حضرت سیدنا مودود چشتی علیہ الرحمہ

 

خواجہ مودود چشتی بن خواجہ ابو یوسف علیہ الرحمہ  آپ کی ولادت بمقام چشت شریف مورخہ 430 ہجری کو ہوئی ۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابو یوسف ناصر الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند تھے اور خواجہ ابو یوسف ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ سید ابو نصر محمد سمعان کے فرزند تھے۔ آپ سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المرتبت شیخ سلطان الہند عطائے رسول حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے پردادا پیر، علم و تقویٰ کے جامع ہیں۔

ابتدائی تعلیم اور راہ سلوک

سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرچکے تھے۔ اور سولہ سال کی عمر میں تحصیل علوم ظاہریہ فرماچکے تھے۔ بعض اہل تاریخ کی رائے ہے کہ تکمیل علوم ظاہری مشیخت کے بعد بمشورہ شیخ احمد کے فرمائی ہے۔ اسی زمانہ میں منہاج العارفین و خلاصتہ الشریعت تصنیف فرمائی۔ انتیس سال کی عمر میں والد نے انتقال فرمایا اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا۔ آپ اپنے والد کے سچے جانشین تھے اور ہدایت خلق میں والد کی نیابت کا حق ادا کیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ آپ کے دس ہزار خلفاء تھے اور مریدین کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

القاب:
قطب الدین، سلطان خواجہ مودود، آقا مودود چشتی، شمس الصوفیاء، چراغ چشتیاں، مشہور ہیں۔

رشد و ہدایت:

 خواجہ قطب الدین مودودی بن خواجہ ابو یوسف علیہ الرحمہ کے خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے، اور خلفاء خاص کی تعداد ایک ہزار بتا ئی گئی ہے، اس سے آپ کے حلقہ رشد و ہد اہت کا پتہ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا سلسلہ دعوت اس قدر وسعت اختیار کر گیا، اس کے اثرات صرف ہرات تک محدود نہ رہے، بلکہ دور دور علاقوں مغرب میں خراسان، عراق، شام اور حجاز تک اور جنوب میں سیستان، بلوچستان اور برصغیر پاک ہند و سندھ تک پہنچے، مغرب میں آپ کے نظریات کی پرچار آپ کے خلفاء نے کی، ان میں خواجہ عثمان ہارونی ، قابل ذکر ہیں،آپ علیہ الرحمہ کے ایک خلیفہ و مرید آپ کے فرزند و جانشین خواجہ احمد چشتی کا لقب نجم الدین تھا ۔خواجہ شریف زندنی ، ملقب بہ نیرالدین بھی آپ کے خلیفہ و مرید تھے ان کے بارے میں نقل ہے کہ آپ نے چالیس برس تک جنگلوں میں گذر بسر کی اور جنگلی میوں اور پتوں پر گزارہ کیا ـ حاجی‌ خواجہ شریف زندنی ، سلطان سنجر کے محترم تھے ـ

شاه محمود سنجان (متوفی 597)، ملقب بہ ركن‌الدین تھےـ لقب شاه از قطب‌الدین مودود آپ کو ملا ـ آپ کا مقبرہ ابیج کے مقام پر ہے ـ شاہ محمود سنجان شاعر بھی تھے اور ان کی رباعیاں مشہور ہیں ـدیگر آپ علیہ الرحمہ کے مریدان مندر جہ ذیل ہیں:

پیر كبار چشتی اہل پشاور

ابونصر شكیبان زاہد از مشائخ سیستان

شیخ حسن تبتی علیہ الرحمہ

عثمان رومی علیہ الرحمہ كہ خرقہ بایزیدِ بسطامی بھی ان کو ملا اور وہ دو طرفہ پیر سلسلہ ہوئے۔

 

سماع کی حالت میں کیفیت

خواجہ مودود کو سماع کا بہت زیادہ شوق تھا اور وہ اکثر سماع کے مجلس ترتیب دیتے تھے جس میں علما اور مشائخ بہت بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے، سب کے لیے انواع و اقسام کے لزیز کھا نے مہیا کیے جاتے تھے، مجلس سماع کے آغاز اور اختتام تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا ـ خواجہ سماع کے درمیان میں اتنا روتے کہ سب پر گریہ طاری ہو جاتا کبھی متبسم ہوتے تو روئے انور سرخ ہو جاتا کبھی مستی کے عالم میں آ جاتے اور اکثر لوگوں کے درمیان میں سے غائب ہو جاتے اور دیر کے بعد نمودار ہوتے حاضرین میں سے ایک مرتبہ ایک شخص نے سوال کیا کہ اکثر محفل سے غائب ہو جاتے ہیں کیا وجہ ہے، آپ نے جواب دیا ائے عزیز من صاحب سماع محبوب کا نورانی لباس زیب تن کر لیتا ہے اور سب سے بیگانہ ہو کر اس کے ساتھ یگانہ ہو جاتا ہے، جن کی آنکھیں نور معرفت سے روشن ہوں وہی اس مقام کو پا سکتا ہے ۔

 تصانیف جلیلہ :

آپ نےپندرہسالکیعمرمیںکتابمنہاجالعارفینلکھڈالی،آپکے دوسرےکتابکا نامخلاصہ الشریعہ ہے، آپ کی دونوں تصانیف سلسلہ خواجگان کے بارے میں ہیں لیکن ان کے اصل نسخے دستیاب نہ ہو سکے ـ

چست شریف:

