Mazar Sharif |
سلسلئہ
سہروردیہ کے قلندری مشائخ کرام میں ایک بڑا نام سیدالمجذوبین حضرت سیدنا شاہ موسی سدا
سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ کا ہے آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے جلیل القدر ولی اور صاحب
جذب و کمال درویش تھے تصرفات ظاہری اور باطنی میں کمال رکھتے تھے عوام و خواص آپ کے
فیوض و برکات سے مالا مال ہیں آپ کا آستانہ مخزن رحمت الہی بھی ہےاور منبع جودِ لا
متناہی بھی ہے صدیاں گزر چکی ہیں لیکن آپ کے دربار دُربار سے فیض و عرفان کا چشمہ آج
تک جاری ہے اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک جاری رہے گا ۔
بانی
سلسلہ :
آپ سدا سہاگ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے، فقرا کی ایک
جماعت زنانہ لباس اور چوڑیاں پہنتی ہے، وہ محفلِ سماع میں رقص کرتے ہیں، ان کا لباس
اور وضع قطع اور لب و لہجہ عورتوں کی طرح ہوتا ہے، فقرا کی یہ جماعت سدا سہاگ کے نام
سے مشہور ہے بعض کا خیال ہے کہ ہندوستان میں سدا سہاگ سلسلہ آپ سے جاری ہوا۔
اسم
گرامی :
آپ کا
نامِ نامی اسمِ گرامی موسیٰ ہے۔
پیر
و مرشد:
حضرت
سیدنا موسی سدا سہاگ سہروردی شہر احمدآباد کے باشندے تھے آپ کے پیر و مرشد کا نام حضرت
سیدی سکندر بودلہ بہار قلندر سہروردی ہے آپ کا مزار سندھ کے شہر سہون شریف میں لال
شہباز قلندر سہروردی علیہ الرحمہ کے دربار ذی وقار کے قریب ہی واقع ہے حضرت سکندر بدلہ
بہار قلندر سہروردی علیہ الرحمہ حضرت لال شہباز قلندر سہروردی علیہ الرحمہ کے بڑے ہی
محبوب مرید تھے لال شہباز نے آپ کو سکندر بودلہ کا نام مبارک عطا فرمایا تھا حضرت موسی
سدا سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے اکابر مجذوب مشائخ کرام سے تھے
آپ کا شجرہ مبارکہ دو طریق سے بانئ سلسلئہ عالیہ سہروردیہ حضرت ابوالنجیب عبدالقاہر
ضیاءالدین سہروردی رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے ۔
رہائش
گاہ :
آپ علیہ الرحمہ احمدآباد میں رہتے تھے۔
حضرت
محبوبِ الٰہی علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری :
ایک دفعہ آپ خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مزارِ پرانوار
پر حاضر ہوئے، اس وقت وہاں کچھ عورتیں جمع تھیں، ان عورتوں کی کوئی منت پوری ہوئی تھی،
اس سلسلہ میں وہ حضرت کے مزارِ پاک بستی نظام الدین، دہلی میں آکر ڈھولک اور باجہ بجا
کر گا رہی تھیں اور حضرت محبوبِ الٰہی کو اپنی زبان سے اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اور
محبت اور عقیدت کے لہجہ میں خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کر رہی تھیں، آپ جب حضرت
محبوبِ الٰہی کے مزارپُرانوار پر حاضر ہوئے تو آپ ان عورتوں کو اس طرح گاتے بجاتے دیکھ
کر دل میں ناراض ہوئے، آپ احکامِ شریعت کے سخت پابند تھے، متقی اور پرہیزگار ہونے کے
ساتھ ساتھ آپ احکامِ شریعت کی پابندی اور نفاذ کے حامی تھے، ان عورتوں کو اس حالت میں
دیکھ کر آپ نے ان کے اس فعل کو خلافِ شریعت اور خلافتِ اسلام قرار دیا پھر آپ کے دل
میں یہ خیال آیا کہ گو ان عورتوں کا وہ فعل خلافِ شرع ہے لیکن ان عورتوں کا حضرت محبوبِ
