شہید عشق حضرت سیدنا منصور بن حلاج علیہ الرحمہ

 


ایران کے شہر طور میں پیدا ہوئے۔ والد کپڑا بناتے تھے، جن کی وجہ سے نسبت حلاج پڑ گئی۔ بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ بچپن ہی سے آیات کے باطنی معانی تلاش کرنے کا شوق تھا۔

897عیسوی  میں دوسرا حج کرنے کے بعد بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ہندوستان میں انھوں نے ملتان اور منصورہ کا سفر کیا۔ بغداد واپسی پر آپ پے جادو، افسوں طرازی اور جنات سے رابطے کے الزامات لگے۔ گلیوں بازاروں میں والہانہ انداز میں اشعار پڑھتے اور خدا سے عشق کا اظہار کرتے۔ خود کھانا کھانے کی بجائے اپنے سیاہ رنگ کا کتے کو کھلایا کرتے تھے، جس کو وہ اپنا نفس کہا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک دن صوفی بزرگ شبلی کے دروازے پر دستک دی۔ جب شبلی نے پوچھا کون ہے، تو جواب میں یہ مشہور فقرہ کہا "اناالحق"۔

913 عیسوی میں گرفتار کر لیا گیا اور نو برس تک نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران کتاب الطواسین مکمل کی۔ آخر بارسوخ وزیر حامد العباس کی ایما پر مقدمہ چلایا گیا اور قاضی ابوعمر ابن یوسف نے حکم نامہ جاری کر دیا گیا کہ تمہارا خون بہانا جائز ہے۔

25 مارچ 922 عیسوی کی رات کو قید خانے میں ابنِ خفیف آ کر ملے اور پوچھا "عشق کیا ہے؟" حلّاج نے جواب دیا "کل خود دیکھ لینا"۔

26 مارچ 922 عیسوی میں تذکرۃ الاولیاء میں مرقوم ہے کہ جس وقت حضرت حسین بن منصور حلاج کی سنگساری شروع ہوئی تو آپ کی زبان پر یہ قلمات تھے کہ" یکتا کی دوستی بھی یکتا کردیتی ہے"۔حلاج کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔‘‘ ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ’’حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے اور ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو تو کہنے لگے "میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زرد پڑ گیا ہو گا میں نے اپنے چہرے کو سُرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہے۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہرہ تو سُرخ کر لیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا۔ جواب دیا کہ وضو کیلئے۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے۔ جب منصور کے ہاتھ، پاؤں، بازو کاٹے جا چکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں اور جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا "ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں" پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے "یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا۔ میں تیرے دیدار کیلئے آ رہا ہوں"۔ اب جلاد نے حامد کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کئے ’’واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہو جائے۔ میں تیرے دیدار کو آ رہا ہوں۔‘‘ حلاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کر دیا گیا اور پھر آگ لگا دی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔

علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں ’’ جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ "جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہو جائے گا اور قریب ہو گا کہ پانی بغداد کو غرق کر دے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہو جائے۔ جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آ گئی حتی کہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ بغداد غرق ہو جائے گا تو خلیفہ نے کہا "کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا۔؟" حاجب نے کہا ہاں اس نے اس طرح کہا تھا۔ تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی۔ پانی کی سطح پر وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللّٰہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہو گیا۔

کہتے ہیں کہ موت سے پہلے منصور حلاج نے کہا ’’اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھا دیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا۔‘‘

حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ جب دار پہ چڑھائے گے تو ان کا آخری کلام یہ تھا کہ" حب الواحد افراد الواحدلہ "محب کے لیے یہ کتنا خوشی کا مقام ہے کہ اپنی ہستی کو راہِ محبت میں فنا کر دے -اور نفس کا اختیار محبوب کے پانے میں صرف کرکے خود کو فنا کر دے ۔(کشف المحجوب صفحہ نمبر 466)

آپ کے متعلق عجیب و غریب قسم کے اقوال منقول ہیں۔ لیکن آپ بہت ہی نرالی شان کے بزرگ اور اپنی طرز کے یگانہ روزگار تھے۔ حضرت منصور ہمہ اوقات عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میدان توحید و معرفت میں دوسرے اہل خیر کی طرح آپ بھی شریعت و سنت کے متبعین میں سے تھے۔ آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تستر تشریف لے گے اور وہاں دو سال تک حضرت عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ کی صبحت سے فیض یاب ہونے کے بعد بصرہ چلے گے۔ پھر وہاں سے دوحرقہ پہنچے جہاں حضرت عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ سے صبحت سے فیضیاب ہو کر حضرت یعقوب اقطع کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا لیکن حضرت عمرو بن عثان مکی کی ناراضی کے باعث حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغداد پہنچ گے۔ اور وہاں حضرت جنید نے آپ کو خلوت و سکوت کی تعلیم سے مرصع کیا۔ پھر وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد حجاز تشریف لے گے اور ایک سال قیام کرنے کے بعد جماعت صوفیا کے ہمراہ پھر بغداد آ گے وہاں پر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ سے نہ معلوم کس قسم کا سوال کیا جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ تو بہت جلد لکڑی کا سر سرخ کرے گا یعنی سولی چڑھا دیا جائے گا۔ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ جب مجھے سولی دی جاے گی تو آپ اہل ظاہر کا لباس اختیار کر لیں گے۔

