Karamaate Ala Hazrat Ashrafi Miyan Kichhauchhwi Qist No. 08

کرامات اولیاء اللہ
قال الاشرف: الکرامۃ ھی خارق العادۃ تصدر عن ھذہ الطائفۃ علے حسب المراد والغیر۔
غو ث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کرامت ایک امر خارق العادۃ ہے جو صوفیہ کرام سے ان کی مراد کے مطابق اوربغیر مراد کے ظہور میں آتا ہے۔                                             (ملفوظات سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ)
آپ رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ کرامات اولیاء کے اثبات میں دلائل کیا ہیں وہ کون سے دلائل ہیں جن سے کرامات ِ اولیاء ثابت ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ہمارے امام  سیدنا امام مستغفری رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے کہ کرامات اولیاء کا ثبوت کتاب حق میں موجود ہے اور صحیح روایات اور اجماع اہل سنت و جماعت سے بھی ثابت ہے کتاب الہی میں یہ ثبوت موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا  (سورۃ ال عمران)
ترجمہ: جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے (کنزالایمان)
مفسرین نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ باالاجماع وہ دیکھا جاتا تھا تو یہ آیت کرامات اولیاء کے منکر کے لئے حجت ہے۔ مزید آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کرامات کا ظہور اولیاء اللہ سے جائز ہے۔ عقلاً اور نقلاً دونوں اعتبار سے ۔ اس سلسلہ میں جواز عقلی تو یہ ہے کہ قدرت حق تعالیٰ میں کسی کو مجال و دخل  نہیں ہے اور یہ ممکنات میں سے ہیں۔ جس طرح انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور یہ اہل سنت و جماعت کے مشائخ عارفین وعلماء اصولین و فقہائےمحدثین کا مذہب ہے اور ان کی کتابیں اسے بارے میں ناطق ہیں شرق و غرب اورعرب و عجم میں اہل سنت و جماعت کے نزدیک پسندیدہ اور صحیح قول یہ ہے کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام کے لے معجزات سے جائز ہے اولیاء کرام کے لئے اس کے مثل کرامت سے جائز ہے لیکن عدم دعویٰ شرط ہے اور جوشخص یہ کہتا ہے کہ معجزہ اور کرامت میں فرق نہیں ہے وہ غلط کہتاہے اس لئے کہ ظہور معجزہ کے سلسلہ میں نبی پر یہ واجب ہے کہ وہ اس کا دعوی کرے اور کرامت میں ولی پر واجب ہے کہ اس کو پوشیدہ رکھے۔ البتہ ضرورت کے وقت اس کو ظاہر کر سکتا ہے یا ایسی حالت ہو جس پر ولی کو اختیارنہ ہویا اس کا اظہار محض اس لئے ہو کہ مریدوں کے اعتقاد کو ظہورکرامت سے تقویت حاصل ہو۔
مزید علم میں  اضافہ کے لئے بتادوں کہ غو ث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ ساتویں ہجری کے مجدداعظم تھے۔جیساکہ صحائف اشرفی میں ہے: بارہ سال کی عمر میں علوم معانی وبلاغت ومعقول ومنقول تفسیر وفقہ وحدیث و اصول جملہ علوم سے فازغ ہوئے ۔ دستار فضیلت سراقدس پر باندھی گئی ۔ فن حدیث میں حضرت محبوب یزدانی نے حضرت سیدنا امام عبداللہ یافعی  سے مکہ معظمہ میں سند حدیث حاصل کی  اور مقام اسکندریہ میں حضرت سیدنا نجم الدین کبریٰ  کے صاحبزادے سے سند حدیث حضرت کو ملی تھی اور حضرت بابا مفرح سے سند حدیث حاصل کی جن کو بابا فرح محدث سے سیدحدیث حاصل  ملی تھی اور حضرت سیدنا احمد حقانی  سے بھی حضرت کو سند حدیث حاصل ہوئی۔
حضرت مولانا عضدالدین شبانگاہ جو استاذ علماء زمانہ تھے اور ہر علوم میں کمال رکھتے تھے فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دین اسلام میں ہر شروع صدی میں ایک عالم میری امت میں پیدا ہوگا ۔ اس کے وجود سے رواج کا ردین اسلام ہوگا اور اہل جہاں کا استاد اور رہنما ہوگا۔
علماء سلف نے موافق اس حدیث کے  ، پہلے صدی ہجری میں حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  کو مجدد اول صدی کا جانا اور دوسری صدی میں حضرت سیدنا  اما م شافعی مطلبی رحمۃ اللہ علیہ اور تیسری صدی میں حضرت سیدنا مولانا ابوالعباس احمد بن شریح رحمۃ اللہ علیہ اور چوتھی صدی میں حضرت  سیدنا ابوبکر بن طیب باقلائی   رحمۃ اللہ علیہ اور پانچویں صدی میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ  اور چھٹی میں  حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی  محمد بن عمر الرازی رحمۃ اللہ علیہ اور ساتوں صدی میں حضرت قدوۃ الکبریٰ محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس اللہ روضہ تھے۔
( بحوالہ  صحائف اشرفی صفحہ 115)
اور تو اور آپ  کا شمار تابعین  میں بھی ہوتا ہے چنانچہ حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ   فرماتے ہیں:
غوثیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے حضرت سیدنا ابوالرضا حاجی رتن ابن ہندی رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ﷺ تھے ، کے دیدار و ملاقات کا شرف بھی حاصل فرمایا ۔ چنانچہ حضرت مخدوم سمنانی رضی اللہ عنہ ہی کا ارشاد ہے :"وقتی کہ ایں بملازمت حضرت ابوالرضا رتن رسید داز انواع لطائف ایشاں بہر مند شد ہ یک نسبت خرقہ ایں فقیر بحضرت رتن میر سد وادرابحضرت رسول اللہ ﷺ۔                               (بحوالہ لطائف اشرفی جلد 1 ص 378)
اس لحاظ سے آپ تابعی ہوئے اور اس امتیازی وصف نے حضرت مخدوم قدس سرہ کی ذات گرامی کو جملہ مشائخ کے درمیان منفرد اور بے مثال بنادیا ۔ حضرت حاجی رتن  رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو :
علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب " الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ " صفحہ 225 تا 232 اور اجمالی کے لئے ، اذکار ابرار صفحہ 26،27)
امام اہلسنت مجدددین وملت الحافظ القاری  المفتی الشاہ  امام احمد رضا خاں  فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے  راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ چراغ لے کے چلے

