ایران
کے شہر طور میں پیدا ہوئے۔ والد کپڑا بناتے تھے، جن کی وجہ سے نسبت حلاج پڑ گئی۔
بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ بچپن ہی سے آیات کے باطنی معانی تلاش کرنے
کا شوق تھا۔
897عیسوی میں دوسرا حج کرنے کے بعد بحری جہاز کے ذریعے
ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ہندوستان میں انھوں نے ملتان اور منصورہ کا سفر کیا۔
بغداد واپسی پر آپ پے جادو، افسوں طرازی اور جنات سے رابطے کے الزامات لگے۔ گلیوں
بازاروں میں والہانہ انداز میں اشعار پڑھتے اور خدا سے عشق کا اظہار کرتے۔ خود
کھانا کھانے کی بجائے اپنے سیاہ رنگ کا کتے کو کھلایا کرتے تھے، جس کو وہ اپنا نفس
کہا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک دن صوفی بزرگ شبلی کے دروازے پر دستک دی۔ جب شبلی نے
پوچھا کون ہے، تو جواب میں یہ مشہور فقرہ کہا "اناالحق"۔
913 عیسوی
میں گرفتار کر لیا گیا اور نو برس تک نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران کتاب
الطواسین مکمل کی۔ آخر بارسوخ وزیر حامد العباس کی ایما پر مقدمہ چلایا گیا اور
قاضی ابوعمر ابن یوسف نے حکم نامہ جاری کر دیا گیا کہ تمہارا خون بہانا جائز ہے۔
25 مارچ 922 عیسوی کی رات
کو قید خانے میں ابنِ خفیف آ کر ملے اور پوچھا "عشق کیا ہے؟" حلّاج نے
جواب دیا "کل خود دیکھ لینا"۔
26 مارچ 922 عیسوی میں تذکرۃ
الاولیاء میں مرقوم ہے کہ جس وقت حضرت حسین بن منصور حلاج کی سنگساری شروع ہوئی تو
آپ کی زبان پر یہ قلمات تھے کہ" یکتا کی دوستی بھی یکتا کردیتی ہے"۔حلاج
کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز
شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔‘‘ ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ
’’حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے اور ان کا چہرہ خون
سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو تو کہنے لگے
"میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زرد پڑ گیا ہو گا میں نے
اپنے چہرے کو سُرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے
پیلا پڑ گیا ہے۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہرہ تو سُرخ کر لیا مگر اپنی
کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا۔ جواب دیا کہ وضو کیلئے۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے
جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے۔ جب منصور کے ہاتھ، پاؤں، بازو کاٹے جا چکے تھے
اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں اور جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا
تو منصور نے کہا "ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں" پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا
کے بولے "یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں
محروم نہ رکھنا۔ میں تیرے دیدار کیلئے آ رہا ہوں"۔ اب جلاد نے حامد کے کہنے
پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کئے ’’واجد کیلئے اتنا کافی
ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہو جائے۔ میں تیرے دیدار کو آ رہا ہوں۔‘‘ حلاج کا کٹا ہوا
سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کر دیا گیا اور پھر آگ لگا دی خاکستر کو
ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔
علامہ
حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں ’’ جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں
نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ "جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی
چڑھنا شروع ہو جائے گا اور قریب ہو گا کہ پانی بغداد کو غرق کر دے جب تم یہ منظر
دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہو جائے۔ جب انہیں پھانسی دی
گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آ گئی حتی کہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ بغداد غرق