چنانچہ بیان کیا گیا ہے جس وقت علما نے متفقہ طور پر حسین منصور کو قابل گردن زدنی ہونے کا فتویٰ دیا تو خلیفہ وقت نے کہا حضرت جنید بغدادی جب تک فتویٰ پر دستخط نہ کریں گے منصور کو پھانسی نہیں دے سکتا اور جب یہ اطلاع حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچی تو آپ نے مدرسہ جا کر پہلے علما ظاہر کا لباس زیب تن کیا اس کے بعد یہ فتویٰ دیا کہ ہم ظاہر کے اعتبار سے منصور کو سولی پر چڑھانے کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت منصور رحمتہ الله علیہ کے کسی مسلہ کا جواب نہیں دیا تو وہ حضرت جنید سے ملاقات کیے بغیر خفا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ تستر چلے گے اور ایک سال تک وہیں مقیم رہے اور وہاں کے لوگ آپ کے بے حد معتقد ہو گے۔ لیکن آپ اپنی فطرت کے مطابق اہل ظاہر کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے جس کی وجہ سے لوگوں میں آپ کے خلاف نفرت و حسد کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ مختلف ممالک میں مقیم رہ کر آخر میں فارس پہنچے اور اہل فارس کو بلند پایہ تصانیف پیش کی اور اپنے وعظ و نصیحت میں ایسے رموز نہاں کا انکشاف کیا کہ لوگوں نے آپ کو حلاج الاسرار کے خطاب سے نواز دیا۔ پھر بصرہ پہنچ کر دوبارہ صوفیا کا لباس اختیار کر کے مکہ معظمہ کا عزم کیا اور راستے میں بے شمار صوفیا سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ مکہ معظمہ سے واپسی کے بعد ایک سال بصرہ میں قیام کیا اور اہواز ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے اور وہاں سے خراسان و ماوراءالنہر ہوتے ہوئے چین پہنچ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جن ممالک میں پہنچے وہاں کے لوگوں نے آپ کے اوصاف کے مطابق خطابات سے نوازا۔ گھوم پھر کر آپ مکہ معظمہ پہنچ گے۔ اور دو سال قیام کے بعد جب واپسی ہوئی تو آپ میں اس درجہ تغیر پیدا ہو گیا اور آپ کا کلام لوگوں کی فہم سے باہر ہو گیا۔ اور جن ممالک میں آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے جاتے وہاں کے لوگ آپ کو نکال دیتے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایسی ایسی اذیتیں برداشت کیں کے کسی دوسرے صوفی کو ایسی تکالیف کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے اناالحق کا غیر شرعی جملہ نکل گیا لیکن آپ کو کافر کہنے میں اس لیے تردد ہے کہ آپ کا قول حقیقت میں خدا کا قول تھا اور حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ جو مشائخ آپ کی بزرگی کے قائل نہیں ہیں اُن کے اقوال صوفیا کی شان کے مطابق نہیں برہنائے حسد انھوں نے آپ کو موردالزام گردانا ہے اس لیے اُن مشائخ کے اقوال کو قابلِ قبول کہنا دانشمندی کے خلاف ہے۔

اکثر صوفیا نے آپ کی بزرگی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ تصوف سے قطعاً ناواقف تھے۔ ہمیشہ شوق و سوز کے عالم میں مستغرق رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف مغلق و مشکل عبارات کا مجموعہ تھیں۔ حتٰی کہ بعض لوگوں نے تو کافر و ساحر تک کا خطاب دے دیا اور بعض کاحیال ہے کہ آپ اہل حلول میں سے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ کا تکیہ اتحاد پر تھا۔

لیکن حضرت مصنف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توحید کا معمولی سا واقف بھی آپ کو حلول و اتحاد کا علمبردار نہیں کہہ سکتا بلکہ اس قسم کا اعتراض کرنے والا خود ناواقف توحید ہے۔ اور اگر ان چیزوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔

چنانچہ بغداد میں ایک جماعت نے حلول اتحاد کے چکر میں گمراہ ہو کر خود کو حلاجی کہنے سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ انھوں نے صحیح معنوں میں آپ کے کلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس زمرے میں تقلید شرط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس مرتبہ پر فائز فرما دے۔ مصنف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ درخت سے انی انااللہ کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی جملہ آپ کی زبان سے نکل گیا تو خلاف شرع بتاتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح حضرت عمرکی زبان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اسی طرح آپ کی زبان سے بھی کلام کیا اور یہی جواب حلول و اتحاد کے واہیات تصورات کو بھی دور کر سکتا ہے۔

حضرت عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق حسین بن منصور عالم ربانی ہوئے ہیں اور حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرما دیا کہ مجھ میں اور حسین بن منصور میں صرف اتنا سا فرق ہے کہ اُن کو لوگوں نے دانشور سمجھ کر ہلاک کر دیا اور مجھ کو دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ بہرحال انہی اقوال کی مطابقت میں حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار فرماتے ہیں کہ اگر حسین بن منصور حقیقت میں مطعون و ملعون ہوتے تو پھر یہ دونوں عظیم بزرگ ان کی شان میں اتنے بہتر الفاظ کیسے استعمال کر سکتے تھے۔ لہذا ان دونوں بزرگوں کے اقوال حضرت حسین بن منصور کے صوفی ہونے کے لیے بہت کافی ہیں

