سردار قلندراں حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ

 

ولادت با سعادت

آپ علیہ الرحمہ کا اسم گرامی حضرت سید بابا فخرالدین ہے آپ کا لقب قلندر برحق ہے۔آپ کی ولادت باسعادت ٢٦رمضان المبارک ٥٦٤ھ ١١٧٩ء سیستان ایران میں ہوئئ۔آپ کی ولادت کا سال "لفظ تقدس" سے ظاہر ہوتا ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام حضرت سید حسین علیہ الرحمہ ہے۔اور دادا محترم کانام حضرت سید ابوالقاسم ہے آپ کے والد حاکم سیستان تھے۔

حکومت سیستان

   حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کے والد گرامی حضرت سید حسین جو سیستان کے ایک عالم و فاضل عابد و زاہد اور عادل حکمران تھے۔آپ کے دادا محترم حضرت سید ابوالقاسم تھے جو سید محمد حاکم مدینہ منورہ کے حقیقی چھوٹے بھائی اورسپاہ سالار اعظم تھے۔جب سیستان کے اکاہیر نامی مغرور و جفاکش بادشاہ نے مدینئہ منورہ کے تاجروں سے نازیبا سلوک اور مسلمانوں کے ساتھ جاہلانہ حرکات اور ان کے ساتھ ظلم و ستم کا احوال سنایا اور استدعا کی کہ وہ اکاہیر کی خبر لیں۔لھذا سید محمد حاکم وقت نے اکاہیر کی سرکوبی کے لیے اپنے بھائی سید محمد قاسم کو سیستان روانہ کیا۔جب انہوں نے اکاہیر کو شکست فاش دی تو سید محمد ہی کے ایما پر سید ابوالقاسم سیستان کے حاکم وقت مقرر ہوۓ

 آپ کا نسب شریف

   حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ صحیح النسب نجیب الطرفین سادات کرام سے ہیں۔آپ کے دادامحترم حاکم سیستان حضرت سید ابوالقاسم علیہ الرحمہ کے دو فرزند تھے 1 سید حسین اور 2 سید سعدالدین سید حسین کے فرزند سید فخرالدین و سید مرتضٰی اور سید سعدالدین کے فرزند سید علی تھے سید بابا فخرالدین اور سید علی حقیقی چچازاد بھائی ہونے کےعلاوہ خالہ زاد اور رضاعی بھائی بھی تھے

  تخت حکومت پر جلوہ گری

 حضرت بابا سید فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کو ابتدا ہی سے علوم ظاہری کے ساتھ باطنی علوم کے حصول کی تڑپ تھی آپ نے چھوٹی سے عمر ہی میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا آپ کے والد ماجدحضرت سید حسین  علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں ہی آپ کو اپنا جانشین منتخب کر لیا تھا آپ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد ٢٥ سال کی عمر میں امرا و وزرا اور عوام کے تقاضے سے حکومت سیستان پر جلوہ افروز ہوۓ اور ایک عرصہ نہایت عدل و انصاف کے ساتھ سیستان کی حکومت فرماتے رہے

  ترک حکومت

 جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت سید بابا فخرالدین  قلندر مجرد حسینی سہروری علیہالرحمہ کو باطنی علوم کے تحصیل کی بہت تڑپ تھی۔اور آپ کی طبیعت بھی فطرتًا تارک الدنیا تھی آپ ہمشیہ تجرد کی عزت کیا کرتے تھے اس لیے بہت جلد سیستان کی حکومت ترک کرکے اپنے چھوٹے بھائی حضرت سید مرتضٰی تخت حکومت پر بیٹھا دیا اور ترکستان کی حکومت حضرت سیدعلی کوسونپ دی حضرت جو ان دنوں ترکستان فتح کرکے وہیں مقیم تھے۔آپ نے عین عالم شباب میں حکومت ترک کر فرماکر تجرد کا لبادہ اڑھ لیا۔

 سیستان سے ہندوستان کشمیر میں آمد

 ترک حکومت کے بعد آپ اپنے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ سیستان سے نکل کرصحراؤں بیابانوں اورجنگلوں میں سالہا  سال ریاضات و مجاہدات و مراقبات میں گزارتے ہوۓ حج بیت اللہ اور مدینئہ منورہ کی زیارت اور باطنی فیوض و برکات  حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کشمیر پہنچے اس وقت کشمیر سری نگر کے راجہ سندر راج نے آپ کی روحانی قلندرانہ شان و شوکت جاہ و جلال اور حسن اخلاق سے متاثر ہو کر آپ کا شاندار استقبال کیا

 کشمیر سری نگر میں جبل سلیمانی پر چلہ کشی

 حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ سیستان سے ہندوستان کشمیر تشریف لاۓ۔اور آپ نے سری نگر میں چند دن قیام فرمایا اور جبل سلیمانی پر کشی فرمائی اور لوگوں کی رشد و ہدایت فرماتے رہے

   حضرت سید علی نے ترکستان کی حکومت چھوڑ دی

  حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ سیستان کی حکومت چھوڑ کر سیستان سے نکل چکے تھے۔جب آپ کے بھائی سید علی کو پتہ چلا کہ بابا سید فخرالدین حسینی تخت چھوڑ کر سیستان سے نکل گئے تو وہ بھی ترکستان کی حکومت حضرت سید مرتضٰی کے حوالے کرکے حضرت بابا سید فخرالدین قلندر حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کی تلاش و جستجو میں نکل پڑے اور بہت سی صحرا نوردی سیاحت بادیہ پیمائی کے بعد آپ کی خدمت میں پہنچ گئے۔

