مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ
کا اصل نام محمد بن حسین بلخی ہے۔ جلال الدین آپ علیہ
الرحمہ کا لقب ہے اور آپ علیہ الرحمہ مولانا روم
کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی ولادت 6؍ربیع الاول 604ہجری بمطابق 30؍ستمبر 1207
عیسوی کو بَلْخ میں ہوئی۔ آپ علیہ الرحمہ کا سلسلۂ نسب امیرالمؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے(نفحاتُ الانس صفحہ484
الجواہرالمضیہ جلد2 صفحہ124)
ماں کی
جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے۔ بعض نے آپ علیہ الرحمہ کے دادا کا
نام بھی محمد لکھا ہے اس طرح حسین آپ علیہ
الرحمہ کے پردادا کا نام بنتا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ حسین آپ علیہ الرحمہ کے دادا
کانام تھا۔ آپ علیہ الرحمہ کی دادی ملکۂ
جہاں شاہان خوارزم کے خاندان سے تھیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے والد کا نام محمد اور لقب
بہاؤالدین ولد علیہ الرحمہ تھا جو بڑے
صاحبِ علم و فضل بزرگ تھے۔ بہاؤ الدین ولد علیہ الرحمہ تمام علوم میں کامل و ماہر تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کے
علم و فضل کی کیفیت یہ تھی کہ اقصائے خراسان سے مشکل فتوے آپ علیہ الرحمہ ہی کے پاس آتے تھے۔ مجلس کا طریق
بادشاہوں کا ساتھا۔ سلطان العلماء کا خطاب بھی تھا۔ معمول تھا کہ صبح سے دوپہر تک
درس عام ہوتا ظہر کے بعد اپنے خاص اصحاب کے حلقے میں حقائق و معارف بیان فرماتے۔
دو شنبہ اور جمعہ کو عام وعظ فرماتے۔ ہیبت نمایاں رہتی اور ہمیشہ متفکر معلوم
ہوتے۔ یہ دور محمد خوارزم شاہ کاتھا۔
خواجہ فرید الدین عطار علیہ
الرحمہ سے آپ کی ملاقات
حضرت بہاؤ الدین ولد علیہ الرحمہ نے 610 ہجری میں نیشا پور کا سفر اختیار کیا تو
اس وقت مولانا رومی علیہ الرحمہ کی عمر
صرف چھ برس تھی اور بچپن سے ہی آپ علیہ
الرحمہ پر سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔ نیشا پور میں بہاؤ الدین ولد علیہ الرحمہ کی ملاقات خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ
سے ہوئی۔ خواجہ صاحب علیہ الرحمہ نے جب
مولانا رومی علیہ الرحمہ کو دیکھا تو بہاؤ
الدین ولد علیہ الرحمہ سے فرمایا: ’’اس کی
قابلیت سے غافل نہ ہونا‘‘ اور اپنی مثنوی ’’اسرار نامہ‘‘ مولانا کو پڑھنے کے لیے
عنایت کی۔ یہ دور قتل و غارت گری کا دور تھا۔ آپ علیہ الرحمہ ابھی گیارہ برس کے ہی تھے تا
تاریوں کا فتنہ شروع ہواجس میں ایک اندازے کے مطابق نوے لاکھ آدمیوں کاقتل عام
ہوا۔ اس دور میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ ،حضرت خواجہ فرید الدین عطار علیہ
الرحمہ ، حضرت شیخ اکبرمحی الدین عربی علیہ الرحمہ اور حضرت بو علی قلندر علیہ الرحمہ جیسے نا بغہ روزگار اولیا اللہ پیدا ہوئے۔
ابتدائی
تعلیم
مولانا جلال الدّین رومی علیہ الرحمہ ایک
عظیم المرتبت والد کے زیرِ سایہ جوان ہوئے تھے۔فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگر میرے والد
چند برس اور زندہ رہتے، تو مَیں شمس تبریز کا محتاج نہ ہوتا۔‘‘مولانا رومی علیہ
الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد، شیخ بہاء الدّین علیہ الرحمہ سے حاصل کی، پھر سید برہان الدین ترمذی علیہ