عشق اور سولی:

جس وقت آپ کو سولی دی جانے والی تھی تو ایک لاکھ افراد کا وہاں اجتماع تھا۔ اور آپ ہر سمت دیکھ کر حق حق اور اناالحق کہہ رہے تھے۔ اس وقت کسی اہل نے پوچھا عشق کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ آج، کل اور پرسوں میں تجھے معلوم ہو جاے گا۔ چنانچہ اسی دن آپ کو پھانسی دی گئی۔ اگلے دن آپ کی نعش کو جلایا گیا اور تیسرے دن آپ کی راکھ کو دریائے دجلہ میں ڈال دیا گیا۔ گویا آپ کے قول کے مطابق عشق کا صحیح مفہوم یہ تھا۔

حلاج کہنے کی وجہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلاج اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روئی کے ذخیرے پر سے گذرے اور عجیب انداز میں کچھ اشارہ کیا جس کی وجہ سے وہ روئی خود بخود دھنک گئی۔

دوستی کا مفہوم

ہر رات آپ رحمۃ اللہ علیہ چار سو رکعتیں نماز ادا کیا کرتے تھے اور اس فعل کو اپنے اوپر فرض قرار دے لیا تھا۔ اور جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ ایسے بلند مراتب کے بعد آپ اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ دوستی کا مفہوم یہی ہے کہ مصائب پر صبر کیا جائے اور جو اُس کی راہ میں فنا ہو جاتے ہیں تو راحت و غم کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔

آپ کی عاجزی:

میدان عرفات میں آپ نے کہا کہ اے اللہ! تو سرگرداں لوگوں کو راہ دکھانے والا ہے اور اگر میں واقعی کافر ہوں تو میرے کفر میں اضافہ فرما دے۔ پھر جب سب لوگ رخصت ہو گے تو آپ نے دعا کی کہ اے خدا! میں تجھ کو واحد تصور کرتے ہوئے تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا اور تیرے انعامات پر اپنے عجز کی وجہ سے شکر بھی ادا نہیں کر سکتا لہذا تو میرے بجائے اپنا شکرخود ہی ادا کر لے اس لیے کہ بندوں سے تیرا شکر کسی طرح بھی ادا نہیں ہو سکتا۔

صبر کا مفہوم:

فرمایا کہ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا دیا جائے جب بھی منہ سے اف نہ نکلے، چنانچہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سولی پر چڑھایا گیا تو اف تک نہیں کی۔

آپ کی کرامات:

حضرت رشید خرد سمرقندی بیان کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بہت سے لوگ سفر حج میں آپ کے ہمراہ تھے اور کئی روز سے کوئی غذا نصیب نہیں ہوئی تھی چنانچہ جب آپ سے سب نے بھوک کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ طبیعت سری کھانے کو چاہتی ہے تو آپ نے سب کی صف بندی کر کے بیٹھا دیا اور جب اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ لے جاتے تو ایک بھنی ہوئی سری اور دو گرم روٹیاں نکال نکال کر سب کے سامنے رکھتے جاتے۔ اس طرح اُن چار سو افراد نے جو آپ کے ہمراہ تھے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا۔

اور آگے چل کر۔لوگوں نے کہا

ہماری طبعیت خرموں کو چاہتی ہے چنانچہ آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا مجھے زور زور سے ہلاو اور جب لوگوں نے یہ عمل کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جسم سے اس قدر خرمے جھڑے کے لوگ سیر ہو گے۔

مریدوں کی جماعت نے کسی جنگل میں آپ سے انجیر کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے جیسے ہی فضا میں ہاتھ بلند کیا تو انجیر سے لبریز ایک طباق آپ کے ہاتھ میں آ گیا اور آپ نے پوری جماعت کو کھلا دیا۔

اسی طرح جب مریدوں نے حلوے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ان کو حلوہ پیش کر دیا تو لوگوں نے جب عرض کیا کہ ایسا حلوہ تو بغداد کے بازاروں میں ملتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میرے لیے بغداد کا بازار اور جنگل مساوی ہیں۔ سنا گیا ہے اسی دن بغداد کے باب الطاقہ کے بازار میں کسی حلوائی کا حلوے سے بھرا ہوا طباق گم ہو گیا اور جب آپ کی جماعت بغداد پہنچی تو حلوائی نے اپنا طباق شناخت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھارے پاس سے کہاں سے آیا؟ اور جب لوگوں نے اسے پورا واقعہ بتایا تو وہ حلوائی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت سے متاثر ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔

ارشادات:

فرمایا کہ خدا کی یاد میں دنیا و آخرت کو فراموش کر دینے والا ہی واصل بالله ہوتا ہے۔

فرمایا خدا کے سوا ہر شے سے مستغنی ہو کر عبادت کرنا فقر ہے۔

فرمایا صوفی اپنی ذات میں اس لیے واحد ہوتا ہے کہ نہ تو کسی کو جانتا ہے اور نہ کوئی اس سے واقف ہوتا ہے۔

