Syed Muhammad Banda Nawaz Ghaisu Daraaz

خواجہ  صدرالدین  ابوالفتح سید محمد بندہ نواز گیسودراز قدس سرہ
حضرت خواجہ گیسودراز بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں آپ کا نام سید محمد الحسینی کنیت ابوالفتح اور القابا ت بندہ نواز گیسودراز ہیں آپ کی ولادت باسعادت 4 رجب المرجب 720 ہجری صبح کے وقت دہلی میں ہوئی آپ کے والد محترم کا نام سید یوسف حسینی راجا المشہور راجوقتال تھا جو نہایت متقی اور پر ہیز گار انسان تھے ۔
آپ نے ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی 11 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور دولت آباد کی مسجد میں محراب سنائی آپ کے اساتذہ میں قاضی عبدالمقتدر بن قاضی رکن الدین شریحی کندی، مولانا امام ہمام تاج الدین بہادر اور سید شریف الدین کتیلی وغیرہ ہم شامل ہیں ۔
 باطنی علوم کے حصول کے لئے آپ نے سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ  کے خلیفہ حضرت شیخ نصیر الدین محمود  روشن چراغ دہلوی کے دست مبارک پر بیعت  کی آپ  کو اپنے شیخ سے بڑی عقیدت و محبت تھی آپ ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضررہتے تھے۔ آپ  گیسو دراز کے لقب سے مشہور ہیں  اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی  اپنے مشہور کتاب اخبارالاخیار میں لکھتے ہیں :
شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی جس طرح دوسرے مرید اٹھاتے تھے اسی طرح سید محمد بھی اٹھایا کرتے تھے ایک دن آپ اپنے شیخ کی پالکی اٹھانے لگے تو اس کے ایک حصہ میں آپ کے بال الجھ گئے اگر نکالتے تو دیر لگتی اور اس سے شیخ کے کبیدہ خاطر کا خطرہ محسوس کرتے تھے اس لئے شیخ کے عشق و محبت میں اسی کیفیت سے چلتے رہے بہت فاصلہ طے کرجانے کے بعد جب شیخ کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور آپ  کی اس سچی محبت اور پکی عقیدت پر آفرین کہا اور یہ شعر پڑھا:
ترجمہ: جو کوئی سید گیسودراز کا مرید ہوگیا ۔ بخدا اس میں شک نہیں کہ وہ پکا عاشق ہوگیا۔
(حوالہ : اخبارالاخیار صفحہ 285)
  کئی سارے روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ گیسودراز کا لقب آپ کے پیر ومرشد کا عطا کردہ ہے آپ حضرت روشن چراغ دہلوی کے خلفاء میں تھے اور شیخ آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے حضرت سید محمد گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ علمیت وروحانیت میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے آپ کے کثیر تصانیف اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں تذکرہ خواجہ  گیسودراز کے مصنف نے اپنی کتاب کے  صفحہ 69 پر آپ کی کتب کی فہرست لکھی گئی ہے جو یہ ہے:
ê ملتقط بہ قلب سلوک ( تفسیر قرآن)
ê تفسیر ثانی بطریق کشاف
ê حواشی کشاف
ê شرح مشارق (درسلوک)
ê ترجمہ مشارق
ê معارف شرح معارف
ê ترجمہ عوارف
ê شرح تعارف
ê شرح فصوص الحکم
ê شرح آداب المریدین ( فارسی وعربی)
ê شرح تمہیدات عن القضاہ
ê وجود العارفین
ê روئیت ربی
ê شجرہ نسب (جس میں ستر کتابوں کے حوالے ہیں)
ê شرح رسالہ قشیریہ (فارسی)
ê بیان بود ہست
ê استقامت شریعت بہ طریق حقیقت
ê خطائر القدس المعروف عشق نامہ
