محبوب العالم حضرت مخدوم حمزہ کشمیری سہروردی علیہ الرحمہ

 

آپ علیہ الرحمہ کشمیر کے ایک معروف روحانی بزرگ تھے۔یہ محبوب العالم اور سلطان العارفین کے ناموں سے مشہور ہیں۔

ولادت باسعادت:

آپ کا سال پیدائش 900ہجری ہے، بمقام تجر (جموں و کشمیر) پید ا ہوئے، آپ کا نام حمزہ یعنی شیر رکھا۔ آپ کے والد صاحب کا نام بابا عثمان رینہ ہے۔ ان کے والدزینہ گیر کے ایک گاؤں تجر میں سکونت کرتے تھےاور والدہ محترمہ کا نام بی بی مریم تھا۔ بابا عثمان نے اپنے پیارے بیٹے کی پیدائش پر تیس بھیڑ قربان کیں اور گوشت غریبوں، ناداروں اور محتاجوں میں تقسیم کیا گیا

آپ علیہ الرحمہ پیدائشی ولی تھے۔ ایک بار اس کی ماں بیمار ہوئی اور وہ اسے اپنا دودھ نہیں پلا سکی۔ اس طرح محلے کی ایک عورت سے اسے دودھ پلانے کے لیے بلایا گیا۔ حضرت شیخ حمزہ علیہ الرحمہ نے اس کا دودھ نہیں پیا۔ پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ خاتون اپنی ہی بیٹی کو گھر پر چھوڑ کر آئی تھی اور اس نے اپنے شوہر سے اجازت نہیں لی تھی۔

 شیخ حمزہ کا بچپن تجر شریف میں ہی گزرا اور وہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف راغب نہیں تھے۔ ایک بار وہ ارد گرد کے دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل گئے جو ایک مسجد پر پتھر برسا رہے تھے۔ شیخ حمزہ نے اسی رات ایک خواب دیکھا اور ان سے کہا گیا کہ ان طفلانہ فعلوں سے باز آؤ۔ اس نے فوراً اس پر توبہ کی اور آئندہ کبھی ایسا نہ کیا۔

تعلیم و تربیت :

 شیخ حمزہ نے ابتدائی تعلیم مقامی مکتب سے حاصل کی۔ ان کے اساتذہ نے انہیں قرآن، اس کی تلاوت اور گرائمر سکھایا۔ انہوں نے فارسی کی تمام کتابیں جیسے کریمہ، نامہ حق، گلستان اور بوستان وغیرہ پڑھیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے دادا ملک زیتا رینہ انہیں سری نگر لے گئے جہاں انہیں حضرت شیخ بابا اسماعیل کبروی علیہ الرحمہ کے ادارے دارالشفاء میں داخل کرایا گیا۔ حضرت شیخ نے طلباء کو دینی اور روحانی دونوں طرح کی تربیت دی۔ شیخ حمزہ علیہ الرحمہ کو ادب اور اسلامیات سے گہری دلچسپی تھی ۔ انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور بعد میں خانقاہ شمس چک میں داخلہ لیا۔ آپ نے قرآن، حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ اور ادب سیکھا۔ وہ ایک تیز یادداشت اور اچھے فہم کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اکثر روزہ رکھتے تھے اور آدھی رات کو خدا کی یاد میں عبادت میں محو ہوجاتے تھے ۔ اس نے دیگر اولیاء کرام سے بھی روحانی فیض حاصل کیا اور کئی بار حضرت خضرعلیہ السلام کا دیدار کیا۔ آپ علیہ الرحمہ اپنی ملاقات اور بات چیت کے لیے زیادہ تر ندیوں، ندی نالوں اور چشموں کے کناروں پر بیٹھتے تھے جہاں اسے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تھی۔ ایک بار وہ اسکول کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک دعوت پہ گیا۔ کھانے کے بعد میزبان کی طرف سے انہیں کچھ پیسے بھی دیے گئے۔ لیکن رات کو ایک خواب کے ذریعے اسے خبردار کیا گیا کہ وہ آئندہ دعوتوں میں شرکت نہ کریں۔ اس زمانے کے حکمران شیعہ فرقے کے تھے اور آپ علیہ الرحمہ کی ملاقات ملا شمشی چک نامی عالم سے ہوئی جس نے انہیں اپنے سنی مسلک کو چھوڑ کر شیعہ مسلک کی پیروی کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ شیعہ رہنما سے بہت متاثر ہوگیا تھا اور تذبذب کا شکار ہوگیا کہ کس مسلک کی پیروی کروں ۔ اس لیے وہ کوہی ماران کی ایک مسجد میں گیا جسے ذاکر مسجد کہا جاتا ہے۔ آپ نے مسلسل روزہ رکھا اور مسلسل تین دن تک ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔ رات کو خواب میں اسے جواب ملا۔ مسجد کے احاطے میں لوگوں کے ایک بڑے اجتماع کی قیادت چاروں خلفاء کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ یہیں آپ علیہ الرحمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار صحابہ کے ساتھ دیکھا جنہوں نے آپ کو بتایا کہ چاروں صحابہ صحیح ہیں اور انہیں اہل سنت والجماعت کے راستے پر چلنے کی ہدایت کی گئی ۔ انہوں نے مسلک اہل سنت والجماعت کی پیروی کا ارادہ کیا۔ دن رات عبادت میں گزارتے اور تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے باقاعدگی سے غسل کرتے۔ آپ علیہ الرحمہ فطرت سے محبت کرنے والے تھے۔ چونکہ تجر شریف کے پہاڑوں کے درمیان پیدا ہوئے تھے اس لیے انہوں نے کوہی ماران کی پہاڑی میں بہت وقت گزارا جہاں وہ تازہ ہوا اور درختوں، گھاس، پھولوں وغیرہ کے قدرتی مسکن سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دن رات کی مسلسل عبادت کی وجہ سے آپ علیہ الرحمہ کو اکثر سر درد رہتا تھا۔ حضرت سید احمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں قدرتی ماحول میں ٹہلنے کا مشورہ دیا تھا جہاں وہ سر درد کو دور کر سکتے تھے۔ دہلی کے سید جمال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو سلسلہ سہروردی اولیاء سے تعلق رکھتے تھے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان سے بات کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ نوجوان کا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ بابا عثمان کا بیٹا ہے اور روحانی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید جمال الدین کو آپ علیہ الرحمہ کی روحانی رہنمائی کے لیے کشمیر جانے کا حکم دیا۔ وہ 932 ہجری میں کشمیر پہنچے اور آپ علیہ الرحمہ نے ملک احمد یاتو کی خانقاہ میں ان سے ملاقات کی۔ سید جمال الدین بخاری نے انہیں چھ ماہ تک تربیت کی اور اس کے بعد وہ واپس دہلی چلے گئے۔ آپ علیہ الرحمہ کی رہائش گاہ مخدوم منڈو علمی اور روحانی تربیت کا مرکز تھا جس کی وجہ سے دور دور سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ وہ کامراز، مراز جیسے دور دراز مقامات پر گئے جہاں انہوں نے مساجد تعمیر کیں اور اسلام کی تعلیمات کو عام کیا۔ وہ سچائی اور بھائی چارے کی تبلیغ کے لیے وادی کے کونے کونے میں گئے۔ ان کی سرپرستی میں بیرو کے نادیہال، تجر شریف اور ووہنگم میں کچھ مشہور مساجد تعمیر کی گئیں۔