دکن میں بابا فخرالدین کو بشارت مصطفٰی ﷺ

  حضرت بابا سید فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی   اپنے ساتھیوں اور اپنے بھائی سید علی کے ساتھ شمالی ہند سے نکل کر دکن مقام کھم مٹ پہنچے اور یہیں آپ کو مرشد کامل کی جستجو ہوئی ادھر حضور ﷺ سے یہ خوشخبری ملی کہ آپ کو مرشد کامل بہت جلد نصیب ہوگا اور اسی طرح حضرت نطہر شاہ ولی کو بھی سرکار دو عالم ﷺ کی بشارت ہوئی کہ سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حیسنی سہروردی کو اپنا مرید بنا لیجیے اس بشارت کےبعدآپ فوری طور پر ترچناپلی آکر اپنے مرشد کی قدم بوسی فرمائی حضرت نطہر شاہ ولی طبل عالم سہروردی علیہ الرحمہ نے آپ کی بڑی قدر کی اور اپنے مریدوں میں داخل کر لیا اور روحانی تعلیم و تربیت کے بعدآپکو خرقئہ خلافت سہروردیہ قلندریہ پہنایا آپ کے بھائی حضرت سید علی بھی حضرت نطہر شاہ ولی بابا طبل عالم سہروردی علیہ الرحمہ کےخادموں میں داخل ہو گئے یہی آپ کی ملاقات حضرت محمد اسماعیل حیدر صفدر اولیا سہروردی علیہ الرحمہ سے ہوئی یہ بھی حضرت نطہر شاہ ولی بابا طبل عالم سہروردی علیہ الرحمہ کےمریدوخلیفہ ہیں آپ کا مزارملباگل ضلع کولار میں ہےحضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کا سلسلئہ طریقت دو طرق سے حضرت خواجہ ابونجیب عبدالقاہر سہروردی علیہ الرحمہ سے ملتا ہے ۔

عرب کا ایک سید تاجر اور آپ کی کرامت:

 جس زمانہ میں حضرت بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی اپنے مرشد کی خدمت میں تھے ان ایام میں عرب کے ایک سید تاجر اپنی نوعمر دختر سیدہ بی بی فاطمہ کے ساتھ مال و اسباب سے بھرپور جہاز لیے تجارت کی غرض سے ہندوستان آ رہے تھے کہ اچانک سمندر میں طوفان آیا اور جہاز سمندر میں گھر کر غرق ہونے لگا تواس  تاجر نے یہ دعاکی کہ یہاں جس بھی ولئ کامل ہووہ میری مدد فرمائیں تو میں اس جہاز کا آدھا حصہ اور میری لڑکی ان بزرگ کی نذر کردوں گا اسی وقت نطہر شاہ ولی نے بابا فخرالدین کو اشارہ کیا تو آپ نے اپنی زور ولایت سے اس کو بچا لیا اس تاجر نے اپنی لڑکی اور جہاز کا آدھا مال ا اسباب حضرت نطہر شاہ ولی کی خدمت میں پیش کیا حضرت نطہر شاہ ولی نے تاجر کی بیٹی فاطمہ کو اپنی نگرانی میں تعلیم و تربیت فرمائی اور پھر اس کی شادی حضرت سید علی علیہ الرحمہ سے کردی اس شادی میں وقت کے اکابر مشائخ فقرا صوفیا و علماۓکرام شامل ہوۓ تھے آج تک آپ کا نسلی اور روحانی سلسلہ جاری ہے۔

 مرشد گرامی کا حکم:

   ایک روز آپ کے مرشد بر حق نے آپ کو ایک مسواک عطا کی اور ارشدا فرمایا جہاں پر یہ مسواک کھل جائے وہاں تمہیں قیام پزیز ہوناہےآپ سفرکرتےہوۓپینوکنڈہ پہنچے اور رات کو مسواک زمین میں لگا دی صبح اٹھ کر دیکھا تو اس مسواک سے ایک خوبصورت درخت بن گیا ( یہ درخت اس مقام پر آج بھی موجود ہے ) اس کے بعد آپ نےپینوکنڈہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کرلی اور ہر ایک  کو اپنا قلندری فیض رسانی فرمانے لگے حضرت بندہ نواز گیسو دراز چشتی علیہ الرحمہ جیسی شخصیت نے بھی آپکی بارگاہ سہروردیہ  قلندریہ سے فیض پایا اور کرم بالائے کرم فرماتے ہوئے آپ نے عالم معاملہ میں حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کو بلند پرواز لقب سے سرفراز فرمایا بلا شبہ آپ نے بعونہ تبارک و تعالیٰ بے شمار گمگشتگان راہ کو صراط مستقیم  پر گامزن فرمایا اور کئ افراد کو قلندری مقام پر پہنچا اور آج بھی آپکے دربار عالیہ سے قلندری فیضان جاری وساری ہے ۔

