امام العلماء علامہ مفتی رضاعلی خان نقشبندی بریلوی علیہ الرحمہ


ولادت :

 آپ ۱۲۲۴ھ بمطابق ۱۸۰۹ءکوپیداہوئے۔

نام ونسب:

امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خان بن حافظ محمد کاظم علی خان بن جناب محمد اعظم خان بن جناب محمد سعادت یارخان بن جناب محمد سعید اللہ خان بن عبدالرحمن بن یوسف خان قندھاری بن دولت خان بن داؤد خان۔(علیہم الرحمہ)

آپ کے اجدادکا تعلق افغانستان کے شہر قندھار کے بڑھیچ قبیلے سے تھا۔ آپ کا خاندانی پیشہ سپہ گری تھا۔آپ کے اجداد مختلف ادوار میں معزز فوجی عہدوں پر فائز رہے ۔(بحوالہ :چند ممتاز علمائے انقلاب/ص:۱۶۴)

آپ کے والد ماجد حافظ کاظم علی خان صاحب کو حضرت مولانا شاہ نورالحق فرنگی محلی لکھنوی (متوفی ۱۲۳۸ھ/ ۱۸۲۲ء)فرزند مولانا انوار الحق فرنگی محلی (متوفی۱۲۳۶ھ/۱۸۲۱ء)سے سلسلۂ رزاقیہ میں اجازت و خلافت حاصل تھی۔(ایضاً)

تحصیلِ علم: 

آپ علیہ الرحمہ نےمولانا خلیل الرحمن رامپوری ولدملا محمد عرفان صاحب ولایتی رامپوری سے رامپور اور ’’ٹونک‘‘(راجستھان ،ہند)جاکرتمام علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تحصیل وتکمیل فرمائی۔تقریباً۲۳؍ سال کی عمر میں ۱۲۴۷ھ سند فراغ حاصل کی اور انہی سے اجازت وخلافت اور سند حدیث پائی۔جو مولانا خلیل الرحمن رامپور ی کو حضرت فاضل محمد سندیلوی اورانہیں بحر العلوم حضرت علامہ محمد عبد العلی فرنگی محلی لکھنوی (متوفی۱۲۲۵ھ/۱۸۰۹ء)سے حاصل تھی۔(بحوالہ:حیات اعلیٰ حضرت/ ص :۳۔علامہ نقی علی خان ،حیات اور علمی و ادبی کارنامے/ص:۷۸)

حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا خاں صاحب لکھتے ہیں:’’یہ پہلے شخص ہیں جو اس خاندان میں دولت علم دین لائے اور علم دین کی تکمیل کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مسند افتاء کو رونق بخشی ، تو اس خاندان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹی اور تلوار کی جگہ قلم نے لے لی ۔اب اس خاندان کا رخ ملک کی حفاظت سے دین کی حمایت کی طرف ہوگیا ۔وہ اپنے دور میں مرجع فتاوی رہے۔ ‘‘(بحوالہ :سیرت اعلیٰ حضرت/ ص ۴۱ )

بیعت و خلافت:

 مولانا رضا علی بریلوی کو شیخ وقت حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رحمتہ اللہ علیہ (شاگرد حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی و خلیفہ شاہ محمد آفاق مجددی نقشبندی دہلوی) سے بیعت و خلافت حاصل تھی اورسلسلۂ نقشبندیہ میں مرید کرتے تھے ۔

تلامذہ:

آپ کے شاگردوں میں مولانا محمد حسن علمی (مولف خطبات علمی)،ملک محمد علی خاں(مرتب تصحیح الایمان رد تقویۃ الایمان)،شہید جہاد آزادی مولانا فخرالدین قادری سندیلوی کے نام مل سکے ہیں ۔(بحوالہ:علامہ نقی علی خان ،حیات اور علمی و ادبی کارنامے/ص:۸۰)

فتویٰ نویسی :

