Khanqah Ashrafia Hasania Sarkar e Kalan Qist No. 05

خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں کی تعمیر
اعلیٰ حضرت سید علی حسین اشرفی میاں  نے غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی درگاہ سے کچھ فاصلے پر ایک خانقاہ قائم کی اور اس کا نام "خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں" رکھا آپ نے یہاں رشد و ہدایت کی سلسلہ شروع کیا۔ ذکر وفکر مراقبہ اور دیگر معمولات مشائخ طریقت اس میں جاری کئے آپ ہر سال 28/29 محرم الحرام  کو غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے عرس کی تقریبات اسی خانقاہ میں ادا فرماتے رہےاور اب بھی تمام تقریبات ادا کی جاتی ہے۔
وظائف اشرفی میں لکھا ہے " اعلیٰ حضرت قبلہ و کعبہ 1297 ؁ ہجری میں مسند سجادہ نشینی پر متمکن ہوئے اور سال مذکورہ کی 28 محرم الحرام کو خرقہ خاندانی جو حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کا عطیہ ہے زیب تن فرمایا ۔                                              (بحوالہ وظائف اشرفی حصہ اول صفحہ7)
آپ کے مریدین  ہندوستان ، پاکستان  ، نیپال اور بنگلہ دیش کے دیگر شہروں سے آکریہیں عرس میں شرکت کرتے ہیں آپ نے اس خانقاہ میں ایک بھی قائم کی تھی جس میں دنیا بھر سے کتب منگواکر جمع کیں ان کتب میں بہت سی قدیم نایاب کتابیں بھی ہیں جو عظیم علمی سرمایہ ہیں آپ تا حیات اس خانقاہ کے سجادہ نشین رہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
 حاجی الحرمین الشریفین  مخدوم الآفاق سید عبدا لرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی  7 ذی الحجہ                      872؁ ہجری میں وصال فرمایا ۔ معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سید عبدالرزاق نورالعین نے اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادگان کو تبرک اور مختلف علاقوں کی ولایت عطافرمادی تھی اور ان کے لئے مقام تجویز کردیئے تھے تاکہ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرسکیں،چنانچہ بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن کو اپنا جانشین بنایا اور ولایت کچھوچھہ عطا کیا دوسرے صاحبزادے سید شاہ حسین کو ولایت جونپور عطا کی تیسرے صاحبزادے سید شاہ احمد کو ولایت جائس رائے بریلی اور چوتھے صاحبزادے سید شاہ فرید کو ولایت بارہ بنکی عطا کی اس طرح آپ نے تمام صاحبزادگان کو علاقے عطافرمائے لیکن اپنا جانشین سید شاہ حسن کو ہی بنایا ۔ہماری اس بات کی حیات محدث اعظم ہند کے مصنف کی اس تحریر سے ہوتی ہے وہ  لکھتے ہیں :
"حضرت نورالعین پاک نے ہر وجہہ اور ہر لحاظ سے اکبریت حسن کا خاص خیال کھتے ہوئے اپناقائم مقام خلیفہ اور سجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر کو بنایا اور خدمت آستانہ و جاروب کشی بھی ان کے سپرد فرمائی جیساکہ مولانا صالح رودولوی خلیفہ سید شاہ کرم اللہ اشرف جائسی اپنے رسالہ"خلافت نامہ اشرفیہ" میں تحریر کرتے ہیں " چنانچہ حضرت نورالعین وقت وفات خدمت جاروب کشی بخلف اکبر سپردند وسید حسین رابجون پوروسید احمد رابجائس وسید فرید رابردولی فرستادہ وصیت بجاآورند" اس بیان سے یہ حقیقت رونما ہوگئی کہ حضرت حاجی الحرمین الشریفین شیخ الاسلام والمسلمین سید عبدا لرزاق نورالعین کی وفات کے بعد