ہو جائے گا تو خلیفہ نے کہا "کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں
کچھ کہا تھا۔؟" حاجب نے کہا ہاں اس نے اس طرح کہا تھا۔ تب اس نے حکم دیا جیسا
اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی۔ پانی کی سطح پر
وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللّٰہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہو
گیا۔
کہتے
ہیں کہ موت سے پہلے منصور حلاج نے کہا ’’اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ
دکھا دیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز
چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا۔‘‘
حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ جب دار پہ چڑھائے گے تو
ان کا آخری کلام یہ تھا کہ" حب الواحد افراد الواحدلہ "محب کے لیے یہ کتنا
خوشی کا مقام ہے کہ اپنی ہستی کو راہِ محبت میں فنا کر دے -اور نفس کا اختیار
محبوب کے پانے میں صرف کرکے خود کو فنا کر دے ۔(کشف المحجوب صفحہ
نمبر 466)
آپ کے متعلق عجیب و غریب قسم کے اقوال منقول ہیں۔ لیکن آپ بہت ہی
نرالی شان کے بزرگ اور اپنی طرز کے یگانہ روزگار تھے۔ حضرت منصور ہمہ اوقات عبادت
میں مشغول رہا کرتے تھے اور میدان توحید و معرفت میں دوسرے اہل خیر کی طرح آپ بھی
شریعت و سنت کے متبعین میں سے تھے۔ آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تستر تشریف لے گے اور
وہاں دو سال تک حضرت عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ کی صبحت سے فیض یاب ہونے کے
بعد بصرہ چلے گے۔ پھر وہاں سے دوحرقہ پہنچے جہاں حضرت عمرو بن عثمان مکی
رحمۃ اللہ علیہ سے صبحت سے فیضیاب ہو کر حضرت یعقوب اقطع کی صاحبزادی سے نکاح کر
لیا لیکن حضرت عمرو بن عثان مکی کی ناراضی کے باعث حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغداد پہنچ گے۔
اور وہاں حضرت جنید نے آپ کو خلوت و سکوت کی تعلیم سے مرصع کیا۔ پھر وہاں کچھ عرصہ
قیام کے بعد حجاز تشریف لے گے اور ایک سال قیام کرنے کے بعد جماعت صوفیا کے ہمراہ
پھر بغداد آ گے وہاں پر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ سے نہ معلوم کس قسم کا سوال
کیا جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ تو بہت جلد لکڑی کا سر سرخ کرے گا یعنی
سولی چڑھا دیا جائے گا۔ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ جب مجھے سولی دی
جاے گی تو آپ اہل ظاہر کا لباس اختیار کر لیں گے۔
چنانچہ بیان کیا گیا ہے جس
وقت علما نے متفقہ طور پر حسین منصور کو قابل گردن زدنی ہونے کا فتویٰ دیا تو
خلیفہ وقت نے کہا حضرت جنید بغدادی جب تک
فتویٰ پر دستخط نہ کریں گے منصور کو پھانسی نہیں دے سکتا اور جب یہ اطلاع حضرت
جنید رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچی تو آپ نے مدرسہ جا کر پہلے علما ظاہر کا لباس زیب تن
کیا اس کے بعد یہ فتویٰ دیا کہ ہم ظاہر کے اعتبار سے منصور کو سولی پر
چڑھانے کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت جنید
بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت منصور رحمتہ الله علیہ کے کسی مسلہ کا جواب
نہیں دیا تو وہ حضرت جنید سے ملاقات کیے بغیر خفا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ تستر
چلے گے اور ایک سال تک وہیں مقیم رہے اور وہاں کے لوگ آپ کے بے حد معتقد ہو گے۔
لیکن آپ اپنی فطرت کے مطابق اہل ظاہر کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے جس کی وجہ سے
لوگوں میں آپ کے خلاف نفرت و حسد کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ مختلف ممالک میں مقیم رہ کر
آخر میں فارس پہنچے اور اہل فارس کو بلند پایہ تصانیف پیش کی اور اپنے وعظ و
نصیحت میں ایسے رموز نہاں کا انکشاف کیا کہ لوگوں نے آپ کو حلاج الاسرار کے خطاب
سے نواز دیا۔ پھر بصرہ پہنچ کر دوبارہ صوفیا کا لباس اختیار کر کے مکہ معظمہ کا عزم کیا اور راستے میں بے شمار صوفیا سے ملاقاتیں کرتے