امام العلماءاپنے وقت کے قطب ،ولی کامل، اور روہیلکھنڈ کے بزرگ ترین علماء میں تھے۔ خاندان میں آپ ہی نے سب سے پہلے فتویٰ نویسی کا شرف حاصل کیا۔۱۸۱۶ء میں روہیلہ حکومت کے خاتمہ ، ’’بریلی شریف ‘‘پرانگریز وں کے قبضہ اور حضرت مفتی محمد عیوض صاحب کے ’’روہیلکھنڈ (بریلی) ‘‘ سے ’’ ٹونک ‘‘ تشریف لے جانے کے بعد بریلی کی مسند افتاء خالی تھی ۔ایسے نازک اور پر آشوب دور میں امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں نقشبندی علیہ الر حمہ نے بریلی کی مسند افتاء کورونق بخشی ۔ یہیں سے خانوادۂ رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی عظیم الشان روایت کی ابتداء ہوئی۔(بحوالہ:مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ حیات اور علمی وادبی کارنامے/ صفحہ ۷۸ )

لیکن مجموعۂ فتاویٰ بریلی شریف میں آپ کی فتویٰ نویسی کی ابتداء ۱۸۳۱ء/۱۲۴۶ھ لکھی ہے ۔ (غالباً درمیانی عرصہ انگریز قا بضوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسند افتاء خالی ہی رہی) الحمدللہ! ۱۸۳۱ء سے آج ۲۰۱۸ء تک یہ تابناک سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ یعنی خاندان رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی ایمان افروز روایت ۱۸۷؍ سال سے مسلسل چلی آرہی ہے ۔امام العلماء،حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی، امام المتکلمین ، حضرت علامہ مولانامحمد نقی علی خاں قادری برکاتی،اعلیٰ حضرت ،مجدد دین وملت ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد رضا خاں قادری برکاتی ، شہزادۂ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الاسلام ،جمال الانام حضرت علامہ مولانا مفتی حامد رضا خاں قادری رضوی، شہزادۂ اعلیٰ حضرت تاجدار اہل سنت ، مفتیٔ اعظم ہند ،علامہ مولانا مفتی محمد مصطفیٰ رضا خاں قادری نوری، نبیرۂ اعلیٰ حضرت ،مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رضوی اور ان کے بعد قاضی القضاۃ فی الہند ،تاج الشریعہ ،حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری علیہم الرحمہ ۱۹۶۷ء سے تادم وصال (۲۰؍جولائی۲۰۱۸ء)تک تقریباً۵۱؍سال تک یہ عظیم خدمت بحسن و خوبی سرانجام دیتے رہے ۔(بحوالہ: فتاویٰ بریلی شریف /صفحہ:۲۲ (مع ترمیم))

امام العلماء نے صرف اپنے خاندان ہی میں افتا ء کی ابتدا نہیں فرمائی بلکہ آپ کے قائم کردہ دارالافتاءکو ہندوستان کا پہلا باقاعدہ دارالافتاہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔(بحوالہ:جنوبی ایشیا کے اردو مجموعہ ہائے فتاوی، مجیب احمد، مطبوعہ نیشنل بک فاونڈیشن)

مجدداعظم سیدنا امام احمد رضا اس دارالافتاکی خدمات کاتذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کے کرم سے اس گھر سے فتویٰ نکلتے نوے برس سے زائد ہوگئے ، میرے دادا صاحب (مفتی رضاعلی خاں) رحمتہ اللہ علیہ نے مدت العمریہ کام کیا۔ وہ جب تشریف لے گئے تو اپنی جگہ میرے والد ماجدقدس سرہٗ العزیز کوچھوڑا ، میں نے چودہ سال کی عمر میں ان سے یہ کام لے لیا پھر چند روز بعد امامت بھی اپنے ذمہ کرلی۔ میں نے اپنی صغر سنی میں کوئی باران پر رہنے نہ دیااوراب میں تم تین (بیٹے ۱۔حامد رضاخان ۲۔ مصطفیٰ رضا خان ۳۔محمد رضا خان )کو چھوڑتا ہوں‘‘