تیری  نسل  پاک میں  ہے  بچہ بچہ نور کا
            تو ہے  عین نور تیرا سب گھرانا   نور کا                                         
                                                                                                 (حدائق بخشش)
کشــــف و کرامــــــــات
 محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  علیہ الرحمہ کے باطنی کمالات کرامتوں کی طرح مشہور ہیں  حضور پرنور کی ذات منبع برکات و حسنات کرامتوں کا عطرمجموعہ تھی ، سب سے زیادہ  اس وقت حیرت ہوتی ہے جبکہ منطق و فلسفہ ، کلام و اصول کے سمندر کے غواص اور نہنگوں کو حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی کرامتیں بیان کرتے سناجاتا ہے ۔ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی بڑی کرامتوں میں ایک بڑی کرامت یہ بھی ہے کہ جن پر کرم کی نگاہ ڈالدی اور جس کو بھی صحبت کی برکت حاصل ہوگئی وہ مجموعہ خوبی اور کمالات ہوگیا۔

فاتحہ پڑھو فاتحہ پڑھو
اعلی حضرت اشرفی میاں دہلی میں گلی  قاسم جان میں اپنے خاندانی عزیز خانوادہ ء سرکار حسینی اشرفی کے رکن حکیم سید اشفاق احمد اشرفی جیلانی کے یہاں قیام فرما تھے ۔ ایک دن دسترخواں پر دوپہر کے وقت 25/30 آدمیوں کی موجودگی میں سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "فاتحہ پڑھو فاتحہ پڑھو" سب نے آپ کے ساتھ فاتحہ میں شرکت کی اس کے بعد فرمایا۔ "بمبئی میں میرا  ایک مرید کا انتقال ہوگیا ہے اور ابھی اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی ہے" سب لوگ خاموش ہوگئے ، شاید ایک ہی گھنٹہ  کے بعد ٹیلی گرام موصول ہوا اور مرید کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ۔

