حضرت سید محمد بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ

 

خواجہ صدرالدین ابوالفتح حضرت سید محمد بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں رحمۃ اللہ علیہ آپ علیہ الرحمہ کا نام سید محمد الحسینی کنیت ابوالفتح اور القابا ت بندہ نواز گیسودراز ہیں آپ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 4 رجب المرجب 720 ہجری صبح کے وقت دہلی میں ہوئی آپ علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم کا نام سید یوسف حسینی راجا المشہور راجوقتال تھا جو نہایت متقی اور پر ہیز گار انسان تھے ۔

آپ علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی 11 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور دولت آباد کی مسجد میں محراب سنائی آپ علیہ الرحمہ کے اساتذہ میں قاضی عبدالمقتدر بن قاضی رکن الدین شریحی کندی، مولانا امام ہمام تاج الدین بہادر اور سید شریف الدین کتیلی وغیرہ ہم شامل ہیں ۔

 باطنی علوم کے حصول کے لئے آپ علیہ الرحمہ نے سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت شیخ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی آپ علیہ الرحمہ کو آپ علیہ الرحمہ نے شیخ سے بڑی عقیدت و محبت تھی آپ علیہ الرحمہ ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضررہتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ گیسو دراز کے لقب سے مشہور ہیں اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ علیہ الرحمہ نے مشہور کتاب اخبارالاخیار میں لکھتے ہیں :

شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی پالکی جس طرح دوسرے مرید اٹھاتے تھے اسی طرح سید محمد بھی اٹھایا کرتے تھے ایک دن آپ علیہ الرحمہ نے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی پالکی اٹھانے لگے تو اس کے ایک حصہ میں آپ علیہ الرحمہ کے بال الجھ گئے اگر نکالتے تو دیر لگتی اور اس سے شیخ کے کبیدہ خاطر کا خطرہ محسوس کرتے تھے اس لئے شیخ کے عشق و محبت میں اسی کیفیت سے چلتے رہے بہت فاصلہ طے کرجانے کے بعد جب شیخ کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور آپ علیہ الرحمہ کی اس سچی محبت اور پکی عقیدت پر آفرین کہا اور یہ شعر پڑھا:

ترجمہ: جو کوئی سید گیسودراز کا مرید ہوگیا ۔ بخدا اس میں شک نہیں کہ وہ پکا عاشق ہوگیا۔(حوالہ : اخبارالاخیار صفحہ 285)

 کئی سارے روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ گیسودراز کا لقب آپ علیہ الرحمہ کے پیر ومرشد کا عطا کردہ ہے آپ علیہ الرحمہ حضرت روشن چراغ دہلوی کے خلفاء میں تھے اور شیخ آپ علیہ الرحمہ پر بڑی شفقت فرماتے تھے حضرت سید محمد گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ علمیت وروحانیت میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے آپ علیہ الرحمہ کے کثیر تصانیف اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں تذکرہ خواجہ گیسودراز کے مصنف نے آپ علیہ الرحمہ نی کتاب کے صفحہ 69 پر آپ علیہ الرحمہ کی کتب کی فہرست لکھی گئی ہے جو یہ ہے:

·      ملتقط بہ قلب سلوک ( تفسیر قرآن)

·      تفسیر ثانی بطریق کشاف

·      حواشی کشاف

·      شرح مشارق (درسلوک)

·      ترجمہ مشارق

·      معارف شرح معارف

·      ترجمہ عوارف

·      شرح تعارف

·      شرح فصوص الحکم

·      شرح آداب المریدین ( فارسی وعربی)

·      شرح تمہیدات عن القضاہ

·      وجود العارفین

·      روئیت ربی

·      شجرہ نسب (جس میں ستر کتابوں کے حوالے ہیں)

·      شرح رسالہ قشیریہ (فارسی)

·      بیان بود ہست

·      استقامت شریعت بہ طریق حقیقت

·      خطائر القدس المعروف عشق نامہ

·      تلاوت الوجود (عربی)

·      ورالاسرار (عربی)

·      عروج ونزول

·      روئیت

·      سبیل المحققین والمجذوبین

·      سیرۃ النبی

·      اورادنامہ

·      شرح فقہ اکبر (فارسی)

·      شرح قصیدہ امالی (عربی وفارسی)