الٰہی کے مزار پر ایسا ناجائز اور خلاف شرع فعل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ان کو حضرت
محبوبِ الٰہی کی اجازت حاصل ہے اور حضرت محبوبِ الٰہی ان کے اس فعل کو پسند فرماتے
ہیں، اگر حضرت محبوبِ الٰہی اس فعل کو ناپسند فرماتے تو وہ عورتیں ہرگز مزارِ اقدس
پر اس طرح حاضر نہ ہوتیں اور خلافِ شرع فعل ان سے سرزد نہ ہوتا، بہر حال! حاضری دے
کر آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار سے چلے آئے، وقت گزرتا رہا اور زمانہ کروٹیں لیتا
رہا۔
فریضۂ
حج :
اس واقعہ کے چند سال بعد آپ حج کا فریضہ ادا کرنے
کی غرض سے مکہ معظمہ پہنچے اور حج کے فریضہ سے فارغ ہوکر آپ نے مدینہ منورہ کا قصد
کیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ کے روضۂ پاک پر حاضر ہوکر نذرانۂ عجز و نیاز پیش کریں۔
خواب
اور آواز : آپ نے مدینہ منورہ کا قصد کیا اور روانہ ہونے والے تھے کہ رات کو آپ نے
ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ آپ کو مدینہ منورہ جانے سے روکتے ہیں، مولانا روانہ ہوگئے،
تھوڑی ہی دور قافلہ چلا تھا کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی شخص مدینہ منورہ جانے
سے آپ کو روکتا ہے، آخر آپ نے جب یہ سنا کہ کوئی کہتا ہے کہ اگر تو مدینہ جائے گا تو
یاد رکھ کہ تیرا ایمان سلب ہوجائے گا تو آپ بہت پریشان اور مضطرب ہوئے۔
مشورہ
:
آپ کے قافلے میں ایک بزرگ تھے، آپ نے ان سے خواب
کا حال اور پھر راستہ میں کسی کے روکنے کا اور آواز سننے کا حال بیان کیا، ان بزرگ
نے تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر آپ کو آگاہ کیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ان سے خفا ہیں۔
وجہ
ناراضگی :
حضرت محمد مصطفیٰ کی خفگی کی وجہ انہوں نے یہ بتائی
کہ سرورِ عالم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ سہاگ نے ہمارا تو کوئی قصور نہیں کیا ہے لیکن
ہندوستان میں جو خواجہ نظام الدین اؤلیا میں اور جن کا مزار دہلی میں واقع ہے، وہ کسی
وجہ سے ان سے ناراض ہیں اور خفا ہیں، جب محبوبِ الٰہی خفا ہیں تو ہم کیسے اس شخص کو
اپنے یہاں آنے دیں جو ہمارے اؤلیا کو رنج پہنچاتا ہے ہم اس شخص کو اپنے یہاں آنے کی
اجازت نہیں دے سکتے، بہتر صورت یہ ہے کہ اگر واقعی وہ شخص ہمارے یہاں آنا چاہتا ہے
تو پہلے دہلی جائے اور حضرت محبوبِ الٰہی سے اپنا قصور معاف کرائے اور پھر ہمارے یہاں
آنا چاہتا ہے تو پہلے دہلی جائے اور حضرت محبوبِ الٰہی سے اپنا قصور معاف کرائے اور
پھر ہمارے یہاں آئے۔ حضرت موسیٰ یہ سن کر سوچ بچار میں پڑ گئے کہ آخر ان سے ایسا کون
سا نازیبا فعل سرزد ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت محبوبِ الٰہی ان سے ناراض و خفا ہیں،
سوچتے سوچتے آپ کو حضرت کے مزارِ اقدس پر عورتوں کا ناچنا، گانا بجانا، یاد آیا اور
جو آپ کے دل میں خطرہ گزرا تھا، وہ بھی آپ کو یاد آیا۔
ہندوستان
کو روانگی :
یہ یاد
آتے ہی آپ بجائے مدینہ منورہ جانے کے ہندوستان روانہ ہوئے اور دہلی پہنچ کر حضرت محبوبِ
الٰہی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہونے کا قصد کیا، حاضر ہونے سے قبل آپ نے یہ کیا کہ
داڑھی مونچھ منڈوائی، زنانہ لباس زیب تن کیا اور زیور پہن کر اور ڈھونلک گلے میں ڈال