  مقام قلندری کیا ہے؟  

قلندر بر حق حضرت سیدنا بابا فخرالدین قلندر مجردحسینی سہروردی علیہ الرحمہ قلندریت کے اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائزالمرام ہیں مقام قلندریت بیان کرتے ہوئے ۔ محبوب یزدانی غوث العالم قدوۃ الکبریٰ  حضرت سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی سہروردی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ"قلندر وہ ہے جو خلائق زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو اور شریعت و طریقت کا پابند ہو اور بحر شہود و وجود میں غرق رہتا ہو" قلندر کبھی مجذوب ہوتا ہے اور کبھی سالک جناب ذوقی صاحب اپنی مشہور تصنیف "سردبراں"میں لکھتے ہیں کہ صوفیہ کے ہاں قلندر کا مقام بہت بلند مانا گیا ہے یہ لفظ سریانی زبان میں اللہ تبارک و تعالیٰ ﷻ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہ یعنی قلندر حالات و مقامات و کرامات سے تجاوز کرتا چلا جاتا یے عالم سے مجرد ہوکر اپنے  آپ کو گم کر دیتا یے حضرت سیدنا شاہ نعمت اللہ ولی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں "جب صوفی منتہیٰ اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے تو قلندر ہو جاتا ہے قلندروں کےسردارحضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر چشتی علیہ الرحمہ کس قدر قلندرانہ بات ارشاد فرماتے ہیں۔

"گر بو علی نوائے قلندر نواختے

"صوفی بودے ہر آنکہ بعالم قلندر است"

   ترجمہ : اگر بو علی نوائے قلندر بجاتا تو یہ صوفی ہوتا یوں سمجھیے کہ جو کچھ عالم میں ہے وہ قلندر کا ہے  کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ قلندر کی شخصیت نہ عبارات میں سما سکتی ہے نہ اشارات کے دامن سمٹ سکتی ہے نہ اسے الفاظ کے کوزے میں بند کیا جا سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ قلندر کی بلند پروازیاں دین و دنیا کی حدود و قیود کو توڑ کر آگے نکل جاتی ہیں وہ کوچئہ محبوب میں پہنچنے کے لیے دیر و حرم سے بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔

     "مجرد شد از دین و دنیا قلندر"

  "کہ راہ حقیقت ازیں ہر دو برتر"

    ترجمہ :دین و دنیا سے قلندر مجرد ہے اس لیے کہ راہ حقیقت اس پر ان دونوں سے برتر ہے

  قلندر فانی فی اللہ باقی باللہ قسم کے کامل ولی کا نام ہے مگر افسوس کے آج کل تو جو بھی صوم و صلوة سے عاری  ہو وہ قلندر ہے یہ بھی ایک جہالت اور حماقت ہے اور اصل حقیقت سے بے بہرگی کہ ہر بد مزاج قلندر بننے لگ گیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے لوگوں کو صحیح معنوں میں مقام قلندری سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور شریعت طریقت کا پابند بنائے۔ آمین ثم آمین

 آپ کے خلفائےکرام:

 حضرت سیدنا بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کے یوں تو بہت سے خلفائےکرام ہیں لیکن ان خلفاۓکرام میں زیادہ مشہور و معروف نام آپ کے بھتیجےحضرت سیدنا بابا یوسف قتال حسینی سہروردی رحمہ اللہ کا ہے حضرت سیدی شاہ موسیٰ سہاگ قلندر سہروردی علیہ الرحمہ بھی اسی سلسلہ میں دست بیعت تھے۔

وصال مبارک :

   حضرت بابا فخرالدین مجرد قلندر حسینی سہروردی علیہ الرحمہ نے ١٢ جمادی الآخر ٦٩٤ھ بمطابق ١٢٩٥ء کو اس دارالفنا سے دارالبقا کی سمت ارتحال فرمایا۔آپ سے بے شمار کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں اور آپ کے دست حق پرست پر ہزاروں کافر مشرف بہ اسلام ہوۓ دکن میں آپ کے صدقہ و طفیل اسلام کا بول بالا ہے آج بھی دکن میں تمام مسلمان اور ہندو آپ کی کرامتوں کے قائل ہیں اور ہر سال عرس مبارک کے حسین موقع پر بڑے ہی عقیدت و احترام سے ہزاروں کی تعداد میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کے فیضان ہے پایاں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔

 

 مرقد اقدس :

   حضرت سید بابا فخرالدین قلندر مجرد حسینی سہروردی علیہ الرحمہ کا  مزار پرانوار صدر چوک,پینوکنڈہ,ضلع اننت پور,آندھراپردیش انڈیا میں زیارت گاہ خلائق ہے جہاں وقت سہروردی قلندری فیض و عرفان کا دریا بہتا ہے اور زائرن اس دریائے فیض سے بہرہ یاب ہوتے ہیں ۔ (شہنشاہ سیستان ص ٥ تا ١١ قلندر کی شرعی حیثیت )

حضرت سیدی شاہ موسیٰ سدا سہاگ سہروردی احمدآبادی علیہ الرحمہ

Mazar Sharif 

سلسلئہ سہروردیہ کے قلندری مشائخ کرام میں ایک بڑا نام سیدالمجذوبین حضرت سیدنا شاہ موسی سدا سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ کا ہے آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے جلیل القدر ولی اور صاحب جذب و کمال درویش تھے تصرفات ظاہری اور باطنی میں کمال رکھتے تھے عوام و خواص آپ کے فیوض و برکات سے مالا مال ہیں آپ کا آستانہ مخزن رحمت الہی بھی ہےاور منبع جودِ لا متناہی بھی ہے صدیاں گزر چکی ہیں لیکن آپ کے دربار دُربار سے فیض و عرفان کا چشمہ آج تک جاری ہے اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک جاری رہے گا ۔

بانی سلسلہ :