الرحمہ کے سامنے زانوئے تلمّذ طے کیے، جو اُن کے والد کے خلیفہ اور ممتاز عالمِ
دین تھے۔ والد کا انتقال ہوا تو 24 برس کے تھے، مگر حصولِ علم کا شوق ابھی باقی
تھا، لہٰذا اُس دور کے ایک بڑے علمی مرکز، دمشق چلے گئے۔
وہاں محی الدین ابنِ عربی،
شیخ سعدالدین حموی اور شیخ صدر الدّین قونوی علیہم الرحمہ وغیرہ سے بھی صحبتیں رہیں۔ حلب اور دمشق کے
علماء سے تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس لیا اور اُس علمی کمال کو پہنچے کہ مشکل
مسائل کے حل کے لیے آپؒ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری
تھا کہ اُن کے استاد اور والد کے خلیفہ، سید برہان الدین علیہ الرحمہ نے اُنھیں
قونیہ بلوا لیا تاکہ وہ والد کی مسند پر جلوہ افروز ہوں اور مدرسے کا نظم و نسق
سنبھالیں۔اُنھوں نے9 برس تک مولانا رومی علیہ الرحمہ کی روحانی تربیت بھی کی۔
علمی مقام و مرتبہ
مولانا جلال الدین رومی بہت بڑے
عالم دین، بے مثال فقیہ، مدرس اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔اُن کے مدرسے میں چار سو
سے زاید طلبہ زیرِ تعلیم تھے، جب کہ وہ دیگر مدارس میں بھی درس دیا کرتے تھے۔ یہ
وہ زمانہ تھا، جب تاتاریوں کے حملوں کے سبب علماء اور صوفیا کی ایک بڑی تعداد
قونیہ کا رُخ کر رہی تھی اور یہ شہر ایک علمی مرکز کا روپ دھار چُکا تھا، مگر ان
علماء میں مولانا جلال الدّین کی ایک الگ ہی شان تھی، وہ بڑے ٹھاٹ باٹ سے رہا کرتے
، جب مدرسے سے نکلتے، تو طلبہ اور امراء اُنھیں گھیرے ہوتے۔ لوگ فتویٰ کے لیے اُن
کی طرف رجوع کرتے۔بادشاہ اور امراء تک رسائی تھی اور وہ اُن کے پاس حاضری کو اپنے
لیے سعادت سمجھتے۔مناظروں میں کوئی اُن کے سامنے ٹھہر نہ پاتا۔نیز، عوامی اجتماعات
سے بھی خطاب کیا کرتے، جس کی بہت شہرت تھی۔
حالات زندگی
مولانا رومی علیہ الرحمہ کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں گوہر خاتون سے
ہوئی جو کہ سمر قند کے ایک با اثر شخص کی بیٹی تھی۔ ان سے آپ علیہ الرحمہ کے دو بیٹے تولد ہوئے۔ جیسا کہ پہلے
ذکر ہوچکا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اپنے والد کی ہمراہی میں628 ہجری قونیہ تشریف لے
گئے تھے۔ والد محترم کی رحلت کے بعد 630 ہجری میں مزید تکمیل علوم و اکتساب فیض کے
لئے شام کا سفر اختیار کیا اور حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین
سے علم حاصل کیا۔ مولانا اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے
بہت بڑے عالم تھے لیکن آپ علیہ الرحمہ کی
شہرت ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ علیہ الرحمہ کو پوری دسترس حاصل تھی۔ دوران
طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔
مولانا محمد جلا ل الدین رومی علیہ الرحمہ کی خدمت میں بیشمار علماء دین اور طلبا حاضر
ہوتے اور آپ علیہ الرحمہ سے علمی مسائل دریافت فرماتے تھے۔ شمس تبریز
مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے قونیہ میں ایک جا مع مسجد کی بنیاد
رکھی۔ آپ علیہ الرحمہ جب تقریر شروع کرتے
