شہنشاہ دکن حضرت سیدنا سید بابا شرف الدین حسینی سہروردی عراقی رحمۃ اللہ علیہ


 

نام ونسب :

آپ علیہ الرحمہ کانام نامی اسم گرامی حضرت مخدوم سید شرف الدین سہروردی عراقی اور مشہور لقب حضرت’’ باباشرف الدین علیہ الرحمہ ‘‘ہے۔یہ بات مشہور ہے کہ آپ والد کی طرف سے نسب بنی فاطمہ حسینی سادات سے ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۶ ؍شعبان ۵۸۶ھ م ۱۱۹۰ء بمقام عراق بتائی جاتی ہے اسی لئے آپ کے نام مبارک کے ساتھ عراقی کی نسبت بھی موجود ہے۔

سلسلہ نسب: آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب یوں بتایا جاتا ہے:حضرت مخدوم بابا سید شرف الدین سہروردی عراقی ابن حضرت سید محمدابن حضرت سید محمود ابن حضرت سید احمدابن حضرت سید عبد اللہ ابن حضرت سید علی اصغرابن حضرت سید محمد ابو جعفرثانی ابن حضرت سیدنا امام علی نقی ابن حضرت سیدنا امام جواد تقی ابن حضرت سیدنا امام علی موسیٰ رضاابن حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم ابن حضرت سیدنا امام جعفر الصادق ابن حضرت سیدنا امام محمد باقرابن حضرت سیدنا امام علی زین العابدین ابن حضرت سیدنا امام حسین شہید دشت کربلاابن حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ۔

آپ علیہ الرحمہ کے متعلق محققین نے لکھا ہے آپ بعمر(۴۵)سال ملک عراق سے ۶۳۱ھ(م1233/1234ء)میں ہندوستان تشریف لائے اس وقت شمالی ہند میں دلی اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں پر سلطان شمس الدین التمش بادشاہ کی حکومت تھی تقریباً(۹) نو سال مختلف علاقوں کے سفر کے بعد آپ نے دکن کا رُخ کیا ۔

مولانا ابوتراب عبدالجبارخان ملکاپوری صاحب محبوب التواریخ کے ایک بیان کے مطابق ۶۴۰ھ م ۱۲۴۲ء میں آپ بعمر چوپن(۵۴) ملک دکن رونق افروز ہوئے ۔آپ علیہ الرحمہ کی تشریف آوری کے زمانے میں دکن کے اطراف واکناف میں اسلام کے پودے جم رہے تھے اور شہروں و قریوں میں آہستہ آہستہ دین محمدی کے پرچم نصب ہورہے تھے اولیاء اللہ و تاجرین کے قافلے عرب وعجم سے برابر آر تے رہے ۔ بزرگ واہل اللہ ملک میں اس غرض سے تشریف لاتے تھے کہ اہل اصنام کو تالیف قلوب وحسن سلوک سے راہ حق کی ہدایت کریں،اولیاء اللہ کے تصرفات وکرامات دیکھ کر غیروں کے دل نرم پڑنے لگے وہ لوگ موافقت کرنے لگے اور بزرگوں کو اس ملک میں رہنے کے لئے حالات سازگار بنے رفتہ رفتہ بزرگوں کے کرشمے دیکھکر اکثر راجے مہاراجے وظائف مقرر کرنے لگے اور حسن اعتقاد سے خدمات میں حاضر ہونے لگے۔

حضرت سیدبابا شرف الدین علیہ الرحمہ سلسلہ سہروردیہ کے بلند پایہ ولی کامل ہیں۔سرخیل سلسلہ سہروردیہ شیخ الاسلام حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ کے مرید خاص اور خلفائے کبار میں سے ہیں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا کہ آپ کو سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی علیہ الرحمہ سے بیعت وخلافت تھی جو درست نہیں چنانچہ مولانامحمدعبدالجبار خان ملکاپوری مولف محبوب ذوالمنن تذکرۂ اولیائے دکن اس بارے میں لکھتے ہیں ’’تاریخ خورشید جاہی کے مولف نے لکھا ہے کہ آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی علیہ الرحمہ کے مرید وخلیفہ ہیں لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا معلوم ہوتا ہے کہ بلا تحقیق صرف سماعت کے اعتماد پر لکھ دیا ہے‘‘۔

سلطان الہند‘خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز علیہ الرحمہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملک ہند کی طرف روانہ فرمایاہے اسی لئے آپ کو عطائے رسول بھی کہا جاتا ہے حضرت باباشرف الدین علیہ الرحمہ سے متعلق بھی یہ بات مشہور ہے کہ آپ بھی بحکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملک دکن کی طرف اشاعت دین حق کے لئے رونق افروز ہوئے اور بڑی نرمی وپیار اور حسنِ اخلاق کے ذریعہ اسلام کی روشنی سے اس علاقہ کو اور یہاں کے رہنے والوں کے دلوں کو منور کیا چنانچہ محبوب ذو المنن تذکرۂ اولیائے دکن معروف بہ محبوب التواریخ میںلکھا ہے ’’ بابا شرف الدین عراقی علیہ الرحمہ  حسب ارشاد وہدایت حضرت رسالت پناہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشاعت اسلام کے لئے دکن آئے۔

آپ علیہ الرحمہ  کے ہمراہ (۶۰)ساٹھ(۷۰)ستر فقراء بھی تھے ‘آپ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول اور مریدین کی ہدایت وتلقین میں مصروف رہتے تھے اکثر اہل ہنود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ کے حسن اخلاق سے فیض پاتے تھے۔اکثرآپ کی ہدایت سے موحد ومسلم ہوئے ۔آپ نے اپنے مریدوں کو دکن کے دیہات وقصبات میں ہدایت وتالیف قلوب کے لئے روانہ کیا‘‘۔حدائق الاولیاء کے حوالہ سے جناب مولانامحمد عبدالجبار ملکاپوری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ’’حضرت بابا شرف الدین علیہ الرحمہ  کی تشریف آوری سے دکن میں یہ غرض تھی کہ دینِ محمدی کی اشاعت ہو بنائً علیہ (اسی بنیادپر)آپ اہل اصنام کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے تھے۔ہر ایک راجا وپرجا (خاص وعام)کے ساتھ نرمی سے پیش آتے یہی وجہ تھی کہ آپ کے پاس صبح وشام جوق درجوق (وہ لوگ) آتے تھے آپ صاحب کشف کرامات مقبول الدعوات بزرگ ولی اللہ تھے ‘جوزبان مبارک سے فرماتے تھے وہی ہوتا تھا‘‘۔

کتاب سلطان العارفین مطبوعہ ۱۳۶۴ھ حیدرآباد کے مصنف پیر زادہ سید دستگیر پادشاہ علیہ الرحمہ  جودرگاہ شریف کے سجادہ تھے کے مطابق انھوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ملک دکن میں دور دراز گاؤں وقصبات میں جہاں جہاں گھنے جنگلات اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بزرگان دین کے مزارات ہیں وہ بالعموم اولیائے سہروردیہ کے ہیں۔جو حضرت باباشرف الدین علیہ الرحمہ  سے ہدایت پاکر تبلیغ دین واشاعت اسلام کے لئے بھیجے گئے تھے۔

