ معاف فرمادیے اور تمہاری خطائیں نیکیوں سے بدل ڈالیں ۔رولِ رحمت  ﷺ فرماتے ہیں کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
(مشکوٰۃ شریف(

            اندازہ کیجیے یہ دن کتنا مبارک و مسعود دن ہے کہ اس دن اللہ رب العزت اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرمالیتا ہے۔اور مسلمان اس حال میں عیدگاہ سے واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید کادن صرف اچھے اچھے کھانوں ،نت نئے لباس و پوشاک پہننے،عطر و گلاب لگانے،خوشبویات سونگھنے،ظاہری زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کی نمائش کا ہی دن نہیں اور صرف ان ہی باتوں کا نام عید نہیں بلکہ اس دن باطنی خشوع و خضوع ،روحانی طہارت و پاکیزگی،گناہوں کی آلائشوں اور گندگیوں سے صفائی،ترکِ معاصی ،بدعات و خرافات سے اجتناب، غربا و مساکین کی دستگیری ،یتیموں اور بیواوں کی امداد واعانت اور اللہ عزو جل کی رضاجوئی یہ باتیں بھی پیشِ نطر ہونی چاہئیں۔ ان تمام باتوں کے بغیر عید برائے نام عید ہوگی بلکہ ’’وعید‘‘ ہوجائے گی۔

            پہلے پہل یہ دن ہمارے لیے جشن و طرب کا پیغام لاتاتھا ۔ کیوں کہ یہی دن ہمارے صحیفۂ اقبال کا اولین صفحہ تھااور اسی تاریخ سے ہمارے ہاتھوں قرآنی حکومت اور رسولِ رحمت ﷺکی سیرتِ پاک کا دور ِ جدید قلوب و اذہان کی سرزمین پر طلوع ہواتھا۔اس دن کا آفتاب جب نکلتا تھا ہمیں خبر دیتا تھا کہ کس طرح یہ خاکدانِ گیتی اللہ رب العزت کی نافرمانیوں اور گناہوں کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں کے سبب ظلمت کدہ میں تبدیل ہوگئی تھی اور پھر کس طرح رسولِ رحمت  ﷺ کے جاں نثار اصحاب رضوان اللہ اجمعین نے اپنے اعلا اخلاق و کردار کی روشنی پھیلائی اور اس کی منور کرنوں سے افقِ عالم پر نیرِ درخشاں بن کر صبحِ تابندہ کو نمودار کیا اور اس کائنات ِ ارضی کو روشن و منور اور تابناک و درخشاں فرمایا تھا۔ وہ یومِ عید کو یومِ عید کی طرح منایا کرتے تھے ان کے پیشِ نظر رسولِ رحمت  ﷺ کا اسوۂ حسنہ تھا،سرورِ کائنات کی زندگی کا تابناک باب تھا وہ رسول اللہ کی طرح عید کا دن منایا کرتے تھے وہ لہو و لعب ،لغویات و خرافات سے کوسوں دور رہا کرتے تھے مگر افسوس صد ہزار افسوس! کہ ہم نے اس دن کو نامعلوم کتنی برائیوں ،بد اعمالیوں اور منکرات و منہیات ِ شرعیہ میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔اس رحمت و غفران کے دن کو ہم نے عید کے بجائے ’’وعید ‘‘کا روز بنالیا ہے۔صبح دوگانۂ مسرت سے فارغ ہوکر ہم برائیوں کے اڈوں کی طرف اور سنیما گھروں کی سمت اپنے قدموں کو بڑھانے لگتے ہیں۔ نت نئی شرارتوں،لہو ولعب،لغویات و خرافات،کھیل تماشوں،فضول خرچیوں اور غیر اسلامی افعال کا ارتکاب کر کے اس عظیم روز کو ’’روزِ وعید‘‘ بنالیتے ہیں۔ اور اسلام کے مہتم بالشان تہوار کے تقدس کو بدنام و پامال کرنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑتے پہنے بلکہ عید اس کی ہے جو خدا کے عذاب سے ڈرا ۔عید اس کی نہیں جو مختلف سواریوں پر سوار ہوکر سیر و تفریح کے لیے نکلے ۔بلکہ عید اس کی جس نے گناہوں کو چھوڑ دیا۔حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے عید سے ایک روز قبل درخواست کی کہ عید پر ہمیں کوئی نظم لکھ کر دیجیے تو آپ نے حسبِ ذیل رباعی تحریر فرمائی    ؎