تصانیف :

آپ کی تصانیف میں صرف خطبات جمعہ و عیدین کا ایک مجموعہ بنام ’’مجموعۂ خطب علمی ‘‘اور ایک میلاد نامے کا تذکرہ ملتا ہے ۔ جو۵۸ صفحات پر مشتمل تھا، یہ میلاد نامہ پہلی بار ۱۸۵۱ء میں نو ل کشور لکھنؤ سے چھپا۔(اردو میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم /از:ڈاکٹر محمد مظفر عالم جاوید صدیقی/ناشر: فکشن ہاؤس ،لاہور ،صفحہ ۴۷۰)

مجموعۂ خطب علمی کے متعلق حکیم الاسلام علامہ مفتی حسنین رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :’’انہوں نے خطب جمعہ وعیدین لکھے جو آج کل خطب علمی کے نام سے ملک بھر میں رائج ہیں ۔یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس خاندان کے مورث اعلیٰ مولانارضاعلی خاں صاحب کے خطبے جو خطب علمی کہلاتے ہیں وہ مولانا رضاعلی خاں صاحب کے ہی تصنیف کر دہ ہیں اور کم وبیش ایک صدی سے سارے ہندوستان کے طول وعرض میں جمعہ وعیدین کو پڑھے جاتے ہیں ۔اور ہر مخالف وموافق انہیں پڑھتا ہے ۔ان کو شہرت سے انتہائی نفرت تھی اس لئے انہوں نے خطبے اپنے شاگرد مولانا علمی کودے دیئے مولانا علمی نے خود بھی اس طرف اشارہ کیا ہے البتہ خطب علمی میں اشعار مولانا علمی کے ہیں ۔‘‘(بحوالہ :سیرت اعلیٰ حضرت/ ص ۴۱ )

آج تک’’ خطبۂ علمی‘‘کےاخیر مولف کی یہ عبارت موجود ہوتی ہے:’’اس مؤلف عاصی محمد حسن علمیؔ کو امیدواری جناب باری عَزَّاِسْمُہٗ سے یہ ہے کہ اپنے فضل عمیم اور طفیل رسول کریم ملقب بہ ’’اِنَّکَ عَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘کے ہم سب مومنین کو بعفو جرائم و عصیان اور فیضان تو توفیق و احسان کے عزت بخشے۔ اور ہمارے مرشدو مولیٰ، عالم علم ربانی، مقبول بارگاہ سبحانی، مخزن اسرار معقول و منقول، کاشف استار فروع و اصول، مطلع العلوم، مجمع الفہوم، عالم باعمل، فاضل بے بدل، منبع الاخلاق، منھل الاشفاق، مصدر احسان، مظہر امتنان، مولانا و مخدومنا، لوذعیِ زمان، مولوی رضا علی خان کو بیچ دونوں جہان کے رحمت خاصہ میں اپنے رکھ کر اقصیٰ مراتب قبولیت کو پہنچائے۔ آمین یارب العلمین‘‘(مجموعہ خطب علمی ،(راجہ)رام کمار بکڈپو،لکھنؤ/صفحہ۶۰)

سیرت وخصائص:

قدوۃالواصلین،زبدۃ الکاملین،رئیس المتوکلین ومتصوفین، قطب الوقت،امام العلماء،سندالاتقیاء حضرت علامہ مولانا رضاعلی خان رحمۃ اللہ علیہ۔خصوصاً نسبت کلام، سبقت سلام، زہد و قناعت، علم و تواضع، تجرید و تفرید آپ کی خصوصیات سے تھے۔ آپ کے اوصاف وکمالات شمارسےباہر ہیں۔آپ جیدعالمِ دین اور ولیِ کامل کےساتھ ساتھ پرتاثیر خطیب بھی تھے۔ آپ کےبیان سے متأثرہوکر بہت سے فساق وفجار تائب ہوکر لوٹتے تھے۔