حضرت بابا شرف الدین علیہ الرحمہ  کے حالات پر اردو میں سب سے پہلے تفصیلی و تحقیقی کتاب لکھنے کا شرف میرے حقیقی دادا حضرت مفتی ومحدث وشیخ الدلائل فی الدکن سیدالصوفیہ ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔ حسنی حسینی قادریعلیہ الرحمہ  کو ملا کہ آپ نے آج سے (۱۰۴)سال قبل ۱۳۴۰ھ میں ترتیب وجمع کرکے اپنے والد ومرشد سیدالسادات شیخ الشیوخ امام الصوفیہ حضرت صوفی اعظم قطب دکن علیہ الرحمہ  کی موجودگی میں’’حالات باباشرف الدین پیر علیہ الرحمہ ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا تھا جسکے کئی اڈیشن ہاتھوں ہاتھوں نکل کر عوام وخواص میں مقبول ہوئے ۔آخری اڈیشن والدی ومرشدی مولائی وقار الصوفیہ مصباح المسرین حضور اعظم المشائخ حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظمؔ حسنی حسینی قادریعلیہ الرحمہ  نے ۱۳۸۴ھ م ۱۹۶۴ء میں طبع کروایاتھا۔

آج جس جگہ اونچے پہاڑ پر آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق بناہوا ہے اسی علاقہ میں آپ کا قیام تھا اور ایک غار میں آپ نے مسلسل (۹)سال تک ریاضت وعباد ت کی اور پھر بعمر ۶۳سال غار سے باہر تشریف لائے یہ مقام’’چلہ حضرت بابا صاحب علیہ الرحمہ ‘کے نام سے آج بھی موجود ومشہور ہے جہاں کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے زائرین آج بھی اس مقام پر حاضری دیا کرتے ہیں ۔آپ سے متعلق بے شمار کرامات مختلف کتب میں مذکور ہیں ۔

سلطان العارفین قطب الہند غوث دکن حضرت سیدنا بابا شرف الدین سہروردیعلیہ الرحمہ  نے بتاریخ ۱۹؍شعبان المعظم ۶۸۷ہجری م۱۲۸۶ء بعمر(۱۰۱)سال وصال حق فرمایا۔اور اسی مقام پر سپردلحد کئے گئے جہاں آج بھی آپ علیہ الرحمہ  کا مزار اقدس مرکز انواروتجلیات بناہواہے۔انا للہ واناالیہ راجعون آپ علیہ الرحمہ کا مادہ تاریخ وصال ’’آہ شرف الدین بابا‘‘ ہے۔ آپ مرد میدان تجرید تھے اس لئے اپنے حقیقی برادرزادے سید فرید الدین سہروردی بن سید موسیٰ علیہ الرحمہ کو اپنا جانشین بنایا تھا جن کا مزار باباسرکار کے پائیں میں بائیں جانب واقع ہے البتہ مشرقی سمت سیڑھیوں سے اُترنے پر کہاجاتا ہے کہ بابا سرکار کے چھوٹے برادر حقیقی حضرت سید موسیٰ علیہ الرحمہ  اور ان کی اہلیہ یعنی بابا سرکارکی بھاوج صاحبہ کے مزارات ایک چبوترہ پر واقع ہیں۔

 

 

سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ


 

سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے والد ماجد کا نامِ گرامی حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمۃ ہے۔ ان کا آبائی وطن بخارا تھا۔سید احمد بخاری علیہ الرحمۃ اپنے والد حضرت سید علی بخاری کے ہمراہ ٦٠٧ہجری میں بعد عہدِ شمس الدین التمش بدایوں تشریف لائے۔ اپنے والد کے مرید و خلیفہ بھی تھے۔ بدایوں میں محلہ پتنگی ٹیلہ (قاضی ٹولہ) میں سکونت اختیار کیا۔ آپ بدایوں میں جامع مسجد شمسی کے پہلے امام مقرر ہوئے۔ سلطان التمش نے بدایوں کے منصب قضا پر فائز کیا۔شب و روز یادِ الٰہی میں مشغولیت ان کا شیوہ تھا۔

آپ کی شاد ی خانہ آبادی بی بی زلیخا بنت سید عرب بخاری سے انجام پائی۔ جن کے بطن سے اپنے وقت کے امام الاولیاء محبوبِ الٰہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء تولد ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام محمدرکھا تھا۔ ابھی آپ کمسن طالب علم ہی تھے، ایک روز آپ نے دروازے پر مولانا نظام الدین کی صدا سنی۔ آپ نے باہر آکر دیکھا تو باہر ایک شخص کھڑا تھا اس نے آپ کو سلام عرض کیا۔ السلام علیکم! مولانا نظام الدین ، اُسی دن سے آپ کی مشہوری نظام الدین کے نام سے ہوئی۔آپ پانچ سال کے ہوئے تو والد ماجدکا وصال ہوگیا۔

سیدہ بی بی زلیخا جو خدا شناس و پارسا خاتون تھیں ۔وہ اپنی بیوگی اور لختِ جگر کی یتیمی سے بے حد پریشان ودل گرفتہ نہ ہوئیں بلکہ انہوں نے نامساعدحالات سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور فرزند دل بند کی تعلیم و تربیت کے لیے کمر بستہ رہیں اور ان کی پرورش اور دینی و اخلاقی تربیت مادرانہ شفقت اور پدرانہ حوصلہ مندی کے ساتھ کرنے لگیں۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ زلیخا رحمة اللہ علیہما نے انتہائی افلاس اور تنگ دستی کے باوجود سوت کاٹ کاٹ کر اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ مرکوز رکھی۔ حضرت اس قدر ذہین تھے کہ سولہ سال کی عمرِ شریف میں بدایوں شریف کے اکابر علماء و مشائخ سے دستار فضیلت حاصل کر لی ۔
سولہ سال ہی کی عمر تک سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء بدایوں میں رہے آپ نے چھ پارے کلام اللہ کے اور تین کتابیں (ایک کو پڑھا اور دو سنیں) اور چھ باب عوارف کے شیخ الشیوخ عالم حضرت گنج شکر بابا فرید الدین ) سے پڑھے۔تمہید ابو شکور سالمی بھی ساری کی ساری شیخ الشیوخ سے پڑھی۔ چنانچہ تمہید ابو شکور سالمی کے درس دینے کا اجازت نامہ پایا۔ آپ کی دینی، فقہی اور دنیاوی علوم میں قبولیت اور لیاقت کا یہ عالم تھا کہ اس دورکے بڑے بڑے علماء اور اہلِ شریعت و طریقت آپ کے معترف تھے۔ ثقہ راویوں سے منقول ہے کہ جن دنوں سلطان المشائخ اجودھن میں شیخ الشیوخ فرید الدین گنج شکر کے پاس رہتے تھے۔
آپ کے کپڑے بڑے میلے کچیلے رہتے تھے ، وجہ یہ تھی کہ صابن نہ تھا کہ انہیں دھویا جائے ایک دن سید محمد بن مبارک کرمانی کی دادی محترمہ نے سلطان المشائخ سے کہا،بھائی تمہارے کپڑے بہت میلے کچیلے ہیں، پھٹ بھی گئے ہیں اگر مجھے دے دو تو میں انہیں دھو دوں اور ان میں پیوند بھی لگا دوں۔سلطان المشائخ نے بڑی نرمی سے معذرت چاہی، دادی محترمہ نے معذرت قبول نہ کی اور اپنی چادر پیش کی کہ اسے پہن لو جب تک میں کپڑے دھو لوں۔سلطان المشائخ نے ایسے ہی کیا۔ دادی محترمہ نے کپڑے دھو کر اور پیوند لگا کر شیخ المشائخ کو کپڑے واپس دیئے۔