خلق      گوید  کہ  فردا      روزِ                 عید            است
خوشی در         روحِ     ہر مومن  پدید    است
در  آں            روزے              کے           بایماں   بمیرم
مرا در ملکِ    خود آں     روزِ عید         است

ترجمہ:  لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید کا دن ہے مگر میں تو جس دن ایمان کو سلامت لے کردنیا سے اٹھوں گا میرے لیے وہ روز،روزِ عید ہوگا۔ (فیضان سنت مؤلف امیر اہلسنت ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری)

            رمضان البارک کے مقدس ترین مہینے میں روزے کی وجہ سے روح کو صفائی اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔جس طرح گندے کپڑے کو گرم پانی اور صابن سے پاک وصاف کیا جاتا ہے اسی طرح بھوک و پیاس کی آگ اور تقویٰ و پرہیزگاری کے صابن سے مہینہ بھر میں گناہوں کی آلائشوں سے بھرپور روح چمک اٹھتی ہے اور روزہ دار کا باطن صاف ستھرا اور پاکیزہ ہوجاتا ہے ۔ چوں کہ اسلام ظاہری و باطنی دونوں صفائی پر مکمل زور دیتا ہے اسی لیے عید کے روز حکم ہے کہ تمہارا باطن صاف اور ستھرا ہے تو ظاہر بھی خوب صاف اور ستھرا رکھو،خوشبو لگاؤاور عید گاہ میں اپنے ظاہر و باطن کی صفائی میں یکسانیت کا مظاہرہ کرو۔ آج کل عید کوبہت حد تک عید کے بجائے ’’وعید ‘‘ میں تبدیل کیاجاچکا ہے ۔ امتِ مسلمہ کا نوجوان اس روز حد سے زیادہ فضول خرچی کرتا ہے۔ یہ بات نہایت بُری ہے۔قرآنِ کریم میں خداوندِ قدوس نے فضول خرچی کرنے والے آدمی کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے مگر افسوس کہ آج کل عید کا دن لہو و لعب کا دن سمجھ لیا گیا ہے۔ اور نا عاقبت اندیش اشخاص اس روز خوب خوب روپیہ پیسہ برباد کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سنیما والے بھی یہ غلط روش دیکھ کر عید کے روز دو دو شو اور بڑھا دیتے ہیں اور اشتہاروں میں لکھتے ہیں کہ………  ’’عید کی خوشی میں چار شو‘‘…

افسوس صد افسوس! شریعتِ مطہرہ تو فرمائے کہ ہر روز پانچ نمازیں اور عیدالفطر کی خوشی میں ’’چھ نمازیں‘‘مگر تہذیبِ جدید نے شریعت کا ایسا مذاق اڑایا کہ ہر روز دو دو شو اور عید کی خوشی میں چار چار شو…ماتم تو اس بات کا ہے کہ مسلمان نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سنیما گھروں میں برقع پوش مسلم خواتین کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مت پوچھیے ۔ملتِ اسلامیہ کی مائیں اور بہنیں نہ جانے کس رخ پر جارہی ہیں ۔اصلاحِ معاشرہ کی پہلی منزل ماں کی گود ہے مگر فی زمانہ ملتِ اسلامیہ کی خواتین کا کردار تاریک مستقبل کا پتہ دیتا ہے…مسلمانو! اپنے آپ کو فضول خرچی سے بچاؤ،لہو لعب اور بداعمالیوں سے دور رکھو۔اور اپنے خالق و مالک کو جس نے ہمیں یہ عظیم الشان دن عطا فرمایا ہے فراموش نہ کرو۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ عید کا دن اعلانِ مسرت و شادمانی کا دن ہے۔فرحت و انبساط اور سرور و مستی کے اظہار کا دن ہے۔ مگر ہماری عید دیگر مذاہب کی عیدوں کی طرح عید نہیں ہے بلکہ اسلامی عید ایک نہایت بلند و بالا تخیل اور نیک جذبات پر مبنی عید ہے اسلام کی دیگر خوبیوں کی طرح یہ موقع بھی دینِ اسلام کی عظمت و برتری اور اسلام کے اعلا حسنِ اخلاق اور تعلیم ِ اقدار کے اظہار و اشتہار کا موقع ہوتا ہے۔ اس جشنِ مسرت و شادمانی کو دیگر اقوام و مذاہب کی طرح لہوو لعب اور لغویات و خرافات میں نہ گذاریں۔صرف اور صرف اللہ رب العزت کی خوشنودی اور اسکی رضا جوئی پیشِ نظر ہو ہماری عید کو لہو ولعب اور خرافات و لغویات سے کوئی تعلق نہیں یہ عید کا روز تو اللہ عزو جل کے شکر ادا کرنے کا ہوتاہے اس کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ دعائیں مانگنے کے لیے ہوتا ہی ہے کہ اس دن اللہ عزو جل اپنے روزہ دار بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور بخشش و مغفرت کا دریا اس دن پورے جوش پر ہوتا ہے۔