فرمایا نورِ ایمانی کے ذریعے خدا کی جستجو کرو۔

فرمایا کہ حکمت ایک تیر ہے اور تیر انداز خدا تعالیٰ ہے اور مخلوق اس کا نشانہ۔

فرمایا مومن وہ ہے جو امارات کو معیوب تصور کرتے ہوئے قناعت اختیار کرئے۔

فرمایا کہ سب سے بڑا اخلاق جفائے مخلوق پر صبر کرنا اور اللہ کو پہچانا ہے۔

فرمایا کہ عمل کو کدورت سے پاک رکھنے کا نام اخلاق ہے۔

فرمایا کہ بندوں کی بصیرت، عارفوں کی معرفت، علما کا نور اور گذشتہ نجات پانے والوں کا راستہ ازل سے ابد تک ایک ہی ذات سے وابستہ ہے۔

فرمایا کہ میدان رضا میں یقن کی حیثیت ایک اژدھے جیسی ہے جس طرح جنگل میں ذرے کی حیثیت ہوتی ہے اس طرح پورا عامل اس اژدھے کے منہ میں رہتا ہے۔

فرمایا بندگی کی منازل طے کرنے والا آزاد ہو جاتا ہے۔

فرمایا کہ مرید سایہ توبہ اور مراد سایہ عصمت میں رہتا ہے اور مرید وہ ہے جس کے مکشوفات پر اجتہاد کا غلبہ ہو۔ اور مراد وہ ہے جس کے مکشوفات اجتہاد پر سبقت لے جایں۔

فرمایا کہ انبیا جیسا زہد آج تک کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔

فرمایا کہ ذاتِ خداوندی جس پر منکشف ہونا چاہتی ہے تو ادنیٰ سی شے کو قبول کر کے منکشف ہو جاتی ہے ورنہ اعمال صالحہ کو بھی قبول نہیں کرتی۔

فرمایا کہ جب تک مصائب پر صبر نہ کیا جاے عنائت حاصل نہیں ہوتی۔

حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی صداء "اناالحق"اور اولیاء کرام کے تأثرات

حضرت علی ہجویری المعروف داتا  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں  کہ انہیں میں سے ایک مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔(بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300)

مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔

گفت فرعونے اناالحق گشت پست

گفت منصورے اناالحق گشت مست

لعنة اللہ ایں انارا درقفا

رحمة اللہ ایں انارا درقفا

ترجمہ :فرعون نے “انا الحق” کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے “انا الحق” کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔(بحوالہ : مثنوی روم)

خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ سال 725ہجری میں حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا  کہ ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟

آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔(بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی  علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ منصور تبریز سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟

آپ نے جواب دیا کہ ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور منصور نے خود سے نہ کہا۔ بلکہ منصور میں اس مالک نے کہا جسے کہنا شایان ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا "انی انا اللہ" میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ،

تو کیا یہ درخت نے کہا تھا؟نہیں بلکہ اللہ نے کہا تھا۔بعین ایسے ھی منصور جیسے صوفی یونہی اس وقت شجرِ موسی ہوتے ہیں۔(بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93)



حضرت مخدوم شیخ صفی الدین رودولوی علیہ الرحمہ

 

حضرت شیخ صفی رودولوی قدس سرہ اپنے زمانے میں علم و فضل کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتے تھے نسبی لحاظ سے آپ کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ آپ کاسلسلہ نسب امام الائمہ حضرت امام ابوحنیفیہ رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ تمام علوم ظاہر اور صفائے باطنی سے بہرہ ور تھے ۔ علوم ادیبہ اور اصول فقہ پر کامل دسترس رکھتے تھے چنانچہ اس کا ثبوت ان کی بہترین تصانیف سے ملتا ہے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں ایسالائق اور صاحب علوم و فنون شخص میں نے کوئی نہیں دیکھا ۔آپ کا شماروقت کے اکابر علماء میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء مشائخ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور علمی برتری کو تسلیم کرتے تھے آپ  علیہ الرحمہ نے حضرت قدوۃ الکبریٰ  سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  کچھوچھوی قد س سرہ النورانی کا زمانہ پایا ان کی صحبت میں رہے شرف بیعت حاصل کی اور خرقہ و خلافت سے نوازے گئے۔

بیعت کا واقعہ :

لطائف اشرفی اس طرح لکھا ہےکہ شیخ صفی الدین کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے کا سبب یہ ہو اکہ شیخ صفی الدین ایک شب خواب میں دیکھا ۔ ایک بہت ہی باشان و شکوہ شخص اچانک نمودار ہوا اور انہوں نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور بڑی عزت و توقیر کے ساتھ ان کو لاکر بٹھایا اس وقت مولانا کے ہاتھ میں اصول فقہ کی کوئی کتاب تھی تو ان صاحب نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم نے بہت سے اوراق سیاہ کئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ سیا ہ کو سفید میں بدل دو اور صفحات کو انوار دائمی سے روشن کردو۔ ان آنے والے صاحب کی ان باتوں نے ان کے دل پر بہت اثر کیا اور ان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی تب مولانا نے ان بزرگ سے کہا کہ میں نے تو آپ کی ارادت کا دامن پکڑلیا ہے ۔ ازراہ عنایت مجھے سلوک کی راہ پر لگا دیجئے ۔ یہ سن کر ان بزرگ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اپنے قرب کے اسرارسے آگاہ کرنا چاہتا ہے تو حضرت خضر کو حکم فرماتا ہے کہ وہ اس بندے کی رہنمائی کسی ولی اللہ کے طرف کردیں ۔ پس میں تم کو ایک ایسے مرد حق کا پتہ بتاتا ہوں جس کے انوارولایت اور آثارہدایت سے تمام جہان معمور ہے۔