ایک پرچہ
مولانا محمد صادق صاحب اشرفی قصوری لکھتے ہیں کہ حاجی ابراہیم میمن مقیم کراچی جوناگڑھ تشریف لے گئے ریل میں سوار تھے، راستہ میں یہ تمنا ہوئی کہ سنا ہے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں بڑے پایہ کے بزرگ ہیں ، غوث الاعظم کے اولاد ہیں اور ہم شکل بھی ہیں ، تو کیوں نہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے مرید ہواجائے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں بہت ضعیف ہیں ، نہ معلوم میری یہ آرزو  پوری ہو یا نہ ہو، ریل تیز رفتار سے جارہی تھی ، کہ ایک پرچہ گود میں گرا اس کو کھول کر پڑھا تو لکھا تھا، کہ ابھی فقیر کی زندگی کے بارہ سال باقی ہیں ، اور تم جوناگڑھ اسٹیشن کے باہر آؤگے تو فقیر کا ہاتھی پر جلوس آرہا ہوگا اور تم کو فقیر اسٹیشن کے باہر ہی مرید کرے گا،  حاجی ابراہیم میمن کی خوشی کی انتہا نہیں رہی ، پرچہ کو چوما اور جیب میں رکھ لیا جب جوناگڑھ اسٹیشن سے باہر آئے تو دیکھا کہ ایک جم غفیر چلا آرہا ہے اور ہاتھی پر ایک حسن و جمال کے پیکر بزرگ تشریف فرما ہیں ۔ حاجی ابراہیم جیسے ہی جلوس کے  قریب  گئے تو آواز آئی۔
حاجی ابراہیم قریب آؤ چنانچہ سب نے جگہ دی اور حاجی ابراہیم ہاتھی کے قریب چلے گئے تو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنا رومال لٹکایا کہ پکڑلو ، جس  قدر لوگ قریب تھے سب نے بیعت کرلی۔

کتـــاب کا صفــحـہ
حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ  ایک مرتبہ مرادآباد جامعہ نعیمیہ میں اپنے فرزندروحانی اعلم علمائے عصر صدرالافاضل استاذالعلماء حافظ مولانا سید شاہ نعیم الدین اشرفی جلالی المخاطب بہ نعیم اللہ شاہ  علیہ الرحمہ کے یہاں تشریف فرماتھے۔ حضرت استاذالعلماء کسی مسئلہ میں ایک کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھے باربار اوراق الٹ پلٹ رہے تھے۔ اور دیر سے یہ معاملہ جاری تھا۔ حضور نے دریافت کیا فرزند کیا پیشانی ہے؟  استاذالعلماء نے عرض کیا حضور فلاں مسئلہ دیکھنا چاہتاہوں بہت ضروری ہے وہ نہیں مل رہا ہے۔ حضور نے فرمایا اس کتاب کا فلاں صفحہ فلاں سطردیکھو ۔ استاذالعلماء نے نشاندادہ صفحہ دیکھا مسئلہ مل گیا۔
استاذالعلماء نے عرض کیا :
"حضور ! اصل علم تو آپ کے پاس ہے" ۔                               (ماہنامہ آستانہ کراچی فروری 93)

اُدھر چـــــــل جا
عبدالرحمن صاحب اشرفی نے بیان کیا کہ ہم لوگ ہر سال حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی گیا رہویں شریف کی فاتحہ نہایت ہی  اہتمام سے کرتے تھے ، پوری تیاری کے بعد یکایک موسم بدل گیا آسمان کالے کالے بادلوں سے گھر گیا حضور بھی تشریف فرما تھے ، خدمت میں حاضر ہوکر استغاثہ کیا گیا حضورنے بادل کی طرف انگلی کے اشارے سے فرمایا۔
"ادھر چل جا"
بادل دیکھتے ہی پھٹا مطلع صاف ہوگیا، گیارہویں شریف کی نیاز حضور اولاد غوث الاعظم کے زیر سایہ خوب شان و شوکت سے ہوئی۔