کر اور ڈھولک بجاتے ہوئے اور گاتے ہوئے آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار پر حاضر ہوئے
اور مزارِ پاک کا طواف کرنے لگے، طواف کرتے کرتے آپ بیہوش ہوکر گر پڑے، بے ہوش ہوکر
گرنا تھا کہ آپ پر اسرارِ الٰہی منکشف ہوئے، تجلی ذات ربانی سے مشرف ہوئے، حجابات اٹھ
گئے اور ذرا دیر میں کیا سے کیا ہوگئے، لوگوں کا اصرار اور آپ کا انکار آپ کے ہوش میں
آنے کے بعد لوگوں نے آپ سے زنانہ لباس اور زیور اتارنے کو کہا، آپ نے ان لوگوں کی نہیں
مانی، صاف انکار کیا اور فرمایا کہ
”میں یہ لباس ہرگز
ترک نہ کروں گا، میں نے جو کچھ پایا وہ اس لباس میں پایا، بھلا میں اس کو کیسے اور
کس طرح ترک کرسکتا ہوں“
آخری
ایام :
احمدآباد میں رہتے تھے اور ہیجڑوں کے ساتھ گاتے بجاتے
تھے، زنانہ لباس آخری دم تک پہنے رہے، محفلِ سماع میں رقص کرتے تھے۔
وفات
: آپ 10 رجب 853 ہجری کو واصل بحق ہوئے، مزار مبارک احمدآباد میں مرجع خاص و عام ہے۔
حضرت
شاہ عالم کی تاکید : بذریعۂ کشف حضرت شاہ عالم کو آپ کی وفات کا علم ہوا، انہوں نے
قاضی میاں مخدوم کو حکم دیا کہ جلد جاکر آپ کی تجہیز و تکیفن میں شریک ہو اور ان کو
تاکید فرمائی کہ وہ (حضرت موسیٰ) جس رنگ میں ہیں اسی میں ان کو دفن کرنا اور کسی کو
ان کی چوڑیاں نہ اتارنے دینا، ایسا ہی ہوا۔
سیرت
:
شروع زندگی میں تو آپ بہت متشرع، متقی اور پرہیزگار
بزرگ تھے پھر آپ نے زنانہ لباس زیب تن کیا اور چوڑیاں پہن اور ہیجڑوں کے ساتھ رہنا
سہنا شروع کیا، آپ گاتے، بجاتے اور ناچتے، آپ چھپے ہوئے خدا رسیدہ بزرگ اور باکمال
درویش تھے۔
تعلیم
و تربیت : آپ اور آپ کے سلسلے کے لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ جاچتے جاتے تھے اور زبان
سے ”لا الٰہ الا اللہ نور محمد صلی اللہ“ کہتے جاتے تھے۔
کشف
و کرامات :
آپ صاحبِ کشف و کرامات بزرگ تھے، ایک سال ایسا ہوا
کہ احمدآباد میں بارش نہ ہوئی، قحط کے آثار نمایاں ہوئے، لوگ بادشاہ وقت کے پاس گئے
اور بھوک اور پیاس کی شکایت کی، بادشاہ نے شہر کے قاضی کو دعا کرنے کے لیے کہا، قاضی
نے جواب دیا کہ”میں ایک گنہگار بندہ ہوں، میری دعا کارگر نہ ہوگی، میں کتنی ہی دعا
کروں پانی نہ برسے گا، ہاں اگر شاہ موسیٰ سدا سہاگ سے دعا کرنے کے لیے کہا جائے اور
وہ راضی ہو جائیں تو یہ یقینی بات ہے کہ پانی برسے گا اور مخلوقِ خدا قحط سے نجات پائےگی“
بادشاہ
اور قاضیٔ شہر آپ کے مکان پر پہنچے اور آپ سے التجا کی کہ دعا کریں کہ بارش ہو اور
خشک سالی دور ہو، آپ نے فرمایا کہ”تم دونوں کو دھوکہ ہوا ہے، شاہ موسیٰ تو کوئی اور
ہوں گے، ان کے پاس جاؤ اور ان سے دعا کراؤ، میں تو ایک گنہگار بندی ہوں اور یہاں
ان لوگوں میں رہ کر اپنا گزر کرتی ہوں“۔
بادشاہ
اور قاضیٔ شہر برابر اصرار کرتے رہے، آخر کار ان کا اصرار آپ کے انکار پر غالب آیا،
آپ راضی ہوگئے، آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، چشمِ گریاں اور سینۂ بریاں کے ساتھ آپ
نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ”اے میرے مالک! اگر تونے میری التجا قبول
نہ کی اور پانی نہ برسایا تو میں اپنا سہاگ چھوڑ دوں گی“۔
اتنا
عرض کرکے آپ چاہتے تھے چوڑیاں توڑ دیں کہ اتنے میں آسمان پر ابر نمودار ہوا اور ایسی