ê تلاوت الوجود (عربی)
ê  ورالاسرار (عربی)
ê عروج ونزول
ê روئیت
ê سبیل المحققین والمجذوبین
ê سیرۃ النبی
ê اورادنامہ
ê شرح فقہ اکبر  (فارسی)
ê شرح قصیدہ امالی (عربی وفارسی)
ê شرح قصیدہ حافظیہ
ê فضائل خلفائے راشدین
ê حواشی قوت القلوب
ê عقیدہ حدائق الانس
ê آداب سلوک
ê اشارہ محبان حق
ê مراقبہ
ê معرفت رب العزت
ê کتاب الاسماء
ê ضرب الامثال
ê خلافت نامہ
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں یہ تمام کتب آپ کی موجود پائی گئی ہیں ان کے علاوہ آپ کے مکتوبات و ملفوظات ہیں جو آپ کے مریدین نے جمع کئے ہیں ۔                        (حوالہ:  خواجہ گیسودراز صفحہ 69)
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان اوحدالدین  سید اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ النورانی  فرماتے تھے کہ جب ہم حضر ت سید محمد گیسوداز کی ملازمت سے مشرف ہوئے تو حقائق و معارف کی وہ مقدار جو آپ سے حاصل ہوئی دوسرے مشائخ سے نہیں حاصل ہوئی سبحان اللہ کیا قوی جذبہ رکھتے تھے ایک عرصے تک دکن میں آپ سے ملاقات رہی اور دومرتبہ اس دیار میں علائی قافلہ پہونچا۔
(حوالہ: لطائف اشرفی  حصہ اول 568)
لطائف اشرفی میں ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی حضرت گیسودراز سے ملنے دو مرتبہ گلبرگہ شریف گئے اور آپ کی صحبت سے بہت فیض حاصل کیا گلبرگہ میں قیام کے دوران آپ ہمہ وقت حضرت گیسودراز کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور آپ کے ملفوظات عالیہ سے مستفیض  ہوتے تھے ۔
صحائف اشرفی میں ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا کہ سفر میں جب شہر گلبرگہ میں گزر ہوا اس دیار کے دامن کوہ میں ایک عزیز گوشہ نشین تھا ۔ دریافت کرنے سے معلوم ہو اکہ سات سو (700) برس کی عمررکھتے ہیں ۔ اگلے زمانہ کی عجائب وغرائب کی باتیں کرتے تھے ان کے پاس ایک انگوٹھی تھی ۔اس کا عجیب خاصہ تھا کہ جب اس نگینہ کو اپنی طرف کرتے لوگوں کی نظر سے غائب ہوجاتے تھے اور جب نگینہ اس کا باہر کی طرف کرتے آپ ظاہر ہوجاتے ۔وقت رخصت ایک شغل کی تعلیم فرمائی کہ جس کے شرح و بیان سے باہر ہے۔             
 (صحائف اشرفی حصہ اول  صفحہ 157)
اس دیار میں ہر جگہ عمدہ باغات اور نفیس کیاریاں بکثرت تھیں آپ کو ولایت گلبرگہ بہت پسند تھی آپ اس کو گلبرکہ فرمایا کرتے تھے۔
وصال مبارک:  حضرت خواجہ گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں گزاری آپ کے سینے میں عشق الہی کی آگ روشن تھی  یہی وجہ  تھی کہ جس نے بھی آپ سے فیض حاصل کیا اس کا سینہ معرفت و عشق الہی کا خزینہ بن گیا ساری زندگی علوم و معرفت کے خزانے لٹانے کے بعد 16 ذی القعدہ 825 ہجری بعمر ایک سو پانچ سال چار ماہ بارہ دن بروزدوشنبہ بوقت صبح اس دار فانی سے عالم جاویدانی کی طرف کوچ فرمایا۔ مزار مبارک دکن گلبرگہ میں مرجع خلائق ہے۔


Hazrat Abu Al Razaa Baba Ratan Hindi

صحابی رسول حضرت ابوالرضابابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ
حضرت ابوالرضا بابا رتن رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ حضور نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں اور آپ نے براہ راست بارگاہ رسالت سے فیض حاصل کیا اور پھر اسے آگے پھیلایا جلیل القدر علماء صوفیا ء نے آپ سے کسب فیض کیا ۔" حضرت ابوالرضا المعروف رتن بابا رضی اللہ عنہ ریاست پٹیالہ کے شہر بتھنڈا ضلع فیروزآباد ( ہند وستان ) میں رہتے تھے آپ رسول ﷺ کے زمانے میں پیدا ہوئے اور ہندوستان سے عرب جاکر رسول خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے تقریباً آٹھ سو سال عمر پائی"۔                                                  (حوالہ: مراۃ الاسرار صفحہ 656)
تاریخ میں ہے خط ہند چاند دوٹکڑے دیکھا گیا لیکن اس وقت بھی اس خطہ میں اس معجزہ کی تصدیق اسے نصیب ہوئی جس کا ازل سے ستارہ سفید تھا ان میں ایک بابا رتن ہندی  بھی تھے ۔آپ پہلے ہندوستانی ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوکر دین اسلام قبول کیا  جس کے لئے بعد میں تاجدارعرب و عجم ﷺ نے طویل عمر کی دعا کی جو چھ سو بتیس سال تک زندہ رہے ۔
آپ کی عمر شریف میں اختلاف ہے مختلف مؤرخین نے تقریباً   آٹھ سوسال اور چھ سو بتیس سال لکھے ہیں  جیساکہ صاحب قاموس اور دیگر مؤرخین اسلام نے کتب و تواریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے جلد اول "کتاب الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ " میں بابا رتن ہندی کے حالات زیادہ تفصیل سے لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ بابا رتن  ہندی نے چھ سو بتیس سال کی عمر میں انتقال فرما یا ۔
675 ہجری میں محمود بن بابا رتن ہندی نے خود اپنے والد کی تفصیلی حالات اور ان کا " معجزۂ شق القمر " کا مشاہدہ کرنا ، ہندوستان سے بلادعرب جانا اور مشرف اسلام ہونا بیان کیا ہے ۔ فاضل ادیب صلاح الدین صفوی نے انپے تذکرہ میں لکھا ہے اور علامہ شمس الدین بن عبدالرحمن  صانع حنفی نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے قاضی معین سے 737 ہجری میں سنا کہ قاضی نورالدین بیان کرتے ہیں کہ میر ے جد بزگوار حسن بن محمد نے ذکر کیا ہے کہ مجھ کو سترھواں برس تھا جب میں اپنے چچا اور باپ کے ساتھ بسلسلہ تجارت خراسان سے ہندوستان گیا اور ایک مقام پر ٹھہرا جہاں ایک عمارت تھی دفعتہً قافلہ میں شور و غل پیدا ہوا دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ عمارت بابا رتن کی ہے وہاں ایک بہت بڑا درخت تھا جس کے سائے میں بکثرت لوگ آرام پاسکتے تھے جب ہم اس درخت کے نیچے گئے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ اس درخت کے نیچے جمع ہیں ۔ہم بھی اسی غول میں داخل ہوئے ہم کو دیکھ لوگوں نے جگہ دی جب ہم درخت کے نیچے بیٹھ گئے ایک بڑی سی زنبیل درخت کی شاخوں میں لٹکی ہوئی دیکھی دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس میں بابا رتن ہیں جنہوں نے رسالت مآب ﷺ کی زیارت کی ہے۔ حضور ﷺ نے ان کے لئے چھ مرتبہ طویل عمر کی دعاکی ۔ یہ سن کر ہم نے ان سے کہاکہ زنبیل اتاروتاکہ ہم اس شخص کی زبان سے کچھ حالات سنیں۔