 آپ سدا سہاگ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے، فقرا کی ایک جماعت زنانہ لباس اور چوڑیاں پہنتی ہے، وہ محفلِ سماع میں رقص کرتے ہیں، ان کا لباس اور وضع قطع اور لب و لہجہ عورتوں کی طرح ہوتا ہے، فقرا کی یہ جماعت سدا سہاگ کے نام سے مشہور ہے بعض کا خیال ہے کہ ہندوستان میں سدا سہاگ سلسلہ آپ سے جاری ہوا۔

اسم گرامی :

آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی موسیٰ ہے۔

پیر و مرشد:

حضرت سیدنا موسی سدا سہاگ سہروردی شہر احمدآباد کے باشندے تھے آپ کے پیر و مرشد کا نام حضرت سیدی سکندر بودلہ بہار قلندر سہروردی ہے آپ کا مزار سندھ کے شہر سہون شریف میں لال شہباز قلندر سہروردی علیہ الرحمہ کے دربار ذی وقار کے قریب ہی واقع ہے حضرت سکندر بدلہ بہار قلندر سہروردی علیہ الرحمہ حضرت لال شہباز قلندر سہروردی علیہ الرحمہ کے بڑے ہی محبوب مرید تھے لال شہباز نے آپ کو سکندر بودلہ کا نام مبارک عطا فرمایا تھا حضرت موسی سدا سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے اکابر مجذوب مشائخ کرام سے تھے آپ کا شجرہ مبارکہ دو طریق سے بانئ سلسلئہ عالیہ سہروردیہ حضرت ابوالنجیب عبدالقاہر ضیاءالدین سہروردی رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے ۔

رہائش گاہ :

 آپ علیہ الرحمہ احمدآباد میں رہتے تھے۔

حضرت محبوبِ الٰہی علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری :

 ایک دفعہ آپ خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مزارِ پرانوار پر حاضر ہوئے، اس وقت وہاں کچھ عورتیں جمع تھیں، ان عورتوں کی کوئی منت پوری ہوئی تھی، اس سلسلہ میں وہ حضرت کے مزارِ پاک بستی نظام الدین، دہلی میں آکر ڈھولک اور باجہ بجا کر گا رہی تھیں اور حضرت محبوبِ الٰہی کو اپنی زبان سے اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اور محبت اور عقیدت کے لہجہ میں خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کر رہی تھیں، آپ جب حضرت محبوبِ الٰہی کے مزارپُرانوار پر حاضر ہوئے تو آپ ان عورتوں کو اس طرح گاتے بجاتے دیکھ کر دل میں ناراض ہوئے، آپ احکامِ شریعت کے سخت پابند تھے، متقی اور پرہیزگار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ احکامِ شریعت کی پابندی اور نفاذ کے حامی تھے، ان عورتوں کو اس حالت میں دیکھ کر آپ نے ان کے اس فعل کو خلافِ شریعت اور خلافتِ اسلام قرار دیا پھر آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ گو ان عورتوں کا وہ فعل خلافِ شرع ہے لیکن ان عورتوں کا حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار پر ایسا ناجائز اور خلاف شرع فعل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ان کو حضرت محبوبِ الٰہی کی اجازت حاصل ہے اور حضرت محبوبِ الٰہی ان کے اس فعل کو پسند فرماتے ہیں، اگر حضرت محبوبِ الٰہی اس فعل کو ناپسند فرماتے تو وہ عورتیں ہرگز مزارِ اقدس پر اس طرح حاضر نہ ہوتیں اور خلافِ شرع فعل ان سے سرزد نہ ہوتا، بہر حال! حاضری دے کر آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار سے چلے آئے، وقت گزرتا رہا اور زمانہ کروٹیں لیتا رہا۔

فریضۂ حج :

 اس واقعہ کے چند سال بعد آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کی غرض سے مکہ معظمہ پہنچے اور حج کے فریضہ سے فارغ ہوکر آپ نے مدینہ منورہ کا قصد کیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ کے روضۂ پاک پر حاضر ہوکر نذرانۂ عجز و نیاز پیش کریں۔

 

خواب اور آواز : آپ نے مدینہ منورہ کا قصد کیا اور روانہ ہونے والے تھے کہ رات کو آپ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ آپ کو مدینہ منورہ جانے سے روکتے ہیں، مولانا روانہ ہوگئے، تھوڑی ہی دور قافلہ چلا تھا کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی شخص مدینہ منورہ جانے سے آپ کو روکتا ہے، آخر آپ نے جب یہ سنا کہ کوئی کہتا ہے کہ اگر تو مدینہ جائے گا تو یاد رکھ کہ تیرا ایمان سلب ہوجائے گا تو آپ بہت پریشان اور مضطرب ہوئے۔

مشورہ :

 آپ کے قافلے میں ایک بزرگ تھے، آپ نے ان سے خواب کا حال اور پھر راستہ میں کسی کے روکنے کا اور آواز سننے کا حال بیان کیا، ان بزرگ نے تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر آپ کو آگاہ کیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ان سے خفا ہیں۔

وجہ ناراضگی :