بارش ہوئی کہ لوگ عاجز آگئے، احمدآباد کے علما آپ کو زنانہ لباس میں دیکھ کر ناراض
ہوتے تھے، ایک درفعہ انہوں نے آپ کو جامع مسجد بلایا، آپ وہاں گئے، آپ وہی زنانہ لباس
پہنے ہوئے تھے، علما نے آپ کی مرضی کے خلاف آپ کا زنانہ لباس اتروایا اور آپ کو سفید
لباس پہنوایا، وضو کرکے آپ نماز میں شریک ہوئے، اللہُ اکبر کہتے ہی وہ سفید لباس سرخ
ہوگیا جب نماز ختم ہوئی تو آپ نے بہ آواز بلند فرمایا کہ”مالک میرا کہتا ہے کہ تو سہاگن
رہ اور موئے مجھ سے کہتے ہیں کہ رانڈ ہوجاؤ، میں تو میاں کے کہنے پر چلوں گی، ان موؤں
کی بات مجھ پر ہرگز اثر نہ کرے گی“آپ کی یہ کرامت دیکھ کر علما متعجب ہوئے اور آپ کو
آپ کے حال پر چھوڑ دیا۔
سفید
لباس لال ہو گیا: ایک دفعہ کچھ علمائے
کرام نے زبردستی آپ کو سفید لباس پہنا کر نماز کے لئے کھڑا کردیا لیکن جوں ہی آپ نے
اللہ اکبر کہا تو سارا لباس سرخ ہو گیا سلام پھیر کر آپ نے کہا "میاں میرا کہتا
ہے کہ تو سہاگن رہ اور یہ موئے کہتے ہیں کہ تو بیوہ ہو جا میرا سرخ لباس اترا کر انہوں
مجھے بیوہ کا لباس پہنا دیا تھا" علمائے کرام آپ سے ڈر گئے اور اسی وقت آپ کے
پاوں پر گر کر معافی مانگی حضرت سیدنا موسی سدا سہاگ سہروردی نے انہیں معاف فرمادیا۔
وصال
مبارک:
حضرت
سیدنا موسیٰ سدا سہاگ سہروردی علیہ الرحمہ نے 10 رجب المرجب 853 ہجری میں اس دار فانی
سے دار بقا کی جانب رحلت فرمائی جب آپ کا انتقال ہوا تو اس وقت گجرات کے مشائخ کرام
میں شہر احمدآباد میں ایک بڑے بزرگ آفتاب سہروردیہ حضرت سیدنا شاہ عالم سہروردی موجود
تھے حضرت سیدنا موسیٰ سدا سہاگ علیہ الرحمہ کے وصال مبارک کے فوراً بعد حضرت سیدنا
شاہ عالم سہروردی نے مریدوں کو تجہیز و تکفین کے لئے ہدایت دی کہ خبردار ان کی چوڑی
کو ہاتھ نہ لگانا وہ جس حال میں ہیں اسی حال میں دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا
آپ کے وصال کے وقت صوفیاء مشائخ و علماء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی آپ کا آستانہ موسیٰ
سہاگ قبرستان احمدآباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے یہ قبرستان آپ ہی کے نام سے منسوب
و معروف ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 10 رجب المرجب شریف کو انتہائی ادب و احترام کے
ساتھ منایا جاتا ہے آپ کے عرس میں مختلف علاقے سے لوگ آتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل
کرکے دلی سکون پاتے ہیں۔
امام
اہلسنت حضرت مولانا امام احمد رضاخاں بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدی
موسیٰ سہاعلیہ الرحمہ مشہور مجاذیب سے تھے، زنانہ وضع رکھتے تھے ۔ احمدآباد،
گجرات میں آپ کا مزار شریف ہے،میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں۔
دیوبند
کےمکتب فکر کے عالم مولانا ذکریہ صاحب مہاجرمدنی کے خلیفہ اجل مولانا محمد یوسف
ابن سلیمان متالا نےاپنی تصنیف مشائخ احمد آباد میں، حضرت محمد روح اللہ نقشبندی
نے اپنی تالیف مجاذیب کی پُراسراردنیا میں اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ
نے اپنی کتاب القول الجلی فی ذکر آثارالولی میں بھی بڑی تکریم کے ساتھ کیا ہے ۔
No comments:
Post a Comment