ترجمہ: وہ ذات جہاں معرفت کی بادشاہی ۔ ماہ سے ماہی تک تمام فضا اس کے نور سے پُر ہے ۔ دنیا کے گم کردہ راہوں کا وہ ستگیر ہے اس کی ہر سانس روشن ہے اور اس کی شخصیت بڑی دلپذیر ہے ۔

اس سعادت کا ظہور جلد ہی ہوگا ۔ وہ ولی اللہ چند دونوں میں اس قصبہ میں تشریف لانے والے ہیں خبردر ہوشیار ان کی ملازمت اور خدمت کو غنیمت شمار کرنا اور اس میں ذرہ بھی کوتاہی اور قصور نہ کرنا۔

ترجمہ: صنف اولیا میں بالکل منفرد ہیں اور راستہ وحدت کے مشعل ہیں ۔ چونکہ یہ خزانہ سینہ بسینہ ملا ہے اس کی کنجی ابھی انہی کے پاس ہے۔

اس واقعہ کے چند روز کے بعد حضرت قدوۃ الکبری (سیداشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ) نے قصبہ رودولی پہونچ کر جامع مسجد میں قیام فرمایا ۔ شیخ صفی الدین خواب مذکور کے حکم کے مطابق بہ عجلت تمام حضرت قدوۃ الکبریٰ کی خدمت میں پہونچے ، جیسے ہی حضرت کی نظران پر پڑی تو فرمایا " برادرم صفی! خوش آمدید ! آؤ آؤ۔

مولانا بڑے ادب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوکر بیٹھ گئے حضرت نے فرمایا کہ ہاں جب اللہ تعالیٰ کسی فرد کو اپنے قرب سے سرفرازکرنا چاہتاہے تو اپنے کسی دوست کی طرف اس کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوالعباس خضر( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ تمہاری رہنمائی کریں۔ یہ سنتےہی شیخ صفی کے صفائے عقیدہ اور خلوص میں اور بھی اضافہ ہوا اور اسی وقت وہ حضرت کے مرید ہوگئے۔

حضرت قدوۃ الکبریٰ  سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  کچھوچھوی قد س سرہ النورانی نے خادم کو حکم دیا کہ مصری لاؤ کہ میں بھائی صفی کو سلوک کا شربت پلاؤں ۔ خادم نے مصری بہت تلاش کی لیکن نہیں مل سکی ۔ مجبوراً وہ واپس آگیا اور عرض کیا کہ مصری کا تو کہیں پتہ نہیں ہے ۔ یہ سن کر حضرت قدوۃ الکبریٰ اس جگہ تشریف لے گئے جہاں مصری کو توڑا جاتا تھا ۔ مصری کا ایک ٹکڑا توڑتے وقت کہیں دور جاکر گرا تھا ، حضرت نےوہی ٹکڑا اٹھایا اور اپنے دست مبارک سے ان کو کھلایا اور دعا فرمائی "نورالانوار کا حصول مبارک ہو ۔'' پھر حضرت نے حق تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ تمہاری اولادواحفاد سے علم کی دولت نہ لی جائے۔( لطائف اشرفی لطیفہ 15 صفحہ 631)

پروفیسر اختر راہی اپنی کتاب تذکرہ مصنفین درس نظامی میں لکھتے ہیں :سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنےمرید کے بارے میں فرمایا کرتے تھے بلاد ہند میں علوم و فنون میں درخشندہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔       (تذکرہ مصنفین درس نظامی صفحہ 116)

آپ علیہ الرحمہ نے متعدد علمی کتب تصنیف فرمائیں جو آج درس نظامی کے کورس میں شامل ہیں وہ یہ ہیں:

·      دستورالمبتدی

·      حل الترکیب کافیہ

·      غایۃ التحقیق شرح کافیہ

 (آپ کی تیسری کتاب غایۃ التحقیق جو کافیہ شرح ہے یہ آپ نے بڑی محنت سے لکھی ہےمصطفیٰ بن عبداللہ البشیر حاجی خلیفہ اس کے متعلق لکھتے ہیں: ترجمہ: اور غایۃ التحقیق جو صفی بن نصیر کی کتاب ہے یہ شرح ہے اس کی ابتداء میں حمد بیان کی گئی ہے اور وہ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اس میں اس کا ذکر کیا ہے انہوں نے کہا ہمارے استاد شہاب الدین احمد بن عمر دولت آبادی ہیں لوگوں میں سے بہت سوں نے اسی پر اکتفا کیا ہے یعنی اس کے ظاہری معنی پر غایۃ التحقیق ایک بہترین کتا ب ہے ۔( کشف الظنون جلد 2 صفحہ 1386)

 کشف الظنون کی اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک بے مثال تصنیف ہے ا ن کتب سے ہی علمی عظمت ظاہر ہوتی ہے ان افادیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آج بھی یہ کتابیں درس نظامیہ کے کورس میں شامل ہیں ۔ حضرت شیخ صفی الدین ردولوی نے 13 ذیقعدہ 819 ہجری میں مطابق 2 جنوری کو وصال فرمایا ۔

 

حضرت سیدنا عبد اﷲ شاہ غازی الحسینی و الحسینی رضی اللہ عنہ

 