 آپ علیہ الرحمہ نے بہت سے معجزات اور مافوق الفطرت واقعات دکھائے۔حضرت بابا داؤد خاکی نے اپنے مرشد و رہنما کی تعریف میں ورد المریدین لکھی ہے جس میں آپ نے اپنے گائیڈ کے بہت سے معجزات بیان کیے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے شاگرد حضرت مولانا فیروز ایک بار صحرا میں راستہ بھٹک گئے۔ پھر آپ علیہ الرحمہ نے سری نگر میں قیام کرتے ہوئے ان کی مدد کی۔

بیعت و خلافت

933ھ میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے فرزند جلال الدین کشمیرتشریف لائے اور خانقاہ ملک ایتو میں ٹھہرے۔ تو آپ نے ان کے ہاں چھ مہینے قیام فرمایا ،یہاں سے رخصت ہوتے وقت سید جلال الدین نے محبوب العالم کو شجرہ مبارکہ اور ارشاد نامہ عنایت فرمانے کے بعد سلسلہ سہروردیہ کی تعلیم پر مامور فرمایا اور تبلیغ دین کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ابتداءمیں جناب محبوب العالم شہر خاص مخدوم منڈو کلاشپورہ میں اقامت پزیر ہوکر فیوض یزدانی اور انوارِ باطنی سے طالبانِ حق کو روشناس کرنے لگے اور اس کے بعد آپ نے کوہِ ماراں کے شمال مشرق کے ایک گوشے سے ایک مسجد شریف موسوم بہ ” ذاکر مسجد“ کی بنیا د ڈالی، یہاں سے خلق خدا کو روحانی اور دینی تربیت سے روشناس کرنے لگے۔معلوم یہ ہونا بھی ضروری ہے کہ حضرت مخدوم حمزہ کشمیری سہروردی علیہ الرحمہ کے مرشد گرامی حضرت سید جمال الدین بخاری سہروردی علیہ الرحمہ حضرت حاجی عبدالوھاب بخاری سہروردی دہلوی علیہ الرحمہ کے عظیم خلیفہ ہیں اور حضرت حاجی عبدالوھاب علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ سہروردی دہلوی کےخلیفہ ہیں جو حضرت غوث العٰلمین سیدنا غوث بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کی اولاد امجاد سے تھے۔ ( خزینۃ الاصفیا جلد ٤ ص ١٤١, ١٤٢)

 خلفائے کرام :

محبوب العالم کے خلفاءمیں جن حضرات کو شہر ت حاصل ہوئی ان میں

·       بابا دادود خاکی ،

·       بابا ہردی ریشی،

·       میر حیدر تولہ مولی۔

·       شیخ احمد چاگلی،

·       خواجہ اسحاق قاری،

·       نوروز یشی ہیں

جنہیں انھوں نے لوگوں کو سلسلہ سہروردیہ میں بیعت کرنے کی اجازت دی تھی۔

تعمیر مساجد

تحفہ محبوبی“کے مطابق محبوب العالم نے مختلف دیہات کی سیر و سیاحت کے دوران میں بہت سی مسجدیں تعمیر فرمائیں جن میں مسجد نادی ہل، مسجد اہم بنڈہ پورہ،مسجد تجر، مسجد گند پورہ، مسجد آلوسہ، مسجد گرورہ، مسجد ونہ گام۔ مسجد کرشور اور مسجد اوہن مشہور معروف ہیں ۔

وصال مبارک:

آپ نے 24صفر المظفر 984 ہجری کو رحلت فرمائی۔ آپ کو کوہ ماراں کے جنوبی گوشہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کا مزار خطئہ کشمیر میں زیارت گاہ خلق ہےبقول صاحب "تواریخ اعظمیہ" لفظ "موت مرشد" اور لفظ "آہ زائر کشتند" سےآپ کا سال تاریخ وفات نکلتا ہے "شیخ پاکان" سے بھی آپ کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔


No comments:

Post a Comment