تھے تو ہزروں لوگوں کا مجمع جمع ہو جاتا تھا۔ لوگ آپ علیہ الرحمہ کی تقاریر کو تحریر کرتے اور اس
کی کتابت کرواتے آپ علیہ الرحمہ کی مسجد
کی ایک خاصیت اس مسجد سے ملحق مکتب تھا جہاں بیشمار علمی کتابیں موجود تھیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے مکتب میں روزانہ بیشمار کتب
آتیں اور بیشمار کتب علمائے کرام لیکر بھی جاتے تھے۔
حضرت
شمس تبریز علیہ الرحمہ
آپ علیہ الرحمہ بچپن ہی سے اعلی استعداد اور
جذبہ محبت کے حامل تھے۔ مناقب العارفین میں خود آپ ہی کی زبانی منقول ہے کہ ابھی
سن بلوغ کو بھی نہیں پہنچے تھے کہ نبی کریمﷺ کے عشق میں تیس تیس چالیس چالیس دن تک
غذاء کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ علوم ظاہری سے فارغ ہونے کے بعد آپ علیہ الرحمہ شیخ ابو بکر سلہ باف کے مرید
ہوئے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شیخ زین الدین سنجاسی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ بعض روایتوں میں دوسرے نام لئے گئے
ہیں۔جب آپ علیہ الرحمہ کو اس طرح سیری نہ
ہوئی تو آپ علیہ الرحمہ اطراف عالم میں مردان خدا کی تلاش میں پھرنے
لگے۔ یہ سفر اس طرح کرتے تھے کہ لوگ آپ
علیہ الرحمہ کی ولایت و کمال سے واقف نہ ہوتے تھے۔ نمدسیاہ پہنتے اور جہاں جاتے
سرائے میں قیام کرتے۔ دروازے میں قیمتی قفل لگا دیتے تھے تاکہ لوگ سمجھیں کہ کوئی
بڑا تاجر ہے۔ مگر اندر سوائے بورے کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ کثرت اسفار کی وجہ سے لوگ آپ علیہ الرحمہ کو شمس پرندہ کہنے لگے۔ تبریز،
بغداد، اردن، روم، قیصر، دمشق کا سفر فرمایا۔ معاش کا یہ طریقہ تھا کہ ازار بن لیا
کرتے تھے اور اسی کو بیچ کر کام چلاتے تھے۔ غذا کی کیفیت یہ تھی کہ دمشق میں ایک
سال رہے، ہفتہ میں ایک پیالہ سری کا شوربہ وہ بھی بنا روغن پی لیا کرتے تھے۔ کسی
کو اپنی صحبت کا متحمل نہیں پاتے تھے۔ اور دعا کرتے خدایا کوئی رفیق ایسا عطا کر
جو میری صحبت کا متحمل ہو۔
مولانا
کی ملاقات اور تغیر عظیم
آپ علیہ الرحمہ کے شیخ نے آپ سے فرمایا کہ روم جاؤ
وہاں ایک دل سوختہ ہے اسے روشن کر آؤ۔ 22؍جمادی الآخر 642 ہجری کو قونیہ پہنچے شکر
فروش کے یہاں قیام کیا۔ ایک روز دیکھا کہ مولانا علیہ الرحمہ سوار چلے آ رہے ہیں اور لوگ گرد وپیش استفادہ کر
رہے ہیں۔ شمس علیہ الرحمہ نے آگے بڑھ کر
پوچھا کہ ریاضت و علوم کی غرض کیا ہے؟ مولانا علیہ الرحمہ نے کہا آداب و شریعت کا جاننا! شمس
علیہ الرحمہ نے کہا کہ نہیں بلکہ غرض یہ
کہ معلوم تک رسائی ہو جائے۔ مولانا علیہ
الرحمہ حضرت شمس علیہ الرحمہ کو لے کر اپنے مقام پر آئے اور بقول افلاکی
چالیس روز تک حضرت شمس علیہ الرحمہ کے
ساتھ ایک حجرے میں رہے جس میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ سپہ سالار نے لکھا ہے
کہ چھ مہینہ تک صلاح الدین زرکوب کے حجرے میں دونوں بزرگ عزلت نشیں رہے۔ سوائے شیخ
صلاح الدین کے کسی کی مجال نہ تھی کہ کمرے میں داخل ہو جائے۔ شمس علیہ الرحمہ کی ملاقات نے مولانا علیہ الرحمہ کو نئی روح عطا کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شمس علیہ
الرحمہ کی ملاقات کے بعد مولانا علیہ الرحمہ نے درس و تدریس، وعظ گوئی سب یک قلم