مولوی رحمن علی مولف تذکرۂ علمائے ہند نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ :’’۲۲؍سال کی عمرمیں ۱۲۴۵ھ کو سند فراغ حاصل کرکے مشارٌ الیہ اماثل و اقران و مشہور اطراف وزمان ہوئے ۔ خصوصاً فقہ و تصوف میں کامل مہارت رکھتے تھے ۔ بہت پر اثر تقریر فرماتے ۔ آپ کے اوصاف شمار سے باہر ہیں۔(تذکرہ علمائے ہند/ص: )

کرامات:

حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت مولانا رضا علی خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کمالات و کرامات میں بیان فرماتے تھے :کہ حضرت کا گزر ایک روز”کوچۂ سیتارام “کی طرف سے ہوا۔ ہنود کے تہوار” ہولی “کا زمانہ تھا۔ ایک ہندوانی بازاری طوائف نے اپنے بالاخانہ سے حضرت پر رنگ چھوڑ دیا۔ یہ کیفیت شارع عام(سڑک) پر ایک جوشیلے مسلمان نے دیکھتے ہی، بالا خانہ پر جا کر تشدد کرنا چاہا، مگر حضرت نے اُسے روکا اور فرمایا۔ بھائی! کیوں اس پر تشدد کرتے ہو؟ اس نے مجھ پر رنگ ڈالا ہے خدا اسے رنگ دے گا۔ یہ فرمانا تھا کہ وہ طوائف بے تابا نہ قدموں پر آکر گر پڑی، اور معافی مانگی، اور اسی وقت مشرف با اسلام ہوگئی۔ حضرت نے وہیں اس نوجوان کے ساتھ اس کا عقد (نکاح)کر دیا۔

اسی طرح ۱۸۵۷انگریز کے غدر کے زمانہ میں ان کے ظلم وستم سے بچنے کیلئےبہت سے مسلمان شہر چھوڑکر دیہاتوں کی طرف چلے گئے،اور بہت سے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔لیکن حضرت کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔باجماعت نماز اداکرتے تھے۔ایک دن حضرت مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ادھر سے گوروں (انگریزوں) کا گزر ہوا۔ خیال ہوا کہ شاید مسجد میں کوئی شخص ہو تو اس کو پکڑ کرماریں پیٹیں۔(اس وقت مسلمانوں پر ایسے ظلم ہواکرتے تھے) انگریز مسجد میں گھسے، ادھر ادھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ کہنے لگے کہ مسجد میں کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ حضرت مسجد میں ہی تشریف فرماتھے۔اللہ تعالیٰ نے گوروں کو اندھاکردیا تھا کہ حضرت کو دیکھنے سے معذور رہے۔

مجاہدِ جنگ آزادی: آپ اپنے وقت جید عالمِ دین ومفتی وصوفیِ باصفاء کےساتھ ساتھ “جلیل القدرمجاہد”بھی تھے۔ آپ جنگِ آزدی کے عظیم راہنماء تھے۔آپ تمام عمر انگریز سامراجیت کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔”لارڈہسٹنگ”آپ کےنام سے کانپتاتھا۔”جنرل ہڈسن”نے آپ کے سرکی قیمت “پانچ سو روپے”مقرر کررکھی تھی۔لیکن گیدڑ انگریز ،رسول اللہ ﷺ کے شیر کاکچھ نہ بگاڑسکا۔انگریز نے آپ کی جائیداد ضبط کرلی،لیکن دنیا کے کتوں کوکیا معلوم؟ان نفوسِ قدسیہ کےہاں تودنیاکی حیثیت مردارکی سی ہے۔

مولانا احمداللہ شاہ مدراسی اورجنرل بخت خاں نے جب مرادآباد پر حملہ کیا توآپ ایک سرگرم مجاہد کی حیثیت سے اس فوج میں پیش پیش تھے۔

