نام ونسب :
آپ علیہ الرحمہ کانام
نامی اسم گرامی حضرت مخدوم سید شرف الدین سہروردی عراقی اور مشہور لقب حضرت’’
باباشرف الدین علیہ الرحمہ ‘‘ہے۔یہ بات مشہور ہے کہ آپ والد کی طرف سے نسب بنی
فاطمہ حسینی سادات سے ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۶ ؍شعبان ۵۸۶ھ م ۱۱۹۰ء بمقام عراق بتائی
جاتی ہے اسی لئے آپ کے نام مبارک کے ساتھ عراقی کی نسبت بھی موجود ہے۔
سلسلہ نسب: آپ علیہ
الرحمہ کا سلسلہ نسب یوں بتایا جاتا ہے:حضرت مخدوم بابا سید شرف الدین سہروردی
عراقی ابن حضرت سید محمدابن حضرت سید محمود ابن حضرت سید احمدابن حضرت سید عبد
اللہ ابن حضرت سید علی اصغرابن حضرت سید محمد ابو جعفرثانی ابن حضرت سیدنا امام
علی نقی ابن حضرت سیدنا امام جواد تقی ابن حضرت سیدنا امام علی موسیٰ رضاابن حضرت
سیدنا امام موسیٰ کاظم ابن حضرت سیدنا امام جعفر الصادق ابن حضرت سیدنا امام محمد
باقرابن حضرت سیدنا امام علی زین العابدین ابن حضرت سیدنا امام حسین شہید دشت
کربلاابن حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ۔
آپ علیہ الرحمہ کے متعلق
محققین نے لکھا ہے آپ بعمر(۴۵)سال ملک عراق سے ۶۳۱ھ(م1233/1234ء)میں ہندوستان
تشریف لائے اس وقت شمالی ہند میں دلی اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں پر سلطان شمس
الدین التمش بادشاہ کی حکومت تھی تقریباً(۹) نو سال مختلف علاقوں کے سفر کے بعد
آپ نے دکن کا رُخ کیا ۔
مولانا ابوتراب عبدالجبارخان ملکاپوری صاحب محبوب
التواریخ کے ایک بیان کے مطابق ۶۴۰ھ م ۱۲۴۲ء میں آپ بعمر چوپن(۵۴) ملک دکن رونق
افروز ہوئے ۔آپ علیہ الرحمہ کی تشریف آوری کے زمانے میں دکن کے اطراف واکناف میں
اسلام کے پودے جم رہے تھے اور شہروں و قریوں میں آہستہ آہستہ دین محمدی کے پرچم
نصب ہورہے تھے اولیاء اللہ و تاجرین کے قافلے عرب وعجم سے برابر آر تے رہے ۔ بزرگ
واہل اللہ ملک میں اس غرض سے تشریف لاتے تھے کہ اہل اصنام کو تالیف قلوب وحسن سلوک
سے راہ حق کی ہدایت کریں،اولیاء اللہ کے تصرفات وکرامات دیکھ کر غیروں کے دل نرم
پڑنے لگے وہ لوگ موافقت کرنے لگے اور بزرگوں کو اس ملک میں رہنے کے لئے حالات
سازگار بنے رفتہ رفتہ بزرگوں کے کرشمے دیکھکر اکثر راجے مہاراجے وظائف مقرر کرنے
لگے اور حسن اعتقاد سے خدمات میں حاضر ہونے لگے۔
حضرت سیدبابا شرف الدین علیہ الرحمہ سلسلہ سہروردیہ کے
بلند پایہ ولی کامل ہیں۔سرخیل سلسلہ سہروردیہ شیخ الاسلام حضرت شیخ شہاب الدین عمر
سہروردی علیہ الرحمہ کے مرید خاص اور خلفائے کبار میں سے ہیں بعض مورخین نے یہ بھی
لکھا کہ آپ کو سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی علیہ الرحمہ سے
بیعت وخلافت تھی جو درست نہیں چنانچہ مولانامحمدعبدالجبار خان ملکاپوری مولف محبوب
ذوالمنن تذکرۂ اولیائے دکن اس بارے میں لکھتے ہیں ’’تاریخ خورشید جاہی کے مولف نے
لکھا ہے کہ آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی علیہ الرحمہ کے مرید وخلیفہ
ہیں لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا معلوم ہوتا ہے کہ بلا تحقیق صرف سماعت کے
اعتماد پر لکھ دیا ہے‘‘۔
سلطان الہند‘خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی
غریب نواز علیہ الرحمہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ملک ہند کی طرف روانہ فرمایاہے اسی لئے آپ کو عطائے رسول بھی کہا
جاتا ہے حضرت باباشرف الدین علیہ الرحمہ سے متعلق بھی یہ بات مشہور ہے کہ آپ بھی
بحکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملک دکن کی طرف اشاعت دین حق کے لئے
رونق افروز ہوئے اور بڑی نرمی وپیار اور حسنِ اخلاق کے ذریعہ اسلام کی روشنی سے اس
علاقہ کو اور یہاں کے رہنے والوں کے دلوں کو منور کیا چنانچہ محبوب ذو المنن
تذکرۂ اولیائے دکن معروف بہ محبوب التواریخ میںلکھا ہے ’’ بابا شرف الدین عراقی علیہ
الرحمہ حسب ارشاد وہدایت حضرت رسالت پناہ