شیخ المشائخ نے بڑی معذرت کرتے ہوئے، احسان مندی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کپڑے پہنے۔سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ بچپن میں مولانا علائو الدین سے بدایوں میں ”اصول ” پڑھ رہا تھا ۔ ایک دن مسجد میں خلوت و تنہائی تھی وہ سبق پڑھ رہا تھا اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ سنہری سانپ پھنکار تے ہوئے جا رہے ہیں۔ میں تجربتاً دیکھنے لگا ان سب میں سے آخری سانپ چھوٹا سا تھا، وہ جا رہا تھا میں نے کہا کہ ذرا دیکھوں تو سہی کہ یہ کیا ہے میں نے اس چھوٹے سانپ پر اپنی پگڑی ڈال دی۔میں نے دیکھا کہ پگڑی کے نیچے سنہری تنکوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، میں نے پگڑی اٹھائی اور ان سنہری تنکوں کو وہیں چھوڑ دیا۔
بدایوں شریف سے والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے اوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی تمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی۔
ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانۂ عالیہ کی زیارت کے لیے وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دے۔ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِ حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت بڑے ولیٔ کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت محبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا ہوں۔

پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی زبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحب علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علم تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظام الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی۔

خرقۂ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر دہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں مشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزئوں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاں تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔

غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہ علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاء کا شاندارعلاقہ ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگائوں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرک مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی لیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ خلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعائوں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے حاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔

حضرت محبوبِ الٰہی کی بارگاہ میں غریبوں اور عام انسانوں کو ہروقت حاضرہونے کی عام اجازت تھی لیکن بڑے بڑے بادشاہوں کی یہ جرأت نہیں تھی کہ آپ کے حضور حاضر ہو سکیں۔ آپ بادشاہوں کے قرب کو پسند نہیں فرماتے تھے، سلطان بلبن جو ایک دیندار حکمراں اور آپ کا معتقد تھا اسے بھی بالمشافہ ملاقات و زیارت کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔ بادشاہ معز الدین کیقباد نے تو صرف اس وجہ سے حضرت کی خانقاہ کے قریب اپنا محل تعمیر کروایا تھا کہ اسی طرح حضرت کا قرب حاصل ہوتا رہے۔ سلطان کی بنوائی ہوئی جامع مسجد میں آپ نماز کے لیے تشریف لیجاتے تھے لیکن سلطان سے ملاقات کے لیے آپ اس کے محل میں کبھی نہیں گئے۔
سلطان جلال الدین خلجی بھی آپ کا بے حد عقیدت مند تھا لیکن اسے بھی کبھی ملاقات کا موقع آپ نے عطا نہیں فرمایا۔ اپنے زمانہ کے طاقتور شہنشاہ ٔ ہند علاء الدین خلجی نے آپ کی زیارت کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ جب علاء الدین کا تیسرا بیٹا مبارک شاہ اپنے ولی عہد بھائی خضر خان کو قتل کرکے بادشاہ بن گیا تو حضرت کو بے حد صدمہ پہنچا کیونکہ شہزادہ حضرت کا جان و دل سے معتقد اور مرید تھا ۔مبارک شاہ کو حضرت سے اس لیے بھی عداوت تھی۔چونکہ آپ کی خانقاہ میں محافل سماع کا اہتمام ہوتارہتا تھا اس لیے آپ کی بزرگی اور مقوبلیت سے حسد کرنے لگا۔ علماء دربار سماع کے جواز و عدم جواز کی بحث کیاکرتے تھے اور حضرت سے اختلاف کے بہانے بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دنیا پرست اور دربار دار علماء کی حضرت محبوبِ الٰہی جیسی علمی و روحانی شخصیت کے سامنے عوام میں کوئی قدروقیمت نہ رہ گئی تھی۔مبارک شاہ حضرت سے عداوت پر اتر آیا اس نے حکم جاری کیاکہ فلاں تاریخ کو نظام الدین شاہی دربار میں حاضر ہوکر ان پر عائد علماء کے الزمات کا جواب دیں۔محبوبِ الٰہی کی روحانی طاقت کا کرشمہ ایسا ہواکہ اسی تاریخ کو مبارک شاہ کو اس کے معتمد غلام خسرو خان نے قتل کر دیا اور جب غیاث الدین تغلق ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز پر ایک مذہبی مجلس منعقد کی تاکہ اس میں حضرت کے مخالف درباری علماء کے ذریعے حضرت کو نیچا دکھایا جا سکے۔
حضرت محبوبِ الٰہی اس مجلس میں تشریف لے گئے اور مباحثے میں علماء کے الزامات کا ایسا مدلل جواب دیاکہ وہ جید علماء جو اپنے علم و فضل پر نازاں تھے لاجواب ہو کر رہ گئے۔بادشاہ غیاث الدین تغلق کو بے حد شرمندگی ہوئی چونکہ اسی دن اسے ایک مہم میں بنگال روانہ ہونا تھا اس لیے اس نے جاتے جاتے حکم جاری کیا۔حضرت اس کے دہلی واپس آنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں آپ کے عقیدتمندوں کو اس شاہی حکم نے رنجیدہ و فکر مند کر دیالیکن آپ نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی اور بدستور اپنے معمولات میں مشغول رہے لیکن اس وقت آپ کے مریدوں اور حلقہ بگوشوں کی پریشانی حد سے بڑھ گئی جب بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ کر ایک عارضی محل میں مقیم ہواکیونکہ اگلے دن اس کے فاتحانہ استقبال کے لیے شہر میں زبردست تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
عقیدت مندوں کے فکر و تشویش ظاہر کرنے پر آپ نے فرمایا” ہنوز دلی دور است” اسی رات کو وہ عارضی محل گر پڑا اور بادشاہ ملبے میں دب کر مر گیا۔ آپ کا تاریخی جملہ ہنوز دلی دور است ضرب المثل بن گیا۔حضرت کا دستر خوان اتنا وسیع تھاکہ خانقاہ کے لنگر میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا کھانا تیار ہوتا تھا۔آپ کے دستر خوان سے لاتعداد مہمان و مسافر طرح طرح کی نعمتوں سے سیر ہوتے تھے لیکن خود محبوبِ الٰہی ہمیشہ روزے سے رہتے تھے اور تھوڑی سی جو کی روٹی اور اُبلی ہوئی سبزی کے علاوہ کبھی کسی عمدہ غذا کو ہاتھ نہیں لگایا، فرماتے تھے دنیا میں ہزاروں غریبوں کو کھانا میسر نہیں ایسے میں انہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔
آپ کے دربار سے غریبوں محتاجوں اور ضرورتمندوں کی دل کھول کر امداد کی جاتی تھی لنگر خانہ کا خرچ شاہانہ تھا لوگ حیران تھے کہ یہ سب کیسے چلتا ہے آپ کی عظمت و محبوبیت حاسدین کے لیے بہت تکلیف دہ تھی وہ لوگ حیران رہتے کہ محبوبِ الٰہی کو آخر اتنی دولت ملتی کہاں سے ہے۔مریدوں اور عقیدتمندوں کے نذرانوں سے تو اتنا بڑا نظا م چلنے سے رہا۔ حضرت نے خانقاہ میں پانی کے مناسب انتظام کے لیے باولی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ تعمیر کا کام تیزی سے شروع ہوگیا، پانی نکل چکا تھا اب تعمیر کا کام چل رہا تھا ہزاروں مزدور کاریگر کام کر رہے تھے دن کو ہی نہیں رات کے وقت بھی بڑے بڑے چراغوں کی روشنی میں کام چلتارہتا تھا ایک دن بادشاہ نے شہر میں تیل کے تاجروں کو حکم دیاکہ خانقاہ میں تیل کی فراہمی نہ کی جائے ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔
بازار سے تیل ملنا بند ہوا تو رات کو روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث کام روکنے کی نوبت آگئی آپ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے باولی کا پانی چراغوں میں بھر کر روشنی کر دی۔پانی آپ کی کرامت سے تیل بن گیا۔ حضرت شیخ نصیر الدین روشن چراغ سے روایت ہے کہ اپنے وقت کے بڑے عالم دین اور بزرگ حضرت قاضی کاشانی ایک دن اس قدر بیمار ہوگئے کہ ان کے بچنے کی کوئی امید باقی نہی رہی حضرت محبوبِ الٰہی کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا توعیادت کے لیے تشریف لے گئے اس وقت قاضی صاحب بیہوش تھے۔