 حضرت محمد مصطفیٰ کی خفگی کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ سرورِ عالم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ سہاگ نے ہمارا تو کوئی قصور نہیں کیا ہے لیکن ہندوستان میں جو خواجہ نظام الدین اؤلیا میں اور جن کا مزار دہلی میں واقع ہے، وہ کسی وجہ سے ان سے ناراض ہیں اور خفا ہیں، جب محبوبِ الٰہی خفا ہیں تو ہم کیسے اس شخص کو اپنے یہاں آنے دیں جو ہمارے اؤلیا کو رنج پہنچاتا ہے ہم اس شخص کو اپنے یہاں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے، بہتر صورت یہ ہے کہ اگر واقعی وہ شخص ہمارے یہاں آنا چاہتا ہے تو پہلے دہلی جائے اور حضرت محبوبِ الٰہی سے اپنا قصور معاف کرائے اور پھر ہمارے یہاں آنا چاہتا ہے تو پہلے دہلی جائے اور حضرت محبوبِ الٰہی سے اپنا قصور معاف کرائے اور پھر ہمارے یہاں آئے۔ حضرت موسیٰ یہ سن کر سوچ بچار میں پڑ گئے کہ آخر ان سے ایسا کون سا نازیبا فعل سرزد ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت محبوبِ الٰہی ان سے ناراض و خفا ہیں، سوچتے سوچتے آپ کو حضرت کے مزارِ اقدس پر عورتوں کا ناچنا، گانا بجانا، یاد آیا اور جو آپ کے دل میں خطرہ گزرا تھا، وہ بھی آپ کو یاد آیا۔

ہندوستان کو روانگی :

یہ یاد آتے ہی آپ بجائے مدینہ منورہ جانے کے ہندوستان روانہ ہوئے اور دہلی پہنچ کر حضرت محبوبِ الٰہی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہونے کا قصد کیا، حاضر ہونے سے قبل آپ نے یہ کیا کہ داڑھی مونچھ منڈوائی، زنانہ لباس زیب تن کیا اور زیور پہن کر اور ڈھونلک گلے میں ڈال کر اور ڈھولک بجاتے ہوئے اور گاتے ہوئے آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزارِ پاک کا طواف کرنے لگے، طواف کرتے کرتے آپ بیہوش ہوکر گر پڑے، بے ہوش ہوکر گرنا تھا کہ آپ پر اسرارِ الٰہی منکشف ہوئے، تجلی ذات ربانی سے مشرف ہوئے، حجابات اٹھ گئے اور ذرا دیر میں کیا سے کیا ہوگئے، لوگوں کا اصرار اور آپ کا انکار آپ کے ہوش میں آنے کے بعد لوگوں نے آپ سے زنانہ لباس اور زیور اتارنے کو کہا، آپ نے ان لوگوں کی نہیں مانی، صاف انکار کیا اور فرمایا کہ

”میں یہ لباس ہرگز ترک نہ کروں گا، میں نے جو کچھ پایا وہ اس لباس میں پایا، بھلا میں اس کو کیسے اور کس طرح ترک کرسکتا ہوں“

آخری ایام :

 احمدآباد میں رہتے تھے اور ہیجڑوں کے ساتھ گاتے بجاتے تھے، زنانہ لباس آخری دم تک پہنے رہے، محفلِ سماع میں رقص کرتے تھے۔

وفات : آپ 10 رجب 853 ہجری کو واصل بحق ہوئے، مزار مبارک احمدآباد میں مرجع خاص و عام ہے۔

 

حضرت شاہ عالم کی تاکید : بذریعۂ کشف حضرت شاہ عالم کو آپ کی وفات کا علم ہوا، انہوں نے قاضی میاں مخدوم کو حکم دیا کہ جلد جاکر آپ کی تجہیز و تکیفن میں شریک ہو اور ان کو تاکید فرمائی کہ وہ (حضرت موسیٰ) جس رنگ میں ہیں اسی میں ان کو دفن کرنا اور کسی کو ان کی چوڑیاں نہ اتارنے دینا، ایسا ہی ہوا۔

سیرت :

 شروع زندگی میں تو آپ بہت متشرع، متقی اور پرہیزگار بزرگ تھے پھر آپ نے زنانہ لباس زیب تن کیا اور چوڑیاں پہن اور ہیجڑوں کے ساتھ رہنا سہنا شروع کیا، آپ گاتے، بجاتے اور ناچتے، آپ چھپے ہوئے خدا رسیدہ بزرگ اور باکمال درویش تھے۔

تعلیم و تربیت : آپ اور آپ کے سلسلے کے لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ جاچتے جاتے تھے اور زبان سے ”لا الٰہ الا اللہ نور محمد صلی اللہ“ کہتے جاتے تھے۔

کشف و کرامات :

 آپ صاحبِ کشف و کرامات بزرگ تھے، ایک سال ایسا ہوا کہ احمدآباد میں بارش نہ ہوئی، قحط کے آثار نمایاں ہوئے، لوگ بادشاہ وقت کے پاس گئے اور بھوک اور پیاس کی شکایت کی، بادشاہ نے شہر کے قاضی کو دعا کرنے کے لیے کہا، قاضی نے جواب دیا کہ”میں ایک گنہگار بندہ ہوں، میری دعا کارگر نہ ہوگی، میں کتنی ہی دعا کروں پانی نہ برسے گا، ہاں اگر شاہ موسیٰ سدا سہاگ سے دعا کرنے کے لیے کہا جائے اور وہ راضی ہو جائیں تو یہ یقینی بات ہے کہ پانی برسے گا اور مخلوقِ خدا قحط سے نجات پائےگی“