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشاعت اسلام کے لئے دکن آئے۔
آپ علیہ الرحمہ
کے ہمراہ (۶۰)ساٹھ(۷۰)ستر فقراء بھی تھے ‘آپ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول
اور مریدین کی ہدایت وتلقین میں مصروف رہتے تھے اکثر اہل ہنود آپ کی خدمت میں
حاضر ہوتے تھے اور آپ کے حسن اخلاق سے فیض پاتے تھے۔اکثرآپ کی ہدایت سے موحد
ومسلم ہوئے ۔آپ نے اپنے مریدوں کو دکن کے دیہات وقصبات میں ہدایت وتالیف قلوب کے
لئے روانہ کیا‘‘۔حدائق الاولیاء کے حوالہ سے جناب مولانامحمد عبدالجبار ملکاپوری
علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ’’حضرت بابا شرف الدین علیہ الرحمہ کی تشریف آوری سے دکن میں یہ غرض تھی کہ دینِ
محمدی کی اشاعت ہو بنائً علیہ (اسی بنیادپر)آپ اہل اصنام کے ساتھ حسن اخلاق سے
پیش آتے تھے۔ہر ایک راجا وپرجا (خاص وعام)کے ساتھ نرمی سے پیش آتے یہی وجہ تھی
کہ آپ کے پاس صبح وشام جوق درجوق (وہ لوگ) آتے تھے آپ صاحب کشف کرامات مقبول
الدعوات بزرگ ولی اللہ تھے ‘جوزبان مبارک سے فرماتے تھے وہی ہوتا تھا‘‘۔
کتاب سلطان العارفین مطبوعہ ۱۳۶۴ھ حیدرآباد کے مصنف
پیر زادہ سید دستگیر پادشاہ علیہ الرحمہ جودرگاہ
شریف کے سجادہ تھے کے مطابق انھوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ملک دکن میں دور
دراز گاؤں وقصبات میں جہاں جہاں گھنے جنگلات اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بزرگان دین
کے مزارات ہیں وہ بالعموم اولیائے سہروردیہ کے ہیں۔جو حضرت باباشرف الدین علیہ
الرحمہ سے ہدایت پاکر تبلیغ دین واشاعت
اسلام کے لئے بھیجے گئے تھے۔
حضرت بابا شرف الدین علیہ الرحمہ کے حالات پر اردو میں سب سے پہلے تفصیلی و
تحقیقی کتاب لکھنے کا شرف میرے حقیقی دادا حضرت مفتی ومحدث وشیخ الدلائل فی الدکن
سیدالصوفیہ ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔ حسنی حسینی قادریعلیہ الرحمہ کو ملا کہ آپ نے آج سے (۱۰۴)سال قبل ۱۳۴۰ھ
میں ترتیب وجمع کرکے اپنے والد ومرشد سیدالسادات شیخ الشیوخ امام الصوفیہ حضرت
صوفی اعظم قطب دکن علیہ الرحمہ کی موجودگی
میں’’حالات باباشرف الدین پیر علیہ الرحمہ ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا تھا جسکے کئی
اڈیشن ہاتھوں ہاتھوں نکل کر عوام وخواص میں مقبول ہوئے ۔آخری اڈیشن والدی ومرشدی
مولائی وقار الصوفیہ مصباح المسرین حضور اعظم المشائخ حضرت علامہ قاضی سید شاہ
اعظم علی صوفی اعظمؔ حسنی حسینی قادریعلیہ الرحمہ نے ۱۳۸۴ھ م ۱۹۶۴ء میں طبع کروایاتھا۔
آج جس جگہ اونچے پہاڑ پر آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق
بناہوا ہے اسی علاقہ میں آپ کا قیام تھا اور ایک غار میں آپ نے مسلسل (۹)سال تک
ریاضت وعباد ت کی اور پھر بعمر ۶۳سال غار سے باہر تشریف لائے یہ مقام’’چلہ حضرت
بابا صاحب علیہ الرحمہ ‘کے نام سے آج بھی موجود ومشہور ہے جہاں کی برکتوں کو حاصل
کرنے کے لئے زائرین آج بھی اس مقام پر حاضری دیا کرتے ہیں ۔آپ سے متعلق بے شمار
کرامات مختلف کتب میں مذکور ہیں ۔
سلطان العارفین قطب الہند
غوث دکن حضرت سیدنا بابا شرف الدین سہروردیعلیہ الرحمہ نے بتاریخ ۱۹؍شعبان المعظم ۶۸۷ہجری م۱۲۸۶ء
بعمر(۱۰۱)سال وصال حق فرمایا۔اور اسی مقام پر سپردلحد کئے گئے جہاں آج بھی آپ علیہ
الرحمہ کا مزار اقدس مرکز انواروتجلیات
بناہواہے۔انا للہ واناالیہ راجعون آپ علیہ الرحمہ کا مادہ تاریخ وصال ’’آہ شرف
الدین بابا‘‘ ہے۔ آپ مرد میدان تجرید تھے اس لئے اپنے حقیقی برادرزادے سید فرید
الدین سہروردی بن سید موسیٰ علیہ الرحمہ کو اپنا جانشین بنایا تھا جن کا مزار
باباسرکار کے پائیں میں بائیں جانب واقع ہے البتہ مشرقی سمت سیڑھیوں سے اُترنے پر
کہاجاتا ہے کہ بابا سرکار کے چھوٹے برادر حقیقی حضرت سید موسیٰ علیہ الرحمہ اور ان کی اہلیہ یعنی بابا سرکارکی بھاوج صاحبہ
کے مزارات ایک چبوترہ پر واقع ہیں۔