لیکن حضرت کے قریب آتے ہی ہوش میں آگئے اور اس طرح صحت مند نظر آنے لگے کہ جیسے کبھی بیمارہی نہ ہوئے ہوں، حالانکہ تھوڑی دیر پہلے تک ان کی ایسی حالت تھی کہ لوگ ان کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے ایک مرید نے آپ کی دعوت کی اس موقع پر محفلِ سماع کے لیے مرید نے کچھ قوالوں کو بلوایا جب محفلِ سماع شروع ہوگئی تو بہت سے لوگ وہاں جمع ہوگئے، کھانے کا وقت ہوا تو میزبان کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کھانا تو صرف چند مہمانوں کے لیے ہی تیار کرایا تھا جب کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے ان میں زیادہ تر اصحاب حضرت محبوبِ الٰہی کے ارادتمند اور خود میزبان کے شناسا تھے۔
حضرت نے میزبان کی پریشانی محسوس کر لی اور فرمایا سب کے ہاتھ دھلوائو اور دستر خوان پر کھانے کے لیے بیٹھائو۔ پھر اپنے دستِ مبارک سے آپ نے روٹیوں کے چار چار ٹکرے کرکے دستر خوان پر رکھے اور فرمایا ”بسم اللّٰہ !”اس کے بعد پورے مجمع نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بھی بہت سا بچ گیا۔قصبہ سرساوا میں ایک رئیس اور عالم و فاضل شخص کے مکان میں ایک دن اچانک آگ گئی جس میں ان کی جاگیر کے کاغذات اور شاہی فرمان بھی جل گئے۔ اس حادثہ سے پریشان ہوکر وہ صاحب بھاگے بھاگے دہلی آئے تاکہ جاگیر کی دوسری سند اور شاہی فرمان حاصل کر سکے۔ بڑی کوششوں سے انہیں مطلوبہ فرمان اور کاغذات مل گئے۔
وہ خوشی خوشی دربار سے واپس آئے لیکن راستے میں دہلی کی بھیڑ بھاڑ میں ان کے کاغذات کہیں گر گئے ،بہت تلاش کیا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا۔بیحد رنجیدہ ہوئے کہ کسی نے انہیں حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔رنج و غم میں ڈوبے ہوئے وہ صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدد کی درخواست کی۔حضرت نے ان کی روداد سن کر خوشدلی سے فرمایا: مولانا کچھ نذر کرو تو تمہارا کام کروں، مولانا نے عرض کیا جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ قبول فرمائیں، حضرت نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں البتہ بازار جاکر تھوڑا حلوہ خرید لائو ۔ مولانا دوڑے ہوئے خانقاہ کے قریب ایک حلوائی کی دکان پر پہنچے اور کچھ درہم اسے دے کر کہا۔
اس رقم کا جتنا حلوہ آتا ہو دے دو۔ حلوائی نے حلوہ تولا اور پاس پڑے ردی کاغذوں سے ایک کاغذ اٹھایا اور چاہاکہ اسے پھاڑ کر حلوہ باندھ دے کہ انہوں نے دیکھاکہ وہ انہیں کاکاغذ تھاجسے وہ کھو چکے تھے۔فوراً وہ کاغذ اور حلوہ لے کر حضرت رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جوشِ عقیدت سے قدم بوس ہوگئے۔آپ کی زبان مبارک سے جو بات نکل جاتی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری ہو جاتی تھی۔سیر الاولیاء میں مذکور ہے کہ آپ کے یہاں حاضری دینے والے اکثر مٹھائیاں وغیرہ خرید کر تحفتاً آپ کی نذر کیا کرتے تھے ۔ایک بار اس ارادے سے کچھ لوگ آپ کے پاس آ رہے تھے، ان میں ایک مولانا صاحب بھی تھے، انہوں نے سوچا کہ سب کے تحفے ایک ساتھ پیش ہوں گے، شیخ صاحب کا خادم سب کو اٹھا کر لے جائے گا، ایسے میں کسی کو کیا پتہ چلے گاکہ کس نے کیا دیا۔
انہوں نے ایک پڑیا میں بہت سی خاک بھر کر ہاتھ میں لے لی۔جب یہ لوگ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سب نے اپنے اپنے تحفے ایک جگہ رکھ دیے۔خادم یہ سب اٹھاکر لے جانے لگا تو آپ نے مولانا صاحب کی پڑیا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔اسے چھوڑ کر سب لے جائو، اس میں میری آنکھوں کا سرمہ ہے۔مولانا صاحب نے توبہ کی اور مریدوں کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے روحانی دربار میں ہندو مسلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں تھی، آپ کا فیضانِ رحمت سب کے لیے تھا۔
آپ ساری عمر تجر و بسر کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ آج دنیا داری سے لے کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور ان کے دکھ درد دور کرنے میں مشغول رہے، البتہ آپنے اپنی ہمشیرہ کی اولاد کو اولاد کی طرح پالا اور تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمایا۔آپ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت خواجہ نصیر الدین روشن چراغ کو اپنا خلیفہ نامزد فرما دیا تھا۔انہیں خرقۂ خلافت اور تبرکات تفویض فرماتے ہوئے فرمایا تھاکہ تمہیں ان ہی لوگوں میں رہنا اور لوگوں کے ظلم و ستم کو برداشت کرنا ہے۔آپ نے ١٨ ربیع الثانی ٧٢٥ ہجری بمطابق ١٣٢٤ عیسویں کو اس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔

 

قطب المشائخ حضرت علامہ سید شاہ قطب الدین اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ

 

ولادت باسعادت:جنوری ۱۹۳۱ میں آپ کی ولادت کچھوچھہ  مقدسہ میں ہوئی۔

 اسم گرامی:  حضرت علیہ الرحمہ کی جب ولادت ہوئی ، خانوادۂ اشرفیہ کے عظیم بزرگ حضور اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ جور شتے میں آپ کے پر نانا تھے موجود تھے، انہوں نے آپ کا نام قطب الدین اشرف منتخب فرمایا اور آپ کے لیے دعافرمائی۔

شجرۂ نسب:  آپ نجیب الطرفین سادات میں ہیں ۔ آپ کا سلسلہ  نسب  سولہویں  پہ  حضرت سیدنا عبدالرزاق نورالعین جیلانی علیہ الرحمہ سے ستائیسویں نمبر پہ حضور غوث پاک قد س سرہ  سے اور ۳۸ نمبر پر  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