حضرت عبد اﷲ شاہ غازی 98 ہجری میں حضرت محمد نفس ذکیہ کے گھر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔آپ حسنی وحسینی سادات میں سے ہیں ۔

سلسلہ نسب: آپ کا شجرہ نسب حسنی میں ابو محمد عبد اﷲ الاشتررضی اللہ عنہ  بن سید محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ  بن سید محمد عبد اﷲ رضی اللہ عنہ  بن سیدنا امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ  بن سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ  بن سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم اورماں کی جانب حسینی ہے۔ حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا نکاح حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ  سے ہوا تھا ۔آپ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ  سے عمر میں تین سال بڑے اور اما م جعفر صادق رضی اللہ عنہ  سے عمر میں پندرہ سال چھوٹے تھے ،تلوار چلانے اور اونٹ سواری میں آپ کا ثانی نہیں تھا اس لئے آپ کو الاشتر یعنی اچھا اونٹ چلانے والا جو کہ آپ کے نام کاجز بن گیا ۔

تعلیم و تربیت: آپ رضی اللہ عنہ  کی تعلیم وتربیت آپ رضی اللہ عنہ  کے والد کے زیر سایہ ہوئی آپ رضی اللہ عنہ  علم حدیث میں مہارت رکھتے تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ  کا محدثین میں بھی شمار کیا گیا۔ آپ ’’میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں ‘‘کے خانوادے کے روشن چراغ تھے آپ رضی اللہ عنہ  میں علم کے جو ہر موجو د تھے آپ رضی اللہ عنہ  علم کی تابانیوں سے عرش تا فرش بقعہ نو ر تھے۔ آپ کا تابعی ہونا بھی ممکنات میں سے ہے آپ کے زمانے میں کئی صحابہ کرام روئے زمین پر موجود اپنے علم کے نور بکھیر رہے تھے ۔

آپ رضی اللہ عنہ  کی پیدائش کا زمانہ بنو امیہ کی حکومت کا آخری دور تھا بنو امیہ کی ٩٢ سالہ حکومت زوال پذیر تھی ٩٢ سالہ دور حکومت سادات پرظلم وجبراوربربریت کا سخت دور تھا اموی حکمراں اہل بیت اطہا ر کو اپنی حکمرانی کیلئے ہمیشہ خطرہ سمجھتے تھے ۔ ہزاروں سادات کرام شہید کیے گئے ، ہزاروں جلا وطن، ہزاروں نے اپنے اعلیٰ نسب کو چھپا کر گم نامی کی زندگی گذاری الغرض بنو امیہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ١٣٢ ہجری میں عبد اﷲ بن محمد سفاح پہلا عباسی حکمراں بنا بغداد عباسیوں کا دارالسلطنت بنا۔ عبد اﷲ بن محمد سفاح کے انتقال کے بعد اس کا بھائی ابو جعفر عبد اﷲ، المعروف ابو جعفر منصور مسند اقتدار پر بیٹھا منصور نے اپنی حکومت جمانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ مظالم کیے جو تاریخ کے خونی اوراق میں کسی سے کم نہیں منصور نے خصوصیت کے ساتھ سادا ت کرام  پرجومظالم ڈھائے وہ سلاطین عباسیہ کی پیشانی کا بہت بڑا بدنما داغ ہیں ۔ ١٣٨ ھ میں حضرت عبداﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کے والد حضرت محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ  نے نظامِ رسالت و خلافتِ راشدہ کی بحالی کیلئے تحریک کا آغازکیا ،جسے تاریخ میں علوی تحریک کے نام سے جانا جاتاہے حضرت محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ  تقویٰ و پرہیز گاری کے لحاظ سے نہایت ممتاز بزرگ شمار ہوتے تھے ۔ حجازمقد س وعراق میں ہزاروں عقیدت مند اِن کی آواز پر لبیک کیے ہوئے تھے حضرت امام مالک رحمۃ ُاﷲعلیہ نے آپ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا ۔ 14 رمضان المبارک 145 ھ میں مدینہ منورہ کے شمال میں جبل سلع کے قریب عباسی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ  بہت شجا ع فنِ حرب کے ماہر قوی و طاقتور تھے ، ایک بڑی فوج سے مقابلہ کیا حضرت محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے عبد اﷲ الاشتر کو سندھ اور بھائی حضرت سید ابراہیم رضی اللہ عنہ  کو بصرہ کی جانب روانہ کردیا تھا۔ بصرہ میں سید ابراہیم کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے بیعت کی۔ بصرہ میں قیام کے دوران سید ابراہیم رضی اللہ عنہ  نے بڑی قوت حاصل کرلی آپ بصرہ سے کوفہ منتقل ہوگئے ، کوفہ میں ایک لاکھ افراد آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے بڑے بڑے علماء وفقہا نے ان کا ساتھ دیا بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رحمۃ ُاﷲعلیہ نے بھی ان کی حمایت و مالی مدد کی جنگ میں بعض مجبو ریوں کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے جس کا امام اعظم علیہ الرحمہ  کو آخری وقت تک افسوس رہا ۔ حضرت سید ابراہیم رضی اللہ عنہ  کو بھی منصور کے مقابلے میں شکست ہوئی او رسید ابراہیم شہید کردیئے گئے منصور نے جنگ سے فارغ ہوکر ان لوگوں کی خبر لی جنہوں نے ان کے خلاف خروج میں کسی بھی طرح کا تعاون کیا تھا ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا ۔کئی افراد کوقتل اور کئی کو قید وبند کی سزائیں اور کئی کوکوڑے مارے جن میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بھی شامل تھے ۔بعد ازاں ابو جعفر منصور نے امام اعظم علیہ الرحمہ  کو قید میں زہر دے کر شہید کروا دیا ۔حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کوفہ سے ہوتے ہوئے سندھ میں ایک تاجرکی حیثیت سے پہنچ چکے تھے ۔اُس وقت سندھ میں گورنرعمربن حفص تھا جو سادات سے بڑی عقیدت رکھتا تھا ۔ اگرچہ آپ رضی اللہ عنہ  کے والد نے آپکو خلافت علوی کے نقیب کے طور پر سندھ بھیجا تھا مگر آپ نے اپنی زیادہ توجہ تبلیغ اسلام کی جانب مرکوزرکھی مگرایک دن موقع پاکر آپ کے ایک ساتھی نے گورنرسندھ عمر بن حفص کوسادات کی حکومت کے قیام میں مدد کی دعوت دی جسے گورنر نے فوراً قبول کرلیا ،کچھ دنوں بعد بغداد سے ایک تاجر بحری جہازکے ذریعے سندھ پہنچا جو اپنے ہمراہ گورنر کی بیوی کا خط گورنر کیلئے لایا تھا ۔جس میں اُس کی بیوی نے لکھا کہ سید محمد نفس ذک رضی اللہ عنہ  یہ اور اُن کے بھائی سید ابراہیم رضی اللہ عنہ  عباسیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہے گورنروہ خط حضرت عبد اﷲ شاہ الاشتر رضی اللہ عنہ  کے پاس لے کر گیا اور اُن سے ان کے والد اور چچا کی شہادت پر تعزیت وافسوس کا اظہا ر کیا خط وحالات سن کر آپ رضی اللہ عنہ  غمگین ہوئے تو اس موقع پر عمر بن حفص نے آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ رنجیدہ نہ ہوں میں آپ کو یہاں کے ایک ہندو راجہ کے پاس بھیج دیتا ہوجو اگرچہ اپنے ہندو نظریہ پر قائم ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی آل کا بے حد احترام کرتا ہے ۔اور وہ آپ رضی اللہ عنہ  کوبڑے احترام سے رکھے گا اور وہ خو د مختار ہے ۔اس لیے حکمراں اُسے کسی بات پر مجبور نہیں کریں گے ، الغرض گورنرسندھ کی مدد سے ساحلی ریاست (ممکنہ طور پر ساکروندی کے قریب )جانے کا فیصلہ کیا راجہ نے آپ رضی اللہ عنہ  کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت واحترام کے ساتھ پیش آیا اورآپ رضی اللہ عنہ  کے مشن میں شریک سفر ہوگیا ۔تقریبا ًچار سال آپ راجہ کے مہمان رہے راجا آپ کے حسن واخلا ق و کردار سے متاثر ہوکر آپ رضی اللہ عنہ  کانیاز مند ہوگیا اور اپنی بیٹی آپ کے عقد میں دے دی جس سے ایک بیٹا پیدا ہواجس کا نام محمد ابوالحسن رضی اللہ عنہ  رکھا ۔یہا ں تقریبا ًچار سوافراد مشرف بہ اسلام ہوئے ۔آپ رضی اللہ عنہ  نے اہل سندھ کے اندر دین متین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ انکے معاشی اور معاشرتی حقوق اور سماجی انصاف کیلئے بھی شعور اجاگر کیا ۔