ٹـــــــــرین سنگل پر رک گئی
اعلی حضرت اشرفی میاں برہان پور تشریف فرما ہوئے واپسی کے وقت اسٹیشن پر مغرب کی نماز ادافرما کر اور اد و ظائف میں مشغول ہوگئے ۔ ٹرین آئی  حاضرین خدام نے عرض کیا حضور ٹرین آگئی ، لیکن حضور نے توجہ نہ فرمائی اور ادمیں مشغولیت جاری رکھی ۔ جب خدام نے دیکھا کہ ٹرین روانہ ہورہی ہے تو سامان اتارلیا اور ٹرین روانہ ہوگئی خدام نے مشغولی کی بعد عرض کیا کہ حضورٹرین جا چکی ہے۔
حضور نے فرمایا:
"بغیر فقیر کو لئے کیسے جا سکتی ہے"
تھوڑی دور جاکر ٹرین سنگل پر رک گئی ، ڈرائیور نے کوشش کی لیکن ٹرین آگے نہیں بڑھی۔ اس کوشش میں ڈرائیور نے گاڑی پیچھے کی ، ٹرین چلنے لگی، اس طرح پلیٹ فارم پر آگئی ، پھر ٹرین نہ آگے بڑھتی تھی اور نہ آگے کی طرف جاتی تھی، سامان گاڑی میں رکھا گیا اور اعلیٰ حضرت تشریف فرما ہوئے ڈرائیور نے پھر آزمائش کی ،  ٹرین چل پڑی گارڈ انگریز تھا اس نے یہ واقعہ دیکھا تو بڑا متحیر ہوا، ہدایت اسلام تو اسکے نصیب میں نہ تھی ۔اسلئے  اسلام کی دولت سے محروم رہ گیا۔  

دیکھو تــــو سامنے
اعلی حضرت اشرفی میاں کی سیف زبانی مشہور تھی ایک خادم مرید رشید سے فرمایا کہ سوئی گری ہوئی ہے اس کو اٹھاؤ اس کو سوئی نظر نہیں آئی حضور نے فرمایا:
"کیا اندھا ہو گیا ہے کہ سوئی نطر نہیں آتی"
اتنا فرمانا تھا کہ اس کی بینائی غائب ہوگئی ، مرید نے عرض کیا ، حضور اب اندھا ہوگیا ہوں کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ایک مقرب نے باادب عرض کیا، حضور کی نگاہ کرم سے تو دل بھی بینا ہو جاتا ہے مگر حضور کے فرمانے سے یہ اندھا ہوگیا ، کرم کی نگاہ پھر سے ہو جائے حضور نے فرمایا:
"کون پیر چاہے گا کہ اس کا مرید اندھا ہوجائے"
پھر ارشاد فرمایا:
دیکھو تو سامنے کیا ہے ؟
اس کی آنکھ روشن تھی۔
بارش تھــــم گئی
جامع معقول و منقول استاذالعلماء حضرت مولانا محمد سلیمان صاحب اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ ہم لوگ کچھوچھہ مقدسہ میں پڑھتے تھے۔ برسات کا زمانہ تھا ، بارش رک رک کر ہورہی تھی ۔ جب بارش ہوتی ہم لوگ کمروں میں چلے جاتے اور جب تھم جاتی ، باہر نکل پڑتے جب کئی بار ایسا ہوا تو اعلی حضرت نے فرمایا،
جنم بھر برسے برسنا نہیں آیا"
اس کے بعد بارش موقوف ہوگئی۔

موت کی خبر
جناب محمد رفیق صاحب اشرفی مرادآبادی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ڈاکٹر عنایت نبی صاحب اور  انکے فرزندوں ڈاکٹر مشتاق بنی صاحب اور سید ارشاد علی صاحب نے بیان کیاکہ بمبئی میں ایک ہندورئیس تھا ، جس کے بس ایک ہی لڑکی تھی  اور وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی ، ممکن علاج سے فائدہ نہیں ہوتا تھا ، اعلیٰ حضرت اشرفی میاں  کا بمبئی کا سفر ہوا ، اس ہندو رئیس کو حضور کی تشریف آوری کی خبر ہوئی وہ دعا کرانے کے لئے حاضر خدمت ہوا اور دعاء کے لئے درخواست کی ، آپ  نے فرمایا کل دعاء کروں گا وہ مطمئن ہو کر گھر چلا گیا، مگر شام کو مرض نے شدت اختیار کی اور لڑکی مرگئی۔ اس کی بیوی رونے  پیٹنے لگی  ، ہندورئیس نے بیوی سے کہا، خاموش رہو، لڑکی کی موت کی خبر کسی کو نہ دینا ، بابا نے کل دعاء کے لئے فرمایا ہے ۔ تومیں دعاء کراؤں گا، صبح ہوئی وہ حاضر ہوا ۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اس کے گھر تشریف لے گئے پھر اس نے کہا ، حضور بچی کی صح کی دعاء فرمائیں،  حضور نے کچھ پڑھنا شروع فرمایا ، چند سکنڈوں میں لڑکی کے بدن میں حرکت پیدا ہوئی، رئیس نے عرض کیا ، بابا یہ تو مر گئی تھی ، میں نے آپ کو اطلاع نہیں دی ، آپ کی دعاء سے یہ زندہ ہوگئی ،   حضور نے ارشاد فرمایا:۔ 
"نہیں میاں وہ سکتے میں تھی"۔