 حلیہ مبارکہ: قد لمبا جسم سڈول ،سر بڑا، رنگ گورا ، بال کچھ گھونگریالے ، آنکھیں سرمگیں، ناک کھڑی ،رخسار بھرے ہوئے ، پیشانی روشن و کشادہ، چال میں متانت و وقار ، پرنو راور مسکراتا چہرا، جود یکھتا ہے آپ کا گرویدہ ہو جا تا اور آپ کی ولایت کی قسم کھاتا ۔

حضرت علیہ الرحمہ کالباس:آپ کلی دار کر تا، علی گڑھ کٹ پائجامہ، تہ بند، صدری اور دو پلیے والی ٹوپی استعمال فرماتے۔ آپ کالباس عموماً سفید ہوتا، کپڑے میں کوئی چھینٹ وینٹ اورنقش ونگار نہ ہوتے، البتہ ٹوپی میں سفید دھاگے کی کڑھائی ہوتی۔ کرتے اور صدری ہمیشہ بے کالر کے ہوتے ۔کرتے کی لمبائی گھٹنے سے تقریباً دوانگل زیادہ اور پائجامہ ہمیشہ ٹخنے سے اوپر ہوتا ۔سخت جاڑے کے موسم میں گدڑی پہنتے اور اخیر عمر میں عصا ساتھ میں رکھتے۔

 تعلیم وتربیت :حضرت علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم وتر بیت جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ میں ہوئی۔ میزان ومنشعب ، ہدایۃ النحو اور کافیہ وغیرہ آپ نے اپنے چچا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ سے پڑھا۔  حضرت علیہ الرحمہ نے خود فرمایا کہ ۱۹۴۲ میں آل انڈیاسنی کانفرنس کے موقع پر میرے چچا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ مجھے اپنے ساتھ بنارس لے گیے ۔ صدرالافاضل حضرت علامہ سیدنعیم الدین قادری اشرفی مرادآبادی علیہ الرحمہ بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بنارس تشریف لائے تھے ۔ بعد جلسہ چچا جان نے مجھے حضرت صدرالا فاضل علیہ الرحمہ کے سپر دفر مایا۔ میں اس سال آپ کی معیت میں جامعہ نعیمیہ پہونچا اور وہیں سے میں نے مروجہ علوم وفنون کی تکمیل کی۔

سن فراغت: جامعہ نعیمیہ مراد آباد کے رجسٹر کے مطابق ۳ شعبان ۱۳۲۹ مطابق مئی ۱۹۵۰ بروز یکشنبہ ۱۹ سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ کے چالیسواں سالانہ اجلاس کے موقع پر حضرت علیہ الرحمہ کی دستار بندی ہوئی اور اس کے بعد ایک سال جامعہ نعیمیہ میں اعزازی مدرس رہے۔

آپ کے اساتذہ: حضرت علیہ الرحمہ کے اساتذہ میں آپ کے والد گرامی حضور اچھے میاں علیہ الرحمہ جودس سال تک جامعہ اشرفیہ کچھو چھ مقدسہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ۔حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ ،حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ، حضرت مفتی حبیب اللہ صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حضرت مفتی عمر صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حضرت مولانا یونس صاحب قبلہ اشرفی نعیمی ،حافظ الہی بخش ، حضرت مولا نا سلامت اللہ ، حضرت مولانا ذ کی ، حضرت مولانا آل حسن (علیہم الرحمہ ) جیسے جلیل نےالقدرعلمائے کرام ہیں۔ حضرت علیہ الرحمہ نے حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ کے تعلق سے کئی واقعات بتائے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے حضور صدرالافاضل علیہ الرحمہ کی بعض تحریروں کو پڑھا تو ان کے دل میں حضور صدرالافاضل علیہ الرحمہ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے حاجی محمد اشرف کے ذریعہ حضورصدرالافاضل علیہ الرحمہ کواپنے یہاں مدعو کیا۔حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ مرادآباد سے کچھوچھہ مقدسہ  تشریف لائے اور اعلی حضرت اشرفی میاں  کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے اجازت لے کر اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے بریلی تشریف لے  گئے اور اس طرح سے  یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہو گیے ۔

  طبابت و حکمت: علم طب خدمت خلق کا ایک بہترین ذریعہ ہے غالباً علم طب کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت علیہ الرحمہ نے درس نظامی کی تکمیل اور یک سالہ تدریس کے بعد اپنے والد گرامی اور خاندان کے بزرگوں سے اجارت لے کر اس علم کی تحصیل کے لیے ۱۹۵۱ میں لکھنو طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۵ میں آپ نے بی ۔آئی۔ایم۔ایس کی ڈگری حاصل کی ۔

عقد مسنون: آپ کا عقد نکاح ۱۹۵۴میں بی بی سیدہ ثریارحمۃ اللہ علیہا بنت سید ضمیراشرف اشرفی جیلانی سے ہوا۔ جو خانوادہ اشرفیہ میں بڑی نیک سیرت اور پاک طینت خاتون تھیں۔  آپ سے تین فرزند سید فریدالدین اشرف ،سید نظام الدین اشرف اور سید سراج الدین اشرف جیلانی اور پانچ صاحبزادیاں ہوئیں۔

بیعت و خلافت : حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے والد گرامی حضورا چھے میاں علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل تھا اور اجازت و خلافت خانوادۂ اشرفیہ کی تین عظیم المرتبت شخصیات سے حاصل تھی ۔ (١)والد گرامی حضورا چھے میاں علیہ الرحمہ ،(٢)عم گرامی حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ اور (٣)خال محترم حضور سرکار کلاں  سید مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ سے۔

مرزا پور میں قیام:  حضرت علیہ الرحمہ جب مرزا پور تشریف لے گئے اس وقت وہاں وہابیت ودیوبندیت کا بڑاز بر دست غلبہ تھا۔ مدرسہ عربیہ اور گنگا بائی مسجد جیسے مرکزی ادارے اور مرکزی مقامات وہابیوں کے زیر تسلط تھے۔ حضرت علیہ الرحمہ بظاہروہاں ایک طبیب و معالج کی  حیثیت سے تشریف لے گئے تھے ۔مگر مرزاپور میں آپ کے جو کارنا مے ہے اور خدمات ہیں اور سرزمین مرزا پور پر دین وسنیت کے لیے آپ نے جو جد وجہد فرمائی ہے، وہاں کے وہابیت  و دیوبندیت  زدہ لوگوں کو جس حسن تدبر کے ساتھ آشنائے حق کیا اور گمراہ گروں کا جس طرح مردانہ وار مقابلہ کیا، یہ سارے واقعات و حقائق اس بات کے غماز ہیں کہ حضرت علیہ الرحمہ مرزا  پورصرف ایک معالج کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسیحائے قوم وملت کی حیثیت سے تشریف لے گئے تھے ۔