151ہجری میں ابو جعفر منصور کومعلوم ہواکہ عبداﷲ شاہ الاشتر رضی اللہ عنہ  سندھ میں مقیم ہیں جس پر منصور کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی ۔وہ حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کو سندھ میں عباسی حکومت کیلئے خطرہ محسوس کررہا تھا ، اُس نے گورنرعمر بن حفص سے جواب طلبی کی اور ُاسے گورنرسندھ سے معزول کرکے افریقہ کا گورنر بنا کر افریقہ بھیج دیا اور ہشام بن عمروتغلبی کوسندھ کا نیا گورنر بنا کر خصوصی ہدایات کیساتھ بھیجا کہ عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کوگرفتار کرواور راجہ کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ ہوتو راجہ کو قتل کردیا جائے مگر ہشام بن عمرو جو خود بھی سادات کا احترام کرتا اور اُن سے دلی عقیدت رکھتا تھا اور پھر عبداﷲ شاہ الاشتر رضی اللہ عنہ  کی سند ھ میں غیر معمولی شہرت ومقبولیت کی وجہ سے نئے گورنرہشام بن عمرو انہیں گرفتار کرنے میں ترد کاشکار رہا ۔مختلف حیلوں اور بہانوں سے عبداﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کی گرفتاری سے متعلق ابو جعفر منصور کو ٹالتا رہا انہی دنوں میں سندھ کے ایک اور علاقے میں بغاوت ہوئی جوکہ عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کے قیام کے قریب کا علاقہ تھا گورنرہشام بن عمرو نے اپنے بھائی سفیع بن عمرکو اُس بغاوت کو کچلنے کیلئے بھیجا عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  بمعہ مریدوں کے سیروشکار پرنکلے ہوئے تھے سفیع بن عمرو لشکریوں کے ہمراہ اس علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا دور سے عبداﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کی سواریوں سے اُٹھنے والی گرد سے اس کے دل میں خوف پیدا ہواکہ دشمن کا لشکر آرہا ہے ، سپاہیوں کو حکم دیا کہ لڑائی کیلئے تیار ہوجاؤ جب حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  قافلے کے قریب آئے تو لشکریوں نے آپ کو پہچان لیا اور سفیع کوبتایا کہ یہ تو حضرت عبد اﷲ شاہ غازی الاشتر ہے۔ اہل بیت کے خاندان سے ہے سابقہ گورنر عمر بن حفص نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور موجودہ گورنرہشام بن عمرو بھی ان کے عقیدت مندوں میں سے ہے اور یہاں شکار کی غرض سے آتے رہتے ہیں مگر سفیع نے اپنے لوگوں کی باتوں پردھیان نہیں دیا اُس نے حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  سے گرفتاری دینے یا جنگ کیلئے پیغام دیا آپ جنگ کیلئے تیار نہ تھے سفیع جو اہل بیت کے شہزادوں کی تلواربازی کواچھی طرح جانتا تھا ، سفیع نے اپنے لشکر کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ  پرحملہ کردیا،آپ اپنے نوساتھیوں کے ہمراہ تھے دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے آپ نے بڑی جواں مردی کے ساتھ ایک بڑے لشکر کامقابلہ کیا، باوجو د اس کے کہ مقابل ایک فوجی لشکر تھا ،مگر آپ کے مختصر لشکر کے سامنے آنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا مقابل لشکر نے ایک ساتھ آپ پر حملہ کیا آپ زخمی ہوئے شاہی لشکر کے لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے کہ ایک ظالم نے پیچھے سے تلوار کاوار کرکے آپ کو شہید کردیا۔"اناﷲواناالیہ راجعون"