ترک کر دی۔
شورش
عام
مولانا ہر بات میں اس طرح حضرت شمس علیہ
الرحمہ کی پیروی کرنے لگے کہ تمام تعلقات
منقطع ہونے لگے، تو یہ امر مولانا کے شاگردوں اور مریدوں پر سخت شاق گزرا۔ ایک
شورش کی کیفیت سی پیدا ہوگئی۔ ایک برہمی کے ساتھ گو نہ حیرت بھی شامل تھی۔ شمس علیہ الرحمہ کے حالات سے لوگ واقف نہ تھے۔
مریدوں کا خیال تھا کہ ہم نے عمریں مولاناکی خدمت میں گزاری ہیں۔ مولانا کی
کرامتوں کو دیکھا تمام اطراف و کناف میں آپ کی شہرت کا باعث ہوئے۔ اب ایک بے نام و
نسب شخص آیا اور مولانا علیہ الرحمہ کو سب
سے الگ کر لیا۔ آپ کی صورت تک دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔ درس و تدریس وعظ و نصیحت سب
بند ہو گئی۔ ضرور یہ کوئی مکار یا ساحر شخص ہے، ورنہ اس کی کیا ہستی ہے کہ ایک
پہاڑ کو تنکے کی طرح بہا لے جائے۔ غرض سب کے سب شمس کے دشمن ہو گئے۔ مولانا علیہ الرحمہ کے سامنے کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ ادھر
ادھر ٹل جاتے تو برا بھلا کہتے اور دن رات اسی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے کہ کسی
طرح حضرت شمس علیہ الرحمہ کو وہاں سے
نکالیں کہ پھر حسب سابق مولانا کی صحبت سے فیضیاب ہو سکیں۔
شمس
علیہ الرحمہ کی غیبت
شمس الدین علیہ الرحمہ ان لوگوں کی گستاخیوں پر تحمل کا مظاہرہ کرتے
رہے اور سمجھتے رہے کہ مولانا کی وفورِ عقیدت کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح آزردہ
ہیں۔مگر جب معاملہ حد سے تجاوز کر گیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ اب انجام اس کا فتنہ
اور فساد پر ہوگا تو آپ علیہ الرحمہ ایک
دن خاموشی کے ساتھ قونیہ سے نکل گئے۔ افلاکی نے اس غیبت اول کی تاریخ یکم شوال 643
ہجری دی ہے۔ اس طرح بار اول قونیہ میں آپ
علیہ الرحمہ کا قیام سوا برس رہا۔شمس علیہ الرحمہ کی جدائی مولانا پر بہت شاق گزری۔ مریدوں نے جو
کچھ سوچا تھا اس کے برعکس واقع ہوا۔ اس کے بجائے کہ شمس علیہ الرحمہ کے چلے جانے کے بعد مولانا ان لوگوں
کی طرف متوجہ ہوتے لیکن جو کچھ توجہ تھی وہ بھی جاتی رہی اور ان ناقصوں کی وجہ سے
اصحاب صدق و وفا بھی مولانا کی صحبت سے محروم ہو گئے۔
مولانا
علیہ الرحمہ کی بیقراری اور شمس کی واپسی
بقول سپہ سالار انقطاع کلی کی یہ حالت اس
وقت تک قائم رہی کہ دمشق سے اچانک شمس الدین علیہ الرحمہ کا خط مولانا کے نام آیا۔ اس خط کے پانے کے بعد
مولانا کی کچھ حالت بدلی اور شمس کے شوق و عشق میں سماع کی جانب متوجہ ہوئے اور جن
لوگوں نے حضرت شمس علیہ الرحمہ کے خلاف
حرکات میں شرکت نہیں کی تھی ان پر حسب سابق عنایت فرمانے لگے۔ اس عرصہ میں مولانا
نے حضرت شمس علیہ الرحمہ کی خدمت میں چار
منظوم خط لکھے۔جس میں اپنی کیفیت اور اشتیاق ملاقات کی بیتابی کا ذکر کیا ہے۔ اسی
اثناء میں شورش کچھ کم ہو گئی اور لوگوں نے شمس علیہ الرحمہ کی مخالفت ترک کر دی اور مولانا نے شمس علیہ
الرحمہ کو واپس بلانے کی تدبیر کی۔
صاحبزادے سلطان ولد سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس شاہ مقبول کی طرف جاؤ اور یہ
لے جا کر ان کے قدموں پر نثار کر دو اور میری جانب سے کہو کہ جن مریدوں نے گستاخی