چست شریف افغانستان کے صوبہ ہرات میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ يہ دریائے ہاری کے شمالی کنارے پر ہرات کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ قصبہ 930 عیسوی سے اسی مقام پر واقع ہے۔ چشت کی وجہ شہرت چشتیہ تصوف کی وجہ سے ہے۔ چشتی نظریہ محبت اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ چست میں تصوف کی بنیاد ابو اسحاق شامی نام کے بزرگ نے رکھی۔

سلسلہ چشیہ

پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں بعض بزرگان دین نے خراسان کے ایک قصبہ چشت میں رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ شروع کیا٬ جو دور دور تک پھیلتا چلا گیا٬ یہ خانقاہی نظام طریقہ سلسلۂ چشتیہ کے نام سے موسوم ہوا٬ شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ تصوف میں چشتی سلسلے کے بزرگ تھے۔ ان کی طریقت کا سلسلہ یوں ہے۔ کہ عثمان ہارونی چشتی علیہ الرحمہ جناب شیخ زندنی چشتی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ زندنی جناب خواجہ مودود چشتی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ مودود چشتی خواجہ ناصر الدین چشتی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ جناب ناصر چشتی علیہ الرحمہ ، خواجہ محمد اسحاق علیہ الرحمہ بانی سلسلہ چشت کے مرید تھے۔ خواجہ محمد اسحاق علیہ الرحمہ چونکہ خراسان کے اطراف میں چشت نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اسی مناسبت سے چشتی کہلائے اور ان سے آگے جو ارادت مندی کا سلسلہ چلا یعنی جن بزرگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی انھیں چشتی کہا گیا۔ ہر چند جناب اسحاق شام کے رہنے والے تھے مگر ایک مدت سے یہاں آ رہے تھے اور یہاں برسوں رہ کر اپنے فیوض باطنی سے لوگوں کو فیض پہنچایا اور یہیں مدفون ہوئے اس لیے انھیں چشتی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تصوف کے کئی ایک سلسلے خواجہ حسن بصری کے واسطے سے جناب علی کرم اللہ وجہ‘ تک پہنچتے ہیں۔

کرامت:
جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ اس کے دل کا حال مفصل بیاں فرما دیتے اور جس کی قبر سے آپ گزرتے اس قبر والے کا حال بیان فرما دیتے، خواجہ مودود چشت کے تمام اکابر اور مشاہخ وقت تابع تھے اور آپ کی تعظیم و تکریم میں انتہا ئی کوشش کر تے تھے۔ آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد محترم خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے پہنا تھا۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ جب بلخ پہنچے تو وہاں کے علما نے آپ کی بڑی مخالفت کی مسعلہ سماع پر مناظرہ کرنے کے لیے ایک عظیم اجتماع ہوا۔ اس مجلس میں علمائے بلخ نے جتنے سوالات اٹھائے خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ نے ان کے جوابات دیے اور فرمایا ہم ابراہیم بن ادہم کی سنت پر قائم ہیں۔ وہ ہمارے پیر تھے اور سماع سنا کرتے تھے۔ اس پر علما نے کہا کہ ابراہیم ادہم پیر کامل تھے وہ ہوا میں اڑا کرتے تھے اس لیے ان کا سماع سننا جائز ہے مگر آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی اسی وقت مجلس سے اٹھے اور تیز پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے لگے اور علما کی نظروں سے غائب ہو گئے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد مجلس میں آکر یوں خاموشی سے بیٹھ گئے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر آپ کے آنے کا مجلس میں شور برپا ہو گیا۔ اس مجلس میں دو ہزار لوگ موجود تھے وہ سب آپ کے مرید ہو گئے مگر بعض ضدی علما اسرار کرتے رہے کہ یہ پرواز والا کام تو بعض جوگی بھی کر لیتے ہیں۔ اگر جامع مسجد کے حوض میں پڑا ہوا پتھر آپ کے ولایت کی گواہی دے تو پھر ہم آپ کو مان لینگے۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے پتھر کی طرف اشارہ کیا تو وہ پتھر آپ کے پاس آکر رک گیا۔ پتھر سے آواز آئی اے خواجہ مودو آپ کی ولایت پر کوئی شک نہیں۔ بلخ کے علما نے جب آپ کی یہ کرامت دیکھی تو آپ کے قدموں میں گر پڑے اور معافی مانگی۔

وصال مبارک :

جب آپ علیہ الرحمہ کا اس دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو ایک بڑا عجیب واقع رونما ہوا۔ خزینتہ الاصفیا میں لکھا ہوا ہے کہ جب آپ پر نزع کا وقت طاری ہوا تو آپ بار بار دروازے کی طرف دیکھتے تھے جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔ اسی اثنا میں ایک نورانی چہرے والا شخص آیا اس نے آپ کو ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا پیش کیا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ نے اس کپڑے کو ایک نظر دیکھا اور اپنی آنکھوں پر رکھا اور اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ اسی طرح لکھا ہوا ہے کہ جب آپ علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ ہوئی تو اس میں بیشمار لوگ آئے جن میں سے آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ) نے پڑھائی پھر عام آدمیوں نے پڑھی آپ کی نماز جنازہ تین چار دفعہ پڑھی گئی۔ جب نماز جنازہ ختم ہوئی تو جنازے کا تابوت خودبخود اٹھ گیا اور آپ علیہ الرحمہ کی آخری آرام گاہ کی طرف چلنے لگا۔ اس کرامت کو دیکھ کر دس ہزار غیر مسلم لوگ مشرف باسلام ہوئے۔ آپ اس دارفانی سے یکم رجب المرجب 525 ہجری میں رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ چشت افغانستان میں ہے۔(بحوالہ کتاب سیر الا قطاب)


No comments:

Post a Comment