رہے۔ مکہ معظمہ سے واپسی کے بعد ایک سال بصرہ میں قیام
کیا اور اہواز ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے اور وہاں سے خراسان و
ماوراءالنہر ہوتے ہوئے چین پہنچ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جن ممالک میں
پہنچے وہاں کے لوگوں نے آپ کے اوصاف کے مطابق خطابات سے نوازا۔ گھوم پھر کر آپ مکہ معظمہ پہنچ گے۔ اور دو سال قیام کے بعد جب واپسی ہوئی تو آپ میں اس
درجہ تغیر پیدا ہو گیا اور آپ کا کلام لوگوں کی فہم سے باہر ہو گیا۔ اور جن ممالک
میں آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے جاتے وہاں کے لوگ آپ کو نکال دیتے۔ جس کی وجہ سے
آپ نے ایسی ایسی اذیتیں برداشت کیں کے کسی دوسرے صوفی کو ایسی تکالیف کا سامنا
کرنا نہیں پڑا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے اناالحق کا غیر شرعی جملہ نکل گیا
لیکن آپ کو کافر کہنے میں اس لیے تردد ہے کہ آپ کا قول حقیقت میں خدا کا قول تھا
اور حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ
علیہ کی رائے ہے کہ جو مشائخ آپ کی بزرگی کے قائل نہیں ہیں اُن کے اقوال
صوفیا کی شان کے مطابق نہیں برہنائے حسد انھوں نے آپ کو موردالزام گردانا ہے اس
لیے اُن مشائخ کے اقوال کو قابلِ قبول کہنا دانشمندی کے خلاف ہے۔
اکثر صوفیا نے آپ کی بزرگی
سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ تصوف سے قطعاً ناواقف تھے۔ ہمیشہ شوق و سوز کے
عالم میں مستغرق رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف مغلق و مشکل عبارات کا
مجموعہ تھیں۔ حتٰی کہ بعض لوگوں نے تو کافر و ساحر تک کا خطاب دے دیا اور بعض کاحیال
ہے کہ آپ اہل حلول میں سے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ کا تکیہ اتحاد پر تھا۔
لیکن حضرت مصنف حضرت شیخ
فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توحید کا معمولی سا واقف بھی
آپ کو حلول و اتحاد کا علمبردار نہیں کہہ سکتا بلکہ اس قسم کا اعتراض کرنے والا
خود ناواقف توحید ہے۔ اور اگر ان چیزوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے
ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔
چنانچہ بغداد میں ایک جماعت
نے حلول اتحاد کے چکر میں گمراہ ہو کر خود کو حلاجی کہنے سے بھی گریز نہیں کیا
حالانکہ انھوں نے صحیح معنوں میں آپ کے کلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مگر
حقیقت یہ ہے کہ اس زمرے میں تقلید شرط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس مرتبہ
پر فائز فرما دے۔ مصنف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ درخت سے انی
انااللہ کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی جملہ آپ کی زبان سے نکل گیا
تو خلاف شرع بتاتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح حضرت عمرکی
زبان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اسی طرح آپ کی زبان سے بھی کلام کیا اور یہی جواب
حلول و اتحاد کے واہیات تصورات کو بھی دور کر سکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ خفیف رحمۃ
اللہ علیہ کے قول کے مطابق حسین بن منصور عالم ربانی ہوئے ہیں اور حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرما دیا کہ مجھ میں اور
حسین بن منصور میں صرف اتنا سا فرق ہے کہ اُن کو لوگوں نے دانشور سمجھ کر ہلاک کر
دیا اور مجھ کو دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ بہرحال انہی اقوال کی مطابقت میں
حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار فرماتے ہیں کہ اگر حسین بن منصور حقیقت میں مطعون و ملعون
ہوتے تو پھر یہ دونوں عظیم بزرگ ان کی شان میں اتنے بہتر الفاظ کیسے استعمال کر
سکتے تھے۔ لہذا ان دونوں بزرگوں کے اقوال حضرت حسین بن منصور کے صوفی ہونے کے لیے
بہت کافی ہیں
عشق اور سولی:
جس وقت آپ کو سولی دی جانے والی تھی تو ایک لاکھ
افراد کا وہاں اجتماع تھا۔ اور آپ ہر سمت دیکھ کر حق حق اور اناالحق کہہ رہے تھے۔ اس وقت کسی اہل نے پوچھا عشق کس
کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ آج، کل اور پرسوں میں تجھے معلوم ہو جاے گا۔ چنانچہ اسی دن
آپ کو پھانسی دی گئی۔ اگلے دن آپ کی نعش کو جلایا گیا اور تیسرے دن آپ کی راکھ کو دریائے دجلہ میں ڈال دیا گیا۔ گویا آپ کے قول کے مطابق عشق کا
صحیح مفہوم یہ تھا۔
حلاج کہنے کی وجہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلاج اس لیے کہا جاتا ہے کہ
ایک مرتبہ آپ روئی کے ذخیرے پر سے گذرے اور عجیب انداز میں کچھ اشارہ کیا جس کی
وجہ سے وہ روئی خود بخود دھنک گئی۔
دوستی کا مفہوم
ہر رات آپ رحمۃ اللہ علیہ چار سو رکعتیں نماز ادا
کیا کرتے تھے اور اس فعل کو اپنے اوپر فرض قرار دے لیا تھا۔ اور جب لوگوں نے آپ سے
سوال کیا کہ ایسے بلند مراتب کے بعد آپ اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے جواب دیا کہ دوستی کا مفہوم یہی ہے کہ مصائب پر صبر کیا جائے اور جو اُس کی راہ میں فنا ہو جاتے ہیں
تو راحت و غم کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔
آپ
کی عاجزی:
میدان عرفات میں آپ نے کہا کہ اے
اللہ! تو سرگرداں لوگوں کو راہ دکھانے والا ہے اور اگر میں واقعی کافر ہوں تو میرے
کفر میں اضافہ فرما دے۔ پھر جب سب لوگ رخصت ہو گے تو آپ نے دعا کی کہ اے خدا! میں
تجھ کو واحد تصور کرتے ہوئے تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا اور تیرے انعامات پر
اپنے عجز کی وجہ سے شکر بھی ادا نہیں کر سکتا لہذا تو میرے بجائے اپنا شکرخود ہی
ادا کر لے اس لیے کہ بندوں سے تیرا شکر کسی طرح بھی ادا نہیں ہو سکتا۔
صبر
کا مفہوم:
فرمایا
کہ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا دیا جائے جب بھی
منہ سے اف نہ نکلے، چنانچہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سولی پر چڑھایا گیا تو اف تک
نہیں کی۔
آپ
کی کرامات:
حضرت
رشید خرد سمرقندی بیان کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بہت سے لوگ سفر حج میں آپ کے
ہمراہ تھے اور کئی روز سے کوئی غذا نصیب نہیں ہوئی تھی چنانچہ جب آپ سے سب نے بھوک
کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ طبیعت سری کھانے کو چاہتی ہے تو آپ نے سب کی صف بندی
کر کے بیٹھا دیا اور جب اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ لے جاتے تو ایک بھنی ہوئی سری اور
دو گرم روٹیاں نکال نکال کر سب کے سامنے رکھتے جاتے۔ اس طرح اُن چار سو افراد نے
جو آپ کے ہمراہ تھے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا۔
اور
آگے چل کر۔لوگوں نے کہا
ہماری
طبعیت خرموں کو چاہتی ہے چنانچہ آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا مجھے زور زور سے ہلاو اور
جب لوگوں نے یہ عمل کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جسم سے اس قدر خرمے جھڑے کے لوگ
سیر ہو گے۔
مریدوں
کی جماعت نے کسی جنگل میں آپ سے انجیر کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے جیسے ہی فضا
میں ہاتھ بلند کیا تو انجیر سے لبریز ایک طباق آپ کے ہاتھ میں آ گیا اور آپ نے
پوری جماعت کو کھلا دیا۔
اسی
طرح جب مریدوں نے حلوے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ان کو حلوہ پیش کر دیا تو لوگوں
نے جب عرض کیا کہ ایسا حلوہ تو بغداد کے بازاروں میں ملتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ
میرے لیے بغداد کا بازار اور جنگل مساوی ہیں۔ سنا گیا ہے اسی دن بغداد کے باب
الطاقہ کے بازار میں کسی حلوائی کا حلوے سے بھرا ہوا طباق گم ہو گیا اور جب آپ کی
جماعت بغداد پہنچی تو حلوائی نے اپنا طباق شناخت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھارے
پاس سے کہاں سے آیا؟ اور جب لوگوں نے اسے پورا واقعہ بتایا تو وہ حلوائی آپ رحمۃ
اللہ علیہ کی کرامت سے متاثر ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔
ارشادات:
فرمایا
کہ خدا کی یاد میں دنیا و آخرت کو فراموش کر دینے والا ہی واصل بالله ہوتا ہے۔