بادشاہ اور قاضیٔ شہر آپ کے مکان پر پہنچے اور آپ سے التجا کی کہ دعا کریں کہ بارش ہو اور خشک سالی دور ہو، آپ نے فرمایا کہ”تم دونوں کو دھوکہ ہوا ہے، شاہ موسیٰ تو کوئی اور ہوں گے، ان کے پاس جاؤ اور ان سے دعا کراؤ، میں تو ایک گنہگار بندی ہوں اور یہاں ان لوگوں میں رہ کر اپنا گزر کرتی ہوں“۔

بادشاہ اور قاضیٔ شہر برابر اصرار کرتے رہے، آخر کار ان کا اصرار آپ کے انکار پر غالب آیا، آپ راضی ہوگئے، آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، چشمِ گریاں اور سینۂ بریاں کے ساتھ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ”اے میرے مالک! اگر تونے میری التجا قبول نہ کی اور پانی نہ برسایا تو میں اپنا سہاگ چھوڑ دوں گی“۔

اتنا عرض کرکے آپ چاہتے تھے چوڑیاں توڑ دیں کہ اتنے میں آسمان پر ابر نمودار ہوا اور ایسی بارش ہوئی کہ لوگ عاجز آگئے، احمدآباد کے علما آپ کو زنانہ لباس میں دیکھ کر ناراض ہوتے تھے، ایک درفعہ انہوں نے آپ کو جامع مسجد بلایا، آپ وہاں گئے، آپ وہی زنانہ لباس پہنے ہوئے تھے، علما نے آپ کی مرضی کے خلاف آپ کا زنانہ لباس اتروایا اور آپ کو سفید لباس پہنوایا، وضو کرکے آپ نماز میں شریک ہوئے، اللہُ اکبر کہتے ہی وہ سفید لباس سرخ ہوگیا جب نماز ختم ہوئی تو آپ نے بہ آواز بلند فرمایا کہ”مالک میرا کہتا ہے کہ تو سہاگن رہ اور موئے مجھ سے کہتے ہیں کہ رانڈ ہوجاؤ، میں تو میاں کے کہنے پر چلوں گی، ان موؤں کی بات مجھ پر ہرگز اثر نہ کرے گی“آپ کی یہ کرامت دیکھ کر علما متعجب ہوئے اور آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا۔

سفید لباس لال ہو گیا: ایک دفعہ کچھ علمائے کرام نے زبردستی آپ کو سفید لباس پہنا کر نماز کے لئے کھڑا کردیا لیکن جوں ہی آپ نے اللہ اکبر کہا تو سارا لباس سرخ ہو گیا سلام پھیر کر آپ نے کہا "میاں میرا کہتا ہے کہ تو سہاگن رہ اور یہ موئے کہتے ہیں کہ تو بیوہ ہو جا میرا سرخ لباس اترا کر انہوں مجھے بیوہ کا لباس پہنا دیا تھا" علمائے کرام آپ سے ڈر گئے اور اسی وقت آپ کے پاوں پر گر کر معافی مانگی حضرت سیدنا موسی سدا سہاگ سہروردی نے انہیں معاف فرمادیا۔

وصال مبارک:

حضرت سیدنا موسیٰ سدا سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ نے 10 رجب المرجب 853 ہجری میں اس دار فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرمائی جب آپ کا انتقال ہوا تو اس وقت گجرات کے مشائخ کرام میں شہر احمدآباد میں ایک بڑے بزرگ آفتاب سہروردیہ حضرت سیدنا شاہ عالم سہروردی موجود تھے حضرت سیدنا موسیٰ سدا سہاگ علیہ الرحمہ کے وصال مبارک کے فوراً بعد حضرت سیدنا شاہ عالم سہروردی نے مریدوں کو تجہیز و تکفین کے لئے ہدایت دی کہ خبردار ان کی چوڑی کو ہاتھ نہ لگانا وہ جس حال میں ہیں اسی حال میں دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا آپ کے وصال کے وقت صوفیاء مشائخ و علماء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی آپ کا آستانہ موسیٰ سہاگ قبرستان احمدآباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے یہ قبرستان آپ ہی کے نام سے منسوب و معروف ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 10 رجب المرجب شریف کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے آپ کے عرس میں مختلف علاقے سے لوگ آتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرکے دلی سکون پاتے ہیں۔

امام اہلسنت حضرت مولانا امام احمد رضاخاں بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدی موسیٰ سہاعلیہ الرحمہ مشہور مجاذیب سے تھے، زنانہ وضع رکھتے تھے ۔ احمدآباد، گجرات میں آپ کا مزار شریف ہے،میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں۔

دیوبند کےمکتب فکر کے عالم مولانا ذکریہ صاحب مہاجرمدنی کے خلیفہ اجل مولانا محمد یوسف ابن سلیمان متالا نےاپنی تصنیف مشائخ احمد آباد میں، حضرت محمد روح اللہ نقشبندی نے اپنی تالیف مجاذیب کی پُراسراردنیا میں اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب القول الجلی فی ذکر آثارالولی میں بھی بڑی تکریم کے ساتھ کیا ہے ۔


محبوب العالم حضرت مخدوم حمزہ کشمیری سہروردی علیہ الرحمہ

 

آپ علیہ الرحمہ کشمیر کے ایک معروف روحانی بزرگ تھے۔یہ محبوب العالم اور سلطان العارفین کے ناموں سے مشہور ہیں۔

ولادت باسعادت:

آپ کا سال پیدائش 900ہجری ہے، بمقام تجر (جموں و کشمیر) پید ا ہوئے، آپ کا نام حمزہ یعنی شیر رکھا۔ آپ کے والد صاحب کا نام بابا عثمان رینہ ہے۔ ان کے والدزینہ گیر کے ایک گاؤں تجر میں سکونت کرتے تھےاور والدہ محترمہ کا نام بی بی مریم تھا۔ بابا عثمان نے اپنے پیارے بیٹے کی پیدائش پر تیس بھیڑ قربان کیں اور گوشت غریبوں، ناداروں اور محتاجوں میں تقسیم کیا گیا

آپ علیہ الرحمہ پیدائشی ولی تھے۔ ایک بار اس کی ماں بیمار ہوئی اور وہ اسے اپنا دودھ نہیں پلا سکی۔ اس طرح محلے کی ایک عورت سے اسے دودھ پلانے کے لیے بلایا گیا۔ حضرت شیخ حمزہ علیہ الرحمہ نے اس کا دودھ نہیں پیا۔ پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ خاتون اپنی ہی بیٹی کو گھر پر چھوڑ کر آئی تھی اور اس نے اپنے شوہر سے اجازت نہیں لی تھی۔

 شیخ حمزہ کا بچپن تجر شریف میں ہی گزرا اور وہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف راغب نہیں تھے۔ ایک بار وہ ارد گرد کے دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل گئے جو ایک مسجد پر پتھر برسا رہے تھے۔ شیخ حمزہ نے اسی رات ایک خواب دیکھا اور ان سے کہا گیا کہ ان طفلانہ فعلوں سے باز آؤ۔ اس نے فوراً اس پر توبہ کی اور آئندہ کبھی ایسا نہ کیا۔

تعلیم و تربیت :

 شیخ حمزہ نے ابتدائی تعلیم مقامی مکتب سے حاصل کی۔ ان کے اساتذہ نے انہیں قرآن، اس کی تلاوت اور گرائمر سکھایا۔ انہوں نے فارسی کی تمام کتابیں جیسے کریمہ، نامہ حق، گلستان اور بوستان وغیرہ پڑھیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے دادا ملک زیتا رینہ انہیں سری نگر لے گئے جہاں انہیں حضرت شیخ بابا اسماعیل کبروی علیہ الرحمہ کے ادارے دارالشفاء میں داخل کرایا گیا۔ حضرت شیخ نے طلباء کو دینی اور روحانی دونوں طرح کی تربیت دی۔ شیخ حمزہ علیہ الرحمہ کو ادب اور اسلامیات سے گہری دلچسپی تھی ۔ انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور بعد میں خانقاہ شمس چک میں داخلہ لیا۔ آپ نے قرآن، حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ اور ادب سیکھا۔ وہ ایک تیز یادداشت اور اچھے فہم کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اکثر روزہ رکھتے تھے اور آدھی رات کو خدا کی یاد میں عبادت میں محو ہوجاتے تھے ۔ اس نے دیگر اولیاء کرام سے بھی روحانی فیض حاصل کیا اور کئی بار حضرت خضرعلیہ السلام کا دیدار کیا۔ آپ علیہ الرحمہ اپنی ملاقات اور بات چیت کے لیے زیادہ تر ندیوں، ندی نالوں اور چشموں کے کناروں پر بیٹھتے تھے جہاں اسے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تھی۔ ایک بار وہ اسکول کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک دعوت پہ گیا۔ کھانے کے بعد میزبان کی طرف سے انہیں کچھ پیسے بھی دیے گئے۔ لیکن رات کو ایک خواب کے ذریعے اسے خبردار کیا گیا کہ وہ آئندہ دعوتوں میں شرکت نہ کریں۔ اس زمانے کے حکمران شیعہ فرقے کے تھے اور آپ علیہ الرحمہ کی ملاقات ملا شمشی چک نامی عالم سے ہوئی جس نے انہیں اپنے سنی مسلک کو چھوڑ کر شیعہ مسلک کی پیروی کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ شیعہ رہنما سے بہت متاثر ہوگیا تھا اور تذبذب کا شکار ہوگیا کہ کس مسلک کی پیروی کروں ۔ اس لیے وہ کوہی ماران کی ایک مسجد میں گیا جسے ذاکر مسجد کہا جاتا ہے۔ آپ نے مسلسل روزہ رکھا اور مسلسل تین دن تک ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔ رات کو خواب میں اسے جواب ملا۔ مسجد کے احاطے میں لوگوں کے ایک بڑے اجتماع کی قیادت چاروں خلفاء کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ یہیں آپ علیہ الرحمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار صحابہ کے ساتھ دیکھا جنہوں نے آپ کو بتایا کہ چاروں صحابہ صحیح ہیں اور انہیں اہل سنت والجماعت کے راستے پر چلنے کی ہدایت کی گئی ۔ انہوں نے مسلک اہل سنت والجماعت کی پیروی کا ارادہ کیا۔ دن رات عبادت میں گزارتے اور تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے باقاعدگی سے غسل کرتے۔ آپ علیہ الرحمہ فطرت سے محبت کرنے والے تھے۔ چونکہ تجر شریف کے پہاڑوں کے درمیان پیدا ہوئے تھے اس لیے انہوں نے کوہی ماران کی پہاڑی میں بہت وقت گزارا جہاں وہ تازہ ہوا اور درختوں، گھاس، پھولوں وغیرہ کے قدرتی مسکن سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دن رات کی مسلسل عبادت کی وجہ سے آپ علیہ الرحمہ کو اکثر سر درد رہتا تھا۔ حضرت سید احمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں قدرتی ماحول میں ٹہلنے کا مشورہ دیا تھا جہاں وہ سر درد کو دور کر سکتے تھے۔ دہلی کے سید جمال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو سلسلہ سہروردی اولیاء سے تعلق رکھتے تھے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان سے بات کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ نوجوان کا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ بابا عثمان کا بیٹا ہے اور روحانی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید جمال الدین کو آپ علیہ الرحمہ کی روحانی رہنمائی کے لیے کشمیر جانے کا حکم دیا۔ وہ 932 ہجری میں کشمیر پہنچے اور آپ علیہ الرحمہ نے ملک احمد یاتو کی خانقاہ میں ان سے ملاقات کی۔ سید جمال الدین بخاری نے انہیں چھ ماہ تک تربیت کی اور اس کے بعد وہ واپس دہلی چلے گئے۔ آپ علیہ الرحمہ کی رہائش گاہ مخدوم منڈو علمی اور روحانی تربیت کا مرکز تھا جس کی وجہ سے دور دور سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ وہ کامراز، مراز جیسے دور دراز مقامات پر گئے جہاں انہوں نے مساجد تعمیر کیں اور اسلام کی تعلیمات کو عام کیا۔ وہ سچائی اور بھائی چارے کی تبلیغ کے لیے وادی کے کونے کونے میں گئے۔ ان کی سرپرستی میں بیرو کے نادیہال، تجر شریف اور ووہنگم میں کچھ مشہور مساجد تعمیر کی گئیں۔