مسند ارشاد پر: والد گرامی اور برادرا کبر حضرت سید شاہ مفتی معین الدین اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد سیمانچل (اضلاع : کشن گنج، ارریہ ، پورنیہ ، کٹیہار)کے علاقے سے حضرت مولانا فخرالدین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ اور مرحوم جناب منشی اسیر الدین اشرفی اور مرحوم مولوی قمرالدین صاحب کچھو چھہ مقدسہ آئے اور حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بصد اصرار یہ عریضہ پیش کیا کہ آپ ہمارے علاقے (سیمانچل) میں تشریف لے چلیں اور وہاں دعوت وارشاد کا کام انجام دیں مگر حضرت علیہ الرحمہ از راہ عجز ان کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ یہ دونوں حضرات  حضور سرکار کلاں سید مختاراشرف  اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پہنچے اور حقیقت حال سنایا بالآخر حضور سرکارکلاں علیہ الرحمہ کے اشارے اور ان کے ایما پر حضرت علیہ الرحمہ ان حضرات کے ساتھ  جانے کے لئے رضامند ہو گیے اوراسی سفر سے آپ کے دعوت وارشاد کا سلسلہ شروع ہوا۔

حج وزیارت :حضرت علیہ الرحمہ نے دوحج فرمائے  ۔ پہلا حج ۱۹۹۷ میں ۔اس پہلے سفر میں آپ نے مصر کے تمام مقامات مقدسہ کی زیارت فرمائی ۔ دوسراحج  ۲۰۰۴ میں فرمایا اس سفر میں آپ کے ساتھ آپ کے جانشین حضرت علامہ سید شاہ نظام الدین اشرف اشرفی جیلانی  دامت برکاتہم العالیہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔

 پابندی صلوۃ :آپ نماز ہمیشہ وقت مستحب میں ادا فرماتے ۔اذان کے بعد آپ کو سب سے پہلی فکر نماز کی ہوتی ۔

تلاوت قرآن کی کثرت :حضرت علیہ الرحمہ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے ،اہل خانہ کا بیان ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں حضرت علیہ الرحمہ ہر تین چار دن میں قرآن پاک کا ایک دور مکمل فرما لیتے۔

اخلاق کی بلندی :حضرت علیہ الرحمہ کی زندگی بڑی سادہ اور پاکیزہ زندگی تھی ،آپ اخلاق عالیہ کے بلندمرتبے پر فائز تھے۔ جو بھی چند منٹوں کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا وہ آپ کی عالی ظرفی اور اخلاق کی بلندی سے متاثر ہو کر آپ کا گرویدہ ہو جا تا۔

انداز گفتگو:حضرت علیہ الرحمہ جب بھی گفتگوفرماتے بالکل ٹھہر ٹھہر کر اور بڑے سلیس انداز میں گفتگو فرماتے ،لب و لہجے میں مکمل اعتقاد ہوتا ، آواز نرم و آہستہ، جملے نپے تلے ایسا لگتا کہ آپ کسی اچھے ادیب کا مضمون پڑھ رہے ہوں نہ کوئی لفظ ضرورت سے زائداور نہ کوئی لفظ ضرورت سے کم ، گفتگو کے وقت نہ کہیں اٹکتے اور نہ کسی لفظ کی بار بار تکرارفرماتے ۔ زبان بڑی شیر میں اور شائستہ ہوتی ، پریشان زدہ لوگ آپ کی مجلس میں سکون وراحت محسوس کرتے ، آپ کی مجلس میں جو بیٹھتا گھنٹوں بیٹھ جاتا نہ تو اسے کوئی اکتاہٹ ہوتی اور نہ مجلس سے اٹھنے کو جی چاہتا۔

حضرت علیہ الرحمہ کی مجلسیں: حضرت علیہ الرحمہ مجلس میں جب بھی بیٹھتے چارزانو بیٹھتے۔ گھنٹوں گذر جاتے مگر پہلونہ بدلتے  اور نہ ہی کبھی لوگوں کے سامنے پاؤں پھیلا کر بیٹھتے۔ آپ کی مجلس گفتگوتذکیر وموعظت ، بزرگوں کے واقعات اور علمی موضوعات پر مشتمل ہوا کرتی ۔

 ذہانت و قوت حافظہ: حضرت علیہ الرحمہ کی عمر تر اسی چوراسی برس کی ہو چکی تھی مگر اس عمر میں بھی آپ کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ برسوں پہلے جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی ہوتی آپ اسے فورا پہچان لیتے ،اس سے اس کے ،اس کے اہل خانہ اور اس کے گاؤں کے لوگوں کی خبر و خیر یت نام بنام دریافت   کرتے کہ فلاں بابو کا کیا حال ہے ،فلاں صاحب کیسے ہیں؟

حضرت علیہ الرحمہ کے خطابات : حضرت علیہ الرحمہ کا خطاب مختصر وجامع ہوا کرتا تھا، آپ اکثر و بیشتر عشق ومحبت ، بزرگوں کے فضائل ومناقب ، سیرت وسوانح اور تصوف وتزکیہ جیسے موضوعات پر خطاب فرمایا کرتے تھے۔

انداز تبلیغ:  حضرت علیہ الرحمہ کا انداز تبلیغ اور لوگوں سے منفر دویگا نہ تھا۔ آپ کی مجلسوں میں دعوت تبلیغ کو اولین تر جیحات حاصل ہوئی تھی اور آپ کی کوئی مجلس دینی تذکرے سے خالی نہ ہوتی ۔ آپ کی محفل میں اگر کوئی وہابی ،دیو بندی آ تا تو آپ اس سے بھی حسن خلق اور کشادہ ظرفی سے باطل فرقے سے  ملتے  جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ  ایک دو ملاقات کے بعد وہ آپ کا گرویدہ اور آپ کا اسیر و مرید ہوجاتا۔

  کتب بینی کا شوق:  حضرت علیہ الرحمہ کودیکھا کہ آپ کثرت سے کتابوں کا مطالعہ فرماتے ۔اکثر و بیشتر آپ بیٹھ کر مطالعہ فرماتے تھے ۔رات سوتے وقت مچھر دانی لگ جاتی اور بجلی نہیں ہوتی تو آپ کتاب کے مطالعہ کے لیے مچھر دانی کے اندر لیمپ  یا ایمرجنسی لائٹ وغیرہ رکھواتے ۔

 علماء نوازی: حضرت علیہ الرحمہ علماء  کرام کی بڑی قدر کرتے تھے، مزید آپ  علیہ الرحمہ اکثر لوگوں کو اس بات کی تاکید کیا کرتے تھے کہ’ یہ علماء  کرام ہیں ان کے علم کی قدر کیا کرو۔

 طلبہ نوازی:جامع اشرف ،امیر العلوم سمنانی اور دیگر مدارس اسلامیہ کے سیکڑوں طلبہ اس بات پر گواہ ہیں کہ اگر ایک دو طالب علم بھی حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بغرض ملاقات پہو نچ جاتے اور حضرت علیہ الرحمہ گھر کے اندر ہوتے تو آپ ان کے لیے باہرتشریف لے آتے اور خادم خانہ کوفوری چائے بسکٹ کا حکم فرماتے ،طلبہ سے ان کی خبر وخیریت دریافت کرتے اور انہیں محنت سے پڑھنے لکھنے کی تاکید فرماتے ۔