کی تھی وہ صدق دل سے توبہ کرتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ جو خطائیں ہوئی ہیں
درگزر فرمائیں اور اس جانب قدم رنجہ فرمائیں۔ ان کے ہاتھ جو نیاز نامہ بھیجا ان
میں مفارقت سے اپنی حالت بیان کرتے ہیں۔ پھر سلطان ولد حضرت کو عزت و احترام
شاہانہ کے ساتھ واپس قونیہ لے آئے۔
مثنوی
روم کی تحریک
مثنوی کی تصنیف اسی زمانے کا کارنامہ ہے۔
اس میں حضرت حسام الدین کی تحریک کو بہت بڑا دخل ہے۔بلکہ یہ کہنا کچھ بیجا نہ ہوگا
کہ مثنوی کا وجود میں آنا آپ ہی کی وجہ سے تھا۔ فروز انفر نے لکھا ہے کہ مثنوی کی
تالیف چلپی حسام الدین کی طلب و فرمائش کا نتیجہ ہے۔چلپی دیکھتے تھے کہ مولانا کے
احباب شیخ عطار و سنائی کے تصنیفات و کلام کے مطالع میں مصروف رہتے ہیں۔ مولانا کی
غزلیات کا اگر چہ بڑا ذخیرہ ہے مگر اس میں حقائق و تصوف و دقائق سلوک سے زیادہ
مولانا کی گرم طبع و جوش عشق ہے۔وہ موقع کے منتظر تھے۔ایک رات مولانا کو تنہا دیکھ
کر انہوں نے عرض کیا کہ کوئی کتاب حدیقہ سنائی و منطق الطیر کے طرز پر لکھی جائے۔
مولانا نے سنتے ہی اپنے عمامہ میں سے ایک کاغذ نکالا جس میں 18 شعر لکھے تھے۔پہلا
شعر وہ جس کو مثنوی کا آغاز اور مطالع بننا نصیب ہوا۔پس یہ مثنوی کی تالیف کا آغاز
تھا۔
مثنوی
کا اثر
مثنوی نے عالم اسلام کے افکار و ادبیات
پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اسلامی ادب میں ایسی شاذ و نادر کتابیں ملیں گی جنہوں نے
عالم اسلام کے اتنے وسیع حلقہ کو اتنی طویل مدت تک متاثر رکھا ہے۔ چھ صدیوں سے
دنیائے اسلام کے مسلسل ادبی علمی اور عقلی حلقے اس کے نغمات سے گونج رہے ہیں اور
دماغ کو نئی روشنی دلوں کو نئی حرارت بخش رہی ہے۔ اس سے ہر دور میں شاعروں نے نئے
مضامین نئی زبان نیا اسلوب نکالا ہے اور وہ ان کے قوائے فکر اور ادبی صلاحیتوں کو
ابھارتی رہی۔ معلمین و متکلمین کو اپنے زمانہ کے سوالات و شبہات کو حل کرنے کے لئے
اس سے نئے نئے مسائل اور دلائل دلنشین مثالیں اور جواب کی نئی راہیں ملتی رہیں۔اس
لئے ہر دور کے اہل محبت اور اہل معرفت نے اس کو شمع محفل اور ترجمان دل بنا کر
رکھا۔
اخلاق
و خصوصیات
مولانا شبلی مرحوم سوانح مولانا روم میں
لکھتے ہیں ’’مولانا علیہ الرحمہ جب تک
تصوف کے دائرے میں نہیں آئے آپ علیہ
الرحمہ کی زندگی عالمانہ جاہ و جلال کی ایک شان رکھتی تھی۔ ان کی سواری جب نکلتی
تھی تو علماء اور طلباء بلکہ امراء کا ایک بڑا گروہ رکاب میں ہوتا تھا۔ سلاطین و
امراء کے دربار سے بھی ان کو تعلق تھا۔ لیکن سلوک میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ
حالت بدل گئی۔ درس و تدریس، افتاء و افادہ کا سلسلہ اب بھی جاری تھا لیکن وہ پچھلی
زندگی کی ایک محض یادگار تھی ورنہ زیادہ تر محبت و معرفت کے نشہ میں سرشار رہتے
تھے۔‘‘
ریاضت
و مجاہدہ
ریاضت و مجاہدہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔ سپہ
سالار برسوں ساتھ رہے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے ان کو کبھی شب خوابی کے لباس
میں نہیں دیکھا۔ بچھونا اور تکیہ بالکل نہیں ہوتا تھا۔ قصدًا لیٹتے نہیں تھے۔ نیند