·      شرح قصیدہ حافظیہ

·      فضائل خلفائے راشدین

·      حواشی قوت القلوب

·      عقیدہ حدائق الانس

·      آداب سلوک

·      اشارہ محبان حق

·      مراقبہ

·      معرفت رب العزت

·      کتاب الاسماء

·      ضرب الامثال

·      خلافت نامہ

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں یہ تمام کتب آپ علیہ الرحمہ کی موجود پائی گئی ہیں ان کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ کے مکتوبات و ملفوظات ہیں جو آپ علیہ الرحمہ کے مریدین نے جمع کئے ہیں ۔  (حوالہ: خواجہ گیسودراز صفحہ 69)

غوث العالم محبوب یزدانی سلطان اوحدالدین سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی فرماتے تھے کہ جب ہم حضر ت سید محمد گیسوداز کی ملازمت سے مشرف ہوئے تو حقائق و معارف کی وہ مقدار جو آپ علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی دوسرے مشائخ سے نہیں حاصل ہوئی سبحان اللہ کیا قوی جذبہ رکھتے تھے ایک عرصے تک دکن میں آپ علیہ الرحمہ سے ملاقات رہی اور دومرتبہ اس دیار میں علائی قافلہ پہونچا۔(حوالہ: لطائف اشرفی حصہ اول 568)

لطائف اشرفی میں ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی حضرت گیسودراز سے ملنے دو مرتبہ گلبرگہ شریف گئے اور آپ علیہ الرحمہ کی صحبت سے بہت فیض حاصل کیا گلبرگہ میں قیام کے دوران آپ علیہ الرحمہ ہمہ وقت حضرت گیسودراز کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور آپ علیہ الرحمہ کے ملفوظات عالیہ سے مستفیض ہوتے تھے ۔

صحائف اشرفی میں ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا کہ سفر میں جب شہر گلبرگہ میں گزر ہوا اس دیار کے دامن کوہ میں ایک عزیز گوشہ نشین تھا ۔ دریافت کرنے سے معلوم ہو اکہ سات سو (700) برس کی عمررکھتے ہیں ۔ اگلے زمانہ کی عجائب وغرائب کی باتیں کرتے تھے ان کے پاس ایک انگوٹھی تھی ۔اس کا عجیب خاصہ تھا کہ جب اس نگینہ کو آپ علیہ الرحمہ نی طرف کرتے لوگوں کی نظر سے غائب ہوجاتے تھے اور جب نگینہ اس کا باہر کی طرف کرتے آپ علیہ الرحمہ ظاہر ہوجاتے ۔وقت رخصت ایک شغل کی تعلیم فرمائی کہ جس کے شرح و بیان سے باہر ہے۔ (صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ 157)

اس دیار میں ہر جگہ عمدہ باغات اور نفیس کیاریاں بکثرت تھیں آپ علیہ الرحمہ کو ولایت گلبرگہ بہت پسند تھی آپ علیہ الرحمہ اس کو گلبرکہ فرمایا کرتے تھے۔

وصال مبارک:

حضرت خواجہ گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں گزاری آپ علیہ الرحمہ کے سینے میں عشق الہی کی آگ روشن تھی یہی وجہ تھی کہ جس نے بھی آپ علیہ الرحمہ سے فیض حاصل کیا اس کا سینہ معرفت و عشق الہی کا خزینہ بن گیا ساری زندگی علوم و معرفت کے خزانے لٹانے کے بعد 16 ذی القعدہ 825 ہجری بعمر ایک سو پانچ سال چار ماہ بارہ دن بروزدوشنبہ بوقت صبح اس دار فانی سے عالم جاویدانی کی طرف کوچ فرمایا۔ مزار مبارک دکن گلبرگہ میں مرجع خلائق ہے۔

 