 مہمان نوازی:  حضرت علیہ الرحمہ کا گھر ضیافت و مہمان نوازی میں پورے کچھو چھہ مقدسہ  میں مشہور ہے ۔ مہمان نوازی کے سلسلے میں حضرت علیہ الرحمہ کا معمول دیکھا  گیا کہ جیسے ہی کوئی مہمان وارد ہوتا ۔ سلام ومصافحہ کے بعد فوراً کرسی کی جانب بیٹھنے کا اشارہ فرماتے اور چائے ناشتہ حاضر کر نے کا حکم دیتے ،آنے والے مہمان سے ،اس کے گھر کے ہر ہر فرد کے بارے میں تفصیلی خیریت دریافت کرتے ،اگر مہمان درگاہ شریف جانے کی اجازت طلب کرتا تو حضرت تاکید فرماتے کہ شام کے وقت جلدی آجائیے گا اور کھانا یہیں کھائیےگا ،اگر سخت دھوپ اور گرمی ہوتی تو آپ فرماتے ،ابھی آرام کیجیے چار بجے جائیےگا۔ اگر مہمان پہلی مرتبہ  کچھوچھہ شریف حضرت کے مکان پر حاضر ہوتا تو حضرت کسی کو ساتھ میں کر دیتے۔ ہر آنے والے سے حضرت علیہ الرحمہ کے ملنے کا انداز اتنا پر تپاک ہوتا کہ اگر آنے والا بالکل نو وار داور پہلی بار آیا ہوتا تو اسے ایسا لگتا کہ حضرت علیہ الرحمہ سے یہ پہلی ملاقات نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

انسانی ہمدردی و مشکل کشائی: حضرت علیہ الرحمہ کے اندر خدمت خلق کا جذ بہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ آپ ہمیشہ دوسروں کے غم کواپناغم اور دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے ۔ حضرت علیہ الرحمہ کا معمول دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی پریشان زدہ اپنی پریشانی لے کر آ تا تو اکثر وبیشتر ایسا ہوتا کہ آپ اسے اپنے قریب بلاتے ، اپنا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتے ، اس کی طرف ذرا جھک جاتے اور اس کی داستان مصیبت کو بڑے غور سے سنتے۔ پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ’’ بیٹا ہم دعا کر لیں گے ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘حضرت علیہ الرحمہ کے اس جملے میں نہ معلوم اللہ تعالی نے کون سا اثر اورتسلی کا کون سا سامان چھپارکھا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے جیسے ہی یہ کلمہ اداہوتا پریشان زدہ کے چہرے پراس وقت اطمینان وسکون کی لکیریں نمایاں ہو جاتیں ۔

 غریب نوازی:  حضرت علیہ الرحمہ غریبوں اور خستہ حال لوگوں کا بڑا خیال رکھتے ۔ آپ اپنے سارے مریدوں سے یکساں محبت فرماتے۔ آپ علیہ الرحمہ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا! ہم غریبوں میں ہیں اس لئے غریبوں کا خیال رکھا کریں۔

حضرت علیہ الرحمہ کے آخری ایام :وصال سے تقریبا چار سال قبل ہی سے حضرت علیہ الرحمہ کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی ۔ڈاکٹروں کا علاج مسلسل چلتا رہا۔ جب بھی  تکلیف کی شدت بڑھتی آپ اپنا سر تکیے پر رکھتے اور سجدہ کی حالت میں آجاتے، مسلسل علالت نے آپ کے جسم کوانتہائی کمز ورولاغر اور نحیف و ناتواں بنادیا تھالیکن اس کے باوجود بھی آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا تھا،اخیر اخیر میں آپ پر سکر کی حالت طاری رہنے لگی تھی۔کئی کئی گھنٹے گذر جاتے مگر آپ کی آنکھیں بند تھیں لیکن سکر کی حالت سے جیسے ہی’’صحو‘‘ کی طرف لوٹتے آپ کی زبان پر سب سے پہلا کلمہ یہ ہوتا " کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے مجھے تیم کراؤ نماز پڑھنی ہے۔

وفات حسرت آیات: جناب تاج الدین اشرفی صاحب کا بیان ہے کہ وصال سے تقریبا ایک ماہ قبل حضرت علیہ الرحمہ نے مجھ سے دریافت فرمایا: بیٹا یہ کون سا مہینہ چل رہا ہے؟  میں نے انگریزی مہینے کا نام لیتے ہوئے کہا کہ حضرت یہ دسمبر کا مہینہ ہے ۔حضرت نے فرمایا : ارے بھئی اپنا مہینہ بتاؤ، میں نے عرض کیا حضرت! یہ  ماہ صفر ہے ۔ حضرت نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا ابھی ایک مہینہ اور ہے۔ میں اس وقت حضرت کے اس جملے کا مطلب نہ سمجھ سکا لیکن جب ربیع الاول کے مہینے میں حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا تو اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ حضرت علیہ الرحمہ کا اشارہ شاید اسی طرف تھا ۔ آپ کا وصال شب جمعرات ۱ا/ربیع الاول ۱۳۳۴ہجری مطابق ۲۳ جنوری ۲۰۱۳ء باره بج کر دس منٹ میں لکھنو’’ آستھا اسپتال میں ہوا ’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔

تجہیز وتدفین: لکھنؤ سے آپ کا جسد خاکی کچھوچھہ مقدسہ لایا گیا۔ جمعہ کے دن تقریبا ا/بجے دن آپ کوغسل دیا گیا ،غسل کے وقت خانوادہ کے تقریبا ًسبھی افراد موجود تھے ۔۱۲/ ربیع الاول شریف کے دن نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ کچھوچھہ شریف سے درگاہ شریف آستانہ مخدومی پر لے جایا گیا۔ آپ کے جانشین تاج الاسلام حضرت علامہ سید شاہ نظام الدین اشرف اشرفی جیلانی نے آپ کی ترقی درجات اور سارے حاضرین کے لیے بڑے پرسوز اور درد بھرے انداز میں دعا کی ۔ آستانہ مخدومی پر حاضری کے بعد آپ کا جنازہ  جامع اشرف کے گراؤنڈ میں لایا گیا اور وہیں نماز جنارہ ادا کی گئی اور آپ اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔ (مآخوذ: قطب المشائخ  /ناشر ادارہ القطب کولکاتا)

 


امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ

 


ولادت باسعادت:

آپ کی ولادت ١٤ شوال ٩٧١ ھ /١٥٦٣ء ، جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں سرہند میں ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند فراغ ٩٨٨ھ میں حاصل کی ١٠٠٧ھ میں آپ کے والد ِ بزرگوار شیخ عبدالاحد علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ (وصال ٩٨١ھ /١٥٧٣ء) سے نسبت حاصل کی ۔ ١٠٠٨ھ /١٥٩٩ء میں دہلی تشریف لا کر ، زبدۃ العارفین حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ، سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا اور اسی سال حضرت شاہ سکندر کیتھلی (نبیرہ شیخ کمال کیتھلی) نے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، ( ف ۔٥٦١ھ /١١٦٤ء) کا خرقہ خلافت حضرت مجدد کو عطا کیا۔ عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے۔ آپ کا وصال پر ملال ٦٣ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ٢٩ صفر المظفر ١٠٣٤ھ/١٦٢٤ء میں ہوا۔ اپنے وصال کی خبر آپ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی، جوکہ آپ کی کرامت ہے۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ تھے۔

 

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات:

اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے:

نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔ (مکتوب ٦٩ جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ ٨٦)

حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کائنات:

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی اَللّٰھُمَّ اَنْتَ وَمَا اَنَا وَمَا سواک تَرَکْتُ لاَجَلِکَ
یعنی اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لئے چھوڑدیا

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا

یَا مُحَمَّد اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِوَاکَ خَلَقْتُ لاجَلِکَ یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لئے پیدا کیا ۔ (مکتوب ٨ جلد دوم صفحہ ١٨)

معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی:

اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا۔لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا لَوْ لاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوْ بِیَّۃَ یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔ (مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)

مجدد صاحب کی زندگی کا مرکز و محور:

مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اسلئے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے ۔ (مکتوب ٢٢١جلدسوم صفحہ ٢٢٤)

نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے نور سے ہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ نہیں تھا:

عالم امکان کو (جو تحت الثریٰ سے عرش تک کی جملہ موجودات و کائنا ت کا محیط ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس بزم امکان سے بالا تر ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

عقیدہ علم غیب:

جو علم غیب اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہے اس پر وہ اپنے خاص رسولوں کو مطلع فرمادیتا ہے۔ (مکتوب ٣١٠ جلد اول ٤٤٦)

شیخ مجدد کا مسلک پرتصلّب و تشدد:

جو شخص تمام ضروریات دین پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرے لیکن کفرو کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے۔ اس کا حکم منافق کا حکم ہے۔ جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں ہوسکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ع تولّٰی بے تبرّ یٰ نیست ممکن (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٥)

اہلبیت کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحاب رسول سے محبت :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہئے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت ہے، انکے ساتھ عداوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیساتھ عداوت ہے۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحابِ رسول کے درجات:

تمام صحابہ کرم میں سب سے افضل و اعلیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان دونوں باتوں پر اجماع امت ہے اور چاروں آئمہ مجتہدین امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر علماء اہلسنّت کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا عثمان غنی ہیں ، پھر ان کے بعد تمام امت میں سب سے افضل سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، ہیں۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول، صفحہ٣٣٠)

مولیٰ علی حق پر ہیں:

حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، کے ساتھ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و سیدنا طلحہٰ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ و سیدنا عمر و بن العاص کی لڑائیاں ہوئیں۔ ان سب میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ حق پر تھے۔ اور یہ حضرات خطا پر ۔ لیکن وہ خطا عنادی نہ تھی بلکہ خطائے اجتہادی تھی۔ مجتہد کواسکی خطائے اجتہادی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے۔ ہم کو تمام صحابہ کے ساتھ محبت رکھنے ، ان سب کی تعظیم کرنے کا حکم ہے جو کسی صحابی کے ساتھ بغض و عداوت رکھے وہ بد مذہب ہے۔ (خلاصہ مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ٣٢٦ تا ٣٣٠)

روافض سے اجتناب:

جو لوگ کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن میں ان کو کافر کہا ہے۔ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّار مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھُلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ (مکتوب ٥٤ جلد اول صفحہ٧١)

اولیائے کرام کی فضیلت:

انبیا و اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہے کوئی چیز ان سے نزدیک و دور نہیں۔ (مکتوب ٢٨٩ جلد ۱ صفحہ ٣٧١)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کا طواف کرنے کیلئے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے۔ (مکتوب ٢٠٩ جلد اول صفحہ ٢١١)

  اکمل اولیا اللہ کو اللہ عزوجل یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ (مکتوب ٥٨ جلد دوم صفحہ ١١٥)

  عارف ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ عرض ہو یا جوہر، آفاق ہو یا انفس تمام مخلوقات اور موجودات کے ذروں میں سے ہر ایک ذرہ اس کے لئے غیب الغیب کا دروازہ ہوجاتا ہے اور ہر ایک ذرہ بارگاہ الٰہی کی طرف اسکے لئے ایک سڑک بن جاتا ہے۔ (مکتوب ١١٠ جلد سومصفحہ٢١٠)

غوث اعظم تقدیر بدل سکتے ہیں:۔

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ جو قضا لوح محفوط میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو اور اس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو۔ ایسی قضا میں باذن اللہ تصرف فرما سکتے ہیں۔ (مکتوب ٢١٧ جلد اول صفحہ ٢٢٤)

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء ،ابدال ، اقطاب ، اوتاد، نقبا، نجبائ، غوث یا مجدد ہونگے ، سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے محتاج ہونگے بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہوسکتا۔ احمد سرہندی بھی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا نائب ہے جس طرح سورج کا پرتو پڑنے سے چاند منور ہوتا ہے اسی طرح احمد سرہندی پر بھی تمام فیوض و برکات حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ سے فائز ہورہے ہیں۔ (مکتوب ١٢٣ جلد سوم صفحہ ٢٤٨)

تقلید واجب ہے:۔

مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کے لئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کرکے اسی پر عمل کریں۔ (مکتوب ٢٨٦ جلد اول صفحہ ٣٧٥)

بد مذہبوں سے بچو!:

اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا۔ اسلام کی عزت ،کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت، کافروں کی ذلت پر موقوف ہے۔ جس نے کافروں کی عزت کی اس نے مسلمانوں کی ذلیل کیا۔ کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہئے۔ ۔خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے۔ (مکتوب ١٦٣ جلد اول صفحہ ١٦٥)

 گائے کی قربانی:

گائے ذبح کرنا ہندوستان میں اسلام کا بہت بڑا شعار ہے (مکتوب ٨١ جلد اول صفحہ ١٠٦)

ہندوؤں کے دیوتاؤں کو پیغمبر یا اوتار نہ سمجھواور خدا بھی نہ سمجھو:

ہندوؤں کے دیوتا مثل رام و کرشن وغیرہا کافر و بے دین تھے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ خدا ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے۔ ہندو جس رام اور کرشن کو پوجتے ہیں وہ تو ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، رام وسرتھ کا بیٹا تھا، لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا لہٰذا یہ کہنا کہ رام اور رحمان ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں۔ (مکتوب ١٦٧ جلد اول صفحہ ١٧١)

میلاد و اعراس کی محافل جائز ہیں:

مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام و اولیائے اعلام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ناجائز بات تو یہ ہے کہ قرآن عظیم کے حروف میں تغیر و تحریف کر دی جائے۔ اور قصیدے پڑھنے میں راگنی اور موسیقی کے قواعد کی رعایت و پابندی کی جائے اور تالیاں بجائی جائیں۔ جس مجلس میلاد مبارک میں یہ ناجائز باتیں نہ ہوں اس کے ناجائز ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہاں جب تک راگنی اور تال سُر کے ساتھ گانے اور تالیاں بجانے کا دروازہ بالکل بند نہ کیا جائے گا ابو الہوس لوگ باز نہ آئیں گے۔ اگر ان نامشروع باتوں کی ذرا سی بھی اجازت دے دی جائے گی تو اس کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلے گا۔ (مکتوب ٧٢ جلد سوئم صفحہ ١١٦)

بے ادبوں گستاخوں سے صلح جائز نہیں:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہئے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہئے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہئے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہئے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہئے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہئے۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦ تا ١٦٩)

بادشاہ حکمراں کی حیثیت:

رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے۔

شہزادہ خرّم (شاہجہاں) کو بشارت دی:

ایک دن حضرت مجدد تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا! یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف دار و حمایت کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی آپ نے جواباً فرمایا! ”مت گھبرا، مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہاں ہوگا۔” شہزادہ خرم نے استدعا کی کہ مجھے بطور تبرک اپنی دستار عطا فرمائیں تو امام ربانی نے اپنی دستار شہزادہ کو دی جو عرصہ تک مغل بادشاہوں کے پاس تبرکاً محفوظ رہی۔(بشکریہ : علامہ نسیم احمد صدیقی مد ظلہ عالی انجمن ضیائے طیبہ، کراچی، پاکستان)