غالب ہوتی تو بیٹھے بیٹھے سو جاتے۔ روزہ اکثر رکھتے تھے اور کئی کئی روز مسلسل کچھ
نہ کھاتے تھے۔
نماز
کی کیفیت
نماز کا وقت آتا تو فوراً قبلہ کی طرف مڑ
جاتے اور چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ نماز میں نہایت استغراق ہوتا۔ سپہ سالار کہتے ہیں
کہ بارہا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اول عشا کے وقت سے نیت باندھی اور دو
رکعتوں میں صبح ہوگئی۔
زہد
و قناعت
مزاج میں انتہائی درجہ کی زہد و قناعت
تھی۔تمام سلاطین و امراء نقدی اور ہر قسم کے تحائف بھیجتے تھے لیکن مولانا علیہ الرحمہ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے۔ جو
چیز آتی اسی طرح صلاح الدین زرکوب یا چلپی حسام الدین کے پاس بجھواتے۔ کبھی کبھی
ایسا ہوتا کہ گھر میں نہایت تنگی ہوتی اور مولانا کے صاحبزادے سلطان ولد اصرار
کرتے تو کچھ رکھ لیتے۔جس دن گھر میں کھانے کا سامان کچھ نہ ہوتا تو بہت خوش ہوتے اور
فرماتے کہ ہمارے گھر میں درویشی کی بو آتی ہے۔
فیاضی
و ایثار
فیاضی اور ایثار کا یہ حال تھا کہ کوئی
سائل سوال کرتا تو جو کچھ ہوتا اتار کر دے دیتے تھے۔
روحانی
مکتبہ فکر
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے
کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس
لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام،
مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل
بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد
تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر
عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل
کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر
اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا
نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف بھی بجاتے ہیں۔
وجہ
شہرت
جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں
لکھیں۔ مثنوی، فیہ مافیہ اور دیوانِ شمس تبریزآپ کی مشہور تصانیف ہیں جن میں سب سے
زیادہ شہرت مثنوی کو حاصل ہوئی جو مثنوی مولانا روم کے نام سے مشہور ہے اور یہی
کتاب آپ کی وجہ شہرت بنی۔ آپ کے کلام کا نمونہ پیش خدمت ہے۔ باقی ایں گفتہ آید بے
زباں ....در دل ہر کس کہ دارد نورِ جان(ترجمہ: جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی
کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خودبخود اتر جائے گا)۔
فیہ ما فیہ مولانا کی فارسی نثر میں لکھی
ہوئی کتاب ہے جو 72 مقالات پرمشتمل ہے۔ فارسی ادب میں ساتویں صدی ہجری کی شاہکار
کتا ب تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ آرتھر جان اربری نے 1961ء میں
کیا۔ دیوانِ شمس تبریز جسے دیوانِ کبیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مولانا رومی
علیہ الرحمہ کا شعری دیوان ہے جسے مولانا
نے اپنے شیخِ کامل شمس تبریز رحمۃ اﷲ علیہ کی عقیدت میں ان کو خراجِ تحسین پیش
کرنے کے لیے مرتب کیا۔ مثنوی آپ کی وہ کتاب ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا۔ علما، صوفیا،
تاریخِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے محققین اور ادیب اس کتاب کی تعریف میں رطب