’’جنگ آزادی میں آپ نے کس کس انداز سے حصہ لیا اورانگریز آپ سے کس قدر خوفزدہ تھے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے معروف قلمکار حضرت مولانااحسن دہلوی نے ماہنامہ طریقت دہلی کے ائمہ اہلسنت نمبر میں جو کچھ تحریر کیا ہے ماہنامہ قاری کے امام احمد رضا نمبر کے حوالے سے اس کے چنداقتباسات حاضر خدمت ہیں۔

’’آپ (مفتی رضاعلی خاں) جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے ۔ عمر بھر فرنگی تسلط کے خلاف برسرپیکار رہے۔ آپ ایک بہترین جنگجو اور بے باک سپاہی تھے۔ لارڈ ہیسٹنگ آپ کے نام سے بے حد نالاں رہا۔ جنرل ہڈسن جیسے برطانوی جنرل نے آپ کا سرقلم کرنے والے کاانعام پانچ سو روپئے مقرر کیاتھا مگروہ اپنے مقصد میں عمر بھر ناکام رہا‘‘۔

ایک انگریز مورخ لکھتا ہے:’’جب کہ برطانوی حکام تمام ہند پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے تھے تواس وقت مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا امام بخش صہبائی، مولانارضا علی بریلوی جیسے الہڑ مولوی برطانوی تسلط کے خلاف اپنی بھرپور کوشش کررہے تھے‘‘۔

انگریز مؤرخ ڈاکٹر ملی سن آپ کو ان الفاظ میں یاد کرتاہے:بریلی کے اندر جب لوگوں میں برطانوی حکام کے خلاف یورش پھیلی تواس یورش کے تمام تر ذمہ دار جنرل بخت خاں اوران کے ساتھی بریلوی ملاشاہ رضا علی ولد حافظ کاظم علی ولد سعادت یارخاں پٹھان ہی تھے جو بریلی کے عوام کو برطانوی حکام کے خلاف اکسانے کے نہ صرف مجرم ٹھہرے بلکہ انہوں نے بریلی کے عوام کو برطانوی فوج کے خلاف مقابلہ کرنے پر بے حد برافروختہ کیا، اگرملا رضاعلی اپنے عقیدت مندوں سمیت ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو بریلی شہر پر ہمارا قبضہ ہونابالکل آسان تھا۔ اس بریلوی مولوی رضاعلی کی مزاحمت کی وجہ سے برطانوی افواج کوکافی خون و کشت اورآگ اورخون کادریا عبور کرنا پڑا، پھر بھی بمشکل بریلی پر قبضہ کیا۔(بحوالہ : تجلیاتِ تاج الشریعہ ،مطبوعہ رضا اکیڈمی ، صفحہ ۸۵،۸۶)

شعرو شاعری :

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (متوفی ۱۲۳۹ھ/ ۱۸۲۴ء) اورعلامہ فضل امام خیرآبادی (متوفی ۱۲۴۰ھ/ ۱۸۲۴ء) کے شاگرد مفتی صدرالدین آزردہؔ دہلوی (متوفی ۱۲۸۵ھ/ ۱۸۶۸ء) سے مولانا رضاعلی بریلوی نے فن شاعری میں اکتساب فیض کیا تھا اور شاعری بھی کیا کرتے تھے ۔
افسوس آپ کاکوئی باقاعدہ دیوان زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکا۔

 و صال مبارک :

آپ کا وصال۶۲؍ کی عمرمیں ۶؍جمادی الاولیٰ ۱۲۸۶ھ بمطابق اگست۱۸۶۹ء میں ہوا ۔آپ کا مزاز نزد سٹی اسٹیشن بریلی واقع قبرستان بہاری پور ،سول لائن میں ہے۔(بحوالہ:علامہ نقی علی خان ،حیات اور علمی و ادبی کارنامے/ص:۷۷،۷۸)

 

 


No comments:

Post a Comment