حضرت ابوالمکارم علاؤالدولہ سمنانی علیہ الرحمہ

آپ علیہ الرحمہ  736 ہجری اپنے وقت کے عظیم روحانی بزرگ گزرے ہیں۔کنیت ابوالمکارم تھی ۔ اسم گرامی احمد بن محمد اور سمنان کے بادشاہوں خاصوں میں سے تھے۔ آپ صاحب کشف وکرامات تھے اور طریقت میں بلند مقام رکھتے تھے سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  کچھوچھوی علیہ الرحمہ  کے معاصرین میں پہلا نام حضرت علاؤالدین سمنانی علیہ الرحمہ  کا آتا ہے کیونکہ آپ نے راہ سلوک کی ابتدائی تعلیم انہی سے حاصل کی  آپ بچپن میں  ہی شیخ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے تھے ۔ حضرت شیخ کا نام جو معتبر کتب میں درج ہے اس طرح ہے احمد بن محمد بن احمد بن محمد بنابانکی اور لقب رکن الدین ابوالمکارم علاؤ الدولہ سمنانی علیہ الرحمہ  ہے آپ کی ولادت ماہ ذی الحجہ 659 ہجری کو شہر سمنان میں ہوئی آپ کے والد محترم کا نام ملک شرف الدین تھا جو حکومت کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے ۔ مراۃ الاسرار کے مصنف لکھتے ہیں ۔" آپ چہل مجالس میں فرماتے تھے کہ میرے چچاملک جلال الدین سمنانی بادشاہ وقت ارغون خان کے وزیر تھے اور میرے ماموں قاضی ضیاء الدین تمام مملکت کے قاضی اور بادشاہ وقت کے مصائب تھے۔ (حوالہ: مراۃ الاسرار صفحہ نمبر941)

شیخ علاؤ الدولہ علیہ الرحمہ  علوم ظاہری و باطنی پر مکمل عبور رکھتے تھے اس کا ثبوت  آپ کی بلند پایہ تصانیف ہیں جو حقیقت میں علوم و معارف کا خزانہ ہیں مختلف کتب میں ان کی تعداد تین سو بیان کی گئی ہے۔ یہ مختلف علوم و فنون پر لکھی گئی تھیں لیکن ان میں سے اکثر ناپید ہیں ممکن ہے کہ ایران کے کتب خانوں میں اب بھی موجود ہوں ۔"آپ علیہ الرحمہ  کی متعدد منظوم و منثور تصنیفات ہیں الدرالکامنہ میں آپ کی تصانیف کی تعداد تین سو تک بتائی گئی ہے جن میں سے صرف یہ کتاب پائی جاتی ہیں:

·      مطلق العطق ومجمع الملفظ (عربی میں) اس میں قرآن کریم کی بعض سورتوں کی تفسیر صوفیانہ انداز میں کی گئی ہے۔

·      سرالبال فی اطوار سلوک اہل الحال ( فارسی ) مختصر رسالہ ہے۔

·      صلواۃ العاشقین  (فارسی ) یہ بھی ایک مختصررسالہ ہے،

·      شارع ابواب القدس ومراتع الانس ( عربی) اس کا موضو ع حکمت اور کلام ہے  ۔

·      مناظر المحاظر واللناظر الحاضر (عربی ) واقعہ غدیر خم پر ہے

·      العروۃ الاہل الخلو والخلوہ ( فارسی ) تصوف  پر ہے ۔

·      چہل مجالس ( فارسی ) ملفوظات کا مختصر مجموعہ ہے۔

·      عروۃ الوثقیٰ 

حیا ت سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  صفحہ نمبر 119 میں  ڈاکٹر وحید اشرف  کچھوچھوی نے آپ کی سات سو کتابوں کا ذکر کیا ہے  جن میں مختصر رسائل بھی شامل ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ  انہوں نے آپ کی مشہور کتاب  "عروۃ الوثقیٰ"  کا ذکر نہیں کیا ہےحالانکہ مختلف کتب تصوف میں اس کے حوالے موجود ہیں اور صاحب مراۃ الاسرار نے تو اپنی کتاب میں جابجا اس کا ذکر کرکے اس کی عبارات نقل کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب تصوف پر لکھی گئی ہےاور اس میں بڑے اسرار ورموزبیان کئے گئے ہیں۔

وصال مبارک:  

حضرت شیخ علاؤالدولہ  سمنانی علیہ الرحمہ نے ستتر (77) سال کی عمر پائی 21رجب المرجب 736 ہجری کو سمنان میں وصال فرمایا آپ کا مزار مبارک سمنان کے قصبہ برج احرار صوفی آباد میں قطب الاوتاد جمال الدین عبدالوہاب کے احاطے میں ہے صوفی آباد ایک قصبہ ہے جو سمنان سے 15 کیلومیٹر ہے۔