اللسان ہیں۔ مولانا عبد الرحمن جامی رحمۃاﷲ علیہ نے آپ علیہ الرحمہ کی اس کتاب کوان الفاظ میں خراجِ
عقیدت پیش کیا ہے ’’مثنوی ٔ مولوی ِ معنوی ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘ (یعنی مولانا
رومی کی (کتاب) مثنوی معنوی فارسی زبان میں قرآن ہے۔)مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ نے
مثنوی میں وہ اسرارو رموز اور حقائق بیان کیے ہیں جس سے ہر زمانے کے علماء نے
استفادہ کیا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے حکایات
و واقعات کے آسان پیرائے میں معارف کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو آسانی سے دل میں
اتر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما و صوفیا نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور باقاعد
گی سے دروسِ مثنوی کا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب دل کے اندر سوزو گداز اور تڑپ پیدا
کردیتی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا رومی علیہ
الرحمہ نے خود اس کے متعلق فرمایا ہے کہ
میں نے اس میں قرآن کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔
’’ما ز قرآں مغز را
برداشتیم
پوست را بہرِ خراں بگذاشتیم‘‘
(ترجمہ: ہم نے قرآن سے
مغز نکال کر پیش کر دیا ہے اور چھلکے کو گدھوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔)
آخری
وصیت
مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے آخری وصیت یہ فرمائی ’’میں تم کو وصیت کرتا
ہوں کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن میں ڈرتے رہو، کھانا تھوڑا کھاؤ، کم سو، گفتگو کم
کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو، رات کو قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،
لوگوں کا ظلم برداشت کرو، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس ترک کردو، نیک بختوں اور
بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ بہتر کلام وہ
ہے کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔ (نفحات الانس صفحہ 488)
وصال مبارک:
5 جمادی الثانی کو 572ہجری کو بوقت غروب آفتاب حقائق و معارف بیان فرماتے ہوئے انتقال فرمایا۔ انتقال کے وقت مولانا علیہ الرحمہ کی عمر 68 سال 3 ماہ تھی۔ آپ علیہ الرحمہ کے جنازے کو جب باہر لائے تو قیامت کا ازدہام برپا ہو گیا۔ ہر قوم و ملت کے لوگ ساتھ تھے۔ سب روتے جاتے یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل پڑھتے جاتے۔ مسلمان ان کو ہٹاتے مگر وہ باز نہیں آتے۔فساد کا اندیشہ ہوا۔جب یہ خبر معین الدین پروانہ کے حاکم کو پہنچی تو اس نے راہبوں اور قسیسوں سے پوچھا کہ تمہیں اس امر سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے انبیاء سابقین کی حقیقت کو ان کے بیان سے ہی سمجھا ہے۔ وہ لوگ اسی طرح تابوت کے ساتھ رہے۔ ہجوم کی حالت یہ رہی کہ تابوت صبح سویرے مدرسہ سے روانہ ہوا تھا۔ اور شام کے قریب قبرستان پہنچا۔ آخر بوقت شب یہ آفتاب فقر و تصوف دیدۂ ظاہر سے نہاں ہو گیا۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون
No comments:
Post a Comment