تب ایک مرد بزرگ نے اس زنبیل کو اتارا زنبیل میں بہت سی روئی بھری ہوئی تھی جب اس زنبیل کا منہ کھولا کیا تو بابا رتن نمودار ہوئے جس طرح مرغ یاطائر کا بچہ روئی کے پہل سے نکلتاہے  پھر اس شخص نے بابا رتن کے چہرہ کو کھولا اور ان کے کان سے اپنا منہ لگاکر کہا کہ جد بزرگوار یہ لوگ خراسان سے آئے ہیں ان میں اکثر شرفاء اوراولاد پیغمبر ہیں ان کی خواہش ہے کہ آپ ان سے مفصل بیان کریں کہ آپ نے کیونکررسول خداﷺ کو دیکھا اور حضور ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا تھا ۔ یہ سن کر بابا رتن ہندی نے ٹھنڈی سانس بھری اور اس طرح زبان فارسی میں تکلم کیا جیسے شہد کی مکھی بھنبھناتی ہے۔
بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کا بیان: میں اپنے باپ کے ساتھ کچھ مالِ تجارت حجاز لے کر گیا اس وقت میں جوان تھا جب مکہ کے قریب پہونچابعض پہاڑوں کے دامن میں دیکھا کہ کثرت بارش سے پانی بہ رہا ہے وہیں ایک صاحبزادے کو دیکھاکہ جن کانہایت غمگین تھا رنگ کسی قدر گندم گوں تھا اور دامن کو ہ میں اونٹوں کو چرارہاتھا۔
بارش کا پانی جو ان کے اونٹوں کے درمیاں زور سے بہہ رہا تھا ۔ اس سے صاحبزادے کو خوف تھا کہ نکل کراونٹوں تک کیسے پہنچوں۔ یہ حال دیکھ کر مجھےملال ہوا اور بغیر اس خیال کے میں ان صاحبزادے کو جانتا پہچانتا اپنی پیٹھ پر سوار کرکے اور سیلاب کو طے کرکے ان کے اونٹوں تک  پہنچادیا جب میں اونٹوں کے نزدیک پہنچ گیا تو میری طرف بنظر شفقت دیکھا اور تین مرتبہ فرمایا :
 بارک اللہ فی عمرک                                                                                          اللہ جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
بارک اللہ فی عمرک                                                                                              اللہ جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
بارک اللہ فی عمرک                                                                                              اللہ جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
  میں وہیں ان صاحبزادہ کو چھوڑ کر چلاگیااور مال تجارت فروخت کرکے اپنے وطن واپس آگیا۔
ظہور معجزئہ شق القمر: وطن واپس آنے کے بعداپنے کاروبار میں مگن ہوگیا اس پر کچھ زمانہ گزرگیا کہ حجاز کا خیال ہی نہ رہا۔ ایک شب میں اپنے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ چودہویں رات کا چاند آسمان پر چمک رہاتھا دفعتہً کیا دیکھتا ہوں کہ چاند کے دوٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا مشرق میں غروب ہوگیا اور ایک مغرب میں ۔ ایک ساعت تک تیرہ تاریک رہی رات اندھیری معلوم ہوتی تھی ۔ وہ ٹکڑا جو مشرق میں غروب ہوا تھا اور وہ ٹکڑا جو مغرب میں غروب ہوا تھا اور وہ مغرب سے نکلا تھا آسمان پر آکر مل گئے چاند اصلی حالت میں ماہ کامل بن گیا ۔ میں اس واقعہ سے بڑا حیران تھا اور کوئی سبب اس عقل میں نہیں آتاتھا یہاں تک کہ قافلہ ملک عرب سے آیااس نے بیان کیا کہ مکہ میں ایک شخص ہاشمی نے ظہور کیا ہے او ردعویٰ کیا ہے کہ میں تمام عالم کے واسطے خداکی طرف سے پیغمبر مقرر ہوں اہل مکہ نے دعویٰ کی تصدیق میں مثل دے دیگر معجزات انبیاء کے معجزہ طلب کیاکہ چاند کو حکم دے کہ آسمان پر  دو ٹکڑے ہوجائے ایک مشرق میں غروب ہو اور ایک مغرب میں اور بھر دونوں اپنے اپنے مقام سے آکر آسمان پر ایک ہوجائے جیساکہ تھا اس شخص نے بقدرت خدا ایسا کرکے دکھایا ۔ جب مجھ کو یہ کیفیت معلوم ہوئی تو میں نہایت مشتاق زیارت ہو اکہ خود جاکر اس شخص کی زیارت کروں چنانچہ میں سفر کا سامان درست کیا اور کچھ مال تجارت ہمراہ لے کر روانہ ہوا اور مکہ میں پہنچ کر اس شخص کا پتہ دریافت کیا لوگوں نے مکان اور دولت کدہ کا نشان بتایا ۔ میں دروازے پر پہونچا اور اجازت طلب کرکے داخل حضوری ہو اتو میں نے دیکھا کہ وہ شخص وسط خانہ میں بیٹھا  ہوا ہے۔ چہرہ نورانی چمک رہا ہے اور ریش مبارک سے نورسامع ہے ۔ پہلے سفر میں میں نے جب دیکھا تھا اور اس سفر میں جو میں نے دیکھا مطلق نہیں پہچانا کہ یہ وہی صاحبزادے ہیں جن کو میں نےاٹھاکر سیلاب سے باہر نکالا تھا ۔ جب میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور مجھے پہچان لیا اور فرمایا  وعلیک السلام ادن منیاس وقت ان کے پاس ایک طبق پرازرطب رکھا تھا اور ایک جماعت اصحاب کی گرد بیٹھی ہوئی تھی اور نہایت  تعظیم کے ساتھ ان کا احترام کررہی تھی ۔ یہ دیکھ کر میرے دل پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ میں آگے نہ بڑھ سکا۔ میری یہ حالت دیکھ کر انہوں نے فرمایا " میرے قریب آ۔ پھر انہوں نے فرمایا کھانے میں موافقت کرنا متقضیات مروت ہے اور باہم نفاق کا پیدا کرنا ہے ۔ بے دینی و زندقہ ہے۔یہ سن کر میں آگے بڑھا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور کھانے میں رطب کا شریک ہوا ۔وہ اپنے دست مبارک سے رطب اٹھا کر اٹھا کر مجھے عنایت فرماتے تھے علاوہ اس کے جو میں نے اپنے ہاتھ سے چن چن کر کھائے چھ رطب انہوں نے عنایت فرمائے پھر میری طرف دیکھ کر بہ تبسم اشارہ فرمایا کہ تونے مجھے نہیں پہچانا میں نے عرض کیا کہ مجھے مطلق یادنہیں شاید کہ میں نہ ہوں ۔ انہوں نے فرمایا کہ تونے اپنی پیٹھ پر سوار کرکے مجھے سیل رواں سے پار نہیں اتارا تھااور اونٹوں کی چراگاہ تک نہیں پہونچایا تھا۔ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ اے نوجوان خوش رو بے شک صحیح ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا داہنا ہاتھ بڑھامیں نے اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا انہوں نے بھی اپنا ہاٹھ بڑھایا اور مصافحہ کرکے ارشاد فرمایا  اشھد ان لا الہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ (ﷺ) میں نے اس کو ادا کیا ۔ حضورﷺ بہت مسرور ہوئے جب میں رخصت ہونے لگا تو حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا  بارک اللہ فی عمرک میں آپ سے رخصت ہو امیرادل بسبب ملاقات اور بسبب حصول شرفِ اسلام بہت مسرور تھا ۔ حضرت محمد ﷺ کی دعا کو حق تعالیٰ نے مسجاب فرمایا اس وقت عمر شریف چھ سو برس سے کچھ زیادہ ہے اس بستی میں جتنے لوگ ہیں وہ میری اولاد اور اولاد کی اولاد ہیں۔
(بحوالہ:ہندوپاک نگاہ نبوت میں صفحہ 23 تا 26)
حضرت شیخ ابولرضا بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا کچھ لوگوں نے انکار کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہجرت  نبوی سے تین سو بیس سال بعد پیدا ہوئے صاحب مراۃ الاسرار نے ان انکا ر کرنے والوں میں میر جمال الدین محدث کا نام ذکر کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک دومستند ہستیاں اس بات پر شاہد ہیں ایک حضرت شیخ علاؤ الدولہ سمنانی اور دوسرے غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی مکتوبات اشرفی میں سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نے 28 ویں مکتوب میں ان کا ذکر ہے آپ لکھتے ہیں :