بیٹا ہوگا ضرور
 علامہ اجل محدث شہیر مصنف کبیر حکیم الامت حضرت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی اشرفی قدس سرہ حضور اعلیٰ حضرت کے آخری زمانہ ظاہری میں جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ میں مفتی و شیخ الحدیث تھے ، ان کے مخصوص شاگرد قاضی عبد النبی کوکب نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک دن حضرت مفتی صاحب نے حضور اعلیٰ حضرت سے اولاد کے لئے درخواست کی ، ارشاد فرمایا ، بیٹا ہوگا ضرور ہوگا۔ ذوالفقار نام رکھنا "
چنانچہ صاحبزادہ کی ولادت ہوئی  اور  مفتی مختار خاں کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔

فقـیر کی دھمـــکی
حضرت مولانا الحاج سید شاہ ابوالفتح مجتبی اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت بمبئی میں اپنے ایک مرید کے مکان ہر تشریف فرما تھے اس کی دوکان نچلے منزل میں تھی ۔ دوران قیام اس مرید   کی دوکان ہر ایک درویش آیا اور دوکاندار سے باالجبر مانگنے لگا۔ دوکاندار نے کہا کہ نہیں دونگا ۔ فقیر نے کہا اگر نہیں دوگے تو تمہارے مکان میں آگ لگ جائے گی ۔ وہ گھبرا ہوا حضور کی خدمت میں آیا اور ماجرا بیان کیا۔ حضور نے فرمایا مت دو۔ دوکاندار کی ہمت ہوئی وہ کان پر فقیرموجود تھا ، پھر بولا جلد دو ورنہ آگ  لگادوں گا۔ پھر حضورکی خدمت میں حاضر ہوا اور فقیر کی ضد بیان کی ۔ فرمایا مت دو، پھر جب دوکان پر آیا ، فقیر بولا، اگر نہیں دیتے ہو تو بس آگ لگنے ہی والی ہے۔ دوکاندار دوڑا ہوا حاضر ہوا اور فقیر کی فقیرانہ شان کی بات عرض کی ۔ حضور اعلیٰ حضرت نے آنکھیں بند فرمائیں پھر فرمایا ، دیدو ، دیدو اور دیکھا کہ کونے میں آگ لگ رہی ہے دکاندار مرید نے عرض کیا حضور یہ کیا بات تھی کہ دوبار آپ نے فرمایا  مت دو۔ اور تیسری بار فرمایا دیدو۔ اس میں کیا راز ہے ، جواب میں فرمایا کہ ....................................
پہلی مرتبی میں نے دیکھا تو فقیر باالکل پھوٹا دھول تھا ، دوسری مرتبہ اس کے پیر کو دیکھا تو وہ بھی  ویسا ہی تھا لیکن تیسری مرتبہ اس کے پیر کے پیر کو دیکھا تو وہ کچھ تھا ۔ اس نے دعا کی کہ میرے مولیٰ مرید کے مرید کی عزت و لاج کی بات ہے ، گوکہ مریداس لائق نہیں ۔ لیکن میری دعاء قبول فرما، اور مرید کی لاج رکھ  غرض فقیر کے پیر کے پیر کے سبب میں نے تمہیں تیسری مرتبہ کہ دیا کہ اسے دے دو دے دو۔

No comments:

Post a Comment