درگاہ کچھوچھہ شریف کے تنہا واحد حقیقی اصلی اور جائزسجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں تھےسید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں کے عہد سجادگی میں ان کے چھوٹے بھا ئی سید شاہ حسین ایک عرصے کے بعد ولایت جونپور سے درگاہ کچھوچھہ شریف بغرض چلہ کشی پہنچےاور پھر مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایاولایت جونپور چھوڑنے کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ"چوں بست ودومواضع ازبعض معتقدین بفتوح دارندحصہ سید حسین خلف ثانی نیز درآن قراریافت بدیں وجہہ تعلق سکونت کچھوچھہ اختیارکردند"۔     (بحوالہ نامہ اشرفیہ)
بہرحال ! سید شاہ حسین ثانی جب کچھوچھہ شریف پہونچے تو بڑے بھائی کی محبت و شفقت نے انہیں پناہ دی اور مستقل رہنے کی اجازت بھی ان کی بے نفسی وسیع القلبی اور والہانہ تعلق خاطر کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ خود تمام حقوق رکھنے کے باوجود تنہامراسم عرس اداکریں اور چھوٹے بھائی کے نام کا چراغ روشن نہ ہو لہذا انہوں نے بکمال اخلاص و محبت اپنے چھوٹے بھائی سید شاہ حسین کو 27محرم الحرام کی تاریخ برائے ادائیگی مراسم عرس مرحمت فرمائی اور اپنے لئے 28 محرم الحرام یعنی عرس حضرت مخدوم صاحب کی خاص تاریخ محفوظ رکھی اس طرح سید شاہ حسین خلف ثانی کو سید شاہ حسن  خلف اکبر سرکار کلاں کے بخشندہ یا مرحمت کردہ حقوق سجادہ نشینی حدوددرگاہ کچھوچھہ شریف ملے ورنہ نورالعین نے انہیں ولایت جونپور کا سجادہ نشین نامزد فرمایا تھا۔                (حیات محدث اعظم ہند، ناشر الاشرف اکیڈمی صاحب گنج بہار)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام والمسلمین مخدوم الآفاق حاجی الحرمین الشریفین سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن ہی درگاہ کچھوچھہ شریف  کے سجادہ نشین تھے لیکن جب ان کےچھوٹے بھائی سید شاہ حسین ولایت جونپور چھوڑکر کچھوچھہ شریف آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جگہ دی بلکہ مراسم عر بھی تقسیم کرلیں چنانچہ 27 محرم الحرام کو سید شاہ حسین درگاہ شریف میں مراسم عرس ادا کرتے ہیں اور اصل تاریخ یعنی 28 محرم الحرام کو سید شاہ حسن جو درگاہ شریف کے سجادہ نشین تھے مراسم عرس ادا فرماتے تھے یہ سلسلہ عرصہ دراز تک اسی طرح جاری رہا۔ انہی دونوں بھائیوں کی اولادیں میں جلیل القدر علماء صوفیاء گرزے جنہوں نے اپنے علم وفضل اور روحانیت کے ذریعے تبلیغ دین کا فر ائض بحسن و خوبی انجام دیااور ان کے ذریعے سلسلہ اشرفیہ کی اشاعت کماحقہ ہوئی ۔حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ   حضرت سید شاہ حسن  قدس سرہ کے اولادوں میں سے ہے ۔جیساکہ آپ نے اوپر (سلسلہ نسب)میں ملاحظہ کیا۔


جامع اشرف
خانقاہ  اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں سےہی ملا ہو اایک بہت بڑا ادارہ ہے  جس  کانام "جامع اشرف" ہے ۔ یہ اہلسنت وجماعت  کا عظیم ادارہ ہے۔  1978؁ عیسوی سے اسلامی تعلیمات کی نشرو اشاعت   میں بہترین کردارادا کرتا آرہا ہےاب تک ہزاروں علماء ، فضلاء، حفاظ وقراء     فارغ ہوکر ہند وبیرون ہند میں  اپنے خدمات میں دے رہے ہیں ۔اس ادارہ سے فارغ ہونے والے علماء اور فضلاء کو " جامعی" کہا جاتاہے۔

No comments:

Post a Comment