جب میں حضرت بابا رتن ہندی کے پاس پہونچا یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے صرف ایک واسطہ سے حضرت علیہ السلام سے خرقہ  پہنا جس وقت کہ حضرت علاؤالدولہ سمنانی کے پاس پہونچا تو ان سے ظاہری و باطنی استفادہ کیا آپ فرماتے ہیں کہ میں حضرت بابا رتن سے غرائب آثار وعجائب اسرارپایا ۔ جب بابا سفر آخرت فرمانے لگے ۔ صندوق کھولا اور اس میں سے ایک سو چودہ خرقہ نکالاجوکہ اکابرمتعددہ سے حاصل ہوئے تھے خرقہ نامی اکابرین سےحاصل کیا تھا اور ایک مربع چند لکڑیوں پر مشتمل جوکہ لپٹاہوا شانہ نکالا اس پر لکھا تھا ھذا مشط من امشاط رسول اللہ ﷺ  یعنی یہ شانہ رسول اللہ ﷺ میں سے ایک ہے جب کھولا تو ایک کلید ( کنگھا) دندان سے پُر تھا اس جگہ التفات و بسیا ر توجہات بیشمار اس  درویش پر فرمایا  اور سالہائے کثیرہ حالہائے کبیرہ میں اپنی صحبت سے جدا کیا ایام قریب میں سفر آخرت کے سبب اعزلافاق سید عبدالرزاق کے سپرد کیا ۔                                                        ( حوالہ: مکتوبات اشرفی)
بہرحال حضرت بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کی صحابیت مسلم ہے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں۔
ê بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کا قصہ جو 600 ہجری میں ظاہر ہوااور دعویٰ لقائے نبوی ﷺ کیا نفحات الانس میں مذکور ہے۔
ê حضرت علامہ مجدد الدین شیرازی صاحب قاموس نے ان کو صحابہ میں شمار کرتے ہیں۔
ê حضرت شیخ علاؤ الدولہ سمنانی قدس سرہ النورانی  اور غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کا ان سے ملاقات کرنے اور اس پر فخر کرنے اور نسبت اخذ خرقہ کا ان سے ثابت کرنے قصص لطائف اشرفی میں مذکور ہیں۔  (بحوالہ : طویل العمر لوگ  صفحہ 19)
غوثیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے حضرت سیدنا ابوالرضا حاجی رتن ابن ہندی رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ﷺ تھے ، کے دیدار و ملاقات کا شرف بھی حاصل فرمایا ۔ چنانچہ حضرت مخدوم سمنانی رضی اللہ عنہ ہی کا ارشاد ہے :"وقتی کہ ایں بملازمت حضرت ابوالرضا رتن رسید داز انواع لطائف ایشاں بہر مند شد ہ یک نسبت خرقہ ایں فقیر بحضرت رتن میر سد وادرابحضرت رسول اللہ ﷺ۔                         (حوالہ: لطائف اشرفی جلد 1 ص 378)
اس لحاظ سے آپ تابعی ہوئے اور اس امتیازی وصف نے حضرت مخدوم قدس سرہ کی ذات گرامی کو جملہ مشائخ کے درمیان منفرد اور بے مثال بنادیا ۔ حضرت حاجی رتن  رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو :
 (علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب " الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ " صفحہ 225 تا 232 اور اجمالی کے لئے ، اذکار ابرار صفحہ 26،27)
وصال مبارک : معتبر روایا ت کے مطابق آپ کا وصال ساتویں صدی ہجری میں ہوا مزار مبارک قصبہ بتھنڈا ضلع فیروز آباد ہندوستان میں مرجع خلائق ہے۔