 آپ علیہ الرحمہ نے بہت سے معجزات اور مافوق الفطرت واقعات دکھائے۔حضرت بابا داؤد خاکی نے اپنے مرشد و رہنما کی تعریف میں ورد المریدین لکھی ہے جس میں آپ نے اپنے گائیڈ کے بہت سے معجزات بیان کیے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے شاگرد حضرت مولانا فیروز ایک بار صحرا میں راستہ بھٹک گئے۔ پھر آپ علیہ الرحمہ نے سری نگر میں قیام کرتے ہوئے ان کی مدد کی۔

بیعت و خلافت

933ھ میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے فرزند جلال الدین کشمیرتشریف لائے اور خانقاہ ملک ایتو میں ٹھہرے۔ تو آپ نے ان کے ہاں چھ مہینے قیام فرمایا ،یہاں سے رخصت ہوتے وقت سید جلال الدین نے محبوب العالم کو شجرہ مبارکہ اور ارشاد نامہ عنایت فرمانے کے بعد سلسلہ سہروردیہ کی تعلیم پر مامور فرمایا اور تبلیغ دین کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ابتداءمیں جناب محبوب العالم شہر خاص مخدوم منڈو کلاشپورہ میں اقامت پزیر ہوکر فیوض یزدانی اور انوارِ باطنی سے طالبانِ حق کو روشناس کرنے لگے اور اس کے بعد آپ نے کوہِ ماراں کے شمال مشرق کے ایک گوشے سے ایک مسجد شریف موسوم بہ ” ذاکر مسجد“ کی بنیا د ڈالی، یہاں سے خلق خدا کو روحانی اور دینی تربیت سے روشناس کرنے لگے۔معلوم یہ ہونا بھی ضروری ہے کہ حضرت مخدوم حمزہ کشمیری سہروردی علیہ الرحمہ کے مرشد گرامی حضرت سید جمال الدین بخاری سہروردی علیہ الرحمہ حضرت حاجی عبدالوھاب بخاری سہروردی دہلوی علیہ الرحمہ کے عظیم خلیفہ ہیں اور حضرت حاجی عبدالوھاب علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ سہروردی دہلوی کےخلیفہ ہیں جو حضرت غوث العٰلمین سیدنا غوث بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کی اولاد امجاد سے تھے۔ ( خزینۃ الاصفیا جلد ٤ ص ١٤١, ١٤٢)

 خلفائے کرام :

محبوب العالم کے خلفاءمیں جن حضرات کو شہر ت حاصل ہوئی ان میں

·       بابا دادود خاکی ،

·       بابا ہردی ریشی،

·       میر حیدر تولہ مولی۔

·       شیخ احمد چاگلی،

·       خواجہ اسحاق قاری،

·       نوروز یشی ہیں

جنہیں انھوں نے لوگوں کو سلسلہ سہروردیہ میں بیعت کرنے کی اجازت دی تھی۔

تعمیر مساجد

تحفہ محبوبی“کے مطابق محبوب العالم نے مختلف دیہات کی سیر و سیاحت کے دوران میں بہت سی مسجدیں تعمیر فرمائیں جن میں مسجد نادی ہل، مسجد اہم بنڈہ پورہ،مسجد تجر، مسجد گند پورہ، مسجد آلوسہ، مسجد گرورہ، مسجد ونہ گام۔ مسجد کرشور اور مسجد اوہن مشہور معروف ہیں ۔

وصال مبارک:

آپ نے 24صفر المظفر 984 ہجری کو رحلت فرمائی۔ آپ کو کوہ ماراں کے جنوبی گوشہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کا مزار خطئہ کشمیر میں زیارت گاہ خلق ہےبقول صاحب "تواریخ اعظمیہ" لفظ "موت مرشد" اور لفظ "آہ زائر کشتند" سےآپ کا سال تاریخ وفات نکلتا ہے "شیخ پاکان" سے بھی آپ کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