            ہلالِ عید ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اسلام کی اجتماعی زندگی،اعلا اخلاقی قدروں  اور مساوات و اخوت کی تعلیم کو عید کے روز بلند کرو باہمی گلے شکوے دور کرو آپس میں میل جول بڑھاؤ ،عزیز واقارب ،پڑوسی جو کمزور و نادار ہیں ان کی دستگیری کرو ،نا کہ اپنے آپ میں گم رہو خود تو خوش رہو مگر دوسروں کی خوشی کا خیال نہ کرو اس دن ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں اپنی ذات کا احتساب کریں ۔ اتحاد و اتفاق اور بھائی چارہ کوفروغ دیں۔

            آج جب ہم بین الاقوامی سطح پر ملتِ اسلامیہ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ آج اسلام اور اہلِ اسلام  کے خلاف یہود و نصاریٰ اور ان کے حلیفوں کی سازشیں پورے شباب پر ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ہر ذی فہم اور باہوش فرد عالمِ اسلام کی اس واضح دردناک اور کربناک لمحہ لمحہ بدلتی صورتِ حال سے باخبر ہے۔ گزشتہ صدی میں دشمنانِ اسلام نے جس بے دردی سے مسلمانوں ظلم و بربریت کے پہاڑتوڑے ہیں۔رواں صدی میں اس سے کہیں زیادہ خونِ مسلم کی ارزانی شروع ہوگئی ہے۔ فلسطین،عراق،افغانستان،ایران،صومالیہ،یوگوسلاویہ،چیچنیا،بوسنیا، برما، یمن، لیبیا، تیونسیا،شام، پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کو حد درجہ اذیت ناک اور کرب ناک دور سے گزرنا پڑرہا ہے ،ہر طرف امتِ مسلمہ ستائی جارہی ہے۔ہمارے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں۔یہود و نصاریٰ ہمیں مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے کے درپَے ہیں ۔یہ دراصل ہماری بداعمالیوں کا شاخسانہ ہے ۔آج عید کے دن ہمیں اپنے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے دکھوں کو یاد کرنا چاہیے ۔اس خوشی کے موقع پر ان کے درد وغم کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔عید کا دن چوں کہ دعاوں کی قبولیت کا دن ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ آج کے دن ہم اپنے اس ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے بصمیمِ قلب دعائیں مانگیں کہ وہ عالمِ اسلام کو بقا و تحفظ عطافرمائے ،اسلام دشمن یہود و نصاریٰ کی اسلام مخالف ہرسازش کو ناکام بنائے۔امتِ مسلمہ کے جملہ افراد کی جان و مال ،عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے نیز یہ بھی دعا مانگیں کہ رسولِ رحمت  ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سب کو برائیوں،بدکرداریوں،بداعمالیوں سے دور رکھے بدعات و خرافات،لہو و لعب اورفضول خرچی سے اجتناب کی توفیق بخشے (آمین(

            عیدالفطر کا دن مکمل اسلامی اخلاق و آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے منائیں ۔ہر قسم کے منکرات و منہیات ِ شرعیہ سے دور رہیں۔بے پردگی اورغلط کاری سے بچتے ہوئے عید کا تقدس پامال کرکے اسے ’’وعید ‘‘ میں نہ تبدیل کریں ۔اللہ ہمیں نیک ہدایت بخشے  (آمین)۔