قرب وجوار کے لوگوں کوجب آپ کی شہادت کے واقعہ کا علم ہوا تو بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے ادھر سفیع نے اپنے بھائی گورنر ہشام بن عمروکواس کی اطلاع دی گورنر کچھ بول نہیں سکھا کیونکہ یہ عباسی حکمراں ابو جعفر منصور کے حکم کی بجا آوری تھی اس نے اس کی اطلاع بغداد میں ابو جعفر منصور کودی ۔ادھر آپ کے مریدوں نے آپ کے جسد مبارک کو چھپا کر دور ایک اونچی پہاڑی پر لے گئے اور اسی پہاڑی پر آپ کو سپر دخاک کیا گیا ۔ یہ پہاڑی کراچی کے کلفٹن کی پہاڑی ہے اس وقت یہ ایک مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی کئی کئی میل کوئی آبادی نہیں تھی بحری آمد و رفت بھی اُس وقت صرف دیبل موجو دہ بن قاسم پورٹ پر ہوا کرتی تھی جو اس وقت بھی کلفٹن سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کا سر مبارک کو تن سے جد ا کرکے بغداد ابو جعفر منصور کے دربار میں بھیجا گیا۔ پھربغداد سے مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد ابو جعفر منصور کو یہ خدشہ تھا کہ لوگ آپ کے صاحبزادے محمد ابو الحسن رضی اللہ عنہ  کو آپ کا جا نشین نہ بنالیں جو آپ کے سسر راجہ صاحب کے پاس اپنی والدہ صاحبہ کے ہمراہ مقیم تھا ہشا م بن عمر و نے 151ہجری میں ہی راجہ صاحب کی ریاست پر حملہ کردیا خونریز معرکہ آرائی میں راجہ کوقتل اور ریاست پر قبضہ کرلیا گیا آپ کی اہلیہ محترمہ اور بیٹے کوپہلے بغداد پھر مدینہ منورہ بھیجوادیا گیا ۔حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کا مزار کئی سوسال تک جسے مریدوں نے درختوں کی لکڑیوں و پتوں سے بنا یا ہوا تھا ۔ مریدین آپ کی قبر کے قریب ہی رہتے کہ کہیں عباسی (سرکاری) اہلکا ر جسم اطہر کو قبر سے نکال کر بغداد نہ لے جائیں یا نامعلوم مقام پر منتقل نہ کردیں۔ مریدوں کو سب سے زیادہ دقت یہ پیش آتی کہ وہاں پینے کا میٹھا پانی میسر نہیں تھا سمندری زمین پر پہاڑی جہاں میٹھے پانی کا ہونا ناممکن تھا ۔ مریدوں کی دعا سے حضرت عبد اﷲ شاہ غازی رضی اللہ عنہ  کے صدقے پہاڑی کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوا جو آج بھی جاری وساری ہے ۔یہ عبد اﷲ شاہ غازی کی کرامت ہے۔

اہل بیت رسول آل ابراہیم واسماعیل علیہ السلام ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے سے عرب کے ریگستان میں زم زم کا چشمہ ابل آیا تھا جو آج بھی ہے یہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں، جو چاہیں رب سے منوالیں اور رب کی رضا پر راضی رہیں۔ چاہے کتنی بڑی آزمائش کیوں نہ آجائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ  کا عرس مبارک ہر سال ماہ ذوالحجہ کی 20 ، 21 ، 22 تاریخ کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ آپ کی خدمات دینیہ کے پیش نظر اہل سندھ او ر دنیا بھر سے لو گ اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے آپ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر شاندار ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں ۔