فرمایا
خدا کے سوا ہر شے سے مستغنی ہو کر عبادت کرنا فقر ہے۔
فرمایا
صوفی اپنی ذات میں اس لیے واحد ہوتا ہے کہ نہ تو کسی کو جانتا ہے اور نہ کوئی اس
سے واقف ہوتا ہے۔
فرمایا
نورِ ایمانی کے ذریعے خدا کی جستجو کرو۔
فرمایا
کہ حکمت ایک تیر ہے اور تیر انداز خدا تعالیٰ ہے اور مخلوق اس کا نشانہ۔
فرمایا
مومن وہ ہے جو امارات کو معیوب تصور کرتے ہوئے قناعت اختیار کرئے۔
فرمایا
کہ سب سے بڑا اخلاق جفائے مخلوق پر صبر کرنا اور اللہ کو پہچانا ہے۔
فرمایا
کہ عمل کو کدورت سے پاک رکھنے کا نام اخلاق ہے۔
فرمایا
کہ بندوں کی بصیرت، عارفوں کی معرفت، علما کا نور اور گذشتہ نجات پانے والوں کا
راستہ ازل سے ابد تک ایک ہی ذات سے وابستہ ہے۔
فرمایا
کہ میدان رضا میں یقن کی حیثیت ایک اژدھے جیسی ہے جس طرح جنگل میں ذرے کی حیثیت
ہوتی ہے اس طرح پورا عامل اس اژدھے کے منہ میں رہتا ہے۔
فرمایا
بندگی کی منازل طے کرنے والا آزاد ہو جاتا ہے۔
فرمایا
کہ مرید سایہ توبہ اور مراد سایہ عصمت میں رہتا ہے اور مرید وہ ہے جس کے مکشوفات
پر اجتہاد کا غلبہ ہو۔ اور مراد وہ ہے جس کے مکشوفات اجتہاد پر سبقت لے جایں۔
فرمایا
کہ انبیا جیسا زہد آج تک کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔
فرمایا
کہ ذاتِ خداوندی جس پر منکشف ہونا چاہتی ہے تو ادنیٰ سی شے کو قبول کر کے منکشف ہو
جاتی ہے ورنہ اعمال صالحہ کو بھی قبول نہیں کرتی۔
فرمایا
کہ جب تک مصائب پر صبر نہ کیا جاے عنائت حاصل نہیں ہوتی۔
حضرت
حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی صداء "اناالحق"اور اولیاء کرام کے
تأثرات
حضرت
علی ہجویری المعروف داتا علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں کہ انہیں میں سے ایک مستغرق معنیٰ
ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور
مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔(بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300)
مولانا
جلال الدین رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
گفت
فرعونے اناالحق گشت پست
گفت
منصورے اناالحق گشت مست
لعنة
اللہ ایں انارا درقفا
رحمة
اللہ ایں انارا درقفا
ترجمہ :فرعون نے “انا الحق”
کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے “انا الحق” کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار
پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی
کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔(بحوالہ : مثنوی
روم)
خواجہ
نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ سال 725ہجری میں حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے
کہ آپ نے فرمایا کہ ذکر مشائخ کا ہو رہا
تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟
آپ
نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں
تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو
جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے
تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔(بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات
نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471)
امام
اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ منصور تبریز
سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور
فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا
وجہ ہے؟
آپ
نے جواب دیا کہ ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور منصور نے خود سے نہ کہا۔ بلکہ
منصور میں اس مالک نے کہا جسے کہنا شایان ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔جیسے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا "انی انا اللہ" میں ہوں رب اللہ
سارے جہاں کا ،
تو
کیا یہ درخت نے کہا تھا؟نہیں بلکہ اللہ نے کہا تھا۔بعین ایسے ھی منصور جیسے صوفی
یونہی اس وقت شجرِ موسی ہوتے ہیں۔”(بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93)